https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 19 July 2024

قسط یا انٹسالمنٹ پر سوداکرنا

 قسطوں پرکسی چیز کی  خرید و فرخت کرنا  تجارت کی ایک جائز قسم ہے، جو عام طور پر نقد سے  قدرے زائد قیمت پر بائع (دوکاندار)  اور مشتری (خریدار )کی باہمی رضامندی  سے طے پاتا ہے،  البتہ اس کے صحیح ہونے کے لیےچند  شرائط کی پابندی کرنا ضروری ہے،  اگر ان شرائط کی رعایت نہ کی جائے تو سود  لازم آئے گا جو کہ حرام ہے۔

شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

1۔عقد کے وقت  ہی کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے۔

2۔ ادھار  کی مدت  بھی متعین کرلی جائے۔

3۔بیع خلاف جنس کی ہو۔

4۔ قسط میں تاخیر ہونے کی وجہ سے مقرر ہ  قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے ۔

5۔تاخیر کی وجہ سے  جرمانہ وصول کرنے کی شرط عائد نہ کی جائے۔

6۔ ادائیگی سے عاجز ہونے کی وجہ سے سودا منسوخ کرنے پر ادا شدہ رقم  ضبط نہ کی جائے۔

7۔ اور  نہ ہی مبیع  ضبط کی جائے وغیرہ وغیرہ۔

  تو شرعاً  ایسا معاملہ کرنا عام بیع کی طرح جائز ہو گا   کہ   جس میں بائع اور مشتری کو اختیار ہوتا ہے کہ  باہمی رضامندی سے جتنے میں بھی سودا   طے کر لیں  ۔

سنن الترمذی میں ہے  : 

"وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: ‌أبيعك ‌هذا ‌الثوب ‌بنقد ‌بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما."

(أبواب البيوع، ‌‌باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة، ج : 3، ص : 525، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصطفى)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :

"(اشتراه بألف نسيئة وباع بربح مائة بلا بيان) خير المشتري (فإن تلف) المبيع بتعيب أو تعيب (فعلم) بالأجل (لزمه كل الثمن حالا."

رد المحتار میں ہے :

"(قوله: لزم كل الثمن حالا) لأن الأجل في نفسه ليس بمال، فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا."

(كتاب البيوع، ‌‌باب المرابحة والتولية، ج : 5، ص : 141/42، ط : 

Wednesday 17 July 2024

ناپاک خشک قالین پر بیٹھنے پر ناپاکی کاحکم

 ناپاک خشک قالین پر اگر کوئی شخص بیٹھ جائے اور اس کاجسم یا کپڑے گیلے ہوں،تو اگر اس کے بدن یا کپڑوں پرنجاست کا اثر(بو،رنگ)ظاہر ہوجائے تو اس کا بدن اور کپڑےناپاک ہوجائیں گے ورنہ نہیں ۔

کارپیٹ یا قالین جسے نچوڑا نہ جاسکے ، اگر وہ ناپاک ہوجائے ، تو اُس کی پاکی کا طریقہ یہ ہے کہ اسے تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ دھوکر اتنی دیر چھوڑ دیا جائے اُس سے پانی ٹپکنا بند ہوجائے ، پوری طرح سوکھنا ضروری نہیں ہے ، تین مرتبہ ایسا کرنے سے پاک ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے

"والحاصل أنه على ما صححه الحلواني: العبرة للطاهر المكتسب إن كان بحيث لو انعصر قطر تنجس وإلا لا، سواء كان النجس المبتل يقطر بالعصر أو لا. وعلى ما في البرهان العبرة للنجس المبتل إن كان بحيث لو عصر قطر تنجس الطاهر سواء كان الطاهر بهذه الحالة أو لا، وإن كان بحيث لم يقطر لم يتنجس الطاهر، وهذا هو المفهوم من كلام الزيلعي في مسائل شتى آخر الكتاب."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) فروغ في الاستبراء، ج:1/ ص:347، ط:سعيد)

