https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 12 May 2021

مسئلۂ فلسطین

 فلسطین کا قضیہ دنیاکے قدیم ترین مسائل میں سے ایک ہے. یہ کوئی ایسامسئلہ نہیں جوبہت مشکل یاناقابل حل ہو. بلکہ اس کے مداخلت کار بالخصوص امریکہ اسے حل کرنا نہیں چاہتا . امریکہ نے ہی اس مسئلہ کو اب تک زندہ رکھاہے .موجودہ صدرمسٹر جو بائیڈن سے


سابق صدرکے بننسبت زیادہ امید ہے .سابق صدرکے بعض احمقانہ فیصلے بتاتے ہیں کہ امریکہ دوسرے ممالک سے ضوابط کی پاسداری کا خواہشمند ہے. لیکن خود اقوام متحدہ کے رزولیوشنس کی دھجیاں اڑا تارہتاہے. 1967میں اسرائیل نے  بزور طاقت فلسطین کے جن علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا مسڑ ٹرمپ کی انتظامیہ اسے درست قراردیتی تھی. یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پر عمل پیراتھی. جبکہ اقوام متحدہ اس کوغاصبانہ قبضہ گردانتی ہے.1948یعنی قیام اسرائیل  سے پہلے  فلسطین میں یہودی آبادی 6000تھی.دنیاکے دیگرممالک سے یہودیوں کوفلطسینی سرزمین غصب کرکے بسایاگیا ان کے گھراب بھی آئے دن مسمارکئے جاتے ہیں لیکن امریکہ اس پر خاموش رہتا ہے .اس سے ہٹلر کی یہوددشمنی اور ہولوکوسٹ کی معنویت سمجھنے میں بہت مددملتی ہے. بے گناہوں کاقتل ان کے گھروں کومسمار کرناانہیں خانماں برباد کرکے چھوڑ دینا اور قبیح عمل کوجواز فراہم کرنے والے ممالک بھی اس دنیا میں موجودہیں.ان سب کاسرغنہ امریکہ ہے. عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب ,مصر سوڈان اردن,متحدہ عرب امارات اپنے ضمیر کاسوداکرچکے ہیں. ترکی اورایران حق گوئی اور بےباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر بروقت لب کشائی کردیتے ہیں جس کی حیثیت نقارخانہ میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں. 

اسرائیل  کے قیام کو منظور کرتے ہوئے 

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ساڑھے بارہ لاکھ فلسطینی عربوں کے لیے تو فلسطین کا ۴۵ فیصد رقبہ مخصوص کیا، مگر ۶ لاکھ یہودیوں کے لیے ۵۵ فیصد علاقہ دے دیا۔۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے فلسطین کے ۷۵ فیصد رقبہ پر قبضہ کرلیا اور پھر دوسری عرب اسرائیل جنگ ۱۹۷۳ء میں پورا فلسطین اور بیت المقدس یہودیوں کے تسلُّط میں آگیا۔ آج کا اسرائیل ۱۹۴۸ء کے اسرائیل سے تین گنا بڑا ہے۔ اسرائیل محض فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ اور ناجائز قبضہ کرنے پر قانع نہیں ہے،بلکہ اسرائیل کی اپنی پارلیمنٹ میں صہیونی عزائم پر مشتمل جو ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا نقشہ ہے، اس میں اُردن، مصر، شام، عراق، سوڈان اور آدھا سعودی عرب جس میں مدینہ منورہ بھی ہے ‘ شامل ہے، یہ سارا علاقہ اسرائیل اپنی گرفت میں لینے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ 
عالمِ اسلام نے اس تقسیم کو بالکل قبول نہیں کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے اصل باشندوں کو ان کی زمین سے محروم کرکے وہ زمین یہود کو دے دی گئی، دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مقامی اور اصل حق داروں کوبے دخل کرکے ان کے علاقے پر مختلف ملکوں سے آنے والوں کو بسادیا جائے، اور پھر اُن کی ریاست بھی قائم کردی جائے۔

 ١۹٦۷میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے مصر کے صحرائے سینا، شام کی گولان کی پہاڑیاں اور بیت المقدس کے علاقہ پر قبضہ کرلیا، جو کہ اس وقت اُردن کے پاس تھا۔ اقوامِ متحدہ نے ۱۹۶۷ء کے بعد اسرائیل کے قبضہ شدہ علاقہ پر اس کے حق کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی ابھی تک یہ قراردادیں چلی آرہی ہیں کہ اسرائیل کو ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن میں چلے جانا چاہیے، کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کوئی ملک کسی ملک کی زمین کو طاقت کی بنیاد پر قبضے میں نہیں لے سکتا۔
اس کے بعد کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ ہوا، جس میں عربوں سے کہا گیا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو اسے ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر جانے کے لیے ہم مجبور کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں مصر، شام اور چند دیگر عرب ممالک نے اسے تسلیم کیا، لیکن آج تک اقوامِ متحدہ اسرائیل سے یہ علاقے آزاد کرانے اور اسے ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر لے جانے میں ناکام رہی۔ 

آج شام ایران اور مصر کو ایٹمی پاور کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل سے اس کی  آنکھ میں آنکھ ڈال کربات کرسکیں. اور انیس سو سڑ سٹھ سے پہلے کی اسرائیلی پوزیشن پر اسے بھیجا جاسکے. 

تہران ہو گرعالم مشرق کا جنیوا 

شایدکرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے 

لیکن آج یہ ایک ناگفتہ بہ حقیقت ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں مجموعی طورپر سب سے طاقتور اور سب سے ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے اگرچہ اس کی ترقی اور خوشحالی میں عربوں کا خون پسینہ شامل ہے جو کبھی رائیگاں نہیں جائے گا ایک دن فلسطین اپنی مطلوبہ حدود کے ساتھ مستقل اورآزاد مملکت کی حیثیت سے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہو گا.  

رندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ کیوں حق نہیں  اہلِ عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و عنب کا

Saturday 1 May 2021

سابق رکن پارلیمنٹ جناب شہاب الدین صاحب کی وفات

 شہاب الدین. بہار کے شیر صفت ممبرپارلیمنٹ اور غریبوں کے مسیحاتھےان کی موت ہندوستان کے عظیم مرد مجاہد  کاسانحۂ ارتحال ہے. اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے .پسماندگان کوصبرجمیل عطافرمائے اور مسلمانان ہند کو ان کے نعم البدل سے نوازے. . وہبہار کی ہم عصرمسلم سیاست کےسب سے مضبوط و بے باک لیڈراورشیر دل قائد تھے. یقیناً  ان کی وفات سماج و سیاست کا بڑا خسارہ ہے . پسماندہ طبقات کے لئے ان کی حیثیت ایک عظیم مسیحا کی  تھی .

