https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 14 August 2021

آزادئ ہند میں مسلمانوں کا کردار

 ہندوستان کی جدوجہد آزادی پرگہری نظررکھنے والے مؤرخین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہمارے اسلاف کے بغیر آزادئ ہند کی  تاریخ  نامکمل رہے گی۔

ہر ہندوستانی کو ان ناقابل تردید حقائق کے بارے میں باخبر ہونا چاہئے اور اپنے بچوں کو بھی ملک کی تحریک آزادی کی حقیقت سے واقف کرانا چاہئے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہرہندوستانی کو جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں سے واقف کرایئں۔ ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ اور پھر ان کے خلاف جدوجہد آزادی کے آغاز کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پہلی جدوجہد آزادی حیدر علی اور ان کے فرزند دلبند ٹیپو سلطان نے 1780 ء میں شروع کی اور 1790 ء میں پہلی مرتبہ فوجی استعمال کے لئے حیدر علی و ٹیپو سلطان نے میسوری ساختہ راکٹس کو بڑی کامیابی سے نصب کیا۔ حیدر علی اور ان کے بہادر فرزند نے 1780 ء اور 1790 ء میں برطانوی حملہ آوروں کے خلاف راکٹیں اور توپ کا مؤثر طور پر استعمال کیا۔
ہندوستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ رانی جھانسی نے اپنے متبنیٰ فرزند کے لئے سلطنت و حکمرانی کے حصول کی خاطر لڑائی لڑی لیکن ہم سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ بیگم حضرت محل پہلی جنگ آزادی کی گمنام ہیروئن تھیں جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر سر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا اور 30 جون 1857 ء کو چن پاٹ کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں انگریزی فوج کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کی پہلی جنگ عظیم کو کس نے منظم کیا تھا اور اس کی قیادت کس نے کی تھی؟ اس کا جواب مولوی احمد اللہ شاہ ہے جنھوں نے ملک میں پہلی جنگ آزادی منظم کی تھی۔ جدوجہد آزادی میں بے شمار مجاہدین آزادی نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں 90 فیصد مسلم مجاہدین آزادی تھے۔ برطانوی راج کے خلاف سازش کے الزام میں اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی۔ اس طرح وہ انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں پھانسی پر چڑھ جانے والے پہلے مجاہد آزادی بن گئے۔ جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی اُس وقت ان کی عمر صرف 27 سال تھی۔
مولانا فضل حق خیرآبادی ,مولاناکفایت علی کافی آلہ آبادی مولانا قاسم نانوتوی, مولانارشیداحمدگنگوہی, حاجی امداداللہ مہاجرمکی, شیخ الہند مولانامحمود حسن دیوبندی, مولا عبیداللہ سندھی, مولانامنصورانصاری غازی, مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی,  مولاناعطاءاللہ شاہ بخاری,شیخ الاسلام  مولاناسید حسین احمد مدنی,  مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ  تحریک آزادی  کے اہم ستون اور

 ممتاز عالم دین تھے مؤخرالذکر ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران انڈین نیشنل کانگریس کے ایک سینئر مسلم رہنما تھے۔ شراب کی دوکانوں کے خلاف مہاتما گاندھی نے دھرنے اور گھیراؤ مہم چلائی اس میں صرف 19 لوگوں نے حصہ لیا، ان میں بھی 10 مسلمان تھے۔
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بڑی مضبوط اور شدت کے ساتھ لڑائی لڑی۔ ان کی وہی لڑائی 1857 ء کی غدر کا باعث بنی۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے رنگون، برما (میانمار) میں بہادر شاہ ظفر کی مزار پر حاضری کے بعد کتاب تاثرات میں لکھا تھا ’’اگرچہ آپ (بہادر شاہ ظفر) کو ہندوستان میں زمین نہ مل سکی، آپ کو یہاں (برما) میں سپرد خاک ہونے کے لئے زمین مل گئی۔ آپ رنگون (ینگون) میں مدفون ہیں لیکن آپ کا نام زندہ ہے۔ میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کی نشانی و علامت بہادر شاہ ظفر کو خراج عقیدت و گلہائے عقیدت پیش کرتا ہوں، وہی ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا نقطۂ آغاز تھا۔

 ایم ے ایم امیر حمزہ نے انڈین نیشنل آرمی (آزاد ہند فوج) (INA) کے لئے لاکھوں روپئے بطور عطیہ پیش کیا۔ وہ انڈین نیشنل آرمی کے آزاد لائبریری ریڈنگ پروپگنڈہ کے سربراہ تھے۔ اب اس مجاہد آزادی کا خاندان انتہائی غربت و کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے اور ٹاملناڈو کے علاقہ رامنتاپورم میں یہ خاندان کرایہ کے مکان میں مقیم ہے۔
ہندوستانی، میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی کو بھی نہیں جانتے۔ یہ وہی شخصیت ہے جس نے اپنی ساری دولت ایک کروڑ روپئے انڈین نیشنل آرمی کو بطور عطیہ پیش کردی تھی۔ اس دور میں ایک کروڑ روپئے کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی نے اپنی ساری دولت سارے اثاثے نیتاجی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کو عطیہ کردی۔ شاہنواز خاں ایک سپاہی، ایک سیاستداں اور انڈین نیشنل آرمی میں چیف آفیسر اور کمانڈر تھے۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی قائم کردہ آزاد ہند کی جلاوطن کابینہ کے 19 ارکان میں 5 مسلمان تھے۔ بی اماں نامی ایک مسلم خاتون نے جدوجہد آزادی کے لئے 30 لاکھ روپئے سے زائد رقم کا گرانقدر عطیہ پیش کیاتھا۔

ٹاملناڈو میں اسمٰعیل صاحب اور مرودانایاگم نے مسلسل 7 برسوں تک انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی، ان دونوں نے انگریزوں میں خوف و دہشت پیدا کر رکھی تھی۔ہم تمام وی او سی (کیالوٹیا ٹامل زہان) کو جانتے ہیں وہ پہلے ملاح ہیں جنھوں نے ہندوستانی جدوجہد آزادی میں حصہ لیا لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو فقیر محمد راٹھور کے بارے میں جانتے ہیں جنھوں نے اس جہاز کا عطیہ دیا تھا۔ جب وی او سی کی گرفتاری عمل میں آئی محمد یٰسین کو برطانوی پولیس نے وی او سی کی رہائی کے لئے احتجاج کرنے پر گولی مار دی۔
تریپورہ کلارن (کوڈی کٹی کمارن) نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ کمارن کے ساتھ دیگر 7 کو گرفتار کیا گیا وہ تمام کے تمام مسلمان تھے جن کے نام یہ ہیں۔ عبداللطیف، اکبر علی، محی الدین خان، عبدالرحیم، باوو صاحب، عبداللطیف اور شیخ بابا صاحب۔

