https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 3 August 2024

سحروافطار کے لیے مسجد کی حدود میں سایرن بجانا

 مسجد کی حدود میں یاحدودمسجدسےباہر رکھے ہوئے ساؤنڈسسٹم سے سحری وافطاری کے اوقات میں ایسا سائرن بجانا جس میں میوزک  ہوقطعاجائزنہیں،البتہ سادہ سائرن کی بقدرضرورت گنجائش ہے،تاہم بہتریہ ہے کہ سائرن کومسجدکی حدودسے باہربجایاجائےتاکہ مسجدکوشوروشغب سےپاک رکھاجاسکےہےاورضرورت بھی پوری ہو۔

المبسوط میں ہے:

"ولا يقام الحد في المسجد، ولا قود، ولا تعزير لما فيه من وهم تلويث المسجد، ولأن المجلود قد يرفع صوته، وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رفع الصوت في المسجد بقوله صلى الله عليه وسلم «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم ورفع أصواتكم»، ولكن القاضي يخرج من المسجد إذا أراد إقامة الحد بين يديه".

(کتاب الحدود،باب الاقراربالزنا،ج:9،ص:102/101،ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وينبغي أن يكون ‌بوق ‌الحمام يجوز كضرب النوبة. وعن الحسن لا بأس بالدف في العرس ليشتهر. وفي السراجية هذا إذا لم يكن له جلاجل ولم يضرب على هيئة التطرب اهـ.أقول: وينبغي أن يكون طبل المسحر في رمضان لإيقاظ النائمين للسحور كبوق الحمام تأمل".

(کتاب الحظروالاباحة،ج:6،ص:350،ط:دارالفکر)

گدھاحرام ہے

  گدھا حرام جانوروں میں داخل ہے ، گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وأما الحمار الأهلي فلحمه حرام، وكذلك لبنه وشحمه، واختلف المشايخ في شحمه من غير وجه الأكل فحرمه بعضهم قياسا على الأكل وأباحه بعضهم وهو الصحيح، كذا في الذخيرة".

(کتاب الذبائح ،الباب الثانی فی بیان ما یؤکل من الحیوان،ج:5،ص:290،دارالفکر)

یاقوت کی انگوٹھی ثواب کی نیت سے پہننا

 ثواب کی نیت کے ساتھ  یا قوت پہننا درست نہیں ہے  ،کیوں کہ پتھر  کے پہننے کے ساتھ کسی  قسم كا کوئی ثواب مشروط نہیں ہے ، البتہ  ثواب کی نیت کے  بغیر نگینہ والی چاندی کی انگوٹھی پہن لے تو درست ہے ،بعض ضعیف روایتوں میں  بعض پتھروں کے بارے میں  بركت كا ذکر ہے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(ولا يتختم) إلا بالفضة لحصول الاستغناء بها فيحرم (بغيرها كحجر) وصحح السرخسي جواز اليشب والعقيق وعمم منلا خسرو (وذهب وحديد وصفر) ورصاص وزجاج وغيرها لما مر فإذا ثبت كراهة لبسها للتختم ثبت كراهة بيعها وصيغها لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز وتمامه في شرح الوهبانية (والعبرة بالحلقة) من الفضة (لا بالفص) فيجوز من حجر وعقيق وياقوت وغيرها وحل مسمار الذهب في حجر الفص ۔۔۔(قوله فيحرم بغيرها إلخ) لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: نهى رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار فطرحه فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالا " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام ۔۔۔وفي الجوهرة والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء۔۔۔فالحاصل: أن التختم بالفضة حلال للرجال بالحديث وبالذهب والحديد والصفر حرام عليهم بالحديث۔۔۔ولا يتختم إلا بالفضة الذي هو لفظ محرر المذهب الإمام محمد رحمه الله تعالى فافهم."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة ، فصل في اللبس ، ج : 6 ، ص : 359/60 ، ط : سعيد كراچي)

ٹرین میں نماز

 ٹرین میں فرض واجب سنت اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے، خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو، ٹرین چل رہی ہو یا رکی ہوئی ہو، البتہ ٹرین میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، البتہ سنن ونوافل قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتی ہیں۔

اگر ٹرین میں اس قدر رش ہو کہ قبلہ رو کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو اور وقت کے اندر کسی اسٹیشن پر اتر کر استقبالِ قبلہ اور قیام کے ساتھ نماز پڑھنا بھی ممکن نہ ہو  اور ٹرین مشرق یا مغرب کی سمت جارہی ہو تو دو سیٹوں کے درمیان قبلہ رو ہو کر قیام اور  رکوع کر کے نماز ادا کرے اور سجدہ کے لیے  پچھلی سیٹ پر کرسی کی طرح بیٹھ جائے، یعنی پاؤں نیچے ہی رکھے اور سامنے سیٹ پر سجدہ کرے، اس عذر کی صورت میں سجدے کے لیے  گھٹنے کسی چیز پر ٹیکنے کی ضرورت نہیں، اور اس کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔ البتہ اگر ٹرین شمال یا جنوب کی جانب جارہی ہو تو اس صورت میں مذکورہ طریقہ کار کے مطابق نماز ادا کرنا جائز نہ ہوگا۔

اور اگر  مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالیٰ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة". (البحر الرائق، الکتاب الطهارة، باب التیمم، رشیديه ۱/ ۱۴۲

Friday 2 August 2024

رشوت دیکر لائسنس بنوانا

 رشوت لینے اور دینے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت  فرمائی ہے، چنانچہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں،  اور  گاڑی چلانے کی مطلوبہ اہلیت کے بغیر یا حکومت کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے  لیے مقرر  کیے گئے قانونی تقاضوں (ٹیسٹ وغیرہ) کو مکمل  کیے بغیر محض رشوت کی بنیاد پر  ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)  حاصل کرنا بھی ناجائز ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص   گاڑی چلانے کی مطلوبہ اہلیت بھی رکھتا ہو اور حکومت کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے  لیے مقرر  کیے گئے قانونی تقاضوں (ٹیسٹ وغیرہ) کو  بھی پورا کر چکا ہو لیکن اس کے باوجود  متعلقہ ادارہ  یا لوگ رشوت کے بغیر اسے ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)  دینے پر راضی نہ ہوں تو پھر بھی اسے  چاہیے کہ  وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے بغیر کسی طرح (مثلا حکام بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)  اسے  ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)   مل جائے۔

لیکن اگر ڈرائیونگ لائسنس کی شدید ضرورت ہونے اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہونے کی بنا پر اسے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے  مجبورا  رشوت دینی ہی پڑے تو  وہ گناہ گار نہ ہوگا،  کیوں کہ اپنے جائز حق کی وصولی کے  لیے اگر مجبورًا  رشوت دی جائے تو اس پر رشوت دینے کا گناہ نہیں ملتا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔

بہرحال! رشوت دے کر لائسنس بنانے پر توبہ و استغفار کیا جائے۔

1. جب آپ کو موٹر سائیکل اور گاڑی چلانا آتی ہے اور آپ نے کسی طرح لائسنس حاصل کر لیا ہے تو اب اس لائسنس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

2. ابتداءً ہی قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر لائسنس کا حصول درست نہیں۔

جس وقت یہ رقم دی جا رہی تھی اس وقت اگر معلوم نہ تھا کہ یہ رقم کس مد میں دی جا رہی ہے تو بھی حکم یہی رہے گا۔

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: «لعن رسول الله ‌الراشي والمرتشي» رواه أبو داود، وابن ماجه."

ــ (وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ‌الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة."

(کتاب الامارۃ و القضاء، باب رزق الولاۃ و هدایاهم، جلد: 6،  صفحہ: 2437، طبع: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، جلد:

جانورکو خصی کرنا

 جانور کو موٹا اور فربہ بنانے یا کسی منفعت کی نیت سے خصی کرنا جائز ہے،اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں، بس یہ خیال رہے کہ اس عمل کے دوران جانور کو کم از کم تکلیف ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) جاز (‌خصاء ‌البهائم) حتى الهرة، وأما خصاء الآدمي فحرام قيل والفرس وقيدوه بالمنفعة وإلا فحرام. قال ابن عابدین: (قوله وقيدوه) أي جواز ‌خصاء ‌البهائم بالمنفعة وهي إرادة سمنها أو منعها عن العض بخلاف بني آدم فإنه يراد به المعاصي فيحرم."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة‌‌، فصل في البيع: 6/ 388، ط: سعید)

بھانجی کا خالہ اور خالو کے ساتھ سفر

 بھانجی کے لیے اس کی خالہ کے شوہر محرم نہیں ہیں، لہذا محرم کے بغیر سفر کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ کرے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"1862 - حدثنا ‌أبو النعمان: حدثنا ‌حماد بن زيد، عن ‌عمرو، عن ‌أبي معبد، مولى ابن عباس ، عن ‌ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم، ولا يدخل عليها رجل ‌إلا ‌ومعها محرم، فقال رجل: يا رسول الله، إني أريد أن أخرج في جيش كذا وكذا وامرأتي تريد الحج؟ فقال: اخرج معها".

(‌‌‌‌كتاب الحج، باب حج النساء، 3/ 19، ط :  المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفيه إشارة إلى أن الحرة لا تسافر ثلاثة أيام بلا محرم. واختلف فيما دون الثلاث وقيل: إنها تسافر مع الصالحين، والصبي والمعتوه غير محرمين كما في المحيط قهستاني".

(‌‌‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 6/ 390، ط: سعيد)

پروٹین کے کیڑوں کا کاروبار

 پروٹین یعنی غذا کےطور پر استعمال ہونے والے کیڑوں کا کھانا حرام ہے، لہذا مذکورہ کیڑوں کا کاروبار کرنا بھی ناجائز ہے۔

فتاویٰ شامی (حاشية ابن عابدين ) میں ہے:

"قال في الحاوي: ولا يجوز بيع الهوام كالحية والفأر والوزغة والضب والسلحفاة والقنفذ وكل ما لا ينتفع به ولا بجلده".

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فی بیع دودۃ القز، ج:5، ص:68، ط:ایچ ایم سعید)

حنین نام رکھنا

 حُنَین (ح کے پیش اور نون کے زبر کے ساتھ) مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے، جہاں غزوہ حنین کا معرکہ پیش آیا تھا، اس کا ایک معنی ’’رحمت‘‘ کابھی ہے، نیز بعض صحابہ کرام کا بھی یہ نام رہا ہے، لہذا ’’حنین‘‘ نام رکھنا   صحیح اور باعثِ برکت ہے، اورحنین کے بعد بطور لاحقہ اللہ کا نام لگانا درست ہے۔

معجم البلدان میں ہے:

"حنين:
يجوز أن يكون تصغير الحنان، وهو الرحمة، تصغير ترخيم۔۔۔وهو اليوم الذي ذكره جل وعز في كتابه الكريم: وهو قريب من مكة، وقيل:
هو واد قبل الطائف، وقيل: واد بجنب ذي المجاز، وقال الواقدي: بينه وبين مكة ثلاث ليال."

(ج: 2، ص: 313، ط: دار صادر)

اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں ہے :

"حنين مولى العباس بن عبد المطلب.

كان عبدا وخادما للنبي صلى الله عليه وسلم فوهبه لعمه العباس رضي الله عنه، فأعتقه، وهو جد إبراهيم بن عبد الله بن ‌حنين."

(حنين مولی العباس بن عبدالمطلب ، 2/ 91 ، رقم :1296،ط: دارالكتب العلمية)

گھرکاشیشہ ٹوٹنانظرکی علامت ہے

 مذکورہ تصور غلط ہے، شریعتِ  مطہرہ میں اس کی کوئی اصل نہیں ۔

المحصول  للرازی میں ہے:

"أن الحكم الشرعي لا بد له من دليل، و الدليل إما نص أو إجماع أو قياس، و لم يوجد واحد من هذه الثلاثة؛ فوجب أن لايثبت الحكم، إنما قلنا أن الحكم الشرعي ‌لابد ‌له ‌من ‌دليل..."

(‌‌المسألة العاشرة، ج:6، ص168، ط: مؤسسة الرسالة)

اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح استعمال کرنا

 اونٹ کی ہڈی کی تسبیح کا استعمال جائزہے ۔

مراقی الفلاح میں ہے:

'( وكل شيء ) من أجزاء الحيوان غير الخنزير ( لا يسري فيه الدم لا ينجس بالموت )؛ لأن النجاسة باحتباس الدم وهو منعدم فيما هو ( كالشعر والريش المجزوز )؛ لأن المنسول جذره نجس ( والقرن والحافر والعظم ما لم يكن به ) أي العظم ( دسم ) أي ردك؛ لأنه نجس من الميتة، فإذا زال عن العظم زال عنه النجس والعظم في ذاته طاهر؛ لما أخرج الدارقطني: " إنما حرم رسول الله صلى الله عليه و سلم من الميتة لحمها "، فأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به' .

(کتاب الطہارۃ، 1/107، بیروت )

فجر کی نماز کے بعد سونا

 فجر کی  نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک سونا مکروہ  ہے ، اور  فجرکی  نماز کے بعد سونے والا اس دعا برکت سے محروم ہوجا تا ہے جو  نبی کریم ﷺنے  اپنی امت کے لیے   کی ہے ۔

سنن ترمذی میں ہے: 

"عن صخرالغامدى قال قال رسول اللّه-صلى الله عليه وسلم  : اللّهمّ بارك لأمّتِى فى بكورها ، قال: وكان إذا بعث سرِيّة أو جيشا بعثهُم أوّل النّهار...إلخ" 

(أخرجه الترمذي  في سننه ، كتاب البيو ع ، باب ما جاء  في التبكير  بالتجارة ، رقم  الحديث : 1256  ،  ج: 1 ، ص : 329 ، الناشر : مكتبة المكنز الإسلامي)

 ترجمہ : 

’’ حضرت صخر غامدی ؓ سے مروی ہے   کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی :’’  اے اللہ میری امت کےسویرے کے کاموں میں  برکت فرما ‘‘حضرت صخر ؓ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ جب کوئی چھوٹا یا بڑا لشکر روانہ  فرماتے تو دن کے اول حصے میں ( فجر کے فورا بعد )روانہ  کرتے تھے ‘‘

( ترجمہ از تحفۃ  الالمعی لسعید احمد پالن پوری  ، ج : ۴ ، ص : ۱۱۲ ،  طبع : زمزم پبلشرْز ) 

فتاوی سراجیہ میں ہے : 

" يكره النوم  في أول النهار و فيما بين المغرب و العشاء ...إلخ"

(كتاب الكراهية ،  باب المتفرقات ، ص: 336 ، الناشر : دار الكتب العلمية) 

کوئلہ سے دانت صاف کرنا

 کوئلہ سے دانت صاف کرنے کی ممانعت سے متعلق  کوئی روایت نہیں مل سکی، باقی دیگر چیزوں کی طرح کوئلہ سے دانت صاف کرنے کا یہی حکم ہے کہ اگر وہ مضرِ صحت نہ تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 

التقریر والتحریر میں ہے:

"الأصل في المنافع الإباحة وفي المضار التحريم."

(الباب الأول في الأحكام وفيه أربعة فصول، 2/ 135، ط: دار الفكر بيروت)

مجمع الانھر میں ہے:

"و اعلم أن الأصل في الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى:﴿هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا﴾ وقال: ﴿كلوا مما في الأرض حلالا طيبا﴾ وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي، فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة."

(کتاب الأشربة، 4/ 244، ط: مکتبة المنار،کوئته)