https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 17 January 2023

ایک دوطلاق رجعی کے بعد رجوع

اگر بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک یا دو طلاق دی تو ایسی طلاق کو ''طلاقِ رجعی'' کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا اور نکاح برقرار رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو ایک طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اس کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اور اگر دوطلاقیں صریح دیں تو آئندہ ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔ اور طلاقِ بائن کے ذریعے ایک یا دو طلاق دی ہو تو پھر عدت میں رجوع کا حق نہیں ہوگا، البتہ باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرکے دوبارہ ساتھ رہا جاسکتا ہے۔ اور اگر تین طلاقیں دے دیں تو پھر شوہر کے لیے رجوع کرنا اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا

Monday 16 January 2023

آن لائن نکاح

نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے؛ لہذا آن لائن نکاح کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فریقین (مرد و عورت) میں سے کوئی ایک فریق فون پر کسی ایسے آدمی کو اپنا وکیل بنادے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 14): "ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين. (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد". الفتاوى الهندية (1/ 269): "(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231): "ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 21): "(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين". الفتاوى الهندية (1/ 267): "ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع، ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية. ولاينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان."

Sunday 8 January 2023

مسبوق سجدۂ سہو میں امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے

مسبوق کو اگر یاد ہو کہ اس کے ذمہ کچھ رکعات باقی ہیں اس کے باوجود وہ سجدہ سہو سے پہلے والے سلام پر امام کے ساتھ سلام پھیر دے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، نئے سرے سے نماز ادا کرنا لازم ہوگا۔ لیکن اگر اس نے بھولے سے امام کے ساتھ سلام پھیر دیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سلام کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا؛ کیوں کہ مسبوق سجدہ سہو کے سلام کے وقت مقتدی ہے اور مقتدی کے سہو کی وجہ سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، البتہ اپنی بقیہ نماز پوری کرتے ہوئے کوئی سہو ہوجائے تو سجدہ سہو واجب ہوگا۔نیز مذکورہ صورت میں اگرمقتدی امام کی معیت میں سلام پھیرے تواس پر سجدہ سہو نہیں ہوگا، لیکن امام کے بعدپھیرے اگر چہ بھولے سے پھیرےتو اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا المسبوق إنما يتابع الإمام في السهو دون السلام بل ينتظر الإمام حتی يسلم فيسجد فيتابعه في سجود السهو لا في سلامه وإن سلم فإن کان عامدا تفسد صلاته وإن کان ساهيا لا تفسد ولا سهو عليه لأنه مقتد وسهو المقتدي باطل فإذا سجد الإمام للسهو يتابعه في السجود ويتابعه في التشهد ولا يسلم إذا سلم الإمام لأن السلام للخروج عن الصلاۃ وقد بقي عليه أرکان الصلاة علاؤ الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 1: 176، بيروت: دار الکتاب العربي ابن نجيم، البحر الرائق، 2: 108، بيروت: دار المعرفة

