https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 28 January 2023

محرم نامحرم

عورت کے حق میں ہروہ مرد جس سے زندگی بھر کبھی نکاح نہ ہوسکے وہ اُس (عورت) کا محرمِ شرعی ہے اور جس سے کبھی بھی نکاح ہوسکتا ہو وہ نامحرم ہے.محرم سے پردہ نہیں ہے ان سے عورت پردہ نہیں ہے وہ یہ ہیں : (1) شوہر (2) باپ (3) چچا (4) ماموں (5) سسر (6) بیٹا (7) پوتا (8) نواسہ (9) شوہر کا بیٹا (10) داماد (11) بھائی (12) بھتیجا (13) بھانجا نامحرم رشتہ دار یعنی وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض ہے، وہ درج ذیل ہیں : (1) خالہ زاد (2) ماموں زاد (3) چچا زاد (4) پھوپھی زاد (5) دیور (6) جیٹھ (7) بہنوئی (8)نندوئی (9) خالو (10) پھوپھا (11) شوہر کا چچا (12) شوہر کا ماموں (13)شوہر کا خالو (14) شوہر کا پھوپھا (15) شوہر کا بھتیجا (16) شوہر کا بھانجا ۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ [ سورة النور،31] فقط

Monday 23 January 2023

نسبندی کاشرعی حکم

خاندانی منصوبہ بندی کی دو صورتیں ہیں: 1۔۔ قطعِ نسل: یعنی کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جس سے دائمی طو رپر قوتِ تولید یا پیدائشِ اولاد کی صلاحیت ہی ختم ہوجائے جیسا کہ عورت اپنی نس بندی کرالے یا مرد خصی بن جائے، ایسا کرنا شرعاً بالکلیہ ناجائز اور حرام ہے، کسی مسلمان کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں؛کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنا پایا جاتا ہے جو کہ درست نہیں، حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے: صحيح البخاري (6/ 53): "حدثنا عمرو بن عون، حدثنا خالد، عن إسماعيل، عن قيس، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: " كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء، فقلنا: ألا نختصي؟ فنهانا عن ذلك، فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب " ثم قرأ: {يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم} [المائدة: 87]" یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں، چناں چہ ہم (یعنی بعض صحابہ) نے عرض کیا: کیا ہم خصی نہ ہوجائیں؟ تو آپ ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرمایا، اور اس کے بعد ہمیں رخصت دے دی کہ ایک جوڑے کپڑے (مہر) کے بدلے ہم نکاح کرلیں، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اے ایمان والو! حرام نہ کرو وہ پاکیزہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔ اس بارے میں علامہ عینی رحمہ اللہ(اس حدیث کی شرح میں جس میں آپ ﷺ نے خصی ہونے [یعنی: اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے ]سے منع فرمایا) ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’ اس حدیث سے خصی ہونے کی حرمت کا پتاچلتا ہے، اور یہ حرمت اس وجہ سے ہے کہ اس فعل میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تغییر و تبدیلی کرنا اور نسلِ انسانی کو ختم کرنا اور کسی جاندار کو عذاب دینا پایا جاتا ہے۔‘‘ "قال العلام العینی تحت قول :’’ نھانا عن ذالك‘‘، یعني : عن الاختصاء، وفیه تحریم الاختصاء لما فیه من تغییر خلق اللہ تعالیٰ، ولما فیه من قطع النسل و تعذیب الحیوان" (عمدۃ القاري، کتاب التفسیر، باب قوله تعالیٰ:’’یا أیھا الذین اٰمنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم‘‘،18؍280، دار الکتب العلمیة) نيز رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ میری امت میں سے نہیں، جيساكه كتاب الزہد لابن المبارک میں ہے: " لیس منا مَن خصی ولا اختصیٰ، إن خصاء أمتي الصیام " (کتاب الزہد لابن المبارک،باب التواضع،رقم الحدیث:845،ص:336،دارالکتب العلمیہ) اسی طرح ایسا ذریعہ اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے جس سے توالد و تناسل کا سلسلہ طویل عرصے کے لیے بند ہوجائے، مثلًا: کوپرٹی وغیرہ لگوانا۔ ملحوظ رہے کہ کوپرٹی لگوانے میں بے پردگی وغیرہ مفاسد بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔ 2۔۔ منع حمل: یعنی کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے عارضی طور پر حمل نہ ٹھہرے، کسی عذر کے بغیر ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے، البتہ اگر میاں بیوی کو کوئی عذر لاحق ہو مثلاً غیر مسلم ملک میں بچہ پیدا ہونے سے بچے کے اخلاق بگڑنے کا خوف ہو یا دونوں دور دراز کے سفر پر ہوں اور حمل مشکلات کا سبب بن سکتا ہو یا حمل کی وجہ سے پہلے بچے کو دودھ پلانا متاثر ہورہا ہو، ( کیوں کہ دوسرے بچے کے حمل سے دودھ متاثر ہوجاتا ہے ) یا عورت کی صحت یا بچوں کی تربیت پیش نظر ہو وغیرہ تو اس طرح کے اعذار کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے، پھر اس میں کوئی کراہت نہیں۔ البتہ کسی غرضِ فاسد کی وجہ سے مانع حمل طریقہ اختیار کرنا مثلاً رزق کی تنگی کے خوف سے کہ اگر زیادہ اولاد ہوئی تو ان کو کہاں سے کھلائیں گے؟ ان کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟ یا اس وہم سے منصوبہ بندی کرنا کہ بچی پیدا ہو ئی تو ناک کٹ جائے گی اور خاندان یا معاشرے میں عار کا باعث ہو گی، یا جیسے بعض لوگ شادی کے بعد اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اولاد کم ہو؛ تاکہ ان کی آزاد زندگی میں مخل نہ ہو، یہ سب شریعت سے متصادم خیالات ہیں۔ اگر ایسی کسی وجہ سے مانعِ حمل طریقہ اختیار کیا جارہا ہے تو اس کی گنجائش نہیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: "تزوجوا الودود الولود فانی مکاثر بکم الأمم." ’’ ترجمه: ایسی عورتوں سے شادی کرو جو زیادہ محبت کرنے والی ہو، زیادہ بچے جننے والی ہو؛کیوں کہ (کل بروزقیامت) میں دیگر امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت کے سبب فخر کروں گا۔‘‘(مشکوۃ ۲/۲۷۶ ) البتہ اگر یہ نظریہ نہ ہو، بلکہ کسی ایسے عذر کی وجہ سے جس کا شریعت نے بھی اعتبار کیا ہو ، منع حمل کے لیے عارضی طور پر مختلف تدابیر اختیار کرنا (مثلًا کنڈ وم یا مانعِ حمل دوائیں استعمال کرنا) جائز ہے، مثلاً: کوئی عورت بہت زیادہ کمزور ہو اور ماہر تجربہ کار مسلمان طبیب کی تشخیص کے مطابق اس عورت کو حمل ٹھہر جانے کی صورت میں ناقابلِ برداشت تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، یا پیدا ہونے والے بچے کے نہایت کمزور یا ناقص پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ، یا اس سے پہلے والا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو، یا (اس بار کے حمل سے) پہلے بچے کی تربیت و پرورش اور دودھ پلانے پر اثر پڑتا ہو تو کسی فاسد عقیدے کے بغیر ، بیوی کی اجازت اور رضامندی سے عزل یا عارضی مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں بصورتِ دیگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ لیکن مستقل اور دائمی مانع حمل تدابیر مثلًا بچہ دانی نکال دینا ، نس بندی کروا لینا یا مرد کا آپریشن کر کے اس کی شرم گاہ کو ہمیشہ کے لیے بے کار بنا دینا جائز نہیں، بلکہ یہ سخت گناہ اور حرام ہے۔ نيز حمل ٹھہر جانے کے بعد چار مہینے پورے ہونے سے پہلے کسی عذر شرعی کی وجہ سے (مثلاً: حمل کی وجہ سے عورت کا دودھ خشک ہو جانا اور کسی اور ذریعہ سے بچے کی پرورش کا بندوبست نہ ہونا یا کسی ماہر اور دیندار معالج کا معائنہ کے بعد یہ کہنا کہ اگر حمل باقی رہا تو عورت کی جان کو خطرہ ہے) حمل گرانے کی گنجائش ہے، لیکن بغیر کسی عذر شرعی کے جائز نہیں ہے۔ اور اگر حمل میں جان پڑ چکی ہو (یعنی حمل ٹھہرے ہوئے چار ماہ کا عرصہ گذر چکا ہو )تو اس وقت اسقاطِ حمل کرنا قتلِ نفس ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، چاہے ڈاکٹر یوں کہیں کہ بچہ معذور ہو گا ،یا نہایت کمزور ہو گا ،یا عجیب الخلقت ہو گا وغیرہ وغیرہ یا ان کے کہے بغیر اسقاط کیا جائے، بہرصورت حرام ہے۔ مندرجہ بالا تفصيل سے پوری طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مانع حمل کوئی بھی طریقہ عذر کی بنا پر عارضی طور پر اختیار کرنا جائز ہے، البتہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر مستقل بنیاد پر آپریشن کرکے بچہ دانی نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے اور اسے ایک اجتماعی مسئلہ یا تحریک بنا لینا درست نہیں، بلکہ یہ شرعی مزاج کے مخالف ہے۔ اس کے بالمقابل حصول ِاولاد کی اہمیت بھی پوری طرح سامنے آچکی ہے کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے اور یہ نعمت جس مقدار میں اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں ، اس کا حصول موجبِ سعادت ہے، اجتماعی طور پر اولاد کے خلاف تحریک یا خاندانی منصوبہ بندی اختیار کرنا مغربی سازش اور دجل ہے، جس سے مسلمانوں کو پرہیز کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں ہے: "{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا } (31)}" [الإسراء: 31] ترجمہ:” اور اپنی اولاد کو ناداری کے اندیشے سے قتل مت کرو (کیوں کہ) ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی بے شک ان کا قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے“۔ (بیان القرآن) "{ وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ (8) بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (9)}" [التكوير: 8، 9] ترجمہ: ”اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی تھی“۔ (بیان القرآن ) حدیث شریف میں ہے: "عن سعد بن أبي وقاص ؓ يقول: رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل، ولو أذن له لاختصينا" (صحیح البخاری (۷۵۹/۲) وفيه أيضًا: "باب قول الله تعالى: {ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم}[النساء: 93] حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عمرو بن شرحبيل، قال: قال عبد الله: قال رجل: يا رسول الله، أي الذنب أكبر عند الله؟ قال: «أن تدعو لله ندا وهو خلقك» قال: ثم أي؟ قال: «ثم أن تقتل ولدك خشية أن يطعم معك» قال: ثم أي؟ قال: «ثم أن تزاني بحليلة جارك» فأنزل الله عز وجل تصديقها: {والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما} [الفرقان: 68] الآية" (صحيح البخاري (9/ 2) "ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺسے عرض کیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حال آں کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے، اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی،اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: (ترجمہ)’’رحمن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو بھی دوسرے معبود کو شریک نہیں کرتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘ صحيح مسلم (2/ 1067): "حدثنا عبيد الله بن سعيد، ومحمد بن أبي عمر، قالا: حدثنا المقرئ، حدثنا سعيد بن أبي أيوب، حدثني أبو الأسود، عن عروة، عن عائشة، عن جدامة بنت وهب، أخت عكاشة، قالت: حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم، في أناس وهو يقول: «لقد هممت أن أنهى عن الغيلة، فنظرت في الروم وفارس، فإذا هم يغيلون أولادهم، فلا يضر أولادهم ذلك شيئا»، ثم سألوه عن العزل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ذلك الوأد الخفي»، زاد عبيد الله في حديثه: عن المقرئ، وهي: {وإذا الموءودة سئلت}." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 175) : "(والإذن في العزل) وهو الإنزال خارج الفرج (لمولى الأمة لا لها) لأن الولد حقه، وهو يفيد التقييد بالبالغة وكذا الحرة نهر. (ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة نهر بحثا (بإذنها) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال: فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها، وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة، فإن ظهر بها حبل حل نفيه إن لم يعد قبل بول. [مطلب في حكم العزل] (قوله: و الإذن في العزل) أي عزل زوج الأمة.(قوله: وهو الإنزال خارج الفرج) أي بعد النزع منه لا مطلقا فقد قال في المصباح: فائدة المجامع إن أمنى في الفرج الذي ابتدأ الجماع فيه قيل أمناه وألقى ماءه، وإن لم ينزل فإن كان لإعياء وفتور قيل أكسل وأقحط وفهر؛ وإن نزع وأمنى خارج الفرج قيل عزل وإن أولج في فرج آخر فأمنى فيه قيل فهر فهرا من باب منع ونهي عن ذلك. وإن أمنى قبل أن يجامع فهو الزملق بضم الزاي وفتح الميم المشددة وكسر اللام (قوله: لمولى الأمة) ولو مدبرة أو أم ولد، وهذا هو ظاهر الرواية عن الثلاثة لأن حقها في الوطء قد تأدى بالجماع. وأما سفح الماء ففائدته الولد والحق فيه للمولى فاعتبر إذنه في إسقاطه فإذا أذن فلا كراهة في العزل عند عامة العلماء وهو الصحيح؛ وبذلك تضافرت الأخبار. وفي الفتح: وفي بعض أجوبة المشايخ الكراهة، وفي بعض عدمها نهر، وعنهما أن الإذن لها. وفي القهستاني أن للسيد العزل عن أمته بلا خلاف وكذا لزوج الحرة بإذنها وهل للأب أو الجد الإذن في أمة الصغير؟ في حاشية أبي السعود عن شرح الحموي نعم قال ط: وفيه أنه لا مصلحة للصبي فيه لأنه لو جاء ولد يكون رقيقا له إلا أن يقال أنه متوهم. اهـ. وفيه أنه لو لم يعتبر التوهم هنا لما توقف على إذن المولى تأمل. (قوله: و هو) أي التعليل المذكور يفيد التقييد: أي تقييد احتياجه إلى الإذن بالبالغة وكذا الحرة بتقييد احتياجه بالبالغة، إذ غير البالغة لا ولد لها قال الرحمتي: وكالبالغة المراهقة إذ يمكن بلوغها وحبلها اهـ ومفاد التعليل أيضا أن زوج الأم لو شرط حرية الأولاد لا يتوقف العزل على إذن المولى كما بحثه السيد أبو السعود. (قوله: نهر بحثا) أصله لصاحب البحر حيث قال وأما المكاتبة فينبغي أن يكون الإذن إليها لأن الولد لم يكن للمولى ولم أره صريحا. اهـ. وفيه أن للمولى حقا أيضا باحتمال عجزها وردها إلى الرق فينبغي توقفه على إذن المولى أيضا رعاية للحقين رحمتي (قوله: لكن في الخانية) عبارتها على ما في البحر: ذكر في الكتاب أنه لا يباح بغير إذنها وقالوا في زماننا يباح لسوء الزمان. اهـ. (قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح وبه جزم القهستاني أيضا حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان فافهم. "مطلب في حكم إسقاط الحمل" (قوله وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح. [تنبيه] أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء مخالفا لما بحثه في البحر من أنه ينبغي أن يكون حراما بغير إذن الزوج قياسا على عزله بغير إذنها. قلت: لكن في البزازية أن له منع امرأته عن العزل. اهـ. نعم النظر إلى فساد الزمان يفيد الجواز من الجانبين. فما في البحر مبني على ما هو أصل المذهب، وما في النهر على ما قاله المشايخ والله الموفق." الفتاوى الهندية (5/ 356): "رجل عزل عن امرأته بغير إذنها لما يخاف من الولد السوء في هذا الزمان فظاهر جواب الكتاب أن لا يسعه وذكر هنا يسعه لسوء هذا الزمان كذا في الكبرى. وله منع امرأته من العزل كذا في الوجيز للكردري. وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان. العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا في جواهر الأخلاطي. وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية. ولا يجوز للمرضعة دفع لبنها للتداوي إن أضر بالصبي كذا في القنية. امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يومًا: أربعون نطفةً و أربعون علقةً و أربعون مضغةً، كذا في خزانة المفتين، و هكذا في فتاوى قاضي خان."