البحرالرائق  میں ہے: 

" قال رحمه الله ( لف ثوب نجس رطب في ثوب طاهر يابس فظهر رطوبته على الثوب ولكن لا يسيل إذا عصر لا يتنجس ) وذكر المرغيناني أنه إن كان اليابس هو الطاهر يتنجس ؛ لأنه يأخذ قليلا من النجس الرطب وإن كان اليابس هو النجس والطاهر هو الرطب لا يتنجس ؛ لأن اليابس هو النجس يأخذ من الطاهر ولا يأخذ الرطب من اليابس شيئا ويحمل على أن مراده فيما إذا كان الرطب ينفصل منه شيء وفي لفظه إشارة إليه حيث نص على أخذ الليلة وعلى هذا إذا نشر الثوب المبلول على محل نجس هو يابس لا يتنجس الثوب لما ذكرنا من المعنى."

( البحر الرائق:  مسائل متفرقه ،ج:8،ص :546، ط:دارالمعرفه

سسرداماد کوزکات دے سکتاہے

 اگر داماد غریب ہے، نصاب کا مالک نہیں ہے  اور ہاشمی (سید/ عباسی وغیرہ) بھی نہیں ہے تو سسر داماد کو زکوۃ دے سکتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و يجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ ‌لانقطاع ‌منافع الأملاك بينهم."

(كتاب الزكاة، فصل ركن الزكاة: 2/ 50، ط: دار الكتب العلمية)

اجارہ کی زمین پر عشر کس پر واجب ہوگا ۔

 اگر کوئی شخص اپنی   زمین کرایہ  پر دے تو اس صورت میں اس کا عشر  زمین کے مالک پر ہوگا یا کرایہ دار پر! اس میں یہ تفصیل ہے کہ زمین کا مالک اگر کرایہ بہت  زیادہ لیتا ہے اور کرایہ دار کو  کم بچت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں عشر  زمین کے مالک کے ذمہ ہوگا، اور اگر  زمین کا مالک کرایہ کم لیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کرایہ دار کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں  زمین کا عشر کرایہ دار کے ذمہ لازم ہوگا۔

اس زمانے میں کرایہ عموماً   کم ہوتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں مستاجر (کرایہ دار) کو بچت زیادہ ہوتی  ہے ، اس لیے موجودہ زمانے میں از روئے فتویٰ عشر  کرایہ دار پر ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذ.
(قوله: والعشر على المؤجر) أي لو أجر الأرض العشرية فالعشر عليه من الأجرة كما في التتارخانية وعندهما على المستأجر قال في فتح القدير: لهما أن العشر منوط بالخارج وهو للمستأجر وله أنها كما تستنمى بالزراعة تستنمى بالإجارة فكانت الأجرة مقصودة كالثمرة فكان النماء له معنى مع ملكه فكان أولى بالإيجاب عليه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قلت: لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة، ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة، فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك؛ لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة كما لا يخفى فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم."

(کتاب الزکات،باب العشر،ج:2،ص:334،سعید)

امانت کی رقم پر زکوۃ کی ادائیگی کون کرے گا

 امانت رکھوانے والے کی اجازت سے امانت کی رقم کا استعمال سائل کے لیے جائز تھا ، البتہ اس رقم کے مالک چوں کہ رکھوانے والے شخص ہیں؛ اس لیے اس رقم کی زکاۃ مالک پر لازم ہے ، سائل پر یا قرض لینے والے پر نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌وشرطه) ‌أي ‌شرط ‌افتراض ‌أدائها (‌حولان ‌الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض."

(‌‌كتاب الزكاة، ج:2، ص:267، ط:سعید)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني."

(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:338، ط:رشيدية)

مستحق زکوٰۃ کی مد میں ملے راشن کو بیچ سکتا ہے کہ نہیں

 جس کو زکوۃ وغیرہ میں کوئی چیز مل جائے،تو وہ اُس چیزکا مالک بن جاتا ہے، اور اسے اس میں  تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوتاہے ، چاہے توخود استعمال کرے ،یا فروخت کرے یا کسی دوسرے کو ہبہ کرے ،کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں مستحق  زکوۃ کو زکوۃ  کی مد میں راشن وغیرہ  ملنے کی صورت میں اس کے لیے  آگے بیچنا جائز ہے۔اور اسی طرح استطاعت رکھنے والے کےلیے زکوۃ کا مال خریدناجائز ہے، کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"للمالك أن یتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعوي، ج: 6، ص: 264، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم.

وفي الرد: (قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة فيه؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله."

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 345، ط: سعيد

زکوٰۃ اور عشر جمع کرنے والوں کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دینا

 عاملینِ صدقہ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے زکات اور عشر جمع کرنے پر مامور ہوں۔  ان لوگوں  کو اسلامی حکومت  زکات کی مد سے تنحواہ (یعنی بقدر محنت اجرت)  دے سکتی ہے، کیونکہ اسلامی حکومت میں امیرالمؤمنین فقراء کا وکیل ہوتا ہے۔لیکن ہندوستان میں   اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے  مدارس ، انجمنوں اور ٹرسٹوں کی طرف سے زکات اور عشر کو جمع کرنے والے لوگوں  کو زکات کی مد سے  تنخواہ اور مزدوری دینا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع ميں ہے:

"وأما العاملون عليها فهم الذين نصبهم الإمام لجباية الصدقات واختلف فيما يعطون، قال أصحابنا: يعطيهم الإمام كفايتهم منها.............ولنا أن ما يستحقه العامل إنما يستحقه بطريق العمالة لا بطريق الزكاة بدليل أنه يعطي وإن كان غنيا بالإجماع ولو كان ذلك صدقة لما حلت للغني وبدليل أنه لو حمل زكاته بنفسه إلى الإمام لا يستحق العامل منها شيئا ولهذا قال أصحابنا أن حق العامل فيما في يده من الصدقات حتى لو هلك ما في يده سقط حقه كنفقة المضارب إنها تكون في مال المضاربة حتى لو هلك مال المضاربة سقطت نفقته كذا هذا دل أنه إنما يستحق بعمله لكن على سبيل الكفاية له ولأعوانه لا على سبيل الأجرة لأن الأجرة مجهولة أما عندنا فظاهر لأن قدر الكفاية له ولأعوانه غير معلوم."

(بدائع الصنائع: كتاب الزكاة،  فصل وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع (2/ 44)،ط. دار الكتاب العربي،سنة النشر 1982)

دس محرم کو کھانے کا اہتمام کرنا

  عاشوراء  (دس محرم) کے روز اپنے اہل و عیال پر رزق کی وسعت اور فراوانی کی ترغیب وارد ہوئی ہے، چناچہ مشکاۃ المصابیح میں ہے :

" عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك. رواه رزين".

(‌‌‌‌كتاب الزكاة ، باب فضل الصدقة ، الفصل الثالث ج: 1 ص: 601 ط: المكتب الإسلامي)

 "حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:  "جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالی سارے سال( اس کے مال و زر میں) وسعت عطا فرمائے گا۔  حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا"۔ (رزین) 

(مظاہر حق جدید ج:2 ص:265 ط: دار الاشاعت)

اس طرح کی روایات دیگر صحابہ سے بھی مروی ہیں جو  اگرچہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابلِ استدلال ہیں، اسی وجہ سے اکابرین نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے، لہذا دس محرم کو خاندان والوں کے لیے  کھانےکے  اہتمام کر نے کو بدعت کہنادرست نہیں ۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

" عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك. رواه رزين".

(‌‌‌‌كتاب الزكاة ، باب فضل الصدقة ، الفصل الثالث ج: 1 ص: 601 ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے 

"وحديث التوسعة على العيال يوم عاشوراء صحيح وحديث الاكتحال فيه ضعيفة لا موضوعة كما زعمه ابن عبد العزيز".