آٹاادھارلے کرلوٹانا

آٹا، چینی اور اس طرح کی دیگر اشیاء جن کی لین دین ناپ کر یا تول کر ہوتی ہے، جن کو اشیاء ربویہ بھی کہا جاتا ہے ان کی بیع ( خرید و فروخت ) میں تو یہ بات لازم ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو، ادھار نہ ہو، ورنہ سود لازم آئے گا اور اگر دونوں طرف سے جنس ایک ہو تو برابری ہونا بھی لازم ہے، البتہ قرض کے طور پر جو لین دین ہوتا ہے اس میں ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری نہیں ہے ، بلکہ اس میں ادھار جائز ہے۔ لہذا اگرایک گھر والے ضرورت پڑنے پر دوسرے گھر والوں سے آٹا، چینی وغیرہ بطور قرض لیتے ہوں اور بعد میں اتنی ہی مقدار لوٹا دیتے ہوں تو چوں کہ یہ قرض کا معاملہ ہے؛ اس لیے اس میں ادھار جائز ہے، یہ خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ہے، چنانچہ جس طرح رقم بطورِ قرض لے کر کچھ عرصے بعد واپس کرنا درست ہے، اسی طرح ان اشیاء کو بطورِ قرض لے کر کچھ مدت بعد لوٹانا درست ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اشیاء بسااوقات اتنی کم ہوتی ہیں کہ کیل اوروزن کے تحت نہیں آتیں، اس وجہ سے بھی پڑوس میں ان کا لین دین جائز ہے۔فقط واللہ اعلم فتاویٰ شامی میں ہے: '' فصل في القرض: (هو) لغةً: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعاً: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه، وهو أخصر من قوله: (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه، (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس، (مثلي) خرج القيمي، (لآخر ليرد مثله) خرج نحو: وديعة وهبة.(وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك ۔۔۔ (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً فصح استقراض جوز وبيض) وكاغد عدداً (ولحم) وزناً وخبز وزناً وعدداً كما سيجيء ۔۔۔ (قوله: في مثلي) كالمكيل والموزون والمعدود المتقارب كالجوز والبيض''. (کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیۃ، فصل فی القرض، ج:۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۷ ،ط:سعید) فتاویٰ عالمگیری میں ہے: '' ويجوز القرض فيما هو من ذوات الأمثال كالمكيل والموزون، والعددي المتقارب كالبيض، ولا يجوز فيما ليس من ذوات الأمثال كالحيوان والثياب، والعدديات المتفاوتة''۔(کتاب البیوع، الباب التاسع عشر فی القرض و الاستقراض، ج: ۳ ؍ ۲۰۱ ، ۲۰۲ ،ط: رشیدیة

رباالفضل, رباالنسیۃ

ربوا کی دو قسم ہیں(1)ربا النسیہ (2) ربا الفضل ربا النسیہ کی مثال(1) کوئی شخص کسی کو کسی میعاد پر قرض دے اور اس پر کچھ ماہواری رقم مقرر کرلے، پھر جب میعاد پر وہ روپیہ مدیون سے ادا نہ ہو تو قرض خواہ کا اصل میں کچھ اور بڑھا کر مہلت دینا (2)اور کبھی سود کو اصل میں جمع کرکے پھر اس پر سود لگادینا۔ دوسری قسم ربا الفضل یہ ہے کہ گیہوں یا جو یا کوئی ایسی چیز جو قدر اور جنس میں برابر ہوں، ان کو ان کے بدلے میں کمی بیشی یا ادھارکے ساتھ بیچنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلائل: القرآن الکریم: (آل عمران، الآیۃ: 130) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo الدر المختار: (172/5، ط: دار الفکر) (وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر)المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء (وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي موسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (172/22، ط:دار السلاسل) ربا الفضل.۔۔۔وعرفه الحنفية بأنه فضل خال عن عوض بمعيار شرعي مشروط لأحد المتعاقدين في المعاوضة. ٢ - ربا النسيئة. . . وهو: فضل الحلول على الأجل، وفضل العين على الدين في المكيلين أو الموزونين عند اختلاف الجنس، أو في غير المكيلين أو الموزونين عند اتحاد الجنس