برا ہو زعفرانی گودی میڈیا کا جس نے ان کی ایسی کردار کشی  جیسے وہ کوئی خونخوار  رہزن ہوں حالانکہ مرحوم اقلیتوں ،پسماندہ طبقات اور کمزوروں کے لئے امید کی ایک کرن تھے ان سے منسوب قتل اور جرائم کےبیشتر قصے بے سروپا  ہیں).

بہار کے سیوان سے اٹھا یہ شہاب  اغیار کی سازش کے باوجود طویل عرصہ تک ریاست کامحور و مرکز بنا رہااور یہاں کی ہوائیں ان کے ابرو کے اشاروں کی منتطر رہیں. جب چاہا جیسا چاہا ویسا ہوا ان کی کرشماتی شخصیت کا ہر پہلو قابل رشک تھا یہی ایک بات تھی جس سے آسماں سیاست ان کا دشمن بن بیٹھا تھا

سیاست کے ذریعہ انہوں نے عوام  کی خوب خدمت کی. عوامی خدمات اور فلاح و بہبود کے کاز نےانہیں سیوان کا ہی نہیں ریاست کا بانکا ہیرو بنادیا اورعوام انہیں خوف و دہشت نہیں بلکہ لاڈ،پیار،ناز اور محبت میں'صاحب' کہنے لگے صاحب کی کرشماتی شخصیت کا کمال تھا انہوں نے کئی دہائیوں تک استحصالی ذہنیت اور خودساختہ سیاسی بازیگروں کی ناک مین نکیل ڈال  دی تھی. ان کی بے باکی ضرب المثل تھی.  وہ ایک اصول پسند شخص تھے جس نے کبھی فرقہ پرستوں سے سمجھوتہ نہیں کیا پسماندہ افراد کے حقوق کے لئے وہ ہمیشہ ایک جنگجو کی طرح کھڑا رہا اور جاتے  ہوئےسب کو رلا گیا غم کی اس گھڑی میں مسلمانان ہندان کے کنبہ کے ساتھ ہیں. شہاب الدین کے شاندار سیاسی سفر کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اب ان کی شریک حیات محترمہ حنا شہاب اور جواں سال بیٹے اسامہ شہاب پر  ہے 

Monday 26 April 2021

جناب شاہداحمدخان صاحب رحمہ اللہ کی وفات

 اب سے دوگھنٹہ قبل رفیق محترم جناب شاہد صاحب کی وفات ہوگئی. شروع میں کئ روزتک وہ تھکن محسوس کرتے تھے اتنی شدید کے چلنے پھرنے سے عاجز بالآخر ہسپتال میں داخل کیا گیا دودن آکسیجن پر رہے آج شام انتقال ہوگیا.انہوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انجنئیر نگ کی ڈگری لی.کویت, امریکہ, اورکناڈامیں سروس کی. کناڈاہی میں رہائش اختیارکرلی تھی. باقاعدہ شہریت بھی حاصل تھی. عرصۂ دراز سے علی گڑھ میں ہی مقیم تھے. اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرما ئے  اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے. 

آنے جانے پہ سانس کے ہے مدار 

سخت ناپائدار  ہے دنیا.  

ایک مرتبہ اردن گئے  تو میرے  لئے .بیروت  کی چھپی  ہوئی  نہایت دیدہ زیب  فتح الباری عربی شرح صحیح بخاری ,اورالموردعربی انگلش لغت  لائے.ان  کی وفات  سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے اس کا پر ہو نا بظاہر مشکل ہے. 

اب انہیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر 

.ان سادگی شرافت دیانت للہیت اور خلوص  سے مجھے عشق تھا.  جب بھی  تشریف لاتے  بڑے خلوص سے راقم الحروف سے محو گفتگو رہتے .زیادہ دن ہوجاتے تو خودفون کرکے خیریت معلوم کرتے. افسوس اس وبا ء  عظیم نے  کیسے کیسے عزیز چھین لئے .

روز اک حشر سا محسوس ہواکرتا ہے. 

پھر بھی سنتے ہیں کہ ہے روز قیامت باقی 


Sunday 11 April 2021

مقروض پر زکوۃ

 اگر کسی شخص کے پاس اسی ہزار روپے مالیت کا سونا ہو اور وہ ڈیڑھ لاکھ کا مقروض ہو تو اگر اس شخص کے پاس مذکورہ سونے کے علاوہ چاندی، کیش یا مالِ تجارت میں سے اتنا مال نہیں ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت )کے بقدر بچ جائے تو ایسے شخص پر زکات فرض نہیں ہے۔

Saturday 3 April 2021

حادثۂ فاجعہ

امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی  رحمہ اللہ نے آج دن میں تقریباڈھائی بجے وفات پائی اناللہ واناالیہ راجعون.موت توبہرحال ایک نہ ایک دن آنی ہی تھی لیکن موجودہ حالات میں آپ کی موت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے  ایک جانکاہ حادثہ ہے جس کی تلافی فی الحال بظاہرمشکل سی بات ہے.ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سے ان کی وابستگی لازمی درجہ کی تھی.امت مسلمہ کی فکر,اس کادرد اس کی ترقی وعروج کے ذرایع ووسائل کی کھوج ,مسلمانوں  کی زبوں حالی اور انحطاط کاسدباب اس کی فکراورسبھی درپیش مسائل کاحل آپ کے فکروعمل کا محور تھااسی میں آپ کی عمر صرف ہوئی بلکہ آپ کاپوراخاندان امت مسلمہ کی فکراس کی ترقی وعروج کے لئے فکرمندرہا.آپ کے والد گرامی حضرت مولانامنت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ یکے از بانیان آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ, علامہ انورشاہ کشمیری کے شاگرد رشید اورمجاہد آزادی تھے.ان کے والد یعنی مولاناولی رحمانی کے دادا مولانا محمد علی مونگیری ندوۃ العلماء کے بانی تھے. آپ کاخاندان موضع محی الدین پور ضلع مظفرنگریوپی سے پہلے کانپور پھر مونگیر بہار میں مقیم ہوگیاتھا وہیں مولانامنت اللہ رحمانی,مولاناولی رحمانی پیداہوئے وہیں ان کی خانقاہ اور مدرسہ جامعہ رحمانی ہے. مولاناولی رحمانی کی مختصرسوانح حسب ذیل ہے.



