https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 22 July 2024

غیرمسلم کو زکوٰۃ دینا

 زکوۃ کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شخص(جس کو زکاۃ دی جارہی ہو) مسلمان ہو، اور زکوۃ کا مستحق ہو ،لہذا غیر مسلم کو زکوٰۃ  کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، البتہ   غیر مسلم اگر ضرورت مند ہوتو نفلی صدقات وغیرہ سے  اس  کی مدد کی جاسکتی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيرها (الزکاۃ) فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."

(کتاب الزکاۃ ، ج:1، ص:170، ط:دارالفکر بیروت)

الدر مع الرد میں ہے:

"(من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه(قوله: من مسلم إلخ) متعلق بتمليك، واحترز بجميع ما ذكر عن الكافر والغني والهاشمي ومولاه والمراد عند العلم بحالهم."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:258، ط:سعيد)

الہدایۃ مع فتح القدیر میں ہے:

"(ولا يجوز أنه يدفع الزكاة إلى ذمي) «لقوله - عليه الصلاة والسلام - لمعاذ - رضي الله عنه - خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» . قال (ويدفع ما سوى ذلك من الصدقة)(قوله لقوله - صلى الله عليه وسلم - لمعاذ إلخ) رواه أصحاب الكتب الستة من حديث ابن عباس قال: قال - عليه الصلاة والسلام - «إنك ستأتي قوما أهل كتاب، فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم، فإن هم أطاعوا لذلك فإياك وكرائم أموالهم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب» ،(قوله ويدفع لهم) أي لأهل الذمة (ما سوى ذلك) كصدقة الفطر والكفارات، ولا يدفع ذلك لحربي ومستأمن، فقراء المسلمين أحب."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:266، ط:دار الفکر)

کسی اور کے لیے زکوٰۃ لے کر خود استعمال کرنا

 جب زید نے کسی اور کے لیے عمر سے  زکات کی رقم لی ہے تو زید کے لیے اس سے اپنا قرض ادا کرنا ناجائز ہے، اگر چہ زید مستحقِ زکات کیوں نہ ہو ! البتہ اگر عمر نے دیتے وقت یہ کہا ہو کہ "جیسے چاہو خرچ کرو" تو زید کے لیے اس رقم سے اپنا قرض اتارنے کی اجازت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 269):
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت"

زکوٰۃ کی رقم سے مریض کو دواء دلاناوعلاج کرانا

 زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق ِ زکوٰۃ  شخص  (یعنی  ایسا  غریب آدمی  جو نصاب  کے بقدر رقم یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنے سامان کا  مالک نہ ہو  اور  نہ ہی سید، ہاشمی اور عباسی ہو )  کو بغیر عوض کے مالک بنانا  ضروری ہے، مستحق زکوٰۃ شخص کو  مالک بنائے  بغیر  زکوۃ ادا نہیں ہوتی، لہذا  صورتِ مسئولہ میں زکاۃ کی رقم سے کسی مریض کو مالک بنائے بغیراس کا  علاج کروانا جائز نہیں ہے،تاہم زکاۃ کی رقم سے دوائی وغیرہ خرید کر مریض کو دینا یا مستحق کو رقم کا مالک بنانے کے بعد اس رقم  سے علاج کروانا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز لعدم التمليك."

(كتاب الزكاة،فصل في ركن الزكاة، ج:2، ص:39، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"لو أطعم يتيما بنيتها لا يجزئه لعدم التمليك إلا إذا دفع له الطعام كالكسوة."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة،بناء المسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراء قن من الزكاة، ج:2، ص:261، ط: دار الكتاب الاسلامي)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وأخرج بالتمليك الإباحة فلا تكفي فيها فلو ‌أطعم يتيما ناويا به الزكاة لا تجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض."

(كتاب الزكاة، ص:713، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

زكات وعشر جمع كرنے والوں کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دینا

 عاملینِ صدقہ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے زکات اور عشر جمع کرنے پر مامور ہوں۔  ان لوگوں  کو اسلامی حکومت  زکات کی مد سے تنحواہ (یعنی بقدر محنت اجرت)  دے سکتی ہے، کیونکہ اسلامی حکومت میں امیرالمؤمنین فقراء کا وکیل ہوتا ہے۔لیکن ہندوستان میں   اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے  مدارس ، انجمنوں اور ٹرسٹوں کی طرف سے زکات اور عشر کو جمع کرنے والے لوگوں  کو زکات مد سے  تنخواہ اور مزدوری دینا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع ميں ہے:

"وأما العاملون عليها فهم الذين نصبهم الإمام لجباية الصدقات واختلف فيما يعطون، قال أصحابنا: يعطيهم الإمام كفايتهم منها.............ولنا أن ما يستحقه العامل إنما يستحقه بطريق العمالة لا بطريق الزكاة بدليل أنه يعطي وإن كان غنيا بالإجماع ولو كان ذلك صدقة لما حلت للغني وبدليل أنه لو حمل زكاته بنفسه إلى الإمام لا يستحق العامل منها شيئا ولهذا قال أصحابنا أن حق العامل فيما في يده من الصدقات حتى لو هلك ما في يده سقط حقه كنفقة المضارب إنها تكون في مال المضاربة حتى لو هلك مال المضاربة سقطت نفقته كذا هذا دل أنه إنما يستحق بعمله لكن على سبيل الكفاية له ولأعوانه لا على سبيل الأجرة لأن الأجرة مجهولة أما عندنا فظاهر لأن قدر الكفاية له ولأعوانه غير معلوم."

(بدائع الصنائع: كتاب الزكاة،  فصل وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع (2/ 44)،ط. دار الكتاب العربي،سنة النشر 1982)

Sunday 21 July 2024

ایمازون سے کاروبار اور کمیشن

 ایمازون ویب سائٹ پر فروخت ہونے والی جائز  اشیاء کی قیمتوں میں سے مخصوص تناسب کے عوض  تشہیری اور ترویجی مہم میں حصہ لینا جائز ہےاور اس پر فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کرکے کمیشن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں،شرعاً یہ  کام دلالی کے حکم میں ہے،جس کی اجرت لینا جائز ہے۔

البتہ  یہ ضروری ہے کہ  اس میں شرعًا کوئی ایسا مانع نہ ہو جس کی وجہ سے اصلاً بیع ہی ناجائز ہوجائے جیسے مبیع کاحرام ہونا،لہذا صرف ان ہی مصنوعات کی تشہیر کی جائے جو اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہو ں، جوچیزیں  شرعاًحرام ہیں ان کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔اسی طرح جس کمپنی کی مصنوعات  کی  تشہیر کرنا ہو اس  کمپنی کی طرف سےمصنوعات کے حقیقی  اوصاف، قیمت  وغیرہ  واضح طور پر درج ہو۔ سامان نہ ملنے یا غبن ہوجانے کی صورت میں مصنوعات خریدنے کے لئےجمع کی گئی رقم کی  واپسی کی ضمانت دی گئی ہو۔

مزید یہ کہ آڈر کرنے کے بعد مقررہ تاریخ تک مصنوعات نہ ملنے پر یا زیادہ تاخیر ہونے کی صورت میں کسٹمر کو  آڈر کینسل کرنے کا بھی اختیارہو۔ نیز آن لائن تجارت کرنے والےایسے ادارے اور  افراد  بھی ہیں جن کے یہاں مصنوعات موجود نہیں ہوتیں، محض اشتہار ات ہوتے ہیں اس لئے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اس کمپنی کے پاس مصنوعات کا حقیقی وجود ہے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد اگر ایمازون ایفلیٹ  مارکیٹنگ میں درج بالا شرائط کا مکمل لحاظ رکھا جاۓ تو شرعاً یہ کام اور اس سے حاصل شدہ کمائی جائز ہوگی ،بصورتِ  دیگر اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط بھی نہ پائی جاۓ گی تو مذکورہ کام ناجائز ہوگا، صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سوال میں ذکر کردہ تشہیر  غیر شرعی  امور مثلاً موسیقی اور خواتین وغیرہ کی تصویر اور ویڈیو پر مشتمل  ہے اس لیے مذکورہ طریقے سے کمائی کرنا شرعاً جائز نہیں ،ایسی صورت میں حاصل شدہ تمام آمدنی کو صدقہ کرنا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

    "وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية".

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(کتاب البیوع ج:4 ص: 560ط: سعید

ڈراپ شپنگ جائزہے کہ نہیں

 ڈراپ شپنگ کے کام کا عام طور  پر طریقہ یہ ہے کہ بائع اپنی مصنوعات کی تصاویر اور تمام تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کردیتا ہے، ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیاء  کو دیکھ کراپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکےاس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے،اب اگر ڈراپ شپنگ کرنے والے کے پاس وہ چیز موجود ہے، تو اس کا بیچنا درست ہے، اور اگر وہ چیز اس کے پاس موجود نہیں بل کہ کسی اور سے دلوائے گا تو ڈراپ شپنگ کرنے والا حتمی سودا نہ کرے بل کہ وعدہ کر لے پھر وہ چیز اپنے پاس منگوا کر پہلے اس پر خود قبضہ کرے یا پھر اپنے وکیل کے ذریعہ قبضہ کرے،اور پھر اس خریدار کی طرف پارسل کر دے، جب خریدار پارسل قبول کرکے رقم کی ادائیگی کرے گا اس وقت بیع ( سودا) ہو جائے گا، نیز اگر ڈراپ شپنگ کرنے والے نے خود اس چیز پر قبضہ نہیں کیا یا وکیل کے ذریعہ قبضہ نہ کیا  اور دوسرے سے لے کر اسی کے ذریعے خریدار تک وہ چیز پہنچا دی تو یہ بیع فاسد ہوگی اور نفع حلال نہیں ہوگا۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن حكيم بن حزام قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يأتيني الرجل يسألني من البيع ما ليس عندي، أبتاع له من السوق، ثم أبيعه؟ قال: ‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك."

(أبواب البيوع، باب ما جاء في كراهية بيع ما ليس عندك، ج:2، ص: 525، ط: دار الغرب الإسلامي بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم."

(کتاب البیوع، ج:5، ص:147، ط: دار الکتب العلمیة)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله: و من اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض ... أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، ج:6، ص:511، ط: دار الفکر

فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری

 ٹیلی فون  اور انٹرنیٹ کے ذریعہ  خرید و فروخت  میں اگر خریدوفروخت کی  تمام  شرائط  کی رعایت رکھی جاتی ہو، تو اس کے ذریعے خرید و فروخت جائز ہوگی، مثلاً: مبیع(بیچی جانے والی چیز) اور ثمن (قیمت) کی مکمل تفصیلات بتائی جائیں، جس سے ہر قسم کی جہالت مرتفع ہوجائے، اور کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو وغیرہ ۔

 چنانچہ   اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور خریدنے والا فون کرکے یا موبائل کے ایپ کے ذریعے آرڈر دے کر  بائع  مشتری کو اس مال کی   تصویر دکھلا کر اس  پر فروخت کر دے اور مشتری سے قیمت وصول کرلی جائے تو یہ بیع درست ہوگی۔ 

باقی  سائل کس قسم کی آن لائن خرید و فروخت   کرنا چاہتا ہے ، اس کی تفصیل لکھ کر بھیج دے،ان شاء اللہ اس کے شرعی حکم کے متعلق راہ نمائی کر دی جائے گی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  من ابتاع طعاماً فلايبعه حتى يستوفيه ، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله."

(کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج:3، ص:1159، ط:دار إحیاءالتراث العربي)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم."

(کتاب البیوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج:5ص:138،ط:دار الكتب العلمية)

غبن فاحش

  "غبنِ فاحش" سے مراد یہ ہے کہ  کسی چیز کی بازار میں جو زیادہ سے زیادہ  قیمت لگائی جاتی ہے،اس سے بھی زیادہ قیمت وصول کی جاۓ،مثلاً ایک چیز مارکیٹ میں 100 سے 120 روپے کے درمیان فروخت ہوتی ہے ،120 سے  زیادہ کی فروخت نہیں ہوتی ،لیکن کوئی شخص وہی چیز  200 یا300 روپے میں فروخت کرتا ہےتو یہ غبنِ فاحش ہے،اس طرح خرید و فروخت کرنے سے خرید و فروخت جائز ہوگی اور نفع بھی فروخت کنندہ کے لیے حلال ہوگا،لیکن یہ عمل شرعاًمکروہ ہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"فالبيع ما شرع إلا لطلب الربح والفضل فالفضل الذي ‌يقابله ‌العوض حلال ككسبه بالبيع."

(كتاب البيوع، أنواع الربا، 119/12،ط: دارالمعرفة)

الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے:

"‌الحنفية - ‌قالوا: ‌الغبن ‌الفاحش هو ما لا يدخل تحت تقويم المقومين، كما إذا اشترى سلعة بعشرة فقومها بعض أهل الخبرة بخمسة، وبعضهم بستة، وبعضهم بسبعة، ولم يقل أحد إنها بعشرة فالثمن الذي اشتريت به لم يدخل تحت تقويم أحد."

(‌‌كتاب أحكام‌‌ البيع وما يتعلق به، ‌‌مبحث البيع بالغبن الفاحش،256/2، ط: دارالکتب العلمیة)

آٹاادھارلینا

 آٹا، چینی اور اس طرح کی دیگر اشیاء جن کی لین دین ناپ کر یا تول کر ہوتی ہے، جن کو اشیاء ربویہ بھی کہا جاتا ہے ان کی بیع ( خرید و فروخت ) میں تو یہ بات لازم ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو، ادھار نہ ہو، ورنہ سود لازم آئے گا اور اگر دونوں طرف سے جنس ایک ہو تو برابری ہونا بھی لازم ہے، البتہ قرض کے طور پر جو لین دین ہوتا ہے اس میں  ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری نہیں ہے ، بلکہ اس میں ادھار جائز ہے۔

لہذا اگرایک گھر والے ضرورت پڑنے پر  دوسرے گھر والوں سے آٹا، چینی وغیرہ بطور قرض لیتے ہوں اور بعد میں اتنی ہی مقدار لوٹا دیتے ہوں تو چوں کہ یہ قرض کا معاملہ ہے؛ اس لیے اس میں ادھار  جائز ہے، یہ خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ہے، چنانچہ جس طرح رقم بطورِ قرض لے کر کچھ عرصے بعد واپس کرنا درست ہے، اسی طرح ان اشیاء کو بطورِ قرض لے کر کچھ مدت بعد لوٹانا درست ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اشیاء بسااوقات اتنی کم ہوتی ہیں کہ کیل اوروزن کے تحت نہیں آتیں، اس وجہ سے بھی پڑوس میں ان کا لین دین جائز ہے۔فقط واللہ اعلم

فتاویٰ شامی میں ہے:

'' فصل في القرض: (هو) لغةً: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعاً: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه، وهو أخصر من قوله: (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه، (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس، (مثلي) خرج القيمي، (لآخر ليرد مثله) خرج نحو: وديعة وهبة.(وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك ۔۔۔ (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً فصح استقراض جوز وبيض) وكاغد عدداً (ولحم) وزناً وخبز وزناً وعدداً كما سيجيء ۔۔۔ (قوله: في مثلي) كالمكيل والموزون والمعدود المتقارب كالجوز والبيض''.  (کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیۃ، فصل فی القرض، ج:۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۷ ،ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

'' ويجوز القرض فيما هو من ذوات الأمثال كالمكيل والموزون، والعددي المتقارب كالبيض، ولا يجوز فيما ليس من ذوات الأمثال كالحيوان والثياب، والعدديات المتفاوتة''۔(کتاب البیوع، الباب التاسع عشر فی القرض و الاستقراض، ج: ۳ ؍ ۲۰۱ ، ۲۰۲ ،ط: رشیدیة ) فقط

اسکول میں ایڈوانس فیس لینا

 اگر ادارے کا یہ ضابطہ ہے کہ وہ ایڈوانس فیس لیتا ہے،تو ادارے والوں کے لیے ایڈوانس فیس لینے کی گنجائش ہوگی، اور اسی طرح اگر اسکول والوں نے یہ واضح کردیا تھا کہ  بچے کے اخراج کے وقت خواہ   مہینے کا درمیان ہو یا آخر  میں پوری فیس بہرصورت  لی جائے گی ،اور اس کا رواج بھی ہو کہ مہینے کے  درمیان یا آخر میں اسکول سے چلے جانے والے  بچےسے پورے مہینے کی فیس لی جاتی ہو  تو مہینے کے  درمیان یا آخر   میں بچےکے اسکول چھوڑدینے سے  فیس لینا درست ہوگا، اوراگر اسکول والوں نے نہ وضاحت کی ہو نہ ہی اس کا رواج ہو تو اسکول چھوڑنے پر اس مہینے کی فیس  لینا درست نہیں ہوگا،البتہ جتنے دن بچہ سکول آیا ہے،اسی کی بقدر فیس لی جا سکتی ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"لا ‌يستوجب ‌الأجر ‌قبل الفراغ لما بينا. قال: (إلا أن يشترط التعجيل) لما مر أن الشرط فيه لازم."

(‌‌كتاب الإجارات، باب الأجر متى يستحق، ج:9، ص:74، ط: دار الفكر)

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

"السادسة العادة المحکمة۔۔۔۔واعلم ان العادة العرف رجع الیہ فی مسائل کثیرة حتی جعلوا ذلک اصلا........ الخ."

(القاعدة السادسة العادة محكمة، ج:1، ص:295، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ ہے: 

"قالوا الأجير المشترك من يستحق الأجر بالعمل لا بتسليم نفسه للعمل والأجير ‏الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه ‏لاستحقاق الأجر وبعضهم قالوا الأجير المشترك من يتقبل العمل من غير واحد ‏والأجير الخاص من يتقبل العمل من واحد‎…‎‏ والأوجه أن يقال الأجير المشترك ‏من يكون عقده واردا على عمل معلوم ببيان عمله والأجير الخاص من يكون ‏العقد واردا على منافعه ولا تصير منافعه معلومة إلا بذكر المدة أو بذكر ‏المسافة. كذا في التبيين.‏"

 (كتاب الإجارة، الباب الثامن والعشرون في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك، ج:4، ص:500، ط: 

ايڈوانس رقم کی حیثیت

  کرایہ دار سے سیکورٹی کے طورپرکچھ رقم(ایڈوانس) وصول کرنادرست ہے، یہ  رقم  مالک کے پاس  ابتداً  امانت اور عرفاً کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہونے کی وجہ سے قرض ہوتی ہے،لہذا اس پر قرض والے احکام لاگو ہوں گے :

اس کو کاروبار میں لگانا اور اس سے نفع کمانا درست ہوگا،نفع  مالکِ  مکان کا  ہوگا نہ کہ کرایہ دار کا ،البتہ دکان چھوڑتے وقت یہ رقم کرایہ دارکوواپس لوٹانالازم ہے۔

شرح المجلۃ لرستم باز میں ہے:

"الأمانة غير مضمونة فإذا هلكت أو ضاعت بلا صنع الأمين ولا تقصيره فلا يلزمه الضمان ... أمّا إذا هلكت بتعدّي الأمين أو تقصيره فإنه يضمن ... إذا هلك مال شخص عند آخر فإن كان أخذه بدون إذن المالك يضمنه على كل حال وإن كان أخذه بإذن صاحبه لا يضمن؛ لأنه أمانة في يده مالم يكن أخذه بصورة سوم الشراء وسمّي الثمن فهلك المال؛ لأنه حينئذٍ يلزمه الضمان."

(شرح المجلة لرستم باز، الكتاب السادس في الأمانات ،الباب الأول ، ج: 1، ص: 338+ 339، ط: رشيدية)

Saturday 20 July 2024

ایمان ویقین

  ایمان و یقین اور ایمان و عقائد میں کوئی تضاد نہیں ہےبلکہ یہ قریب المفہوم الفاظ ہیں،فقہاء کا معمول یہ ہوتاہے کہ پہلے ایمان کو بیان کرتے ہیں اس کے بعدعقائد کا ذکر کرتےہیں، اور ایمان و یقین سے بھی یہی مطلوب ہوتاہےکہ جن جیزوں پر ہم ایمان لائے ہیں اورجوہمارے عقائد ہیں ان میں پختگی ضروری ہے،لہٰذا  دونوں لفظوں  کا مفہوم قریب قریب ہے۔

(وبالآخرۃ ھم یوقنون )یقین کا مقابل شک و تردد ہے ،اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ آخرت کی زندگی کی محض تصدیق کرنا مقصود  کو پورا نہیں کرتا،بلکہ اس کا ایسا یقین رکھناضروری ہے جیسے کوئی چیزآنکھوں کے سامنے ہو۔

(معار ف القرآن )

لہٰذااتنا یقین بنانا فرض ہے کہ جو بندہ کو اللہ کے احکامات پر کھڑا کرے ،اور اللہ کے وعدوں اور وعیدوں میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔

گروی مکان لینا اور اس رہایش اختیارکرنا

 واضح رہے کہ گروی "رہن"  کا  شرعی  حکم یہ  ہے کہ  ضرورت  کی  وجہ  سے کسی قرض کے  مقابلے میں "رہن" لینا اور دینا درست ہے، لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک  ہی کی  ملک  میں  رہتی ہے،  اور  مرتہن  (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع  کمانے  کی اجازت نہیں ہوتی، اگر رہن میں رکھی ہوئی چیز کو مرتہن نے استعمال کرلیا  یا زیادہ قیمت میں فروخت  کیا تو اُس چیز سے نفع حاصل کرنا  سود کے زمرے میں آئے گا؛ کیوں کہ رہن قرض کے بدلے ہوتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے نفع حاصل کرنا سود ہے۔

لہذا  گروی پر مکان لینا دینا درست ہے، لیکن گروی میں لیا ہوا مکان سے نفع اٹھانا جائز نہیں۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار (5/ 166):
’’لايحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم، 
 قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم.
ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً‘‘. 
  ’’وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّهَمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاه لَمَا اَعْطَاه الْدَّرَاهمَ وَهذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَهوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ‘‘. (الدر المختار مع ردالمحتار، ج۵/ ص۳۱۱) 
فقط