Saturday 7 January 2023

ہم جنس اشیاء کاتبادلہ

واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : "عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعیر بالشعیر، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلًا بمثل سواءً بسواء یدًا بید ․․․ الخ“ (مشکوٰة ص:244) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ چیزوں کا ذکر فرمایا، سونا، چاندی، گیہوں، جَو، کھجور، نمک، اور فرمایا کہ: جب سونا، سونے کے بدلے، چاندی، چاندی کے بدلے، گیہوں، گیہوں کے بدلے، جَو، جَو کے بدلے، کھجور، کھجور کے بدلے، نمک، نمک کے بدلے فروخت کیا جائے تو برابر ہونا چاہیے اور ایک ہاتھ لے دُوسرے ہاتھ دے، کمی سود ہے۔ (مسندِ احمد ج:۲ ص:۲۳۲) مذکورہ حدیث ’’ربا‘‘ (سود) کے بیان میں اصولی حدیث ہے، جمہور فقہاءِ امت نے ان چھ چیزوں کو صرف علامتی تعبیر قرار دیا اور ان سے علت دریافت کی ہے کہ جہاں وہ علت پائی جائے گی وہاں سود کا حکم بھی لاگو ہوگا۔ البتہ سود کی علت کے بارے میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں، احناف رحمہم اللہ نے اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے سود کی دو علتیں نکالی ہیں: ایک "جنس" اور دوسری "قدر"، مثلًا دو ایسی چیزیں جن کی اصل الگ الگ ہو (جیسے گندم اور جَو)، یا ان کا مقصود الگ الگ ہو (جیسے گندم کا دانا اور اس کا آٹا) وہ الگ جنس شمار ہوں گی، اور ’’قدر‘‘ سے مراد مخصوص شرعی پیمانہ (کیل یا وزن) ہے جس سے اشیاء کو ناپا یا تولا جاتا ہو، اور شرعًا کم ازکم جو پیمانہ معتبر ہے وہ نصف صاع (تقریبًا پونے دو کلو) ہے، جیسا کہ صدقہ فطر ، تو اب جنس اورقدر کا حاصل یہ ہوا کہ ربا کی علت "الكیل مع الجنس" ہے، یعنی وہ دونوں چیزیں کیلی بھی ہوں (یعنی ناپ کر بیچی جاتی ہوں) اور ان کی جنس بھی ایک ہو۔ اب ایک جنس یا ایک قدر والی اشیاء کی باہم خرید و فروخت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں: 1- دو ایسی چیزیں جن کی جنس ایک ہو اور وہ قدر (کیلی ہونے یا وزنی ہونے ) میں بھی متحد ہوں تو خرید وفروخت میں ان کا برابر ہونا اور دونوں جانب سے نقد ہونا ضروری ہے، یعنی جس مجلس میں خرید وفروخت ہو اسی میں جانبین سے قبضہ بھی پایا جائے، ( یداً بیدٍکا یہی مطلب ہے)۔ مذکورہ صورت میں (یعنی جنس اور قدر ایک ہونے کی صورت میں) اگر کوئی چیز ایک جانب سے زیادہ ہو اور دوسری جانب سے کم ہو تو یہ سود ہے، اسے اصطلاح میں "ربو الفضل"یا "ربو التفاضل" کہا جاتا ہے، یعنی کمی زیادتی کی وجہ سے سود ہے۔ اسی طرح جنس اور قدر ایک ہونے کی صورت میں اگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہو تو یہ بھی سود ہے، اسے اصطلاح میں "ربو النسیئة" کہتے ہیں، یعنی ادھار ہونے کی وجہ سے سود ہے۔ 2- اگر دونوں کی جنس ایک ہو، لیکن قدر (کیلی ہونے یا وزنی ہونے میں) الگ الگ ہو، یا جنس الگ الگ ہو لیکن قدر ایک ہو تو انہیں کمی بیشی کے ساتھ تو خرید فروخت کیا جاسکتا ہے، لیکن ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار جائز نہیں ہے، یعنی اس صورت میں کمی بیشی جائز ہے، اور اُدھار حرام ہے۔ 3- اگر جنس اور قدر دونوں مختلف ہوں تو کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار بھی جائز ہے۔ مذکورہ اشیاء کا بطورِ قرض لین دین جائز ہے، البتہ واپسی کے وقت وہ چیز اتنی ہی لوٹانا ضروری ہوگی، خواہ واپسی میں مقررہ وقت سے تاخیر ہوجائے۔ گھروں میں خورد و نوش کی اشیاء (مثلاً: آٹا، دودھ و غیرہ) کی جو باہم لین دین کی جاتی ہے، وہ یا تو بہت کم مقدار میں ہوتی ہیں (یعنی نصف صاع/ پونے دو کلو سے بھی کم ہوتی ہیں جو كيل كے شرعي پيمانے پر نه اترنے كي بنا پر اس حكم سے مستثني هے) اور اگر مقدار میں زیادہ ہوں تو بھی ان کا لین دین عقدِ معاوضہ (خرید و فروخت) کے طور پر نہیں، بلکہ قرض کے طور پر ہوتا ہے اور گھی،آٹا،چینی وغیرہ کا قرضہ جائز ہے، چناں چہ واپسی کے وقت وہ اشیاء اتنی ہی لوٹانا واجب ہوگا، یعنی جتنے برتن بھر کر وصول کرے واپسی میں اسی طرح کے اتنے برتن بھر کر ادا کردے۔ مذکورہ بالا تفصیل کے بعد واضح رہے کہ ہم جنس اشیاء کا نصف صاع سے کم میں كمي زیادتی کے ساتھ لین دین جائز ہے ۔ چنانچہ فتاوٰی ہندیہ میں ہے : "و يجوز بيع الحفنة بالحفنتين والتفاحة بالتفاحتين، وما دون نصف صاع في حكم الحفنة." ( الفتاوى العالمكيرية: كتاب البيوع ، الباب التاسع، الفصل السادس في تفسير الربا وأحكامه، (3/117)، ط: رشیدیه، كوئٹه)

Wednesday 4 January 2023

انصاف

جب عدلیہ حکومت وقت سے خائف ہو, انصاف فراہم کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے یامنصف اس بینچ سے اپنے آپ کوہٹانے کی درخواست کرے جوحکومت وقت کی شکایت سن رہی ہوتوسمجھ لیناچاہئے کہ اب انصاف صرف کتابوں میں ہے اسے عوام تک پہنچانے کیلئے ایک عظیم انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ بڑے چھوٹے امیر وغریب گدا وفقیر عوام وزیر, سب عدالت کی نظرمیں مساوی ہوجائیں اور سب کوانصاف ملے عدلیہ نہ حکومت سے خائف ہو اورناہی وزارت سے .

Saturday 31 December 2022

ایک ساتھ تین طلاق دینے سے طلاق ہوتی ہے کہ نہیں

فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر کوئی شخص صریح الفاظ کے ساتھ اپنی بیوی کو طلاق دے تو اس سے بہرحال طلاق واقع ہوجاتی ہے، خواہ نیت طلاق کی کی جائے یا نہ کی جائے اور جتنی کلمہٴ طلاق کو دہرائے گا اتنی طلاق واقع ہوگی، ہے۔ قال اللہ تبارک وتعالی: فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ (البقرة: ۳۲) وفي الفتاوی الہندیہ: وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة․․․لم تحلّ لہ حتی تنکح زوجًا غیرہ نکاحًا صحیحًا ویدخل بہا ثم یطلقہا أو یموت عنہا (ہندیة: ۱/ ۴۷۳، ط: زکریا)

سال نوکی مبارکباددینا

سال کے آغازکے موقع پرمبارک باد دینے کاشریعت میں ثبوت نہیں، البتہ عبادت یا ضروری سمجھے بغیر اگر کوئی مبارک باد دے اور خیر و برکت کی دعاکرے تو حرج نہیں۔ البتہ نئے اسلامی سال کے شروع میں درج ذیل دعا پڑھنا بعض روایات سے ثابت ہے، لہٰذا ہر مہینہ کا چاند دیکھ کر اور قمری سال کے آغاز میں یہ دعا پڑھنا چاہیے: اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ . ترجمہ: اےاللہ اس چاند کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمن کی رضامندی اور شیطان کےبچاؤ کے ساتھ داخل فرما۔ ,المعجم الاوسط ج ,6,221طبرانی

Saturday 24 December 2022

A lesson to the judiciary

The court's three-judge bench observed that the Marine Corps could never really explain why it can't provide similar religious accommodations that other military branches such as the US Army, Navy, Air Force and Coast Guard already provide. "If the need to develop unit cohesion during recruit training can accommodate some external indicia of individuality, then whatever line is drawn cannot turn on whether those indicia are prevalent in society or instead reflect the faith practice of a minority," read the decision written by the court. Notably, the US Army, Air Force, Navy and Coast Guard accommodate the religious requirements of the Sikh recruits. The court was hearing the case pertaining to three Sikh men named Aekash Singh, Jaskirat Singh and Milaap Singh Chahal who passed tests to enlist in the US Marine last year. However, since then, the three have been forced to fight the lawsuits as the Marines argue that recruits need to be stripped of their 'individuality'. The Marines also argue that the rules are necessary to maintain uniformity for national interest. Read more: Sikh-American airman allowed by US Air Force to keep turban, beard on active duty The court, in response, said US Marines is part of Navy and that officers train at the Naval Academy. The Academy accommodates beards and wearing of the religious articles. It added that even the US Marines allowed men with specific skin conditions to not shave and that women recruits maintained hairstyles. After the ruling, Eric Baxter, representing the plaintiffs took to Twitter and said, "Today's ruling is a major victory for these Sikh recruits, who can now begin basic training without having to forfeit their religious beliefs."

Friday 23 December 2022

تعلق مع اللہ

اللہ کی محبت کا یہ مقام کیسے حاصل ہو کہ ھمارے دلوں میں اللہ کی محبت اشد ہوجائے اگر اشد نہ ہوئی تو ہم اللہ تعالی کے پورے فرمانبردار نہیں ہوسکتے کیوں؟ اس لیے کہ جب ھم کو اپنا دل زیادہ پیارا ہوگا تو جہاں ھمارے دل کو تکلیف ہوگی ھم اللہ کے قانون کو توڑیں گے مثلاً اگر گناہ کا ارادہ تھااور ھم سے گناہ سرزد ہوگیا تو اللہ ناراض ہوا کہ نہیں مطلب کہ دل ذیادہ عزیز ہے خدا کی محبت نہیں اور اگر خدا کی محبت اشد ہوگی توگناہ کے اسباب ہونے کے باوجود ھم گناہ یہ سوچ کر نہیں کریں گے کہ مولا ناراض ہوگا معلوم ہوا اللہ کی محبت دل کی محبت سے ذیادہ ہونی چاھیےمولانا رومی فرماتے ہیں سلطان محمود نے اپنے 65 وزیروں کو بلایا اور کہا کہ شاھی خزانے کا نایاب موتی توڑ دو ۔ لیکن ہر وزیر نے کہا کے حضور یہ خزانے کا نایاب موتی ہے اس کی شاھی خزانے میں کوئی مثال نہیں میں اس کو نہیں توڑوں گا یہاں تک کہ ان سب وزیروں نے معذرت کرلی آخر میں شاہ محمود نے ایاز کو بلایا اسے دراصل وزیروں کو ایاز کا مقام عشق دکھلانا تھا ۔ یہ دکھلانا تھا کہ ایاز میرا سچا عاشق ہے باقی سب وزراء مصنوعی محبت کے دعویدار اور تنخواہی ہیں اس نے کہا ایازتم اس موتی کو توڑ دو ایاز نے فوراً پھتر لیااور موتی کو توڑ دیا .پورے ایوان شاھی میں شور مچ گیاسب نے کہا ارے ایاز بڑا بےباک اورناشکراہے. شاہ محمود نے کہا ایاز تم نے قیمتی موتی کیوں توڑا ان وزراء کو جواب دو ایاز نے جواب دیا۔ اے معزز لوگو! آپ نے موتی کو قیمتی سمجھ کر نہیں توڑا لیکن شاھی حکم کو توڑدیامیں آپ سے پوچھتاہوں کہ شاھی حکم زیادہ قیمتی تھا یہ موتی؟؟؟؟؟؟ ایک اور واقعہ اسی طرح آتا ہے محمودغزنوی نے سب وزیروں کو کہا جو چیز تمہیں پسند ہے لے لو ب نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں لے لی لیکن ایاز نے کچھ نہ لیا بلکہ کہا میں بس آپ کا ساتھ چاھتا ہوں جب آُپ ساتھ ہوں گے تو سب چیزیں خود ہی مل جائیں گی ۔ تو شاھی حکم کے واقعہ سےمولانا رومی یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ اسی طرح ہمارے دل اگر ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹ جائیں لیکن اللہ کا فرمان نہ ٹوٹے دل کی وہ خواھشات جن سے اللہ راضی نہیں مثل بیش بہا موتی کے خواہ کتنی ہی قیمتی ہوں انکو توڑ دو لیکن حکم الیٰ کو نہ توڑو...

اللہ بے کس کی پکارسنتاہے

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زبدانی لے جایا کرتا تھا اور اسی کرایہ پرمیری گذر بسر تھی . ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر کرائے پر لیا میں نے اسے سوار کیا اور لے چلا ایک جگہ دو راستے تھے ، جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ سے چلو، میں نے کہا میں اس راہ سے ناواقف ہوں . سیدھی راہ تو یہی ہے ، اس نے کہا نہیں ، میں پوری طرح واقف ہوں . یہ بہت نزدیک کا راستہ ہے اس کے کہنے سے اسی راہ چلا. تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ہم یکایک بیابان میں آگئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا. نہایت خطرناک جنگل ہے اور ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں میں سہم گیا. وہ مجھ سے کہنے لگا : ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے. میں نے لگام تھام لی اور وہ اترا اور اپنے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا . میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑ لیا. میں نے اس کی منت و سماجت کی لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا. میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے. اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں توتجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا. میں نے اسے اﷲ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا. اب میں مایوس ہوگیا، اور مرنے کیلئے تیار ہوگیا اور اس سے بامنت التجا کی کہ آپ مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دیجئے. اس نے کہا: اچھا جلدی پڑھ لے میں نے نماز شروع کی لیکن اﷲ کی قسم ! میری زبان سے قرآن مجید کا ایک حرف بھی نہیں نکلتا تھا یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا ہوا تھا اور وہ جلدی مچا رہاتھا. اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی '' امن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء '' (( اﷲ ہی ہے جو بے قرار کی بے قراری کے وقت دعا کو سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے اور بے بسی ، بے کسی ، سختی اور مصیبت کو دور کردیتا ہے). پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھاجو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھوڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہا ہے اور بغیر کچھ کہے ڈاکوکے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھسیڑ دیاجو اس کے جگر کے آرپار ہوگیا . وہ اسی وقت بے جان ہو کر گر پڑا. سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہنے لگا :'' اﷲ کیلئے یہ تو بتلاؤ کہ تم کون ہو ؟'' اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں ، بے کسوں اور بے بسوں کی دعا قبول فرماتا ہے . اور مصیبت و آفت کو ٹال دیتا ہے. میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور وہاں سے اپنا خچر اور مال لے کر صحیح سالم واپس لوٹا. لہ دعوة الحق اسی کو پکارنا حق ہے اس کے سوا نہ کوئی پکار سن سکتا اور نہ مصیبتوں اور پریشانیوں کو دور کرسکتا ہے . (تفسیرابن کثیر ، جلد4) ( ''صحیح اسلامی واقعات ''، صفحہ نمبر 154-152)

Thursday 22 December 2022

کرسی پر نماز اور اس کاطریقہ

جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابلِ برداشت درد کا غالب گمان ہو تو ان صورتوں میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اسی طرح جو شخص فرض نماز میں مکمل قیام پر تو قادر نہیں، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر کرسکتا ہے توایسے شخص کے لیے اُتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، اگر چہ کسی چیز کا سہارا لے کر کھڑا ہونا پڑے، اس کے بعد بقیہ نماز زمین پر بیٹھ کر پڑھنا چاہیے۔ اور اگر زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہیں تو ایسی صورت میں شروع ہی سے زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ اور اس صورت میں اس کی نماز اشاروں والی ہوتی ہے، اور اس کے لیے بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت متعین نہیں ہے، وہ جس طرح سہولت ہو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھ سکتا ہے، چاہے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے یا کرسی پر بیٹھ کر، البتہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے، لہذا جو لوگ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں تو زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کریں، اور اگر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے میں مشقت ہوتو وہ کرسی پر بیٹھ کر فرض نمازیں، وتر اور سنن سب پڑھ سکتے ہیں۔ اشارہ سے نماز پڑھنے والے بیٹھنے کی حالت میں معمول کے مطابق ہاتھ باندھیں، اور سجدہ میں رکوع کی بنسبت ذرا زیادہ جھکیں، تشہد بھی معمول کے مطابق کریں، اور اگر زمین پر بیٹھنے کی صورت میں تشہد میں دو زانو ہو کر بیٹھنا مشکل ہوتو جس طرح سہولت ہو مثلاً چار زانو (آلتی پالتی مار کر)، یا پاؤں پھیلا کر جس طرح سہولت ہو بیٹھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ جو شخص زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے قیام پر قدرت ہونے کے باوجود قیام فرض نہیں ہے، لہٰذا ایسا شخص کرسی پر یا زمین پر نماز ادا کر رہاہو تو اس کے لیے دونوں صورتیں جائز ہیں: قیام کی حالت میں قیام کرے اور بقیہ نماز بیٹھ کر ادا کرے یا مکمل نماز بیٹھ کر بغیر قیام کے ادا کرے، البتہ دوسری صورت یعنی مکمل نماز بیٹھ کر ادا کرنا ایسے شخص کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ فقط و ان تعذرا، لیس تعذُّرَھما شرطاً بل تعذر السجود کافٍ، لا القیام أومأ قاعدًا؛ لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی السجود فلا یجب دونہ (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۵۶۷) فتاویٰ عالمگیری: