https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 25 November 2021

حضرت الاستاذ مولاناعلی محمد علیہ الرحمۃ

 حضرت الاستاذ مولاناعلی محمد قاسمی ہرواڑی علیہ الرحمۃ 

زہدوتقوی, تعلیم وتعلم درس و تدریس شرم وحیا متانت وسنجیدگی بے باکی ووضعداری خودداری وغمناکی شرافت وکرامت سے منسوب پیکر علم ودیانت حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ کی شخصیت میوات کے طبقۂ علماء میں محتاج بیان نہیں .آپ سے میں نے مدرسہ میل کے زمانۂ قیام میں صرف ونحومنطق فلسفہ, معانی وبلاغت وغیرہ علوم اسلامی ہی کی تحصیل نہیں کی بلکہ اس کارگہ حیات کے بے شمار اتارچڑھاؤ, نشیب و فراز سے روبرو ہونے کے وہ نکتہائے دقیق بھی سیکھے جنہیں عام طور پر اوراق کتب میں نہیں لکھاجاتا.

حیران ہیں اب جائیں کہاں ڈھونڈنے تم کو

آئینۂ ادراک میں بھی تم نہیں رہتے


دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں بحیثیت طالب علم میں نے دومرتبہ داخلہ لیا. سب سے پہلا مرحلہ وہ تھا جب کہ" باتک سدنل ید ہل" سے میری تعلیم کاآغاز ہواان دنوں مولانارحیم اللہ سلطانپوری یہ رسالہ پڑھایاکرتے تھے. موصوف بہت ہنس مکھ مزاحیہ طبع تھے. بہت سے بچوں کاایک ساتھ سبق سنتے تھے مجھ جیسے نابکاراس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت کے سامنےانگلی چلاتے ہوئے ہونٹ ہلاتے ہوئے پڑھائی کےشور کاپورا پورا فائدہ اٹھاتے.اس طرح کئ دن سبق سنایا لیکن ایک روز مولانا رحیم اللہ صاحب نے تاڑلیا اس کے بعد ہی حقیقتاً تعلیم کاصحیح طور پر آغاز ہوا اس کے بعد میں نے قاری صابر صاحب تاؤلوی علیہ الرحمہ کے درجہ میں حفظ قرآن مجید کی شروعات کی.اس زمانے میں میرے نگراں حافظ منشی صاحب دامت برکاتہم ہواکرتے تھے وہ میرے والدماجد علیہ الرحمہ کے مرکز نظام الدین میں ہم درس رہ چکے تھے اس دور میں بھی حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمہ کادارالعلوم محمدیہ میں طوطی بولتا تھا. اس وقت مولانانثاراحمدبستوی ,مولاناصغیرصاحب بستوی بڑے اساتذہ تھے, مولاناصغیر صاحب اکثر صبح کوحاضری لیتے تھے, اورمولانانثارصاحب سراپامتانت وسنجیدگی حلم وبردباری تقوی وطہارت کاایساپیکرتھے جسے دیکھ کربڑے بڑے اساتذہ بے محابہ کھڑےہوجاتے تھے میں انہیں دیکھ کر دل دل میں خوش ہوتا تھا ان کا رعب ودبدبہ طلباء ہی نہیں اساتذہ پربھی تھا. مولانا علی محمد علیہ الرحمہ اس زمانے میں اپنے ہم عمرطلباء کوشرح جامی مختصرالمعا نی, شرح تہذیب, سلم العلوم, قطبی کافیہ وغیرہ پڑھاتے تھے, اس دور کے منتہی درجات کےطلباء میں مولاناجمال الدین عرف دادا, مولاناسراج الدین مالپوری, مولاناشرف الدین چلی, مولاناعالم چلی,وغیرہ ہواکرتھے .مولانا علی محمد صاحب ان لحیم شیحم طلباء کے مابین ان کے ہم درس معلوم ہوتے تھے. لیکن سبھی طلباء پر ان کارعب ودبدبہ قابل دیدہوتاتھا. ان کی ضرب مبرح اورغیرمبرح,نیزمتانت,وسنجیدگی سےسبھی خائف رہتے تھے. ان کی آمد ہوا کے جھونکے کی طرح اچانک ہوتی تھی جودریامیں غول کے  غول کوخس وخاشاک کی طرح بہالیجاتی ہے. کبھی نماز کے وقت یااس کے بعدیا اس سے پہلے لیکن ان کی طویل ترشاخ نخیل کے نشانے پر چندایک ہی جیالے آتے تھے زیادہ ترعدیم الفرصتی یابھاگ دوڑ کی اس قیامت صغری میں نصف, سدس ,ثمن ہی بقدرخوش قسمتی حصہ پاتے تھے لیکن بعض نصیبہ ور ایسے بھی ہوتے جومثنی ورباع کی کیفیت سے دوچار ہوتے اورکمریاہتھیلی کے تکلیف دہ لیکن مقدس احساس کا کام ودہن سےشکوہ کرتے روتے بلبلاتے رہ جاتےجبکہ بہت سے اپنی اس حرماں نصیبی پرہنستے کھلکھلاتے.یہ آمدبادصرصرسے بھی زیادہ پرسکون ہوتی لیکن اس کے بعد کاسماں اجڑے ہوئے کارواں کی یاددلاتاتھا بقول علامہ اقبال :

آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

لگتاہے اس مقام سےگذرے ہیں کتنے کارواں

حضرت مولانا سے اس زمانے میں مینے کچھ نہیں پڑھاچونکہ وہ عربی کی بڑی کتابیں پڑھایاکرتے تھے میں اس زمانے میں درجۂ تحفیظ القرآن کاطالب علم تھا. تاہم میری خوش بختی کہ پھر بھی مجھے حضرت سے استفادہ کاموقع ملا:اس دور میں دارالعلوم محمدیہ میں سالانہ جلسہ بڑے تزک واحتشام سے ہوتا تھا جس کی تیاری ایک ماہ پہلے ہی سے شروع ہوجاتی تھی. تاریخ موعودپردوردراز سے مہمانان گرامی کی آمد آمد جشن کاسماں باندھتی تھی, رات دن تقاریر رٹنا پھربارباران کی ریہرسل ہوتی رہتی تھی کبھی مہتمم صاحب علیہ الرحمہ کے سامنےکبھی مولاناصغیر صاحب کی نگرانی میں کبھی مولاناعلی محمد صاحب کی موجودگی میں غرضیکہ ایک لامتناہی سلسلہ تھا. مجھے مولاناوحید الدین خاں صاحب کے الرسالہ سےایک تقریر یاد کرنے کا حکم ملا. مولاناعلی محمد صاحب کی نگرانی میں,خود حضرت الاستاذ  نے مہتمم صاحب علیہ الرحمہ  سے یہ کہتے ہوئے استدعاء کی کہ میں انہیں یاد کراؤں گا. آپ نے مجھے کبھی میدان میں کبھی اپنے کمرے کے سامنے کبھی زینہ کے اوپر بہ آواز بلند تقریر مسلسل کرتے رہنے کاحکم دیا لہذامیں صبح آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک پھر ظہرکے بعد سے عصر تک تقریر رٹتا رہتا اور حضرت کی توجہ تام کایہ عالم تھا کہ جب بھی ادھرسے گذرتے جواب آں غزل کے طور پر کسی بھی رطب ویابس قطعۂ نخیل سے نواز جاتے. اس طرح میں نے حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمہ سے تقریر کافن سیکھا ایسا فن جس کااظہارانہوں نے پوری عمر خودکبھی نہیں فرمایا بلکہ ان کی شرمیلی طبیعت سے اس کا تصور بھی محال تھا. البتہ ان کی ضرب نخیل سے بے شمار مقرروں نےجلاپائی.جمعرات کوبعد نماز مغرب تقریری مشق کے لئے طلبا کی انجمن قائم ہوتی تھی ظہرکے بعد تقاریریادکی جاتیں اوربعد مغرب باقاعدہ طلباء کے ایک گروہ کے سامنے اس کی باقاعدہ مشق کی جاتی. اس کی نگرانی عام طور پر حضرت الاستاذ ہی فرماتے تھے تاہم درجۂ حفظ کے طلباء کواس سے استثنی حاصل تھا. دوسری بار جب میں نے دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں داخلہ لیا تواس کی تقریب کچھ اس طرح رہی کہ حضرت الاستاذ رمضان المبارک کی تعطیلات میں ضلع جھنجھنوں راجستھان چندہ کرنے جاتے تھے جہاں والد صاحب کاقیام تھا. آپ والد ماجد کے پاس قصبہ مہنسر کئ کئ روز قیام فرماتے میں ان دنوں دارالعلوم بساؤ میں جواب انعام العلوم کے نام سے اس علاقے کا مشہور مدرسہ ہے زیرتعلیم تھا. میل سے پہلے مرحلے میں دس پارے حفظ کرنے کے بعد مجھے یہاں داخل کردیا گیا تھا یہاں میں نے تکمیل حفظ کے علاوہ فارسی کی تکمیل کی نیز میزان منشعب نحومیرصرف میر مفید الطالبین وغیرہ ابتدائی عربی کتب پڑھیں لیکن والد صاحب نے علاقہ شیخاواٹی مہنسر راجستھان سے دہلی منتقل ہونے کاارادہ کیاکیونکہ مدرسہ بساؤ میں انتظامیہ اورمیواتی اساتذہ و طلباء کے مابین سخت معرکہ آرائی ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں کئی اساتذہ وطلباء زخمی بھی ہوئے بالآخر سبھی میواتی طلباء واساتذہ کوبادل ناخواستہ مدرسہ چھوڑناپڑا اس وقت مدرسہ انعام العلوم بساؤ میں مولاناجمیل احمد صاحب کوٹ رحمۃ اللہ علیہ صدرالمدرسین تھے آپ کے خسر حاجی نورمحمد علیہ الرحمہ کوٹوی اس مدرسہ کے بانی تھے وہ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی قدس سرہ العزیز کے مریدتھے .ان کی خداترسی للہیت اورطلباء کی خدمت اوردینی لگن کویادکرکے آج بھی دل کوسکون ملتاہے.

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

بہرکیف بساؤسے میواتی اساتذہ وطلباء کایہ قافلہ مہنسر ریلوے اسٹیشن پروالد صاحب سے ملاقات کرتے ہوئے میوات کے لئے عازم سفر ہوا اس کے بعد مدرسہ انعام العلوم میں میواتی طلباء واساتذہ کاداخلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا. لیکن ہم دونوں بھائی ڈاکٹر ابوالفضل ندوی اورراقم الحروف میواتی ہونے کے باوجود اس ضابطہ سے متثنی رکھے گئے.اس کی مختلف وجوہات تھیں منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اتفاق سے شورش کے دن میں مدرسہ میں موجود ہی نہیں تھاوالد ماجدرحمہ اللہ کے پاس مہنسر گیاہواتھااور ابوالفضل بہت چھوٹے تھے جن پرکسی طرح کاالزام لگاناممکن نہ تھا لہذاہم دونوں اس کے بعد بھی ایک یادو سال مدرسہ انعام العلوم میں زیرتعلیم رہے. وہاں کے اساتذہ میں مولاجمیل احمد کوٹ رحمہ اللہ قاری نورمحمد چھائنسہ رحمہ اللہ کے علاوہ استاذالاساتذہ مفتی محمد یحیی قاسمی رحمہ اللہ. مولانامحمدیونس مظاہری مدظلہ العالی  مولانااکرام الحق باغپتی قابل ذکرہیں مفتی یحیی صاحب سے نحومیرصرف میر پڑھنے کاشرف حاصل ہواان کی محبت وشفقت کی یاد آج بھی سایہ کی طرح ساتھ رہتی ہے. ایک مرتبہ ایک طالب کوحضرت نے غصہ میں ہاتھ میں قمچی ماردی یہ ظہرکے بعد کاواقعہ تھاعصرکی نماز کے بعد سبھی طلباء کوعصرکی نماز کے بعدروک لیا اورمنبر پربیٹھ کراس طالب علم سے درخواست کی کہ وہ اپنا بدلہ لے لے اگر بدلہ لے گا تومجھے خوشی ہوگی کیونکہ میں آخرت کی گرفت سے بچ جاؤں گا یامجھے معاف کردے اس طالب علم نے عرض کیاحضرت میں نے معاف کیا یہ سن کر رونے لگے. اب انہیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر. 

انعام العلوم کے ناگفتہ بہ حالات کے مدنظر حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ کی رمضان المبارک میں آمد پر والدصاحب نے آئند ہ میل میں داخلے کی بات کی میراامتحان بھی صرف میر اورنحومیرکالیا. اس کے بعد میں نے القراۃ  الواضحۃ, تیسرالمنطق, مرقات, ہدایۃ النحو, کافیہ شرح تہذیب , سلم العلوم, قطبی  ,شرح جامی مختصر المعانی, ملاحسن ہدایۃ الحکمت, میبذی وغیرہ ترجمۂ  قرآن مجید  وغیرہ کتب پڑھیں. آپ کااندازتعلیم مولاناخورشید عالم عثمانی دیوبندی کے طرز پر تھا. لیکن ضرب شدید میں آپ اپنے استاذ سے بہت فائق تھے. اس زمانے میں عصانہ ہوتوکلیمی ہے کار بے بنیاد ,کے بقول یہ مشہور تھا کہ جوان کی زدوکوب سے لطف اندوز ہوگیا اس پر علم وعمل کے چہار طبق روشن ہوگئے. الحمد للہ راقم الحروف نے اس سے وافرحصہ پایا لیکن بادئ النظر میں سبھی طبق اب تک تاریک ہیں. نحومیں آپ کی نظیرمشکل تھی. حقیقتاً یہ علم آپ نے اپنے استاذ مولاناغلام قادرکشمیری سے حاصل کیاتھا جودارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے اولین اساتذہ میں تھے. دارالعلوم دیوبند میں بھی ان کی علمی صلاحیتوں کے چرچے تھے. آپ میرے پھوپا مولاناروزہ دارخانصاحب کے درسی ساتھی تھے. 1984میں جب بساؤ راجستھان میں عالمی تبلیغی اجتماع ہواتوحضرت مولانامحمدقاسم رحمہ اللہ سابق مہتمم دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے ساتھ آپ بھی بساؤ اجتماع میں شرکت کی غرض سے نیز ہم لوگوں سے ملنے فرید آباد سے تشریف لائے تھے مہتمم صاحب رحمہ اللہ بھی ساتھ تھے .

دوسری مرتبہ جب میراداخلہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں ہوا توحضرت الاستاذ سے استفادہ کابہت موقع ملا. لیکن حضرت کارنگ مدرسہ مذکور میں بالکل مختلف تھا جبکہ راجستھان میں جب تشریف لاتے تھے توبالکل مختلف تھے. میں نےمیل سے پہلے اس ضرب مبرح کےرنگ وروپ نہیں دیکھے تھے جویہاں اپنی تمام تر رعنائی وآب وتاب کے ساتھ  جلوہ گر تھی. اس سے مرعوب ہوکرہمیشہ کے لئے اسے خیرباد کہتے ہوئے ایک روز میں نے دارالعلوم بساؤ کے لئے چپکے سے رخت سفر باندھ لیاکیونکہ حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایاتھاکہ "تمہیں کل دیکھوں گا". میں نے خوف کا مبالغہ آمیز تصور باندھتے ہوئے مدرسہ انعام العلوم بساؤ کے لئے رخت سفر باندھ لیا.تاکہ حضرت کے عتاب سے بچ سکوں .

نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں

.اس وقت بارہ روپے میرے پاس تھے. میں پہلے بھرت پور تک بس میں گیا وہاں سوچاکہ ریلوے اسٹیشن دیکھنا چاہیے کیونکہ ٹرین میں کرایہ کم لگے گا. بھرت پورریلوے اسٹیشن پرآگرہ جانے والی ٹرین کھڑی تھی. ٹرین پرآگرہ کانام پڑھ کر تاج محل کی چمک دمک نے اپنی طرف کھینچا میں نے سوچا آزادی سے فائدہ اٹھانا چاہیے زندگی میں تاج محل توایک بار ضرور دیکھا چاہیے پھرعمروفارہے رہے نہ رہے. چارروپیہ آگرہ کاکرایہ تھاجس سے مجھے اورمہمیز ملی لہذاآگرہ کی ٹرین میں بیٹھ گیاشام سات بجے آگرہ اترا. ریلوے اسٹیشن پر فیروزآباد کے ایک باریش ضعیف مسلمان مسافر نے مدرسہ کابچہ سمجھ کرمجھے اپنے ساتھ بیٹھالیا رات بھر اسٹیشن پربھوکے پیاسے گذاری صبح فجرکی اذان شاہی مسجدکے میناروں سے بلندہوئی تو اس مسافرکے ساتھ شاہی مسجد آگرہ میں فجر کی نماز پڑھی. نماز کے بعد نہایت ضعیف وناتواں امام نے صلوۃ وسلام پڑھناشروع کردیا اس مسافرکے ساتھ میں بھی ہاتھ باندھ کر کھڑاہوگیا.کیونکہ کہاوت ہے: when you are in  Rome do as the Romans do. یعنی بامسلماں اللہ بابرہمن رام رام.( علی گڑھ میں عرصۂ دراز کے بعد مجھے ایک صاحب نے اطلاع دی کہ ان امام صاحب کابعد میں قتل ہوگیاتھا. )غرض صلوۃ و سلام کے بعد فیروزآبادی کرم فرمانے اپنی راہ لی اور میں آگرہ کی سیرکونکلا. سب سے پہلے منی بس میں تاج محل گیا وہاں ٹکٹ لے کرتاج محل کےحسن وجمال کوقریب سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن مجھے وہاں حسن وجمال نام کی کوئی چیز نظرنہیں آئی. ایک جم غفیر کوزیارت کے لئے قطار میں دیکھ کر مجھے ہنسی آتی تھی اورلوگوں کی حماقت پر افسوس ہوتا تھا کہ یہ لوگ کیوں اپناوقت اورپیسہ برباد کرنے یہاں آئے ہیں.کیونکہ میں نے منزل مقصود بساؤ کوسمجھ رکھاتھا. مرادرمنزل جاناں چہ امن و عیش چوں ہردم 

جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا 

جب تاج محل میں جی نہ لگا تومجھے خیال آیا مدرسہ افضل العلوم میں اباجی نے پڑھایاتھاچلوآج اس کی بھی زیارت کرچلیں. لیکن مدرسہ کے دروازے سے واپس لوٹ آیا , مبادا یہ لوگ مجھے پکڑکر مدرسہ واپس نہ بھیج دیں. بالآخر آگرے کے راستوں میں تھکا ماندہ یہ مسافر یوں ہی بھٹکتا رہا.

وہ جس کی منزل مقصود کہکشاں سے پرے.

ہمارے ساتھ فقط چند گام آتے ہیں.

بالآخر آگرہکینٹ سے جے پور کی راہ لی جیب خالی تھی بغیرٹکٹ ہی جے پور کے لئے بیٹھ گیا پھرخیال آیا ٹی ٹی کوکیاجواب دیں گے لہذا سیٹ کے نیچے سوتے ہوئے جے پور پہنچے وہاں سے سیکر ہوتے ہوئے بساؤ مدرسہ انعام العلوم جاپہنچا. کئی دن کی بھوک و فاقہ مستی سے طبیعت نڈھال ہوچکی تھی .لہذا جاتے ہی اپنے ساتھیوں سے کھانے کی فرمائش کی ادھروالدصاحب کومیرے جانے کی اطلاع ہوئی توسخت صدمہ ہوا دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا آکرمیرے سامان کاجائزہ لیاتوانہوں نے اندازہ لگالیاکہ میں نے بساؤ کی راہ لی ہے. مولاناعلی محمد صاحب والد صاحب کے شاگرد تھے انہوں نے گلستاں بوستاں نحومیر صرف میروغیرہ والد صاحب سے مدرسہ افضل العلوم آگرہ میں پڑھی تھی.جس کی ابتدا کچھ اس طرح ہوئی : مدرسہ افضل العلوم کے قیام کے وقت سب سے پہلے مدرس حضرت مولانادین محمد صاحب لکھناکارحمۃ اللہ علیہ ,کومدرسہ میل سے بھیجا گیا آپ یہاں کے اولین اساتذہ میں سے ایک بہت ہی متدین اور خداترس عالم دین تھے. ان کے ساتھ چند طلباء بھی تھے جن میں مولاناعلی محمد علیہ الرحمہ بھی تھے والد ماجد اس کے اولین صدرمدرس مقرر ہوئے. اس طرح مدرسہ افضل العلوم کاقیام عمل میں آیا اس وقت مدرسہ چھم چھم گلی میں تھا. مولاناعارف صاحب اس کے اولین مہتمم تھے. جب مدرسہ کومقامی طلبہ مل گئے تومیواتی طلباء جن میں حضرت الاستاذ بھی تھے واپس دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا آگئے. غرض والد صاحب نے میرے خطوط وغیرہ پڑھ کرمیری تلاش میں بساؤ جانے کافیصلہ کیا بالآخر دوبارہ حضرت الاستاذ کی زیرنگرانی آگیا.اب جب بھی اس سفر بے راہ روی کاخیال آتاہے توکف افسوس ملتے ہوئے ہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور سوچنے لگتاہوں کہ اتنالمباسفر تن تنہااتنی کم عمری میں میں نے کیسے طے کر لیا! تبارک اللہ ازیں فتنہا کہ درسر ماست. 

حضرت الاستاذ کی مثال اس ناپیدکنار دریاکی تھی جس میں مختلف اشیاء ہوتی ہیں اور وہ سب کو یکساں طور پر بہائے لیجاتاہے.تصوف وطریقت پرجب گفتگو ہوتی شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی کی فصوص الحکم اورفتوحات مکیہ پر ایسے تبصرہ کرتے گویا اس دریا کے قدیم شناور وغواص ہیں. منطق وفلسفہ پرجب گفتگو فرماتے توعلامہ قطبی کی طرح اپنی بھی ایک رائے پیش فرماتے غرض:اسی دریاسے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی. نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا. 

اگرچہ ان کا اصل میدان بظاہرنحوتھالیکن فی الحقیقت وہ کوچۂ تصوف کے سالک تھے. مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب شروانی جلال آباد ی خلیفہ اجل حضرت تھانوی سے باقاعدہ بیعت کی اور ان کے ہاں اکثرقیام فرماتے.فلسفیانہ مسائل سے آپ کودلچسپی تھی. اقبال کے تصور خودی کی بھی بہت جامع تشریح فرماتے.

مجذوب کبھی سوز کبھی سازہے تجھ میں

تومیرکبھی اورکبھی سودانظرآیا

کافیہ پرلمبی چوڑی تقریرات سنتے ہوئے ایک روز میں نے حضرت سے یہ دریافت کرنے کی جر ات کی "الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفرد بہت ہی مختصر جملہ ہے. لیکن کلمہ, لفظ ,پر شارحین ایک ایک دن گذاردیتے ہیں اوراپنی طرف سے اشکال وجواب کاایک لامتناہی سلسلہ قائم فرماتے ہیں .اتنی طویل تقریر صاحب کافیہ علامہ ابن حاحب کے ذہن میں سچ مچ تھی بھی یامحض یہ شارحین کی اختراع ہے ؟توفرمایااس میں کچھ اختراع بھی ہے لیکن مقصود فن کی باریکیوں سے روشناس کرانا ہے .حضرت مہتمم صاحب رحمہ اللہ سے آپ کا تعلق استاذ شاگرد کارہا دارالعلوم محمدیہ سے علیحدگی کے بعد بھی حضرت کاذکرخیر محبت اور والہانہ انداز میں فرماتے عقیدت واحترام میں ذرابھی فرق نہیں پڑا تھا.حضرت مہتمم صاحب بھی آپ کاذکر بڑی محبت سے فرماتے تھے .ان دواساطین کی وفات حسرت آیات دل سے بھلائے نہیں بھولتی :


تمہاری موت نے مارا ہے جیتے جی ہم کو

ہماری جان بھی گویا تمہاری جان میں تھی

نماز چھوڑنے پرتجدید نکاح کاحکم

 اگر کوئی آدمی نماز کو اس اعتقاد کے ساتھ ترک کرتا ہے کہ نماز فرض ہی نہیں تو ایسا آدمی کافر ہے اور توبہ کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی ضروری ہو گا اور اگر کوئی شخص ایسا اعتقاد تو نہیں رکھتا، بلکہ محض سستی کی وجہ سے نماز ترک کر دیتا ہے تو ایسا آدمی نماز چھوڑنے کی وجہ سے کافر نہ ہو گا، البتہ فاسق ہو گا، لہذا جب کافر نہ ہو گا تو نکاح بھی نہیں ٹوٹا؛ اس لیے اس کی تجدید کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ 

اور جن احادیث میں نماز کے ترک پر کفر کا حکم لگایا گیا ہے، اس سے مراد بھی وہی صورت ہے جب اس اعتقاد سے چھوڑے کہ نماز چھوڑنا جائز ہے۔ اور اس صورت میں چھوڑنے والا بہرحال کافر ہو جاتا ہے یا اُن احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا یہ فعل کفار کے فعل سے مشابہ ہے۔ 

شرح النووي على مسلم (2/ 71):
’’وتأولوا قوله صلى الله عليه وسلم: ’’بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة‘‘ على معنى أنه يستحق بترك الصلاة عقوبة الكافر وهي القتل، أو أنه محمول على المستحل، أو على أنه قد يؤول به إلى الكفر، أو أن فعله فعل الكفار،

Tuesday 23 November 2021

میت کے اہل خانہ کاکھانابناکرمہمانوں کوکھلاناجائز ہے کہ نہیں

 جس گھر میں میت ہوجائے ان کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لیے مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے کہ میت کے گھر والوں کے لیے اس دن (دو وقت) کے کھانے کا انتظام کریں اور خود ساتھ بیٹھ کر، اصرار کر کے ان کو کھلائیں،اور ضرورت ہو تو تین دن تک کھانا کھلانا بھی جائز ہے، اہلِ میت کو یہ کھانا کھلانا اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ میت کے گھر میں یا میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانا ممنوع ہے، بلکہ اس وجہ سے   ہوتا ہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملے گا، لہٰذا اگر میت کے گھر والے خود اپنے لیے اسی دن کھانا بنائیں تو اس کی اجازت ہے۔رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو ان کو مشغول کرے گی ( یعنی جعفر کی شہادت کی خبر سن کر صدمہ اور رنج میں مشغول ہوکر کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہیں رہے گی)۔

                لیکن یہ کھانا صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہے ، یہ نہیں کہ تمام برادری اور قوم کو کھلایا جائے، کیوں کہ تعزیت کرنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا چاہیے، میت کے گھر قیام بھی نہیں کرنا چاہیے اور اہلِ میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی چاہیے، کیوں کہ دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم). رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه". (مشکاة المصابیح، کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ص:۱۵۱ ،ط:قدیمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"والمعنى: جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لايشعرون. قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لايستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلايضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ؛ لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه، قلت: وهذا إذا لم يكن من مال اليتيم أو الغائب، وإلا فهو حرام بلا خلاف". (کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ج:۴؍ ۱۹۴ ،ط: رشیدیه) 

  فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ.

مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاماً للفقراء كان حسناً اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالاً بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالباً من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم". (کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة،ج:۲ ؍ ۲۴۰ ، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم". (کتاب الصلاة، قبیل باب الشهید، ج:۲ ؍ ۱۰۲ ، ط: رشیدیه

بٹ کوئن اورکرپٹوکرنسی کاحکم

 الجواب حامداً ومصلیاً واضح رہے کہ کسی بھی قدری (Valueable) چیز کے کرنسی بننے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی حکومت اور اسٹیٹ کی جانب سے اس کرنسی کو سکہ اور ثمن تسلیم کرکے اس کو عام معاملات (لین دین) میں زرِمبادلہ کا درجہ دے دے دیا گیا ہو، ایسی کرنسی کو لوگ رغبت ومیلان کے ساتھ قبول کرنے کے لیے آمادہ بھی بن جائیں اور اُسے رواجِ عام مل جائے۔ ۱:… مذکورہ ڈیجیٹل کرنسی نہ تو کسی حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ کرنسی (ثمن) ہے اور نہ ہی تمام لوگوں میں اس کا رواج ہے، لہٰذا اس کی ثمنیت قابلِ اعتبار نہیں ہے اور محض چند ٹوکن جن کی کوئی واقعی مالی حیثیت نہیں ہے، ا س کی قیمت ۱۰۰ یورو سے ۲۸۰۰۰ تک مقرر کرنا درست نہیں ہے۔ نیز اگر مجوزہ ڈیجیٹل کرنسی کو بالفرض قانونی واصطلاحی کرنسی تسلیم کرلیا جائے تو ڈیجیٹل کرنسی کا مبادلاتی عمل (لین دین) شرعی لحاظ سے بیع صرف (نقدی کا لین دین) کہلائے گا، جبکہ نقدی کا آپس میں تبادلہ کرتے وقت ایک ہی مجلس میں قبضہ ضروری ہے، جبکہ مذکورہ کمپنی ٹوکن دینے کے ۹۰ دن بعد ان ٹوکنوں کو دگنا کرکے ڈیجیٹل کوائنز (سکوں) میں تبدیل کرکے دیتی ہے تو یہ بھی بیع صرف میں اُدھار کی ایک صورت ہونے کی وجہ سے ناجائز ہی ہے ، لہٰذا سوال میں مذکور منافع کا پہلا طریقہ بھی ناجائز ہے۔فتاویٰ شامی میں ہے: ’’والمالیۃ تثبت بتمول الناس کافۃً أو بعضہم والتقوم یثبت بہا وبإباحۃ الانتفاع بہٖ شرعاً۔‘‘                                              (ج:۴،ص:۵۰۱،ط:ایچ ایم سعید) وفیہ ایضاً: ’’ہو مبادلۃ شئ مرغوبٍ فیہ بمثلہٖ علی وجہٍ مفیدٍ مخصوصٍ۔‘‘                                                            (ج:۴،ص:۵۰۶،ط:ایچ ایم سعید) بدائع الصنائع میں ہے: ’’وأما الشرائط (فمنہا) قبض البدلین قبل الافتراق لقولہٖ علیہ الصلاۃ والسلام فی الحدیث المشہور والذہب بالذہب مثلاً بمثل یداً بید والفضۃ بالفضۃ مثلاً بمثل یداً بید، الحدیث۔‘‘                                 (فصل فی شرائط الصرف،ج:۵،ص:۲۱۵) ۲…مذکورہ کمپنی کے منافع حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ جس کی تین صورتیں ہیں، یہ تینوں صورتیں دراصل کمیشن کے تحت آتی ہیں اور کمیشن کی اسلامی قانونِ تجارت اور تبادلہ میں مستقل تجارتی حیثیت نہیں ہے، اس لیے کہ جسمانی محنت (جو کہ تجارت کا ایک اہم جزء ہے) کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر فقہاء کرام نے اصولاً اس کو ناجائز قرار دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت اور تعامل کی وجہ سے ا س کی محدود اور مشروط اجازت دی ہے، بظاہر مذکورہ کمپنی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کا سرمایہ اپنے کاروبار میں لگا کر اور ممبردر ممبر سازی کرکے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرنا اور اس حاصل ہونے والی رقم سے لوگوں کو کمیشن فراہم کرنا ہے، لہٰذا اس کمپنی سے معاملہ کرنا اور اس میں سرمایہ کاری کرکے منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے، چونکہ اس کمپنی کے کوائنز اور ٹوکن خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اس کمپنی کے ممبر بن کرمذکورہ تینوں صورتوں ’’Direct Sale‘‘ ، ’’ Network Bounus ‘‘ اور ’’Matching Bounus‘‘ کے ذریعے کمیشن حاصل کرنا بھی درست نہیں ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ’’والربح إنما یستحق بالمال أو بالعمل أو بالضمان۔‘‘                             (فتاویٰ شامی، کتاب المضاربۃ،ج:۵،ص:۶۴۶،ط:ایچ ایم سعید) وفیہ ایضاً: ’’سئل عن محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار: فقال: أرجو أنہ لابأس بہ وإن کان فی الأصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیرمن ہذا غیر جائزۃ فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ۔‘‘                          (فتاویٰ شامی ،مطلب فی أجرۃ الدلال،ج:۶،ص:۶۳،ط:ایچ ایم سعید) الأشباہ والنظائر میں ہے: ’’ما أبیح للضرورۃ یقدر بقدرہا۔‘‘ (الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الخامسۃ: الضرر یزال،ص:۸۷، قدیمی) وفیہ ایضاً: ’’وصرح بہ فی فتاویٰ قاری الہدایۃ ثم قال والعقد إذا فسد فی بعضہ فسد فی جمیعہٖ۔‘‘                    (الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الثانیۃ،ص:۱۱۷، قدیمی) ۳… مذکورہ کمپنی کے کوائنز (سکوں) کا حصول اور ان کی خرید وفروخت چونکہ ناجائز ہے، اسی طرح ان کوائنز کو دگنا کرکے بیچنا بھی ناجائز ہے۔البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے: ’’إن فساد العقد فی البعض إنما یؤثر فی الباقی إذا کان المفسد مقارناً۔‘‘                                     (البنایۃ شرح الہدایۃ ،ج:۸،ص:۱۷۷) نیز ان کوائنز (سکوں) کی زیادتی بلاعوض ایک عقد میں لازم ہونے کی وجہ سے بھی جائز نہیں ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ’’باب الربا ہو لغۃً مطلق الزیادۃ وشرعاً (فضل) ولو حکماً فدخل ربا النسیئۃ والبیوع الفاسدۃ فکلہا من الربا فیجب رد عین الربا ولو قائمًا لارد ضمانہٖ لأنہٗ یملک بالقبض قنیۃ وبحر (خال عن عوض) … مشروط ذٰلک الفضل لأحد العاقدین۔‘‘   (فتاویٰ شامی ،ج:۵،ص:۱۶۸،۱۶۹،ط:ایچ ایم سعید) ۴،۵…مذکورہ کمپنی کا ٹوکن اور کوائنز کا لین دین کرنا چونکہ ناجائز ہے، اس لیے اگر کوئی اس کمپنی میں صرف کوائنز حاصل کرنے کے لیے رکنیت حاصل کرے اور نیٹ ورکنگ (Networking) کے ذریعے اگرچہ ممبر سازی نہ کرے، تب بھی ان کوائنز کو خریدنا جائز نہیں ہے۔  نیز اس طرح کی مشکوک کمپنی کے کارو بار میں سرمایہ کاری کرنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ شریعتِ اسلامی میں کاروبار اور لین دین کا مدار معاملات کی صفائی اور دیانت وامانت پر ہے اور فرضی چیزوں کے بجائے اصلی اور حقیقی چیزوں کی خرید وفروخت اور حقیقی محنت پر زور دیتی ہے اور استفتاء کے ساتھ منسلکہ فتویٰ سے یہ بھی بات واضح ہوتی ہے کہ ’’One Coin ‘‘ (ون کوائن) کمپنی کے معاملات صاف اور واضح نہیں ہیں، لہٰذا ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ بظاہر دوسروں کا مال، غیر واضح، مبہم اور ناجائز طریقے سے ہتھیانے کے مترادف ہے، جسے شرعی اصطلاح میں ’’اکل باطل‘‘کہتے ہیں۔ تفسیر کبیر میں ہے: ’’قال بعضہم: اللّٰہ تعالٰی إنما حرم الربا حیث أنہ یمنع الناس عن الاشتغال بالمکاسب… فلایکاد یتحمل مشقۃ الکسب والتجارۃ والصناعات الشاقۃ۔‘‘                                                      (التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ البقرۃ،ج:۷،ص:۹۱، ایران) ’’ بعض علماء فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس لیے سود کو حرام قراردیا ہے کہ یہ لوگوں کو اسباب معاش اختیار کرنے سے روکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا لوگ کمائی، تجارت اور سخت محنتوں کے بوجھ برداشت کرنے سے کتراتے ہیں۔‘‘ احکام القرآن میں ہے: ’’نہٰی لکل أحد عن أکل مال نفسہ ومال غیرہٖ بالباطل وأکل مال نفسہٖ بالباطل إنفاقہٗ فی معاصی اللّٰہ وأکل مال الغیر بالباطل قد قیل: فیہ وجہان: أحدہما ما قال السدی وہو أن یاکل بالربا والقمار والبخس والظلم وقال ابن عباسؓ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ والحسن رحمہ اللّٰہ تعالٰی أن یأکلہٗ بغیر عوض۔‘‘                                                                       (احکام القرآن ،ج:۲،ص:۲۱۶، دار الکتب العلمیہ، بیروت) ’’ہر ایک کو اپنا مال اور دوسروں کا مال ناحق طور پر کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اپنے مال کو ناحق طور پر کھانا یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کیا جائے اور دوسرے کے مال کو ناحق طور پر کھانے کے متعلق آیا ہے اس کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت: سدیؒ فرماتے ہیں : اس کو سود، جوا، کمی(ناپ تول میں) اور ظلم کے ذریعہ کھائے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حسنؒ فرماتے ہیں کہ: اس کو بغیر عوض کے کھائے(سودی معاملہ کرے)۔‘‘     الجواب صحیح              الجواب صحیح          الجواب صحیح                 کتبہٗ   ابوبکرسعید الرحمن         محمد شفیق عارف         رفیق احمد بالاکوٹی          محمد طیب حیدری                                                                    تخصصِ فقہِ اسلامی                                                          جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔

Monday 22 November 2021

بیٹیوں کے لئے خریدے گئے پلاٹ پر زکوۃ

 اگر مذکورہ پلاٹ خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ بیٹیوں کی شادی کے وقت اسے بیچ کر شادی میں خرچہ کریں گے، تو یہ تجارتی پلاٹ ہے اور دیگر اموال کے ساتھ اس پر بھی زکات واجب ہے۔ اور اگر پلاٹ خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہیں تھی تو مذکورہ پلاٹ پر زکات واجب نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:172، ط : دار الفكر):

"(و منها فراغ المال) عن حاجته الأصلية، فليس في دور السكنى و ثياب البدن و أثاث المنازل و دواب الركوب و عبيد الخدمة و سلاح الاستعمال زكاة."

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:2، ص:265، ط : دار الفكر):

"(و أثاث المنزل و دور السكنى و نحوها) و كذا الكتب و إن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة. (قوله: وأثاث المنزل إلخ) محترز قوله نام و لو تقديرا، و قوله و نحوها: أي كثياب البدن الغير المحتاج إليها و كالحوانيت و العقارات."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:2، ص:11، ط : دار الكتب العلمية):

"و أما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة و ذلك بالنية."

Saturday 20 November 2021

تحقیق حدیث من سب علیا فقد سبنی

 

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مقام اور ان سے محبت یا بغض یاعداوت رکھنے والوں کا مقام اور حکم خود حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم نے بیان فرما رکھا ھے،اس کی روشنی میں ایسے لوگوں کا حکم بالکل واضح ھے۔ چنانچہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اس سلسلے میں چندارشادات ملاحظہ ھوں: 1: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،ان کو میرے بعدہدف اورنشانہ ملامت مت بنانا،،یادرکھو جو شخص ان کودوست رکھتا تو وہ میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ھے اور جو ان سے دشمنی رکھتا ھے تو وہ مجھ سے دشمنی رکھنے کے سبب ان کو دشمن رکھتا ھے، اورجس شخص نے ان کو اذیت پہنچائی اس نےگویا مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے گویا خدا کو اذیت پہنچائی،اور جس نے خدا کو اذیت پہنچائی تو وہ دن دور نہیں جب خدا اس کو پکڑے گا۔ جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلّم، 2225، ط:قدیمی کراچی 2: تم میرے صحابہ کو برا نہ کھو، حقیقت یہ ھے کہ تم میں سے کوئی شخص احدپہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے صحابہ کے ایک مدیاآدھے مد کے ثواب کے برابربھی نہیں پہنچ سکتا۔ صحیح مسلم، باب تحریم سبّ الصحابہ، 2310، ط: قدیمی کراچی 3: میرے اصحاب کی تعظیم وتکریم کرو کیونکہ وہ تمھارے برگزیدہ اور بزرگ ترین لوگ ہیں۔ مشکوۃ المصابیح بحوالہ نسائی، باب مناقب الصحابہ، الفصل الثانی، ص: 554، ط: قدیمی کراچی اس کے علاوہاور بھی متعدّداحادیث سے یہ بات واضح ھوتی ھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو گالی دینا، براکہنا یا ان پر تبرّا کرنا حرام اور باعثِ فسق وگمراہی ہے، نیز اس سے ایمان ضائع ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ فتاوی شامی، 4236، 


جاء الحديث في كتابين :

((السنن الكبرى - النسائي ج 5 ص 133 : 
( 8476 ) أخبرنا العباس بن محمد قال حدثنا يحيى بن أبي بكير قال حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبد الله الجدلي قال دخلت على أم سلمة فقال تأيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم فقلت سبحان الله أو معاذ الله قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سب عليا فقد سبني 
.))

(()الجامع الصغير - جلال الدين السيوطي ج 2 ص 608 : 8736 من سب عليا فقد سبني ، ومن سبني فقد سب الله))

فهو حديث ضعيف قد ضعفه الشيخ المحدث / محمد ناصر الدين الالباني – رحمه الله – في ضعيف الجامع انظر ( حديث رقم 5618 ) .

ومدار الحديث على (أبي نا يحيى بن أبي بكير نا إسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبد الله الجدلي )

والآن فسننظر في حال رجال هذا الإسناد ..

فى الحديث :

1- ابو عبد الله الجدلي :
قال الحافظ فى "تهذيب التهذيب" 12/148 : 
(( قال ابن سعد فى الطبقة الأولى من أهل الكوفة : اسمه عبد بن عبد بن عبد الله ابن أبى العمر بن حبيب بن عائذ بن مالك بن واثلة بن عمرو بن رماح بن يشكر بن عداون بن عمرو بن قيس عيلان بن مضر ، يستضعف فى حديثه. و كان شديد التشيع ،))

أذن هو شديد التشيع فلا نقبل حديثة لانه روى في بدعته حديثاً لم ينقل عن غيره ..
وايضاً كان العلماء يستضعفون حديثه ..


2-ابو اسحاق السبيعي :

قال الحافظ فى "تهذيب التهذيب" 8/65 :
(( قال ابن حبان فى كتاب " الثقات " : كان مدلسا . و كذا ذكره فى المدلسين حسين الكرابيسى ، و أبو جعفر الطبرى .
و قال أبو إسحاق الجوزجانى : كان قوم من أهل الكوفة لا تحمد مذاهبهم ـ يعنى :التشيع ـ هم رؤوس محدثى الكوفة
و حدثنا إسحاق ، حدثنا جرير ، عن معن قال : أفسد حديث أهل الكوفة الأعمش ،
و أبو إسحاق ـ يعنى للتدليس ـ .))

أّن هو جمع بين التدليس والتشيع بل كان من رؤوس التشيع فلا نقبل حديثه .

3- اسرائيل بن يونس :

(( و قال يعقوب بن شيبة : صالح الحديث . و فى حديثه لين . 
و قال فى موضع آخر : ثقة صدوق ، و ليس بالقوى فى الحديث ، و لا بالساقط .)) انظر لترجمه في تهذيب الكمال 

قال الحافظ فى "تهذيب التهذيب" 1/263 :
و قال محمد بن أحمد بن البراء عن على ابن المدينى : إسرائيل ضعيف .
و أطلق ابن حزم ضعف إسرائيل ، و رد به أحاديث من حديثه فما صنع شيئا .
و قال عثمان بن أبى شيبة عن عبد الرحمن بن مهدى : إسرائيل لص يسرق الحديث .))
أذن هو ضعيف الحديث ويكفى انه لص للحديث ..\


وللعلم ان من ذكرت من العلماء ممن نقلوا هذا الحديث فانهم في كتبهم لا يلتزموا الصحة بل يذكروا في احاديثهم الغث والسمين .. الصحيح والضعيف ..

ولا حجة في ذكرهم للحديث ..

معنوی اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے. اگرچہ سند میں ضعف ہے. حاکم وذہبی وغیرہ نے اسے صحیح کہا ہے اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ صحیح  اور قابل استدلال ہے .یہی اہل سنت والجماعت کا صحابہ کرام کے بارے میں موقف ہے. 





Friday 19 November 2021

صلاۃ التسبیح کی اہمیت, فضیلت اورطریقہ

 صلاۃ التسبیح'  بڑی اہماور عظیم اجر و ثواب کی حامل نفل نماز ہے۔ آپ ﷺنے حضرت عباس  اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما  کو یہ نماز بڑی تاکید کے بعد بطورِ تحفہ سکھائی تھی۔  چنانچہحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن اپنے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب سے فرمایا: اے عباس! اے میرے محترم چچا! کیا میں آپ کی خدمت میں ایک گراں قدر عطیہ اور ایک قیمتی تحفہ پیش کروں؟ کیا میں آپ کو خاص بات بتاؤں؟ کیا میں آپ کے دس کام اور آپ کی دس خدمتیں کروں (یعنی آپ کو ایک ایسا عمل بتاؤں جس سے آپ کو دس عظیم الشان منفعتیں حاصل ہوں، وہ ایسا عمل ہے کہ) جب آپ اس کو کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے سارے گناہ معاف فرما دے گا، اگلے بھی اور پچھلے بھی،  پرانے بھی اور نئے بھی، بھول چوک سے ہونے والے بھی اور دانستہ ہونے والے بھی، صغیرہ بھی اور کبیرہ بھی،  ڈھکے چھپے بھی، اور اعلانیہ ہونے والے بھی، (وہ عمل 'صلاۃ التسبیح 'ہے) (میرے چچا) اگر آپ سے ہو سکے تو روزانہ یہ نماز پڑھا کریں اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کے دن پڑھ لیا کریں، اور اگر آپ یہ بھی نہ کر سکیں تو سال میں ایک دفعہ پڑھ لیا کریں اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کم از کم زندگی میں ایک بار ہی پڑھ لیں۔ [ابوداؤد و ابن ماجہ]

اِس لیے سال بھر وقتاً فوقتاً اِس کو پڑھنے اور پڑھتے رہنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اور رمضان المُبارک میں اور دیگر  مُبارک راتوں اور دنوں جیسے شبِ براءت یا شبِ قدر یا جمعہ کے دن میں اِس کو اور بھی زیادہ اہتمام سے پڑھنا چاہیے ، اور یہ کوئی مشکل نہیں،بس دل میں نیکی کے حصول کا شوق اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہونی چاہیے، پھر خود ہی مشقت برداشت کرنا آسان ہوجاتاہے ۔

صلاۃ التسبیح کے فضائل مندرجہ ذیل ہیں:

پہلی فضیلت :'صلاۃ التسبیح' سے دس قسم کے گناہوں کا معاف ہونا:

یہ وہ نماز ہے جس کے پڑھنے سے دس قسم کے گناہ معاف ہوتے ہیں :
(1)اگلے گناہ ۔ (2)پچھلے گناہ ۔ (3)پُرانے گناہ ۔(4)نئے گناہ ۔ (5)غلطی سے کیے ہوئے گناہ ۔(6)جان کر کیے ہوئے گناہ ۔ (7)چھپ کر کیے ہوئے گناہ۔(8)کھلم کھلا کیے ہوئے گناہ۔(9)چھوٹے گناہ ۔(10)بڑے گناہ ۔(ابوداؤد:1297)

دوسری فضیلت : صلاۃ التسبیح سے بکثرت گناہوں کا معاف ہونا:

صلاۃ التسبیح کی برکت سے اللہ تعالیٰ بندوں کے بکثرت گناہ معاف کرتے ہیں ، احادیث طیّبہ میں اِس کثرت کی کئی مثالیں ذکر کی گئی ہیں:
(1)کل اِنسانیت کی تعداد سے بھی زیادہ گناہ ہوں تو مغفرت ہوجائے گی ۔ (ابوداؤد:1298)
(2)ریت کی تعداد سے زیادہ بھی گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔ (ابن ماجہ: 1386)
(3)سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔ (طبرانی کبیر:987)
(4)ستاروں کی تعداد سے زیادہ گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔(مصنف عبد الرزاق:5004)
(5)قطروں کی تعداد سےزیادہ گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔(مصنف عبد الرزاق:5004)

(6)دنیا کے کل ایام سے زیادہ گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔(مصنف عبد الرزاق:5004)
تیسری فضیلت : ایک بہترین تحفہ ، بخشش اور خوشخبری:
نبی کریمﷺنے اپنے چچا حضرت عباس ﷜کو جب یہ نماز  تلقین فرمائی تو اُنہیں اِس نماز کی تاکید بھی فرمائی اور اِس نماز کو تحفہ ، بخشش اور خوش خبری قرار دیا۔ (ابوداؤد:1297—1298)
چوتھی فضیلت : 300 مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھنے کی سعادت:
'صلاۃ التسبیح'  کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اِسے اداء کرتے ہوئے بندے کو تین سو مرتبہ تیسرے کلمہ  (سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرُ) کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر مشتمل بہترین کلمہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے ، اور تیسرا کلمہ بذاتِ خود ایک انتہائی بابرکت اورعظیم الشان اجر و ثواب کا حامل کلمہ ہے، جن کا خلاصہ ملاحظہ کیجیے:
(1)مذکورہ کلمہ ایک مرتبہ پڑھنے پر جنت میں درخت لگ جاتا ہے۔(مستدرکِ حاکم:1887)
(2)یہ کلمہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب کلمہ ہے۔(مسلم:2137)
(3)جنت ایک چٹیل میدان ہے اور مذکورہ کلمہ جنّت کے پودے ہیں ۔(ترمذی:3462)
(4)اس کلمے کے اندر  پائے جانے والے ہر ایک کلمہ کا ثواب اُحد پہاڑ سے زیادہ ہے۔(طبرانی کبیر:10604)
(5)اس کلمے کے پڑھنے پر ہر حرف کے بدلہ دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔(طبرانی اوسط:6491)
(6)اس کلمے کا وِرد جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے بہترین ڈھال ہے۔(طبرانی اوسط:4027)
(7)مذکورہکلمہ پڑھنے والے کے لیے فرشتے اِستغفار(دعائے مغفرت) کرتے ہیں۔(مستدرکِ حاکم:3589)

(8)اس کلمے کا کثرت سے وِرد کرنے والا افضل ترین مؤمن ہے۔(سنن کبریٰ نسائی:10606)
(9)اس کلمے کا پڑھنا گناہوں کی مغفرت اور بخشش کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔(ترمذی:3533)
(10)اس کلمے کا ہر کلمہ صدقہ کرنے کے برابر ثواب رکھتا ہے۔(مسلم:720)
(11)یہ کلمہ میزانِ عمل میں بہت بھاری ثابت ہونے والا کلمہ ہے۔(صحیح ابن حبان:833)
(12)یہ کلمہ قرآن کریم پڑھنے سے عاجز شخص کے لیے بہترین بدل ہے۔(ابوداؤد:832)

'صلاۃ التسبیح' کے بارے میں اَسلاف کے چند اقوال: 
(1)……حضرت عبد العزیز بن ابی روّاد﷫جو حضرت عبد اللہ بن مُبارک﷫جیسے عظیم محدّث کے بھی استاذ ہیں،وہ فرماتے ہیں :جس کا جنت میں جانے کا ارادہ ہو اُس کے لیے ضروری ہے کہ صلاۃ التسبیح کو مضبوطی سے پکڑے۔
(2)……حضرت ابو عثمان حیری ﷫ جوکہ ایک بڑے زاہد ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصیبتوں اور غموں کے ازالے کے لیے صلاۃ التسبیح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی ۔
(3)……علّامہ تقی الدین سبکی ﷫فرماتے ہیں:جوشخص اِس نمازکی فضیلت و اہمیت کو سُن کر بھی غفلت اختیار کرے وہ دین کے بارے میں سستی کرنے والا ہے ، صلحاء کے کاموں سے دور ہے، اس کو پکا(دین میں چست) آدمی نہ سمجھنا چاہیے۔(فضائلِ ذکر ، شیخ الحدیث مولانا زکریا)

امام حاکم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے صحیح ہونے پر یہ دلیل ہے کہ تبع تابعین کے زمانہ سے ہمارے زمانہ تک مقتدا حضرات اس پر مداومت کرتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے رہے ہیں، جن میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ہیں۔ یہ چار رکعات والی نماز ہے جس میں تین سو مرتبہ تسبیحات پڑھی جاتی ہیں۔

صلاۃ التسبیح پڑھنے کا طریقہ :
1۔.. نیت:چار رکعت صلاۃ التسبیح کی نماز پڑھ رہا ہوں’’الله أکبر‘‘پھر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور حسب معمول ثناء پڑھے ، ثنا یہ ہے:
’’سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ، وَلَا إِلٰهِ غَيْرُكَ‘‘
پھر   أَعُوْذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ  اور  بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِپڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے:
’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘
2...رکوع میں جانے کے بعد حسبِ معمول تین مرتبہ ’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘پڑھے، پھر دس مرتبہ مذکورہ بالا تسبیح پڑھے، اس کے بعد رکوع سے اٹھے۔
3...رکوع سےاٹھتے ہوئے پہلے حسب معمول ’’سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهٗ  ‘‘کہے اور کھڑا ہو کر ’’ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘کہے ، پھرکھڑے کھڑے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے۔
4... پھر ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جائے اور حسب معمول ’’ سُبْحَانَ رَبِّیْ الْأَعْلیٰ‘‘تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے، اس کے بعد ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہہ کر سجدے سے اٹھے۔
5... سجدے سے اٹھ کر بیٹھے، اور بیٹھے بیٹھے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے، پھر ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘  کہہ کر دوسرے سجدے میں جائے۔
6...دوسرے سجدے میں جا کر حسب معمول پہلے ’’ سُبْحَانَ رَبِّیْ الْأَعْلیٰ‘‘  تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے۔
7... دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کرمذکورہ بالا تسبیح دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے۔
اس طرح ایک رکعت میں پچھتر(۷۵)مرتبہ یہ تسبیحات پڑھی گئیں، اسی طرح باقی تین رکعتیں بھی پڑھ لے۔یوں چار رکعتوں میں کل تین سو تسبیحات ہو جائیں گی، دوسری اور چوتھی رکعت کے قعدے میں یہ تسبیحات التحیات پڑھنے کے بعد پڑھے۔
دوسرا طریقہ:......حضرت عبد اللہ بن مبار ک سے ایک اور طریقہ بھی ثابت ہے،وہ طریقہ یہ ہے:
’’ نیت باندھنے کے بعد ثناءپڑھے اور اس کے بعد پندرہ مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے پھرأعوذ باللہ، بسم اللہ ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے ان تسبیحات کو دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسرے سجدے تک دس دس مرتبہ پڑھتا رہے،دوسرے سجدے سے اٹھتے ہوئے ان تسبیحات کو نہ پڑھے، بلکہ سجدے سے براہ راست ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہتاہوا سیدھا کھڑا ہو جائے، اس طریقے کے مطابق دوسرے سجدے میں دس مرتبہ پڑھنے کے بعد تسبیحات کی تعداد پچھتر (75) ہوجائے گی۔

بعض علماءکرام  دوسرے طریقے کو افضل کہتے ہیں اور وجہ فضیلت یہ بیان فرماتے ہیں کہ چوں کہ پہلے طریقے میں جلسہ استراحت کی ضرورت پڑتی ہے اور ہمارے ہاں جلسہ استراحت راجح نہیں ؛ اس لیے وہ طریقہ افضل ہے جس میں جلسہ استراحت موجود نہیں، لیکن علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان دونوں طریقوں سے صلاۃ التسبیح پڑھنی چاہیے، کبھی پہلے طریقے سے، کبھی دوسرے طریقے سے۔

صلاۃ التسبیح کا ثبوت:

صلاۃ التسبیح صحیح حدیث سے ثابت ہے۔امام ابو عبد اللہ الحافظ النیسابوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب 'المستدرک علی الصحیحین' میں صلاۃ التسبیح والی حدیث کو ذکر کر کے اس کو صحیح قرار دیا ہے، نیز حاکم رحمہ اللہ نے امت کے تلقی بالقبول سے بھی اس روایت کی صحت پر استدلال کیاہے۔اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر نہ صرف یہ کہ سکوت کیا ہے، بلکہ اس حدیث کے دیگر شواہد بھی پیش کیے ہیں، یہ بات اہلِ علم جانتے ہیں کہ ' مستدرکِ حاکم' کی روایت پر علامہ ذہبی کا سکوت روایت کی صحت ورنہ کم از کم حسن ہونے کی دلیل ہے، جب کہ اس روایت کے شواہد بھی علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ذکر فرمائے ہیں۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم (1/ 464)

' حدثناه أبو علي الحسين بن علي الحافظ إملاء من أصل كتابه، ثنا أحمد بن داود بن عبد الغفار بمصر، ثنا إسحاق بن كامل، ثنا إدريس بن يحيى، عن حيوة بن شريح، عن يزيد بن أبي حبيب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم جعفر بن أبي طالب إلى بلاد الحبشة، فلما قدم اعتنقه وقبل بين عينيه، ثم قال: «ألا أهب لك، ألا أبشرك، ألا أمنحك، ألا أتحفك؟» قال: نعم، يا رسول الله. قال: " تصلي أربع ركعات تقرأ في كل ركعة بالحمد وسورة، ثم تقول بعد القراءة وأنت قائم قبل الركوع: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله خمس عشرة مرةً، ثم تركع فتقولهن عشراً تمام هذه الركعة قبل أن تبتدئ بالركعة الثانية، تفعل في الثلاث ركعات كما وصفت لك حتى تتم أربع ركعات۔ «هذا إسناد صحيح لاغبار عليه، ومما يستدل به على صحة هذا الحديث استعمال الأئمة من أتباع التابعين إلى عصرنا هذا إياه ومواظبتهم عليه وتعليمهن الناس، منهم عبد الله بن المبارك رحمة الله عليه»'۔

قال الذهبي: أخرجه أبو داود والنسائي، وابن خزيمة في الصحيح ثلاثتهم عن عبد الرحمن بن بشر'۔

(المستدرک مع التلخیص، ج:۱ ص:۳۱۹، ط:دار المعرفة، بیروت ) 

مشکاة المصابيح (صـ۱۱۷):

' صلاة التسبیحـعن ابن عباسؓ أن النبي ﷺ قال للعباس بن عبدالمطلب: یا عباس، یا عماه، ألا أعطیک! ألا أمنحک! ألا أخبرک! ألا أفعل بک عشر خصال! إذا أنت فعلت ذلک غفراﷲ لک ذنبک : أوله وآخره، قدیمه وحدیثه، خطأه وعمده، صغیره وکبیره، سره وعلانیته، أن تصلی أربع رکعات تقرء في کل رکعة فاتحة الکتاب وسورة، فإذا فرغت من القراء ة في أول رکعة وأنت قائم، قلت: سبحان اﷲ والحمد ﷲ ولا إله إلا اﷲ واﷲ أکبر خمس عشرة مرةً، ثم ترکع فتقولها وأنت راکع عشراً، ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولها عشراً، ثم تهوي ساجداً فتقولها وأنت ساجد عشراً، ثم ترفع رأسک من السجود فتقولها عشراً، ثم تسجد فتقولها عشرا، ثم ترفع رأسک فتقولها عشراً، فذلک خمس وسبعون في کل رکعة، تفعل ذلک في أربع رکعات، إن استطعت أن تصلیها في کل یوم مرةً فافعل۔۔۔ ' الخ۔
وفي مرقاة المفاتیح(۳۷۷/۳):

' وینبغي للمتعبد أن یعمل بحدیث ابن عباس تارةً، ویعمل بحدیث ابن مبارک أخری' ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 27)

' وأربع صلاة التسبيح بثلاثمائة تسبيحة، وفضلها عظيم.

(قوله: وأربع صلاة التسبيح إلخ) يفعلها في كل وقت لا كراهة فيه، أو في كل يوم أو ليلة مرةً، وإلا ففي كل أسبوع أو جمعة أو شهر أو العمر، وحديثها حسن ؛ لكثرة طرقه. ووهم من زعم وضعه، وفيها ثواب لا يتناهى، ومن ثم قال بعض المحققين: لايسمع بعظيم فضلها ويتركها إلا متهاون بالدين، والطعن في ندبها بأن فيها تغييراً لنظم الصلاة إنما يأتي على ضعف حديثها، فإذا ارتقى إلى درجة الحسن أثبتها وإن كان فيها ذلك، وهي أربع بتسليمة أو تسليمتين، يقول فيها ثلثمائة مرة: «سبحان الله، والحمد لله ولا إله إلا الله، والله أكبر»، وفي رواية زيادة «ولا حول ولا قوة إلا بالله»، يقول ذلك في كل ركعة خمسة وسبعين مرة ؛ فبعد الثناء خمسة عشر، ثم بعد القراء ة وفي ركوعه، والرفع منه، وكل من السجدتين، وفي الجلسة بينهما عشراً عشراً بعد تسبيح الركوع والسجود، وهذه الكيفية هي التي رواها الترمذي في جامعه عن عبد الله بن المبارك أحد أصحاب أبي حنيفة الذي شاركه في العلم والزهد والورع، وعليها اقتصر في القنية وقال: إنها المختار من الروايتين. والرواية الثانية: أن يقتصر في القيام على خمسة عشر مرةً بعد القراءة، والعشرة الباقية يأتي بها بعد الرفع من السجدة الثانية، واقتصر عليها في الحاوي القدسي والحلية والبحر، وحديثها أشهر، لكن قال في شرح المنية: إن الصفة التي ذكرها ابن المبارك هي التي ذكرها في مختصر البحر، وهي الموافقة لمذهبنا ؛ لعدم الاحتياج فيها إلى جلسة الاستراحة ؛ إذ هي مكروهة عندنا. اهـ. قلت: ولعله اختارها في القنية لهذا، لكن علمت أن ثبوت حديثها يثبتها وإن كان فيها ذلك، فالذي ينبغي فعل هذه مرةً وهذه مرةً.

[تتمة] قيل لابن عباس: هل تعلم لهذه الصلاة سورة؟ قال: التكاثر والعصر والكافرون والإخلاص. وقال بعضهم: الأفضل نحو الحديد والحشر والصف والتغابن ؛ للمناسبة في الاسم

صلوۃ التسبیح کاطریقہ

 صلوٰۃالتسبیح چاررکعت نمازہوتی ہے۔یہ نمازرسول اللہﷺ نےاپنےچچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کوبطورتحفہ وعطیہ کےسکھائی تھی،اس کی فضیلت یہ ارشادفرمائی ہے کہ اس کےپڑھنےسےسارےگناہ(چھوٹےبڑے) معاف ہوجاتےہیں۔اس نماز کے کے پڑھنےکےدوطریقےہیں:

ایک طریقہ یہ ہے کہ چاررکعات صلوٰۃ التسبیح کی نیت باندھ کرپہلی رکعت میں کھڑےہوکرثناء،تعوذ،تسمیہ،سورۂفاتحہ اورکوئی سورت پڑھنےکےبعد رکوع میں جانے سے پہلے پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں"سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمدُلِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إلَّاإللّٰہ ُوَاللّٰہ ُأکْبَرُ"پھررکوع میں " سُبحَان َرَبِّي َالعَظِیْم"کےبعددس مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھرقومہ میں " سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ"،"رَبَّنَالَکَ الْحَمدُ" کےبعددس مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھرپہلےسجدہ میں " سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی "کےبعددس مرتبہ پڑھیں،پھرپہلےسجدہ سےاٹھ کرجلسہ میں دس  مرتبہ پھردوسرےسجدہ میں " سُبْحَان َرَبِّیَ الاَعْلٰی"کےبعددس مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھردوسرےسجدےسےاٹھتےہوئے " اَللہ ُاَکْبَرْ  " کہہ کربیٹھ جائیں اوردس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔پھربغیر" اَللہُ اَکْبَرْ " کہےدوسری رکعت کےلیےکھڑےہوجائیں پھراسی طرح دوسری،تیسری اورچوتھی رکعت مکمل کریں۔

دوسری اورچوتھی رکعت کےقعدہ میں پہلےدس مرتبہ تسبیح پڑھیں اورپھرالتحیات پڑھیں۔اسی ترتیب سےچاروں رکعات میں تسبیح پڑھیں،اس طرح چاررکعات میں کل تسبیحات تین سومرتبہ ہوجائیں گی۔

دوسراطریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں کھڑےہوکرثناءکےبعدپندرہ مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھرتعوذ،تسمیہ،سورۂفاتحہ اورکوئی سورت پڑھ کررکوع میں جانےسےپہلےدس مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں،رکوع،قومہ،پہلےسجدہ،جلسہ اوردوسرےسجدےمیں دس دس مرتبہ تسبیح پڑھیں،اس کےبعد"اللہُ اَکبَر"کہتےہوئےسیدھےکھڑےہوجائیں۔

اسی ترتیب سےدوسری،تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیح پڑھیں۔دوسری رکعت میں کھڑےہوتےہی پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھیں گے۔(سنن الترمذی،ابواب الوتر،باب ماجاءفیصلاۃالتسبیح،1/117،قدیمی)اسی ترتیب سےباقی رکعات اداکریں۔یہ دونوں طریقےصحیح اورقابلِ عمل ہیں،جوطریقہ آسان معلوم ہواس کواختیارکیاجائے۔اس نماز کا کوئی خاص وقت نہیں ،اسےمکروہ اوقات کے علاوہ  جب بھی ہوسکے پڑھ  سکتے ہیں