https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 11 October 2021

طلاق مکرہ, وقوع وعدم وقوع کے دلائل

 مجبوری (اِكراه) کی طلاق

الإکراه لغوی طور پر :یہ أکَرِهَ یَکرَه سے مصدر ہے۔ یعنی کسی کوایسے کام کے کرنے یا چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ اصلاً یہ کلمہ رضا اور پسند کی مخالفت پر دلالت کر تا ہے ۔ امام فرا کہتے ہیں:
یقال أقامني على کره ــ بالفتح ــ إذا أکرهك علیه إلىٰ أن قال: فیصیر الکره بالفتح فعل المضطر (اللسان:٥؍٣٨٦٥)
’’کہا جاتا ہے مجھے مجبور کیا گیا۔ یعنی جب یہ فتحہ کے ساتھ ہوتو اس سے مراد مجبور شخص کا فعل ہو گا۔‘‘
اکراہ کی اصطلاحی تعریف :
’’انسان کاایساکام کرنا یاکوئی ایسا کام چھوڑنا جس کے لیے وہ راضی نہ ہو۔ اگر اسے مجبور کیے بغیر آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ ایسا نہ کرے۔‘‘
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اکراہ سے مراد آدمی کا کوئی ایسا کام کرنا ہے جو وہ کسی دوسرے کے لیے انجام دیتا ہے۔(معجم لغة الفقهاء:ص٨٥)
مختلف اعتبار سے اِکراہ کی متعدد اقسام ہیں۔اِکراہ اقوال میں بھی ہو سکتا ہے اور افعال میں بھی۔جہاں تک افعال کا تعلق ہے تو اس کی بھی دو اقسام ہیں: مجبور اور غیر مجبور۔
اَقوال میں اکراہ
علماے کرام نے اقوال میں جبر کی صحت کو تسلیم کیا اور اس پر اتفاق کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جو شخص حرام قول پر مجبور کیا جائے، اُس پر جبر معتبر مانا جائے گا۔اسے وہ حرام بات کہ کر اپنے آپپ کو چھڑانا جائزہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ زبردستی کا تصور تمام اقوال میں پایا جاتا ہے ،لہٰذا جب کوئی شخص کسی بات کے کہنے پر مجبور کر دیا جائے تو اس پر کوئی حکم مرتب نہیں ہو گا اور وہ لغو جائے گا۔
تاہم اس ضمن میں اگر ادلہ شرعیہ کا جائزہ لیا جائے تو عدم تفریق کا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ فرمانِ عالی شان ہے:
’’اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ‘‘(النحل:١٠٦)
’’مگر یہ کہ وہ مجبور کیاگیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔‘‘
امام شافعی اس کے متعلق فرماتے ہیں: 
إن اﷲ سبحانه وتعالىٰ لما وضع الکفر عمن تلفظ به حال الکراه أسقط عنه أحکام الکفر، کذٰلك سقط عن المکره ما دون الکفر لإن الأعظم إذا سقط سقط ما هو دونه من باب أولىٰ (الام:٣،٢٧٠)
’’ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حالتِ اکراہ میں کلمۂ کفر کہنے میں رخصت عنایت کی ہے اور اس سےکفریہ احکام ساقط کیے ہیں، بالکل اسی طرح کفر کے علاوہ دیگر چیزیں بھی مجبور سے ساقط ہوجائیں گی، کیونکہ جب بڑا گناہ ساقط ہوگیا تو چھوٹے گناہ تو بالاولیٰ ساقط ہوجائیں گے۔‘‘ 
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إن اﷲ وضع عن أمتي الخطأ والنسیان وما استُکرهوا علیه» (سنن ابن ماجہ:٢٠٤٥)
’’اللہ تعالیٰ نے میری اُمت سے خطا و نسیان اورمجبوری سے کیے جانے والے کام معاف کر دئیے ہیں۔‘‘
ابن قیم الجوزیہ کہتے ہیں:’’ مکرہ کی کسی کلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، قرآنِ کریم بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کیاجائے، وہ کافر نہیں ہو گا اور اسی طرح جو اسلام کے لیے مجبور کیاجائے، اسے مسلمان بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ سنت میں بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجبور شخص سے تجاوز کیا ہے اور اس کو مؤاخذے سے بری قرار دیا ہے……اس کے بعد امام ابن قیم اقوال اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اَقوال میں اکراہ اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق یہ ہے کہ افعال کے وقوع پذیر ہو جانے کے بعد اس کے مفاسد کا خاتمہ ناممکن ہے۔ جبکہ اقوال کے مفاسد کو سوئے ہوئے اور مجنون پر قیاس کرتے ہوئے دور کیا جا سکتا ہے۔‘‘(زاد المعاد:٥؍٢٠٥،٢٠٦)
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اکراہ (جبر) کی ایک تقسیم درست اور غیر درست کے اعتبار سے بھی کی گئی ہے۔غیر درست اکراہ تو وہ ہے کہ جس میں ظلم و زیادتی سے کوئی بات منوائی گئی ہو۔ جبکہ درست اِکراہ یہ ہے کہ جس میں حاکم کسی شخص کو اپنا مال بیچنے پر مجبور کرے تاکہ وہ اس سے اپنا قرض ادا کرے۔(جامع العلوم والحکم: ص٣٧٧)
یا وہ ایلاء کرنے والے کو طلاق دینے پر مجبور کرے جب کہ وہ رجوع کرنے سے انکا رکرے۔ 
اکراہ کی شرائط
اہل علم نے اکراہ کی درج ذیل شرائط کا تذکرہ کیا ہے:
١۔اکراہ اس شخص کی طرف سے ہو گا جو صاحب قدرت ہو جیسے حکمران۔
٢۔مجبور کو ظن غال ہو کہ اکر میں نے اس کی بات نہ مانی تو یہ وعید اور اپنی دھمکی کو نافذ کر دے گا اور مجبور اس سے بچنے یا بھاگنے سے عاجز ہو۔
٣۔اکراہ ایسی چیز سے ہو جس سے مجبور کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہو۔(شرح الکبیر:٢؍٣٦٧)
ان شروط پر مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نے اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگوں نے چند دیگر شرائط کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ظاہر بات یہ ہے کہ اکراہ کی تحدید حاکم اور مفتی کے ساتھ خاص کی جائے گی اور انہی کے ثابت کردہ اکراہ کا اعتبار کیا جائے گا۔کیونکہ یہ لوگوں کے احوال کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔(الکفایة:٨؍١٦٨)
اکراہ کی صورت میں وقوع ِ طلاق
اس تحریر میں مجبوری کی طلاق کو موضوعِ بحث بنانے کا مقصد اس قضیے کا حل ہے کہ ایسی طلاق وقوع پذیرہوتی ہے یا نہیں؟
امام مالک، شافعی،احمد اور داؤد ظاہری ﷭ کے نزدیک ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہی قول عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابن عمر، ابن زبیر، ابن عباس اور دیگر کثیر جماعت کا ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین نے اس طلاق کے وقوع کا موقف اختیار کیاہے اور یہی موقف شعبی، نخعی اور ثوری ﷭ کا بھی ہے۔(الکفایة والعنایة:٣؍٣٤٤)
سبب ِاختلاف یہ ہے کہ مجبور کیا جانے والا مختار ہے یا نہیں؟ کیونکہ طلاق کے الفاظ بولنے والے کا ارادہ تو طلاق دینے کا نہیں ہوتا اور وہ تو اپنے تئیں دو برائیوں میں سے کم تر برائی کو اختیار کر رہا ہوتا ہے اور وہ مجبور کرنے والے کی وعید سے بچنے کے لیے طلاق دینے کو اختیار کر لیتا ہے ۔
اَحناف کے دلائل
١۔نصب الرایة میں ہے کہ ایک آدمی سو رہا تھا کہ اس کی بیوی نے چھری پکڑ کر اس کے گلے پر رکھی اور دھمکی دی کہ تو مجھے طلاق دے، ورنہ میں تیرا کام تمام کردوں گی۔ اس شخص نے اسے اللہ کا واسطہ دیا لیکن وہ نہ مانی۔لہٰذا اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اور تمام ماجرا بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا:
«لاقیلولة في الطلاق» (نصب الرایة:٣؍٢٢٢) ’’طلاق میں کوئی فسخ نہیں ہے۔‘‘
٢۔ابوہریرہ سے روایت ہے: 
«ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النکاح والطلاق والرجعة» (سنن ترمذی: ١١٨٤)
’’تین چیزوں کی سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع۔‘‘
اَحناف اس حدیث سے اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ مذاق کرنے والے کا مقصد تو وقوعِ طلاق نہیں ہوتا بلکہ اس نے فقط لفظ کا ارادہ کیا ہوتا ہے۔ اس کی طلاق کا واقع ہونا واضح کرتا ہے کہ مجرد لفظ کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ اس طرح مجبور کو بھی مذاق کرنے والے پر قیاس کیا جائے گا، کیونکہ دونوں کا مقصود لفظ ہوتا ہے ،معنیٰ مراد نہیں ہوتا۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
٣۔حضرت عمر سے مروی ہے: 
أربع مبهمات مقفولات لیس فیهن رد: النکاح والطلاق، والعتاق والصدقة (ايضاً)
’’چار مبہم چیزیں بند کی ہوئی ان میں واپسی نہیں ہو سکتی:نکاح،طلاق، آزادی اور صدقہ‘‘
٤۔ایک حدیث حضرت حذیفہؓ اور ان کے والدِ گرامی سے متعلق ہے جب ان دونوں سے مشرکین نے نہ لڑنے کا حلف لیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: 
«نفى لهم بعهدهم ونستعین اﷲ علیهم» (صحیح مسلم:١٧٨٧)
’’ ہم ان سے معاہدہ پورا کریں گے اور اللہ سے ان کے خلاف مدد مانگیں گے۔‘‘
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قسم حالت اکراہ اور غیر اکراہ میں برابرہے۔لہٰذا مجرد لفظ کے ساتھ کسی حکم کی نفی کے لیے اکراہ کو معتبر نہیں مانا جائے گا۔ جیسا کہ طلاق۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
٥۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں طلاق ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس پر غیر مجبور کی طلاق کے احکام مرتب ہوں گے۔(الهدایة: ٣؍٣٤٤)
دلائل کا جائزہ
١۔سب سے پہلے نقل کی جانے والی حدیث: لا قیلولة في الطلاق ضعیف ہے۔ امام ابن حزم اس کے متعلق فرماتے ہیں : ’’هٰذا خبر في غایة السقوط‘‘(المحلیٰ:١٠؍٣٠٤) لہٰذا اس سے استدلال بھی ساقط ہوا۔
٢۔اور جو«ثلاث جدهن جد…» سے استدلال کرتے ہوئے مکرہ کو مذاق کرنے والے پر قیاس کیاگیا ہے تو یہ قیاس درست نہیں ہے۔(تہذیب السنن لابن القیم:٦؍١٨٨)
کیونکہ مجبور شخص نہ تو لفظ کا ارادہ کرتا ہے اور نہ اس کے سبب کا وہ تو لفظ کے بولنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ،اگرچہ قصد پر مجبور نہیں ہوتا جب کہ مذاق کرنے والا تو لفظ طلاق اپنے اختیار سے بولتا ہے اگرچہ اس کے سبب کا قصد نہیں کرتا۔لہذا جو شخص اپنے اختیار سے سبب کو اختیار کرے اس پر تو مسبب لازم ہو جائے گا،جیسے مذاق کرنے والا ہے ،لیکن مجبور نہ تو لفظ کا ا رادہ کرتا ہے نہ اس کے سبب کا تو اسے مذاق کرنے والے پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟
٣۔ذکر کردہ حضرت عمرؓ کا قول ہمیں نہیں ملا۔ اگر ہم اس کی صحت کا اعتبار کر بھی لیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب طلاق واقع ہوجائے گی تو پھر دوبارہ لوٹناممکن نہیں رہے گا جبکہ مکرہ کی طلاق تو واقع ہی نہیں ہوئی۔ وہ تو مجبوری کی بنا پر صرف اور صرف لفظ بول رہا ہے۔تاکہ وہ مجبور کرنے والے سے بچ سکےجب کہ حضرت عمرکے متعلق صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اُنہوں نے مکرہ کی طلاق کو لغو قرار دیا۔(زاد المعاد:٥؍٢٠٦ تا ٢٠٩)
٤۔اور جو حضرت حذیفہ اور ان کے والد کا واقعہ سامنے رکھتے ہوئے طلاق کو قسم پر قیاس کیا گیا ہے اور ان دونوں کومجرد لفظ کے ساتھ متعلق کیا گیاہے۔
تو اس کا جواب بھی یہ ہے کہ یہ قیاس درست نہیں ہے، کیونکہ طلاق میں صرف لفظ کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے متکلم کا ارادہ اور اس کے مدلولات کا علم ضروری ہے، کیونکہ شارع نے سوئے ہوئے، بھولنے والے اور پاگل کی طلاق کو واقع نہیں کیا ۔(ایضاً:٥؍٢٠٤،٢٠٥) 
اس سے یقیناً ان دونوں کے مابین فرق نظر آتا ہے لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔
٥۔اس سے استدلال کہ یہ طلاق مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس کی طلاق کی تنفیذ اسی طرح ہوگی جس طرح غیر مکرہ کی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہم اس سے ملتے جلتے دیگر دلائل کا جائزہ لے چکے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکرہ کو غیر مکرہ پر قیاس کرنا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے۔اس کی تردید دوسرے قول کے دلائل سے بھی ہو جائے گی جو ہم ذکر کرنے والے ہیں۔
مجبوری کی طلاق کے غیر معتبر ہونےپر جمہورکے دلائل
١۔حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کہتے ہوئے سنا:
«لا طلاق ولا عتاق في غلاق» (مسند احمد:٦؍٢٧٦)
’’زبردستی کی کوئی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘
اور اِکراہ زبردستی میں شامل ہے، کیونکہ مجبورومکرہ شخص تصرف کا حق کھو بیٹھتاہے۔
٢۔حضرت علی ؓسے موقوفاً روایت ہے:
’’کل طلاق جائز إلا طلاق المعتوه والمكره‘‘(سنن ترمذی : ١١٩١)
’’دیوانے اور مكره کے سوا ہرایک کی طلاق جائز ہے۔‘‘
٣۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عباس کا قول ہے:
’’طلاق السکران والمستکره لیس بجائز‘‘(صحیح بخاری، ترجمة الباب : باب الطلاق فی الغلاق)
’’مجبوری اور نشے کی حالت میں طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘
٤۔ثابت بن احنف نے عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب کی اُمّ ولد سے نکاح کرلیا۔ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے مجھے بلایا۔میں اُن کے ہاں آیا تو وہاں دو غلام کوڑے اور زنجیریں پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس نے مجھ سے کہا: تو نے میرے باپ کی اُمّ ولد سے میری رضا کے بغیر نکاح کیاہے۔ میں تجھے موت کے گھاٹ اُتار دوں گا۔ پھر کہنے لگا: تو طلاق دیتا ہے یا میں کچھ کروں؟ تومیں نے کہا: ہزار بار طلاق۔ میں اس کے ہاں سے نکل کرعبداللہ بن عمر ؓکے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: یہ طلاق نہیں ہے، اپنی بیوی کے پاس چلا جا۔ پھر میں عبداللہ بن زبیر کے پاس آیا تو اُنہوں نے بھی یہی فرمایا۔(مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، باب جامع الطلاق: ١٢٤٥)
٥۔چونکہ یہ قول زبردستی منوایا جاتا ہے، اس لیے یہ کوئی تاثیر نہیں رکھتا۔ جیسا کہ مجبوری کی حالت میں کلمۂ کفر کہنا۔(المغنی:١٠؍٣٥١، زادالمعاد:٥؍٢٠٤)
بیان کردہ عمومی دلائل سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
راجح موقف
بیان کردہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ مکرہ کی طلاق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جمہور کے موقف کو ترجیح دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں:
١۔جمہور کے دلائل کا قوی ہونا۔
٢۔احناف کے دلائل کا کمزور ہونا،کیونکہ ان پر اعتراضات وارد ہوئے ہیں۔
٣۔یہی موقف اُصولِ شریعہ اور قواعد کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ اس سے بہت سی خرابیوں کا رد ہو جاتا ہے ۔ شیخ احمد دہلوی کہتے ہیں:
’’اگر مکرہ کی طلاق کو طلاق شمار کیا جائے تو اس سے زبردستی کا دروازہ کھل جائے گا اور بعید نہیں ہے کہ کوئی طاقتور اسی دروازہ سے کمزور کی بیوی کو چھین لے۔ جب بھی اس کے دل کو کوئی خاتون بھلی لگے، وہ تلوار کے زور پر زبردستی طلاق دلوائے گا۔ لیکن جب اس قسم کی اُمیدوں کا سدباب کر دیا جائے گا تو لوگ ان مظالم سے بچے رہیں گے جو اکراہ کی وجہ سے پیش آسکتے ہیں۔‘‘(حجۃ البالغۃ:2؍138)
بہت سے محققین اسی موقف کے حامل نظر آتے ہیں، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ(مجموع الفتاویٰ:٣٣؍١١٠)، ابن قیم (زادالمعاد: ٥؍٣٠٤)، امام شوکانی(نیل الاوطار:٦؍٢٦٥) اور نواب صدیق بن حسن قنوجی(الروضة الندیة:٢؍٤٢) شامل ہیں۔

Sunday 10 October 2021

اٹیچ بیت الخلاء اور غسل خانہ میں وضو کی دعاء کیسے پڑھیں

 مشترکہ غسل خانہ اوربیت الخلاجس میں داخل ہونےکے لیے ایک ہی دروازہ ہوتاہے اور قضائے حاجت کی جگہ اور غسل کی جگہ کے درمیان کوئی دیوار یا آڑ نہیں ہوتی، اس قسم کے غسل خانوں میں وضو کے شروع اور درمیان کی  دعائیں زبان سے پڑھنا منع ہے؛ کیوں کہ درمیان میں آڑ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیت الخلامیں پڑھنا شمارہوگا، اوربیت الخلا میں اذکار پڑھنےسے شریعت نے منع کیا ہے، ایسی جگہ دل ہی دل میں زبان کو حرکت دیے بغیر پڑھنے کی اجازت ہے۔ البتہ اگر  غسل خانہ اور بیت الخلاء  دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہیں ، دونوں کے درمیان کوئی پردہ یا دیوار حائل ہے اور غسل خانے میں گندگی بھی نہیں ہے تو اس صورت میں وضو کی دعائیں زبان سے بھی پڑھ لینے کی گنجائش ہے۔

فتاوی شامی  (1/ 156)
'' ويستحب أن لا يتكلم بكلام مطلقاً، أما كلام الناس؛ فلكراهته حال الكشف، وأما الدعاء؛ فلأنه في مصب المستعمل ومحل الأقذار والأوحال'' 

گاندھی کے دیس میں گوڈسے کی جے:حسام صدیقی

 بھارت میں نریندر مودی سرکار اور اسے کنٹرول کرنے والے آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈے کا نتیجہ ہے کہ اس بار گاندھی جینتی کے موقع پر دو اکتوبر کو سوشل میڈیا پر گاندھی کے قاتل اور ملک کے پہلے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے کو بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بڑے پیمانے پر ٹرینڈ کرایا گیا اور مودی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ آج ملک کے حالات یہ ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی یا اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سمیت کسی بھی بی جے پی لیڈر کے خلاف کوئی بھی شخص سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ ڈال دے یا کچھ لکھ دے تو فوراً اس کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر درج کرلی جاتی ہے بلکہ گرفتاری بھی ہوجاتی ہےلیکن 'گوڈسے زندہ باد' ٹرینڈ کرنے اور پورے ملک میں گوڈسے کا مندر بنانے کا اعلان کرکے زبردستی سماج میں کشیدگی پیدا کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی، آخر کار سرکار ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ 'گوڈسے زندہ باد' ٹرینڈ کرانے، پورے ملک میں گوڈسے کا مندر بنانے اور ہندو مہاسبھا کے ذریعہ یہ اعلان کئے جانے کہ اسکول کی کتابوں میں گوڈسے کو بھی پڑھایا جائے گا سے پوری دنیا میں بھارت کی تھو تھو ہوئی ہے۔ آج ایڈوانس میڈیا کا زمانہ ہے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی کوئی بھی بات لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ دنیا کے لوگوں نے 'گوڈسے زندہ باد' ٹرینڈ ہوتے دیکھا تو انہیں حیرت ہوئی، کیونکہ کسی بھی ملک میں گاندھی جیسے لیڈر کی طرح کے لیڈران کے خلاف اس قسم کی حرکتیں کوئی نہیں کرسکتا۔ بھارت میں سرکار کی پشت پناہی میں یہ شرمناک حرکت ہوئی ہے اس کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہئے۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے ان کے خلاف سخت کاروائی بھی کی جانی چاہئے۔ لیکن پھر آخر وہی سوال کہ کاروائی آخر کرے گا کون؟ کیونکہ سرکار تو پردہ کے پیچھے سے ایسے لوگوں کی پشت پناہی کرتی نظر آتی ہے۔ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ سرکار گوڈسے حامیوں کے ساتھ ہے کیونکہ گوڈسے کو عظیم شخص بتانے والی نام نہاد سادھوی اور بم دھماکوں کی ملزمہ پرگیا سنگھ ٹھاکر کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے ۲۰۱۹ میں بھوپال سے جتوا کر لوک سبھا پہونچادیا۔ پرگیا سنگھ ٹھاکر نے الیکشن سے کافی پہلے کہا تھا کہ ناتھو رام گوڈسے کو وہ عظیم شخص مانتی ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی نے انہیں ٹکٹ دیا اور لوک سبھا پہونچایا۔ پورا ملک جانتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی مرضی کے بغیر پرگیا سنگھ ٹھاکر کو بی جے پی کا ٹکٹ نہیں مل سکتا تھا۔ ٹکٹ دینے سے پہلے خود نریندر مودی نے گوڈسے پر بیان کی وجہ سے کہا تھا کہ وہ ایسا بیان دینے والوں کو دل سے کبھی معاف نہیں کرسکتے۔اب مودی کو جواب دینا چاہیے کہ اگر انہوں نے پرگیا سنگھ ٹھاکر کو دل سے معاف نہیں کیا تو انہیں پارٹی کا ٹکٹ کیسے مل گیا؟ اس سال دو اکتوبر کو سوشل میڈیا پر گاندھی کے حق میں دو لاکھ دس ہزار تو گوڈسے کے حق میں ایک لاکھ ترپن ہزار ٹوئیٹ ٹرینڈ کرائے گئے۔ اس طرح فرقہ پرستوں نے اہنسا کے پجاری کا قد کم کرنے اور ان کے قاتل کو ہیرو بنانے کی شرمناک حرکت کی ہے۔ آر ایس ایس کنبہ چاہتا ہے کہ پہلے گاندھی کو قتل کیا گیا اور اب ان کے نظریات کو بھی قتل کردیا جائے۔ ہندو مہا سبھا کھلے عام اعلان کررہی ہے کہ ملک کے تمام شہروں میں گوڈسے کی مورتیاں لگائی جائیں گی اور اسکول کی کتابوں میں گوڈسے کو پڑھایا جائے۔ اس کے باوجود سرکار کی جانب سے ان بیانات کی نہ تو تردید کی گئی نہ مذمت۔ اگر ایک بیان ہی آجاتا تو بھی یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ سرکار میں بیٹھے لوگ گاندھی کا احترام کرتے ہیں۔ آر ایس ایس کنبہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ کچھ بھی کرلیں بھارت کی دنیا میں شناخت آج بھی گاندھی سے ہوتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی پچیس ستمبر کو امریکہ گئے تھے۔ انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تو جو بائیڈن نے ان سے بات چیت کرتے ہوئے گاندھی کا ہی ذکر کیا اور کہا کہ گاندھی کے نظریات ہی بھارت کو عظیم بناتے ہیں۔بائیڈن نے آر ایس ایس کے کسی لیڈر کا نام تک نہیں لیا۔ ملک میں ایک اکیلے ورون گاندھی بی جے پی کے ایسے ممبر پارلیمنٹ ہیں جنہوں نے گاندھی جینتی کے موقع پر ناتھو رام گوڈسے کو ٹرینڈ کرانے والوں کی سختی کے سا تھ مذمت کی لیکن ورون گاندھی اور ان کی والدہ مینکا گاندھی بھلے ہی لوک سبھا میں ہیں مودی سرکار میں ان لوگوں کو کوئی اہمیت نہیں مل رہی ہے۔ بہرحال گاندھی جینتی کے موقع پر ناتھو رام گوڈسے کو ٹرینڈ کرانا ایک ایسا شرمناک واقعہ ہے جس نے پوری دنیا میں بھارت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ ہم تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ 'گاندھی ہم شرمندہ ہیں.۔'

( مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،بلاگر کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

اپنے اہل و عیال پرخرچ کرنے کی فضیلت

 اپنے اہل وعیال یعنی: بیوی بچوں پر خرچ  کرناشریعت کی حدود کی پاس داری کے ساتھ ہو تو اس کی بہت فضیلت ہے اور احادیث میں اس خرچ کو  صدقہ بھی فرمایا  گیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

" أخبرنا أبو علي الحسين بن محمد الروذباري بطوس، نا أبو بكر محمد بن أحمد بن محمويه العسكري بالبصرة، نا جعفر بن محمد القلانسي، نا آدم بن أبي إياس، نا شعبة، أخبرني عدي بن ثابت قال: سمعت عبد الله بن يزيد الأنصاري يحدث عن أبي مسعود الأنصاري، فقلت: أعن النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " المسلم إذا أنفق نفقة على أهله وهو يحتسبها كتبت له صدقة " رواه البخاري في الصحيح عن آدم وأخرجه مسلم من وجهين آخرين عن شعبة."

( السنن الكبرى للبيهقي ، باب فضل النفقة على الأهل، ج: 7، صفحہ: 769، رقم  الحدیث: 15695 ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنات)

 وفیه أیضًا: 

"حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، قال: عدي بن ثابت، أخبرني قال: سمعت عبد الله بن يزيد، يحدث، عن أبي مسعود البدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «المسلم إذا أنفق نفقة على أهله و هو يحتسبها، فهي له صدقة»."

(مسند الدارمي المعروف بـ (سنن الدارمي)،باب  في النفقة على العيال، ج: 3، صفحہ 1743، رقم الحدیث: 2706، ط:  دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية)

لیکن اس طرح کی روایات جن میں کسی عمل پر دوسرے عمل کے ثواب کا ذکر ہوتاہے، اس سے مراد اس عمل کا ثواب ہوتاہے، یہ مطلب نہیں ہوتاکہ یہ عمل کرلینے سے دوسرا عمل ذمے سے ساقط ہوجاتاہے، مثال کے طور پر روایت ہے کہ میں والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھنے سے  حج و عمرہ کا ثواب ملتاہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی پر حج فرض ہو تو وہ والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھے تو اس کا حج فرض ادا ہوجائے گا ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ جس طرح کا ثواب حج سے ملتا ہے اس طرح کا بڑا ثواب والدین کو دیکھنے سے بھی ملے گا، اسی طرح گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے، سے مراد یہ ہے کہ گھر والوں پر حلال رقم خرچ کرنے سے صدقے کا ثواب ملتاہے، لہٰذا گھر والوں پر خرچ کرنے کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً حسبِ حیثیت نفلی صدقہ کرتے رہنا چاہیے۔

تحفۃ الاحوذی میں ہے :

"قال الحافظ: المراد بالصدقة الثواب، وإطلاقها عليه مجازي، وقرينته الاجماع على جواز الإنفاق على الزوجة الهاشمية مثلاً، وهو من مجاز التشبيه، والمراد به أصل الثواب لا في كميته وكيفيته".

(تحفۃ الاحوذی :۱۲/۹۶، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت)

Saturday 9 October 2021

ایک حدیث کی تشریح

 

لایؤمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعا لماجئت بہ. رواہ البیہقی فی شعب  الایمان. 

یعنی 

کوئی بھی انسان اس وقت تک کامل الایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ ان تمام باتوں کو پسند نہ کرنے لگے اور ان پر عمل پیرا نہ ہوجائے جنہیں رسول ﷺ لے کر آئے ہیں اور جن باتوں سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے ان سے نفرت نہ کرنے لگے اور ان سے اجتناب نہ کرنے لگے۔ وہ جب بھی کوئی عمل کرنے کا ارادہ کرے اسے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے سنت کی کسوٹی پر پرکھے۔ اگر وہ کتاب و سنت کے موافق ہو تو اسے کر لے اور اگر اس میں کوئی ایسی بات ہو جس سے منع کیا گیا ہو تو اس سے اجتناب اور کنارہ کشی کرے۔ جس شخص کی خواہشِ نفس محمد ﷺ کے لائے ہوئے احکام کے تابع ہو جاتی ہے اس کی حقیقت تو یہی ہوتی ہے :’’ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ‘‘۔. ترجمہ:’’ اور تمہیں جو کچھ رسول دیں لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے واﻻ ہے‘‘۔  

یہ حدیث اسناد کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن معنا  صحیح ہے .اس کی تائید متعدد قرآنی آیات سے بھی ہوتی ہے. 

اے ایم یو :راجہ مہندرپرتاب کے ذریعہ لیز پردی گئ زمین کی انکوائری

 اترپردیش حکومت نے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی طرف سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو 1929 میں لیز پر دی گئی زمین کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ علی گڑھ ڈویژن کے کمشنر کو اس کی انکوائری کرنے کو کہا گیا ہے۔ علی گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ سے بھی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔

علی گڑھ ڈویژن کے کمشنر گورو دیال نے کہا کہ اس سلسلے میں ایک خط ایڈیشنل چیف سکریٹری ایس پی گوئل سے موصول ہوا ہے۔تفتیش کا معاملہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی طرف سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو 90 سال کے لیے لیز پر دی گئی زمین سے متعلق ہے۔لیز کی مدت ختم ہوچکی ہے ، اس لیے علی گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ مرحوم راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ایک مشہور مجاہد آزادی، سماجی مصلح اور ماہر تعلیم تھے۔انہوں نے 1929 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اپنی زمین 90 سال کے لیے لیز پر دی۔ لیز کی مدت ختم ہوچکی ہے ، لیکن وزیراعلیٰ آفس میں درج شکایت کے مطابق مذکورہ اراضی قانونی ورثاء کو واپس نہیں کی گئی۔

علی گڑھ کی ایک سماجی تنظیم 'اہوتی' کے اشوک چودھری نے شکایت درج کرائی ہے۔ وزیراعلیٰ آفس نے علی گڑھ ڈویژن کے کمشنر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرےاور سٹی سکول علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلاتی ہے۔

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے قانونی وارثوں نے اے ایم یو کو تجویز دی تھی کہ وہ زمین جس پر تکونا پارک کھڑا ہے حوالے کر دیا جائے۔

اے ایم یو کے زیر انتظام سٹی اسکول کا نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر رکھا جانا چاہیے۔ اے ایم یو ایگزیکٹو کونسل کی طرف سے وائس چانسلر کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ اس سلسلے میں تجویز پرغور کیا جائے۔

اے ایم یو کے ترجمان پروفیسر شافع قدوائی سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ راجہ مہندر پرتاپ کے قانونی وارثوں کی تجویز پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی غور کر رہی ہے۔ تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل اس زمین کو واپس دینے کے لیے تیار ہے جس پر تکونا پارک واقع ہے۔

ایگزیکٹو کمیٹی نے مزید کہا کہ یہ قابل قبول ہے کہ بقیہ زمین پراے ایم یو کے زیر انتظام سٹی اسکول کا نام اے ایم یو کے سابق طالب علم راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر رکھا جائے گا۔ اس زمین کی لیز میں توسیع کی جائے گی۔

پچھلے مہینے وزیر اعظم نریندر مودی نے علی گڑھ کے قریب راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام سے منسوب ایک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

علی گڑھ ڈویژن کے 396 ڈگری کالج اس آنے والی یونیورسٹی سے وابستہ ہونے والے ہیں۔

مفتئ اعظم کشمیر نے کی معصوم شہریوں کے قتل کی مذمت

 سری نگر : کشمیر کے عظیم مفتی ناصر الاسلام نے کشمیر میں معصوم شہریوں کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ اقلیتی برادریوں کے ارکان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے لوگوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کو برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔

مفتی نے شہریوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی مذہب معصوم شہریوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ پچھلے ایک ہفتے میں مسلح دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

سری نگر میں گزشتہ چند دنوں میں ہلاک ہونے والے تمام افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مفتی نے کہا کہ کسی کو بھی کشمیر کے فرقہ وارانہ تانے بانے کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اظہار یکجہتی اور ہمدردی۔ کہا کہ اسلام کسی غیر مسلح شخص پر حملہ کرنے سے منع کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر کی مسلم برادری غم اور صدمے کی اس گھڑی میں سوگوار خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ :جمہوریت میں علی الاعلان ظلم وعدوان

 آج سے ٹھیک ایک ہفتے قبل انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے نیمچ ضلع میں ہندوؤں کے ایک ہجوم نے ایک درگاہ کے مجاور اور ایک خاتون سمیت بعض عقیدت مندوں پر رات میں حملہ کر دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انھیں رات بھر زد و کوب کیا گیا اور جانے سے پہلے درگاہ کے ایک حصے کو دھماکے سےاڑا دیا۔

اس واقعے سے ڈیڑھ مہینے پہلے اجین ضلع کے سیکلی گاؤں میں کئی نوجوان ہندوؤں نے ایک مسلم کباڑی والے عبدالرشید کو بری طرح پیٹا اور انھیں دھمکی دی کہ یہ ہندوؤں کا گاؤں ہے، وہ یہاں دوبارہ نہ دکھائی دے۔

اس واقعے کے بعد رشید بہت ڈر گئے ہیں اور انھوں نے گاؤں جانا بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے ان کا کام کافی متاثر ہوا ہے۔

عبدالرشید نے بی بی سی کو بتایا: 'میں بیس سال سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ ہم سبھی آس پاس کے گاؤں جاتے ہیں۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے روکا ہو۔ مجھے کئی نوجوانوں نے مارا۔ میرا سامان پھینک دیا۔ مجھ سے جے شری رام کا نعرہ لگوایا اور کہا کہ میں دوبارہ یہاں نہ آؤں۔'

اجین ضلع کے ایک بااثر شخص نے بی بی سی کو اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس علاقے میں مسلم کباڑیوں پر حملے کافی عرصے سے ہو رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی جانتا نہیں تھا۔

'عبدالرشید پر حملے کی ویڈیو خود حملہ آوروں نے بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی تھی جو وائرل ہو گئی جس سے اس واقعہ کا پتا چلا اور رپورٹ درج کرائی گئی۔ یہاں اب لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔'

اس کے علاوہ چھ روز قبل بنگلور میں انجینئرنگ کے ایک مسلمان طالبعلم کے جسم کے ٹکڑے کر کے ریلوے ٹریک پر پھینک دیا گیا تھا۔ اس مسلمام طالبعلم کے ایک ہندو لڑکی سے مبینہ روابط تھے۔

ایک مقامی سخت گیر ہندو تنظیم نے دونوں کے درمیان رشتے ختم کرنے کا ایک باقاعدہ معاہدہ کروایا۔ اس کے باوجود لڑکے کو قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے میں ہندو تنظیم کے کئی ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ان تین واقعات کے علاوہ حالیہ دنوں میں مدھیہ پردیش، اتر پردیش، اترا کھنڈ، ہری انھ، کرناٹک اور کئی دیگر ریاستوں میں چھوٹے چھوٹے مسلم کاروباری افراد پر اس طرح کے مذہبی نفرت پر مبنی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اب کئی مسلمان موجودہ ماحول میں نہ صرف غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں بلکہ ملک کا جمہوری نظام بھی رفتہ سخت گیر ہندو سوچ کے زیر اثر آتا جا رہا ہے۔

اس طرح کے نفرت انگیز تشدد کے واقعات کا سلسلہ 2017 میں راجستھان کے الور ضلع کی شاہراہ پر دن دہاڑے ایک مسلمان شخص کے قتل سے شروع ہوا تھا جنھیں گائے کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ہندوؤں کی ایک تنظیم کے ارکان نے سڑک پر مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

پہلو خان ہری انھ کے نواحی علاقے کے ڈیری فارمر تھے اور واقعے والے روز وہ وہاں کی ایک منڈی سے گائے خرید کر لا رہے تھے۔

پہلو خان کے قتل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی صحافی محمد زبیر خان نے بی بی سی کو بتایا: 'پہلو خان کے واقعے سے یہاں کے لوگوں کے ذہن میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے۔

'ہم الور سے آ رہے ہوں، ریواڑی سے آرہے ہوں، پلول سے آ رہے ہوں، گڑگاؤں یا فریدآباد سے آ رہے ہوں، بس ڈر یہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی پہلو خان جیسا واقعہ نہ پیش آ جائے۔ یہاں زندگی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔'

معروف تجزیہ کار عارفہ خانم کہتی ہیں 'چند حملے منظم طریقے سے منصوبہ بندی کے تحت اور چند انفرادی طور پر، دونوں شکلوں میں ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مہم چل رہی ہے۔ پڑوسی کو پڑوسی کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش ہو رہی ہے کہ ملک کا ڈی این اے تبدیل کر دیا جائے۔'

گذشتہ مہینے انتہائی دائیں بازو کی ہندو جماعت آر ایس ایس کی ایک اہم میٹنگ میں یہ اہم موضوع تھا کا اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

جب عارفہ سے یہ سوال کیا گیا کہ حالیہ دنوں میں ایسے واقعات نظر آئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر لوگوں کو 'بیدار' کیا جا رہا ہے کہ سبزی فروشوں میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے اور کیا یہ چھوٹے چھوٹے مسلمانوں کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش ہے؟

اس بارے میں عارفہ کہتی ہیں 'مسلمان پہلے ہی غربت اور اقلیت ہونے کے سبب معاشرے کے حاشیے پر ہیں۔ اب انھیں اقتصادی طور پر مزید الگ تھلگ کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے۔'

'موجودہ ماحول میں انڈیا کے مسلمانوں کی اکثریت غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اکثریتی برادری کا ایک طبقہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنا بڑا طبقہ مذہبی طور پر سخت گیر ہوا ہے لیکن اکثریتی برادری کے رویے میں شدت پسندی کسی بھی ملک میں بہت خطرناک ہوتی ہے۔'

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے اور اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حملہ آوروں کو یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی، جبکہ کئی ایسے واقعات ہیں جہاں حملے کا شکار ہونے والے کے خلاف ہی قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔

معروف مبصر رجنی بخشی اخبار انڈین ایکپریس میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں: 'مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے تشدد کو ہندوؤں کے لیے انصاف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے معاملے میں انتظامیہ اپنی آنکھیں بند رکھے گی۔'

ان واقعات نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھا دیا ہے۔ دلی کی ایک طالبہ فرحین سیفی کہتی ہیں: 'جب ہم ان واقعات کو سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں تو دل میں ایک ڈر پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں ایسا ہمارے ساتھ نہ ہو جائے۔'

جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم احمد انصاری کا خیال ہے کہ 'اس طرح کے عوامی تشدد کے واقعات کے خلاف سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام ان سے محفوظ رہ سکیں۔'

یہ بھی پڑھیے

دوسری جانب، اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نرگس خاتون کو بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش ضرور ہے لیکن وہ کہتی ہیں انھیں ابھی تک ایسے کسی ناگوار تجربے سے گزرنا نہیں پڑا۔

'مجھے سفر کر کے آنا ہوتا ہے۔ میں حجاب کا استعمال کرتی ہوں لیکن ابھی تک مجھے کوئی برا تجربہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی تفریق کا سامنا ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کی عزت ہے۔'

لیکن دلی کی سماجی کارکن ایمن رضوی کے تجربات مختلف ہیں۔ وہ عبایہ پہنتی ہیں اور حجاب بھی کرتی ہیں۔

'جب یہ لوگ کوئی داڑھی والا کوئی ٹوپی والا، کوئی برقعے والی لڑکی دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے مذہب پر طعنے کستے ہیں۔ ہمیں کٹھ ملا تو کبھی ملا کہہ کر بلاتے ہیں۔ مجھے تو ٹنٹ ہاؤس والی کہا جاتا ہے کیونکہ میں اسی طرح عبایہ اور حجاب میں رہتی ہوں۔'

ان واقعات پر حکومتی رد عمل کیا ہے؟

حکومت نے اس طرح کے واقعات پر کئی بار تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا جس کے سبب سخت گیر عناصر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔

البتہ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات حکومت کے لیے تکلیف اور تشویس کا باعث ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 'ایسے واقعات انسانیت کو شرمسار کرتے ہیں لیکن ان واقعات کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی وہ کم خطرناک نہیں ہے۔ ان واقعات کو مذہبی رنگ دینا نہ تو سماج کے مفاد میں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ انتخابات کے آتے ہی ووٹ کی سیاست کرنے والے باہر آ جاتے ہیں اور اسی طرح کا بھرم پیدا کرتے ہیں۔ مسلمان برادری 75 سالوں میں ووٹ کے سوداگروں کے دیے ہوئے 75 زخموں سے گھائل ہے لیکن اب ان کے حربوں کو سمجھ چکی ہے اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔'

عباس نقوی کا مزید کہنا ہے کہ ان پرتشدد واقعات کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی ہورہے ہیں۔

'لنچنگ کو اگر صحیح معنوں میں دیکھنا ہے تو ہمارے پڑوس میں دیکھ لیجیے۔ وہاں پر خواتین کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جا رہا ہے، کیا بے حرمتی ان کی کی جا رہی ہے۔ ہندوستان آئین سے چلتا ہے، لیکن جو ممالک شریعت سے چل رہے آپ جا کر دیکھ لیجیے وہاں کی حالت۔'مسٹرنقوی  کویہ معلوم ہوناچاہئے  کہ جن ممالک میں شریعت نافذہے وہاں لنچنگ نہیں. 

 کچھ دن پہلےبیرسٹر اسدالدین اویسی کی سرکاری رہائش گاہ پر دھار دار ہتھیاروں سے حملہ کرنے والوں کو دو ہفتہ بعد ہی ضمانت دے دینا اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر ملک مخالف قانون کے تحت جیلوں میں ڈالے رکھنا انصاف کے ساتھ مذاق ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا کے بعد اب عدلیہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔ اُن ججوں کا تبادلہ کردیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارکل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر کلیم الحفیظ نے پریس کو جاری ایک بیان میں کیا۔ صدر مجلس نے کہا کہ کسی ممبر پارلیمنٹ کے گھر پرجان لینے کے ارادے سے حملہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے لیکن پولس نے ان مجرموں کے خلاف معمولی دفعات میں مقدمہ قائم کرکے ان کی ضمانت کی راہیں پہلے ہی آسان کردی تھیں۔ اول تو پولس ان کے خلاف ایف آئی آر کرنے کے موقف میں ہی نہیں تھی، مجلس کارکنان کے دباؤ میں آکر ایف آئی آر ہوئی تھی،اس کے باوجود پولس نے ان کے خلاف بہت معمولی دفعات لگائیں۔ اس کے برعکس مسلم نوجوانوں کے خلاف پولس کا رویہ بالکل دوسرا ہوتا ہے،دہلی فسادات میں اپنا دفاع کرنے والے اور تماشا دیکھنے والے نوجوانوں تک پر یوپی اے کے تحت ایف آئی آر کی گئی ہے اسی طرح سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلبہ پر ملک کی مخالفت اور غداری کے الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ بچے ابھی تک جیلوں میں ہیں،ان کا مستقبل تباہ کردیا گیا ہے

جب مسلم ایم پی کے ساتھ یہ ہوسکتا ہے توعوام کیا پوچھنا. 

آنے والے کچھ عرصے میں انڈیا کی کئی اہم ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا۔

تجزیہ کار عارفہ خانم کہتی ہیں کہ 'ملک کے لیے جمہوری نظام برسوں کی آزادی کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ اب ہم اس پوری عمارت کی اینٹ اینٹ کو بکھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ریزہ، ریزہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اسے صرف انتخابی طریقے سے اور جمہوری اداروں کو ٹوٹنے سے بچا کر روکا جا سکتا ہے۔'

source: bbc.com/urdu

ہندوستان میں ایک نئے جہاد کی دریافت

 نئی دہلی (ایجنسی):ملک میں جہاد کا لفظ مختلف مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اب مارکس کے تناظر میں اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ کروڑی مل کالج، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر نے ایسا گھٹیا ریمارکس دیا ہے، جس پر این ایس یو آئی کے طلبا نے احتجاج کیا ہے۔ آر ایس ایس نظریہ کو فروغ دینے والےپروفیسر راکیش پانڈے نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پوسٹ میں کیرالہ کے طلبا کے ذریعہ 100 فیصد نمبر حاصل کیے جانے پر اسے'مارکس جہاد'قرار دیا تھا۔ انھوں نے کیرالہ کے طلبا کے دہلی یونیورسٹی میں زیادہ درخواست دینے پر اسے سازش بتایا تھا۔ پروفیسر پانڈے کے ایسے تبصرے سے این ایس یو آئی کے ناراض طلبا نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اور کالج کے پرنسپل سے مل کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور عرض داشت بھی پیش کی ہے۔ واضح رہے کہ این ایس یو آئی کارکنان نے پروفیسر راکیش پانڈے کے خلاف ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ان کی تصویر کو نذرِ آتش بھی کیا۔ اس موقع پر این ایس یو آئی کے قومی سکریٹری اور دہلی انچارج نتیش گوڑ، قومی سکریٹری لوکیش چگ، قومی سکریٹری ونود جھاکر وغیرہ بھی موجود تھے۔ این ایس یو آئی ریاستی صدر کنال سہراوت نے اس موقع پر کہا کہ ''ہم نے آج احتجاجی مظاہرہ کے ذریعہ دہلی یونیورسٹی انتظامیہ کو سخت تنبیہ دی ہے، اور فوراً آر ایس ایس نظریہ کے حامل پروفیسر کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا ہے کہ پروفیسر راکیش پانڈے اپنے تبصرہ کے لیے پورے ملک سے معافی مانگیں۔''واضح رہے کہ گذشہ برس جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کے یوپی ایس میں شان دار کامیابی پر بھی ایک ٹیوی اینکر ایسا نا زیبا تبصرہ کیا تھا، جس پر اس نے معافی مانگی تھی۔

یوروپ کی سب سے بڑی مسجد کو تباہ کرنے دھمکی

 پیرس: فرانس میں زیر تعمیر یورپ کی سب سے بڑی مسجد کی انتظامیہ کو ایک خط موصول ہوا ہے جس میں مسجد پر حملے اور تباہ کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔

فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں ترکی جانب سے تعمیر کی جانے والی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ''آئپ سلطان مسجد'' کو اعلان جنگ کے عنوان سے دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے۔

خط میں مسجد کی تعمیر کرنے والی اسلامی تنظیم کی چیئرپرسن کو قتل اور زیر تعمیر مسجد پر بمباری کی دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اچھی طرح سے تیاری کرو، بدلہ شروع ہوتا ہے۔ ہم مساجد کے خلاف ہیں اور انھیں بڑے حملوں سے نشانہ بنائیں گے۔

گمنام خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرانس میں اسلام کے لیے کوئی جگہ نہیں اور ملک میں رہائش پزیر مسلمانوں کو اپنے مذہب یا فرانس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا اور ہمیں یقین ہے اکثریت اسلام کا انتخاب کرے گی۔

پھر کیوں آپ لوگ فرانس میں رہ رہے ہیں؟ واضح رہے کہ فرانس میں زیر تعمیر سلطان مسجد سال کے آخر تک مکمل ہوجائے گی۔ مسجد کے اندرونی حصے کی گنجائش ڈھائی ہزار افراد کی ہے جب کہ بیرونی حصے میں مزید ڈھائی ہزار نمازی عبادت کرسکتے ہیں اس کے علاوہ مسجد کے احاطے میں میوزیم، لائبریری اور ریسٹورینٹ بھی ہوں گے۔

Friday 8 October 2021

ISIS, the international hooligans group

 So called Islamic State carried out suicide explosion in Afghanistan's Shiite mosque during Friday prayer.Its horrific tragedy indeed. The ISIS is the enemy of all human beings ,it has been destroyed Syria and Iraq, now it is active in Afghanistan. 

The UNO and US should make a Unanimouslly approved planning to clean up this poisonous group .Otherwise it will continue in the killing of humanity. 

اسرائیل میں 2700پرانالگزری بیت الخلاء دریافت

 تل ابیب : اسرائیل میں ایک قدیم شاہی محل کی باقیات کی کھدائی کے دوران 2700 سال پرانا لکژری بیت الخلا دریافت ہوا ہے۔اسرائیل کی اینٹیکس اتھارٹی (آئی اے اے) کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ دارالحکومت یروشلم میں ایک شاہی محل کی باقیات کی کھدائی کے دوران 7 ویں صدی قبل مسیح کا بیت الخلا دریافت ہوا ہے۔آئی اے اے کے مطابق دریافت ہونے والا بیت الخلا یہودا (حضرت یعقوبؑ کے بیٹے) کے دور تک استعمال ہوتا رہا۔اسرائیلی اتھارٹی کے مطابق پتھروں سے مہارت کے ساتھ تراشے ہوئے مستطیل شکل میں بنے بیت الخلا کے درمیان میں ایک سوراخ کے ساتھ بیٹھنے کی آرام دہ جگہ بھی بنائی گئی تھی جس کے ساتھ انسانی فضلے کے جمع ہونے کے لیے ایک گہرا ٹینک بھی موجود تھا۔

اسدالدین اویسی کابیان حقیقت پر مبنی ہے

 نئی دہلی : بیرسٹر اسدالدین اویسی کی سرکاری رہائش گاہ پر دھار دار ہتھیاروں سے حملہ کرنے والوں کو دو ہفتہ بعد ہی ضمانت دے دینا اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر ملک مخالف قانون کے تحت جیلوں میں ڈالے رکھنا انصاف کے ساتھ مذاق ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا کے بعد اب عدلیہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔ اُن ججوں کا تبادلہ کردیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارکل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر کلیم الحفیظ نے پریس کو جاری ایک بیان میں کیا۔ صدر مجلس نے کہا کہ کسی ممبر پارلیمنٹ کے گھر پرجان لینے کے ارادے سے حملہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے لیکن پولس نے ان مجرموں کے خلاف معمولی دفعات میں مقدمہ قائم کرکے ان کی ضمانت کی راہیں پہلے ہی آسان کردی تھیں۔ اول تو پولس ان کے خلاف ایف آئی آر کرنے کے موقف میں ہی نہیں تھی، مجلس کارکنان کے دباؤ میں آکر ایف آئی آر ہوئی تھی،اس کے باوجود پولس نے ان کے خلاف بہت معمولی دفعات لگائیں۔ اس کے برعکس مسلم نوجوانوں کے خلاف پولس کا رویہ بالکل دوسرا ہوتا ہے،دہلی فسادات میں اپنا دفاع کرنے والے اور تماشا دیکھنے والے نوجوانوں تک پر یوپی اے کے تحت ایف آئی آر کی گئی ہے اسی طرح سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلبہ پر ملک کی مخالفت اور غداری کے الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ بچے ابھی تک جیلوں میں ہیں،ان کا مستقبل تباہ کردیا گیا ہے۔