https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 10 October 2021

اپنے اہل و عیال پرخرچ کرنے کی فضیلت

 اپنے اہل وعیال یعنی: بیوی بچوں پر خرچ  کرناشریعت کی حدود کی پاس داری کے ساتھ ہو تو اس کی بہت فضیلت ہے اور احادیث میں اس خرچ کو  صدقہ بھی فرمایا  گیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

" أخبرنا أبو علي الحسين بن محمد الروذباري بطوس، نا أبو بكر محمد بن أحمد بن محمويه العسكري بالبصرة، نا جعفر بن محمد القلانسي، نا آدم بن أبي إياس، نا شعبة، أخبرني عدي بن ثابت قال: سمعت عبد الله بن يزيد الأنصاري يحدث عن أبي مسعود الأنصاري، فقلت: أعن النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " المسلم إذا أنفق نفقة على أهله وهو يحتسبها كتبت له صدقة " رواه البخاري في الصحيح عن آدم وأخرجه مسلم من وجهين آخرين عن شعبة."

( السنن الكبرى للبيهقي ، باب فضل النفقة على الأهل، ج: 7، صفحہ: 769، رقم  الحدیث: 15695 ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنات)

 وفیه أیضًا: 

"حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، قال: عدي بن ثابت، أخبرني قال: سمعت عبد الله بن يزيد، يحدث، عن أبي مسعود البدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «المسلم إذا أنفق نفقة على أهله و هو يحتسبها، فهي له صدقة»."

(مسند الدارمي المعروف بـ (سنن الدارمي)،باب  في النفقة على العيال، ج: 3، صفحہ 1743، رقم الحدیث: 2706، ط:  دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية)

لیکن اس طرح کی روایات جن میں کسی عمل پر دوسرے عمل کے ثواب کا ذکر ہوتاہے، اس سے مراد اس عمل کا ثواب ہوتاہے، یہ مطلب نہیں ہوتاکہ یہ عمل کرلینے سے دوسرا عمل ذمے سے ساقط ہوجاتاہے، مثال کے طور پر روایت ہے کہ میں والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھنے سے  حج و عمرہ کا ثواب ملتاہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی پر حج فرض ہو تو وہ والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھے تو اس کا حج فرض ادا ہوجائے گا ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ جس طرح کا ثواب حج سے ملتا ہے اس طرح کا بڑا ثواب والدین کو دیکھنے سے بھی ملے گا، اسی طرح گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے، سے مراد یہ ہے کہ گھر والوں پر حلال رقم خرچ کرنے سے صدقے کا ثواب ملتاہے، لہٰذا گھر والوں پر خرچ کرنے کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً حسبِ حیثیت نفلی صدقہ کرتے رہنا چاہیے۔

تحفۃ الاحوذی میں ہے :

"قال الحافظ: المراد بالصدقة الثواب، وإطلاقها عليه مجازي، وقرينته الاجماع على جواز الإنفاق على الزوجة الهاشمية مثلاً، وهو من مجاز التشبيه، والمراد به أصل الثواب لا في كميته وكيفيته".

(تحفۃ الاحوذی :۱۲/۹۶، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت)

No comments:

Post a Comment