(‌‌ کتاب الصوم  ، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده ج:2 ص418 / 419 ط:سعید )

اس حدیث میں مطلقاً اپنے اہل و عیال پر وسعت کا ذکر ہے ،  اس دن کی دعوت کو ضروری سمجھنا ، یا اس میں تمام متعلقین کے بلانے کو ضروری سمجھنا درست نہیں، اس سے احتراز لازم ہے۔

مأخَذُ الفَتوی

فی مشكاة المصابيح : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته» . قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك . رواه رزين (1/ 601)
و فی الصحيح لمسلم : عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قدم المدينة فوجد اليهود صياما ، يوم عاشوراء ، فقال لهم رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما هذا اليوم الذي تصومونه؟» فقالوا : هذا يوم عظيم ، أنجى الله فيه موسى و قومه، و غرق فرعون و قومه ، فصامه موسى شكرا ، فنحن نصومه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «فنحن أحق و أولى بموسى منكم فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، و أمر بصيامه» اھ(2/ 796)۔
و فی مرقاة المفاتيح : قال الطيبي : و فيه أن من أصر على أمر مندوب ، و جعله عزما ، و لم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال اھ(2/ 755)۔

زکوٰۃ کی رقم عیدی کہہ کر دینا

 زکات    ادا کرتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکات   ہے، بلکہ کسی بھی عنوان (مثلاً  قرض یا ہدیہ،عیدی  وغیرہ کے نام ) سے ضرورت مند کو دی جاسکتی ہے، ہاں زکات اور صدقاتِ واجبہ میں یہ ضروری ہے کہ وہ رقم الگ کرتے وقت یا ادائیگی کے وقت اس مد (زکات  یا صدقاتِ واجبہ)کی نیت ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق ناقلا عن المبتغى والقنية".

(کتاب الزکات،ج:1،ص:171،دارالفکر)

زمین پر عشر ہے یانصف عشر

 ہر وہ زمین  جس کو ایسے پانی سے سیراب کیا جائے  جس میں خرچہ آتا ہو  (مثلاً ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعے) اس میں  نصفِ عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ (%5) دینا واجب ہے، اور اگر خرچہ نہ آتا ہو تو اس میں عشر (دسواں حصہ یعنی ٪10) دینا ضروری ہے۔

باقی پیداوار  پر جو دیگر اخراجات آتے ہیں  ان میں یہ تفصیل ہے:

        وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لے کر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں  یعنی وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں، مثلاً زمین کو ہم وار کرنے، ٹریکٹر چلانے، مزدور کی اجرت وغیرہ  یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جائیں گے، بلکہ عشر  یا نصفِ عشر  اخراجات نکالنے سے پہلے  پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔

   لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر پانی ٹیوب ویل یا کسی اور طریقہ سے دیا جاتا ہو جس پر خرچہ آتا ہو تو ایسی  زمین میں نصف عشر (بیسواں حصہ) لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب في (مسقي سماء) أي مطر (وسيح) كنهر (بلا شرط نصاب) راجع للكل (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول".

(2/ 326، باب العشر، ط؛ سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة وفي كتب الشافعية أو سقاه بماء اشتراه وقواعدنا لاتأباه، ولو سقى سيحاً وبآلة اعتبر الغالب، ولواستويا فنصفه".

(جلد۲، ص: ۳۲۸، ط: سعید)

مزیدتفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاوی ملاحظہ فرمائیں:

لپٹس کے پودوں کی پیداوار پر عشر

 زمین کی اس پیداوار میں عشر  واجب ہوتا ہے جس سے آمدنی حاصل کرنا   یا  پیداوار سے فائدہ اٹھانا مقصود ہے، اور اسی نیت سے اس کو لگایا جائے، اور جو اشیاء خود ہی بغیر قصد کے تبعاً حاصل ہوجائیں ان میں عشر لازم نہیں ہوتا۔ لہٰذا  زرعی زمین میں خود رو درخت  جو بغیر قصد کے تبعاً حاصل ہوئے ہیں ان میں عشر لازم نہیں ہوگا۔ تاہم اگر ان درختوں کو بیچ کر نفع کمایا اور دیگر قابلِ زکاۃ اموال کے ساتھ مل کر وہ رقم زکاۃ کے نصاب کے بقدر پہنچ گئی تو زکاۃ کی شرائط کے مطابق سال پورا ہونے پر مذکورہ رقم پر زکاۃ واجب ہوگی۔

البتہ اگر کسی علاقے میں درختوں کی آبیاری اور نگہداشت اسی مقصد سے ہوتی ہوکہ ان کو  کاٹ  کر فروخت کیا جائے گا اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہو ، ان سے کمائی مقصود ہوتی ہو تو ایسی صورت میں ان  درختوں میں بھی عشر واجب ہوگا۔لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ درختوں میں عشر لازم ہوگا۔

''بدائع الصنائع ''  میں ہے:

"ومنها: أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض وتستغل الأرض به عادةً، فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب الفارسي؛ لأن هذه الأشياء لاتستنمى بها الأرض ولاتستغل بها عادة؛ لأن الأرض لاتنمو بها، بل تفسد، فلم تكن نماء الأرض، حتى قالوا في الأرض: إذا اتخذها مقصبةً وفي شجره الخلاف، التي تقطع في كل ثلاث سنين، أو أربع سنين أنه يجب فيها العشر؛ لأن ذلك غلة وافرة."

(2 / 58، فصل الشرائط المحلیۃ، ط: سعید)

''فتاویٰ عالمگیری'' میں ہے:

"فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب والطرفاء والسعف؛ لأن الأراضي لاتستنمي بهذه الأشياء، بل تفسدها، حتى لو استنمت بقوائم الخلاف والحشيش والقصب وغصون النخل أو فيها دلب أو صنوبر ونحوها، وكان يقطعه ويبيعه يجب فيه العشر، كذا في محيط السرخسي".

(1 / 186،  الباب السادس فی زکاۃ الزرع والثمار، ط: رشیدیہ

زکوٰۃ یا صدقہ الفطر کی رقم ضائع ہوجائے تو

  اگر زکات اور صدقۃ الفطر کی رقم کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو زکات  اور صدقۃ الفطرساقط نہیں ہوتے بلکہ اتنی رقم الگ سے دینی ہو گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"ولايخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء.(قوله: ولايخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لاتسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثاً عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي؛ لأن يده كيد الفقراء، بحر عن المحيط".

(کتاب الزکاۃ، ج: ۲، صفحہ: ۲۷۰، ط: ایچ، ایم، سعید)

زکوٰۃ کی رقم سے راشن تقسیم کرنا

 جس طرح مستحق زکوۃ شخص کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اسی طرح زکوۃ کی رقم سے راشن خرید کر اس کو مالک بنایا جا سکتا ہے، ایسا کرنے سے زکوۃ ادا کرنے والے کی زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ البتہ جتنی رقم کا راشن خریدا گیا اور مستحق کو مالک بناکر دیا گیا، اتنی رقم کی زکاۃ ادا ہوگی، راشن خرید کر لانے اور منتقل کرنے کا کرایہ، راشن پیکج بنانے کے لیے مزدوروں کی اجرت وغیرہ زکاۃ کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اگر ایسا کیا گیا تو جتنی رقم کرایہ وغیرہ میں صرف ہوگی اتنی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك)  خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم 

(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه، ولا يخفى أنه يشترط كونه فقيرا، ولا حاجة إلى اشتراط فقر أبيه أيضا لأن الكلام في اليتيم ولا أبا له فافهم (قوله كما لو كساه) أي كما يجزئه لو كساه ."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:257،سعید)