Sunday 22 January 2023

ماربل اورٹائلس پرتیمم

ماربل چوں کہ زمین کی جنس میں سے ہے؛ لہذا اس پر تیمم کرنا درست ہے ، بشرطیکہ ماربل پر پلاسٹک یاکانچ وغیرہ کی تہہ یا کوئی ایسی چیز نہ لگائی گئی ہوجوزمین کی جنس میں سے نہ ہو،آج کل ماربل پر جو پالش کی جاتی ہے اگر اس پر ہلکا سابھی غبار ہو تو اس پر تیمم کرنا درست ہے۔اور اگر پالش کی تہہ ایسی ہے کہ اس میں کوئی کیمیکل ہو جس میں غیر زمینی اجزاء شامل ہوں تو اس ماربل پر تیمم کرناجائز نہیں ہے۔ فتاوی شامی کی مذکورہ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی علیحدہ چیز کی تہہ پتھر پر لگائی جائے اور اگر وہ تہہ بھی زمین کی جنس میں سے ہو خواہ کسی بھی رنگ کی ہو تو اس صورت میں بھی تیمم جائز ہوگا۔ عمدة القاري شرح صحيح البخاري (4/ 10) : "وَ يجوز عندنَا بِالتُّرَابِ و الرمل وَ الْحجر الأملس المغسول و الجص و النورة و الزرنيخ و الكحل و الكبريت و التوتيا و الطين الْأَحْمَر وَ الْأسود و الأبيض و الحائط المطين و المجصص و الياقوت و الزبرجد و الزمرد و البلخش و الفيروزج و المرجان وَ الْأَرْض الندية و الطين الرطب." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 240) : "(قوله: غير مدهونة) أو مدهونة بصبغ هو من جنس الأرض كما يستفاد من البحر كالمدهونة بالطفل والمغرة ط."

Saturday 21 January 2023

من شعرعبدالرزاق عبدالواحد

لا تطرُق ِالبابَ.. تَدري أنَّهُم رَحَلوا خُذ ِالمَفاتيحَ وافتحْ، أيُّها الرَّجلُ ! أدري سَتذهَبُ..تَستَقصي نَوافِذَهُم كما دأبتَ، وتسعى حَيثُما دَخلوا تُراقِبُ الزَّاد..هَل نامُوا وَما أكلوا؟ وَتطُفيءُ النُّورَ..لو..لو مَرَّة ًفعَلوا وفيكَ ألفُ ابتهال ٍلو نَسوهُ لكي بهم عيونُكَ قبلَ النَّوم ِتَكتَحِلُ! لا تطرُق ِالبابَ..كانوا حينَ تَطرُقها لا يَنزلونَ إليها .. كنتَ تَنفعلُ وَيَضحَكون.. وقد تَقسو فتَشتمُهُم وأنتَ في السِّرِّ مَشبوبُ الهَوى، جَذِلُ! حتى إذا فتَحوها، والتقَـيتَ بِهم كادَتْ عيونكَ، فرْط َالحُبِّ، تَنهَمِلُ!

رثاء صدام حسين لعبد الرزاق عبد الواحد

لَستُ أرثيكَ.. لا يَجوزُ الرِّثاءُ كيفَ يُرثى الجَلالُ والكِبرياءُ؟ لَستُ أرثيكَ يا كبيرَ المَعالي ھكذا وَقْفَة المَعالي تَشاءُ ھكذا تَصعَدُ البُطولَة لِلَّه وَفيھا مِن مَجْدهِ لألاءُ ھكذا في مَدارِهِ يَستَقِرُّ النَجْمُ تَرتَجُّ حَولَه الأرجاءُ وھوَ يَعلو..تَبقى المَحاجِرُ غَرقى في سَناهُ وَكُلُّھا أنْداءُ لَستُ أرثيك..كيفَ يُرثى جنوحُ الروح لِلخُلْدِ وَھيَ ضَوءٌ وَماءُ لا اختِلاجٌ بِھا، وَلا كَدَرٌ فيھا رَؤومٌ.. نَقيَّة.. عَصماءُ ضَخْمَة..فَرْط كِبْرِھا وَتُقاھا يستَوي المَوتُ عندَھا والبَقاءُ كنتُ أرنُو إليكَ يومَ التَّجَلِّي كنتَ شَمسا تُحيطُھا ظَلماءُ أسَدا كنتَ طَوَقَت قُرودا وأميرا حَفَّتْ بِه دَھماءُ وَھوَ كالفَجرِ مُسْفِرُ الوَجه، صَلْتٌ بَينَما الكُلُّ أوجُه سَوداءُ ھكذا وَقفَة المَعالي تَشاءُ كيفَ أبكيكَ؟.. لآ يَليقُ البُكاءُ أفَتُبْكى وأنتَ نَجم تَلالا؟ كيفَ يُبكى إذا استَقامَ الضِّياءُ؟ أفَتُبْكى وأنت تَشھَقُ رَمزا حَدَّ أنْ أشفَقَتْ عَلَيكَ السَّماءُ فَرْط ما كُنتَ تَدفَعُ الموتَ لِلأرض وَتَرقى..يَفيضُ منكَ البَھاءُ؟ لَستُ أبكي عَليكَ يا ألَقَ الدُّنيا أتُبكى في مَجدِھا العَلياءُ؟ أنا أبكي العراق.. أبكي بِلادي كيفَ في لَحظَة طَواھا الوَباءُ؟ كيفَ في لَحظَة يُطأطِىءُ ذاكَ المَجدُ ھاماتِه، وَيَھوي الإباءُ؟ بَينَ يَوم وَلَيلَة يا بِلادي يَتَداعى لِلأرض ذاكَ البِناءُ؟ بَينَ يَوم وَلَيلَةٍ تَتَلاشَى فيكِ تِلكَ الوجوهُ والأسماءُ؟ كلُّ ذاكَ التَّاريخ..بابلُ..آشورُ أريدو.. وأور.. والوَركاءُ كُلُّھا بَينَ لَيلَةٍ وَضُحاھا وَطِئَتْ فَوقَ ھامِھا الأعداءُ؟ .. وَإذنْ أيُّ حُرمَة لِلَّذي يأتي؟ وَماذا أبقى لَدَينا الفَناءُ؟ ذِمَّة؟؟.. أيُّ ذِمَّة يا بِلادي بَقيَتْ فيكِ لم تَطأھا الدِّماءُ؟ أيُّ نَفس ما أزھِقَتْ؟..أيُّ عِرض لَم يَلِغ في عَفافِھ الأدنياءُ؟ أيُّ نَكراءَ لَم تُمارَسْ إلى أنْ نَسيَ النَّاسُ أنَّھا نَكراءُ؟ ھكذا؟.. بَعدَ كُلِّ ذاكَ التَّعالي؟ بَعدَ عَينَيكَ..ھكذا النَّاسُ ساءُوا؟ أم ھيَ الحِكمَة العَظيمَة شاءَتْ بِلادي أنْ يَحتَويھا البَلاءُ لِيَرى أھلُھا إلى أيِّ ذلٍّ بَعدَ ذاكَ الزَّھْو العَظيم أفاءُوا؟ لِيَرَوا كَيفَ لَحمُھُم يَتَعاوَى حَولَ الأقرِباءُ والغُرَباءُ فَإذا الأبعَدون مَحْضَ أكُفٍّ والسَّكاكينُ كُلُّھا أقرِباءُ أيُّھا الھائِلُ الذي كانَ سَدَّا في وجوه الغُزاة مِن حَيثُ جاءُوا كانَ مَحْضُ اسمِه إذا ذكَرُوهُ تَتَعَرَّى مِن زَيْفِھا الأشياءُ وَيَكادُ المُريبُ، لَولا التَّوَقِّي وَيَكادُ المُنيبُ، لَولا الرَّجاءُ كُنتَ رَمزا لِفارِس عَرَبيٍّ حَلَمَتْ عُمرَھا بِھ الأبناءُ كُلُّ بَيتٍ مِن العُروبَةِ فيه مِنكَ سِتْرٌ، وَشَمعَة، وَغِطاءُ فَتَلاقَتْ عَلَيهِ أبوابُ أھلي لا وِقاءا.. فَأينَ منھا الوِقاءُ؟ أغلَقُوھا عَلَيكَ دَھرا وَلَمَّا فَتَحُوھا اقشَعَرَّ حتى الھَواءُ سالَ غابٌ مِن الدَّبى والثَّعابين لِبغداد ضاقَ عنھ الفَضاءُ لم تَدَعْ شاخِصا على الأرض إلاَ لدَغَتْه، حتى الصُّوى الصَّمَّاءُ ثمَّ ھِيضَتْ بِنا مَلاسِعُھا السُّودُ بِما ھاجَ حِقدَھا الأجَراءُ كُلُّ دار في عُقْرِھا الآنَ أفعى كُلُّ طِفل في مَھدِهِ عَقرَباءُ وانزَوى أھلُنا كأنْ لم يَرَوھا أھلُنا طولَ عُمرھِم أبرياءُ ھكذاھكذا المُروءاتُ تَقضي ھكذا ھكذا يَكونُ الوَفاءُ أنْ تَعَضَّ اليَدَ التي دَفَعَتْ عَنكَ فَفي قَطْعِھا يَزولُ الحَياءُ وَغَدا حين تَلتَقي أعيُنُ النَاس فَكَفٌّ كأختِھا بَتراءُ لا..وحاشا العراق..لَستَ عِراقا لَو تَمادى عَلَيكَ ھذا الوَباءُ لَستَ أرضَ الثوّار لو ظلَّ فينا فَضْلُ عِرق لم تَجْر منھُ الدِماءُ أنَّه مَرَّ بالتُرابِ ولَم يَسمَعْ وَقَد ضَجَّ في التُّرابِ النِّداءُ فَسَلامٌ عليكِ أرضَ الشَّھادات تَتالى في أرضِكِ الشُّھَداءُ وَسَلامٌ عَلَيكَ يا آخِرَ الرّاياتِ ما نالَ مِن سَناكَ العَفاءُ؟ لا، وحاشاكَ..أنتَ سَيفٌ سَيَبقى وَلَه، وَھوَ في الخلودِ، مَضاءُ ھَيْبة وَھوَ مُغمَدٌ، فإذا ما سُلَّ يَجري مِن شَفرَتَيه الضِياءُ ھكذا أنتَ غائِبا.. فإذا ما قِيلَ مَيْتا، فَلْتَخْجَل الأحياءُ رُبَّ مَوتٍ عِدْلَ الحياةِ جَميعا ھكذا جَدُّكَ الحُسَينُ يُراءُ لا تُرَعْ سَيِّدي، وَحاشاكَ، أنتَ الجَبَلُ ال لا تَھُزُّه الأنواءُ نَحنُ نَبقى بَنيكَ.. مازالَ فينا مِنكَ ذاكَ الشُّموخُ والكِبرياءُ لَم يَزَلْ في عِراقِنا منكَ زَھْوٌ تَتَّقيه الزَّعازِعُ النَّكباءُ فيه قَومٌ لَو أطبَقَ الكَونُ لَيْلا أوقَدُوا كَوكَبَ الدِّماءِ وَضاءُوا أنتَ أدرى بِھِم فَھُم مِنكَ عَزمٌ وإباءٌ، وَنَخْوَة شَمَّاءُ وَدِماھُم..لَو أطفِئَتْ غُرَّة الشَّمس قَناديلُ ما لَھُنَّ انطِفاءُ جَرَيانَ النَّھرَين تَجري لِتَسقي فَلْتَسَلْ زَھْوَ أرضِھا كَربَلاءُ لا تُرَعْ سَيِّدي، وَنَمْ ھاديءَ البال قَريرَ العيون.. فالأنباءُ سَوفَ تَأتيكَ ذاتَ يَوم بِأنَّ الأرضَ دارَتْ، وَضَجَّ فيھا الضِّياءُ

Thursday 19 January 2023

سیاسی لفظ کا صحیح مفہوم

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں، ایک عربی واقعہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی طلب لئےحاضر ہوا، قابلیت پوچھی گئی، کہا: سیاسی ہوں۔۔۔۔۔عربی میں سیاسی: افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی، اسے خاص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج بنا دیا چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا کہا: نسلی نہیں ہے بادشاہ کو تعجب ہوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا اس نے بتایا: گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ہے سیاسی کو بلایا گیا، تم کو کیسے پتا چلا؟ کہا: جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے کھاتا ہے، جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ہے بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا، سیاسی کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا، چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی کہا: طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن شہزادی نہیں ہے بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، ساس کو بلا بیجھا، معاملہ اس کے گوش گذار کیا، ساس نے کہا: حقیقت یہ ہے تمہارے باپ نے میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ہماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ہوگئی تھی، چنانچہ ہم نے بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم رکھنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا۔ بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا: تم کو کیسے علم ہوا؟ کہا اس کا خادموں کے ساتھ سلوک جاہلوں سے بدتر ہے۔ بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ہوا اور بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام دیں۔ ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا. کچھ وقت گزرا، مصاحب کو بلایا، اپنے بارے دریافت کیا مصاحب نے کہا: جان کی امان! بادشاہ نے وعدہ کیا مصاحب نے کہا: نہ تو تم بادشاہ زادے ہو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ہے بادشاہ کو تاؤ آگیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا سیدھا والدہ کے محل پہنچا۔۔۔والدہ نے کہا: یہ سچ ہے۔۔۔۔تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا! بادشاہ نے مصاحب سے پوچھا: تمہیں کیسے علم ہوا؟ اس نے کہا: بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ھیں تو ہیرے موتی، جواہرات کی شکل میں دیتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں عنایت کرتے ہیں ۔۔۔۔ یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں؛ کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہو سکتا ہے عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔ عادات، اخلاق اور طرز عمل: خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ہیں

Wednesday 18 January 2023

دعاء لم یثبت بحدیث صحیح

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد: فقد روى ابن ماجه في سننه عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثهم أن عبدا من عباد الله قال: يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك فعضلت بالملكين فلم يدريا كيف يكتبانها فصعدا إلى السماء وقالا يا ربنا إن عبدك قد قال مقالة لا ندري كيف نكتبها، قال الله عز وجل وهو أعلم بما قال عبده: ماذا قال عبدي قالا: يا رب إنه قال: يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك وعظيم سلطانك، فقال الله عز وجل لهما: اكتباها كما قال عبدي حتى يلقاني فأجزيه بها إلا أن هذا الحديث لا يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقد قال البوصيري في مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه : هذا إسناد فيه مقال، قدامة بن إبراهيم ذكره ابن حبان في الثقات وصدقه بن بشير لم أر من جرحه ولا من وثقه وباقي رجال الإسناد ثقات. وأورده الألباني في ضعيف سنن ابن ماجه وقال: ضعيف ويبقى أن هذه الصيغة من صيغ الحمد والثناء على الله عز وجل الجائزة لأن معناها صحيح، وقد ورد عن السلف أنهم حمدوا الله وأثنوا عليه عز وجل بألفاظ لم ترد في الكتاب والسنة إلا أن معانيها صحيحة كحمدهم الله تعالى في بدايات تصانيفهم.

Tuesday 17 January 2023

ایک دوطلاق رجعی کے بعد رجوع

اگر بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک یا دو طلاق دی تو ایسی طلاق کو ''طلاقِ رجعی'' کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا اور نکاح برقرار رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو ایک طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اس کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اور اگر دوطلاقیں صریح دیں تو آئندہ ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔ اور طلاقِ بائن کے ذریعے ایک یا دو طلاق دی ہو تو پھر عدت میں رجوع کا حق نہیں ہوگا، البتہ باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرکے دوبارہ ساتھ رہا جاسکتا ہے۔ اور اگر تین طلاقیں دے دیں تو پھر شوہر کے لیے رجوع کرنا اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا

Monday 16 January 2023

آن لائن نکاح

نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے؛ لہذا آن لائن نکاح کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فریقین (مرد و عورت) میں سے کوئی ایک فریق فون پر کسی ایسے آدمی کو اپنا وکیل بنادے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 14): "ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين. (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد". الفتاوى الهندية (1/ 269): "(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231): "ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 21): "(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين". الفتاوى الهندية (1/ 267): "ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع، ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية. ولاينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان."

Sunday 8 January 2023

مسبوق سجدۂ سہو میں امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے

مسبوق کو اگر یاد ہو کہ اس کے ذمہ کچھ رکعات باقی ہیں اس کے باوجود وہ سجدہ سہو سے پہلے والے سلام پر امام کے ساتھ سلام پھیر دے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، نئے سرے سے نماز ادا کرنا لازم ہوگا۔ لیکن اگر اس نے بھولے سے امام کے ساتھ سلام پھیر دیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سلام کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا؛ کیوں کہ مسبوق سجدہ سہو کے سلام کے وقت مقتدی ہے اور مقتدی کے سہو کی وجہ سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، البتہ اپنی بقیہ نماز پوری کرتے ہوئے کوئی سہو ہوجائے تو سجدہ سہو واجب ہوگا۔نیز مذکورہ صورت میں اگرمقتدی امام کی معیت میں سلام پھیرے تواس پر سجدہ سہو نہیں ہوگا، لیکن امام کے بعدپھیرے اگر چہ بھولے سے پھیرےتو اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا المسبوق إنما يتابع الإمام في السهو دون السلام بل ينتظر الإمام حتی يسلم فيسجد فيتابعه في سجود السهو لا في سلامه وإن سلم فإن کان عامدا تفسد صلاته وإن کان ساهيا لا تفسد ولا سهو عليه لأنه مقتد وسهو المقتدي باطل فإذا سجد الإمام للسهو يتابعه في السجود ويتابعه في التشهد ولا يسلم إذا سلم الإمام لأن السلام للخروج عن الصلاۃ وقد بقي عليه أرکان الصلاة علاؤ الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 1: 176، بيروت: دار الکتاب العربي ابن نجيم، البحر الرائق، 2: 108، بيروت: دار المعرفة

آٹاادھارلے کرلوٹانا

آٹا، چینی اور اس طرح کی دیگر اشیاء جن کی لین دین ناپ کر یا تول کر ہوتی ہے، جن کو اشیاء ربویہ بھی کہا جاتا ہے ان کی بیع ( خرید و فروخت ) میں تو یہ بات لازم ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو، ادھار نہ ہو، ورنہ سود لازم آئے گا اور اگر دونوں طرف سے جنس ایک ہو تو برابری ہونا بھی لازم ہے، البتہ قرض کے طور پر جو لین دین ہوتا ہے اس میں ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری نہیں ہے ، بلکہ اس میں ادھار جائز ہے۔ لہذا اگرایک گھر والے ضرورت پڑنے پر دوسرے گھر والوں سے آٹا، چینی وغیرہ بطور قرض لیتے ہوں اور بعد میں اتنی ہی مقدار لوٹا دیتے ہوں تو چوں کہ یہ قرض کا معاملہ ہے؛ اس لیے اس میں ادھار جائز ہے، یہ خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ہے، چنانچہ جس طرح رقم بطورِ قرض لے کر کچھ عرصے بعد واپس کرنا درست ہے، اسی طرح ان اشیاء کو بطورِ قرض لے کر کچھ مدت بعد لوٹانا درست ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اشیاء بسااوقات اتنی کم ہوتی ہیں کہ کیل اوروزن کے تحت نہیں آتیں، اس وجہ سے بھی پڑوس میں ان کا لین دین جائز ہے۔فقط واللہ اعلم فتاویٰ شامی میں ہے: '' فصل في القرض: (هو) لغةً: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعاً: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه، وهو أخصر من قوله: (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه، (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس، (مثلي) خرج القيمي، (لآخر ليرد مثله) خرج نحو: وديعة وهبة.(وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك ۔۔۔ (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً فصح استقراض جوز وبيض) وكاغد عدداً (ولحم) وزناً وخبز وزناً وعدداً كما سيجيء ۔۔۔ (قوله: في مثلي) كالمكيل والموزون والمعدود المتقارب كالجوز والبيض''. (کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیۃ، فصل فی القرض، ج:۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۷ ،ط:سعید) فتاویٰ عالمگیری میں ہے: '' ويجوز القرض فيما هو من ذوات الأمثال كالمكيل والموزون، والعددي المتقارب كالبيض، ولا يجوز فيما ليس من ذوات الأمثال كالحيوان والثياب، والعدديات المتفاوتة''۔(کتاب البیوع، الباب التاسع عشر فی القرض و الاستقراض، ج: ۳ ؍ ۲۰۱ ، ۲۰۲ ،ط: رشیدیة

رباالفضل, رباالنسیۃ

ربوا کی دو قسم ہیں(1)ربا النسیہ (2) ربا الفضل ربا النسیہ کی مثال(1) کوئی شخص کسی کو کسی میعاد پر قرض دے اور اس پر کچھ ماہواری رقم مقرر کرلے، پھر جب میعاد پر وہ روپیہ مدیون سے ادا نہ ہو تو قرض خواہ کا اصل میں کچھ اور بڑھا کر مہلت دینا (2)اور کبھی سود کو اصل میں جمع کرکے پھر اس پر سود لگادینا۔ دوسری قسم ربا الفضل یہ ہے کہ گیہوں یا جو یا کوئی ایسی چیز جو قدر اور جنس میں برابر ہوں، ان کو ان کے بدلے میں کمی بیشی یا ادھارکے ساتھ بیچنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلائل: القرآن الکریم: (آل عمران، الآیۃ: 130) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo الدر المختار: (172/5، ط: دار الفکر) (وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر)المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء (وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي موسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (172/22، ط:دار السلاسل) ربا الفضل.۔۔۔وعرفه الحنفية بأنه فضل خال عن عوض بمعيار شرعي مشروط لأحد المتعاقدين في المعاوضة. ٢ - ربا النسيئة. . . وهو: فضل الحلول على الأجل، وفضل العين على الدين في المكيلين أو الموزونين عند اختلاف الجنس، أو في غير المكيلين أو الموزونين عند اتحاد الجنس

Saturday 7 January 2023

ہم جنس اشیاء کاتبادلہ

واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : "عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعیر بالشعیر، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلًا بمثل سواءً بسواء یدًا بید ․․․ الخ“ (مشکوٰة ص:244) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ چیزوں کا ذکر فرمایا، سونا، چاندی، گیہوں، جَو، کھجور، نمک، اور فرمایا کہ: جب سونا، سونے کے بدلے، چاندی، چاندی کے بدلے، گیہوں، گیہوں کے بدلے، جَو، جَو کے بدلے، کھجور، کھجور کے بدلے، نمک، نمک کے بدلے فروخت کیا جائے تو برابر ہونا چاہیے اور ایک ہاتھ لے دُوسرے ہاتھ دے، کمی سود ہے۔ (مسندِ احمد ج:۲ ص:۲۳۲) مذکورہ حدیث ’’ربا‘‘ (سود) کے بیان میں اصولی حدیث ہے، جمہور فقہاءِ امت نے ان چھ چیزوں کو صرف علامتی تعبیر قرار دیا اور ان سے علت دریافت کی ہے کہ جہاں وہ علت پائی جائے گی وہاں سود کا حکم بھی لاگو ہوگا۔ البتہ سود کی علت کے بارے میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں، احناف رحمہم اللہ نے اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے سود کی دو علتیں نکالی ہیں: ایک "جنس" اور دوسری "قدر"، مثلًا دو ایسی چیزیں جن کی اصل الگ الگ ہو (جیسے گندم اور جَو)، یا ان کا مقصود الگ الگ ہو (جیسے گندم کا دانا اور اس کا آٹا) وہ الگ جنس شمار ہوں گی، اور ’’قدر‘‘ سے مراد مخصوص شرعی پیمانہ (کیل یا وزن) ہے جس سے اشیاء کو ناپا یا تولا جاتا ہو، اور شرعًا کم ازکم جو پیمانہ معتبر ہے وہ نصف صاع (تقریبًا پونے دو کلو) ہے، جیسا کہ صدقہ فطر ، تو اب جنس اورقدر کا حاصل یہ ہوا کہ ربا کی علت "الكیل مع الجنس" ہے، یعنی وہ دونوں چیزیں کیلی بھی ہوں (یعنی ناپ کر بیچی جاتی ہوں) اور ان کی جنس بھی ایک ہو۔ اب ایک جنس یا ایک قدر والی اشیاء کی باہم خرید و فروخت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں: 1- دو ایسی چیزیں جن کی جنس ایک ہو اور وہ قدر (کیلی ہونے یا وزنی ہونے ) میں بھی متحد ہوں تو خرید وفروخت میں ان کا برابر ہونا اور دونوں جانب سے نقد ہونا ضروری ہے، یعنی جس مجلس میں خرید وفروخت ہو اسی میں جانبین سے قبضہ بھی پایا جائے، ( یداً بیدٍکا یہی مطلب ہے)۔ مذکورہ صورت میں (یعنی جنس اور قدر ایک ہونے کی صورت میں) اگر کوئی چیز ایک جانب سے زیادہ ہو اور دوسری جانب سے کم ہو تو یہ سود ہے، اسے اصطلاح میں "ربو الفضل"یا "ربو التفاضل" کہا جاتا ہے، یعنی کمی زیادتی کی وجہ سے سود ہے۔ اسی طرح جنس اور قدر ایک ہونے کی صورت میں اگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہو تو یہ بھی سود ہے، اسے اصطلاح میں "ربو النسیئة" کہتے ہیں، یعنی ادھار ہونے کی وجہ سے سود ہے۔ 2- اگر دونوں کی جنس ایک ہو، لیکن قدر (کیلی ہونے یا وزنی ہونے میں) الگ الگ ہو، یا جنس الگ الگ ہو لیکن قدر ایک ہو تو انہیں کمی بیشی کے ساتھ تو خرید فروخت کیا جاسکتا ہے، لیکن ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار جائز نہیں ہے، یعنی اس صورت میں کمی بیشی جائز ہے، اور اُدھار حرام ہے۔ 3- اگر جنس اور قدر دونوں مختلف ہوں تو کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار بھی جائز ہے۔ مذکورہ اشیاء کا بطورِ قرض لین دین جائز ہے، البتہ واپسی کے وقت وہ چیز اتنی ہی لوٹانا ضروری ہوگی، خواہ واپسی میں مقررہ وقت سے تاخیر ہوجائے۔ گھروں میں خورد و نوش کی اشیاء (مثلاً: آٹا، دودھ و غیرہ) کی جو باہم لین دین کی جاتی ہے، وہ یا تو بہت کم مقدار میں ہوتی ہیں (یعنی نصف صاع/ پونے دو کلو سے بھی کم ہوتی ہیں جو كيل كے شرعي پيمانے پر نه اترنے كي بنا پر اس حكم سے مستثني هے) اور اگر مقدار میں زیادہ ہوں تو بھی ان کا لین دین عقدِ معاوضہ (خرید و فروخت) کے طور پر نہیں، بلکہ قرض کے طور پر ہوتا ہے اور گھی،آٹا،چینی وغیرہ کا قرضہ جائز ہے، چناں چہ واپسی کے وقت وہ اشیاء اتنی ہی لوٹانا واجب ہوگا، یعنی جتنے برتن بھر کر وصول کرے واپسی میں اسی طرح کے اتنے برتن بھر کر ادا کردے۔ مذکورہ بالا تفصیل کے بعد واضح رہے کہ ہم جنس اشیاء کا نصف صاع سے کم میں كمي زیادتی کے ساتھ لین دین جائز ہے ۔ چنانچہ فتاوٰی ہندیہ میں ہے : "و يجوز بيع الحفنة بالحفنتين والتفاحة بالتفاحتين، وما دون نصف صاع في حكم الحفنة." ( الفتاوى العالمكيرية: كتاب البيوع ، الباب التاسع، الفصل السادس في تفسير الربا وأحكامه، (3/117)، ط: رشیدیه، كوئٹه)