علاوہ ازیں مولانا محمد علی جوہر, مولاناشوکت علی ,مولاظفر علی خان,مولانابرکت اللہ بھوپالی وغیر ہ آزادی ہند کے سپاہیوں  کے ذکر کے لئے  ایک دفتر چاہئے.  ایک مؤرخ ان شخصیات  کے کارناموں  اور تحریک آزادی میں قربانیوں پر ہزارہا  صفحات تحریر کرسکتا ہے

واقف تو ہیں اس راز سے دارورسن بھی

ہردور میں تکمیل وفا ہم سے ہوئی ہے 

 لیکن بدقسمتی سے فرقہ پرست، انتہا پسند، فاشسٹ طاقتوں نے اس سچائی و حقیقت کو عام ہندوستانیوں کی نظروں سے چھپائے رکھا اور اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہندوستان کی تاریخ کی کتب میں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ووٹوں کے حصول کی خاطر اور عوام کو منقسم کرنے کے لئے تاریخ کو توڑ مروڑ کر ازسرنو قلملبند کیا گیا۔ محب وطن ہندوستانیوں کو ناپاک عزائم کے حامل سیاستدانوں کی مکاریوں و عیاریوں کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک مضبوط و مستحکم اور ترقی پسند ملک کے لئے تمام شہریوں کو متحد کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔

Friday 13 August 2021

ایک حدیث کی تشریح


عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «صِنْفَان من أهل النار لم أَرَهُما: قوم معهم سِيَاط كَأذْنَابِ البَقر يضربون بها الناس، ونساء كاسِيَات عاريات مُمِيَلات مَائِلات، رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ البُخْتِالمائِلة لا يَدْخُلْن الجَنَّة، ولا يَجِدْن ريحها، وإن ريحها ليُوجَد من مَسِيرة كذا وكذا».

تشریح 

 حدیث کا مطلب یہ ہے کہ " صِنْفَان من أهل النار لم أَرَهُما " یعنی میں نے ان کو اپنے زمانے میں نہیں دیکھا، اس زمانے کی پاکیزگی کی وجہ سے، بعد میں یہ رونما ہوئے۔ یہ اللہ کے نبی ﷺ کے معجزات میں سے ہے، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تائید فرمائی۔ " قوم معهم سِيَاط كَأذْنَابِ البَقر يضربون بها الناس" علماء کہتے ہیں کہ یہ وہ پولیس والے ہیں جو لوگوں کو ناحق گائے کی دُموں کے مانند اپنے کوڑوں سے مارتے پھریں گے یعنی لمبے کوڑوں سے لوگوں کو ناحق مارتے ہیں۔ دوسری قسم "نساء كاسيات عاريات مُمِيلات مائلات." ہے۔ اس کا مطلب بعض علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ عورتیں باریک کپڑے پہنیں گی جو کہ تقوے سے خالی ہوں گی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ“ (ترجمہ:اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے )۔ اسی لیے یہ حدیث ہر فاسق و فاجر عورت کو شامل ہے، اگرچہ اس نے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن رکھے ہوں، اس لیے کہ ’پہنے ہونے‘ سے مُراد ظاہری جسم پر کپڑوں کا پہننا ہے جب کہ وہ تقوے سے خالی ہوں گی۔ اس لیے کہ تقوی سے خالی ہونا یقیناً ننگا ہونا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ“۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ’’كاسيات عاريات‘‘ یعنی انہوں نے کپڑے تو پہنے ہوں گے لیکن ان سے ستر نہیں چھپے گا یا تو تنگ ہونے کی وجہ سے یا باریک ہونے کی وجہ سے یا چھوٹے ہونے کی وجہ سے۔ ان میں سے ہر طرح کے کپڑے پہننے والی عورت کپڑے پہن کر بھی ننگی ہے۔ "مُمِيَلات" یعنی آڑی مانگ نکالنے والی (جو سر کے ایک جانب کو نکالی جاتی ہے) جیسا کہ بعض حضرات نے اس کی تفسیر کی ہے کہ ایک جانب مانگ نکالنے والی عورت ’’مائلۃ‘‘ کہلاتی ہے اور اس کا طرزِ عمل ’’میل‘‘ کہلاتا ہے، اس لیے کہ یہ عورتیں اپنی ایک جانب مانگ نکال کر اجنبی مردوں کو مائل کرنے والی ہوتی ہیں۔ یہ میلان خاص کر کفار کی عورتوں میں پایا جاتا ہے۔ اور اس میں بعض مسلمان عورتیں بھی مبتلا ہیں، اللہ کی پناہ۔ سر کے بالوں کو ایک طرف بکھیر دیتی ہے۔ایسی عورتیں ’’مميلة‘‘ یعنی اپنی مانگ کو ایک طرف مائل کرنے والی کہلاتی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے ’’مميلات‘‘ کا مطلب ہے دوسروں کو فتنے میں ڈالنے والی عورتیں، بایں طور کہ وہ ننگے سر اور خوشبو وغیرہ کے ساتھ نکلتی ہیں، اس طرح دوسروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔شاید یہ لفظ دو معنوں کو شامل ہے۔ اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جب نص دو معنوں پر مشتمل ہو اور کسی ایک معنی کی وجہِ ترجیح نہ ہو، تو اسے دونوں معنوں پر محمول کیا جاتا ہے۔ یہاں پر بھی کسی ایک معنی کے لیے کوئی وجہِ ترجیح نہیں اور نہ ہی دونوں معنوں کے جمع ہونے میں کوئی ممانعت ہے، اس لیے یہ دونوں معنوں کو شامل ہوگا۔ "مَائِلات" یعنی حق سے اور اپنے اوپر لازم شرم و حیاء سے انحراف کرنے والی عورتیں، جیسے آج کل بازاروں میں مردوں کی چال چلنے والی عورتیں ہیں کہ وہ ایسی قوت اور پھرتیلی سے فوجیوں کی طرح زمین پر زور سے پاؤں رکھتی ہوئی اور بے پرواہی سے چلتی ہیں کہ کچھ مرد بھی اس طرح نہیں چل سکتے، مزید یہ کہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ اونچی آواز میں اس طرح ہنسی مذاق کرتی ہیں کہ فتنے کا سبب بن جاتی ہیں، اسی طرح دکان والے کے ساتھ کھڑی ہو کر ہنستے ہوئے لین دین کرتی ہیں اور دیگر بہت ساری خرابیوں اور بُرائیوں کا ارتکاب کرتیں ہیں۔ یہ عورتیں مائلات ہیں، یقیناً یہ حق سے دور ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے ہیں۔ " رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ البُخْتِ المائِلة " ( ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے )۔ البخت: ایک قسم کا اونٹ ہوتا ہے جس کی لمبی کوہان دائیں یا بائیں طرف جھکی ہوتی ہے، یہ عورت بھی اپنے سر کے بال اٹھا کر بختی اونٹ کی طرح دائیں یا بائیں جھکا دیتی ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ وہ عورت ہے جو اپنے سر پر مردوں کی طرح پگڑی رکھتی ہے تاکہ اس کا دوپٹہ اونچا رہے، یہ بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہے۔ بہرحال یہ عورت سر کی ایسی زیب و زینت کرتی ہے جو فتنے کا باعث بنتی ہے، یہ جنت میں نہیں جائے گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو سونگھ سکے گی -اللہ کی پناہ-، یعنی یہ عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی بلکہ اس کے قریب بھی نہیں ہوں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال یا اس سے زیادہ دور مسافت سے بھی سونگھی جاسکتی ہے۔ یہ عورت جنت کے قریب بھی نہیں جائے گی، -اللہ کی پناہ-، اس لیے کہ یہ راہِ راست سے بھٹک چکی ہوں گی یہ کپڑے پہننے کے باوجود بھی ننگی ہوں گی، مائل کرنے والی اور اپنے سر کو ایسا مائل ہونے والی ہوں گی جو فتنے اور زینت کا باعث ہے۔

