https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 21 August 2021

طالبان کے بہانے ہندوستانی مسلمانوں پر نشانہ کیوں :شکیل رشد

 طالبان ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اتنے اہم نہیں ہیں جتنا کہ اس ملک کے عوام کو باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس کوشش میں سب سے آگے 'گودی میڈیا' ہے ، ' وہاٹس ایپ یونیورسٹی ' ہے اور وہ اندھ بھکت ہیں جنہیں کچھ لوگ ہندوستان کے طالبانی کہتے ہیں ، مگر ہم انہیں طالبانی نہ کہہ کر ' ہندوتوا کے کٹر وادی' کہیں گے ۔ طالبان کو اسلام کا چہرہ بتانے کے پسِ پشت کیا مقصد ہے ، اس سوال کا جواب کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اس کا سب سے بڑا مقصد اسلام کو بدنام کرنا ہے ، اور جب اسلام بدنام ہوگا تو مسلمان بدنام ہوں گے ہی۔ اور اِن دنوں اس ملک کی مرکزی اور اکثر ریاستی سرکارو ںکی ' سیاسی نیّا' اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے سے جو نفرت کا دریا بہتا ہے ، اسی پر چل رہی ہے ۔ طالبان پر کیا الزامات ہیں ؟ یہی کہ اس نے شریعت کو لاگو کرنے کے لیے زبردستی کی، عورتوں کو تعلیم سے دور کیا اور ان پر ملازمت کے دروازے بند کیے، میوزک پر پابندی لگائی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ کیا اس ملک میں بھی یہی نہیں ہورہا ہے ، کیا 'پدماؤت' فلم نہیں تھی ، کیا اس فلم کو، اور اس فلم کی ہی طرح بہت ساری فلموں کو اس لیے نشانہ نہیں بنایا گیا کہ وہ ' ہندوتوا' کے نظریے پر درست نہیں بیٹھتی تھیں؟ اس ملک میں کیا اقلیت پر ملازمت کے دروازے نہیں بند کیے گیے؟ کیا اس ملک میں خواتین کو بری طرح سے اس لیے نہیں مارا پیٹا گیا کہ وہ اپنے مذہب کے کسی لڑکے یا کسی عورت سے نہیں دوسرے مذہب والوں سے باتیں کررہی یا ان کے ساتھ کہیں گھوم رہی تھیں؟ کیا اس ملک میں لوگ جموں کے ایک مندر کا واقعہ بھلادیں گے جہاں آصفہ کا ریپ کیا گیا اور پھر اسے قتل کیا گیا تھا؟ دلت عورتوںکو ننگا گھمانے ، ان کی عصمت کو تارتار کرنےاور پھر انہیں قتل کرنے کے واقعے تو اس ملک میں روز کا معمول ہیں ۔ کیا کوئی مظفر نگر اور دہلی کی ان دلت بچیوں کو بھول سکتا ہے جن کی آتمائیںآج بھی انصاف کے لیے بھٹک رہی ہیں ؟ مسلم خواتین کو ، جنہیں اس وقت، جب گجرات میں مودی راج تھا، جس طرح کے ظلم وستم سے گزرنا پڑا ، جس طرح حاملہ بلقیس بانو کے ساتھ زنابالجبر کیا گیا ، کیاکوئی بھول سکتا ہے ؟ بیسٹ بیکری کق جلانے اور اندر کے لوگوں کو،اوراحمدآباد میں احسان جعفری کو زندہ جلاکر ماردیئے جانے کے ظالمانہ عمل کو کیا بھلایا جاسکتا ہے ؟ دہلی کے فسادات کہیں بھلائے جاسکتے ہیں؟ یہ تو دھرم کے نام پر ،ذات پات کی بنیاد پر کیے گیے مظالم ہیں ، ایسے مظالم جن کی تعلیم 'ہندوتوادی' نظریات رکھنے والےاندھ بھکت دیتے ہیں، ان کے گرنتھ دیتے ہیں۔ طالبان کو جویہ ' گودی میڈیا' یہ 'وہاٹس ایپ یونیورسٹی' یہ 'اندھ بھکت' گالیاں دے رہے ہیں ، کس منھ سے؟ ان کے اپنے کرتوت تو بے انتہا سیاہ ہیں۔خیر یہ ان کی اپنی اخلاقیات ہیں ،یہ گالیاں دیتے ہیں دیں مگر اس میں اپنے گندے سیاسی مفادات کے لیے مسلمانوں کا نام شامل نہ کریں ۔

(ماخوذ از ڈیلی ہنٹ )

جموں کشمیر میں سنسکرت زبان کوفروغ دیاجائے گا

 جموں : جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جموں و کشمیر میں سنسکرت زبان کو زندہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ کیونکہ یہ ہمیشہ سے اس قدیم زبان کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ ایل جی کے مطابق بنارس کی طرح ، جے اینڈ کے ہمیشہ سنسکرت کا ایک بڑا مرکز رہا ہے اور اسی لیے حکومت نے اس کا اعلان کیا۔ آنے والے دنوں میں جموں و کشمیر میں سنسکرت کے فروغ کے لیے ابھینو گپتا انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ ایل جی کے اس اعلان کو جموں و کشمیر کے تمام سنسکرت سے محبت کرنے والے لوگوں نے سراہا ہے۔ 

جموں و کشمیر کے ایل جی منوج سنہا نے سنسکرت کے فروغ کے حوالے سے کئی اعلانات کئے ۔ کٹھوعہ بسلوہلی علاقہ میں چودامانی سنسکرت سنستھان کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے دوران لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ سنسکرت زبان کی اقدار کو البرٹ آئنسٹائن ، اوپن ہائیمر اور میکس مولر جیسی عظیم شخصیات نے بھی تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اسکولوں میں جدید تقاضوں کے مطابق سنسکرت کو پڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی نسل ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے دوران سنسکرت کے صحیفوں میں حکمت سے آشنا ہونا چاہے گی ۔ چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر ایک بڑا اعلان کیا کہ یو ٹی انتظامیہ نئی تعلیمی پالیسی کی سفارشات کے مطابق سنسکرت زبان کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے ، جس کے تحت ابھینو گپتا انسٹی ٹیوٹ برائے فروغ جموں و کشمیر میں جلد ہی قائم کیا جائے گا۔ 

سنسکرت پروموشن کے حوالے سے ایل جی کے اس اعلان نے سنسکرت سے محبت کرنے والے لوگوں کے اس قدم کا خیرمقدم کرتے ہوئے زبردست ردعمل ظاہر کیا ہے۔ سنسکرت کی تعلیم دینے والی فیکلٹی جیسے جموں سنسکرت کے پروفیسر رام بہادر شکولا کا کہنا ہے کہ انہیں خوشی ہے کہ ابھینو گپتا کے نام سے ایک نیا سنسکرت انسٹی ٹیوٹ جموں و کشمیر میں قائم ہونے والا ہے ۔ اس سے جو سنسکرت زبان اپنا وجود کھونے لگی تھی ، اس سے وہ اپنے وجود میں واپس آسکتی ہے اور یہ انتظامیہ کا بہت ہی اچھا فیصلہ ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ 

جموں و کشمیر کے عام لوگ بھی ایل جی انتظامیہ کی طرف سے جموں و کشمیر میں سنسکرت زبان کا جائزہ لینے کے اعلان پر کافی پرجوش ہیں ۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت اور عوام دونوں اس زبان کی موجودہ قابل رحم صورتحال کیلئے ذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ زبان سکولوں میں پڑھائی جانی چاہئے تاکہ نوجوان نسل اس سے جڑ جائے۔ 

جموں کے رہنے والے وکاس رینا کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے جو یہ فیصلہ کیا ہے ، ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔ اس فیصلے سے سنسکرت زبان جو کہ جموں کشمیر میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ، اگر اس کو سکولوں میں لاگو کیا جائے تو اس سے نئی نسل کو سنسکرت زبان ، کلچر کے بارے میں پتا چلے گا اور اس سے ان کو بھی کافی فائدہ ملے گا۔ وہیں جموں کی رہنے والی دیکشا گپتا نے کہا کہ سنسکرت زبان جموں و کشمیر میں کافی حد تک اپنا وجود کھو چکی ہے اور اس بات کا ہمیں افسوس بھی ہے۔ انتظامیہ نے جو یہ فیصلہ کیا ہے اس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں اور یہ اُمید کرتے ہیں جلد سے جلد اس زبان کو سکولوں میں لاگو کیا جائے۔ 
جموں کشمیر میں سنسکرت کوفروغ دینے سے مسلم تہذیب وتمدن کوکھلم کھلانظرانداز کرنا ہے. مسلمانوں میں اس اعلان سے شدید اضطراب پیدا ہوگیا ہے. یہاں سنسکرت کے بجائے کشمیری  اور عربی کوفروغ کیوں نہیں دیاجاسکتا ؟سنسکرت  کاکشمیر سے کوئی تعلق نہیں. یہ سراسر زیادتی ہے. 

Friday 20 August 2021

ایام عاشورا میں حلیم بنانے اور کھانے کاحکم

 واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام کی ’’حلیم‘‘ یا کوئی بھی کھانا پکانا سال کے کسی بھی دن  حرام ہوگا، اور اگر وہ ’’حلیم‘‘  اللہ کے نام کی ہو  یا ویسے ہی عام کھانے کے طور پر پکائی گئی ہو تو اس کا بنانا جائز ہے بشرطیکہ کسی خاص رسم یا عقیدہ یا سوگ کی بنیاد پرنہ ہو۔

تاہم آج کے دور میں9، 10 محرم کو ’’حلیم‘‘  بنانے کا التزام کرنا چوں کہ اہلِ  باطل کا شعار بن چکا ہے،  اس لیے  ان دنوں میں اس سے مکمل اجتناب کیا جائے؛  تاکہ ان کی مشابہت سے بچ جائیں؛ فساق و فجار کی مشابہت اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ البتہ  محرم الحرام کے ان مخصوص دنوں کے علاوہ  کسی دن اگر کسی باطل نظریے یا رسم کی پیروی سے اجتناب کرتے ہوئے حلیم پکائی گئی تو اس کی اجازت ہوگی۔

علامہ ابن حجر مکی ہیثمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الزواجر عن اقتراف الکبائر‘‘ میں مالک بن دینار رحمہ اللہ کی روایت سے ایک نبی کی یہ وحی نقل کی ہے:
’’قال مالك بن دینار أوحی اللّٰه إلی نبي من الأنبیاء أن قل لقومك: لایدخلوا مداخل أعدائي، ولایلبسوا ملابس أعدائي، ولایرکبوا مراکب أعدائي، ولایطعموا مطاعم أعدائي، فیکونوا أعدائي کما هم أعدائي‘‘.  (ج:۱،ص:۱۵، مقدمہ، ط: دارالمعرفۃ، بیروت)
ترجمہ: ’’مالک بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ انبیاءِ سابقین میں سے ایک نبی کی طرف اللہ کی یہ وحی آئی کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ نہ میرے دشمنوں کے  داخل ہونے کی جگہ میں داخل ہوں اور نہ میرے دشمنوں جیسا لباس پہنیں اور نہ ہی میرے دشمنوں جیسے کھانے کھائیں اور نہ ہی میرے دشمنوں جیسی سواریوں پر سوار ہوں (یعنی ہر چیز میں ان سے ممتاز اور جدا رہیں)ایسا نہ ہوکہ یہ بھی میرے دشمنوں کی طرح میرے دشمن بن جائیں۔‘‘ ( از فتاویٰ بینات،ج:۴،ص:۳۷۲)

Thursday 19 August 2021

منی پاک ہے یا ناپاک

 منی ناپاک ہے۔ اگر کپڑے کو لگ جائے تو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے۔ یعنی اس قدر دھونا ضروری ہے کہ مادہ منویہ کا اثر ختم ہو جائے، یا تین بار اس طرح دھوئے کہ ہر  مرتبہ دھونے کے بعد  اچھی طرح نچوڑ لے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں تو کپڑا پاک ہو جائے گا۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"أخبرنا عمرو بن ميمون الجزري، عن سليمان بن يسار، عن عائشة قالت: «كنت أغسل الجنابة من ثوب النبي صلى الله عليه وسلم، فيخرج إلى الصلاة، وإن بقع الماء في ثوبه». وفي حاشيته: (الجنابة) المراد أثرها أو سببها وهو المني."

(صحيح البخاري، باب غسل المني وفركه، وغسل ما يصيب من المرأة، ج: ق، صفحہ: 55، رقم الحدیث: 229، ط: دار طوق النجاة) 

 عمدة القاري شرح صحيح البخاری میں ہے:

"عن سليمان بن يسار عن عائشة، رضي الله تعالى عنها، قالت: (كنت أغسل المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء لفي ثوبه) . وإسناده صحيح على شرط مسلم."

(باب غسل المني وفركه وغسل ما يصيب من المرأة، ج: 3، صفحہ: 146، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت) 

سنن الدار قطنی میں ہے:

"حدثنا  ثابت بن حماد عن علي بن زيد عن سعيد بن المسيب عن عمار بن ياسر قال: أتى على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا على  بئر أدلو ماء في ركوة لي، فقال: «يا عمار ما تصنع؟»  قلت: يا رسول الله بأبي وأمي، أغسل ثوبي من نخامة أصابته، فقال: "يا عمار إنما يغسل الثوب من خمس: من الغائط والبول والقيء والدم والمني، يا عمار، ما نخامتك ودموع عينيك والماء الذي في ركوتك إلا سواء".

(باب نجاسة البول والأمر بالتنزه منه والحكم في بول ما يؤكل لحمه، ج:1، صفحہ: 230، رقم الحدیث: 458، ط: مؤسسة الرسالة، بيروت - لبنان)

الجوهرة النيرة علی مختصر القدوری میں ہے:

"(قوله: والمني نجس) وقال الشافعي: طاهر «لقوله عليه السلام  لابن عباس: المني كالمخاط فأمطه عنك، ولو بإذخرة» ولأنه أصل خلقة الآدمي فكان طاهرًا كالتراب، ولنا «قوله عليه السلام لعمار بن ياسر وقد رآه يغسل ثوبه من نخامة: "إنما يغسل الثوب من خمس: من البول والغائط والدم والمني والقيء" فقرن المني بالأشياء التي هي نجسة بالإجماع فكان حكمه كحكم ما قرن به، وأما حديث ابن عباس فهو حجة لنا؛ لأنه أمره بالإماطة والأمر للوجوب كذا في النهاية ولأنه خارج يتعلق بخروجه نقض الطهارة كالبول ثم نجاسة المني عندنا مغلظة (قوله: يجب غسل رطبه فإذا جف على الثوب أجزأ فيه الفرك) قيد بالثوب؛ لأنه إذا جف على البدن ففيه اختلاف المشايخ قال بعضهم: لايطهر إلا بالغسل؛ لأن البدن لا يمكن فركه.

(کتاب الصلاۃ، باب الانجاس، ج: 1، صفحہ: 37، ط: المطبعة الخيرية)

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

 ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مُردہ مت کہو (وہ مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں(ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ)

اسی طرح ایک اورمقام پرارشادہوا:’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، تم انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیاجاتا ہے‘‘۔(سورئہ آل عمران)

’’ سورۃ النساء ‘‘ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہدائے کرام کوان لوگوں کے ساتھ بیان کیا ہے، جن پراللہ تعالیٰ نے اپناخاص فضل وکرم اورانعام واکرام فرمایا اور انہیں صراطِ مستقیم اور سیدھے راستے کامعیاروکسوٹی قرار دیا ہے۔

چناں چہ ارشادِخداوندی ہے:’’جوکوئی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺکی(ایمان اورصدقِ دل کے ساتھ) اطاعت کرتاہے،پس وہ(روزِقیامت)ان لوگوں کے ساتھ ہوگا، جن پراللہ تعالیٰ نے (اپناخاص ) انعام فرمایا ہے، جوکہ انبیاءؑ، صدیقین، شہداء اورصالحین ہیں اور یہ کتنے بہترین ساتھی ہیں‘‘۔(سورۃ النساء)

شہادت ہے مقصودومطلوب مومن 

نہ مال غنیمت نہ کشورکشائی 

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا : شہدائے کرام جنت کے دروازے پر نہر بارق پر سبز قبہ میں ہیں اور ان کا رزق انہیں صبح و شام پہنچتا ہے۔(مسند احمد،مستدرک ،طبرانی) حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے، ان سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے، پوچھا جائے گا یہ کون ہیں؟ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی ۔ ( طبرانی۔ مجمع الزوائد)

حضرت انس بن مالکؓ رسول اﷲ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:جو شخص بھی جنت میں داخل ہو تا ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور اسے دنیاکی ہر چیز دے دی جائے، مگر شہید (اس کا معاملہ یہ ہے)کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ لوٹ جائے اور دس مرتبہ قتل کیا جائے۔ (راہِ خدا میں باربار شہید کیا جائے) (صحیح بخاری، صحیح مسلم، بیہقی) حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جان لو! کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔(صحیح بخاری)

حضرت مسروق تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی:ترجمہ:اور جو لوگ راہِ خدا میں قتل کردئیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرّب ہیں، انہیں رزق بھی ملتا ہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہو – اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے – ،وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون کا فوارہ بہہ رہا ہوگا، رنگ خون کا اور خوشبو کستوری کی۔ (صحیح بخاری ومسلم) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہید کو (راہِ خدا میں) قتل کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی، جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔ (ترمذی،نسائی، دارمی)

شہادت کے فضائل سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلمان کی حقیقی ودائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اﷲ کے دین کی سربلندی کی خاطر شہید کردیا جائے، لہٰذا ایک مومن کی تو دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہو۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میری یہ آرزو اور تمنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل (شہید) کیاجائوں، پھر زندہ کیاجائوں، پھر شہید کیا جائوں، پھر زندہ کیاجائوں، پھرشہید کیا جائوں، پھرزندہ کیاجائوں اور پھر شہیدکیا جائوں‘‘۔(صحیح بخاری،مشکوٰۃ المصابیح)

ارشاد ِربانی ہے:ترجمہ:تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ (سورۃ النساء)اس آیت کریمہ میں راہِ خدا کے جاں باز شہیدوں کو انبیاءؑ و صدیقین کے بعد تیسرا مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔

شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں، جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے۔ شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے…اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں …جو احکام القرآن جصاص،احکام القرآن قرطبی اور دیگرمستند تفاسیر میں مذکور ہیں۔

(1) کیونکہ شہید کے لیے جنت کی شہادت یعنی گواہی دی گئی ہے کہ وہ یقیناً جنتی ہے …( 2 ) کیونکہ ان کی روحیں جنت میں شاہد یعنی حاضر رہتی ہیں، کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں،جب کہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی… نضر بن شمیل فرماتے ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والا۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں یہی قول صحیح ہے…( 3) ابن فارس کہتے ہیں الشہید بمعنی المقتول یعنی اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا…( 4) کیونکہ فرشتے اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں…( 5) جب اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہد کو پورا کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کردیا ہے اور اس کی گواہی اللہ کی گواہی کے ساتھ مل گئی۔ اللہ کے حضور اپنی جان پر گواہی، شہادت کی وجہ سے اسے شہید کہا جاتا ہے…

( 6) ابن انبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت یعنی گواہی دیتے ہیں، اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے…( 7) اس کی روح نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے، اس وجہ سے اسے شہید کہتے ہیں…( 8) کیونکہ رحمت والے فرشتے اس کی روح لینے کے لیے شاہد یعنی حاضر ہوتے ہیں…(9) اس کے پاس ایک شاہد گواہ ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون، کیونکہ قیامت کے دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں میں سے خون بہہ رہا ہوگا…

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سات انعامات ہیں ( 1) خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے۔ ( 2) اور اسے ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔ (3) عذاب قبر سے اسے بچا دیا جاتا ہے۔ (4) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے اسے امن دے دیا جاتا ہے۔ (5) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (6 ) بہتّر حور عین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔ ( 7) اور اپنے اقارب میں ستّر آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ ( مسند احمد )

ماہِ محرم ہمیں نواسۂ رسولؐ،شہیدِ کربلا حضرت امام حسینؓ اوران کے عظیم جاں نثاروں کی یاد دلاتا ہے ،جنہوں نے کربلا میں ظلم اور باطل نظام کے خلاف کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے راہِ حق میں اپنی جانیں قربان کیں۔شہدائے کربلا کے سالارسیدنا حضرت حسینؓ کی ذاتِ گرامی جرأت وشجاعت اور حق وصداقت کا وہ بلند مینار ہے، جس سے دین کے متوالے ہمیشہ حق کی راہ پر حق و صداقت کا پرچم بلند کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ تمام شہدائے اسلام کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے…( آمین یا رب العالمین)

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں 

گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات 

Wednesday 18 August 2021

علی گڑھ کانام ہری گڑھ کرنے کی تجویز.حکومت کا ایک عظیم ترین کارنامہ


 علی گڑھ: یوگی حکومت مختلف شہروں کے نام تبدیل کرنے کے لئے مشہور ہے اور الہ آباد سمیت متعدد شہروں کے نام تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ اب علی گڑھ کا نام بھی تبدیل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے اور علی گڑھ کی ضلع پنچایت نے اس معاملہ پر ایک قرارداد بھی منظور کر لی ہے۔ وہیں مین پوری کا نام بھی تبدیل کرنے کی قرارداد ضلع پنچایت سے منظور کی گئی ہے۔

ضلع پنچایت کے اجلاس کے دوران علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کرنے کی قرارداد پیش کی گئی۔ اس قراردفاد کو کیہری سنگھ اور امیش یادو نے پیش کیا گیا۔ جسے متفقہ طور پر تمام ارکان نے منظور کر لیا گیا۔

ادھر مین پوری کا نام بھی تبدیل کر کے ماین ریشی کے نام پر رکھنے کی قراردا پیش کی گئی۔ مین پوری کا نام تبدیل کرنے کی کئی ارکان نے مخالفت بھی کی۔ تاہم ضلع پنچایت ارکان کی اکثریت کی جانب سے قرارداد کو حمایت دینے کے بعد ضلع پنچایت صدر ارچنا بھدوریا نے مین پوری کا نام تبدیل کر کے ماین نگر کرنے کی قرارداد کو منظور کر لیا۔

ضلع پنچایتوں میں منظور کی گئی قراردادوں کو اب یوگی حکومت کے پاس بھیجا جائے گا، جہاں یہ فیصلہ لیا جائے گا کہ ان شہروں کے ناموں کو تبدیل کرنا ہے یا نہیں۔

علی گرھ میں اس وقت یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کے بیٹے راجویر سنگھ راجو کی سمدھن وجے سنگھ ضلع پنچایت صدر ہیں۔ وہیں مین پوری کی ضلع پنچایت صدارت کی کرسی پہلی پرتبہ بی جے پی کے ہاتھ لگی ہے۔ ابھی تک یہاں سماجوادی پارٹی کی جیت حاصل کرتی آ رہی تھی۔

دیوبند میں اے ٹی ایس کمانڈوسینڑقایم کرکے حکومت مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کررہی ہے :گووندچودھری

 دیوبند۔ ۱۷؍اگست:(ایس چودھری) اترپردیش کی یوگی حکومت نے دیوبند میں اے ٹی ایس کمانڈو سینٹر کے قیام کا فیصلہ کیاہے ، یوپی حکومت کا کہناہے طالبان کے حامی اور دہشت گردی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے یوگی سرکار نے سہارنپور کے دیوبند میں انسداد دہشت گردی دستہ ( اے ٹی ایس ) کمانڈو سینٹر بنانے کا فیصلہ لیا ہے اور اس کے لیے 2 ہزار مربع میٹر زمین بھی الاٹ کی گئی ہے۔اس سینٹر میں 15 سے زائد اے ٹی ایس تیز طرار افسران تعینات ہوں گے اور بڑی تعداد میں اے ٹی ایس کمانڈ بھی یہاں تیار کیے جائیں گے۔دیوبند اسلامی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز مانا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے سرکار کے اس فیصلے کو سیاسی ہتھکنڈہ قرار دے دیا۔سماجوادی پارٹی کے ترجمان رام گووند چودھری نے کہاکہ حکومت مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کررہی ہے۔رام گووند چودھری نے کہا کہ دیوبند میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسلئے سرکار مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے ایسا کررہی ہے،انہوں نے آبادی کنٹرول قانون کو لے کر سرکار پر نشانہ سادھا۔ چودھری نے اس معاملہ میں افغانستان اور طالبان جوڑنے پر بھی سخت اعتراض ظاہر کیاہے۔ادھر علاقائی رکن اسمبلی کنوربرجیش سنگھ نے بتایاکہ دیوبند کے ریلوے روڈ پراے ٹی ایس کمانڈو سینٹر کے قیام کا فیصلہ ریاستی حکومت نے لے لیاہے، اے ٹی ایس سینٹر کے قیام کو لیکر علاقائی انتظامیہ کی جانب سے حکومت کو گزشتہ دنوں دیوی کنڈ روڈ پرواقع گاؤں شالہ کے نزدیک سمیت تین الگ الگ مقامات کی تجویز بھیجی گئی تھی،جسے ریلوے روڈ واقع ایک پلاٹ پر سینٹر بنانے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں دیوبند اسمبلی کنوربرجیش سنگھ نے کہاکہ شہر میں اے ٹی ایس سینٹر کے قیام کے لئے وزیر اعلیٰ اترپردیش یوگی آتیہ ناتھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ دیوبند ایک حساس علاقہ ہے اور یہاں سے اس قبل بھی کچھ مشتبہ گرفتار کئے جاچکے ہیں،انہوں نے کہاکہ اس سے قبل رونماہوئے ان کچھ واقعات کے بعد انہوں نے ا سلسلہ میں حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے افسران کے ساتھ غورو خوض کیا تھا،جسے حکومتی سطح پر سنجیدگی سے لیا گیاہے اور کافی وقت سے سینٹر بنانے کے قیام کے لئے زمین کی تلاش کی جارہی تھی،اسمبلی رکن کنوبرجیش سنگھ نے کہاکہ دیوبند میں اے ٹی ایس کے دفتر کا قیام ہوجانے سے آس پاس کے اضلاع کو بھی اس کا فائدہ ہوگا،اسی کے ساتھ ساتھ کچھ انتہاپسند تنظیموں نے بھی حکومت کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیاہے

Saturday 14 August 2021

آزادئ ہند میں مسلمانوں کا کردار

 ہندوستان کی جدوجہد آزادی پرگہری نظررکھنے والے مؤرخین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہمارے اسلاف کے بغیر آزادئ ہند کی  تاریخ  نامکمل رہے گی۔

ہر ہندوستانی کو ان ناقابل تردید حقائق کے بارے میں باخبر ہونا چاہئے اور اپنے بچوں کو بھی ملک کی تحریک آزادی کی حقیقت سے واقف کرانا چاہئے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہرہندوستانی کو جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں سے واقف کرایئں۔ ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ اور پھر ان کے خلاف جدوجہد آزادی کے آغاز کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پہلی جدوجہد آزادی حیدر علی اور ان کے فرزند دلبند ٹیپو سلطان نے 1780 ء میں شروع کی اور 1790 ء میں پہلی مرتبہ فوجی استعمال کے لئے حیدر علی و ٹیپو سلطان نے میسوری ساختہ راکٹس کو بڑی کامیابی سے نصب کیا۔ حیدر علی اور ان کے بہادر فرزند نے 1780 ء اور 1790 ء میں برطانوی حملہ آوروں کے خلاف راکٹیں اور توپ کا مؤثر طور پر استعمال کیا۔
ہندوستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ رانی جھانسی نے اپنے متبنیٰ فرزند کے لئے سلطنت و حکمرانی کے حصول کی خاطر لڑائی لڑی لیکن ہم سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ بیگم حضرت محل پہلی جنگ آزادی کی گمنام ہیروئن تھیں جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر سر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا اور 30 جون 1857 ء کو چن پاٹ کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں انگریزی فوج کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کی پہلی جنگ عظیم کو کس نے منظم کیا تھا اور اس کی قیادت کس نے کی تھی؟ اس کا جواب مولوی احمد اللہ شاہ ہے جنھوں نے ملک میں پہلی جنگ آزادی منظم کی تھی۔ جدوجہد آزادی میں بے شمار مجاہدین آزادی نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں 90 فیصد مسلم مجاہدین آزادی تھے۔ برطانوی راج کے خلاف سازش کے الزام میں اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی۔ اس طرح وہ انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں پھانسی پر چڑھ جانے والے پہلے مجاہد آزادی بن گئے۔ جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی اُس وقت ان کی عمر صرف 27 سال تھی۔
مولانا فضل حق خیرآبادی ,مولاناکفایت علی کافی آلہ آبادی مولانا قاسم نانوتوی, مولانارشیداحمدگنگوہی, حاجی امداداللہ مہاجرمکی, شیخ الہند مولانامحمود حسن دیوبندی, مولا عبیداللہ سندھی, مولانامنصورانصاری غازی, مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی,  مولاناعطاءاللہ شاہ بخاری,شیخ الاسلام  مولاناسید حسین احمد مدنی,  مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ  تحریک آزادی  کے اہم ستون اور

 ممتاز عالم دین تھے مؤخرالذکر ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران انڈین نیشنل کانگریس کے ایک سینئر مسلم رہنما تھے۔ شراب کی دوکانوں کے خلاف مہاتما گاندھی نے دھرنے اور گھیراؤ مہم چلائی اس میں صرف 19 لوگوں نے حصہ لیا، ان میں بھی 10 مسلمان تھے۔
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بڑی مضبوط اور شدت کے ساتھ لڑائی لڑی۔ ان کی وہی لڑائی 1857 ء کی غدر کا باعث بنی۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے رنگون، برما (میانمار) میں بہادر شاہ ظفر کی مزار پر حاضری کے بعد کتاب تاثرات میں لکھا تھا ’’اگرچہ آپ (بہادر شاہ ظفر) کو ہندوستان میں زمین نہ مل سکی، آپ کو یہاں (برما) میں سپرد خاک ہونے کے لئے زمین مل گئی۔ آپ رنگون (ینگون) میں مدفون ہیں لیکن آپ کا نام زندہ ہے۔ میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کی نشانی و علامت بہادر شاہ ظفر کو خراج عقیدت و گلہائے عقیدت پیش کرتا ہوں، وہی ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا نقطۂ آغاز تھا۔

 ایم ے ایم امیر حمزہ نے انڈین نیشنل آرمی (آزاد ہند فوج) (INA) کے لئے لاکھوں روپئے بطور عطیہ پیش کیا۔ وہ انڈین نیشنل آرمی کے آزاد لائبریری ریڈنگ پروپگنڈہ کے سربراہ تھے۔ اب اس مجاہد آزادی کا خاندان انتہائی غربت و کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے اور ٹاملناڈو کے علاقہ رامنتاپورم میں یہ خاندان کرایہ کے مکان میں مقیم ہے۔
ہندوستانی، میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی کو بھی نہیں جانتے۔ یہ وہی شخصیت ہے جس نے اپنی ساری دولت ایک کروڑ روپئے انڈین نیشنل آرمی کو بطور عطیہ پیش کردی تھی۔ اس دور میں ایک کروڑ روپئے کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی نے اپنی ساری دولت سارے اثاثے نیتاجی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کو عطیہ کردی۔ شاہنواز خاں ایک سپاہی، ایک سیاستداں اور انڈین نیشنل آرمی میں چیف آفیسر اور کمانڈر تھے۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی قائم کردہ آزاد ہند کی جلاوطن کابینہ کے 19 ارکان میں 5 مسلمان تھے۔ بی اماں نامی ایک مسلم خاتون نے جدوجہد آزادی کے لئے 30 لاکھ روپئے سے زائد رقم کا گرانقدر عطیہ پیش کیاتھا۔

ٹاملناڈو میں اسمٰعیل صاحب اور مرودانایاگم نے مسلسل 7 برسوں تک انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی، ان دونوں نے انگریزوں میں خوف و دہشت پیدا کر رکھی تھی۔ہم تمام وی او سی (کیالوٹیا ٹامل زہان) کو جانتے ہیں وہ پہلے ملاح ہیں جنھوں نے ہندوستانی جدوجہد آزادی میں حصہ لیا لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو فقیر محمد راٹھور کے بارے میں جانتے ہیں جنھوں نے اس جہاز کا عطیہ دیا تھا۔ جب وی او سی کی گرفتاری عمل میں آئی محمد یٰسین کو برطانوی پولیس نے وی او سی کی رہائی کے لئے احتجاج کرنے پر گولی مار دی۔
تریپورہ کلارن (کوڈی کٹی کمارن) نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ کمارن کے ساتھ دیگر 7 کو گرفتار کیا گیا وہ تمام کے تمام مسلمان تھے جن کے نام یہ ہیں۔ عبداللطیف، اکبر علی، محی الدین خان، عبدالرحیم، باوو صاحب، عبداللطیف اور شیخ بابا صاحب۔

علاوہ ازیں مولانا محمد علی جوہر, مولاناشوکت علی ,مولاظفر علی خان,مولانابرکت اللہ بھوپالی وغیر ہ آزادی ہند کے سپاہیوں  کے ذکر کے لئے  ایک دفتر چاہئے.  ایک مؤرخ ان شخصیات  کے کارناموں  اور تحریک آزادی میں قربانیوں پر ہزارہا  صفحات تحریر کرسکتا ہے

واقف تو ہیں اس راز سے دارورسن بھی

ہردور میں تکمیل وفا ہم سے ہوئی ہے 

 لیکن بدقسمتی سے فرقہ پرست، انتہا پسند، فاشسٹ طاقتوں نے اس سچائی و حقیقت کو عام ہندوستانیوں کی نظروں سے چھپائے رکھا اور اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہندوستان کی تاریخ کی کتب میں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ووٹوں کے حصول کی خاطر اور عوام کو منقسم کرنے کے لئے تاریخ کو توڑ مروڑ کر ازسرنو قلملبند کیا گیا۔ محب وطن ہندوستانیوں کو ناپاک عزائم کے حامل سیاستدانوں کی مکاریوں و عیاریوں کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک مضبوط و مستحکم اور ترقی پسند ملک کے لئے تمام شہریوں کو متحد کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔

Friday 13 August 2021

ایک حدیث کی تشریح


عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «صِنْفَان من أهل النار لم أَرَهُما: قوم معهم سِيَاط كَأذْنَابِ البَقر يضربون بها الناس، ونساء كاسِيَات عاريات مُمِيَلات مَائِلات، رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ البُخْتِالمائِلة لا يَدْخُلْن الجَنَّة، ولا يَجِدْن ريحها، وإن ريحها ليُوجَد من مَسِيرة كذا وكذا».

تشریح 

 حدیث کا مطلب یہ ہے کہ " صِنْفَان من أهل النار لم أَرَهُما " یعنی میں نے ان کو اپنے زمانے میں نہیں دیکھا، اس زمانے کی پاکیزگی کی وجہ سے، بعد میں یہ رونما ہوئے۔ یہ اللہ کے نبی ﷺ کے معجزات میں سے ہے، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تائید فرمائی۔ " قوم معهم سِيَاط كَأذْنَابِ البَقر يضربون بها الناس" علماء کہتے ہیں کہ یہ وہ پولیس والے ہیں جو لوگوں کو ناحق گائے کی دُموں کے مانند اپنے کوڑوں سے مارتے پھریں گے یعنی لمبے کوڑوں سے لوگوں کو ناحق مارتے ہیں۔ دوسری قسم "نساء كاسيات عاريات مُمِيلات مائلات." ہے۔ اس کا مطلب بعض علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ عورتیں باریک کپڑے پہنیں گی جو کہ تقوے سے خالی ہوں گی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ“ (ترجمہ:اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے )۔ اسی لیے یہ حدیث ہر فاسق و فاجر عورت کو شامل ہے، اگرچہ اس نے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن رکھے ہوں، اس لیے کہ ’پہنے ہونے‘ سے مُراد ظاہری جسم پر کپڑوں کا پہننا ہے جب کہ وہ تقوے سے خالی ہوں گی۔ اس لیے کہ تقوی سے خالی ہونا یقیناً ننگا ہونا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ“۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ’’كاسيات عاريات‘‘ یعنی انہوں نے کپڑے تو پہنے ہوں گے لیکن ان سے ستر نہیں چھپے گا یا تو تنگ ہونے کی وجہ سے یا باریک ہونے کی وجہ سے یا چھوٹے ہونے کی وجہ سے۔ ان میں سے ہر طرح کے کپڑے پہننے والی عورت کپڑے پہن کر بھی ننگی ہے۔ "مُمِيَلات" یعنی آڑی مانگ نکالنے والی (جو سر کے ایک جانب کو نکالی جاتی ہے) جیسا کہ بعض حضرات نے اس کی تفسیر کی ہے کہ ایک جانب مانگ نکالنے والی عورت ’’مائلۃ‘‘ کہلاتی ہے اور اس کا طرزِ عمل ’’میل‘‘ کہلاتا ہے، اس لیے کہ یہ عورتیں اپنی ایک جانب مانگ نکال کر اجنبی مردوں کو مائل کرنے والی ہوتی ہیں۔ یہ میلان خاص کر کفار کی عورتوں میں پایا جاتا ہے۔ اور اس میں بعض مسلمان عورتیں بھی مبتلا ہیں، اللہ کی پناہ۔ سر کے بالوں کو ایک طرف بکھیر دیتی ہے۔ایسی عورتیں ’’مميلة‘‘ یعنی اپنی مانگ کو ایک طرف مائل کرنے والی کہلاتی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے ’’مميلات‘‘ کا مطلب ہے دوسروں کو فتنے میں ڈالنے والی عورتیں، بایں طور کہ وہ ننگے سر اور خوشبو وغیرہ کے ساتھ نکلتی ہیں، اس طرح دوسروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔شاید یہ لفظ دو معنوں کو شامل ہے۔ اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جب نص دو معنوں پر مشتمل ہو اور کسی ایک معنی کی وجہِ ترجیح نہ ہو، تو اسے دونوں معنوں پر محمول کیا جاتا ہے۔ یہاں پر بھی کسی ایک معنی کے لیے کوئی وجہِ ترجیح نہیں اور نہ ہی دونوں معنوں کے جمع ہونے میں کوئی ممانعت ہے، اس لیے یہ دونوں معنوں کو شامل ہوگا۔ "مَائِلات" یعنی حق سے اور اپنے اوپر لازم شرم و حیاء سے انحراف کرنے والی عورتیں، جیسے آج کل بازاروں میں مردوں کی چال چلنے والی عورتیں ہیں کہ وہ ایسی قوت اور پھرتیلی سے فوجیوں کی طرح زمین پر زور سے پاؤں رکھتی ہوئی اور بے پرواہی سے چلتی ہیں کہ کچھ مرد بھی اس طرح نہیں چل سکتے، مزید یہ کہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ اونچی آواز میں اس طرح ہنسی مذاق کرتی ہیں کہ فتنے کا سبب بن جاتی ہیں، اسی طرح دکان والے کے ساتھ کھڑی ہو کر ہنستے ہوئے لین دین کرتی ہیں اور دیگر بہت ساری خرابیوں اور بُرائیوں کا ارتکاب کرتیں ہیں۔ یہ عورتیں مائلات ہیں، یقیناً یہ حق سے دور ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے ہیں۔ " رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ البُخْتِ المائِلة " ( ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے )۔ البخت: ایک قسم کا اونٹ ہوتا ہے جس کی لمبی کوہان دائیں یا بائیں طرف جھکی ہوتی ہے، یہ عورت بھی اپنے سر کے بال اٹھا کر بختی اونٹ کی طرح دائیں یا بائیں جھکا دیتی ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ وہ عورت ہے جو اپنے سر پر مردوں کی طرح پگڑی رکھتی ہے تاکہ اس کا دوپٹہ اونچا رہے، یہ بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہے۔ بہرحال یہ عورت سر کی ایسی زیب و زینت کرتی ہے جو فتنے کا باعث بنتی ہے، یہ جنت میں نہیں جائے گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو سونگھ سکے گی -اللہ کی پناہ-، یعنی یہ عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی بلکہ اس کے قریب بھی نہیں ہوں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال یا اس سے زیادہ دور مسافت سے بھی سونگھی جاسکتی ہے۔ یہ عورت جنت کے قریب بھی نہیں جائے گی، -اللہ کی پناہ-، اس لیے کہ یہ راہِ راست سے بھٹک چکی ہوں گی یہ کپڑے پہننے کے باوجود بھی ننگی ہوں گی، مائل کرنے والی اور اپنے سر کو ایسا مائل ہونے والی ہوں گی جو فتنے اور زینت کا باعث ہے۔

 مرقاة المفاتيح (6/ 2302) شرح رياض الصالحين لابن عثيمين(6/372)  

ماہ محرم میں روزہ رکھنے کی فضیلت

 محرم الحرام کا مہینہ قابلِ احترام  اور عظمت والا مہینہ ہے، اس میں دس محرم الحرام کے روزے  کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ،رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، اور یومِ عاشورہ کے علاوہ  اس پورے مہینے میں بھی روزے رکھنے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آپ ﷺ نے ماہِ محرم میں روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :افضل ترین روزے رمضان کے  بعد ماہ محرم کے ہیں، اور فرض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے۔

 ’’[عن أبي هريرة:] سُئلَ: أيُّ الصلاةِ أفضلُ بعد المكتوبةِ؟ وأيُّ الصيامِ أفضلُ بعد شهرِ رمضانَ؟ فقال " أفضلُ الصلاةِ، بعد الصلاةِ المكتوبةِ، الصلاةُ في جوفِ الليل ِ. وأفضلُ الصيامِ، بعد شهرِ رمضانَ، صيامُ شهرِ اللهِ المُحرَّمِ ". مسلم (٢٦١ هـ)، صحيح مسلم ١١٦٣ • صحيح •‘‘.

اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو  شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھے گا  تو اس کے دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور جو  شخص محرم کے مہینہ میں ایک روزہ رکھے گا، اس کو ہر روزہ کے بدلہ میں تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔

 ’’[عن عبدالله بن عباس:] من صام يومَ عرفةَ كان له كفَّارةَ سَنتيْن، ومن صام يومًا من المُحرَّمِ فله بكلِّ يومٍثلاثون يومًا‘‘.

(المنذري (٦٥٦ هـ)، الترغيب والترهيب ٢/١٢٩ • إسناده لا بأس به • أخرجه الطبراني (١١/٧٢) (١١٠٨١)، وفي «المعجم الصغير» (٩٦٣

Thursday 12 August 2021

A Muslim man assaulted forced to chant Jai Shri Ram

 A disturbing video of a 45-year-old Muslim forced to chant 'Jai Shri Ram' slogans, while being paraded through a street, surfaced on social media. The man's young daughter was seen by his side begging the attackers to spare her father, who was reportedly handed over to the police, according to a NDTV report. The video, shot by locals, also showed the man being assaulted while in the custody of police.

The assault reportedly occurred shortly after a Bajrang Dal meeting, held 500 metres away. The right-wing group claimed in the meeting that Muslims in the neighbourhood were trying to convert a Hindu girl.

Based on a complaint by the assaulted man, Kanpur police said in a statement that they have filed a case of rioting against a local who runs a marriage band, his son, and a group of unknown persons. The police, however, have not confirmed if the accused are affiliated to Bajrang Dal.

The victim stated in his complaint that the group started abusing and assaulting him while he was driving his e-rickshaw around 3 pm. He also mentioned that the accused threatened to kill him.

Incidentally, the man is related to a Muslim family in the neighbourhood that is involved in a legal dispute with their Hindu neighbours, according to the report.

The police statement also reportedly mentioned the legal feud between the two families. While the Muslim family filed a case of assault of criminal intimidation, the Hindu family later pressed charges against their neighbours for 'assault with the intent to outrage the modesty of a woman".

The report said that according to sources, the Bajrang Dal recently got involved in the matter and they had been making allegations of forcible conversion against the Muslim family.

نیچے دوکان اور اوپرمسجد بناناجائز ہے کہ نہیں

 (الجواب)مسجد کی ابتدائی (پہلی) تعمیر کے وقت بانی مسجد نیت کرے کہ مسجد کے نیچے کے حصے میں مسجد کے مفاد کے لئے دکانیں اور اوپر کے حصہ میں امام ومؤذن کے لئے کمرے بنانے ہیں ۔ یعنی مسجد کی ابتدائی تعمیر کے وقت اس کے نقشہ میں دکان، کمرے ، بھی شامل ہوں اور مسجد کی مفاد کے لئے وقف ہوں تو بنا سکتے ہیں ۔ اور یہ شرعی مسجد سے خارج رہیں گے ۔ اس جگہ پر حائضہ اور جنبی آدمی جا سکے گا ۔(شامی ص ۵۱۲ ج۲) مگر جب ایک بار مسجد بن گئی اور ابتدائی تعمیر کے وقت نیچے دکان اور او پرکے حصہ میں کمرے شامل نہ ہوں تو مسجد کے اوپر کا حصہ آسمان تک اور نیچے کا حصہ تحت الشری تک مسجد کے تابع اور اسی کے حکم میں ہوچکا ۔ اب اس کا کوئی حصہ (جزو) مسجد سے خارج نہیں کہا جاسکتا اور اس جگہ مسجد کی آمدنی کے لئے دکان وکمرے نہیں بنائے جاسکتے ۔ اس جگہ احترام مسجد جیسا ہے ۔ حائضہ عورت اور جنبی آدمی کا وہاں جانا درست نہیں ۔’’ لوبنی فوقہ بیتا ً للامام لا یضر لانہ من المصالح امالو تمت المسجد یۃ ثم ارادا البناء منع ۔‘‘ (درمختار مع الشامی ج۳ ص ۵۱۲ کتاب الوقف مطلب فی احکام المسجد) فقط واﷲ اعلم بالصواب

Wednesday 11 August 2021

صرف عاشورا کاروزہ رکھنا

 محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشوراء کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے اور آپ ﷺ بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے تو اب وہی فرض ہیں، اور عاشوراء کے روزے کی فرضیت چھوڑ دی گئی، اب جو چاہے رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ (حدیث صحیح، جامع الترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی الرخصۃ فی ترک صوم یوم عاشوراء، (1/158) ط: قدیمی)

مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے (سنہ 2 ہجری) سے پہلے مکی دور میں بھی  رسول اللہ ﷺ  اہتمام سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی بہت اہتمام سے اس کا حکم دیا، بہت سے فقہاء کے مطابق اس وقت عاشوراء کا روزہ فرض تھا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزے کی حیثیت استحباب کی رہ گئی۔ 

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس دن ہمیں نصیحت کرنے کا اہتمام فرماتے تھے، پھر جب رمضان فرض کردیا گیا تو آپ ﷺ نے ہمیں نہ تو عاشوراء کے روزے کا حکم دیا نہ اس سے روکا اور نہ اس دن نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ (مسلم، بحوالہ مشکاۃ)

آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدنی دور کے آغاز سے ہی عاشوراء کا روزہ رکھا، اور ابتدا میں آپ ﷺ ہر عمل میں اہلِ کتاب کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ ابتداءِ اسلام میں بہت سے اعمال میں تالیفِ قلوب کے لیے نرمی کی گئی، مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس مقرر کیا گیا وغیرہ۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ اور صحابہ کرام تو اسلام کے حکم کے مطابق عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ ﷺ نے یہود کو  عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق ان سے دریافت کیا، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ کیسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے کہا: یہ بڑا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اس کے شکر میں موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا، ہم بھی اسی لیے روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہم موسی علیہ السلام کے طریقے کی پیروی اور اتباع کے زیادہ حق دار اور ان سے قریب ہیں، چناں چہ آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)

آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت اور اتباع کا ذکر فرمایا نہ کہ یہود کی موافقت کا، یعنی ہم یہ روزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں رکھیں گے اور ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقے کی پیروی کے زیادہ حق دار ہیں۔ بعد میں جب یہود کی مکاریوں اور ضد وعناد کے نتیجے میں آپ ﷺ نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے آپ ﷺ سے عاشوراء کے روزے کے حوالے سے بھی دریافت کیا، چناں چہ ''حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دِن روزہ رکھا اَور صحابہ کوبھی اِس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اَورروزہ رکھ کر ہم اِس دِن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمارے اَوراُن کے دین میں بڑا فرق ہے )۔ آپ نے فرمایا:  آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس  فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی  آپ ﷺ کاوصال ہوگیا''۔
"سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم" . (صحيح مسلم، (2/ 797)

حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم نویں اَوردسویں تاریخ کا روزہ رکھواَوریہود کی مخالفت کرو''۔
"وروي عن ابن عباس أنه قال: «صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»". (سنن الترمذي، (3/ 120)
لہذا  ماہِ محرم کی دسویں تاریخ یعنی عاشوراء کے روزہ کا سنت ہونا حضورﷺ کے عمل اور قول سے ثابت ہے، اور تشبہ سے بچنے کے لیے نویں  تاریخ کے روزے کا قصد بھی ثابت ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان بھی ثابت ہے کہ نویں اور دسویں کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔  یہودیوں  میں  عاشوراء کے روزے کا رواج نہیں  ہے، یہ ثابت کرنا مشکل ہے، ان میں  سے بعض پرانے لوگ جو بزعمِ خود اپنے مذہب کے پابند ہیں  روزہ رکھتے ہوں  گے، بلکہ بعض اہلِ علم نے بیان کیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم اور ربی آج بھی اس روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس لیے کہ شریعتِ موسوی میں عاشوراء کا روزہ بطورِ شکر لازم تھا، جیساکہ سابقہ سطور میں بحوالہ گزر چکاہے۔

لہذا علتِ تشبہ قائم ہے، اور اس سے بھی انکار نہیں  کہ چودہ سو سال سے امت کا اس پر عمل چلا آرہا ہے، اور امت کے اہلِ علم کا توارث اور مسلسل عمل بھی بجائے خود دلیل ہے، تراویح کی بیس رکعت کے بعد اجتماعی دعا منقول نہیں،  لیکن امت اور اکابر کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے ، علی ہذا عید الاضحی کی نماز کے بعد تکبیر ثابت نہیں  ہے، فقہاء نے ۲۳ نمازیں  شما رکی ہیں  جن کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں  اور یہ چوبیسویں  نماز ہوجاتی ہے، مگر توارث کی بناپر تکبیر کہنے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور بعض نے واجب  تک فرما دیا ہے،"ولا بأ س به عقب العید؛ لان  المسلمین توارثوه، فوجب اتباعهم، وعلیه البلخیون".(درمختار مع الشامی ج۱ ص ۷۸۶ مطلب فی تکبیر التشریق)

لہذا عاشوراء (یعنی دسویں  محرم ) کے روزے کے ساتھ نویں  تاریخ کا روزہ بھی رکھنا ہوگا، اگر نویں  کا نہ رکھ سکے تو دسویں  کے ساتھ گیارہویں  کا بھی روزہ رکھ لے۔ ( فتاوی رحیمیہ 7/273) 

 تاہم اگر کسی بنا پر دو روزے نہ رکھ سکے تو کم سے کم دسویں تاریخ کا  ایک روزہ رکھنے کی کوشش کرلے،  اس روزہ کا ثواب ملے گا۔ بلکہ  حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:

(۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے (۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔

ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور  تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ ﷺ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (2/ 177)
 "وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه"