https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 3 October 2021

علم کلام کی اہمیت

 دینی علوم وفنون میں ایک اہم اور بنیادی علم ’’علم الکلام‘‘ہے، جس کو ’’علم التوحید‘‘، ’’علم الأسماء والصفات‘‘، ’’علم أصول الدین‘‘، اور ’’علم العقائد‘‘ وغیرہ ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، دیگرتمام اہم علوم وفنون کی طرح اس علم کی بھی ایک ارتقائی تاریخ ہے، جو علمِ کلام کی مفصل کتابوں میں اور علمِ کلام کے ساتھ شغف رکھنے والے حضرات اہلِ علم کی تحریرات وتالیفات میں تفصیل کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ اس علم کا بنیادی مقصود یہ تھا کہ قرآن وسنت میں جن عقائد کا ذکر کیاگیا ہے، ان کی حقانیت پر پوری طرح ایمان لایاجائے، معاصرانہ اسلوب کے مطابق اس کو درجۂ تحقیق وثبوت تک پہنچایاجائے اور ان اعتقادی نصوص پر وارد ہونے والے اشکالات وشبہات کاتسلی بخش جواب دے کر عام مسلمانوں کے دین وایمان کی اچھی طرح حفاظت کی جائے۔ امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  سوال و جواب کے انداز میں اس علم کی اہمیت اوراس کی اساس وبنیاد سمجھاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’فإن قلت: فلم صار من فروض الکفایات وقد ذکرت أن أکثر الفرق یضرہم ذٰلک ولا ینفعہم؟ فاعلم أنہ قد سبق أن إزالۃ الشکوک في أصول العقائد واجبۃ، واعتوار الشک غیر مستحیل وإن کان لا یقع إلا في الأقل، ثم الدعوۃ إلی الحق بالبرہان مہمۃ فی الدین، ثم لا یبعد أن یثور مبتدع ویتصدی لإغواء أہل الحق بإفاضۃ الشبہۃ فیہم، فلا بد ممن یقاوم شبہتہٗ بالکشف ویعارض إغواء ہ بالتقبیح، ولا یمکن ذٰلک إلا بہٰذا العلم۔ ولا تنفک البلاد عن أمثال ہٰذہ الوقائع، فوجب أن یکون في کل قطر من الأقطار وصقع من الأصقاع قائم بالحق مشتغل بہٰذا العلم یقاوم دعاۃ المبتدعۃ ویستمیل المائلین عن الحق ویصفي قلوب أہل السنۃ عن عوارض الشبہۃ، فلو خلا عنہ القطر خرج بہٖ أہل القطر کافۃ، کما لو خلا عن الطبیب والفقیہ۔ ‘‘ (۱)
ترجمہ:’’علم کلام کاسیکھناکیوں فرض کفایہ ہے؟ حالانکہ اکثرلوگوں کواس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ؟ دلیل کی بنیاد پرحق کی طرف دعوت دینا بھی ایک اہم دینی ذمہ داری ہے اورممکن ہے کہ کوئی بدعتی اُٹھ کھڑاہوکراہلِ حق کے دلوں میں شبہات ڈالے اورانہیں گمراہ کرنے کی ٹھان لے، لہٰذا ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے جو اس کاشبہ دورکرکے دلائل کے ساتھ اس کی گمراہی واضح کریں اوریہ علم کلام کے بغیر ممکن نہیں۔ اکثرشہروں میں اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں، لہٰذاہرجگہ ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے، جو حق پر قائم رہ کراس علم کوسیکھیں اورحق سے اعراض کرنے والے اوراہلِ بدعت کامقابلہ کرکے اُنہیں حق کی طرف راغب کریں، اہلِ سنت کے دلوں کو شبہات سے محفوظ رکھ سکیں، ورنہ اگرکوئی جگہ اس قسم کے لوگوں سے خالی ہوجائے تواہلِ باطل کاوہاں غلبہ ہوگا، جیساکہ کوئی علاقہ فقیہ اورڈاکٹرسے خالی ہوجائے ۔‘‘
شیخ عبد للطیف خربوتی  رحمۃ اللہ علیہ  علمِ کلام کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہي الترقي من حضیض التقلید إلی ذروۃ الیقین وإرشاد المسترشدین وإلزام المعاندین وحفظ عقائد المسلمین عن شبہ المبطلین۔ ‘‘ (۲)
ترجمہ:’’علمِ کلام کامقصد تقلید کی پستیوں سے یقین کی بلندیوں کی طرف بڑھنا، حق طلب کرنے والوں کی رہنمائی کرنا،مخالفین کولاجواب کرنااورمسلمانوں کے عقائد کو گمراہ لوگوں کے شبہات سے بچاناہے ۔‘‘
علامہ مرعشی مرحوم علم کلام کاتعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وأما علم الکلام: ویسمی أیضا علم أصول الدین، فہو علم یقتدر بہ علی إثبات العقائد الدینیۃ بإیراد الحجج علیہا ورفع الشبہ عنہا۔ ‘‘ (۳)
ترجمہ: ’’علم کلام جسے علم اصول الدین بھی کہاجاتاہے، ایسا علم ہے جس کے ذریعے دینی عقائد کو دلائل سے ثابت کرنے اورعقائد سے متعلق شبہات کوزائل کرنے کاملکہ پیدا ہوتا ہے ۔‘‘
سلف ِصالحین کے ابتدائی دور میں نقل ہی کا رواج تھا تو حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ اس وقت عقائد ِاسلامیہ کو قرآن وسنت کی نصوص کے ذریعہ ہی ثابت کرنے پر قناعت فرماتے رہے۔ مثال کے طور پر جب عقیدۂ’’تقدیر‘‘کے متعلق بعض لوگوں نے اسلامی عقیدے کے خلاف موقف اپناکر اس کی تبلیغ شروع کی اوراس کی اطلاع صحابی جلیل حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  کو پہنچی تو انہوں نے انکار کرنے والے سے براء ت وناراضگی کااظہار فرمایا اور پھر احادیثِ مبارکہ سے استدلال کرکے اس اعتقاد کی حقانیت وضرورت کو ثابت فرمایا۔ اسی طرح حضرت جابرؓ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے بھی مختلف اعتقادی مسائل میں یہی طرز اپنایا۔
 اس کے کچھ عرصہ بعد یونانی فلسفہ کی آمد اور عجمی دماغ لوگوں کے بکثرت مسلمان ہونے کی وجہ سے عقلیات کادور دورہ شروع ہوا اوردینی عقائد کو عقل کے ناتمام ترازو سے تولاجانے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک یلغار سی شروع ہوئی اور کسی بھی خیال واعتقاد کی صداقت وحقانیت کا یہی معیار ٹھہرا تو اس وقت کے علماء راسخین نے اسی پہلو سے عقائدِ اسلامیہ کے دفاع کی کوشش فرمائی، جن میں وہ بڑی حد تک کامیاب وکامران ثابت ہوئے ۔تاریخ کے اوراق میں انہی حضرات کو متکلمین کے نام وخطاب سے جانا جاتا ہے۔ اس گلستانِ حکمت ودانائی میں امام غزالی، امام صابونی، امام رازی، علامہ آمدی، علامہ نسفی، علامہ عضد الدین ایجی، تفتازانی، علامہ میرسید شریف جرجانی، علامہ سبکی، اور علامہ سنوسی ولَقانی وغیرہ  رحمۃ اللہ علیہم  روشن قندیلیں ہیں، جن کی خوشبوؤں سے ہمیشہ عالمِ اسلام کوترووتازگی نصیب ہوتی رہی۔
ان حضرات کا غایت مقصود یہ تھا کہ قرآن وسنت کی نصوص میں جن اعتقادات کا ذکر کیاگیا ہے، ان کی حقانیت وصداقت ثابت کی جائے اور معاصرانہ مزاج کے اشکالات وشبہات سے اس کا کماحقہٗ دفاع کیا جائے، اس مقصود کی تکمیل کے لیے اس زمانہ کے رسم وطبیعت کے مطابق عقلیات میں مہارت بھی ضروری تھی اور افہام وتفہیم، بحث ومکالمہ میں اس عقلی طرزِ استدلال کا بروئے کار لانا بھی لازم تھا، ان دونوں باتوں کے بغیر کسی بات کی طرف اعتماد کی آنکھیں نہیں اُٹھتی تھیں، اس لیے ان حضرات نے اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے عقلیات میں بھی مہارت پیدا کرنے کی پوری کوشش فرمائی اور ساتھ اپنی تصنیفات وتالیفات کو بھی اسی قالب میں ڈھالا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مساعی حصنِ حصین(مضبوط قلعہ) ثابت ہوئیں اور اعتقادی میدان میں ہونے والے تمام حملوں سے عقائدِ اسلامیہ کی عمارت پوری طرح محفوظ وسالم رہی۔ اسباب کی دنیامیں ان حضرات کے خلوصِ دل، کمالِ عقل اور سرتوڑ محنت وکوشش ہی کا نتیجہ تھا کہ عقلیات کی اس طوفانی یورش میں بھی عقائد ِاسلامیہ پر کوئی حرف نہیں آیا، بعد میں صدیوں تک یلغار کی یہی صورت جاری رہی اور انہی حضرات متکلمین کی محنتیں سدّسکندری بن کر مانع رہیں۔

No comments:

Post a Comment