 مرقاة المفاتيح (6/ 2302) شرح رياض الصالحين لابن عثيمين(6/372)  

ماہ محرم میں روزہ رکھنے کی فضیلت

 محرم الحرام کا مہینہ قابلِ احترام  اور عظمت والا مہینہ ہے، اس میں دس محرم الحرام کے روزے  کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ،رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، اور یومِ عاشورہ کے علاوہ  اس پورے مہینے میں بھی روزے رکھنے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آپ ﷺ نے ماہِ محرم میں روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :افضل ترین روزے رمضان کے  بعد ماہ محرم کے ہیں، اور فرض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے۔

 ’’[عن أبي هريرة:] سُئلَ: أيُّ الصلاةِ أفضلُ بعد المكتوبةِ؟ وأيُّ الصيامِ أفضلُ بعد شهرِ رمضانَ؟ فقال " أفضلُ الصلاةِ، بعد الصلاةِ المكتوبةِ، الصلاةُ في جوفِ الليل ِ. وأفضلُ الصيامِ، بعد شهرِ رمضانَ، صيامُ شهرِ اللهِ المُحرَّمِ ". مسلم (٢٦١ هـ)، صحيح مسلم ١١٦٣ • صحيح •‘‘.

اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو  شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھے گا  تو اس کے دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور جو  شخص محرم کے مہینہ میں ایک روزہ رکھے گا، اس کو ہر روزہ کے بدلہ میں تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔

 ’’[عن عبدالله بن عباس:] من صام يومَ عرفةَ كان له كفَّارةَ سَنتيْن، ومن صام يومًا من المُحرَّمِ فله بكلِّ يومٍثلاثون يومًا‘‘.

(المنذري (٦٥٦ هـ)، الترغيب والترهيب ٢/١٢٩ • إسناده لا بأس به • أخرجه الطبراني (١١/٧٢) (١١٠٨١)، وفي «المعجم الصغير» (٩٦٣

Thursday 12 August 2021

A Muslim man assaulted forced to chant Jai Shri Ram

 A disturbing video of a 45-year-old Muslim forced to chant 'Jai Shri Ram' slogans, while being paraded through a street, surfaced on social media. The man's young daughter was seen by his side begging the attackers to spare her father, who was reportedly handed over to the police, according to a NDTV report. The video, shot by locals, also showed the man being assaulted while in the custody of police.

The assault reportedly occurred shortly after a Bajrang Dal meeting, held 500 metres away. The right-wing group claimed in the meeting that Muslims in the neighbourhood were trying to convert a Hindu girl.

Based on a complaint by the assaulted man, Kanpur police said in a statement that they have filed a case of rioting against a local who runs a marriage band, his son, and a group of unknown persons. The police, however, have not confirmed if the accused are affiliated to Bajrang Dal.

The victim stated in his complaint that the group started abusing and assaulting him while he was driving his e-rickshaw around 3 pm. He also mentioned that the accused threatened to kill him.

Incidentally, the man is related to a Muslim family in the neighbourhood that is involved in a legal dispute with their Hindu neighbours, according to the report.

The police statement also reportedly mentioned the legal feud between the two families. While the Muslim family filed a case of assault of criminal intimidation, the Hindu family later pressed charges against their neighbours for 'assault with the intent to outrage the modesty of a woman".

The report said that according to sources, the Bajrang Dal recently got involved in the matter and they had been making allegations of forcible conversion against the Muslim family.

نیچے دوکان اور اوپرمسجد بناناجائز ہے کہ نہیں

 (الجواب)مسجد کی ابتدائی (پہلی) تعمیر کے وقت بانی مسجد نیت کرے کہ مسجد کے نیچے کے حصے میں مسجد کے مفاد کے لئے دکانیں اور اوپر کے حصہ میں امام ومؤذن کے لئے کمرے بنانے ہیں ۔ یعنی مسجد کی ابتدائی تعمیر کے وقت اس کے نقشہ میں دکان، کمرے ، بھی شامل ہوں اور مسجد کی مفاد کے لئے وقف ہوں تو بنا سکتے ہیں ۔ اور یہ شرعی مسجد سے خارج رہیں گے ۔ اس جگہ پر حائضہ اور جنبی آدمی جا سکے گا ۔(شامی ص ۵۱۲ ج۲) مگر جب ایک بار مسجد بن گئی اور ابتدائی تعمیر کے وقت نیچے دکان اور او پرکے حصہ میں کمرے شامل نہ ہوں تو مسجد کے اوپر کا حصہ آسمان تک اور نیچے کا حصہ تحت الشری تک مسجد کے تابع اور اسی کے حکم میں ہوچکا ۔ اب اس کا کوئی حصہ (جزو) مسجد سے خارج نہیں کہا جاسکتا اور اس جگہ مسجد کی آمدنی کے لئے دکان وکمرے نہیں بنائے جاسکتے ۔ اس جگہ احترام مسجد جیسا ہے ۔ حائضہ عورت اور جنبی آدمی کا وہاں جانا درست نہیں ۔’’ لوبنی فوقہ بیتا ً للامام لا یضر لانہ من المصالح امالو تمت المسجد یۃ ثم ارادا البناء منع ۔‘‘ (درمختار مع الشامی ج۳ ص ۵۱۲ کتاب الوقف مطلب فی احکام المسجد) فقط واﷲ اعلم بالصواب

Wednesday 11 August 2021

صرف عاشورا کاروزہ رکھنا

 محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشوراء کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے اور آپ ﷺ بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے تو اب وہی فرض ہیں، اور عاشوراء کے روزے کی فرضیت چھوڑ دی گئی، اب جو چاہے رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ (حدیث صحیح، جامع الترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی الرخصۃ فی ترک صوم یوم عاشوراء، (1/158) ط: قدیمی)

مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے (سنہ 2 ہجری) سے پہلے مکی دور میں بھی  رسول اللہ ﷺ  اہتمام سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی بہت اہتمام سے اس کا حکم دیا، بہت سے فقہاء کے مطابق اس وقت عاشوراء کا روزہ فرض تھا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزے کی حیثیت استحباب کی رہ گئی۔ 

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس دن ہمیں نصیحت کرنے کا اہتمام فرماتے تھے، پھر جب رمضان فرض کردیا گیا تو آپ ﷺ نے ہمیں نہ تو عاشوراء کے روزے کا حکم دیا نہ اس سے روکا اور نہ اس دن نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ (مسلم، بحوالہ مشکاۃ)

آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدنی دور کے آغاز سے ہی عاشوراء کا روزہ رکھا، اور ابتدا میں آپ ﷺ ہر عمل میں اہلِ کتاب کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ ابتداءِ اسلام میں بہت سے اعمال میں تالیفِ قلوب کے لیے نرمی کی گئی، مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس مقرر کیا گیا وغیرہ۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ اور صحابہ کرام تو اسلام کے حکم کے مطابق عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ ﷺ نے یہود کو  عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق ان سے دریافت کیا، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ کیسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے کہا: یہ بڑا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اس کے شکر میں موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا، ہم بھی اسی لیے روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہم موسی علیہ السلام کے طریقے کی پیروی اور اتباع کے زیادہ حق دار اور ان سے قریب ہیں، چناں چہ آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)

آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت اور اتباع کا ذکر فرمایا نہ کہ یہود کی موافقت کا، یعنی ہم یہ روزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں رکھیں گے اور ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقے کی پیروی کے زیادہ حق دار ہیں۔ بعد میں جب یہود کی مکاریوں اور ضد وعناد کے نتیجے میں آپ ﷺ نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے آپ ﷺ سے عاشوراء کے روزے کے حوالے سے بھی دریافت کیا، چناں چہ ''حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دِن روزہ رکھا اَور صحابہ کوبھی اِس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اَورروزہ رکھ کر ہم اِس دِن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمارے اَوراُن کے دین میں بڑا فرق ہے )۔ آپ نے فرمایا:  آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس  فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی  آپ ﷺ کاوصال ہوگیا''۔
"سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم" . (صحيح مسلم، (2/ 797)

حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم نویں اَوردسویں تاریخ کا روزہ رکھواَوریہود کی مخالفت کرو''۔
"وروي عن ابن عباس أنه قال: «صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»". (سنن الترمذي، (3/ 120)
لہذا  ماہِ محرم کی دسویں تاریخ یعنی عاشوراء کے روزہ کا سنت ہونا حضورﷺ کے عمل اور قول سے ثابت ہے، اور تشبہ سے بچنے کے لیے نویں  تاریخ کے روزے کا قصد بھی ثابت ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان بھی ثابت ہے کہ نویں اور دسویں کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔  یہودیوں  میں  عاشوراء کے روزے کا رواج نہیں  ہے، یہ ثابت کرنا مشکل ہے، ان میں  سے بعض پرانے لوگ جو بزعمِ خود اپنے مذہب کے پابند ہیں  روزہ رکھتے ہوں  گے، بلکہ بعض اہلِ علم نے بیان کیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم اور ربی آج بھی اس روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس لیے کہ شریعتِ موسوی میں عاشوراء کا روزہ بطورِ شکر لازم تھا، جیساکہ سابقہ سطور میں بحوالہ گزر چکاہے۔

لہذا علتِ تشبہ قائم ہے، اور اس سے بھی انکار نہیں  کہ چودہ سو سال سے امت کا اس پر عمل چلا آرہا ہے، اور امت کے اہلِ علم کا توارث اور مسلسل عمل بھی بجائے خود دلیل ہے، تراویح کی بیس رکعت کے بعد اجتماعی دعا منقول نہیں،  لیکن امت اور اکابر کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے ، علی ہذا عید الاضحی کی نماز کے بعد تکبیر ثابت نہیں  ہے، فقہاء نے ۲۳ نمازیں  شما رکی ہیں  جن کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں  اور یہ چوبیسویں  نماز ہوجاتی ہے، مگر توارث کی بناپر تکبیر کہنے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور بعض نے واجب  تک فرما دیا ہے،"ولا بأ س به عقب العید؛ لان  المسلمین توارثوه، فوجب اتباعهم، وعلیه البلخیون".(درمختار مع الشامی ج۱ ص ۷۸۶ مطلب فی تکبیر التشریق)

لہذا عاشوراء (یعنی دسویں  محرم ) کے روزے کے ساتھ نویں  تاریخ کا روزہ بھی رکھنا ہوگا، اگر نویں  کا نہ رکھ سکے تو دسویں  کے ساتھ گیارہویں  کا بھی روزہ رکھ لے۔ ( فتاوی رحیمیہ 7/273) 

 تاہم اگر کسی بنا پر دو روزے نہ رکھ سکے تو کم سے کم دسویں تاریخ کا  ایک روزہ رکھنے کی کوشش کرلے،  اس روزہ کا ثواب ملے گا۔ بلکہ  حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:

(۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے (۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔

ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور  تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ ﷺ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (2/ 177)
 "وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه"

تدلیس حدیث

 تدلیس کی تعریف :

تدلیس، دلس سے مشتق ہے جس کے معانی ہیں ظلمت و تاریکی۔ تدلیس کے معنی ہیں بیچنے والے کا خریدار سے فروخت کی جانے والی چیز کا عیب چھپا لینا۔ اصطلاح میں مدلس وہ حدیث ہے جس میں سقط خفی ہو یعنی راوی اپنے استاد کو جس سے حدیث سنی ہو حذف کر کے اس سے اوپر جس سے ملاقات تو ہو مگر حدیث نہ سنی ہواور اس طرح روایت کرے کہ استاد کا حذف ہونا معلوم نہ ہو بلکہ یہ معلوم ہو کہ اس اوپر والے سے ہی سنا ہے۔

تدلیس کی  دو قسمیں ہیں۔

  • تدلیس الاسناد
  • تدلیس الشیوخ

"تدلیس فی الاسناد" کا مفہوم اہل حدیث کی اصطلاح میں درج ذیل ہے:
اگر راوی اپنے اس استاد سے (جس سے اس کا سماع ، ملاقات اور معاصرت ثابت ہے) وہ روایت (عن یا قال وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ) بیان کرے جسے اس نے (اپنے استاد کے علاوہ) کسی دوسرے شخص سے سنا ہے۔ اور سامعین کو یہ احتمال ہو کہ اس نے یہ حدیث اپنے استاد سے سنی ہوگی ، تو اسے تدلیس کہا جاتا ہے۔
مثال:
:  رواه أبو عوانة الوضاح عن الأعمش عن إبراهيم التيمي عن أبيه عن ‏أبي ذر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " فلان في النار ينادي: يا حنان يا منان " ‏فالأعمش مدلس. وقد قال أبو عوانة: قلت للأعمش: سمعت هذا من إبراهيم؟ فقال: لا، ‏حدثني به حكيم بن جبير عنه، فقد دلس الأعمش الحديث عن إبراهيم، فلما استفسر بين ‏الواسطة بينه وبينه.‏
مذکورہ مثال میں   اعمش  مدلس ہیں کیونکہ انہوں نے ابراہیم سے یہ حدیث نہیں سنی بلکہ حکیم بن جبیر سے سنی. 

سماع حدیث کی تشریح

 شیخ کے الفاظ میں سننا (سماع حدیث)

اس کی صورت یہ ہے کہ شیخ احادیث پڑھ کر سنائے اور اس کے طالب علم احادیث کو سنیں۔ شیخ احادیث کو اپنی کتاب سے پڑھ کر بھی سنا سکتا ہے اور اپنی یادداشت کے سہارے بھی بیان کر سکتا ہے۔ طالب علم اس حدیث کو سن کر اپنے حافظے میں بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اپنی نوٹ بک میں بھی اسے لکھ سکتے ہیں۔

          اہل علم کی اکثریت کے مطابق حدیث کو حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے۔ (چونکہ کسی شخص کے لئے حدیث کو آگے منتقل کرتے وقت یہ بتانا ضروری ہے کہ اس نے یہ حدیث کس طریقے سے اپنے استاذ سے حاصل کی ہے، اس وجہ سے کچھ اسٹینڈرڈ الفاظ کو مخصوص طریقوں کے لئے مقرر دیا گیا ہے۔) جس زمانے میں یہ الفاظ مقرر نہیں کیے گئے تھے، اس زمانے میں آگے حدیث بیان کرتے ہوئے ان میں سے کوئی لفظ بھی بول دیا جانا درست سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب یہ الفاظ مقرر کر دیے گئے، اس کے بعد انہی الفاظ میں حدیث کو بیان کرنا ضروری ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے:

·       سن کر حدیث حاصل کرنے کے لئے: سمعت (میں نے سنا ہے) یا حدثنی (انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کی۔)

·       یہ بیان کرنے کے لئے کہ استاذ نے حدیث پڑھ کر سنائی: اخبرنی (انہوں نے مجھے خبر پہنچائی۔)

·       اجازت کے لئے: انباءنی (انہوں نے مجھے خبر پہنچائی۔) کہتے ہیں .

Monday 9 August 2021

Communal slogans on Jantar mantar

 A video of a group of people raising communal slogans during a protest organised by a former BJP spokesperson in New Delhi's Jantar Mantar, barely two kilometres away from Parliament, triggered a controversy prompting Delhi Police to register a case in connection with the issue.

The incident took place during the protest organised by Bharat Jodo Aandolan under the leadership of lawyer and former BJP spokesperson Ashwini Upadhyay. Police said they had not granted permission for the protest citing Covid-19 situation but the organisers went ahead with their programme.

The protest was organised demanding repealing of 222 British-era laws.

چارماہ سے پہلے حمل ساقط ہوجائے تو نفاس شمار ہوگا یانہیں

 حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کا حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور  اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے  تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے  ضائع ہوجائے تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا، یعنی اس سے نہ تو عورت کی عدت گزرے گی اور نہ اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس  کا ہوگا۔ اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ  اگر کم از کم تین دن تک خون آیا اور اس سے پہلے ایک کامل طہر بھی گزر چکا ہو تو یہ خون حیض شمار ہوگا ، لیکن اگر حمل ضائع ہونے کے بعد تین دن سے کم خون آیا تو یہ خون حیض بھی شمار نہیں ہوگا بلکہ استحاضہ ہوگا۔فقط واللہ اعلم

Sunday 8 August 2021

داڑھی کی شرعی مقدار

 کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے یہاں سے داڑھی کی ابتدا ہےاور  پورا جبڑا  داڑھی کی حد ہے، اور بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے، اس سے زائد بال ہوں تو ایک مشت کی حد تک اس کو کاٹ سکتے ہیں، ڈاڑھی کے بارے میں یہی معمول آں حضرت ﷺ اور صحٰابہ رضی اللہ  عنہم سے مروی ہے۔

داڑھی کی یہ مقدار اس لیے واجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی تاکید کے ساتھ داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے، جن روایات کی بنا پر داڑھی بڑھانا واجب ہے،  دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے داڑھی کو ایک مشت تک کم کروانا ثابت ہے، اس سے کم مقدار کسی سے بھی ثابت نہیں ہے، ان تمام روایات کے مجموعے سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ داڑھی کاٹنے کی آخری حد ایک مشت ہے، اس سے کم جائز نہیں ہے، اگر جائز ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی کم کرتے۔چنانچہ ملاحظہ ہو: حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں۔ "أَنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا". ترجمہ: ’’نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی داڑھی مبارک لمبائی اور چوڑائی میں کم کرتے تھے۔‘‘ (ترمذی، السنن، 5: 94، رقم: 2762، بيروت: دار إحياء التراث العربي)

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ: خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ. وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ".

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔‘‘ (بخاري، الصحيح، 5: 2209، رقم: 5553، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)

مروان بن سالم مقفع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔ "يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَی الْکَفِّ".

ترجمہ: ’’وہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑ کر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔‘‘ (أبي داؤد، السنن، 2: 306، رقم: 2357، دار الفکر حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1: 584، رقم: 1536، دار الکتب العلمية بيروت)

حضرت سماک بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں: "کَانَ عَلَيً رضی الله عنه يَأخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِمَّا يَلِيْ وَجْهَهُ".

ترجمہ: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے چہرے کے قریب سے داڑھی مبارک کاٹتے تھے۔‘‘ (ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 225، رقم: 25480، مکتبة الرشد الرياض)

حضرت ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ ثُمَّ يَأخُذُ مَافَضَلَ عَنِ القُبْضَةِ".

ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔‘‘ 

Friday 6 August 2021

پروین کمار سے عبدالصمد تک کاسفر

 تقریباً 32 سالہ شخص ہائی وے پر پیدل چل رہا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں انڈیا کا پرچم اور ساتھ میں ایک ٹرالی بیگ بھی تھا۔ کبھی ہلکی پھُہار تو کبھی تیز بارش کے درمیان بھی اس کے قدم رک نہیں رہے تھے۔

گذشتہ دنوں یہ مناظر انڈین ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ اور انڈین دارالحکومت دلی کے درمیان کئی لوگوں نے جگہ جگہ دیکھے۔ لوگ تجسس میں تھے کہ آخر اس شخص کا مقصد کیا ہے؟

بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سماجی سطح پر زیادتی کا شکار ایک شخص ہے، جس کا نام ہے پروین کمار۔ پروین سے کچھ عرصہ قبل اترپردیش پولیس کے انسداد دہشت گردی کے محکمے کے اہلکاروں نے مذہب تبدیل کرنے کے معاملے میں پوچھ گچھ کی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پروین کا نام دلی میں واقع اسلامک دعویٰ سینٹر نامی ادارے میں مذہب تبدیل کرنے والے ایک شخص کے طور پر درج تھا، جس نے اسلام قبول کر کے اپنا نام پروین کمار سے بدل کر عبد الصمد رکھ لیا ہے۔

حالانکہ اہلکاروں نے ایک ہفتہ پوچھ گچھ کے بعد پروین کو کلین چٹ دے دی تھی اور انھیں گھر واپس بھیج دیا تھا لیکن اس کے بعد پروین کے ساتھ جو ہوا وہ حیران کن ہے۔

پروین کمار نے بتایا 'انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے مجھے کلین چٹ دے دی تھی اور میں 30 جون کو اپنے گھر واپس آ گیا تھا، لیکن گاؤں میں کئی لوگ میرے ساتھ عجیب سلوک کرنے لگے۔ میرے گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھ دیا گیا۔ ایک بار ایک کاغذ میرے گھر میں پھینکا گیا جس پر لکھا تھا کہ تم پاکستانی دہشتگرد ہو، پاکستان واپس چلے جاؤ۔'

سہارن پور پولیس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پروین کو کلین چٹ دے دی گئی تھی۔

بی بی سی سے گفتگو میں سہارن پور ضلعے کے پولیس اہلکار بینو سنگھ نے بتایا 'انسداد دہشت گردی کے اہلکار پروین کو پوچھ تاچھ کے لیے لے گئے تھے۔ وہاں سے انھیں کلین چٹ دی گئی ہے۔ باقی تفصیلات اہلکاروں کے پاس ہیں۔ میری معلومات بس اتنی ہیں کہ انھیں کلین چٹ دے دی گئی ہے۔'

Shahbaz Anwar/BBC پروین کے بقول ان کی گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھ دیا گیا

انسداد دہشت گردی کی جانچ کی تفصیل

دراصل دلی میں واقع اسلامک دعویٰ سینٹر سے وابستہ عمر گوتم اور جہانگیر عالم پر جبری طور پر مذہب تبدیل کرانے کا الزام تھا۔ اہلکاروں کے مطابق جانچ میں معلوم ہوا کہ مذہب بدلنے والے افراد میں پروین کمار کا نام بھی شامل تھا۔

انھیں پروین کے نام کے ساتھ ایک سرٹیفیکیٹ بھی موصول ہوا جس پر ان کی تصویر بھی تھی۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس سرٹیفکیٹ میں درج تھا کہ پروین کمار نے مذہب تبدیل کر کے اپنا نام عبد الصمد رکھ لیا ہے۔

پروین کمار سے عبد الصمد بننے کا سفر

اس بارے میں پروین کہتے ہیں 'یہ سرٹیفیکیٹ میرا ہی تھا۔ میں ان دنوں ڈپریشن کا شکار تھا اور مجھے سکون چاہیے تھا۔ اس لیے میں 19 نومبر 2019 کو گھر چھوڑ کر نکل گیا تھا۔۔۔ میں نے اس بارے میں اپنے والدین کو بتایا نہ ہی اپنی اہلیہ کو۔۔۔ اور اپنا موبائل فون بھی بند کر دیا تھا۔'

انھوں نے بتایا 'مجھے انٹرنیٹ سے اسلامک دعویٰ سینٹر کا پتا ملا تھا اور میں دلی پہنچا تو ابتدائی چند روز وہیں رہا۔ وہاں قرآن سے لے کر ہندو وید کی کتابیں بھی رکھی ہوئی تھیں اور میں اپنی مرضی سے وہاں گیا تھا۔ دو روز بعد میری ملاقات عمر گوتم اور جہانگیر عالم سے ہوئی۔ میں نے کچھ کتابوں پر غور کیا اور پھر پروین کمار سے عبد الصمد بن گیا۔'

اس گفتگو کے دوران پروین کمار اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے وہاں گئے تھے، کسی نے انھیں وہاں بلایا نہیں تھا۔

اس درمیان وہ بار بار یہ بھی دہراتے ہیں کہ ان دنوں وہ ڈپریشن کا شکار تھے اور انھوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا کسی نے انھیں کوئی لالچ دیا تھا نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کی زبردستی کی گئی تھی۔

Shahbaz Anwar/BBC میرٹھ سے دو سو کلومیٹر دور عدالت عظمیٰ تک کا سفر پروین نے پیدل طے کیا

'مجھے انصاف چاہیے'

پروین کمار پیشے سے ٹیچر ہیں۔ انھوں نے انصاف کے مطالبے کے ساتھ سہارنپور سے 27 جولائی کو یہ سفر شروع کیا تھا جو گذشتہ اتوار یعنی ایک اگست کو ختم ہوا۔

اس پیدل سفر کو پروین نے 'سماجی انصاف کے سفر' کا نام دیا ہے۔ لیکن آخر ان کے ساتھ ناانصافی کیا ہوئی؟

اس بارے میں وہ کہتے ہیں 'انسداد دہشت گردی کے اہل کاروں نے پہلی مرتبہ مجھ سے 21 جون کو میرے گھر پر پوچھ تاچھ کی تھی۔ یہ اہلکار 24 جون تک میرے گھر پر ہی پوچھ تاچھ کرتے رہے۔ اس کے بعد مجھے لکھنؤ لے جایا گیا جہاں مجھ سے 29 جون تک پوچھ تاچھ ہوئی۔'

پروین نے آگے بتایا 'اہلکاروں نے مجھ سے بیرون ممالک سے آنے والی معاشی مدد اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے سے متعلق سوالات کیے، مجھ سے کئی گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی جاتی تھی، لیکن بعد میں مجھے کلین چٹ دے کر واپس گھر بھیج دیا گیا۔'

گا ؤ ں میں پروین کے بارے میں افواہی ں پھیلنے لگیں

پروین کمار گھر تو لوٹ آئے لیکن یہاں سے ان کی مزید پریشانیاں شروع ہوئیں۔ بقول پروین کمار جس دن ان سے سوال جواب شروع ہوئے تھے، یعنی 21 جون، اسی دن سے گاؤں میں ان کے بارے میں افواہیں پھیلنے لگیں۔

پروین نے بتایا 'میں ایک قوم پرست شخص ہوں، شاعر ہوں، ٹیچر ہوں، مصنف بھی ہوں۔ لیکن 12 جولائی کی رات کو جب میرے گھر کی دیواروں پر دہشت گرد لکھ دیا گیا، پاکستان چلے جانے کی باتیں لکھ کر پرچہ میرے گھر میں پھینکا گیا تو میں بہت رویا۔ دل میں خیال آیا کہ خودکشی کر لوں۔'

ان کا کہنا تھا 'لیکن پھر میں نے سوچا کہ میں انصاف حاصل کروں گا۔۔۔ سماجی زیادتی کے خلاف انصاف۔ یہی سوچ کر میں نے 27 جولائی سے سماجی انصاف کا سفر شروع کیا تھا۔ ضلعی مجسڑیٹ کے دفتر میں اپنا خط سونپنے کے بعد میں 200 کلومیٹر دور واقع دلی کی سپریم کورٹ پہنچنے کے لیے وہاں سے پیدل ہی نکل پڑا اور اتوار کو میں دلی پہنچا۔'

'میں ان دنوں ڈپریشن کا شکار تھا'

پروین کمار نے اس روز کے بارے میں بتایا جب وہ نومبر 2019 میں اپنے گھر سے نکل پڑے تھے، 'میں جب گھر سے نکلا تو کافی پریشان تھا، مجھے سکون چاہیے تھا، اس کے بعد میں اسلامک دعویٰ سینٹر پہنچا۔ میں کچھ دن کاشی جا کر بھی رہا۔ میں اپنی مرضی سے عبدالصمد بنا۔'

ان کا کہنا تھا 'چند لوگوں نے میرا علاج کرایا تو میں ٹھیک بھی ہو گیا۔ جنوری 2020 کو جب میں گھر واپس آیا تو گھر والے مجھے دیکھ کر خوش ہو گئے۔ انھوں نے مجھ سے میرے لاپتہ ہونے کے بارے میں ہوچھا تو میں نے انھیں سچ بتا دیا۔'

پروین کمار کے عبد الصمد بننے کے بارے میں رشتہ داروں کو پتا چلا تو انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ پروین سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اب وہ پروین کمار ہیں یا عبد الصمد تو وہ کہتے ہیں 'میں ان دنوں ڈپریشن میں تھا اور اب بھی جب بھی مجھے موقع ملتا ہے میں مراقبے میں جاتا ہوں۔ بس اب میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔'

جب انھیں کچھ واضح جواب دینے کے لیے کہا جاتا ہے تو پروین اس سے گریز کرتے ہیں۔

وہ بار بار دہراتے ہیں کہ وہ ان دنوں ڈپریشن میں تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس ڈپریشن کی وجہ کیا تھی۔

گاؤں میں ان کے بھائی کی راشن کی دکان تھی۔ گاؤں والوں کو شک ہوا کہ ان کی وجہ سے کچھ لوگوں کے راشن کارڈ مسترد ہو گئے ہیں۔ یہیں سے رنجش شروع ہوئی اور پروین سمیت ان کے بھائی اور خاندان کے چند دیگر افراد کے خلاف پولیس رپورٹ درج کرا دی گئی۔

پروین نے بتایا 'ان لوگوں نے میرے بھائی پر جھوٹا الزام لگایا تھا۔ جس دوران جھگڑا ہوا، میں ہریدوار میں مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ میں اس پورے معاملے میں سازش کا شکار ہو گیا۔'

پروین نے مقابلے کا امتحان تو پاس کر لیا لیکن انھیں بتایا گیا کہ پولیس رپورٹ میں ان کا نام درج ہونے کے سبب انھیں سرکاری نوکری تب تک نہیں مل پائے گی جب تک اس معاملے سے ان کا نام صاف نہیں ہو جاتا۔

پروین نے کہا 'میں نے 2020 میں مقابلے کا امتحان پاس کیا تھا۔ بہت طویل عرصے کی سخت محنت کے بعد مجھے یہ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ لیکن اتنی محنت کے باوجود میں کامیاب نہیں ہو سکا کیوں کہ میرے خلاف مقدمہ چل رہا تھا۔'

پروین گاؤں کے کچھ لوگوں کو لے کر ان افراد کے پاس گئے جنھوں نے ان کے خلاف یہ معاملہ درج کرایا تھا۔ لیکن ان لوگوں نے معاملہ ختم کرنے سے انکار کر دیا۔

پروین اور ان کے خاندان کے خلاف معاملہ درج کروانے والوں میں گاؤں کے نریندر تاراچند بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ابھی تک اس کیس کو لڑ رہے ہیں۔

پروین نے بتایا 'میں اسی دن سے ڈپریشن کی زد میں آگیا۔ مجھے لگنے لگا کہ میں جتنی بھی محنت کر لوں، کامیاب نہیں ہو سکوں گا۔ تبھی سے مجھے سکون کی تلاش رہنے لگی تھی۔'

پروین 'یوگی' اور 'مودی' پر کتابیں بھی لکھ چکے ہیں

پروین کہتے ہیں 'میرے اندر قوم پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ میں جس وقت مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا، انھی دنوں چوہدری کلیرام کالج میں پڑھا بھی رہا تھا۔ میں مصنف ہوں، میں نے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے 2016 میں 'نمو گاتھا' اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر مختلف کتتابیں شائع کروائیں ہیں۔ دو مزید کتابیں لکھی ہیں، لیکن ابھی ان کا نام نہیں بتا سکتا۔'

ان دنوں پروین ایک شوگر مل میں کین ڈیولیپمنٹ سُپروائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

گاؤں کے لوگوں کے پروین کے بارے میں خیالات

پروین کے بارے میں ان کے گاؤں کے دوست اور ساتھ میں کالج میں پڑھانے والے دیگر ٹیچرز اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کے ایک ساتھی ہیمانشو نے بی بی سی کو بتایا 'پروین اور میں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کا مزاج بہت اچھا ہے۔ ہم دونوں نے مقابلے کا امتحان ساتھ دیا تھا، پروین پاس ہو گیا اور میں رہ گیا۔ پروین کچھ عرصے کے لیے گھر سے لاپتہ ہو گیا تھا۔ جب انسداد دہشت گردی کی ٹیم اس کے گھر تفتیش کے لیے پہنچی تو ہمیں بہت حیرانی ہوئی۔ پروین مجھ سے ہمیشہ اپنی پڑھائی لکھائی کے بارے میں ہی بات کرتا تھا۔'

ایک اور دوست جانی نے بھی بتایا کہ پروین سماجی زیادتیوں کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔

انھوں نے کہا 'گذشتہ کچھ عرصے میں میری پروین سے زیادہ ملاقات نہیں ہو سکی۔ ہم دونوں نے ساتھ بی اے کیا تھا۔ پروین نے ہمیشہ گاؤں کا نام روشن کیا ہے۔ میں ان کا ہمسایہ بھی ہوں۔'

جانی کے خیال میں پروین کا انصاف کے لیے کیا جانے والا پیدل سفر صحیح قدم ہے۔

پروین کے ایک اور ساتھی پورن سنگھ نے بتایا 'ہم نے پروین کے اس سفر کے بارے میں خبروں میں ہی دیکھا ہے۔ قریب دو برس قبل پروین ہمارے ساتھ پڑھاتے تھے۔ انھوں نے امتحان پاس کیا تھا۔ وہ ایک مختلف شخصیت کے مالک اور بہت ہونہار شخص ہیں۔ ان کے ذاتی معاملات کے بارے میں میری ان سے کبھی بات نہیں ہوئی۔ ان کا ایک ہی خواب تھا کہ انھیں مقابلے کا امتحان پاس کرنا ہے۔'

پروین کے گاؤں کے پردھان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں کسی کو پروین سے کوئی شکایت نہیں۔ اس کے علاوہ ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں پروین کے گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھے جانے یا ان کے گھر میں کچھ لکھ کر پھینکے جانے کے بارے میں کوئی علم نہیں۔

انھوں نے کہا 'گاؤں میں کسی کی پروین سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ویسے اگر اس کے ساتھ کچھ ہوا، اس بارے میں انھیں پہلے گاؤں کے چند ذمہ دار لوگوں کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کرنا چاہیے تھا۔'

پروین کمار کا خاندان میڈیا کے سوالات سے پریشان ہے اور کچھ کہنا نہیں چاہتا۔

پروین کے مطابق انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کی پوچھ گچھ کے بعد سے آئے دن ان کے گاؤں میں میڈیا کے آنے اور ان کے سوالات سے ان کا خاندان بہت پریشان ہو چکا ہے۔ ان کے والد کاشتکار ہیں۔ ان کے علاوہ پروین کی اہلیہ اور دو بچے بھی ہیں۔ ایک بھائی اور بہن بھی ہیں جن کی شادی ہو چکی ہے۔

ان کے والد گاؤں کے پردھان رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ جب دیوار پر دہشت گرد لکھا گیا تو اسے صاف کرانے والے وہی تھے۔

پروین کمار کا انصاف کے لیے پیدل سفر یکم اگست کو دلی میں واقع عدالت عظمیٰ پہنچ کر ختم ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں 'میں نے سماجی زیادتی سے تنگ آ کر یہ پیدل سفر شروع کیا تھا۔ میں جلد ہی سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کروں گا تاکہ کوئی اور اس قسم کی زیادتی کا شکار نہ ہو۔ ان کے ساتھ ناانصافی یا زیادتی نہ ہو۔'

(بی بی سی سے ماخوذ)

خطبہ کےدوران امام کا مقتدیوں پرتنبیہ کرنا

 دورانِ خطبہ (خواہ جمعہ کا خطبہ ہو، یا نکاح عیدین کا خطبہ ہو)    سامعین کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور کسی بھی طرح کے کلام یا لایعنی امر سے منع کیا گیا ہے، یہاں تک کہ دو خطبوں کے درمیان ذکر بھی دل ہی دل میں کرنا  چاہیے، زبان سے نہیں کرنا  چاہیے،  اور خطبے کے دوران کوئی بات چیت کرے یا کنکریوں سے کھیلے تو بھی دیگر سامعین کو دورانِ خطبہ جمعہ نصیحت نہیں کرنی چاہیے، تاہم مذکورہ حکم سے امام وخطیب مستثنی ہیں، لہذا خطیب دورانِ خطبہ  یا دوخطبوں کے درمیان بوقتِ  ضرورت امربالمعروف وغیرہ پر مشتمل کلام  (جیسے مقتدی حضرات کو لایعنی امور سے منع کرنا وغیرہ)کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أن كل ما حرم في الصلاة حرم في الخطبة؛ فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف إلا من الخطيب لأن الأمر بالمعروف منها بلا فرق بين قريب وبعيد في الأصح ولا يرد تحذير من خيف هلاكه لأنه يجب لحق آدمي وهو محتاج إليه، والإنصات لحقه تعالى، ومبناه على المسامحة والأصح أنه لا بأس، بأن يشير برأسه أو يده عند رؤية منكر، وكذا الاستماع لسائر الخطب كخطبة نكاح وختم وعيد على المعتمد." 

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:545، ط:ايج ايم سعيد)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

"والتکلم به من غير الامام حرام." 

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:552، ط:قديمى كتب خانه)