https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 31 August 2021

عورت اگرمہر معاف کرناچاہے تومعاف ہوگایانہیں

 مہر عورت کا حق ہے، عورت اپنی خوش دلی سے اپنا پورا  مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دے تو معاف ہو جاتا ہے، 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 295):
’’ومنها: هبة كل المهر قبل القبض عيناً كان أو ديناً، وبعده إذا كان عيناً‘‘.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 113):
’’(وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا، ويرتد بالرد، كما في البحر‘‘. 

جواہرلال یونیورسٹی میں اسلام مخالف نصاب. طالبان کابہانہ

 دنیا کو اسلام کے علاوہ اور کوئی انتہاپسندی کا سامنا نہیں ، نصاب تیار کرنے والے اروند کمار کا دعویٰ

حیدرآباد۔30 اگسٹ(سیاست نیوز) انسداد دہشت گردی کے نام پر جے این یو میں مخالف اسلام نصاب کی شمولیت کو منظوری دی گئی ہے ۔جے این یو کے تعلیمی نصاب میں کئے گئے اضافہ میں 'جہادی دہشت گردی' واحد بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی ہے اور چین و سوویت یونین کی سرکاری سرپرستی میں انتہاء پسندی نے اسلامی دہشت گردوں کو متاثر کیا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے ڈگری کے طلبہ جوکہ بی ٹیک کے بعد عالمی تعلقات میں مہارت کے کورسس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کے نصاب میں اضافہ کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کورس کے اضافہ کا فیصلہ کیا گیا ہے اور فیصلہ کو 17 اگسٹ کو منعقدہ یونیورسٹی اکیڈمک کونسل میں منظوری دے دی گئی ہے لیکن جے این یو ٹیچرس اسوسی ایشن نے الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی اکیڈمک کونسل کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت حاصل نہیں تھی ۔ انسداد دہشت گردی سے متعلق کورس تیار کرنے والے جے این یو اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈین نے بتایا کہ ان کا شعبہ اس نصاب کی تیاری میں شامل نہیں ہے لیکن روچیر گپتا ڈین آف دی اسکول آف انجینئرنگ نے بتایا کہ اروند کمار صدرنشین سنٹر فار کینیڈین ' یو ایس اینڈ لیٹن امریکہ اسٹڈیزاس کورس کو شامل نصاب کرنے کے حق میں تھے اور وہ اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ساتھ اشتراک میں کام کر رہے ہیں۔نصاب تیار کرنے والے اروند کمار نے اس بات کی توثیق کی کہ انہوں نے یہ نصاب تیار کیا ہے اور ان کے مطابق دنیا کو اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب سے مذہبی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا سامنا نہیں ہے۔انہو ںنے دعویٰ کیا کہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جس میں انتہاء پسندانہ جذبات کو ابھارتے ہوئے تشدد پر اکسایا جاتا ہے۔ اروند کمار نے کہا کہ اسلامی دہشت گردی اور شدت پسندی کو دنیا بھر میں قبول کیا جا رہاہے اور اب افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعداس میں مزید اضافہ ہوگا۔ جے این یو میں انسداد دہشت گردی کے نام پر شامل نصاب کئے گئے اس مواد کے سلسلہ میں کہا جار ہا ہے کہ ماسٹرس کرنے والے ان طلبہ کو جو عالمی تعلقات میں مہارت حاصل کرنے کے لئے دوہری ڈگری حاصل کرتے ہیں ان طلبہ کو یہ نصاب پڑھایا جائے گا جس میں اسلام کی شبیہہ کو بگاڑ کرپیش کیا جا رہاہے۔ نصاب میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلامی مذہبی علماء کی جانب سے سائبر اسپیس کے استعمال کے ذریعہ مذہبی جنون میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ ''بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی اور اس کے اثرات '' کے عنوان سے تیار کئے گئے اس ماڈیول میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنیاد پرست مذہبی جنون اور شدت پسندی نے 21 ویں صدی میں دہشت گردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے قرآن کی تحریف شدہ تشریح کا سہارا لیا جا رہاہے۔ نصاب میں یہ تعلیم دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ قرآنی توجیہات کو غلط بیان کرتے ہوئے دہشت گردی میں اضافہ کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور بگاڑ کے ذریعہ ایک جہادی فرقہ کو تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس نئے نصاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کی غلط تشریحات کے ذریعہ خودکشی ' قتل اور مختلف طرز کے واقعات کے ساتھ ہونے والی اموات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس طرح کی بے بنیاد باتوں کے ساتھ تیار کئے گئے تعلیمی نصاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذہبی انتہاء پسندی اور دہشت گردی آن لائن فروغ حاصل کررہی ہے جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے مختلف طبقات کو دہشت گردانہ حملوں کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ غیر اسلامی معاشروں اور سیکولر طبقات پر بھی دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔ حکومت کی نگرانی میں دہشت گردانہ کاروائیوں کے سلسلہ میں نصاب تیار کرنے والے کا دعویٰ ہے کہ سوویت یونین اور چین کے علاوہ مغرب میں اس طرح کے واقعات کی نظیر ملتی ہے جہاں نظریاتی جنگ تھی۔ حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں اور تشدد کے سلسلہ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سوویت اور چین کی کاروائیوں کو اسلامی دہشت گرد تنظیموں نے اختیار کرلیا ہے ۔ سوویت یونین اور چین نے ان کاروائیوں کے لئے کافی مدد کی ہے اور کمیونسٹ طاقتو ںکی جانب سے اسلامی بنیاد پرستوں کی اسلحہ اور دیگر وسائل سے دہشت گرد گروپوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔

Monday 30 August 2021

مسجد میں جماعت ثانیہ کا حکم

 ایسی  مسجد جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز  جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں  اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ  محلے والوں/ اہلِ مسجد  کے  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ  تحریمی ہے، دوسری جماعت  سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہوجائے گی اور اس  سے پہلی جماعت کے افراد  بھی کم ہوجائیں گے اور ہر  ایک یہ سوچے گا کہ میں دوسری جماعت میں شریک ہوجاؤں گا، جب کہ   شریعتِ مطہرہ  میں  جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے  کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ اور نماز کی جماعت میں کثرت بھی مطلوب ہے، جب کہ ایک سے زائد جماعت کرانے میں کثرت کی بجائے تفریق ہے۔

روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے، واپس تشریف لائے تو مسجدِ نبوی میں جماعت ہوچکی تھی، آپ ﷺ نے گھر جاکر گھروالوں کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی، جب کہ مسجد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ملنا مشکل نہیں تھا، انہیں جمع کرکے دوسری جماعت کرائی جاسکتی تھی۔ اس سے معلوم ہواکہ اگر مسجد میں جماعت (بلاکراہتِ تحریمی) جائز ہوتی تو حضور ﷺ بیانِ جواز کے لیے کچھ صحابہ کرام کے ساتھ  مسجد میں دوسری جماعت ادا فرماتے۔ 

ہاں ایسی مساجد جو راستوں پر بنی ہوتی ہیں اور ان کے لیے امام مقرر نہیں ہوتا، جہاں مسافر  آکر اپنی جماعت کراتے ہیں ، اس قسم کی مساجد میں دوسری جماعت جائز ہے۔

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ اسی نوعیت کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’جس مسجد میں کہ پنج وقتہ جماعت اہتمام وانتظام سے ہوتی ہو ،اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ مکروہ ہے؛ کیوں کہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے،اور مسجد میں ایک وقت کی فرض نما زکی ایک ہی جماعت مطلوب ہے،حضورِ انورﷺکے زمانہ مبارک اور خلفائے اربعہ وصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں مساجد میں صرف ایک ہی مرتبہ جماعت کا معمول تھا، پہلی جماعت کے بعد پھر جماعت کرنے کا طریقہ اوررواج نہیں تھا، دوسری جماعت کی اجازت دینے سے پہلی جماعت میں نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے اور جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے ؛ اس لیے جماعت ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا اور اجازت نہ دی۔اور جن ائمہ نے اجازت دی انہوں نے بھی اتفاقی طور پر جماعتِ اولیٰ سے رہ جانے والوں کو اس طور سے اجازت دی کہ وہ اذان واقامت کا اعادہ نہ کریں اور پہلی جماعت کی جگہ بھی چھوڑ دیں تو خیر پڑھ لیں ،لیکن روزانہ دوسری جماعت مقرر کرلینا اور اہتمام کےساتھ اس کو ادا کرنا اور اس کے لیے تداعی یعنی لوگوں کو بلانااور ترغیب دینا یہ تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ،نہ اس کے لیے کوئی فقہی عبارت دلیل بن سکتی ہے ،یہ تو قطعاً ممنوع اور مکروہ ہے‘‘۔(کفایت المفتی ،جلد سوم ، ص:140،کتاب الصلوۃ ،دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

" ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) ... والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ".  (1/ 552، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب  فی تکرار الجماعۃ فی المسجد: ) 


کامیابی کانسخۂ کیمیا

 زندگی کے میدان میں معجزے نہیں ہوتے!

زندگی میں ترقّی اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے جستجو, انتھک محنت اور سخت جدّوجہد کی ضرورت ہے, خوابوں سے تعبیر اور پھر تعمیر تک کے اس ُپرخطر اور مشکل ترین سفرمیں جان کو پگھلانا پڑتا ہے, تب جاکر کامیابی کے ستارے مقدّر بنا کرتے ہیں اور انسان کے خوابوں کی کشتی اپنی منزل کے کنارے جا لگتی ہے۔
کوئی پیاسا شخص دریا کے کنارے بیٹھ کر پیاس بجھانا چاہے اور ہاتھ آگے نہ بڑھاۓ تو یہ شخص پیاسا ہی رہ جائے گا ۔ایسے ہی منزل کے متلاشی شخص کو بھی منزل کے حصول کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے, کسی بھی کام کے انجام دینے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بہت سے مشکل لمحات, انتہائی کٹھن مراحل اور تکلیف دہ راستوں سے گزرنا پڑتا ہے, بہت سی تنگ گھاٹیوں کو عبور کرنا پڑتا ہے, بہت سی باتیں, طعنے اور نہ جانے کیا کچھ سہنا پڑتا ہے۔
سمجھدار لوگ جب کچھ کر گزرنے کے لیے عزم مصمّم کرلیتے ہیں تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے, مسلسل جدّوجہد اور عزم پیہم کے ساتھ اپنے کام کی طرف مکمّل توجّہ دیتے ہیں,کامیابیوں کی سیڑھیوں پر چڑھتے جاتے ہیں اور بالآخر اپنی منزل کو پاہی لیتے ہیں ،جبکہ دوسری طرف وہ لوگ جوکسی معجزے کے انتظار میں رہتے ہیں اور بغیر کچھ کہے بہت کچھ پالینے کی تمنّا اور آرزو کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی تمنّا بس تمنّا ہی رہ جاتی ہے, وہ پیچھے رہ جاتے ہیں,منزل ان سے کوسوں دور چلی جاتی ہے,کامیابی ان سے روٹھ جاتی ہے اور کف افسوس مَلنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔تواگر زندگی میں کامیابی حاصل کرنی ہے اور کچھ کرنے کا جذبہ ہے تو پھر ہر آنے والی مصیبت اور مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا پڑے گا۔ زندگی سے جنگ بھی لڑنا پڑے گی اور چیلنجز کا دلیری سے مقابلہ بھی کرنا ہو گا, جب یہ جذبہ اور ہمّت پیدا ہوجاۓ تو خدا بھی نصرت کرتا ہے اور اس کی خدائی بھی ساتھ دیتی ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

Spurt in communal incidents in Madhya Pradesh's Malwa region.

 For many years, the neighbouring villages of Chandan Khedi and Kanwasa in Madhya Pradesh's Malwa region were known for their communal harmony. Things changed, however, last year.

In Malwa, the region which includes MP cities such as Indore, and Ujjain, at least 12 incidents of communal tension have been reported since September 2020 where section 153 A (promoting enmity between different different groups on grounds of religion, race, place of birth etc) of the Indian Penal Code was invoked. At least 70 people have been charged, at least 70 booked, and the National Security Act has been invoked against 18 people, said the police.

The December 29 chain of events only deepened the communal scars. That day, a fund-raising rally for the Ayodhya temple was allegedly attacked, and some Muslims homes torched in Kanwasa. Chandan Khedi sarpanch Ashok Parasiya said he had never seen communal tension before the December violence. 'Wounds may have healed and houses are being reconstructed but what about the trauma?' he asked.

Saddam Patel, 35, a resident of Chandan Khedi village, whose house was burnt down in the December violence, and suffered a gunshot wound in the leg, said, 'On December 29, people held a rally to collect fund for the construction of Ram temple and shouted slogans against our religion. We objected so they burnt our houses and vehicles. Neither police nor the administration supported us. Instead, they jailed people from our community in a fake case. They also invoked NSA against four of us.'

Four cases have been reported this August itself in the region, with two hitting the headlines -- the assault on bangle seller Taslim Ali in Indore, where he was eventually charged with sexual harassment, and the alleged raising of anti-national slogans at a Muharram procession in Ujjain, which has seen arrests even as questions were raised on the authenticity of video proof. Both Hindu and Muslim organisations have hit the streets in protest over the past week over both the incidents. At least 2,600 people have been booked for attending events held without permission amid the Covid protocols.

Muslim organisations allege that it is the BJP's 'hard Hindutva' at play, with mostly Muslims being charged with NSA. Hindu organisations, however, claim the Popular Front of India (PFI) and Social Democratic Party of India (SDPI) are stoking tensions.

Hindu Jagran Manch, Malwa in-charge Dheeraj Yadav said, 'The minority communities are being misguided by Muslim leaders, especially of PFI and SDPI. They are giving a communal angle to every incident -- whether it is sexual harassment of a minor or sedition. They are trying to create a rift between the communities.'

PFI state president Kafeel Raza countered this with, 'The state government introduced MP Freedom of Religion Act against Love Jihad that give a message to the society that Muslim men are targeting Hindu women.'

Some political experts believe the BJP, which lost its stronghold of Malwa in the last assembly elections, is trying to win it back by following a model based on UP's Yogi Adityanath government even as some Muslim organisations are seeking to establish themselves before the local body elections.

BJP, which won 56 out of 66 seats in Malwa Nimar region in 2013 assembly elections, lost 28 seats in 2018. It salvaged its position a bit by winning six out of seven seats in 2020 by-elections, but still has only 34 seats in the region.

Political expert LS Hardenia said, 'BJP-led state government of MP is following the UP model. BJP leaders in state are trying to win the next assembly election by promoting hard Hindutva. Meanwhile, AIMIM is trying to contest local body election in MP and that's why, its chief Asaduddin Owaisi tweeted about the Indore incident as he wanted to stay relevant by showing sympathy.'

Senior Congress leaders said the BJP is misusing power to create tension in the area. 'Taslim Ali was beaten up in the afternoon and police registered the case at night...There is no doubt that BJP leaders are trying to create disturbance in the society to rule... They are misusing power to harass people of a minor community,' said JP Dhanopia, spokesperson MP Congress Committee.

The BJP, however, calls it a political conspiracy. 'If we go back in 2015, a sudden spurt in communal tension was reported in Malwa ahead of the local body elections. Again, with these polls in a few months, some local parties are trying to do the same now,' he added.

Home minister Narottam Mishra, who has spoken of banning PFI and SDPI, said,'Congress and some anti-national organisations are trying to create disturbance not only in Malwa but across the state.'

Senior police officials in Indore said social media is being used as a tool to promote communal tension. Indore and Ujjain police departments have issued at least six warnings against spreading incorrect messages on social media in the recent past.Indore inspector general of police HN Mishra said, 'The number of cases is increasing as people of both communities misuse social media to circulate videos and photos with wrong captions. A small incident is being blown up so much that people react, leading to tension. But we have been able to control the situation in Indore.'

(With inputs from Neha Jain in Indore)

ایک حدیث کا مطلب

حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا سفيان، عن منصور، والاعمش، عن ابي وائل، قال: جاء معاوية إلى ابي هاشم بن عتبةوهو مريض يعوده، فقال: يا خال، ما يبكيك اوجع يشئزك ام حرص على الدنيا، قال: كل لا، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا لم آخذ به، قال: " إنما يكفيك من جمع المال خادم ومركب في سبيل الله "، واجدني اليوم قد جمعت، قال ابو عيسى: وقد روى زائدة، وعبيدة بن حميد، عن منصور، عن ابي وائل، عن سمرة بن سهم، قال: دخل معاوية على ابي هاشم، فذكر نحوه، وفي الباب عن بريدة الاسلمي، عن النبي صلى الله عليه وسلم.

(ترمذی حدیث :2327کتاب الزہد)

 ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ ابوہاشم بن عتبہ بن ربیعہ القرشی کی بیماری کے وقت ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا: اے ماموں جان! کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے؟ کسی درد سے آپ بے چین ہیں یا دنیا کی حرص ستا رہی ہے، ابوہاشم نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے مجھے ایک وصیت کی تھی جس پر میں عمل نہ کر سکا۔ آپ نے فرمایا تھا: تمہارے لیے پورے سرمایہ میں سے ایک خادم اور ایک سواری جو اللہ کی راہ میں کام آئے کافی ہے، جب کہ اس وقت میں نے اپنے پاس بہت کچھ جمع کر لیا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: 
۱- زائدہ اور عبیدہ بن حمید نے «عن منصور عن أبي وائل عن سمرة بن سهم» کی سند سے روایت کی ہے جس میں یہ نقل کیا ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ ابوہاشم کے پاس داخل ہوئے پھر اسی کے مانند حدیث ذکر کی 

انڈین کونسل فار ہسٹاریکل ریسرچ آرایس ایس کے اشارے پرچل رہی ہے

 مرکزی حکومت کے ادارے انڈین کونسل آف ہسٹریکل ریسرچ نے اپنی فسطائی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین سو نواسی ( 389) مجاہدین آزادی کا نام مجاہدین آزادی کی فہرست سے نکال دینے کی سفارش کی ہے ، اور کہا جارہا ہے کہ اکتوبر 2021 تک یعنی دوماہ کے اندر ان کا نام مجاہدین آزادی کی فہرست سے نکال دیا جائے گا ، ان مجاہدین آزادی میں انقلاب مالابار 1921 کے دو عظیم قائدین ، مجاہد آزادی اور متبحر عالم اور شیخ طریقت حضرت علی مسلیار ( Ali Muliyar )( ولادت : 1861- شہادت : سترہ فروری 1922) اور وارین کنت کنیی احمد حاجی ( Variyan Kunnat Kunyyi Ahmad Haji) ( ولادت : 1883- شہادت : سترہ جنوری 1922) بھی شامل ہیں ، اس ادارے کا دعویٰ ہے کہ انقلاب مالابار کے مجاہدین آزادی نے خلافت حکومت قائم کی تھی ، ایک راشٹر وادی حکومت نہیں قائم کی تھی ، ان کی ساری جد وجہد اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے تھی ، اس لیے انہیں مجاہدین آزادی نہیں کہا جاسکتا ۔ 

انڈین کونسل آف ہسٹریکل ریسرچ کے اس فیصلے سے بھارتیہ جنتا پارٹی بہت خوش ہے ، مگر انڈین نیشنل کانگریس ، مسلم لیگ ،اور کمیونسٹ پارٹیوں کے لیڈران نے اس متنازعہ فیصلے کے خلاف سخت برہمی کا اظہار کیا ہے ، اور اس فیصلے کے خلاف خطباء اور مقررین نے اپنے جمعہ کے خطبوں اور تقریروں میں بھی اظہار خیال کیا ہے ، اور 1921 کے ملبار انقلاب کے شہیدوں کو یاد کیا ہے ،اور ان کے راستے پر چلنے کی عوام سے اپیل کی ہے ۔ اس متنازعہ فیصلے کے خلاف تمام دینی ، سماجی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے جلسوں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے ، ان جلسوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑ کر تمام سیکولر ،اور کمیونسٹ پارٹیوں کے قائدین اور کارکنان شریک ہورہے ہیں ، ایسا ہی ایک پروگرام کل بتاریخ 28/8/2021 کو سمستا کیرلا جمعیت علماء کی طلبہ تنظیم ، ایس کے ایس ایس ایف نے پوکٹو ر ، ملپورم میں منعقد کیا جس میں کیرلا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریسی قائد وی سی سٹیشن شریک ہوئے ، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا ، وطن کی آزادی کی تاریخ میں جن کا کچھ بھی حصہ نہیں ہے وہ تاریخ کو بدلنے کی کوشش کررہے ہیں ، ان کی ناپاک کوششوں کے خلاف ہمیں ایک جٹ ہوکر کام کرنا چاہیے ، وہ تاریخی بستی پوکٹور میں ملبار انقلاب کے سو ویں سالانہ پروگرام کا افتتاح کرنے کے لیے آئے تھے ، اگست انیس سو اکیس میں خلافت تحریک کے بینر تلے ملبار کے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تھی ، اور پوکٹور جنگ آزادی کا ایک اہم میدان تھا ، اس بستی میں ملبار انقلاب 1921 میں شہید ہوئے کئی شہداء کی قبریں ہیں ، اور ان شہداء کی یاد میں پنچایت گھر کا بہت بڑا صدر گیٹ بھی ہے ، صوبے کی موجودہ کمیونسٹ حکومت ان شہداء کے نام کئی یاد گاریں بنانا چاہتی ہے ۔ 
موجودہ کیرل کے ستر فیصد مسلم آبادی والے ضلع ملپورم کے تقریبا ستر فیصد علاقوں ، چالیس فیصد مسلم آبادی والے کالی کٹ ضلع اور پچیس فیصد مسلم آبادی والے پالکاڈ ضلع کے پچاس فیصد علاقوں ، یعنی تقریبا پانچ ہزار علاقوں سے انگریزوں کو بھگا کر ایک ہندوستانی آزاد حکومت قائم کی تھی یہ آزاد حکومت چھ ماہ قائم رہی تھی ، اس جنگ آزادی میں کئی سو مسلمان شہید ہوئے تھے ،اور کئی ہزار مسلمانوں نے جیل اور جلا وطنی کی سزا پائی تھی ، اس انقلاب کے لیڈران میں مولانا علی مکی اور کنیی احمد حاجی تھے ، ان کو گرفتار کرکے کوئمبتور جیل میں رکھا گیا تھا، میرے ایک شاگرد اور مشہور خطیب ڈاکٹر عبد الواسع نے اپنے جمعہ کے خطبے میں کہا ۔علی مسلیار اور کنی احمد حاجی کے پوتے نواسے ہیں ، ہم ان کو کبھی نہیں بھولیں گے اور ان کے راستے پر چلتے رہیں گے ۔
علی مسلیار نے کیرل کی مشہور دینی درسگاہ جامع مسجد ہونانی سے تعلیم حاصل کی تھی ، اس کے بعد وہ دس سالوں تک حجاز میں رہے تھے اور حرمین شریفین کے علماء سے بھر پور استفادہ کیا تھا ۔
کیرل والے علماء دین کے لیے مولانا کی جگہ مسلیار (Musliyar) کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور چوں کہ وہ مکہ مکرمہ کے پڑھے ہوئے تھے ،اس لیے میں نے انہیں '' مولانا علی مکی '' لکھا ہے ،مولانا علی مکی کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد الواسع صاحب نے کہا کہ:'' انگریزوں نے علی مسلیار کے مردہ جسم کو پھانسی پر چڑھایا تھا ، پھانسی سے قبل انگریزوں نے آخری خواہش پوچھی ، علی مسلیار نے فرمایا مجھے مرنے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے ، وہ نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے تھے ، مگر یہ ان کے قانون میں تھا کہ موت کی سزا یافتہ فرد کی آخری ایک خواہش پوری کی جائے ، چنانچہ اجازت دی گئی اور علی مسلیار نے نماز شروع کی اور دوسری رکعت کے دوسرے سجدے میں اپنی روح اللہ کے سپرد کردی ، سجدے میں ہی ان کا انتقال ہوگیا ، *مگر انگریزوں نے اپنی سزا کو پوری کرنے کے لیے ان کے مردہ جسم کو پھانسی پر لٹکا دیا ''۔ 
علی مسلیار ایک نحیف و نزار اور صوفی آدمی تھے ، وہ کئی سلسلوں سے بیعت تھے اور سالکین سے بیعت لیتے تھے ، علی مسلیار خلافت تحریک ، اور خلافت حکومت کے امیر تھے ،ان کے سپہ سالار کنی احمد حاجی تھے ، وہ ایک تاجر تھے ، نڈر ،بے باک اور لحیم و شحیم بہادر آدمی تھے ، ان کو گرفتار کیا گیا اور ان کے بارے میں انگریزوں کا فیصلہ ہوا کہ ان کو شوٹ کردیا جائے ،ان سے بھی آخری خواہش پوچھی گئی ، انہوں نے بھی دو رکعت نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی ، بادل ناخواستہ انہیں بھی نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی ،انہوں نے بڑے اطمینان سے نماز مکمل کی ، نماز مکمل کرنے کے بعد انہوں نے انگریزوں سے جو باتیں کہیں وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ 
''میں نے سنا ہے کہ تم لوگ پیٹھ میں گولی مارتے ہو ،میری خواہش ہے کہ تم میرے سینے میں گولی مارو ۔'' 
''میں نے سنا ہے کہ تم مارنے سے پہلے مرنے والے کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیتے ہو ، میں چاہتا ہوں کہ تم میری آنکھوں پر پٹیاں مت باندھو ، میں اپنی مادر وطن کی مٹی کو دیکھتے ہوئے مرنا چاہتا ہوں ۔'' 
چنانچہ ان کی آنکھوں پر انگریزوں نے پٹی نہیں باندھی اور سینے میں گولیاں داغ کر ان کو شہید کردیا ۔ 
انگریزوں نے اس جنگ آزادی کو ہندو مسلم فساد کا رنگ دے دیا ، اور ملبار انقلاب کا نام ''ملبار فساد '' رکھ دیا ،ملیالم میں ملبار کلاپم ( Malabar kalapam) کہا جاتا ہے ، اس جنگ آزادی کو بدنام کرنے کے لیے انگریزوں اور فاشسٹوں نے جھوٹے قصے گڑھے ، اور مجاہدین آزادی کو ہندوؤں پر ظلم کرنے والا بتایا ، ان کو زنا کار اور قاتل بتایا ۔ 
راشٹریہ سوئم سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیمیں پورے ملک میں ان جھوٹے قصوں کو پھیلاتی رہی ہیں ،جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں کوئی فرق نہیں ہے ، دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ 
سات سالوں کی بی جے پی حکومت کے اسلام دشمن اور مسلم دشمن ناپاک فیصلوں کے بعد بھی ان کو کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتی ہے ، تو وہ اپنی سیاسی بے بصیرتی کا جلد ازجلد علاج کرالیں ، ملبار انقلاب کے لیڈران اور اس انقلاب میں شہید مسلمانوں کو کانگریسی حکومتوں نے مجاہدین آزادی اور شہداء کی فہرست میں شامل کیا تھا اور شامل رکھا تھا ، مگر بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت ہر جگہ سے مسلمانوں کے نام مٹا دینے پر بہت تیزی اور سختی سے کام کر رہی ہے ۔

Sunday 29 August 2021

خوشگوار زندگی کے چند اصول

 

جنگ، امن اور زندگی

امن کی تلاش نہ کر کہ تُو پیدائشی جنگجو ہے، تیری تخلیق کا تو مقصد ہی جنگ و جدل ہے۔

تو کتنا ہی بزدل کیوں نہ ہو ہتھیار چلانے سے باز نہیں آتا، وار کرنا تیری گھٹّی میں پڑا ہے اور مقابلہ کرنا تیری فطرت ہے۔

کہاں امن ڈھونڈتا پھرتا ہے؟

بھلا سمندر کی بپھری ہوئی موجوں پر بھی خشکی ملا کرتی ہے؟

تیری ہر سانس رزم، ہر لمحہ برسرِپیکار اور ہر آن ایک نیا معرکہ۔

قدرت نے تجھے بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت بخشی ہے اور تُو امن کا متلاشی؟

کسے دھوکہ دے رہا ہے؟

ماں کے پیٹ سے زرہ بکتر پہن کر آیا اور سب سے پہلی جنگ اپنی بقاء کے لیے لڑی۔ ہوش سنبھالتے ہی خود سے ایسی جنگ چھڑ گئی جو خاک ہونے تک جاری رہی۔

اس دوران روزگار کی خوفناک جنگ، ہر میدان میں آگے بڑھنے کا بے رحمانہ گھمسان، ناکامیوں سے ٹکرا کر اٹھنا، کامیابیوں کو سنبھال کر چلنا، اپنوں کے دیے زخموں پر بیگانوں سے مرہم رکھوانا، بیگانوں کی رہزنی پر اپنوں کے گلے لگ کر رونا، جنازے اٹھانا، آنسو چھپانا، بیماریاں، آزمائشیں، بے وفائیاں، تو ہر جگہ لڑتا ہے۔

کبھی خود پر غور کرنا، تو خود کو ہتھیاروں سے لیس ایک جنگجو ہی پائے گا۔

کبھی اپنے دائیں بائیں غور کرنا، تجھے ہر کوئی ہتھیار تانے ہوئے کہیں نہ کہیں برسرِ پیکار ہی ملے گا۔

اپنے چاروں طرف دیکھے گا تو خود کو میدان جنگ کے عین وسط میں پائے گا۔

یہاں امن نہیں پیارے کہ زندگی نام ہی جنگ کا ہے۔ لڑتا رہ کہ تُو پیدا ہی لڑنے کے لیے ہوا ہے۔ فتح اور شکست تو مقدّر سے ملتی ہے لیکن تو کبھی ہتھیار نہ ڈالنا، مرتے دم تک۔

جس دن تُو تھک کر گر گیا، اس دن سمجھ لے کہ تُو مر گیا اور جنگ ختم۔

نیت

نیک نیّتی دکھوں کو معذور بنادیتی ہے اور بدنیّتی خوشیوں کو اپاہج کردیتی ہے۔ پھر کوئی معذور ہو یا اپاہج زیادہ دیر چل نہیں سکتا جلد کہیں نہ کہیں ڈھیر ہوجاتا ہے۔

خریداری

زندگی کا ہر فیصلہ ایک خریداری ہے اور ہم اکثر غلط چیز صرف اس لیے خرید لیتے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل قوّتِ خرید کا درست اندازہ نہیں ہوتا۔

معاملہ کوئی بھی ہو، فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی جیبیں اچھی طرح ٹٹول لیں۔

ماں، بیوی اور بچے

ماں وہ ہستی ہے جو انسان کو پال پوس کر جوان کرتی ہے۔

بیوی بچے اس ذات کا نام ہیں جو ایک جوان کو بوڑھا کردیتے ہیں۔

اولاد کی اولاد وہ نعمت ہے جو انسان کو پھر سے جوان بنا دیتی ہے۔

لیکن بڑھاپے میں جوان اولاد کی بے اعتنائی وہ تکلیف ہے جو انسان کو مار ہی ڈالتی ہے۔

اپنے بڑوں، بوڑھوں اور ضعیفوں کی قدر کیجیے، انہیں وقت اور توجّہ دیجیے۔ انہیں دھرتی پر بوجھ ہونے کا احساس دلانے کی بجائے ان کے احسانات کا بوجھ اپنے مضبوط کندھوں پر محسوس کیجیے۔

گٹھری

انسان ایک گٹھری کی مانند ہے، جیسے ہی ٹھوکر لگتی ہے اندر بھری ہر چیز باہر آ گرتی ہے۔

کچھ لوگوں کی گرہ تو ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے سے ہی کھل جاتی ہے۔

اگر عزت پانا چاہتے ہو تو اپنی گرہ مضبوط رکھو ورنہ وقت کی آندھی تمہارے بکھرے ہوئے وجود کو زمانے بھر میں پھیلا دے گی، پھر گلی گلی اپنی شناخت ڈھونڈتے پھرو گے۔

عمل اور ردِعمل

سب کہتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک ردِعمل ہوتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ہر ردِعمل کے پیچھے ایک عمل بھی لازماً موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی کے ردِعمل پر ردِعمل دینے سے پہلے اس ردِعمل کے پیچھے چھپے عمل کی تحقیق ضرور کریں کیونکہ عموماً ردِعمل کیے گئے عمل کے مطابق ہوتا ہے۔

لذّت گناہ

اگر تم گناہ کی لذّت سے محروم ہو تو جان لو کہ تمہارا ضمیر ابھی آخری سانسیں لے رہا ہے، کیونکہ گناہ کی پوری لذّت ضمیر کی پوری موت سے مشروط ہے۔

رزق

دولت کی مساوی تقسیم یقیناً غیر فطری ہے لیکن امیر اور غریب کے طرزِ حیات میں جتنا تفاوت ہمیں آج نظر آتا ہے، وہ قدرت کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے کیونکہ قدرت ہرگز اتنی ناانصافی سے کام نہیں لے سکتی۔

اگر ہمیں معلوم ہوجائے کہ ہمارے مال و دولت میں قدرت نے کس کس کا حصّہ چھپا رکھا ہے تو شاید ہی ہم میں سے کوئی پُرتعیش زندگی گزار سکے۔

اپنے رزق میں دوسروں کا حصہ پہچان کر مستحقین تک پہنچانے میں دیر نہ کریں یقین کیجیے جو کچھ آپ کو مل رہا ہے، سب آپ کا نہیں ہے۔

واللہ آپ کا نہیں ہے۔

Akil Qureshi:A Justice, denied.

 The impasse over appointment of judges to the top court has finally ended with the government clearing all the nine names recommended by the Supreme Court Collegium . However, one of the names that remains out, despite being No.

2 in the All-India List of seniority for judges of high courts, is of Tripura Chief Justice Akil Kureshi.

One of the reasons for the impasse over the appointments, that lasted two years, is said to have been the Collegium not including Justice Kureshi's name for elevation. Supreme Court judge Justice Rohinton Nariman, who reportedly insisted on it, retired on August 12; the Collegium's list of nine came just five days later.

It's not the first time that the career of Justice Kureshi, who is originally from the Gujarat HC, has hit a wall.

Justice Akil Abdulhamid Kureshi was born in 1960 to an illustrious Gujarat family. Prof Anamik Shah, former vice-chancellor of Gujarat Vidyapith, says Justice Kureshi's grandfather Ghulam Rasul Kureshi was part of 'Arun Tukdi', which would walk the route of Dandi March ahead of Mahatma Gandhi's arrival.

His father Hamid Kureshi was a senior advocate and a trustee of the Sabarmati Ashram Preservation and Memorial Trust, and among the last people to have been born and lived at Sabarmati Ashram, founded by Gandhi in 1917. In 2016, when he died, he was cremated as per his wishes, in line with Gandhian principles.

After graduating in Mathematics in 1980 and Law in 1983, Justice Kureshi followed in his father's footsteps. After almost 20 years at the Bar, in 2004, he was appointed Additional Judge of the Gujarat High Court. He served for 14 years in the court but was transferred just when he was due to become Chief Justice.

During his time in the High Court, Justice Kureshi gave two important verdicts which were an embarrassment to the then Narendra Modi government in the state. In 2010, he set aside a trial court order and granted the CBI two-day custody of then Gujarat Home Minister and now Union Home Minister Amit Shah in the Sohrabuddin Sheikh encounter case. (In 2014, Shah was cleared in the case by a Special CBI Court.)
In 2011, a Bench headed by Justice Kureshi upheld the then Gujarat governor Kamla Beniwal's decision to appoint former high court judge R A Mehta as the state's Lokayukta. It had been opposed by CM Modi.

Justice Kureshi was expected to become Gujarat Chief Justice when the post fell vacant in November 2018, as the senior-most judge of the court. However, Justice A S Dave was named Acting Chief Justice and Justice Kureshi was transferred to the Bombay High Court, where he would be fifth in seniority.

Over 1,200 lawyers of the Gujarat High Court Advocates Association launched a strike against the move and petitioned the Supreme Court. While Justice Kureshi's transfer to Bombay was stalled, in May 2019, the government sent back the Collegium's recommendation to appoint him as Chief Justice of the Madhya Pradesh High Court instead. Finally, in September, the Collegium recommended him for the post of Tripura Chief Justice.

This meant that from looking at heading a court with 53 judges, Justice Kureshi found himself leading one with just four.
Acquaintances in Gujarat vouch for Justice Kureshi's integrity, pointing out how in 2014, he had recused himself from hearing a PIL alleging encroachment on the premises of the Sabarmati Ashram Trust, Sabarmati Harijan Ashram Trust and Manav Sadhna Trust.
As the Tripura Chief Justice, he took up the case of trafficking of a 14-year-old girl in 2020 suo motu; directed a probe into a woman and her husband's suicide following some leaked videos, with the accused tried for moral policing; and took up a PIL on the state government's handling of Covid, following which the latter 'slightly corrected' its vaccination claims.

A judge in the High Court said Justice Kureshi was 'hardworking ', 'independent' and 'excellent in reasoning' while recording his opinions. A court official noted the 'exceptionally high' disposal rate of cases since he took over in 2019, with only 1,500 cases pending now compared to 3,000 at that time.

But if the Centre is not seen as favourable to Justice Kureshi, many in the legal circles question the judiciary's 'hesitation' in resisting it. 'Before anyone blames the government for not appointing a judge, one must ask the judiciary why the name was never sent. Be it Justice Kureshi or Saurabh Kirpal… the government might object, but we will only know when the ball is in the government's court,' a Delhi-based senior advocate said. The Collegium has been deferring nominating the openly gay Kirpal as a judge of the Delhi High Court, reportedly due to the government's objections.

Yatin Oza, who heads the Gujarat High Court Advocates Association and is a former BJP MLA, said they are not looking at any legal route now. 'It will send a wrong signal, and if there are bleak chances of Justice Kureshi coming to the Supreme Court, those will be destroyed as it has only one vacancy left.' Also criticising the Collegium, Oza added, 'If you have the powers to appoint and if you are not able to exercise that power or you are not able to see to it that government acts on your recommendation, whether the power is with you or government, what difference does it make?'
with Debraj Deb

مدھیہ پردیش میں شرپسندوں نے ایک اور مسلمان کوٹارگیٹ کیا

 بھوپال: اندور کے بعد مدھیہ پردیش کے شہر اجین میں بھی ہندو شرپسندوں کی طرف کی طرف سے ایک مسلم شخص سے زبردستی جے شری رام کا نعرے لگوایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ایک ویڈیو میں کچھ لوگ ایک مسلم کباڑ خریدنے والے شخص سے زبردستی جے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہہ رہے ہیں اور جب تک وہ یہ نعرہ نہیں لگا دیتا اس کی جان نہیں بچتی۔

وائرل ہو رہی ویڈیو میں جو لوگ مسلم شخص سے جے شری رام کا نعرے لگانے کو کہہ رہے ہیں انہوں نے گلے میں بھگوا رنگ کا گمچھا پہنا ہوا ہے اور وہ متاثرہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں آ کر کمائی کر کے جانے نہیں دیں گے۔

یہ شرمناک واقعہ اجین کے مہید پور تحصیل کے جھارڑا تھانہ علاقہ میں پیش آیا۔ ویڈیو میں دو نوجوانوں کو مسلم کباڑی کا سامان بھی پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہندو شرپسند مسلم شخص کو دھمکی دے کر کہتے ہیں کہ دوبارہ اس گاؤں میں قدم نہیں رکھنا۔ کافی جدوجہد کے بعد مسلم شخص مجبوری میں جے شری رام کا نعرہ لگا دیتا ہے، اسی کے بعد اسے چھوڑا جاتا ہے۔

ویڈیو سامنے آنے کے بعد اجین کے ایس پی ستیندر شکل نے 'آج تک' سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تھانہ جھارڑا کا ایک ویڈیو سامنے آیا ہے اور شکایت کنندہ نے تھانہ پہنچ کر تحریری شکایت پیش کر دی ہے۔ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ایس پی ستیندر کمار نے اس طرح کے واقعات کے بعد لوگوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات پر پولیس فوراً نوٹس لیگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے والوں پر سخت کارروائی کرے گی۔

حال ہی میں مدھیہ پردیش کے ہی اندور شہر میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک مسلم چوڑی فروش کے ساتھ شرپسندوں نے مار پیٹ کی تھی۔ ایک اور واقعہ میں ایک بسکٹ بیچنے والے کی بھی پٹائی کی گئی تھی۔

اس طرح کے واقعات پر کانگریس پارٹی شیوراج حکومت پر حملہ آور ہے۔ کانگریس کے لیڈر پی سی شرما نے کہا کہ مدھیہ پردیش میں قانون کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ ریاست میں بے روزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے اس لئے اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

Concerns over judicial appointments

 There are now three women judges. One among them is a potential woman Chief Justice for India. The list also reflects better representation on several counts.

But rather than those who are now elevated to the Bench, discourse is more on those names omitted by the Collegium. Going by the principles laid down in the 2nd judges case (1993) and the 3rd judges case (1998), seniority, merit and diversity are some of the relevant parameters in choosing "the best" candidates for the higher judiciary. Exclusion of Justice Akil Kureshi, Chief Justice of the Tripura High Court, from the Collegium list has caused immense consternation in the legal circle. He is superseded by others, which is dispiriting.

In 2010, Justice Kureshi had to consider a plea by the CBI for custodial interrogation of the present Home Minister Amit Shah. Despite the vociferous arguments by Shah's counsel, Kureshi ordered that the CBI shall have custody of Shah for a couple of days.

There is some disappointment over the exclusion of Chief Justice S Muralidhar of the Orissa High Court as well. As a judge of the Delhi High Court, he directed the Delhi Police on February 26, 2020 to quickly decide on registration of First Information Report against the BJP leaders including a minister, for the alleged hate speech that contributed to the communal violence in Delhi. When the Court was told that the actions in accordance with law would follow at the appropriate stage, he asked - "Which is the appropriate stage? After the city has been burnt down?" This question is a testimony for the judge's commitment to Rule of Law and the oath he has taken while adorning the Bench. Justice Muralidhar was immediately transferred to another high court.

The history of the Supreme Court tells us about executive's displeasure, meddling with judicial elevations. While discharging the constitutional duty, the judges sometimes need to take hard decisions. Renowned British lawyer David Pannick has put it pithily - "Judges do not have an easy job. They repeatedly do what the rest of us seek to avoid: make decisions." Justice HR Khanna was denied elevation as the Chief Justice of India due to his famous dissent in ADM Jabalpur Case (1976) where he said that fundamental rights are non-negotiable even during the time of Emergency. In 1973, Justice AN Ray was appointed as the Chief Justice of India by superseding Justices J M Shelat, K S Hegde and A N Grover, the senior judges who in the same year opined in Kesavananda Bharati Case that the basic structure of the Constitution is unshakable and Parliament cannot alter it. All the three judges resigned from the Supreme Court for upholding their dignity and self-respect.

A few people think that controversy over the present choice of judges is "unwarranted". PDT Achary, former Secretary General of the Lok Sabha, says that this "needless controversy" is based on "the non-existing 'Rule of Seniority' ". This view is erroneous. Firstly, judicial appointment is too serious a matter that it cannot be left to the judges or their Collegium alone. Therefore, a national debate on such appointment cannot be dismissed. Secondly, though seniority is not the sole criteria, it remains one among the relevant considerations. According to the law laid down by the top court, to choose a junior over a senior, the former should have "outstanding merit". While seniority is objective, tangible and even a constant, "merit", especially of the judges, is an idea that is relative, subjective, and sometimes obfuscating. The argument that Justice Kureshi or Justice Muralidhar was less meritorious would be totally unconvincing.

Justice Krishna Iyer famously described Collegium as a "curious creation with no backing under the Constitution". On judicial selection, he said that "no principle is laid down, no investigation is made, and a sort of anarchy prevails." Rather than anarchy, it is the inter-play of various considerations that finally determines the approval of names as judges of the top court. Even the present confirmation has happened after a long impasse of around two years.

Chief Justice NV Ramana is praised for his pragmatic approach that put an end to the uncertainty which led to a good number of vacancies in the country's top court remaining unfilled. But, at the end of the day, it is crucial to see that no one is sidelined or ignored for merely adhering to his constitutional oath. In the realm of judicial appointments, along with pragmaticism, principles too are important. Rule of law needs to be made an imperative in the realm of judicial selection as well.

It is an Indian tragedy that one of the most pivotal process in the democracy - selection of judges to the constitutional courts - is done by a body called Collegium which lacks democratic or constitutional legitimacy. The judgments of the top court on appointments, however, repeatedly endorsed the unelected body of Collegium which does not have a representative or participative character, in the democratic sense.

The nation's aspiration for an independent Commission for judicial appointment is practically discarded by the executive and the judiciary. It is a challenge which the legal fraternity needs to take up, despite the egregious inertness of our political leaders in addressing this issue.

Kaleeswaram Raj
Lawyer, Supreme Court 

Saturday 28 August 2021

کامیابی کے اصول

 


کامیابی ہمیشہ ان کو ملتی ہے جو اپنے ارادوں پر یقین کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں اور مسلسل محنت کرتے ہیں، کامیابی ایک دن میں حاصل ہونے والی چیز نہیں، اس کے پیچھے سالوں کی محنت اور پختہ یقین شامل ہوتا ہے ۔

مندرجہ ذیل اصولوں کی پابندی کی جائے تو بہت جلداپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔

ہمیشہ مثبت اور بڑی سوچ رکھیں

آپ زندگی میں جو کچھ حاصل کرتے ہیں اس کا براہ راست تعلق آپ کی سوچ سے ہوتا ہے، اپنے خیالات اور سوچ کو بڑا کر لیں اچھا سوچیں، منفی خیالات اور ہار جانے کے ڈر کو ذہن سے نکال دیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اچھا سو چو تو اچھا ہوگا۔

اعتدال کے ساتھ چلیں

زندگی میں اعتدال کا ہونا بہت لازمی ہے، ایک غلط یا جذباتی قدم آپ کی محنت پر پانی پھیر سکتا ہے، ہر کام سوچ سمجھ کر کریں اور اصولوں کے مطابق کریں، زندگی میں پختہ ارادے اور اعتدال ہر مقصد میں آپ کو کامیاب کر سکتا ہے۔

اپنی ناکامی کو تسلیم کریں

زندگی میں کوئی بھی انسان پہلی دفعہ ہی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو جاتا، ہر کامیاب انسان کے پیچھے کئی ناکامیاں، غلطیاں اور کہانیاں ہوتی ہیں، اپنی ناکامی کو تسلیم کریں اور اس پر پچھتا کر وقت ضائع کرنےسے بہتر ہے کہ اس بات کا اندازہ لگائیں کہ غلطی کہاں ہوئی اور دوسری بار کیا عمل نہیں دہرانا۔

آج کا کام آج ہی کریں

وقت کی قدر کریں ، آج کا کام کل پر ڈالنے کے بجائے اسے آج ہی انجام دیں اور کاہلی سے بچیں، اپ ٹو ڈیٹ رہیں اور کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، کسی کام کو چھوٹا نہ سمجھیں، ہر کام کو اہم سمجھ کر توجہ کے ساتھ انجام دیں۔

اپنے خیالات کو منفرد رکھیں

کسی کامیاب انسان کو دیکھ کر اس کی طرح ہی خود کو نہ ڈھال لیں، ہر کامیاب شخصیت کے معاملات حالات اور کہانی الگ ہوتی ہے۔ اپنے مقاصد اور منزل مقصود تک پہنچنے کا جائزہ لیں ا ور ایک جامع منصوبہ بندی بنا کر آہستہ آہستہ آگے بڑ ھیں۔

مثبت رویہ اپنائیں

مثبت رویہ زندگی میں آپ کو وہ سب کچھ حاصل کرنے میں مدد کرے گا جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، مثبت انداز اور تحمل مزاجی سے کام لیں، ہر چھوٹے بڑے فرد سے ایک جیسا رویہ رکھیں۔

خود پر یقین رکھیں

خود پر یقین رکھیں، ناکامی کے خوف سے جان چھڑائیں اور یہ ذہن میں ہمیشہ رکھیں کہ آپ سب کر سکتے ہیں، خود اعتمادی اور خود پر یقین ہونا کامیابی حاصل کرنے کے لیے لازمی ہے۔

سیکھتے رہیں اور آ گے بڑھتے جائیں

خود کو آزمائیں اور نئے تجربات کریں، یاد رکھیں زندگی کا سب سے بڑا رسک زندگی میں کوئی رسک نہ لینا ہے، تبدیلی سے گھبرائیں نہیں بلکہ اسے خوش آمدید کہیں، خود کو ہمیشہ متحرک اور مثبت رکھیں اور آگے بڑھتے جائیں، خود کو ہر وقت سیکھنے کے مراحل میں رکھیں۔

سید سادات, آل رسول اوراہل بیت میں فرق

 ’’سید‘‘  کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر ،حضرت عباس اورحضرت عقیل اورحضرت حارث  رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی اولاد میں سے ہیں، ان سب پر صدقہ حرام ہے۔

اور اہلِ بیت سے مراد  ازواجِ مطہرات اور نبی کریم ﷺ  کی آل و اولاد اور داماد یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ شامل ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: 

’’ بعض آئمہ تفسیر نے اہلِ بیت سے مراد  صرف ازواجِ مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی،(آیت) {واذکرن مایتلی في بیوتکن} (رواه ابن أبي حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساءالنبی کے الفاظ سے خطاب بھی  اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت اِن ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاہد  ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن وحسین بھی شامل ہیں،  جیسے ’’صحیح مسلم‘‘  کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آ گئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آ گئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) {انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا}.  اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا: "اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي". (رواہ ابن جریر)
ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیثِ معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں، جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں‘‘۔ (معارف القرآن)

اور آلِ رسول کے مصداق میں متعدد اقوال ہیں، بعض محقیقن نے اس سے آپ ﷺ کی اولاد مراد لی ہے، اور اکثر  نے قرابت دار مراد لیے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، اور بعض نے مجازاً اسے تمام امتِ مسلمہ مراد لی ہے۔

باقی مختلف صحابہ کرام کے مختلف فضائل وارد ہوئے ہیں، اور اہلِ بیت کے مستقل فضائل وارد ہوئے ہیں،  اور ان سے محبت ایمان کی علامت ہے۔ اور اہلِ بیت بھی صحابہ کرام  میں ہی داخل ہیں، اور عمومی صحابہ کرام کی درجہ بندی میں سب سے پہلے چاروں خلفاءِ راشدین بالترتیب، پھر عشرہ مبشرہ، پھر اصحابِ بدر، اس کے بعد اصحابِ احد، اور پھر بیعتِ رضوان کے شرکاء، اور اس کے بعد فتح مکہ اور اس کے بعد مسلمان ہونے والے صحابہ کرام کا شمار ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی فضائل اور تمام درجہ بندیوں میں جو جو اہلِ بیت شامل ہیں وہ فضائل ان کے بھی ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہلِ بیتِ کرام کے فضائل کی تفصیل کے لیے کتبِ احادیث کے ’’ابواب المناقب‘‘ ملاحظہ کیے جائیں۔ نیز اہلِ بیت کے فضائل کے لیے علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ کے رسائل (رسائل ابن عابدین) میں مستقل رسالہ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔صحيح مسلم (4 / 1873):
"(2408) حدثني زهير بن حرب، وشجاع بن مخلد، جميعًا عن ابن علية، قال زهير: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني أبو حيان، حدثني يزيد بن حيان، قال: انطلقت أنا وحصين بن سبرة، وعمر بن مسلم، إلى زيد بن أرقم، فلما جلسنا إليه قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت حديثه، وغزوت معه، وصليت خلفه لقد لقيت، يا زيد خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا ابن أخي والله لقد كبرت سني، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما حدثتكم فاقبلوا، وما لا، فلاتكلفونيه، ثم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يومًا فينا خطيبًا بماء يدعى خمًا بين مكة والمدينة، فحمد الله وأثنى عليه، ووعظ وذكر، ثم قال: " أما بعد، ألا أيها الناس! فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب، وأنا تارك فيكم ثقلين: أولهما كتاب الله فيه الهدى
والنور فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به"؛ فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي». فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد! أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم".

 ترجمہ: ۔۔۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  رسول اللہ ﷺ نے ایک دن مقامِ (غدیرِ) ’’خم‘‘ پر  جو مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، خطبہ دیا، چناں چہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: اما بعد! آگاہ رہو اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں،  ممکن ہے کہ میرے رب کا پیغام رساں (موت کا فرشتہ) میرے پاس آئے تو میں اسے لبیک کہوں، اور میں تم میں دو بہت اہم (اور بھاری چیزیں) چھوڑ رہاہوں: پہلی چیز ’’کتاب اللہ‘‘ ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، لہٰذا اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور مضبوطی سے تھام لو؛ پھر آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب کے حوالے سے کافی شافی ترغیب ارشاد فرمائی۔ پھر فرمایا: (اور دوسری چیز) میرے اہلِ بیت،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں۔   (یہ سن کر) راوی حدیث حصین رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ارقم سے کہا: اہلِ بیت سے مراد کون ہیں؟ اے زید کیا آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ (کیوں کہ بنیادی طور پر مذکورہ خطبہ ’’غدیرِ خم‘‘  کے مقام پر درحقیقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا تھا، اس پس منظر کی وجہ سے راوی نے مذکورہ سوال کیا)  تو حضرت زید بن ارقم نے فرمایا: (ہاں!) آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں ہیں، لیکن (یہاں مراد) اہلِ بیت (سے) وہ ہیں جن پر رسول اللہ ﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ راوی نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ آلِ علی،  آلِ عقیل، آلِ جعفر اور آلِ عباس ہیں۔ راوی نے کہا: کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں!

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 13):
"(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن الثاني مختار المحققين