https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 19 August 2021

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

 ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مُردہ مت کہو (وہ مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں(ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ)

اسی طرح ایک اورمقام پرارشادہوا:’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، تم انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیاجاتا ہے‘‘۔(سورئہ آل عمران)

’’ سورۃ النساء ‘‘ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہدائے کرام کوان لوگوں کے ساتھ بیان کیا ہے، جن پراللہ تعالیٰ نے اپناخاص فضل وکرم اورانعام واکرام فرمایا اور انہیں صراطِ مستقیم اور سیدھے راستے کامعیاروکسوٹی قرار دیا ہے۔

چناں چہ ارشادِخداوندی ہے:’’جوکوئی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺکی(ایمان اورصدقِ دل کے ساتھ) اطاعت کرتاہے،پس وہ(روزِقیامت)ان لوگوں کے ساتھ ہوگا، جن پراللہ تعالیٰ نے (اپناخاص ) انعام فرمایا ہے، جوکہ انبیاءؑ، صدیقین، شہداء اورصالحین ہیں اور یہ کتنے بہترین ساتھی ہیں‘‘۔(سورۃ النساء)

شہادت ہے مقصودومطلوب مومن 

نہ مال غنیمت نہ کشورکشائی 

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا : شہدائے کرام جنت کے دروازے پر نہر بارق پر سبز قبہ میں ہیں اور ان کا رزق انہیں صبح و شام پہنچتا ہے۔(مسند احمد،مستدرک ،طبرانی) حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے، ان سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے، پوچھا جائے گا یہ کون ہیں؟ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی ۔ ( طبرانی۔ مجمع الزوائد)

حضرت انس بن مالکؓ رسول اﷲ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:جو شخص بھی جنت میں داخل ہو تا ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور اسے دنیاکی ہر چیز دے دی جائے، مگر شہید (اس کا معاملہ یہ ہے)کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ لوٹ جائے اور دس مرتبہ قتل کیا جائے۔ (راہِ خدا میں باربار شہید کیا جائے) (صحیح بخاری، صحیح مسلم، بیہقی) حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جان لو! کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔(صحیح بخاری)

حضرت مسروق تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی:ترجمہ:اور جو لوگ راہِ خدا میں قتل کردئیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرّب ہیں، انہیں رزق بھی ملتا ہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہو – اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے – ،وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون کا فوارہ بہہ رہا ہوگا، رنگ خون کا اور خوشبو کستوری کی۔ (صحیح بخاری ومسلم) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہید کو (راہِ خدا میں) قتل کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی، جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔ (ترمذی،نسائی، دارمی)

شہادت کے فضائل سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلمان کی حقیقی ودائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اﷲ کے دین کی سربلندی کی خاطر شہید کردیا جائے، لہٰذا ایک مومن کی تو دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہو۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میری یہ آرزو اور تمنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل (شہید) کیاجائوں، پھر زندہ کیاجائوں، پھر شہید کیا جائوں، پھر زندہ کیاجائوں، پھرشہید کیا جائوں، پھرزندہ کیاجائوں اور پھر شہیدکیا جائوں‘‘۔(صحیح بخاری،مشکوٰۃ المصابیح)

ارشاد ِربانی ہے:ترجمہ:تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ (سورۃ النساء)اس آیت کریمہ میں راہِ خدا کے جاں باز شہیدوں کو انبیاءؑ و صدیقین کے بعد تیسرا مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔

شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں، جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے۔ شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے…اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں …جو احکام القرآن جصاص،احکام القرآن قرطبی اور دیگرمستند تفاسیر میں مذکور ہیں۔

(1) کیونکہ شہید کے لیے جنت کی شہادت یعنی گواہی دی گئی ہے کہ وہ یقیناً جنتی ہے …( 2 ) کیونکہ ان کی روحیں جنت میں شاہد یعنی حاضر رہتی ہیں، کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں،جب کہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی… نضر بن شمیل فرماتے ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والا۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں یہی قول صحیح ہے…( 3) ابن فارس کہتے ہیں الشہید بمعنی المقتول یعنی اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا…( 4) کیونکہ فرشتے اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں…( 5) جب اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہد کو پورا کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کردیا ہے اور اس کی گواہی اللہ کی گواہی کے ساتھ مل گئی۔ اللہ کے حضور اپنی جان پر گواہی، شہادت کی وجہ سے اسے شہید کہا جاتا ہے…

( 6) ابن انبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت یعنی گواہی دیتے ہیں، اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے…( 7) اس کی روح نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے، اس وجہ سے اسے شہید کہتے ہیں…( 8) کیونکہ رحمت والے فرشتے اس کی روح لینے کے لیے شاہد یعنی حاضر ہوتے ہیں…(9) اس کے پاس ایک شاہد گواہ ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون، کیونکہ قیامت کے دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں میں سے خون بہہ رہا ہوگا…

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سات انعامات ہیں ( 1) خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے۔ ( 2) اور اسے ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔ (3) عذاب قبر سے اسے بچا دیا جاتا ہے۔ (4) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے اسے امن دے دیا جاتا ہے۔ (5) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (6 ) بہتّر حور عین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔ ( 7) اور اپنے اقارب میں ستّر آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ ( مسند احمد )

ماہِ محرم ہمیں نواسۂ رسولؐ،شہیدِ کربلا حضرت امام حسینؓ اوران کے عظیم جاں نثاروں کی یاد دلاتا ہے ،جنہوں نے کربلا میں ظلم اور باطل نظام کے خلاف کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے راہِ حق میں اپنی جانیں قربان کیں۔شہدائے کربلا کے سالارسیدنا حضرت حسینؓ کی ذاتِ گرامی جرأت وشجاعت اور حق وصداقت کا وہ بلند مینار ہے، جس سے دین کے متوالے ہمیشہ حق کی راہ پر حق و صداقت کا پرچم بلند کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ تمام شہدائے اسلام کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے…( آمین یا رب العالمین)

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں 

گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات 

3 comments:

  1. Subhaan Allah
    Mufti Sb. Kya ashura ke din pakwaan wagerah banana, sharbaton ke qandeelen lagana wagerah jayez hai.
    Hazrat Ali, Ya Hazrat Hussain R.A ke laqab maula ya baaz log Alaih Salam lagate hain yeh kahan se sabit hai.
    Zara roshni daalen

    ReplyDelete
  2. انبیاء کرام کے علاوہ کسی کے نام کے ساتھ "علیہ السلام" کہنا اور لکھنا جائز نہیں ہے ۔("ردالمحتار " ۔ ص: 753،ج:6۔ط: سعید)

    البتہ حضور ﷺ کے نام کے ساتھ تبعاً آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات ،آل اور تمام صحابہ پر درودو سلام کہنا جائز بلکہ سنت ہے، جیسا کہ بخاری شریف میں ہے : ترجمہ: عمرو بن سلیم زرقی روایت کرتے ہیں کہ ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح کہو :اللّٰهم صل علی محمد و اٴزواجه وذریته کما صلیت علیٰ اٰل ابراهیم و بارک علیٰ محمد وأ زواجه وذریته کما بارکت علیٰ اٰل ابراهیم انک حمید مجید (حدیث نمبر3189،ص:1145،ج:2،ط: دارالعلوم الانسانیه دمشق)

    ReplyDelete
  3. دسویں محرم کو ثواب کی نیت سے غریبوں ومساکین کو یا اعزہ واقربا کو کھانا کھلانے کی کوئی فضیلت وارد نہیں ہوئی؛ ہاں وسعتِ رزق کی امید سے اپنے اہل وعیال کے لیے دسترخوان وسیع کرنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص وسعت رزق کی امید سے اپنے اہل وعیال کے لیے محرم کی دسویں تاریخ کو دسترخوان وسیع کرتا ہے تو یہ جائز؛ بلکہ مستحسن و مندوب ہے۔ (۲) جی ہاں! بیہقی نے ”شعب الایمان (رقم: ۳۵۱۵) میں طبرانی نے ”المعجم الکبیر (رقم ۱۰۰۰۷) میں ان الفاظ کے ساتھ محرم کی دسویں تاریخ کو دسترخوان وسیع کرنے کی فضیلت کے سلسلے میں حدیث وارد ہوئی ہے: من وسع علی عیالہ یوم عاشوراء وسع اللہ علیہ في سائر سنتہ (شعب) لم یزل في سعة سائر سنتہ․ جو شخص عاشوراء کے دن اہل وعیال کے لیے وسعت اختیار کرے گا، اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے لیے وسعت کرے گا۔ یہ حدیث فضائل کے باب میں قابل عمل ہے، متعدد محدثین اور شراحِ حدیث نے اس کی تصریح کی ہے۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ ”المقاصد الحسنہ“ میں لکھتے ہیں: حدیث مَنْ وَسَّعَ عَلَی عِیَالِہِ فِی یَوْمِ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّہ عَلَیْہِ السَّنَةَ کُلَّہَا، الطبرانی فی الشعب وفضائل الأوقات، وأبو الشیخ عن ابن مسعود، والأولان فقط عن أبی سعید، والثانی فقط فی الشعب عن جابر وأبی ہریرة، وقال: إن أسانیدہ کلہا ضعیفة، ولکن إذا ضم بعضہا إلی بعض أفاد قوة، بل قال العراقی فی أمالیہ: لحدیث أبی ہریرة طرق، صحح بعضَہا ابن ناصر الحافظ، وأوردہ ابن الجوزی فی الموضوعات من طریق سلیمان ابن أبی عبد اللَّہ عنہ، وقال: سلیمان مجہول، وسلیمان ذکرہ ابن حبان فی الثقات، فالحدیث حسن علی رأیہ، قال: ولہ طریق عن جابر علی شرط مسلم، أخرجہا ابن عبد البر من روایة الزبیر عنہ، وہی أصح طرقہ، ورواہ ہو والدارقطنی فی الأفراد بسند جید، عن عمر موقوفا والبیہقی فی الشعب من جہة محمد بن المنتشر، قال: کان یقال، فذکرہ، قال: وقد جمعت طرقہ فی جزء، قلت: واستدرک علیہ شیخنا -رحمہ اللَّہ- کثیرا لم یذکرہ، وتعقب اعتماد ابن الجوزی فی الموضوعات قول العقیلی فی ہیضم بن شداخ راوی حدیث ابن مسعود: إنہ مجہول بقولہ: بل ذکرہ ابن حبان فی الثقات والضعفاء. (المقاصد الحسنة: ۴/۶۷۵، ط: دار الکتاب العربي، ط: بیروت) اور حافظ بن حجر نے ”الأمالي المطلقة“ میں اس حدیث پر تفصیلی بحث کے ضمن میں فرمایا: ولہ شواہد عن جماعة من الصحابة․․․ منہم عبد اللہ بن مسعود وعبد اللہ بن عمر وجابر وأبوہریرة وأشہرہا عبد اللہ بن مسعود الخ (الأمالي المطلقة ۱۰/ ۲۸، ط: المکتب الإسلامي، بیروت) نیز دیکھیں: الیواقیت الغالیة (۱/۲۰۷، ط: برطانیہ) وامداد الفتاوی (۵/ ۲۸۹، ط: زکریا) وفتاوی دارالعلوم (۱۸/ ۵۳۹) واحسن الفتاوی (۱/ ۳۹۵، ط: زکریا)

    ReplyDelete