https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 17 July 2024

زمین پر عشر ہے یانصف عشر

 ہر وہ زمین  جس کو ایسے پانی سے سیراب کیا جائے  جس میں خرچہ آتا ہو  (مثلاً ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعے) اس میں  نصفِ عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ (%5) دینا واجب ہے، اور اگر خرچہ نہ آتا ہو تو اس میں عشر (دسواں حصہ یعنی ٪10) دینا ضروری ہے۔

باقی پیداوار  پر جو دیگر اخراجات آتے ہیں  ان میں یہ تفصیل ہے:

        وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لے کر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں  یعنی وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں، مثلاً زمین کو ہم وار کرنے، ٹریکٹر چلانے، مزدور کی اجرت وغیرہ  یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جائیں گے، بلکہ عشر  یا نصفِ عشر  اخراجات نکالنے سے پہلے  پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔

   لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر پانی ٹیوب ویل یا کسی اور طریقہ سے دیا جاتا ہو جس پر خرچہ آتا ہو تو ایسی  زمین میں نصف عشر (بیسواں حصہ) لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب في (مسقي سماء) أي مطر (وسيح) كنهر (بلا شرط نصاب) راجع للكل (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول".

(2/ 326، باب العشر، ط؛ سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة وفي كتب الشافعية أو سقاه بماء اشتراه وقواعدنا لاتأباه، ولو سقى سيحاً وبآلة اعتبر الغالب، ولواستويا فنصفه".

(جلد۲، ص: ۳۲۸، ط: سعید)

مزیدتفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاوی ملاحظہ فرمائیں:

لپٹس کے پودوں کی پیداوار پر عشر

 زمین کی اس پیداوار میں عشر  واجب ہوتا ہے جس سے آمدنی حاصل کرنا   یا  پیداوار سے فائدہ اٹھانا مقصود ہے، اور اسی نیت سے اس کو لگایا جائے، اور جو اشیاء خود ہی بغیر قصد کے تبعاً حاصل ہوجائیں ان میں عشر لازم نہیں ہوتا۔ لہٰذا  زرعی زمین میں خود رو درخت  جو بغیر قصد کے تبعاً حاصل ہوئے ہیں ان میں عشر لازم نہیں ہوگا۔ تاہم اگر ان درختوں کو بیچ کر نفع کمایا اور دیگر قابلِ زکاۃ اموال کے ساتھ مل کر وہ رقم زکاۃ کے نصاب کے بقدر پہنچ گئی تو زکاۃ کی شرائط کے مطابق سال پورا ہونے پر مذکورہ رقم پر زکاۃ واجب ہوگی۔

البتہ اگر کسی علاقے میں درختوں کی آبیاری اور نگہداشت اسی مقصد سے ہوتی ہوکہ ان کو  کاٹ  کر فروخت کیا جائے گا اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہو ، ان سے کمائی مقصود ہوتی ہو تو ایسی صورت میں ان  درختوں میں بھی عشر واجب ہوگا۔لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ درختوں میں عشر لازم ہوگا۔

''بدائع الصنائع ''  میں ہے:

"ومنها: أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض وتستغل الأرض به عادةً، فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب الفارسي؛ لأن هذه الأشياء لاتستنمى بها الأرض ولاتستغل بها عادة؛ لأن الأرض لاتنمو بها، بل تفسد، فلم تكن نماء الأرض، حتى قالوا في الأرض: إذا اتخذها مقصبةً وفي شجره الخلاف، التي تقطع في كل ثلاث سنين، أو أربع سنين أنه يجب فيها العشر؛ لأن ذلك غلة وافرة."

(2 / 58، فصل الشرائط المحلیۃ، ط: سعید)

''فتاویٰ عالمگیری'' میں ہے:

"فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب والطرفاء والسعف؛ لأن الأراضي لاتستنمي بهذه الأشياء، بل تفسدها، حتى لو استنمت بقوائم الخلاف والحشيش والقصب وغصون النخل أو فيها دلب أو صنوبر ونحوها، وكان يقطعه ويبيعه يجب فيه العشر، كذا في محيط السرخسي".

(1 / 186،  الباب السادس فی زکاۃ الزرع والثمار، ط: رشیدیہ

زکوٰۃ یا صدقہ الفطر کی رقم ضائع ہوجائے تو

  اگر زکات اور صدقۃ الفطر کی رقم کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو زکات  اور صدقۃ الفطرساقط نہیں ہوتے بلکہ اتنی رقم الگ سے دینی ہو گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"ولايخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء.(قوله: ولايخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لاتسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثاً عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي؛ لأن يده كيد الفقراء، بحر عن المحيط".

(کتاب الزکاۃ، ج: ۲، صفحہ: ۲۷۰، ط: ایچ، ایم، سعید)

زکوٰۃ کی رقم سے راشن تقسیم کرنا

 جس طرح مستحق زکوۃ شخص کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اسی طرح زکوۃ کی رقم سے راشن خرید کر اس کو مالک بنایا جا سکتا ہے، ایسا کرنے سے زکوۃ ادا کرنے والے کی زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ البتہ جتنی رقم کا راشن خریدا گیا اور مستحق کو مالک بناکر دیا گیا، اتنی رقم کی زکاۃ ادا ہوگی، راشن خرید کر لانے اور منتقل کرنے کا کرایہ، راشن پیکج بنانے کے لیے مزدوروں کی اجرت وغیرہ زکاۃ کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اگر ایسا کیا گیا تو جتنی رقم کرایہ وغیرہ میں صرف ہوگی اتنی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك)  خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم 

(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه، ولا يخفى أنه يشترط كونه فقيرا، ولا حاجة إلى اشتراط فقر أبيه أيضا لأن الكلام في اليتيم ولا أبا له فافهم (قوله كما لو كساه) أي كما يجزئه لو كساه ."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:257،سعید)

وکیل خود مستحق زکوٰۃ ہوتو خود زکوٰۃ استعمال کرسکتا ہے ؟

 اگر موکل نے وکیل کو زکات  کی رقم دیتے ہوئے یہ کہا ہو کہ جہاں چاہیں خرچ کر دیں تو ایسی صورت میں اگر وکیل زکات کا مستحق ہو تو خود بھی زکات  کی رقم استعمال کر سکتا ہے،بصورتِ دیگر خود استعمال نہیں کرسکتا، اور اگر موکل نے زکات کی رقم کسی خاص فقیر کو دینے کا کہا ہو تو اُسی فقیر کو دینا لازم ہو گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌وللوكيل ‌أن ‌يدفع ‌لولده ‌الفقير ‌وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت، ولو تصدق بدراهم نفسه أجزأ إن كان على نية الرجوع وكانت دراهم الموكل قائمة."

(‌‌كتاب الزكاة، ج:2، ص:269، ط: سعيد)

تبيين الحقائق میں ہے:

"لو قال لرجل ‌ادفع ‌زكاتي ‌إلى ‌من ‌شئت أو أعطها من شئت فدفعها لنفسه لم يجز وفي جوامع الفقه جعله قول أبي حنيفة وقال وعند أبي يوسف يجوز ولو قال ضعها حيث شئت جاز وضعها في نفسه." 

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج:1، ص:305، ط: دار الكتاب 

متعدد نفلی حج وعمرہ کے بجائے مذکورہ رقم اہل ضرورت کو دینا

 نفلی حج یا عمرہ کرنا   بھی بہت عظیم سعادت اور نیکی کا کام ہے،لیکن اسی طرح مساجد ومدارس  میں خرچ کرنا اور غرباء  ومساکین کی امدادوتعاون  بھی بہت بڑی خیر کا حامل ہے، سارے ہی نیکی کے کام ہیں، اب ان میں سے کس کو ترجیح دینی چاہیے؟ اس میں کچھ تفصیل ہے، وہ یہ کہ ان کاموں میں سے جس کی ضرورت زیادہ ہو اُس میں زیادہ ثواب ہو گا، یعنی اگر محلہ کی مسجد کی تعمیر کے لیے پیسوں کی کمی کی وجہ سے ضرورت زیادہ ہو، تو اس مسجد کی تعمیر میں پیسے خرچ کرنا زیادہ افضل ہوگا،اسی طرح اگر کہیں اِحیاءِ دین  کے لیے مدارس کی ضرورت ہے،  یا مدارس کے طلباء زیادہ محتاج ہیں تو  ان کو صدقہ کرنا زیادہ افضل ہوگا اور اگر کسی جگہ فقراء زیادہ ضرورت مند یااقرباء ہوں یا نیک صالح یا سادات میں سے ہوں تو ان پر خرچ کرنا اور ان کا اکرام کرنا دیگر کاموں سے زیادہ افضل ہوگا۔

الغرض مذکورہ مصارف میں خرچ کرنا نفلی عمرہ کرنے سے بہتر ہوگا جبکہ سائل چار مرتبہ نفلی عمرہ کرچکا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الرحمتي: والحق التفصيل، فما كانت الحاجة فيه أكثر والمنفعة فيه أشمل فهو الأفضل، كما ورد: «حجة أفضل من عشر غزوات». وورد عكسه، فيحمل على ما كان أنفع، فإذا كان أشجع وأنفع في الحرب فجهاده أفضل من حجه، أو بالعكس فحجه أفضل، وكذا بناء الرباط إن كان محتاجاً إليه كان أفضل من الصدقة وحج النفل وإذا كان الفقير مضطراً أو من أهل الصلاح أو من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم فقد يكون إكرامه أفضل من حجات وعمر وبناء ربط. كما حكى في المسامرات عن رجل أراد الحج فحمل ألف دينار يتأهب بها فجاءته امرأة في الطريق وقالت له: إني من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم وبي ضرورة فأفرغ لها ما معه، فلما رجع حجاج بلده صار كلما لقي رجلاً منهم يقول له: تقبل الله منك، فتعجب من قولهم، فرأى النبي صلى الله عليه وسلم في نومه وقال له: تعجبت من قولهم تقبل الله منك؟ قال: نعم، يا رسول الله؛ قال: إن الله خلق ملكاً على صورتك حج عنك؛ وهو يحج عنك إلى يوم القيامة بإكرامك لامرأة مضطرة من آل بيتي؛ فانظر إلى هذا الإكرام الذي ناله لم ينله بحجات ولا ببناء ربط".

