https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 29 November 2021

کیاحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا وراثت کے مسئلہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض رہیں


امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں۔
حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس عليهما السلام أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما من رسول الله صلی الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدک وسهمهما من خيبر فقال لهما أبو بکر سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال قال أبو بکر والله لا أدع أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيه إلا صنعته قال فهجرته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان :
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا؟؟؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی۔

جواب:-

دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لیاگیا ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ حضرت  فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا؟؟تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ حضرت  فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نا ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔
جن احادیث میں یہ ذکر ہو اہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگونہیں کی. اس سے مرادیہ  ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہیں فرمائی. ملاقات ترک کرنے کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
{فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر{فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164
ترجمہ:-{فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ } فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔"
یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ حضرت  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں ذکر فرماتے ہیں۔
"امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھذا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا"{السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735
ترجمہ:-"جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے ؟؟تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں؟ پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔"
سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتباع میں ہی سمجھتے تھے۔

No comments:

Post a Comment