https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 24 March 2021

ماں کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا

  اگر والدہ کسی شرعی وجہ کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے  اور بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، البتہ اگر بیوی ان کے ساتھ  اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، ان کی گستاخی کرتی ہواور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آتی ہو تو پھر ان کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی، لیکن پسندیدہ نہیں ہے، حکمت و بصیرت کے ساتھ دونوں کے درمیان صلح کرانے اور اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،  کیوں کہ حلال کاموں میں جو کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے وہ طلاق دینا ہے، اس لیے حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر دونوں کا ساتھ رہنا مشکل ہو تو  بیوی کے لیے علیحدہ کمرہ، بیت الخلا و غسل خانہ اور باورچی خانہ کا انتظام کردیجیے، اور آپ اپنی والدہ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک جاری رکھیے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 132):
"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك

 (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله"

No comments:

Post a Comment