(كتاب الحج، فروع في الحج،مطلب في تفضيل الحج على الصدقة،ج:2،ص:621، ط: سعيد)

زکوٰۃ وصدقات کی رقم قبرستان میں استعمال کرنا

 زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ؛ اس لیے رفاہی کاموں،شفاخانوں اور مدارس ومساجد یا قبرستان  وغیرہ کی مد میں زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔ لہذا زکاۃ کی رقم قبرستان کے لیے زمین خریدنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

(کتاب الزکاۃ،الباب السابع في المصارف جلد 1 ص: 188 ط: دارالفکر)

کلینک میں استعمال ہونے والے اوزاریامشینری پر زکوۃ

 وہ اوزار اور مشینری  جس کے ذریعے دانتوں کا علاج کیا جاتا ہے،وہ مال تجارت نہیں بلکہ اپنے پیشے کے آلات ہیں، ان اوزار و مشینری پر زکوۃ واجب نہیں ہے، بلکہ ان کے ذریعے جو منافع آئے گا ،  ا س پر سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ واجب ہوگی، بشرط یہ کہ  اخراجات کے بعد جمع ہونے والی بچت نصاب کے بقدر ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر سال بھی گزرا ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کےکلینک میں جو اوزار و مشینری ہے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ باقی دانتوں کی بھرائی کا جو سامان مریض کے علاج میں صرف ہوتا ہے اور اس کی قیمت مریض سے وصول کی جاتی ہے، وہ مالِ تجارت کے حکم میں ہے،  زکوٰۃ کا سال پورا ہونے کے وقت اس کی موجودہ  قیمت پر  زکوٰۃ ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية ؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة وذلك بالنية."

(كتاب الزكاة، ‌‌فصل الشرائط التي ترجع إلى المال، ج: 2، ص: 11، ط: دار الکتب الإسلامى)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لاتجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة تبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها أو يبيعها فأمسكها حولاً لاتجب فيه الزكاة، كذا في فتاوى قاضي خان. ولو أن نخاسًا يشتري دواب أو يبيعها فاشترى جلاجل أو مقاود أو براقع فإن كان بيع هذه الأشياء مع الدواب ففيها الزكاة، وإن كانت هذه لحفظ الدواب بها فلا زكاة فيها كذا في الذخيرة. وكذلك العطار لو اشترى القوارير، ولو اشترى جوالق ليؤاجرها من الناس فلا زكاة فيها؛ لأنه اشتراها للغلة لا للمبايعة، كذا في محيط السرخسي. والخباز إذا اشترى حطبًا أو ملحًا لأجل الخبز فلا زكاة فيه".

(كتاب الزكاة، ‌‌مسائل شتى في الزكاة، ج: 1، ص: 180، ط: دار الفكر بيروت)

چچا کوزکات دینا

 اگر سائل کے چچا کی ملکیت میں  ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے  باون تولہ چاندی کے بقدر مالِ تجارت ،سونا، چاندی،نقدی یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہیں  ہے  یا  اس قدر مالیت کا سامان تو ہے لیکن ذمے  میں واجب قرضوں  کی مقدار منہا کرنے کے بعد  ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت سے کم بچتا ہو اور  نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہو تو سائل اپنے چچا کو زکات اور فدیہ دے سکتا ہے ، اسی طرح مالدار بھائی غریب بھائی کو بھی زکوۃ اور فطرہ دے سکتا ہے، البتہ  زکات  یا فدیے کی رقم  مشترکہ چیزوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌‌(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج1،ص187،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

وفيه أيضا:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى ‌الأعمام والعمات."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف،ج1،ص190،ط:المطبعة الكبرى الأميرية

ساس کو زکوٰۃ یاصدقہ فطردینا

 اگر   ساس  مستحقِ زکاۃ ہو تو اسے   صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔ مستحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کےپاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا   اس مالیت کا ضروریاتِ اصلیہ سے زائد کسی قسم کا ما ل  /سامان موجود نہ ہو  اور  وہ سید بھی نہ ہو۔

بدائع الصنائع  میں ہے :

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

(كتاب الزكاۃ، ج: 2 ص: 50، ط : رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال.......(قوله: في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر و لاتصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم ممن مر في باب المصرف، وقدمنا بيان الأفضل في المتصدق عليه."

(‌‌كتاب الزكاة، ‌‌باب صدقة الفطر،  ج: 2، ص: 368، ط: سعيد)

سسرکابہوکو زکوٰۃ دینا

 اگر بہو صاحب نصاب نہیں ہے،یعنی (اس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی ،یااس  کے برابرضرورت  و ا ستعمال سے زیادہ رقم یاکسی قسم کا سامان   )موجود نہ ہو،تو سسر اپنی بہو کو صدقہ فطر  دے سکتا ہے،اور اگر بہو صاحب نصاب  ہے تو نہیں دے سکتا، باقی مستحقِ زکوۃ ہونے کی صورت میں اس رقم کو  لے کر گھر کے کسی مشترکہ کام میں استعمال نہ کرے بلکہ بہو اپنے ذاتی کام میں استعمال کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية."

(کتاب الزکوۃ ،الباب السابع  فی المصارف ،189/1،ط،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال (إلا في) جواز (الدفع إلى الذمي) وعدم سقوطها بهلاك المال وقد مر.

(قوله في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر ولا تصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم."

(باب صدقۃ الفطرۃ ،368/2،ط،دار الفکر)

Tuesday 16 July 2024

بلی کے پیشاب کاحکم

  بلی سمیت ہر جانور کا پیشاب ناپاک ہے۔ جس پانی میں پیشاب مل جائے  اگر  دہ در دہ  یعنی 225 مربع فٹ یا اس  سے زیادہ ہو تو پانی ناپاک نہیں ہوگا اور اگر اس سے کم ہو (اور غالب یہی ہے ) تو تمام پانی ناپاک ہوجائے گا۔

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(وإن أصابته نجاسة مخففة كبول ما يؤكل لحمه) ومنه الفرس، ... (جازت الصلاة معه ما لم يبلغ ربع) جميع (الثوب) ... وقيل: ربع الموضع الذي أصابه كالذيل والكم والدخريص، إن كان المصاب ثوبا. وربع العضو المصاب كاليد والرجل، إن كان بدناً وصححه في التحفة والمحيط والمجتبى والسراج، وفي الحقائق: وعليه الفتوى".

 (ص؛68، فصل فی النجاسة، ط: قدیمی) 

البحر الرائق میں ہے:

"قوله: (أو بماء دائم فيه نجس إن لم يكن عشرا في عشر) أي: لا يتوضأ بماء ساكن وقعت فيه نجاسة مطلقا سواء تغير أحد أوصافه أو لا ولم يبلغ الماء عشرة أذرع في عشرة .........(قوله: وإلا فهو كالجاري) أي: وإن يكن ‌عشرا ‌في ‌عشر فهو كالجاري، فلا يتنجس إلا إذا تغير أحد أوصافه."

(البحر الرائق: كتاب الطهارة، أحكام المياه (1/ 78و87)، ط. دار المعرفة، بيروت)

خشک پیشاب کا حکم

 اگر پیشاب کسی زمین پر گرا ہو اور وہ زمین خشک ہو جائے تو وہ  زمین خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں بغیر دھوئے پاک ہوجائے گی،  اس پر نماز پڑھنا تو جائز ہوگا لیکن پانی سے دھوئے بغیر اس پر  تیمم نہیں کیا جاسکتا۔ 

احتیاط یہ ہے کہ اس زمین یا فرش کو پاک کر لیا جائے، اسے پاک کرنے کے دو طریقے ہیں:

1۔ ا س پر پانی ڈال کر صاف کیا جائے، پھر  کپڑے سے خشک کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

2۔ مذکورہ فرش پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو اس طرح بھی وہ پاک ہوجائے گا۔

وفي الهندیة(۴۳/۱) :

" الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان".

" البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیه ثم یدلك وینشف ذلك بصوف أو خرقة فإذا فعل ذلك ثلاثاً طهر، وإن لم یفعل ذلك ولكن صب علیه ماء کثیر حتی عرف أنه زالت النجاسة ولایوجد في ذلك لون ولا ریح، ثم ترک حتی نشفته الأرض کان طاهراً". (المحیط البرهاني۱؍۳۸۲)

البحرالرائق میں ہے:

’’وإن كان اللبن مفروشاً فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية: إن كانت الآجرة مفروشةً في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعةً تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لاتجوز صلاته‘‘. (1/235)

حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح  میں ہے:

’’ والمراد بالأرض مايشمله اسم الأرض، كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها، إذا كانت متداخلةً في الأرض غير منفصلة عنها‘‘. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، (1/231) ط: غوثيه)