https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 12 May 2021

مسئلۂ فلسطین

 فلسطین کا قضیہ دنیاکے قدیم ترین مسائل میں سے ایک ہے. یہ کوئی ایسامسئلہ نہیں جوبہت مشکل یاناقابل حل ہو. بلکہ اس کے مداخلت کار بالخصوص امریکہ اسے حل کرنا نہیں چاہتا . امریکہ نے ہی اس مسئلہ کو اب تک زندہ رکھاہے .موجودہ صدرمسٹر جو بائیڈن سے


سابق صدرکے بننسبت زیادہ امید ہے .سابق صدرکے بعض احمقانہ فیصلے بتاتے ہیں کہ امریکہ دوسرے ممالک سے ضوابط کی پاسداری کا خواہشمند ہے. لیکن خود اقوام متحدہ کے رزولیوشنس کی دھجیاں اڑا تارہتاہے. 1967میں اسرائیل نے  بزور طاقت فلسطین کے جن علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا مسڑ ٹرمپ کی انتظامیہ اسے درست قراردیتی تھی. یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پر عمل پیراتھی. جبکہ اقوام متحدہ اس کوغاصبانہ قبضہ گردانتی ہے.1948یعنی قیام اسرائیل  سے پہلے  فلسطین میں یہودی آبادی 6000تھی.دنیاکے دیگرممالک سے یہودیوں کوفلطسینی سرزمین غصب کرکے بسایاگیا ان کے گھراب بھی آئے دن مسمارکئے جاتے ہیں لیکن امریکہ اس پر خاموش رہتا ہے .اس سے ہٹلر کی یہوددشمنی اور ہولوکوسٹ کی معنویت سمجھنے میں بہت مددملتی ہے. بے گناہوں کاقتل ان کے گھروں کومسمار کرناانہیں خانماں برباد کرکے چھوڑ دینا اور قبیح عمل کوجواز فراہم کرنے والے ممالک بھی اس دنیا میں موجودہیں.ان سب کاسرغنہ امریکہ ہے. عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب ,مصر سوڈان اردن,متحدہ عرب امارات اپنے ضمیر کاسوداکرچکے ہیں. ترکی اورایران حق گوئی اور بےباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر بروقت لب کشائی کردیتے ہیں جس کی حیثیت نقارخانہ میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں. 

اسرائیل  کے قیام کو منظور کرتے ہوئے 

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ساڑھے بارہ لاکھ فلسطینی عربوں کے لیے تو فلسطین کا ۴۵ فیصد رقبہ مخصوص کیا، مگر ۶ لاکھ یہودیوں کے لیے ۵۵ فیصد علاقہ دے دیا۔۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے فلسطین کے ۷۵ فیصد رقبہ پر قبضہ کرلیا اور پھر دوسری عرب اسرائیل جنگ ۱۹۷۳ء میں پورا فلسطین اور بیت المقدس یہودیوں کے تسلُّط میں آگیا۔ آج کا اسرائیل ۱۹۴۸ء کے اسرائیل سے تین گنا بڑا ہے۔ اسرائیل محض فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ اور ناجائز قبضہ کرنے پر قانع نہیں ہے،بلکہ اسرائیل کی اپنی پارلیمنٹ میں صہیونی عزائم پر مشتمل جو ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا نقشہ ہے، اس میں اُردن، مصر، شام، عراق، سوڈان اور آدھا سعودی عرب جس میں مدینہ منورہ بھی ہے ‘ شامل ہے، یہ سارا علاقہ اسرائیل اپنی گرفت میں لینے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ 
عالمِ اسلام نے اس تقسیم کو بالکل قبول نہیں کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے اصل باشندوں کو ان کی زمین سے محروم کرکے وہ زمین یہود کو دے دی گئی، دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مقامی اور اصل حق داروں کوبے دخل کرکے ان کے علاقے پر مختلف ملکوں سے آنے والوں کو بسادیا جائے، اور پھر اُن کی ریاست بھی قائم کردی جائے۔

 ١۹٦۷میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے مصر کے صحرائے سینا، شام کی گولان کی پہاڑیاں اور بیت المقدس کے علاقہ پر قبضہ کرلیا، جو کہ اس وقت اُردن کے پاس تھا۔ اقوامِ متحدہ نے ۱۹۶۷ء کے بعد اسرائیل کے قبضہ شدہ علاقہ پر اس کے حق کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی ابھی تک یہ قراردادیں چلی آرہی ہیں کہ اسرائیل کو ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن میں چلے جانا چاہیے، کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کوئی ملک کسی ملک کی زمین کو طاقت کی بنیاد پر قبضے میں نہیں لے سکتا۔
اس کے بعد کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ ہوا، جس میں عربوں سے کہا گیا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو اسے ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر جانے کے لیے ہم مجبور کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں مصر، شام اور چند دیگر عرب ممالک نے اسے تسلیم کیا، لیکن آج تک اقوامِ متحدہ اسرائیل سے یہ علاقے آزاد کرانے اور اسے ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر لے جانے میں ناکام رہی۔ 

آج شام ایران اور مصر کو ایٹمی پاور کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل سے اس کی  آنکھ میں آنکھ ڈال کربات کرسکیں. اور انیس سو سڑ سٹھ سے پہلے کی اسرائیلی پوزیشن پر اسے بھیجا جاسکے. 

تہران ہو گرعالم مشرق کا جنیوا 

شایدکرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے 

لیکن آج یہ ایک ناگفتہ بہ حقیقت ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں مجموعی طورپر سب سے طاقتور اور سب سے ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے اگرچہ اس کی ترقی اور خوشحالی میں عربوں کا خون پسینہ شامل ہے جو کبھی رائیگاں نہیں جائے گا ایک دن فلسطین اپنی مطلوبہ حدود کے ساتھ مستقل اورآزاد مملکت کی حیثیت سے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہو گا.  

رندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ کیوں حق نہیں  اہلِ عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و عنب کا

No comments:

Post a Comment