Sunday 28 March 2021

مولانامحمد رفیق قاسمی رحمہ اللہ

  حضرت مولانامحمد رفیق قاسمی صاحب موضع اڈبر ضلع گوڑگانوں حالیہ ضلع نوح میوات ہریانہ میں پیداہوئے.افسوس آج بروزاتوار14شعبان المعظم 1442ھ /28مارچ2021ء بوقت عصروفات پائی اناللہ واناالیہ راجعون.آپ نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے.پی ایچ ڈی عربی زبان میں کیا. اے ایم یو سٹی اسکول میں دینیات کے سابق استاد تھے ریٹائر منٹ کے بعد سے ہی عرصہ دراز سے ڈپریشن کے مرض میں مبتلا تھےسادہ مزاج بے تکلف خوشگفتار اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے .تقریباایک سال قبل آپ کی اہلیہ محترمہ نے وفات پائی تھی کہ آج شب برات کو تقریبادس بجے علی نگر علی گڑھ کے قبرستان میں آپ کو بھی سپرد خاک کردیاگیا.اللہ تعالی مرحوم کوجنت الفردوس میں جگہ دے اور پسماندگان کوصبرجمیل عطافرمائے.آپ مدرسہ معین الاسلام نوح میں  میرے والد  صاحب مرحوم کے ہمدرس تھے.راقم الحروف پر ان کی خاص شفقت وعنایات تھیں انہوں نے سینکڑوں طلباء وطالبات کوگھرجاکربلامعاوضہ عربی زبان ,دینیات اور قرآن مجید کی تعلیم دی.

مرحوم طویل وقت سے صاحب فراش تھےمسلسل علالت نے بالکل نحیف وناتواں کردیاتھا بالآخر عصر کے وقت فرشتۂ اجل کولبیک کہا:

کون جینے کے لئے مرتاہے

لوسنبھالواپنی دنیا ہم چلے

قرآن پر ہاتھ رکھ کر گناہ نہ کرنے کی قسم کھائی پھر وہی گناہ کرلیا توکیا کفارہ ہوا

 محض قرآن پر ہاتھ رکھنے سے قسم منعقد نہیں ہوتی جب تک کے قسم کھانے والا زبان سے الفاظ ادا نہ کرے کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں یا میں قرآن کی قسم کھاتاہوں  کہ فلاں کام نہیں کروں گا؛ لہذا اگر اس نے ان الفاظ کے ساتھ قسم کھائی تھی تو اس کو قسم کے توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا اور اگر ان الفاظ کے ساتھ قسم نہیں کھائی تھی، بلکہ صرف قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر یہ کہا تھا کہ میں یہ کام نہیں کروں گا تو ایسی صورت میں اس پر کفارہ نہیں ہے، لیکن آئندہ پوری کوشش کرے کہ مذکورہ گناہ اس سے صادر نہ ہو۔اگر دو مرتبہ قسم کھا کرتوڑی ہے دو کفارے دینا لازم ہیں۔ 

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ اگر مالی استطاعت ہے تو دس غریبوں کو کپڑوں کا جوڑا دے، یا دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کے برابر رقم دے دے، یا ایک ہی مسکین کو دس دن تک دو وقت کھانا کھلائے یا اسے دس دن تک روزانہ ایک ایک صدقہ فطر کی رقم دیتارہے، اور اگر اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر لگاتار دین دن روزے رکھے۔ فقط واللہ اعلم

Friday 26 March 2021

ایک مجلس کی تین طلاق کا مسئلہ

 ۔ طلاق اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ عمل ہے،  تاہم انتہائی مجبوری کی صورت میں اسے اختیار کرنے کی گنجائش ہے،  شریعت نے مرد کو آسانی دیتے ہوئے اس کا بہترطریقہ بھی بتادیا ہے ،تاکہ اگر  جانبین اپنے اس فعل پر نادم  اور پشیمان ہوں تو  انہیں اس غلطی کی تلافی کرنا ممکن ہو ، وہ بہتر صورت یہ ہے کہ  مرد  اپنی بیوی کو ایسے طہر  ( پاکی) میں طلاق دے  جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلقات قائم نہ کیے ہوں ،  پھر اسے چھوڑدے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے،  اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ مرد  اپنی بیوی کو ایسے طہر  (پاکی) میں طلاق دے  جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلق قائم  نہ کیا ہو ، اس کے بعد اس کے قریب نہ جائے ،  جب دوسرا طہر (پاکی) آئے  تو  اس میں دوسری طلاق دے ،  اور پھر تیسری پاکی میں تیسری طلاق دے دے، ان دونوں طریقوں میں  مرد اور عورت  کو سوچنے اور اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ (1)

لیکن اگر کوئی شخص  شریعت کی عطاء کردہ ان سہولیات کو کام میں نہ لائے  اور بیک وقت تینوں طلاقیں زبان سے کہہ دے تو اس کا یہ اقدام  ناجائز اور بدعت ہے، تاہم  اپنی تاثیر کے لحاظ سے یہ مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے،   بعض ایسے امور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے منع کیا ہے ، لیکن جب کوئی شخص اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ حکم  شرعی اپنے تمام احکام کے ساتھ واقع ہوتا ہے ، مثلاً: ''ظہار''  کو قرآنِ مجید میں  "مُنکَراً مِّنَ القَولِ وَزُورًا"  کہا گیا  ہے ، لیکن جب کوئی  شخص  اپنی بیوی سے ''ظہار'' کرتا ہے  تو اس پر حکمِ شرعی نافذ ہوجاتا ہے، قتلِ ناحق جرم اور گناہ ہے، مگر جس کو گولی یا تلوار مار کر قتل کیا جاتا ہے وہ قتل  ہو ہی جاتا ہے، اس کی موت اس کا انتظار نہیں کرتی کہ گولی جائز طریقے سے  ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے؟  اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن سے یہ سمجھ  میں آتا ہے  کہ  جو شخص  شریعت کی آسانیوں اور سہولتوں کو نظر انداز کرکے  بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔

2۔   قرآن کریم میں ہے :

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229]

ترجمہ:وہ طلاق دو مرتبہ کی ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ  چھوڑ دینا  خوش عنوانی کے ساتھ۔ (بیان القرآن)

         اس آیت  کے شانِ نزول میں مفسرین حضرات یہ بیان کرتے ہیں  کہ ابتدائے اسلام میں لوگ بغیر کسی تعداد اور گنتی کے طلاق دیا کرتے تھے،  مرد جب اپنی بیوی کو  طلاق دیتا  اور اس کی عدت مکمل ہونے کا  وقت قریب ہوتا  تو وہ  رجوع کرلیتا  اور پھر طلاق دے کر دوبارہ رجوع کرتا، اس سے  ان کا مقصد  اس عورت کو تکلیف دینا ہوتا تھا، جس پر قرآنِ کریم کی  یہ آیت نازل ہوئی۔ (2)

         یہی وجہ ہے کہ امام بخاری جیسے جلیل القدر  محدث  نے اسی آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی  کتاب "صحیح البخاری" میں   یہ باب قائم کیا   " باب من أجاز الطلاق  الثلاث"(3)

 امام قرطبی رحمہ اللہ، امام بخاری  رحمہ اللہ کے اس طرز پر تبصرہ کرتے ہوئے  لکھتے ہیں : "اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  مرد کو تین طلاق کا اختیار دینا شریعت کی جانب سے ایک گنجائش ہے ، جو شخص اپنے اوپراز خود تنگی کرے  اس پر یہ حکم لازم ہوجائےگا، ہمارے علماء فرماتے ہیں   کہ فتویٰ دینے والے  ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  ایک ساتھ دی گئی تینوں  طلاقیں واقع ہوتی ہیں، یہ جمہور سلف کا قول ہے"۔ (4)

         امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ آیت   ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ ایک ساتھ دی   گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے ، ا گرچہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے۔ (5)

         3۔ آیت  مذکورہ  میں  " مرتان "  کا معنی  "اثنان" ہے، یعنی طلاقِ رجعی دو ہیں، یہی معنی شانِ نزول کے موافق ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں "مرتان" کامعنی " اثنان"  کے لیے استعمال ہوا ہے:

الف: ﴿وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ﴾ [الأحزاب: 31]

ترجمہ: اور جو کوئی تم میں سے  اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی  اور نیک کام کرے گی  تو ہم اس کو اس کا ثواب دوہرا  دیں گے۔ (بیان القرآن)

ب:       ﴿ أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا﴾ [القصص: 54]

ترجمہ: ان لوگوں کو ان کی پختگی کی وجہ سے دوہرا  ثواب ملے گا۔(بیان القرآن)

         ج:   حدیث میں عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے :

" أن النبي ﷺ توضأ مرتین مرتین".  (6)

لہذا  قرآنی حکم کا خلاصہ یہ ہوا کہ قرآن  طلاقوں کی ترتیب نہیں ،بلکہ تعداد بیان کررہا ہے ۔

          ارشادِ ربانی ہے:

﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

ترجمہ:اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)

         امام شافعی رحمہ اللہ  " کتاب الام" میں  لکھتے  ہیں قرآن پاک اس بات پر دلالت کرتا ہے  جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے  وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب  تک کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس سے نہ آجائے۔ (7)

         5۔ احادیث مبارکہ  سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ  ایک کلمہ یا ایک مجلس میں دی جانے والی تین  طلاقین واقع ہوجاتی ہیں۔

         الف : بخاری شریف  میں ہے:

'' عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله  عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»''(8)

 اس حدیث میں "طلق امرأته ثلاثاً" کا لفظ  اس بات پر دلیل ہے  تین طلاقیں اکھٹی دی  گئی تھیں ، چناں چہ  ''عمدۃ القاری'' میں ہے  کہ "طلق امرأته ثلاثاً"  کا  جملہ  اس  حدیث کے  ''ترجمۃ الباب '' کے مطابق ہے، کیوں کہ اس سے ظاہر یہی ہے  کہ یہ تینوں طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں۔ (9)

          ''فتح الباری'' میں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے "طلقها ثلاثاً" کے ظاہرسے استدلال کیا ہے ؛ کیوں کہ اس سے یہی  بات متبادر ہوتی ہے  کہ یہ اکٹھی دی گئی تھیں۔ (10)

         ب: صحیح البخاری  میں ہے:

'' أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»''۔ (11)

         حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  " فبت طلاقي " کی تشریح میں لکھتے ہیں  کہ  اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ  انہوں نے اس عورت کو ایسی طلاق دی تھی   جس کے بعد تعلق بالکل ختم ہوجاتا ہے ، اوروہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک ساتھ یا الگ الگ  تین طلاقیں دی جائیں ،  اس احتمال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ  امام بخاری رحمہ اللہ   نے ''کتاب الادب'' میں دوسرے طریق سے ذکر کیا ہے  " طلقنی آخر ثلاث تطلیقات"۔ (12)

         ج:  امام بخاری رحمہ اللہ عویمر العجلانی  رضی اللہ عنہ کے واقعہ لعان کے بیان کے بعد  حدیث  کے یہ الفاظ بیان کرتے ہیں:

''قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثاً قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: «فكانت تلك سنة المتلاعنين»''۔ (13)

مذکورہ واقعہ کے متعلق امام ابو داؤد نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں  طلاقوں کو  نافذ کردیا تھا،چناں چہ فرماتے ہیں:

'' عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (14)

         د  : سنن ابن ماجہ میں ہے کہ  عامر شعبی  سے روایت ہے کہ میں نے  فاطمہ بنت حبیش سے  کہا :مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیں ،  انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں  ، وہ یمن سے باہر تھے تو آپﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ قراردیا۔ (15)

         اس روایت سے  امام ابن ماجہ نے ایک  مجلس کی تین طلاقوں پر استدلال کیا ہے، اور باب قائم کیا ہے"باب من طلاق ثلاثاً في مجلس واحد" ،  جس کے تحت اس حدیث کو  ذکر کیا ہے،  اسی روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے سنن نسائی  (16)   میں   اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن  ابی داؤد  (17)میں ذکر کیا ہے۔

          حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ  صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا  اجماع ہوچکا تھا کہ  ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی، اس سلسلے میں محققین  فقہاء  ومحدثین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :

         الف   :   علامہ ابو بکر جصاص  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ  قرآن کریم ، سنتِ مطہرہ اور سلف کا اجما ع  ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کا لازم قرار دینا ہے، اگرچہ ایسا کرنا گناہ  ہے ۔(18)

         ب   :حافظ ابن رجب حنبلی  رحمہ اللہ   لکھتے ہیں کہ ہمیں امت میں سے کسی  ایک فرد کا علم نہیں  جو اس سلسلے میں فیصلہ ، قضا، علم اور فتویٰ دینے میں کھل کر مخالفت کرتا ہے، تاہم ایک چھوٹی سی جماعت سے اختلاف منقول ہے  ، جن پر ان کے معاصرین نے انتہائی درجہ کا انکار کیا ہے،ان میں سے اکثر  اپنے اس مسلک کو چھپاتے تھے، کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے ۔ (19)

          ج   :علامہ شامی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں  کہ جمہور صحابہ ،  تابعین اور ان  کے بعد مسلمانوں کے ائمہ اس مذہب  پر ہیں کہ  تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ (20)

          د     : علامہ نووی رحمہ اللہ   نے لکھا ہے  کہ  جو شخص اپنی بیوی کو کہے : "أنت طلاق  ثلاثاً" (تجھے تین طلاق ہیں)  اس کے حکم میں اختلاف ہے، امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور  جمہور  علماء  فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوں  گی۔ (21)

          ''صحیح مسلم'' میں مذکور حضرت ابن عباس رضی اللہ  عنہ سے  مروی روایت سے استدلال کیا  ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں  میں تین طلاقیں ایک ہوا کرتی تھیں،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں نے ایک ایسے معاملے میں جلد بازی شروع کردی جس میں ان کے لیے سہولت تھی، اگر ہم ان پر تینوں کو نافذ کردیں تو اچھا ہو۔اس کے بعد انہوں نے اس حکم کو نافذ کردیا۔(22)

         اس سلسلے میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:

الف  :  نبی کریمﷺکے زمانے میں جب شوہر ایک طلاق دینے کے بعد دوسری اور تیسری مرتبہ بھی طلاق کے الفاظ استعمال کرتا تھا اور اس کی مراد پہلی دی گئی طلاق کی تاکید ہوتی تھی توآپﷺ اس طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے تھے، آپﷺ صاحبِ وحی تھے، کوئی شخص آپ سے غلط بیانی نہیں کرسکتا تھا، اگر کوئی غلط بیانی کرتا تو آپﷺ کو وحی کے ذریعہ اطلاع مل جاتی، جب حضورﷺکے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے الفاظِ طلاق کو دیکھتے ہوئے تین طلاقوں کا فیصلہ نافذ کیا، نیتِ تاکید کا اعتبار نہیں کیا۔

         حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانےمیں اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا ہوگایا آیا ہوگا تو لوگوں کی دیانت کو دیکھتےہوئے نیت کا اعتبار کیا جاتا ہوگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سے احکام نے قانونی شکل اختیار کی جس میں سےایک قانون یہ بھی ہے۔ (23)

         صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نےفرمایا کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعہ کیا جاتا تھا، اب وحی منقطع ہوگئی، اب تم لوگوں کی پکڑ تمہارے ظاہری اعمال پر ہوگی،جو ہمارے سامنےخیر و بھلائی ظاہر کرےگاہم اسے امن دیں گے اور قریب کریں گے، ہمیں ا س کے باطن سے کوئی سروکار نہیں۔اللہ تعالیٰ اس کے باطن کا مواخذہ کرے گا، جو ہمارے سامنے برائی ظاہر کرے گاہم اس کو نہ امن دیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے اگرچہ وہ یہ کہے کہ میرا باطن اور میری نیت اچھی ہے۔(24)

دورِ فاروقی میں یہ فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اب صرف ظاہر کا اعتبار ہوگا، صدیوں سے اسلامی عدالتیں اسی قانون پر عمل پیرا ہیں۔

ب  :  صحیح مسلم کی اس روایت کو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کئی روایات میں مروی ہے کہ وہ ایک جملہ میں تین طلاقوں کو تین طلاقیں سمجھا کرتے تھے، ان کے جلیل القدر شاگرد علماء، عمرو  بن دینار، سعید بن جبیر، مجاہد اور طاووس ان سے یہی نقل کرتے ہیں۔ذیل میں چند روایات مذکور ہیں:

         الف:  مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ، ابنِ عباس رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے، یہاں تک کہ میں یہ سمجھا کہ شاید اس کی بیوی کو اس کی جانب لوٹانے والےہیں، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی جاتا ہے اور حماقت کرجاتا ہے، پھر کہتا ہے اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کےلیے راہ نکالتے ہیں، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے، اس لیے مجھے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں مل رہی، تو نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی۔ (25)

         امام ابو داؤد اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ  اس حدیث کو حمید الاعرج  وغیرہ نے مجاہد رحمہ اللہ سے اور مجاہد   نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  نقل کیا ہے، اور شعبہ رحمہ اللہ نے عمرو بن مرہ سے  اور انہوں نے سعید بن جبیر سے ، انہوں نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے اس حدیث  کو روایت کیا ہے ، ۔۔۔۔ اور ابن جریج نے عبد الحمید بن رافع سے ، انہوں نے عطاء سے ، انہوں نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے نقل کیا ہے، اور اس حدیث کو  اعمش نے مالک بن حارث سے ، انہو ں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے نقل کیا ہے،  اور ابن جریج نے   عمروبن دینار سے اور انہوں نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے، سب  نے تین  طلاقوں کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے تین طلاقوں کو  نافذ قرار دیا ہے اور  کہا کہ تم سے بیوی جدا ہوگئی ۔(26)

         ب :   موطا امام مالک میں ہے کہ  ایک آدمی نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے فرمایا کہ  میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں ، آپ میرے لیے کیا فیصلہ کرتے ہیں ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ   نے ان سے کہا  کہ تمہاری  بیوی کو تم سے تین طلاقیں ہوگئی  ہیں ، اور ستانوے  طلاقوں کے  ذریعہ  تم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق بنایا ہے۔ (27)

         ج  :   موطا امام محمد میں ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی  کو رخصتی سے پہلے  تین طلاقیں  دیں ، پھر اس نے چاہا کہ  اس سے نکاح کرے تو وہ مسئلہ پوچھنے آیا ، اس  نے ابن عباس  اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما  سے پوچھا ، ان دونوں نے جواب دیا  اس وقت تک نکاح نہیں کرسکتے جب  وہ کسی اور  سے نکاح نہیں کرلیتی، اس  نے کہا کہ  میں نے تو صرف ایک طلاق دی  ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے اپنے ہاتھوں سے اس گنجائش کو ختم کردیا جو تجھے حاصل تھی۔(28)

         مسند احمد میں ہے کہ  رکانہ بن عبد یزید  رضی اللہ عنہ نے  اپنی بیوی کو تین بار ایک مجلس میں طلاق دی،  تو اس پر وہ بہت زیادہ رنجیدہ ہوئے،  رسول اکرمﷺ نے ان سے  سوال کیا  تم نے کیسے طلاق دی؟ انہوں نے کہا کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ، آپ ﷺ نے فرمایا  وہ ایک طلاق ہوئی، اگر چاہو تو رجوع کرلو،  راوی کہتے ہیں کہ  انہوں نے رجوع کرلیا۔ (29)

اس سلسلے میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:

الف :  علماء اور محدثین کی آراء کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے  یہ حدیث معلول (ضعیف) ہے،  چناں چہ حافظ ابن حجر نے ''التلخیص الحبیر'' میں اس حدیث کو ذکر کرکے فرمایا کہ " وهو معلول أیضاً" (30)  ، اسی طرح حافظ ذھبی ؒ نے اس کو داؤد ابن الحصین کے مناکیر میں شمار کیا ہے۔ (31)

ب :  نیز مسند احمد کی مذکورہ  روایت میں اضطراب ہے ، بعض روایات میں  طلاق کی تعداد مذکور نہیں ہے،  محمد  بن ثور الصنعانی کی روایت میں ہے "إني طلقتها"   یعنی میں نے تجھے  طلاق دی، اس میں نہ "ثلاثاً"  کا لفظ ہے نہ "البته "کا،  اور  صنعانی کی جلالت قدر محدثین میں مسلم ہے۔(32)

جب کہ سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، اور ابن ماجہ میں  "ثلاثاً" کا لفظ نہیں ہے ، بلکہ " البتة"کے الفاظ ہیں، ان تینوں روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ  انہوں نے اپنی بیوی کو  " البتة" سے طلاق دی (جس میں ایک سے تین طلاقوں کی گنجائش ہوتی ہے)، پھر آپﷺ کو اطلاع دی ، اور فرمایا ؛ خدا کی  قسم  میں نے لفظ  " البتة"سے  ایک طلاق کی نیت کی ہے،  جس کی تصدیق آپﷺ نے  ان سے کی  کہ بخدا تمہاری نیت ایک ہی طلاق کی تھی؟ تو حضرت رکانہ  نے کہا کہ بخدا  میری  نیت ایک ہی طلاق کی تھی، تب آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے جو نیت کی تھی اسی کا اعتبار ہے۔(33)

ج:  حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ  نے  مسند احمد کی حدیث ذکر کرکے لکھا ہے کہ  امام ابو داؤد نے  اس سے بہتر طریق سے ذکر کیا ہے کہ  رکانہ نے اپنی بیوی  سہیمۃ کو " البتة" کے لفظ سے طلاق دی تھی۔(34)

د  : امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ وہ روایت جسے مخالفین ذکر کرتے ہیں کہ  رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں جسے نبی کریمﷺ نے ایک قرار دیا وہ  مجہول  راویوں سے منقول ضعیف روایت ہے، صحیح روایت وہی ہے  جسے ہم نے ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو " البتة" کہہ کر طلاق دی ، اور لفظ " البتة" ایک اور تین کا احتمال رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس ضعیف روایت کے راوی نے  یہ سوچا کہ لفظ " البتة"تین کا احتمال رکھتا ہے تو انہوں نے  روایت بالمعنی کی، اور اس میں غلطی کی۔(35)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی ایک نہیں، یہ کہنا غلط ہے کہ طلاق کا تعلق عورت کے حیض سے ہے، سورہ نساء میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں طلاق کے لیے تین حیض کو معیار بنایا گیا ہو، تاہم سورہ بقرہ میں عدت کے لیے تین حیض بتایا گیا ہے، آپ کو دونوں آیتوں میں شبہ ہورہا ہے، عدت کا حکم بتانے والی آیت کو طلاق سے جوڑ دیا۔

حوالہ جات

  1. أحكام القرآن للجصاص ط: العلمية (1 / 459):

قَالَ أَصْحَابُنَا: أَحْسَنُ الطَّلَاقِ أَنْ يُطَلِّقَهَا إذَا طَهُرَتْ قَبْلَ الْجِمَاعِ ثُمَّ يَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا طَلَّقَهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً قَبْلَ الْجِمَاعِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَبَلَغَنَاعَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لَا يَزِيدُوا فِي الطَّلَاقِ عَلَى وَاحِدَةِ حَتَّى تَنْقَضِيَ الْعِدَّةُ، وَأَنَّ هَذَا عِنْدَهُمْ أَفْضَلُ مِنْ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً.

  1. تفسير الألوسي = روح المعاني (1 / 530،  ط: دار الکتب العلمیه):

فقد أخرج مالك والشافعي والترمذي رضي الله تعالى عنهما وغيرهم. عن عروة قال: كان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعها قبل أن تنقضي عدّتها كان ذلك له وإن طلقها ألف مرة، فعمد رجل إلى امرأته فطلقها حتى إذا ما شارفت انقضاء عدّتها ارتجعها ثم طلقها ثم قال: والله لا آويك إليّ ولا تخلين أبدا، فأنزل الله تعالى الآية.

  1. صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی):

باب من أجاز طلاق الثلاث لقول الله تعالى: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229]

  1. تفسير القرطبي (3 / 128):

تَرْجَمَ الْبُخَارِيُّ عَلَى هَذِهِ الْآيَةِ" بَابُ مَنْ أَجَازَ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: الطَّلاقُ مَرَّتانِ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ" وَهَذَا إِشَارَةٌ منه إلى أن هذاالتعديد إنما هو فسخه لَهُمْ، فَمَنْ ضَيَّقَ عَلَى نَفْسِهِ لَزِمَهُ. قَالَ عُلَمَاؤُنَا: وَاتَّفَقَ أَئِمَّةُ الْفَتْوَى عَلَى لُزُومِ إِيقَاعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ فِي كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ.

  1. أحكام القرآن للجصاص (1 /527 ، ط: قدیمی):

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْله تَعَالَى: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} الْآيَةَ، يَدُلُّ عَلَى وُقُوعِ الثَّلَاثِ مَعًا مَعَ كَوْنِهِ مَنْهِيًّا عَنْهَا.

  1. صحيح البخاري (1 / 43، دار طوق النجاة):

عن عبد الله بن زيد أن النبي صلى الله عليه وسلم «توضأ مرتين مرتين».

  1. الأم للشافعي (5 / 196،  دار المعرفة - بيروت):

(قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَالْقُرْآنُ يَدُلُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَةً لَهُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ الَّتِي لَمْ يَدْخُلْ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا.

  1. صحيح البخاري(2/791، ط:قدیمی):

عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول».

  1. عمدة القاری (2/336، ط؛ رشیدیه)

مطابقته  للترجمة في قوله: طلق امراته ثلاثاً فإنه ظاهر في كونها مجموعة.

  1. فتح الباري لابن حجر (9 / 367):

فالتمسك بظاهرقوله طلقها ثلاثا فإنه ظاهر في كونها مجموعة.

  1. صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی):

أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»۔

  1. فتح الباري لابن حجر (9 / 367، دار المعرفة - بيروت):

قوله فبت طلاقي فإنه ظاهر في أنه قال لها أنت طالق ألبتة ويحتمل أن يكون المراد أنه طلقها طلاقا حصل به قطع عصمتها منه وهو أعم من أن يكون طلقها ثلاثا مجموعة أو مفرقة ويؤيد الثاني أنه سيأتي في كتاب الأدب من وجه آخر أنها قالت طلقني آخر ثلاث تطليقات۔

  1. صحیح البخاری ، 2/ 791،  ط: قدیمی
  2. سنن ابی داؤد ، 1/324، باب فی اللعان، ط: رحمانیه
  3. سنن ابن ماجه (1 /145):

 عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»۔

  1. سنن نسائی،  2/100، کتاب الطلاق، باب الرخصة فی ذالک ط؛قدیمی۔
  2. سنن ابی داؤد ، 1/331، رحمانیه
  3. أحكام القرآن للجصاص (1 /529 ، ط: قدیمی):

 فَالْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ تُوجِبُ إيقَاعَ الثَّلَاثِ مَعًا وَإِنْ كَانَتْ مَعْصِيَةً۔

  1.  الاشفاق( ص: 53، 54)

قال ابن رجب : لا  نعلم من الأمة أحداً خالف  في هذه المسئلة مخالفةً ظاهرةً ولا حکماً ولا قضاءً ولا علماً ولا إفتاءً ، ولم یقع  ذلک  إلا من نفر یسیر  جداً وقد أنکر علیهم من عاصرهم  غایة الإنکار وکان أکثرهم یستخفي بذلک ، ولایظهره.

  1. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 233):

 وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.

  1. شرح النووي على مسلم (1/474، قدیمی):

وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَمَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ يَقَعُ الثَّلَاثُ.

  1. صحيح مسلم (1/477، 478، ط: قدیمی):

عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "۔

  1. شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی):

 فَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَابِهِ وَتَأْوِيلِهِ فَالْأَصَحُّ أَنَّ مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ إِذَا قَالَ لَهَا أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَلَمْ يَنْوِ تَأْكِيدًا وَلَا اسْتِئْنَافًا يُحْكَمُ بِوُقُوعِ طَلْقَةٍ لِقِلَّةِ إِرَادَتِهِمُ الِاسْتِئْنَافَ بِذَلِكَ فَحُمِلَ عَلَى الْغَالِبِ الَّذِي هُوَ إِرَادَةُ التَّأْكِيدِ فَلَمَّا كَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ اسْتِعْمَالُ النَّاسِ بِهَذِهِ الصِّيغَةِ وَغَلَبَ مِنْهُمْ إِرَادَةُ الِاسْتِئْنَافِ بِهَا حُمِلَتْ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ عَلَى الثَّلَاثِ عَمَلًا بِالْغَالِبِ السَّابِقِ إِلَى الْفَهْمِ مِنْهَا فِي ذَلِكَ الْعَصْرِ۔

  1. صحيح البخاري (1/360، کتاب الشهادات، ط: قدیمی):

 سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه، يقول: " إن أناسا كانوا يؤخذون بالوحي في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن الوحي قد انقطع، وإنما نأخذكم الآن بما ظهر لنا من أعمالكم، فمن أظهر لنا خيرا، أمناه، وقربناه، وليس إلينا من سريرته شيء الله يحاسبه في سريرته، ومن أظهر لنا سوءا لم نأمنه، ولم نصدقه، وإن قال: إن سريرته حسنة ".

  1. سنن أبي داود (1/317، ط: رحمانیه):

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ، فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} [الطلاق: 2] ، وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا، عَصَيْتَ رَبَّكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ.

  1. سنن أبي داود (1/317، ط: رحمانیه):

رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ، وَغَيْرُهُ عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَيُّوبُ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، جَمِيعًا عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ كُلُّهُمْ قَالُوا: فِي الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ أَنَّهُ أَجَازَهَا، قَالَ: وَبَانَتْ مِنْكَ۔

  1. موطأ مالك (199، باب ما جاء فی البتة):

 عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي مِائَةَ تَطْلِيقَةٍ فَمَاذَا تَرَى عَلَيَّ؟ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ «طَلُقَتْ مِنْكَ لِثَلَاثٍ، وَسَبْعٌ وَتِسْعُونَ اتَّخَذْتَ بِهَا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا».

  1. موطأ  امام محمد (203)

 أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ بُكَيْرٍ، قَالَ: طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَنْكِحَهَا فَجَاءَ يَسْتَفْتِي، قَالَ: فَذَهَبَتْ مَعَهُ، فَسَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالا: «لا يَنْكِحُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ طَلاقِي إِيَّاهَا وَاحِدَةً، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «أَرْسَلْتَ مِنْ يَدِكَ مَا كَانَ لَكَ مِنْ فَضْلٍ».

  1. مسند أحمد (4 / 215، ط: مؤسسة الرسالة، ترکی):

حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو بَنِي الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا، قَالَ: فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟» قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: «فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَأَرْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ» قَالَ: فَرَجَعَهَا۔

  1. التلخيص الحبير  (3 / 458، دار الكتب العلمية):

وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاكِمُ، وَهُوَ مَعْلُولٌ أَيْضًا.

  1. ميزان الاعتدال (2 / 6، ط: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت)
  2. المستدرك على الصحيحين للحاكم (2 / 533، دار الكتب العلمية - بيروت):

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّنْعَانِيُّ بِمَكَّةَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا يَزِيدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ أَبُو رُكَانَةَ أُمَّ رُكَانَةَ، ثُمَّ نَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ، فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُغْنِي عَنِّي إِلَّا مَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا، فَأَخَذَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِيَّةً عِنْدَ ذَلِكَ فَدَعَا رُكَانَةَ وَإِخْوَتَهُ ثُمَّ قَالَ لِجُلَسَائِهِ: «أَتَرَوْنَ كَذَا مِنْ كَذَا؟» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ يَزِيدَ: «طَلِّقْهَا» فَفَعَلَ فَقَالَ لِأَبِي رُكَانَةَ: «ارْتَجِعْهَا» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ عَلِمْتُ ذَلِكَ فَارْتَجِعْهَا» فَنَزَلَتْ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»۔

  1. سنن الترمذي ت شاكر (1/222، ط: قدیمی):

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ البَتَّةَ، فَقَالَ: «مَا أَرَدْتَ بِهَا؟» قُلْتُ: وَاحِدَةً، قَالَ: «وَاللَّهِ؟» قُلْتُ: وَاللَّهِ، قَالَ: «فَهُوَ مَا أَرَدْتَ»۔

سنن أبي داود (1/318، ط: رحمانیه)

عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً؟» ، فَقَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ، وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.

سنن ابن ماجه (149، قدیمی)

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: «مَا أَرَدْتَ بِهَا؟» قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ: «آللَّهِ، مَا أَرَدْتَ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً؟» قَالَ: آللَّهِ، مَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً، قَالَ: فَرَدَّهَا عَلَيْهِ.

  1. بلوغ المرام من أدلة الأحكام (2 / 98،ط: دار أطلس للنشر والتوزيع، الرياض):

وَقَدْ رَوَى أَبُو دَاوُدَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ أَحْسَنَ مِنْهُ: - أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ اِمْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ اَلْبَتَّةَ , فَقَالَ: "وَاَللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً, فَرَدَّهَا إِلَيْهِ اَلنَّبِيُّ -صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

  1. شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی)

وأما الرواية التي رواها المخالفون أن ركانة طلق ثلاثا فجعلها واحدة فرواية ضعيفة عن قوم مجهولين وإنما الصحيح منها ما قدمناه أنه طلقها ألبتة ولفظ ألبتة محتمل للواحدة وللثلاث ولعل صاحب هذه الرواية الضعيفة اعتقد أن لفظ ألبتة يقتضي الثلاث فرواه بالمعنى الذي فهمه وغلط في ذلك۔

Wednesday 24 March 2021

تنہائی میں جہاں کوئی موجود نہ ہو طلاق دینے کا حکم

 اگر  تنہائی میں لفظ طلاق اپنی بیوی کی نیت سے کہا ہو تو اس سے بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی: ولا یلزم کون الإضافة صریحة في کلامہ․․․ لو قال: طالق، فقیل لہ من عنیت؟ فقال امرأتي طلقت امرأتہ (رد المحتار: ۴/۴۵۸، ط زکریا دیوبند) اور اگر اس نے بغیر کسی نیت کے محض ویسے ہی لفظ طلاق زبان سے کہہ دیا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال: لم أعن امرأتي یصدق․․․ قید بخطابھا لأنہ لو قال إن خرجت یقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم یقع لترکہ الإضافة إلیھا (در مع رد المحتار: ۴/۴۵۸، ط زکریا دیوبند) اگر کسی نے تنہائی میں یہ کہہ دیا کہ میری بیوی پر طلاق، یا میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اوراسی طرح کے بہت سارے الفاظ جن میں طلاق کی اضافت بیوی کی طرف ہو یا اضافت کے بجائے بیوی کی نیت ہو ان سب سے تنہائی میں بھی بیوی پر طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

ماں کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا

  اگر والدہ کسی شرعی وجہ کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے  اور بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، البتہ اگر بیوی ان کے ساتھ  اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، ان کی گستاخی کرتی ہواور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آتی ہو تو پھر ان کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی، لیکن پسندیدہ نہیں ہے، حکمت و بصیرت کے ساتھ دونوں کے درمیان صلح کرانے اور اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،  کیوں کہ حلال کاموں میں جو کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے وہ طلاق دینا ہے، اس لیے حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر دونوں کا ساتھ رہنا مشکل ہو تو  بیوی کے لیے علیحدہ کمرہ، بیت الخلا و غسل خانہ اور باورچی خانہ کا انتظام کردیجیے، اور آپ اپنی والدہ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک جاری رکھیے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 132):
"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك

 (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله"

طلاق رجعی اور رجوع کا طریقہ

 اگر بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک  یا دو طلاق دی تو ایسی طلاق کو ''طلاقِ رجعی'' کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد  شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع  کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور نکاح برقرار  رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح  ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی  گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو ایک طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اس کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اور اگر دوطلاقیں صریح دیں تو آئندہ ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔

اور طلاقِ بائن کے ذریعے  ایک یا دو طلاق دی ہو  تو پھر عدت میں رجوع کا حق نہیں ہوگا، البتہ  باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرکے دوبارہ ساتھ رہا جاسکتا ہے۔

اور اگر تین طلاقیں دے دیں تو پھر شوہر کے لیے رجوع جائز نہیں  ہوگا۔فقط واللہ اعلم

Tuesday 23 March 2021

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق

 سات سال کی عمر تک ماں کے لیے بیٹوں کو اپنی پرورش میں رکھنے کا حق حاصل ہے،  بشرطیکہ ماں نے غیر خاندان میں شادی نہ کی ہو،  اگر غیر خاندان میں شادی کر لی، تو نانی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا اگر نانی زندہ ہو۔  اور اگر نانی زندہ نہیں ، تو پھر دادی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا، سات سال کی عمر کے بعد باپ کو لینے کا حق حاصل ہو گا۔

الفتاوى الهندية (1/ 541):
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى -: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا"