https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 6 October 2021

فتنوں کی سرزمین احادیث میں

 حدیث نمبر 1 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا’، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي نَجْدِنَا ؟ قَالَ : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا’، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي نَجْدِنَا ؟ فَأَظُنُّہ، قَالَ فِي الثَّالِثَۃِ : ‘ھُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .

”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں؟ فرمایا : اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت دے۔صحابہ کرام نے پھر عرض کی : اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی؟ میرے خیال میں تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے۔شیطان کا سینگ بھی وہیں طلوع ہو گا۔” (مسند الإمام أحمد : 118/2، صحیح البخاري : 1051/2، ح : 7094، سنن الترمذي : 3953)
حدیث نمبر 2 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے :
إِنَّہ، سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَھُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمَشْرِقِ، یَقُولُ : ‘أَلَا إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا،آپ مشرق کی طرف رُخ کیے ہوئے فرما رہے تھے : آگاہ رہو، فتنہ یہیں سے رونما ہو گا، یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح البخاري : 1050/2، ح : 7093، صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905)
حدیث نمبر 3 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی راوی ہیں :
إِنَّہ، قَامَ إِلٰی جَنْبِ الْمِنْبَرِ، فَقَالَ : ‘الْفِتْنَۃُ ھَاھُنَا، الْفِتْنَۃُ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُع قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی ایک جانب کھڑے ہوئے اور فرمایا : فتنہ یہیں سے ابھرے گا،فتنہ یہیں سے ابھرے گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح البخاري : 1050/2، ح : 7092، صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905[47])
صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَھُوَ مُسْتَقْبِلَ الْمَشْرِقِ، : ‘ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف رُخ کیے ہوئے فرمایا : خبردار! فتنے یہاں سے رونما ہوں گے اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔”
حدیث نمبر 4 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُشِیرُ إِلَی الْمَشْرِقِ، فَقَالَ : ‘ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یاد رکھو! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔”
(المؤطّأ للإمام مالک : 975/2، صحیح البخاري : 463/1، ح : 3279)
حدیث نمبر 5 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، : ‘ھَاھُنَا الْفِتْنَۃُ، ھَاھُنَا الْفِتْنَۃُ، حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے یہ فرماتے ہوئے سنا: فتنے یہیں سے نمودار ہوں گے اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(مسند الإمام أحمد : 111/2، وسندہ، حسنٌ)
ۤحدیث نمبر 6 : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘رَأْسُ الْکُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ’ .
”کفر کا مبنع مشرق کی جانب ہے۔”
(صحیح البخاري : 466/1، ح : 3301، صحیح مسلم : 53/1، ح : 52)
صحیح احادیث کی تفسیر صحیح احادیث سے
قارئین کرام ! آپ نے ان چھ صحیح احادیث کا مطالعہ کر لیا ہے۔اب ان میں نجد مشرق سے کیا مراد ہے ؟ ہم یہ مراد بھی صحیح احادیث ہی سے واضح کرتے ہیں :
حدیث نمبر 1 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُشِیرُ بِیَدِہٖ، یَؤُمُّ الْعَرَاقَ، ‘ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، ھَا إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ . ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے : خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”(مسند الإمام أحمد : 143/2، ح : 6302، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث نمبر 2 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي مَدِینَتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي مَکَّتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا’، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي عِرَاقِنَا، فَأَعْرَضَ عَنْہُ، فَقَالَ : ‘فِیھَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”یااللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے،ہمارے لیے ہمارے مکہ کو بابرکت بنا دے،ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے،ہمارے صاع (قریباً099.2 کلوگرام کا پیمانہ)اور مد(قریباً 88.524گرام کاپیمانہ)میں برکت دے۔ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے عراق کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف التفات نہ کرتے ہوئے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے بپا ہوں گے۔وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(مسند الشامیّین للطبراني : 1276، المعرفۃ والتاریخ للحافظ یعقوب بن سفیان الفسوي : 747/2، 748، المخلّصیّات : 196/2، ح : 1341، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني : 133/6، تاریخ ابن عساکر : 131/1، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث نمبر 3 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَفِي مُدِّنَا’ فَرَدَّدَھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ الرَّجُلُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَلِعِرَاقِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘بِھَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَمِنْھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے صاع اور مد میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ ایک شخص نے کہا : ہمارے عراق کے لیے بھی دُعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : 384/12، ح : 13422، المعرفۃ والتاریخ للفسوي : 747/2، مسند البزّار : 5881، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 133/6، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث نمبر 4 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
صَلَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْفَجْرِ، فَأَقْبَلَ عَلَی الْقَوْمِ، فَقَالَ : ‘اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي مَدِینَتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا’، فَقَالَ رَجُلٌ : وَالْعِرَاقَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! فَسَکَتَ، ثُمَّ قَالَ : ‘اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي مَدِینَتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي حَرَمِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا’، فَقَالَ رَجُلٌ : وَالْعِرَاقَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! قَالَ : ‘مِنْ ثَمَّ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ، وَتَھِیجُ الْفِتَنُ’ .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کی طرف رُخ مبارک کیا اور فرمایا: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے،ہمارے شام اور یمن کو بابرکت بنا۔ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول! عراق کے لیے بھی دُعا کیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے،پھر فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے،اے اللہ! ہمارے حرم کو برکت والا بنا اور شام اور یمن کو بھی بابرکت بنا۔آدمی نے پھر کہا : اللہ کے رسول! عراق کے لیے بھی دُعا کیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور فتنے رونما ہوں گے۔”(المعجم الأوسط للطبراني : 4098، فضائل الشأم ودمشق لأبي الحسن الربعي، ص : 11، ح : 20، تاریخ الرقۃ لأبي علي القشیري، ص : 95، ح : 145، تاریخ دمشق لابن عساکر : 132/1، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کے راویوں کے بارے میں حافظ ہیثمی(807-735ھ)فرماتے ہیں :
رِجَالُہ، ثِقَاتٌ . ”اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔”
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 305/3)
اس کے راوی زیاد بن بیان کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)نے ”صدوق عابد” قرار دیا ہے۔(تقریب التھذیب : 2057)
اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ)فرماتے ہیں :
صَدُوقٌ، قَانِتٌ . ”یہ سچا اور نیک شخص ہے۔”(الکاشف : 275/1، الرقم : 1687)
امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے : لَیْسَ بِہٖ بَأْسٌ .
”اس میں کوئی حرج نہیں۔”
(میزان الاعتدال للذھبي : 87/2، تھذیب التھذیب لابن حجر : 256/3)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ”الثقات(247/8)”میں ذکر کر کے فرمایا ہے :
کَانَ شَیْخًا صَالِحًا . ”یہ نیک شیخ تھا۔”
شیخ ابو ملیح حسن بن عمر رقّی نے ان کی تعریف کی ہے۔
(التاریخ الکبیر للبخاري : 346/3، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ ابن خلفون نے اسے اپنی کتاب ”الثقات” میں ذکر کیا ہے۔
(إکمال تھذیب الکمال للمغلطائي : 97/5)
ایسے راوی کی روایت ”حسن” درجے سے کم نہیں ہوتی۔
حدیث نمبر 5 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا’، فَقَالَھَا مِرَارًا، فَلَمَّا کَانَ فِي الثَّالِثَۃِ أَوِ الرَّابِعَۃِ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي عِرَاقِنَا، قَالَ : ‘[إِنَّ] بِھَا الزَّلَازِلَ وَالْفِتَنَ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’
”اے اللہ! ہمارے شام کو بابرکت بنا دے،اللہ! ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی مرتبہ فرمائی۔جب تیسری یا چوتھی مرتبہ ہوئی تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے عراق کے لیے بھی دُعا فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عراق تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے۔یہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : 293/12، ح : 13422، مسند البزّار : 5880، وسندہ، حسنٌ)
حدیث نمبر 6 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمِ قَالَ : ‘اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا’، مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ الرَّجُلُ : وَفِي مَشْرِقِنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘مِنْ ھُنَالِکَ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ، وَبِھَا تِسْعَۃُ أَعْشَارِ الشَّرِّ’ . ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے اللہ! ہمارے شام اور یمن میں خیروبرکت فرما۔یہ دُعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمائی۔ایک نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے مشرق کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور دنیا کا نوے فی صد شر وہیں پر ہے۔”
(مسند الإمام أحمد : 90/2، وسندہ، حسنٌ)
اس کے راوی عبیداللہ بن میمون کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَعْرُوفُ الْحَدِیثِ . ”اس کی حدیث معروف ہے۔”
(التاریخ الکبیر : 388/3، ت : 1247)
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صَالِحُ الْحَدِیثِ .
”اس کی حدیث حسن ہے۔” (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 322/5)
حدیث نمبر 7 : نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یوں دُعا فرمائی: [اَللّٰہُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا]، قَالَ : قَالُوا : وَفِي نَجْدِنَا، فَقَالَ : قَالَ : [اللّٰہُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَفِي یَمَنِنَا]، قَالَ : قَالُوا : وَفِي نَجْدِنَا، قَالَ : قَالَ : [ھُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ] . ”اے اللہ!ہمارے شام اوریمن میں برکت فرما۔کچھ لوگوں نے کہا : ہمارے نجد کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔انہوںنے فرمایا: اے اللہ!ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما۔لوگوں نے پھر کہا : ہمارے نجد کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح البخاري : 141/1، ح : 1037)
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں۔اس روایت میں اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، لیکن یہ بھی حکماً مرفوع ہے۔
اس بارے میں شارحِ بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ) لکھتے ہیں :
ھٰکَذَا وَقَعَ فِي ھٰذِہِ الرِّوَایَاتِ الَّتِي اتَّصَلَتْ لَنَا بِصُورَۃِ الْمَوْقُوفِ عَنِ ابْنِ عُمَر، قَالَ : [اللّٰھُمَّ بَارِکْ ۔۔۔]، لَمْ یَذْکُرِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ الْقَابِسِيُّ : سَقَطَ ذِکْرُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ النُّسْخَۃِ، وَلَا بُدَّ مِنْہُ، لِأَنَّ مِثْلَہ، لَا یُقَالُ بِالرَّأْيِ . ”جو روایات ہمارے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف صورت میں پہنچی ہیں،ان میں اسی طرح ہے کہ انہوں نے خود یہ دُعا کی ہے،اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔قابسی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر صحیح بخاری کے نسخے سے گر گیا ہے۔یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ضروری ہے،کیونکہ ایسی بات کوئی صحابی اپنے قیاس سے نہیں کہہ سکتا۔”(فتح الباري : 522/2)
حدیث نمبر 8 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے سالم رحمہ اللہ نے عراق والوں کو مخاطب کر کے فرمایا: یَا أَھْلَ الْعِرَاقِ ! مَا أَسْأَلَکُمْ عَنِ الصَّغِیرَۃِ وَأَرْکَبَکُمْ لِلْکَبِیرَۃِ ! سَمِعْتُ أَبِي عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ‘إِنَّ الْفِتْنَۃَ تَجِيءُ مِنْ ھٰھُنَا، ـــ وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ ـــ مِنْ حَیْثُ یَطلُعُ قَرْنَا الشَّیْطَانِ’ .
”عراق کے باشندو! تعجب خیز بات ہے کہ ایک طرف تم چھوٹے چھوٹے مسائل بہت پوچھتے ہو اور دوسری طرف کبیرہ گناہوں کے ارتکاب میں اتنے دلیر ہو !میں نے اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : فتنہ یہاں سے آئے گا اور یہیں سے شیطان کے سینگ طلوع ہوں گے، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔”
(صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905[50])
حدیث نمبر 9 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَیْتِ عَائِشَۃَ، فَقَالَ : ‘رَأْسُ الْکُفْرِ مِنْ ھٰھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ، یَعْنِي الْمَشْرِقَ’ .
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے تو فرمایا : مشرق کفر کا سرچشمہ ہے،وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔” (صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905[48])
حدیث نمبر 0 : بدری صحابی سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
‘مِنْ ھٰھُنَا جَاءَ تِ الْفِتَنُ، نَحْوَ الْمَشْرِقِ’ .
”فتنے مشرق ہی کی طرف سے آئیں گے۔”(صحیح البخاري : 496/1، ح : 3498)
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ .(یہ پوری دس دلیلیں ہیں)
صحیح احادیث کی تفسیر اہل علم سے
لغوی طور پر ”نجد” بلند علاقے کو کہتے ہیں۔اس لحاظ سے دنیا میں بہت سارے نجد ہیں،لیکن مذکورہ احادیث میں ”نجد” کی تشریح ”مشرق” اور ”عراق” سے ہوئی ہے۔ثابت ہوا کہ جو نجدفتنوں کی آماجگاہ ہے اور جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا،وہ مشرق کی سمت ہے اور اس سے مراد عراق ہی ہے۔صحیح احادیث ِنبویہ پکار پکار کر یہی بتا رہی ہیں۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی خیال تھا۔اسی بارے میں مشہور لغوی ابن منظور افریقی(711-630ھ)لکھتے ہیں:
مَا ارْتَفَعَ مِنْ تِھَامَۃَ إِلٰی أَرْضِ الْعِرَاقِ، فَھُوَ نَجْدٌ .
”تہامہ کی حدود سے لے کر عراق تک جو بلند جگہ ہے،وہ نجد ہے۔”(لسان العرب : 413/3)
احادیث ِنبویہ کا لغوی حل کرنے والے مشہور لغوی ابن اثیر(606-544ھ)لکھتے ہیں :
وَالنَّجْدُ : مَا ارْتَفَعَ مِنَ الْـأَرْضِ، وَھُوَ اسْمٌ خَاصٌّ لِّمَا دُونَ الْحِجَازِ، مِمَّا یَلِي الْعِرَاقَ . ”نجد بلند زمین کو کہتے ہیں۔یہ حجاز کے باہر عراق سے ملحقہ علاقے کا خاص نام ہے۔”(النھایۃ في غریب الحدیث والأثر : 19/5)
علامہ خطابی رحمہ اللہ (388-319ھ) ”نجد” کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَمَنْ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ کَانَ نَجْدُہ، بَادِیَۃَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیَھَا، وَھِيَ مَشْرِقُ أَھْلِھَا، وَأَصْلُ النَّجْدِ مَا ارْتَفَعَ مِنَ الْـأَرْضِ، وَالْغَوْرُ مَا انْخَفَضَ مِنْھَا، وَتِھَامَۃُ کُلُّھَا مِنَ الْغَوْرِ، وَمِنْھَا مَکَّۃُ، وَالْفِتْنَۃُ تَبْدُو مِنَ الْمَشْرِقِ، وَمِنْ نَّاحِیَتِھَا یَخْرُجُ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَالدَّجَّالُ، فِي أَکْثَرِ مَا یُرْوٰی مِنَ الْـأَخْبَارِ .
”مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواح کا علاقہ ہے۔یہ مدینہ والوں کے مشرق میں واقع ہے۔نجد کا اصلی معنیٰ بلند زمین ہے۔نشیبی علاقے کو غَور کہتے ہیں۔تہامہ کا سارا علاقہ غَور ہے۔مکہ بھی اسی غَور میں واقع ہے۔اکثر روایات کے مطابق فتنے کا ظہور مشرق سے ہو گا،اسی جانب سے یاجوج ماجوج نکلےں گے اور یہیں سے دجال رونما ہو گا۔”
(إعلام الحدیث للخطابي : 1274/2ـــ ط ـــ المغربیّۃ)
امام اندلس حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463-368ھ)لکھتے ہیں :
إِشَارَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ـــ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ـــ إِلٰی نَاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ بِالْفِتْنَۃِ لِأَنَّ الْفِتْنَۃَ الْکُبْرَی الَّتِي کَانَتْ مِفْتَاحَ فَسَادِ ذَاتِ الْبَیْنِ، ھِيَ قَتْلُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَھِيَ کَانَتْ سَبَبَ وَقْعَۃِ الْجَمَلِ، وَحُرُوبِ صِفِّینَ، کَانَتْ فِي نَاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ، ثُمَّ ظُھُورُ الْخَوَارِجِ فِي أَرْضِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَرَاءَ ھَا مِنَ الْمَشْرِقِ .
”واللہ اعلم! رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا،وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین ،یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔”
(الاستذکار : 519/8)
علامہ ابو الحسن علی بن خلف بن عبد الملک العروف بہ ابن بطال(م : 449ھ)لکھتے ہیں :
قَالَ الْخَطَّابِيُّ : الْقَرْنُ فِي الْحَیَوَانِ یُضْرَبُ بِہِ الْمَثَلُ فِیمَا لَا یُحْمَدُ مِنَ الْـأُمُورِ، کَقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَۃِ وَطُلُوعِھَا مِنْ نَّاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ : ‘وَمِنْہُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’، وَقَالَ فِي الشَّمْسِ : إِنَّھَا تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَيِ الشَّیْطَانِ، وَالْقَرْنُ : الْـأُمَّۃُ مِنَ النَّاسِ یُحْدَثُونَ بَعْدَ فَنَاءِ آخَرِینَ، قَالَ الشَّاعِرُ :
مَضَی الْقَرْنُ الَّذِي أَنْتَ مِنْھُمْ ۔۔۔۔۔۔ وَخَلَفْتَ فِي قَرْنٍ فَأَنْتَ غَرِیب،
وَقَالَ غَیْرُہ، : کَانَ أَھْلُ الْمَشْرِقِ یَوْمَئِذٍ أَھْلَ کُفْرٍ، فَأَخْبَرَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِ، وَکَذٰلِکَ کَانَتِ الْفِتْنَۃُ الْکُبْرَی الَّتِي کَانَتْ مِفْتَاحَ فَسَادِ ذَاتِ الْبَیْنِ، وَھِيَ مَقْتَلُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَکَانَتْ سَبَبَ وَقْعَۃِ الْجَمَلِ وَصِفِّینَ، ثُمَّ ظُھُورُ الْخَوَارِجِ فِي أَرْضِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَرَاءَ ھَا مِنَ الْمَشْرِقِ، وَمَعْلُومٌ أَنَّ الْبِدَعَ إِنَّمَا ابْتَدَأَتْ مِنَ الْمَشْرِقِ، وَإِنَّ الَّذِینَ اقْتَتَلُوا بِالْجَمَلِ وَصِفِّینَ، بَیْنَھُمْ کَثِیرٌ مِّن أَھْلِ الشَّامِ وَالْحِجَازِ، فَإِنَّ الْفِتْنَۃَ وَقَعَتْ فِي نَاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ، وَکَانَ سَبَبًا إِلَی افْتِرَاقِ کَلِمَۃِ الْمُسْلِمِینَ، وَفَسَادِ نِیَّاتِ کَثِیرٍ مِّنْھُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ یُحَذِّرُ مِنْ ذٰلِکَ وَیُعْلِمُہ، قَبْلَ وُقُوعِہٖ، وَذٰلِکَ دَلِیلٌ عَلٰی نَبُوَّتِہٖ .
”حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے،جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تُو رَہ جائے تو اس وقت تُو اجنبی ہے۔ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا ،وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا۔یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔پھر خوارج کا ظہور بھی نجد،عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی،ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی،لہٰذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔”
(شرح صحیح البخاري : 44/10)
حافظ ابن الجوزی(597-508ھ)لکھتے ہیں : أَمَّا تَخْصِیصُ الْفِتَنِ بِالْمَشْرِقِ، فَلِأَنَّ الدَّجَّالَ یَخْرُجُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِِِ، وَکَذٰلِکَ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَأَمَّا ذِکْرُ قَرْنِ الشَّیْطَانِ، فَعَلٰی سَبِیلِ الْمَثَلِ، کَأَنَّ إِبْلِیسَ یَطْلُعُ رَأْسُہ، بِالْفِتَنِ مِنْ تِلْکَ النَّوَاحِي .
”مشرق کے ساتھ فتنوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اسی سمت سے ہو گا۔رہی بات شیطان کے سینگ کی تو یہ بطور مثال ہے، گویا کہ شیطان فتنوں کی صورت میں اس سمت سے اپنا سر اٹھائے گا۔”
(کشف المشکل علی الصحیحین : 493/2)
شارحِ بخاری،علامہ کرمانی ”نجد”اور ”غَور” کا معنیٰ واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَمَنْ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ الطَّیِّبَۃِ ــــ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی سَاکِنِھَا ــــ کَانَ نَجْدُہ، بَادِیَۃَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیَھَا، وَھِيَ مَشْرِقُ أَھْلِھَا، وَلَعَلَّ الْمُرَادَ مِنَ الزَّلَازِلِ وَالِاضْطِرَابَاتِ الَّتِي بَیْنَ النَّاسِ مِنَ الْبَلَایَا، لِیُنَاسِبَ الْفِتَنَ مَعَ احْتِمَالِ إِرَادَۃِ حَقِیقَتِھَا، قِیلَ : إِنَّ أَھْلَ الْمَشْرِقِ کَانُوا حِینَئِذٍ أَھْلَ الْکُفْرِ، فَأَخْبَرَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ نَّاحِیَتِھِمْ، کَمَا أَنَّ وَقْعَۃَ الْجَمَلِ وَصِفِّینَ وَظُہُورَ الْخَوَارِجِ مِنْ أَھْلِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَالَاھَا کَانَتْ مِنَ الْمَشْرِقِ، وَکَذٰلِکَ یَکُونُ خُرُوجُ الدَّجَّالِ وَیَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِنْھَا، وَقِیلَ : الْقَرْنُ فِي الْحَیَوَانِ یُضْرَبُ بِہِ الْمَثَلُ فِیمَا لَا یُحْمَدُ مِنَ الْـأُمُورِ . ”مدینہ طیبہ کے باسیوں کا نجد عراق اور اس کا نواحی علاقہ ہے۔یہی اہل مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔عراق میں زلزلوں اور فسادات سے مراد شاید وہ جنگیں ہیں جو لوگوں کے درمیان ہوئیں۔یہی بات فتنوں کے حسب ِحال ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقی زلزلے مراد ہوں۔ایک قول یہ ہے کہ اہل مشرق اس وقت کافر تھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اسی طرف سے کھڑے ہوں گے۔پھر ایسا ہی ہوا کہ جنگ جمل اور صفین اور خوارج کے ظہور والے واقعات نجد وعراق اور اس کے نواحی علاقے کے لوگوں کے سبب ہی پیش آئے۔ یہ تمام مشرقی علاقے ہیں۔اسی طرح دجال اور یاجوج وماجوج کا ظہور بھی اسی علاقے سے ہو گا۔اس حدیث میں مذکور سینگ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جانور کا سینگ بطور مثال قبیح امور کے لیے مستعمل ہے۔”
(شرح الکرماني للبخاري : 168/24)
شارحِ بخاری،علامہ عینی حنفی(859-762ھ)امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘الْفِتْنَۃُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ’ کے تحت لکھتے ہیں :
مُطَابَقَتُہ، لِلتَّرْجِمَۃِ فِي قَوْلِہٖ : ‘وَہُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِہَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’، وَأَشَارَ بِقَوْلِہٖ : ‘ہُنَاکَ’ نَجْدٌ، وَنَجْدٌ مِّنَ الْمَشْرِقِ، قَالَ الْخَطَّابِيُّ : نَجْدٌ مِّنْ جِہَۃِ الْمَشْرِقِ، وَمَنْ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ کَانَ نَجْدُہ، بَادِیَۃَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیَہَا، وَہِيَ مَشْرِقُ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ، وَأَصْلُ النَّجْدِ مَا ارْتَفَعَ مِنَ الْـأَرْضِ، وَہُوَ خِلَافُ الْغَوْرِ، فَإِنَّہ، مَا انْخَفَضَ مِنْہَا، وَتِہَامَۃُ کُلُّہَا مِنَ الْغَوْرِ، وَمَکَّۃُ مِنْ تِہَامَۃِ الْیَمَنِ، وَالْفِتَنُ تَبْدُو مِنَ الْمَشْرِقِ، وَمَنْ نَّاحِیَتِہَا یَخْرُجُ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَالدَّجَّالُ، وَقَالَ کَعْبٌ : بِہَا الدَّاءُ الْعُضَّالُ، وَہُوَ الْہَلَاکُ فِي الدِّینِ، وَقَالَ الْمُہَلَّبُ : إِنَّمَا تَرَکَ الدُّعَاءَ لِأَہْلِ الْمَشْرِقِ، لِیَضْعُفُوا عَنِ الشَّرِّ الَّذِي ہُوَ مَوْضُوعٌ فِي جِہَتِہِمْ لِاسْتِیلَاءِ الشَّیْطَانِ بِالْفِتَنِ .
”اس حدیث کی امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کہہ کر نجد کی طرف اشارہ فرمایااور نجد مشرق ہی میں واقع ہے۔فتنوں کا آغاز مشرق ہی سے ہوتا ہے۔اسی طرف سے یاجوج و ماجوج اور دجال کا ظہور ہو گا۔کعب کہتے ہیں : مشرق میں مہلک بیماری ہو گی اور وہ بیماری دین سے بیزاری ہے۔ مہلب کہتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لیے دُعا اس لیے نہیں کی کہ وہ اس شر سے باز آ جائیں جو شیطان کے فتنوں کی صورت میں ان کی سمت میں موجود ہے۔”
(عمدۃ القاري في شرح صحیح البخاري : 200/24)
نیز لکھتے ہیں : وَإِنَمَا أَشَارَ إِلَی الْمَشْرِقِ لِأَنَّ أَہْلَہ، یَوْمَئِذٍ کَانُوا أَہْلَ کُفْرٍ، فَأَخْبَرَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِ، وَکَذٰلِکَ کَانَتْ، وَہِيَ وَقْعَۃُ الْجَمَلِ وَوَقْعَۃُ صِفِّینَ، ثُمَّ ظُہُورُ الْخَوَارِجِ فِي أَرْضِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَرَائَہَا مِنَ الْمَشْرِقِ، وَکَانَتِ الْفِتْنَۃُ الْکُبْرَی الَّتِي کَانَتْ مِفْتَاحَ فَسَادِ ذَاتِ الْبَیْنِ قَتْلَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، وَکَانَ یُحَذِّرُ مِنْ ذٰلِکَ وَیُعْلِمُ بِہٖ قَبْلَ وُقُوعِہٖ، وَذٰلِکَ مِنْ دَلَالَاتِ نَبُوَّتِہٖ .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ اس لیے فرمایا کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اس طرف سے سر اٹھائیں گے۔بالکل ایسے ہی ہوا۔ جنگ جمل وصفین اور خوارج کا ظہور نجدوعراق اور اس کے نواحی علاقوں ہی میں ہوا تھا۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی صورت میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا،وہ بھی اسی سمت سے آیا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں کے واقع ہونے سے قبل ہی اس سمت سے خبردار اور متنبہ فرماتے تھے۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : 199/24)

