https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 24 July 2024

زکوٰۃ کن کودیناجائز

 اپنے اصول (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع (اولاد، اور ان کی نسل یعنی پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ) کو اور اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکات دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار مثلًا بھائی، بہن، چاچا، پھوپھی، ماموں خالہ وغیرہ اور ان کی اولاد  کو زکاۃ دینا جائز ہے (بشرطیکہ مستحقِ زکات ہوں)، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں زکات کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے، اسی طرح بہو اور داماد کو بھی زکات دینا جائز ہے۔

 زکاۃ  اس مسلمان عاقل بالغ شخص(اپنے اصول و فروع زوجین کے علاوہ)کو دی جاسکتی ہے  جس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر  رقم نہ ہو، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکات لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے  ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکات دینا اور اس کے لیے زکات لینا جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 49):

"ومنها: أن لاتكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكًا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفًا إلى نفسه من وجه".

غریب نابالغ ناسمجھ کوزکات دینا

 اگر کسی غریب آدمی کا نابالغ بچہ سمجھ دار ہو اور زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور اگر نابالغ بچہ ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ خود اٹھاتا ہو تو اس صورت میں ایسے بچے کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوگا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 356):

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."

وفي الرد:

"(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

غریب نابالغ سمجھدار کوزکات دینا

 اگر کسی غریب آدمی کا نابالغ بچہ سمجھ دار ہو اور زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور اگر نابالغ بچہ ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ خود اٹھاتا ہو تو اس صورت میں ایسے بچے کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوگا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 356):

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."

وفي الرد:

"(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

چچا اور پھوپی کو زکوٰۃ دینا

 اپنے اصول (والدین، دادا، نانا وغیرہ) وفروع (اولاد، ان کی نسل) کو  اور اسی طرح بیوی کو زکاۃ  دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار چاچا، چچازاد بھائی، پھوپھی اور ان کی اولاد اگر مستحقِ زکاۃ ہو تو ان کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں زکاۃ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔

ملحوظ رہے کہ زکاۃ  اس شخص کو دی جاسکتی ہے  جو  غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے  ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے

سوتیلی بیٹی کو زکوٰۃ دینا اور اس سے پردہ کا حکم

 1.  مذکورہ شخص  نے جب  اس لڑکی کی کفالت اپنے ذمہ لے لی  تو اس کفالت کی وجہ سے  مذکورہ لڑکی کے جو  واجبات اس شخص کے ذمے  لازم ہو گئے ان واجبات  کو  تو  زکات کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں،  البتہ اس کے علاوہ  اگر  زکات کی رقم دینا چاہے تو جائز ہو گا بشرطیکہ وہ اس کو اپنے ذاتی کاموں میں استعمال کرے۔

2.  اگر بیوی سے صحبت ہو گئی ہو تو بیوی کی بیٹی محرم بن جاتی ہے،  اور اس سے پردے  کا حکم نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 50):

"و يجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 30):

"(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة ..."

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 129):

"(قوله: ولا إلى ولده وولد ولده وإن سفل) سواء كانوا من جهة الذكور أو الإناث و سواء كانوا صغارًا أو كبارًا؛ لأنه إن كان صغيرًا فنفقته على أبيه واجبة."

بھائی کو زکوٰۃ دینا

 بھائی اگر مستحقِ زکات ہو (یعنی اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر ضرورت سے زائد رقم یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنا سامان نہ ہو اور وہ سید/ہاشمی نہ ہو) تو اس کو رقم کا مالک بنا کر زکات دی جاسکتی ہے، بلکہ دوسروں کے مقابلہ میں مستحق بھائی کو زکات دینا افضل ہے، نیز قرابت داروں کو زکات دینے میں دھرا اجر ملتا ہے: ایک زکات ادا کرنے کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ البتہ زبان سے زکات کا لفظ کہہ کر دینا ضروری نہیں ہے، کسی اور عنوان مثلاً ہدیہ وغیرہ کہہ کر بھی زکات دے سکتے ہیں، بشرط یہ کہ دیتے وقت زکات کی نیت ہو۔ نیز زکات میں مستحق کو زکات کی رقم کا مالک بنانا ضروری ہے، اس لیے مستحق بھائی کو بتائے بغیر یا اس کی اجازت کے بغیر زکات کی رقم سے اس کے گھر کے اخراجات یا اور کوئی ضرورت پوری کرنے سے زکات ادا نہیں ہوگی۔

آپ بھائی کو زکات کا بتائے بغیر یوں دے سکتے ہیں کہ یہ رقم آپ کے لیے ہے، یا آپ کو ہدیہ ہے، یا آپ کے ماہانہ اخراجات و راشن وغیرہ کے لیے ہے، اس سے زکات ادا ہوجائے گی، پھر وہ جہاں چاہے صرف کرے۔

ملحوظ رہے کہ اپنی اولاد اور ان کی اولاد (پوتا پوتی، نواسا نواسی، نیچے تک) کو اور اپنے والدین اور ان کے والدین (دادا دادی، نانا نانی، اوپر تک) کو زکات دینا جائز نہیں ہے، نیز شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو زکات نہیں دے سکتی، اِن رشتوں کے علاوہ باقی سب مستحق رشتہ داروں کو زکات دی جاسکتی ہے۔

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:190، ط: دار الفكر):

والأفضل في الزكاة والفطر والنذر، الصرف أولًا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته، كذا في السراج الوهاج."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار ) (ج:2، ص:346، ط: دار الفكر-بيروت):

"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة."

وفيه أيضًا (ج:6، ص:733):

"(نوى الزكاة إلا أنه سماه قرضا جاز) في الأصح لأن العبرة للقلب لا للسان."

وفيه أيضًا (ج:2، ص:344):

"يشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره."

زکوۃ کی رقم سے گھر تعمیر کرانا

 اگر آپ    زکوۃ کے مستحق ہیں ،یعنی آپ کی ملکیت میں ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی  ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم یا مالِ تجارت نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  سید ، ہاشمی ہیں   ، تو آ پ کا زکوۃ لینادرست ہے ،اور آپ اس رقم کے مالک بن جائیں گے ،اور پھر اپنے مال کو جہاں چاہیں خرچ کر سکتے ہیں ،لہذامکان  تعمیر کرنا بھی اس زکوۃ کے مال سے جائز ہوگا۔ 

ملحوظ رہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر رقم آپ کی ملکیت میں موجود ہونے کی صورت میں  آپ کے لیے مزید زکات لینے کی  اس وقت تک اجازت نہیں ہوگی جب تک رقم خرچ ہوکر نصاب سے کم نہ رہ جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(الباب السابع في المصارف ،ج:1،ص:187 ،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

در ر الحکام میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء."

(الفصل الاول فی بیان بعض القواعد المتعلقۃ باحکام الاملاک،ج:3،ص:201،ط:دار الجيل)

سودی رقم سے غیر مسلم کا علاج کرانا

  حرام مال اگر اصل مالک یا اس کی موت کی صورت میں اس کے ورثاء  کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں ثواب کی نیت کے بغیر  فقراء پر  صدقہ کرنا واجب  ہوتا ہے،  کافر فقیر کو بھی ایسا مال دے سکتے ہیں، تاہم مسلمان فقراء پر صدقہ اولی ہے۔

  غیر  مسلم شخص اگر محتاج ہو تو ایسی صورت میں سودی رقم اسے دے سکتے ہیں؛ تاکہ وہ اپنا علاج کرائے بشرطیکہ سودی رقم اصل مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو، پس جن افراد سے یا ادارے سے سود وصول کیا ہو اگر ان کو لوٹانا ممکن ہو تو اصل افراد کو واپس کرنا شرعًا ضروری ہوگا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"بنک کی سودی رقم غریب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیرمسلم کو دینا جائز ہے؟

الجواب:

دے سکتے ہیں، مگر بہتر نہیں ہے، حاجت مند مسلمانوں کا حق مارنے کے مثل ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب"۔

( کتاب الزکاة، بعنوان: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیر مسلم کو سپرد کرنا اور غیر مسلم کو زکوۃ اور سود کی رقم دینا، ۷ / ۱۸۱)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق". ( ١٢ / ١٧٢)

 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه".(٥ / ٩٩)

فتاوی شامی میں ہے:

لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ اهـ.

( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٨٥، ط: دار الفكر)

منحة الخالق لابن العابدين میں ہے:

وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَإِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."

(منحة علي البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

زکوٰۃ کی رقم سے غریبوں میں راشن تقسیم کرنا

 جس طرح مستحق زکوۃ شخص کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اسی طرح زکوۃ کی رقم سے راشن خرید کر اس کو مالک بنایا جا سکتا ہے، ایسا کرنے سے زکوۃ ادا کرنے والے کی زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ البتہ جتنی رقم کا راشن خریدا گیا اور مستحق کو مالک بناکر دیا گیا، اتنی رقم کی زکاۃ ادا ہوگی، راشن خرید کر لانے اور منتقل کرنے کا کرایہ، راشن پیکج بنانے کے لیے مزدوروں کی اجرت وغیرہ زکاۃ کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اگر ایسا کیا گیا تو جتنی رقم کرایہ وغیرہ میں صرف ہوگی اتنی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك)  خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم 

(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه، ولا يخفى أنه يشترط كونه فقيرا، ولا حاجة إلى اشتراط فقر أبيه أيضا لأن الكلام في اليتيم ولا أبا له فافهم (قوله كما لو كساه) أي كما يجزئه لو كساه ."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:257،سعید)

زکوٰۃ کے پیسے سے غریبوں کے لیے آروپلانٹ لگانا

 زکاۃ کی ادائیگی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ زکاۃ کی رقم کسی فقیر مستحق کو مالک بنا کر اس کے ہاتھ میں وہ رقم دی جائے، لہذا کسی ایسے مصرف میں زکاۃ کی رقم لگانا جس سے فائدہ تو غریب مستحق اٹھا رہے ہوں، مگر وہ رقم ان کی ملکیت میں نہیں دی جارہی ہو، اس طرح صرف کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی، گو یہ بہت ہی ثواب کا کام ہے۔

صورتِ مسئولہ میں پانی کا پلانٹ لگانے کے لیے زکاۃ کی رقم استعمال کرنا درست نہیں ہے، بلکہ وہ رقم کسی فقیر مستحق کے ہاتھ میں دینا ضروری ہے اس کے بغیر وہ رقم زکاۃ میں شمار نہیں ہوگی۔

 آپ R.O پلانٹ لگاکر  غریبوں کے لیے صاف پانی کا انتظام کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ہی نیک جذبہ ہے، اور اس پر بہت اجر کی امید ہے، لہٰذا اگر آپ کی استطاعت ہے تو نفلی صدقات یا عطیات سے یہ کام کروالیجیے یا دیگر اَصحابِ خیر کو متوجہ کردیجیے۔

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

" لايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".

(1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف، ط: رشیدیه)

بیٹے کو زکوٰۃ دینا

 والد کے لیے اپنی زکات اپنے محتاج بیٹے کو دینا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 188):

"و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

مسجد میں زکوٰۃ کی رقم لگا نا

 زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مسلمان مستحقِ زکات شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے؛ اس لیے  مسجد میں   یا مسجد کے کسی کام میں زکات کی رقم نہیں لگائی جاسکتی  ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔

البتہ نفلی صدقات اور عطیات مسجد میں دیے جاسکتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

" لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".   

(کتاب الزکات ،الباب السابع فی المصارف،ج:1،ص:188،المطبعۃ الکبرٰی الامیریہ)

سالی کو زکوٰۃ دینا

 اگر آپ کی سالی مستحقِ زکاۃ ہے (یعنی اس کی ذاتی ملکیت میں بنیادی ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو) نیز آپ اور آپ کی بیوی کے ان کے ساتھ مشترک منافع بھی نہیں ہیں (یعنی خرچہ مشترک نہیں ہے، اور جو چیز اسے دیں گے وہ لوٹ کر آپ کے پاس نہیں آئے گی) تو  آپ کا اور آپ کی بیوی کا اسے زکاۃ دینا جائز ہے۔ نیز  جب آپ کی سالی اس رقم کی مالک بن جائے گی تو وہ اس رقم سےکوئی بھی سامان فریج وغیرہ خرید سکتی ہے اور اس کے شوہر سمیت تمام گھر والے اس کو استعمال بھی کر سکتے ہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):
"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 49):
"ومنها: أن لاتكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكًا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفًا إلى نفسه من وجه"