چرچ میں توڑ پھوڑ کے بعد متاثرین کے خلاف ہی مقدمہ

 ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست اتر اکھنڈ کے علاقے روڑکی میں ایک چرچ پرتین اکتوبر کو 200 سے زائد شر پسندوں نے حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی۔ یہ حملہ مبینہ طورپر ہندو انتہا پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کیا تھا۔ اس حملے میں کم از کم پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ مشتعل ہجوم نے فرنیچر، تصویریں اور موسیقی کے آلات وغیرہ بھی توڑ دیے تھے۔ انہوں نے 'وندے ماترم' اور 'بھارت ماتا کی جے' کے نعرے بھی لگائے تھے۔

بھارت کے لیے بدنامی کا سبب

آل انڈیا کیتھولک یونین کے ترجمان جان دیال نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اتر اکھنڈ اور مرکز میں بی جے پی حکومتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں بھارت کے لیے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔

چرچ کی منتظم سادھنا لانس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی شکایت کے باوجود پولیس نے اب تک کسی حملہ آور کو گرفتار نہیں کیا بلکہ الٹا ان کے اور نو دیگر افراد کے خلاف کیس درج کر دیا۔ ان سب پر ایک خاتون کو دھمکی دینے اور حملہ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ لانس کا کہنا تھا، "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اتر اکھنڈ پولیس سیاسی دباؤ میں ہے کیونکہ اس نے اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ الٹا خود ہمارے ہی خلاف کیس درج کر لیا۔ یہ سیاسی اغراض پر مبنی ہے۔"

اتراکھنڈ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ لانس کے خلاف درج کیس بظاہر مشکوک دکھائی دیتا ہے۔

''آج ہماری ٹیم نے چرچ کے قریب واقع ایک گھر کے پاس لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج حاصل کر لی ہے۔ متاثرین کے خلاف درج کرایا گیا کیس بظاہر جھوٹا نظر آتا ہے اور ہم اسے وقت آنے پر منسوخ کر دیں گے۔'' انہوں نے مزید کہا کہ چرچ پر حملے کے معاملے میں جن لوگوں کے خلاف کیس درج کرایا گیا ہے، ان کا ٹھکانہ معلوم ہو گیا ہے اور وہ جلد ہی گرفتار کر لیے جائیں گے۔

مذہب تبدیل کرانے کا الزام

بھارت میں کسی مسجد یا چرچ پر حملے کو بالعموم تبدیلی مذہب کے الزام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر مدن کوشک نے ایک بیان میں کہا کہ اس چرچ کا استعمال ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے ہو رہا تھا۔ "اس واقعے میں جو لوگ ملوث ہیں، وہ دراصل اسی کالونی کے رہنے والے تھے اور چرچ کو مذہب کی تبدیلی کے لیے استعمال کیے جانے کی وجہ سے ناراض تھے۔"

سادھنا لانس اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، "میں ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد چرچ میں خدمت انجام دے رہی ہوں۔ میں سب کچھ اپنی جمع کردہ رقم اور پینشن کے پیسوں سے کرتی ہوں۔ مذہب تبدیل کرانے کا الزام اس لیے لگایا جا رہا ہے کہ الیکشن قریب ہیں۔"

مسیحیوں پر حملوں کے واقعات

بھارت میں مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ مسیحیوں کا تاہم کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ان حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

گزشتہ ماہ ہی مسیحی مذہبی رہنماؤں نے بھارتی صدر کو ایک خط لکھ کر ان سے ملک میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مداخلت کی اپیل کی تھی۔ اس خط کی نقل مدھیہ پردیش کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان اور گورنر منگو بھائی پٹیل کو بھی پیش کی گئی تھی۔

مسیحی رہنماؤں نے اپنے اس خط میں لکھا تھا کہ وشو ہندو پریشد کے ارکان ہونے کا دعویٰ کرنے والے افراد مدھیہ پردیش کے جھابوا ضلع میں تمام مسیحی عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

عالمی اداروں کی رپورٹیں

امریکا کے مذہبی آزادیوں سے متعلق کمیشن نے سن 2021 کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں حکومت کے ذریعے ہندو قوم پرستانہ پالیسیوں کو فروغ دیے جانے کے نتیجے میں مذہبی آزادی کی منظم اور سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

بھارت میں مسیحیوں کی ایک تنظیم یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف مارچ2020 میں ایک مہینے کے دوران بھارت کی دس ریاستوں میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 27 واقعات درج کیے گئے تھے۔ ان میں سے سب سے زیادہ یعنی چھ واقعات صرف اتر پردیش میں پیش آئے تھے۔

جولائی 2021 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی کم از کم 17 تنظیموں نے بھی امریکی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ بھارت میں مسیحیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی زیادتیاں رکوانے کے لیے کارروائی کرے۔

آل انڈیا کیتھولک یونین کے رہنما جان دیال نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "مسیحیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کی وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرین کے خلاف ہی جھوٹی رپورٹیں درج کرا دی جاتی ہیں، انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں جبکہ دوسری طرف سنگھ پریوار کے لوگوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جو جی میں آئے کریں۔ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔''

Tuesday 5 October 2021

بڑے جانور میں عام دنوں میں عقیقہ کاحصہ لینا

 عقیقہ اور قربانی دونوں اکثر احکام میں باہم مشترک ہیں اس لیے جس طرح بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے درست ہیں اسی طرح عقیقہ کے جانور کے اندر بھی سات حصے درست ہیں، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت نہیں ہے ان کا کہنا بالکل غلط ہے، حضرات فقہائے کرام نے اس مسئلہ کو ”البقرة عن سبعة والجزور عن سبعة“ والی حدیث سے مستنبط کیا ہے، طریقہ استنباط اس طرح ہے کہ ایک بقر اور ایک اونٹ سات کی طرف سے کافی ہے اور شریعت کے قاعدہ اور احادیث کی تصریح سے یہ ثابت ہے کہ سبع بدنہ (بڑے جانور کا ساتواں حصہ) قائم مقام ایک شاة (بکری) کے ہے پس جب عقیقہ میں ایک شاة (بکری) کافی ہے تو سبع بدنہ (بڑے جانور کا ساتواں حصہ) بھی ضرور کافی ہوگا اور جب کہ قربانی میں جو کہ واجب ہے سبع بدنہ (بڑے جانور کا ساتواں حصہ) کافی ہے تو عقیقہ میں جو کہ واجب بھی نہیں کیسے کافی نہ ہوگا؟ نیز فقہاء ومجتہدین کا قیاس بھی قابل حجت ہوتا ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ یہ ثابت نہیں بالکل غلط ہے اور اس کا ثبوت قیاس ہی سے نہیں ہے بلکہ احادیثِ رسول، اقوالِ صحابہٴ کرام، اور چاروں ائمہ کی کتب فقہ وفتاوی سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ گائے(فقہاء کے مطابق :  الجاموس نوع من البقر . بھینس  پڈے  بھی  گائے ہی  کی  قسم سے ہیں " ان کی قربانی  بھی  اونٹ  اور گائے کی  طرح  درست ہے اسی طرح عقیقہ بھی درست ہے اور جس طرح قربانی کے اندر ان تمام جانوروں میں سات حصے ہوسکتے ہیں اسی طرح عقیقہ کے اندر بھی سات حصے ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ تمام کے اندر قربت کی نیت ہو ”قد علم أن الشرط قصد القربة من الکل، وشمل ما لو کان أحدہم مریدا للأضحیة عن عامہ وأصحابہ عن الماضی الخ وشمل ما لو کانت القربة واجبة علی الکل أو البعض اتفقت جہاتہا أو لا: کأضحیة وإحصار الخ وکذا لو أراد بعضہم العقیقة عن ولد قد ولد لہ من قبل لأن ذلک جہة التقرب بالشکر علی نعمة الولد ذکرہ محمد رحمہ اللہ (رد المحتار: ۹/ ۴۷۲، ط: زکریا دیوبند) ولو ذبح بقرة أو بدنة عن سبعة أولاد أو اشترک فیہا جماعة جاز سواء أرادوا کلہم العقیقة أو أراد بعضہم العقیقة وبعضہم اللحم کما سبق فی الأضحیة (شرح المہذب/ ۸/۲۹) قلت مذہبنا في الأضحیة بطلانہا بإرادة بعضہم اللحم فلیکن کذلک في العقیقة (إعلاء السنن: ۱۷/ ۱۱۹، ط: إدارة القرآن کراچی) فیہ حدیث عند الطبرانی وأبی الشیخ عن أنس رفعہ یعق عنہ من الإبل والبقر والغنم ونص أحمد علی اشتراط کاملة وذکر الرافعی بحثا أنہا تتأدی بالسبع کما فی الأضحیة واللہ أعلم (فتح الباري: ۹/۷۴۰) قلتگ ہو مخالف فیہ حسن الحدیث وفیہ أنہ صلی اللہ علیہ وسلم سماہ نسیکة ونسکا وہو یعم الإبل والبقر والغنم إجماعا (إعلاء السنن: ۱۷/ ۱۱۷،ط: اشرفی دیوبند) القیاس حجة من حجج الشرع یجب العمل بہ عند انعدام ما فوقہ من الدلیل في الحادثة وقد ورد في ذلک الاأخبار والآثار (أصول الشاشی/ ۲۸۱، ط: اتحاد دیوبند) مذہبنا جواز العقیقة بما تجوز بہ الأضحیة من الإبل والبقر والغنم الخ (المجموع: ۸/ ۲۶۰، ط: احیاء التراث ا لعلمی بیروت) قال مالک وہی جنسہا جنس الأضاحی الغنم والبقر والإبل (الذخیرة في فروع المالکیة: ۲/ ۴۲۷) اختلفوا أیضا فیما تجوز بہ العقیقة أئمة الثلاثة مالک والشافعي وأحمد والجمہور إلی تخصیصہا ببہیمة الأنعام کالأضحیة وہي الإبل والبقر والغنم وسواء في ذلک في الذکور والإناث (فتح الرباني: ۱۳/ ۱۲۵) مزید تفصیل کے لیے جواہر الفتاوی: ۳/۴۱۳کا مطالعہ کریں)

کسی بزرگ کی قبر کے پاس اللہ کی عبادت کرنا

 مختار قول کے مطابق کسی بزرگ کی   قبر کے پاس بیٹھ کر اللہ کی عبادت  یا قرآن پاک کی تلاوت بلاکسی کراہت جائز ہے،بشرطیکہ اس  سے بزرگ کی عبادت  کاشبہ نہ ہوتا ہو.  ولا یکرہ الجلوس للقراء ة علے القبر فی المختار (نور الایضاح مع المراقی وحاشیة الطحطاوی ص: ۱۱۱، ۱۲۳)، وأخذ من ذلک جواز القراء ة علی القبر والمسألة ذات خلاف، قال الإمام: تکرہ لأن أہلہا جیفة ولم یصح فیہا شیء عندہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال محمد: تستحب الورود الآثار وہو المذہب المختار کما صرحوا بہ في کتاب الاستحسان (حاشیة الطحطاوی علی المراقي ص: ۶۲۱ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، نیز شامی (۳: ۱۵۶، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) 

Monday 4 October 2021

Cartoonist crashed

 STOCKHOLM (REUTERS) - Swedish artist Lars Vilks, who stirred worldwide controversy in 2007 with drawings depicting the Prophet Mohammad with the body of a dog, was killed in a car crash near the southern town of Markaryd on Sunday (Oct 3), police said.

Vilks, 75, who had been living under police protection since the drawings were published, was travelling in a police vehicle which collided with a truck. Two police officers were also killed.

"This is a very tragic incident. It is now important to all of us that we do everything we can to investigate what happened and what caused the collision," Swedish police said in a statement on Monday.

ہربدعت مذموم اور قابل ترک ہے.

 جس فعل شرعی کا سبب اور محرک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو نہ صحابہٴ کرام کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ ترغیب دی ہو، دین سمجھ کر ایسا کام کرنا بدعت ہے، جیسے مروجہ میلاد کا سبب (حضور کے زمانہ میں) موجود تھا۔ اور صحابہٴ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق اور عقیدتو محبت تھی اس کے باوجود کسی نے آپ کا یوم ولادت منایا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔

(۲) شریعت نے جو چیز مطلق رکھی ہے اس میں اپنی طرف سے قیودات لگانا بدعت ہے، جیسا کہ زیارت کے لیے وقت مقرر کرنا، ایصالِ ثواب کے لیے وقت متعین کرنا، مثلاً سیوم، چہلم۔

(۳) جو کام بذاتِ خود مستحب و مندوب ہے، مگر اس کا ایسا التزام کرنا کہ رفتہ رفتہ اس کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک کی ملامت کی جانے لگے تو وہ کام مستحب کے بجائے بدعت بن جاتا ہے۔ مثلاً نماز جمعہ، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ہل اتاک حدیث الغاشیة پڑھنا مسنون ہے، مگر اس کا التزام کرنا کہ لوگ اس کو ضروری سمجھنے لگیں، بدعت ہے۔

(۴) جو کام فی نفسہ جائز ہے اگر اس کو کرنے میں کفار و فجار اور گمراہ لوگوں کی مشابہت لازم ہو تو اس کا کرنا ناجائز ہے، اس قاعدہ سے معلوم کہ تمام وہ اعمال جو اہل بدعت کا شعار بن جائیں، اس کا ترک لازم ہے۔ مزید تفصیل کے لیے الاعتصام (للعلامة الشاطبی) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

 

بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کردیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔

Sunday 3 October 2021

علم کلام کی اہمیت

 دینی علوم وفنون میں ایک اہم اور بنیادی علم ’’علم الکلام‘‘ہے، جس کو ’’علم التوحید‘‘، ’’علم الأسماء والصفات‘‘، ’’علم أصول الدین‘‘، اور ’’علم العقائد‘‘ وغیرہ ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، دیگرتمام اہم علوم وفنون کی طرح اس علم کی بھی ایک ارتقائی تاریخ ہے، جو علمِ کلام کی مفصل کتابوں میں اور علمِ کلام کے ساتھ شغف رکھنے والے حضرات اہلِ علم کی تحریرات وتالیفات میں تفصیل کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ اس علم کا بنیادی مقصود یہ تھا کہ قرآن وسنت میں جن عقائد کا ذکر کیاگیا ہے، ان کی حقانیت پر پوری طرح ایمان لایاجائے، معاصرانہ اسلوب کے مطابق اس کو درجۂ تحقیق وثبوت تک پہنچایاجائے اور ان اعتقادی نصوص پر وارد ہونے والے اشکالات وشبہات کاتسلی بخش جواب دے کر عام مسلمانوں کے دین وایمان کی اچھی طرح حفاظت کی جائے۔ امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  سوال و جواب کے انداز میں اس علم کی اہمیت اوراس کی اساس وبنیاد سمجھاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’فإن قلت: فلم صار من فروض الکفایات وقد ذکرت أن أکثر الفرق یضرہم ذٰلک ولا ینفعہم؟ فاعلم أنہ قد سبق أن إزالۃ الشکوک في أصول العقائد واجبۃ، واعتوار الشک غیر مستحیل وإن کان لا یقع إلا في الأقل، ثم الدعوۃ إلی الحق بالبرہان مہمۃ فی الدین، ثم لا یبعد أن یثور مبتدع ویتصدی لإغواء أہل الحق بإفاضۃ الشبہۃ فیہم، فلا بد ممن یقاوم شبہتہٗ بالکشف ویعارض إغواء ہ بالتقبیح، ولا یمکن ذٰلک إلا بہٰذا العلم۔ ولا تنفک البلاد عن أمثال ہٰذہ الوقائع، فوجب أن یکون في کل قطر من الأقطار وصقع من الأصقاع قائم بالحق مشتغل بہٰذا العلم یقاوم دعاۃ المبتدعۃ ویستمیل المائلین عن الحق ویصفي قلوب أہل السنۃ عن عوارض الشبہۃ، فلو خلا عنہ القطر خرج بہٖ أہل القطر کافۃ، کما لو خلا عن الطبیب والفقیہ۔ ‘‘ (۱)
ترجمہ:’’علم کلام کاسیکھناکیوں فرض کفایہ ہے؟ حالانکہ اکثرلوگوں کواس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ؟ دلیل کی بنیاد پرحق کی طرف دعوت دینا بھی ایک اہم دینی ذمہ داری ہے اورممکن ہے کہ کوئی بدعتی اُٹھ کھڑاہوکراہلِ حق کے دلوں میں شبہات ڈالے اورانہیں گمراہ کرنے کی ٹھان لے، لہٰذا ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے جو اس کاشبہ دورکرکے دلائل کے ساتھ اس کی گمراہی واضح کریں اوریہ علم کلام کے بغیر ممکن نہیں۔ اکثرشہروں میں اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں، لہٰذاہرجگہ ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے، جو حق پر قائم رہ کراس علم کوسیکھیں اورحق سے اعراض کرنے والے اوراہلِ بدعت کامقابلہ کرکے اُنہیں حق کی طرف راغب کریں، اہلِ سنت کے دلوں کو شبہات سے محفوظ رکھ سکیں، ورنہ اگرکوئی جگہ اس قسم کے لوگوں سے خالی ہوجائے تواہلِ باطل کاوہاں غلبہ ہوگا، جیساکہ کوئی علاقہ فقیہ اورڈاکٹرسے خالی ہوجائے ۔‘‘
شیخ عبد للطیف خربوتی  رحمۃ اللہ علیہ  علمِ کلام کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہي الترقي من حضیض التقلید إلی ذروۃ الیقین وإرشاد المسترشدین وإلزام المعاندین وحفظ عقائد المسلمین عن شبہ المبطلین۔ ‘‘ (۲)
ترجمہ:’’علمِ کلام کامقصد تقلید کی پستیوں سے یقین کی بلندیوں کی طرف بڑھنا، حق طلب کرنے والوں کی رہنمائی کرنا،مخالفین کولاجواب کرنااورمسلمانوں کے عقائد کو گمراہ لوگوں کے شبہات سے بچاناہے ۔‘‘
علامہ مرعشی مرحوم علم کلام کاتعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وأما علم الکلام: ویسمی أیضا علم أصول الدین، فہو علم یقتدر بہ علی إثبات العقائد الدینیۃ بإیراد الحجج علیہا ورفع الشبہ عنہا۔ ‘‘ (۳)
ترجمہ: ’’علم کلام جسے علم اصول الدین بھی کہاجاتاہے، ایسا علم ہے جس کے ذریعے دینی عقائد کو دلائل سے ثابت کرنے اورعقائد سے متعلق شبہات کوزائل کرنے کاملکہ پیدا ہوتا ہے ۔‘‘
سلف ِصالحین کے ابتدائی دور میں نقل ہی کا رواج تھا تو حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ اس وقت عقائد ِاسلامیہ کو قرآن وسنت کی نصوص کے ذریعہ ہی ثابت کرنے پر قناعت فرماتے رہے۔ مثال کے طور پر جب عقیدۂ’’تقدیر‘‘کے متعلق بعض لوگوں نے اسلامی عقیدے کے خلاف موقف اپناکر اس کی تبلیغ شروع کی اوراس کی اطلاع صحابی جلیل حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  کو پہنچی تو انہوں نے انکار کرنے والے سے براء ت وناراضگی کااظہار فرمایا اور پھر احادیثِ مبارکہ سے استدلال کرکے اس اعتقاد کی حقانیت وضرورت کو ثابت فرمایا۔ اسی طرح حضرت جابرؓ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے بھی مختلف اعتقادی مسائل میں یہی طرز اپنایا۔
 اس کے کچھ عرصہ بعد یونانی فلسفہ کی آمد اور عجمی دماغ لوگوں کے بکثرت مسلمان ہونے کی وجہ سے عقلیات کادور دورہ شروع ہوا اوردینی عقائد کو عقل کے ناتمام ترازو سے تولاجانے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک یلغار سی شروع ہوئی اور کسی بھی خیال واعتقاد کی صداقت وحقانیت کا یہی معیار ٹھہرا تو اس وقت کے علماء راسخین نے اسی پہلو سے عقائدِ اسلامیہ کے دفاع کی کوشش فرمائی، جن میں وہ بڑی حد تک کامیاب وکامران ثابت ہوئے ۔تاریخ کے اوراق میں انہی حضرات کو متکلمین کے نام وخطاب سے جانا جاتا ہے۔ اس گلستانِ حکمت ودانائی میں امام غزالی، امام صابونی، امام رازی، علامہ آمدی، علامہ نسفی، علامہ عضد الدین ایجی، تفتازانی، علامہ میرسید شریف جرجانی، علامہ سبکی، اور علامہ سنوسی ولَقانی وغیرہ  رحمۃ اللہ علیہم  روشن قندیلیں ہیں، جن کی خوشبوؤں سے ہمیشہ عالمِ اسلام کوترووتازگی نصیب ہوتی رہی۔
ان حضرات کا غایت مقصود یہ تھا کہ قرآن وسنت کی نصوص میں جن اعتقادات کا ذکر کیاگیا ہے، ان کی حقانیت وصداقت ثابت کی جائے اور معاصرانہ مزاج کے اشکالات وشبہات سے اس کا کماحقہٗ دفاع کیا جائے، اس مقصود کی تکمیل کے لیے اس زمانہ کے رسم وطبیعت کے مطابق عقلیات میں مہارت بھی ضروری تھی اور افہام وتفہیم، بحث ومکالمہ میں اس عقلی طرزِ استدلال کا بروئے کار لانا بھی لازم تھا، ان دونوں باتوں کے بغیر کسی بات کی طرف اعتماد کی آنکھیں نہیں اُٹھتی تھیں، اس لیے ان حضرات نے اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے عقلیات میں بھی مہارت پیدا کرنے کی پوری کوشش فرمائی اور ساتھ اپنی تصنیفات وتالیفات کو بھی اسی قالب میں ڈھالا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مساعی حصنِ حصین(مضبوط قلعہ) ثابت ہوئیں اور اعتقادی میدان میں ہونے والے تمام حملوں سے عقائدِ اسلامیہ کی عمارت پوری طرح محفوظ وسالم رہی۔ اسباب کی دنیامیں ان حضرات کے خلوصِ دل، کمالِ عقل اور سرتوڑ محنت وکوشش ہی کا نتیجہ تھا کہ عقلیات کی اس طوفانی یورش میں بھی عقائد ِاسلامیہ پر کوئی حرف نہیں آیا، بعد میں صدیوں تک یلغار کی یہی صورت جاری رہی اور انہی حضرات متکلمین کی محنتیں سدّسکندری بن کر مانع رہیں۔

Friday 1 October 2021

محرمات ابدیہ

 تمام اصول (یعنی والدہ، دادی، نانی وغیرہ اوپر تک) اور فروع( یعنی بیٹی، پوتی، نواسی وغیرہ نیچے تک) محارم ہیں، اسی طرح بہن اور بہن کی اولاد( یعنی بہن کی بیٹی، پوتی،نواسی وغیرہ)، اسی طرح بھائی کی اولاد( بیٹی، پوتی، نواسی وغیرہ) ، پھوپھی اور خالہ بھی محارم میں شامل ہیں،اسی طرح بیوی کی ماں (خوش دامن) اور اس کی دادی،نانی وغیرہ، بیوی کی بیٹی (جو کسی اور شوہر سے ہو اور آپ کے زیرِ کفالت ہو ) جب کہ بیوی سے صحبت کی ہو، والد کی منکوحہ (جس کو ہمارے عرف میں سوتیلی ماں کہا جاتا ہے) اور بیٹے کی منکوحہ (بہو) بھی محارم میں سے ہیں، یہی تمام رشتے اگر رضاعی ہوں تو ان کا بھی یہی حکم ہے۔

" (حرم) على المتزوج ذكرا كان أو أنثى نكاح (أصله وفروعه) علا أو نزل (وبنت أخيه وأخته وبنتها) ولو من زنى (وعمته وخالته) فهذه السبعة مذكورة في آية: {حرمت عليكم أمهاتكم} [النساء: 23]،  ويدخل عمة جده وجدته وخالتهما الاشقاء وغيرهن وأما عمة عمة أمه وخالة خالة أبيه حلال كبنت عمه وعمته وخاله وخالته، لقوله تعالى:{وأحل لكم ما وراء ذلكم} [النساء: 24] (و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقاً بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة لما تقرر أن وطئ الامهات يحرم البنات، ونكاح البنات يحرم الامهات، ويدخل بنات الربيبة والربيب.
وفي الكشاف: واللمس ونحوه كالدخول عند أبي حنيفة، وأقره المصنف (وزوجة أصله وفرعه مطلقاً) ولو بعيداً دخل بها أو لا، وأما بنت زوجة أبيه أو ابنه فحلال (و) حرم (الكل) مما مر تحريمه نسبا ومصاهرة (رضاعا) إلا ما استثني في بابه.[الدر مع الرد : ٣/ ٢٨-٣١]
ف

Thursday 30 September 2021

فون پر نکاح کرنے کاحکم

 


نکاح کے وقت عاقدین اور گواہوں کامجلس نکاح میں ہونا ضروری ہے، اور یہ ٹیلیفون پر ممکن نہیں اس لیے ٹیلیفون پر نکاح جائز نہیں۔ در مختار میں ہے: ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین وإن طال کمخیرة۔ (الدر المختار مع الشامي: 4/76، ط زکریا دیوبند) البتہ اگر وہ شخص ٹیلیفون پر کسی کو اپنا وکیل بنادے کہ وہ اس کی طرف سے فلاں لڑکی کے نکاح کو قبول کرلے پھر یہاں مجلس نکاح منعقد کی جائے اور قاضی صاحب یا لڑکی کے والد وغیرہ جو بھی نکاح پڑھائیں وہ کہیں کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے کیا اور وکیل کہے کہ میں نے اس لڑکی کو فلاں کے نکاح میں قبول کیا، پس اس سے نکاح منعقد ہوجائے گا اور صحیح ہوجائے گا۔

Wednesday 29 September 2021

مولاناکلیم صدیقی کی گرفتاری اورآسام میں سرکاری آتنک واد کے خلاف احتجاج

 جلگاؤں(پریس ریلیز): جلگاوں شہر میں کلکٹر آفس پر بڑے پیمانے پر تمام دینی ملی ،سیاسی تحریکوں اور سماجی تنظیموں نے متحد ہوکر مولانا مفتی محمد ہارون ندوی صاحب کی قیادت میں "مولک ادھیکار منچ" کے پرچم تلے جمعیۃ علماء ہند ، جماعت اسلامی، وحدت اسلامی، ایس آئی او ،آئی وائی ایف ، کل جماعتی مشن، تبلیغی جماعت، سنی دعوت اسلامی ،اہل سنت اور سیاسی پارٹیوں میں کانگریس ، راشٹر وادی، سماجوادی ، ایم آئی ایم ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا جیسی مختلف جماعتوں اور فعال و مستعد اہلیان جلگاوں نے اتحاد کے ساتھ داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی کی غیر قانونی گرفتاری، یوگی تانا شاہی اور گھٹیا نیچ سیاسی ہتھکنڈوں کی جم کر مخالفت کی ۔اور مولانا کی رہائی کا بنا شرط مطالبہ رکھا گیا ،ساتھ ہی آسام میں 800 مکانات منہدم کردینے اور پولیس کی جانب سے حالیہ بربریت جس میں گولیوں سے دو سے تین لوگوں کی جان گئی سنگھی فوٹوگرافر کا لاش پر کودنا اس سرکاری آتنک واد کی بھی جم کر مذمت کی۔ ساتھ ہی ان پولیس والوں پر 302 مرڈر کا کیس درج کرنے کا مطالبہ کیا ۔ تمام تنظیموں ،تحریکوں اور پارٹیوں کے ذمہ داران نے تفصیلی بیان بھی کیا - اور ملک میں پھیلائی جارہی نفرت ، گودی میڈیا کا آتنک ، سرکاری دہشتگردی ، مندر اور مسجد کے نام پر گھٹیا سیاست اور ۔یوپی الیکشن کے گھٹیا منصوبوں کے تذکرے کے ساتھ ملت اور مسلمان نوجوانوں کو ہوش کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی نصیحت کی ۔اور حکومت کو بھی خبردار کیا کہ نفرتوں کی سیاست بند کرو ، منافرت ، فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے جیسا گھٹیا کام حکومت بند کرے۔حکومت اپنی کمیوں اور کوتاہیوں سےعوام کی نظریں ہٹانے کی خاطر انہیں غیر ضروری معاملات میں الجھا رہی ہے ۔یہ حکومت کا انتہائی گھٹیا عمل ہے ۔ایک حکومت اپنی اقلیت اور اس کے علماء کو اپنے نشانے پر رکھ کر انہیں یر قسم کی ایذاء و تکالیف پہنچارہی ہے ۔غم وغصہ کے باوجود عوام نے انتہائی سنجیدہ اور پر امن مظاہرہ کا پیغام دیا۔اور حکومت کے سامنے اپنی بات دو ٹوک انداز میں رکھی۔ احتجاج بارش اور طوفان کے باوجود صبح 11 سے لیکر دوپہر 3 بجے تک کامیابی کے پرجوش نعروں کے ساتھ چلتا رہا۔ تین بجے ایک وفد جس کے صدر مولانا مفتی محمد ہارون ندوی ، اور کوآرڈی نیٹر مفتی عتیق الرحمان ، مفتی خالد ، مزمل ندوی، محترم فاروق شیخ اور اقبال منیار نے ضلع ادھیکاری ، کلکٹر ابھیجیت راوت کو ہزاروں دستخط کے ساتھ مطالبات کا میمورنڈم دیا ۔کلکٹر صاحب نے یقین دلایا کہ آپ کے جذبات اور مطالبات کو سرکار تک پہنچایا جائے گا۔ اس احتجاجی شاندار ، کامیاب آندولن میں علمائے کرام نے اکیلے ایک تنہا پر ہونے والے ظلم کا متحد ہوکر مقابلہ کرنے کی نصیحت اور اہلیان جلگاوں نے بھی اعلان کیا کہ ہم اپنے علماء کے شانہ بشانہ ، قدم بقدم ساتھ رہیں گے، محترم فاروق شیخ صاحب، محترم عبدالکریم سالار صاحب ، محترم اعجاز ملک صاحب، ایاز علی، ڈاکٹر جاوید ، محترم سہیل سر ڈاکٹر راغیب ، فیروز ملتانی ، فہیم پٹیل ، زکی پٹیل ، سبیان ، اشفاق ، تابش ، ڈاکٹر شاکر، زیان جاگیردار، قاری عقیل، مولانا عبدالرحمان ملی، قاری مشتاق ، مولانا اختر ندوی ، مولانا اعجاز ندوی، ظفر بھائی پینچ، حافظ قاسم ، وسیم محبوب، حافظ اسامہ، حافظ صفی ، عمرفاروق، غرض کہ شہر کے تمام درد مند دل ، متحرک اور غیور نوجوان بڑی کثیر تعداد میں اس پروگرام میں موجود رہے۔ محترم مفتی عتیق الرحمان صاحب خطاب آخر صدر مولانا مفتی محمد ہارون ندوی صاحب کے پر مغز، بیباک خطاب کے ساتھ مفتی خالد صاحب کی دعا پر احتجاج دوپہر تین بجے ختم ہوا۔

Monday 27 September 2021

جامعہ نگر:مسلمانوں نے مندرکوبلڈرمافیا سے بچالیا

 نئی دہلی: جامعہ نگر کے مسلم باشندوں کے ایک متعلقہ گروہ کی جانب سے ایک تیز قانونی اقدام نے دہلی ہائی کورٹ کے ذریعہ علاقے میں ایک پرانے مندر کے احاطے کو پہنچنے والے نقصان کو روکنا یقینی بنایا ہے۔ مندر کے ساتھ والی دھرم شالا کا ایک حصہ حال ہی میں شرپسندوں نے مسمار کر دیا تھا۔

عدالت نے گزشتہ ہفتے اس وقت قدم اٹھایا جب جامعہ نگر 206 وارڈ کمیٹی نے اس سے رجوع کیا اور علاقے کے واحد مندر کی تجاوزات اور انہدام کو اجاگر کیا ، جس میں جوہری فارم میں واقع دھرم شالہ بھی شامل ہے۔

پریشان درخواست گزار ، جو کہ نور نگر ایکسٹینشن کالونی میں رہتے ہیں نے عدالت کو بتایا کہ دھرم شالہ کا ایک حصہ راتوں رات مسمار کر دیا گیا تھا اور پوری زمین کو برابر کر دیا گیا تھا تاکہ شرپسندوں/بلڈروں کی طرف سے اس پر قبضہ کیا جا سکے۔

اس علاقے کے لے آؤٹ پلان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں مندر کے احاطے کو واضح طور پر نشان زد کیا گیا تھا ۔فوز العظیم کی سربراہی میں کمیٹی نے الزام لگایا کہ اس کے ایک حصے کو ایک عمارت کھڑی کرنے اور فلیٹ بیچنے کے لیے مسمار کیا گیا تھا۔ نہ صرف بلڈر کا یہ عمل غیر قانونی تھا ، بلکہ اس کا مقصد علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر کے پیسہ کمانا تھا ، درخواست میں متنبہ کیا گیا ، عدالت پر زور دیا گیا کہ وہ میونسپل کارپوریشن اور دہلی پولیس کو اس کی حفاظت کے لیے ہدایت دے۔

نور نگر ایک بہت بڑا علاقہ ہے جس میں گھنی مسلم آبادی ہے اور غیر مسلموں کے چند گھر (40-50 خاندان)۔ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ دونوں کمیونٹیز برسوں سے یہاں محبت ، پیار اور بھائی چارے کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ تاہم ، بلڈر/شرپسند دونوں برادریوں کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مقامی لوگوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے پولیس اور جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے عہدیداروں کو تجاوزات اور غیر قانونی مسمار کرنے کے حوالے سے بار بار کالیں کی تھیں ، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، جس سے انہیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔

جب بنچ نے دھرم شالا کے منہدم ہونے کے بارے میں پوچھا تو کارپوریشن نے واضح کیا کہ اس نے کوئی مسمار نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ جب جائیداد کا معائنہ کیا گیا تو کوئی تعمیراتی سرگرمی نہیں ملی۔ تاہم ، چونکہ یہ مسئلہ امن و امان اور علاقے کے تحفظ سے متعلق تھا ، اس لیے اس نے پولیس کو خبر کی گئی ہے ۔

پولیس نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مندر کے احاطے میں کوئی تعمیر نہ ہو اور اسے محفوظ رکھا جائے گا۔ پولیس اور کارپوریشن دونوں کو ان کی یقین دہانی کا پابند کرتے ہوئے ، عدالت نے انہیں حکم دیا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ علاقے میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور "لے آؤٹ پلان میں مندر کے طور پر دکھایا گیا علاقہ ایک مندر کے طور پر محفوظ اور برقرار ہے۔

بیف کا شبہ مسلمانوں کی دوکانوں کوبند کرادیاگیا

 بھوپال : مدھیہ پردیش کے ضلع کھرگون میں بیف کے شبہ پر ہندو تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے مسلمانوں کے کاروبار اور دکانوں کو بند کرادیا۔ شرپسندوں کی جانب سے بعض دکانوں میں توڑپھوڑ بھی کی گئی اور اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے گئے۔ اس واقعہ کا ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے جس میں ہجوم پر قابو پانے کیلئے پولیس کو لاٹھی چارج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ بیف کے شبہ میں تین افراد کو گرفتار کیا گیا اور انہیں عدالتی تحویل میں دیدیا گیا۔ اس واقعہ میں ایک آٹو رکشہ کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔

Sunday 26 September 2021

انسانیت کے لباس میں خونی درندے

 نازش ہما قاسمی

کہا جاتا ہے کہ انسانوں کے سینے میں دل ہوتا ہے، جو کسی کی تکلیف اور مصیبت کو دیکھ کر کڑھتا ہے، اس میں ایسے جذبات ہوتے ہیں جو اس کو جانوروں اور وحشی درندوں سے الگ اور ممتاز بناتا ہے۔ لیکن اگر دنیا میں ظلم و جور اور جبر و تشدد کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان صفات رذیلہ کے حامل افراد کے سینے میں دل نہیں بلکہ پتھر ہوتا ہے جو ہر قسم کے جذبات سے عاری ہوا کرتے ہیں۔ اگر ان کے سینوں میں دھڑکنے والا دل موجود ہوتا تو پھر کیسے کسی معصوم کو موت کی نیند سلاکر خود خواب خرگوش کا مزہ لیتے۔ کسی بوڑھے پر گولیوں کی بوچھار کرکے آرام دہ بستروں پر آرام کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افراد کے سینوں میں دل ہے لیکن وہ انسانیت کے جذبات اور محبت و مروت کی مٹھاس سے عاری ہیں۔ ان کے سینوں میں نفرت و عداوت، بغض و عناد اور کینہ و تکبر اس حد تک سما چکا ہے کہ وہ اچھے اور برے کی تمیز بھول جاتے ہیں۔ وہ انسانیت کے بجائے وحشیانہ طرز زندگی اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اجتماعی عصمت دری کے واقعات ہوں یا پھر ماب لنچنگ کی خون ریز داستانیں یا پھر معصوموں پر گولیوں کی بوچھار کرنے والے حادثات ان تمام میں یہ بات مشترک ہیں کہ ان کے انجام دینے والوں کی ذہنی تربیت پیار و محبت کے ماحول میں نہیں بلکہ نفرت و عداوت کے ماحول میں ہوئی ہے۔ ابتدا سے ہی انہیں نفرت کرنا اور تشدد پھیلانا سکھایا جاتا ہے۔ یہ جس گروہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان تمام کی منزل نفرت اور وحشیانہ پن ہے۔ اب تو حد ہوگئی کہ ہر کوئی دوسرے پر فوقیت لینے کی دوڑ میں ہے۔ اجتماعی عصمت دری کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنونی اور ہوس پرست بھیڑئے معصوموں کی عزت سے کھیلنے تک اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ تو ان کے کلی نما جسم کو اس طرح مسلتے ہیں جیسے کانٹوں میں گلاب کو مسل دیا جائے، جس کا ہر ہر جز سرخ اور زخمی ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان حادثات کی شکار معصوم بچیاں بہت جلد زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ ان خونی درندوں میں یہ وحشیانہ پن اسی نفرت کا نتیجہ ہے جو انہیں سکھائی جاتی ہے اور جس کی انہیں تعلیم دی جاتی ہے۔ انسان کی نشو و نما اگر نفرت بھرے ماحول میں ہو اور اس میں انسانیت کی مٹھاس کے بجائے نفرت کا زہر گھولا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ظاہری دنیا میں اس نے کیا کمالات حاصل کئے ہیں یا کس پیشہ اور شعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔

آسام اس کی زندہ مثال ہے جہاں بے گھر معصوموں پر گولیوں کی بوچھار کردی گئی جس کے نتیجہ میں موت تک کے واقعات پیش آئے ہیں۔ پولس کی ذمہ داری عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشہ سے جڑے بعض افراد انسانیت کی تعلیم سے مکمل طور پر بے بہرہ اور نابلد ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات وردی میں ملبوس انسان وہ کالے کارنامے کرجاتے ہیں جو دوسروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات ہے کہ صحافت جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ صحافی جسے معاشرہ میں سچائی اور انصاف پر مبنی واقعات و حادثات کو بیان کرنا ہوتا ہے، اگر وہ انسان کے مردہ جسم پر ناچنے لگے اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو تو آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے یہ آرہے ہیں۔ درحقیقت یہ وہی لوگ ہیں جن کی نشو و نما نفرت کے ماحول میں ہوئی ہے۔ جن کی بنیادی تعلیم اور انتہائی تعلیم ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں انسانیت نہیں بلکہ نفرت سکھائی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی لاش پر چڑھ کر ناچے، یہ تو ان آدم خور لوگوں کی بستی کے رہائشی اور مکین نہیں ہے جہاں ایک انسان دوسرے انسان کو کھاجاتا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ نام نہاد مہذب سماج کا حصہ ہیں اور ان کی رہائش تہذیب و ثقافت کی عکاس بھی ہوسکتی ہے لیکن ان کے دل نفرت میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ ان سے انسانیت والے کام سرزد نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ خونی بھیڑئے ہیں جو ہمیشہ اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کبھی کبھار ان کے کالے کرتوت عوام الناس کے حلقوں میں پہنچ جاتے ہیں جبکہ بیشتر اوقات ان کے جرائم پردہ خفا میں رہ جاتے ہیں کیونکہ چہار جانب نفرت کے سوداگر اور انسان نما درندے بیٹھے ہیں جو ایک دوسرے کے معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دجالی میڈیا کے معاون ہیں یہ جرنلزم کی آڑ میں ٹیررازم پھیلاتے ہیں صاف و شفاف اور منصف و غیر جانبدار میڈیا جمہوریت کا ستون ہے لیکن یہ لوگ جمہوریت کو کھوکھلا کرنے والے افراد ہیں جمہوریت کا ستون بننے کے بجائے اپنے اعمال و افعال سے اس ستون کو منہدم کرچکے ہیں اور یہ فرقہ پرست گودی میڈیا کی پیداوار نفرت کے سوداگر اپنے مذہبی تعلیمات سے بھی دور ہیں اور دجالی میڈیا کے آلہ کار بن کر اپنی ہندوازم کی عظیم تعلیمات و سنسکرتی جس میں انہیں زور دے کر کہاگیا ہے کہ انسانیت پر دیا کرو دیالو بنو ہنسا کا راستہ نہ چنو اہنسا کے پجاری بنو، ان سبھی کو پس پشت ڈال کر اپنے مذہب کا بھی مذاق اڑارہے ہیں اور ہنسا و تشدد کا راستہ اپنا کر مجبور و بے کس مسلمانوں کی لاشوں پر کود کر جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہوئے جمہوریت کے جنازے پر کود رہے ہیں۔