https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 23 November 2021

بٹ کوئن اورکرپٹوکرنسی کاحکم

 الجواب حامداً ومصلیاً واضح رہے کہ کسی بھی قدری (Valueable) چیز کے کرنسی بننے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی حکومت اور اسٹیٹ کی جانب سے اس کرنسی کو سکہ اور ثمن تسلیم کرکے اس کو عام معاملات (لین دین) میں زرِمبادلہ کا درجہ دے دے دیا گیا ہو، ایسی کرنسی کو لوگ رغبت ومیلان کے ساتھ قبول کرنے کے لیے آمادہ بھی بن جائیں اور اُسے رواجِ عام مل جائے۔ ۱:… مذکورہ ڈیجیٹل کرنسی نہ تو کسی حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ کرنسی (ثمن) ہے اور نہ ہی تمام لوگوں میں اس کا رواج ہے، لہٰذا اس کی ثمنیت قابلِ اعتبار نہیں ہے اور محض چند ٹوکن جن کی کوئی واقعی مالی حیثیت نہیں ہے، ا س کی قیمت ۱۰۰ یورو سے ۲۸۰۰۰ تک مقرر کرنا درست نہیں ہے۔ نیز اگر مجوزہ ڈیجیٹل کرنسی کو بالفرض قانونی واصطلاحی کرنسی تسلیم کرلیا جائے تو ڈیجیٹل کرنسی کا مبادلاتی عمل (لین دین) شرعی لحاظ سے بیع صرف (نقدی کا لین دین) کہلائے گا، جبکہ نقدی کا آپس میں تبادلہ کرتے وقت ایک ہی مجلس میں قبضہ ضروری ہے، جبکہ مذکورہ کمپنی ٹوکن دینے کے ۹۰ دن بعد ان ٹوکنوں کو دگنا کرکے ڈیجیٹل کوائنز (سکوں) میں تبدیل کرکے دیتی ہے تو یہ بھی بیع صرف میں اُدھار کی ایک صورت ہونے کی وجہ سے ناجائز ہی ہے ، لہٰذا سوال میں مذکور منافع کا پہلا طریقہ بھی ناجائز ہے۔فتاویٰ شامی میں ہے: ’’والمالیۃ تثبت بتمول الناس کافۃً أو بعضہم والتقوم یثبت بہا وبإباحۃ الانتفاع بہٖ شرعاً۔‘‘                                              (ج:۴،ص:۵۰۱،ط:ایچ ایم سعید) وفیہ ایضاً: ’’ہو مبادلۃ شئ مرغوبٍ فیہ بمثلہٖ علی وجہٍ مفیدٍ مخصوصٍ۔‘‘                                                            (ج:۴،ص:۵۰۶،ط:ایچ ایم سعید) بدائع الصنائع میں ہے: ’’وأما الشرائط (فمنہا) قبض البدلین قبل الافتراق لقولہٖ علیہ الصلاۃ والسلام فی الحدیث المشہور والذہب بالذہب مثلاً بمثل یداً بید والفضۃ بالفضۃ مثلاً بمثل یداً بید، الحدیث۔‘‘                                 (فصل فی شرائط الصرف،ج:۵،ص:۲۱۵) ۲…مذکورہ کمپنی کے منافع حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ جس کی تین صورتیں ہیں، یہ تینوں صورتیں دراصل کمیشن کے تحت آتی ہیں اور کمیشن کی اسلامی قانونِ تجارت اور تبادلہ میں مستقل تجارتی حیثیت نہیں ہے، اس لیے کہ جسمانی محنت (جو کہ تجارت کا ایک اہم جزء ہے) کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر فقہاء کرام نے اصولاً اس کو ناجائز قرار دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت اور تعامل کی وجہ سے ا س کی محدود اور مشروط اجازت دی ہے، بظاہر مذکورہ کمپنی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کا سرمایہ اپنے کاروبار میں لگا کر اور ممبردر ممبر سازی کرکے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرنا اور اس حاصل ہونے والی رقم سے لوگوں کو کمیشن فراہم کرنا ہے، لہٰذا اس کمپنی سے معاملہ کرنا اور اس میں سرمایہ کاری کرکے منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے، چونکہ اس کمپنی کے کوائنز اور ٹوکن خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اس کمپنی کے ممبر بن کرمذکورہ تینوں صورتوں ’’Direct Sale‘‘ ، ’’ Network Bounus ‘‘ اور ’’Matching Bounus‘‘ کے ذریعے کمیشن حاصل کرنا بھی درست نہیں ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ’’والربح إنما یستحق بالمال أو بالعمل أو بالضمان۔‘‘                             (فتاویٰ شامی، کتاب المضاربۃ،ج:۵،ص:۶۴۶،ط:ایچ ایم سعید) وفیہ ایضاً: ’’سئل عن محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار: فقال: أرجو أنہ لابأس بہ وإن کان فی الأصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیرمن ہذا غیر جائزۃ فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ۔‘‘                          (فتاویٰ شامی ،مطلب فی أجرۃ الدلال،ج:۶،ص:۶۳،ط:ایچ ایم سعید) الأشباہ والنظائر میں ہے: ’’ما أبیح للضرورۃ یقدر بقدرہا۔‘‘ (الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الخامسۃ: الضرر یزال،ص:۸۷، قدیمی) وفیہ ایضاً: ’’وصرح بہ فی فتاویٰ قاری الہدایۃ ثم قال والعقد إذا فسد فی بعضہ فسد فی جمیعہٖ۔‘‘                    (الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الثانیۃ،ص:۱۱۷، قدیمی) ۳… مذکورہ کمپنی کے کوائنز (سکوں) کا حصول اور ان کی خرید وفروخت چونکہ ناجائز ہے، اسی طرح ان کوائنز کو دگنا کرکے بیچنا بھی ناجائز ہے۔البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے: ’’إن فساد العقد فی البعض إنما یؤثر فی الباقی إذا کان المفسد مقارناً۔‘‘                                     (البنایۃ شرح الہدایۃ ،ج:۸،ص:۱۷۷) نیز ان کوائنز (سکوں) کی زیادتی بلاعوض ایک عقد میں لازم ہونے کی وجہ سے بھی جائز نہیں ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ’’باب الربا ہو لغۃً مطلق الزیادۃ وشرعاً (فضل) ولو حکماً فدخل ربا النسیئۃ والبیوع الفاسدۃ فکلہا من الربا فیجب رد عین الربا ولو قائمًا لارد ضمانہٖ لأنہٗ یملک بالقبض قنیۃ وبحر (خال عن عوض) … مشروط ذٰلک الفضل لأحد العاقدین۔‘‘   (فتاویٰ شامی ،ج:۵،ص:۱۶۸،۱۶۹،ط:ایچ ایم سعید) ۴،۵…مذکورہ کمپنی کا ٹوکن اور کوائنز کا لین دین کرنا چونکہ ناجائز ہے، اس لیے اگر کوئی اس کمپنی میں صرف کوائنز حاصل کرنے کے لیے رکنیت حاصل کرے اور نیٹ ورکنگ (Networking) کے ذریعے اگرچہ ممبر سازی نہ کرے، تب بھی ان کوائنز کو خریدنا جائز نہیں ہے۔  نیز اس طرح کی مشکوک کمپنی کے کارو بار میں سرمایہ کاری کرنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ شریعتِ اسلامی میں کاروبار اور لین دین کا مدار معاملات کی صفائی اور دیانت وامانت پر ہے اور فرضی چیزوں کے بجائے اصلی اور حقیقی چیزوں کی خرید وفروخت اور حقیقی محنت پر زور دیتی ہے اور استفتاء کے ساتھ منسلکہ فتویٰ سے یہ بھی بات واضح ہوتی ہے کہ ’’One Coin ‘‘ (ون کوائن) کمپنی کے معاملات صاف اور واضح نہیں ہیں، لہٰذا ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ بظاہر دوسروں کا مال، غیر واضح، مبہم اور ناجائز طریقے سے ہتھیانے کے مترادف ہے، جسے شرعی اصطلاح میں ’’اکل باطل‘‘کہتے ہیں۔ تفسیر کبیر میں ہے: ’’قال بعضہم: اللّٰہ تعالٰی إنما حرم الربا حیث أنہ یمنع الناس عن الاشتغال بالمکاسب… فلایکاد یتحمل مشقۃ الکسب والتجارۃ والصناعات الشاقۃ۔‘‘                                                      (التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ البقرۃ،ج:۷،ص:۹۱، ایران) ’’ بعض علماء فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس لیے سود کو حرام قراردیا ہے کہ یہ لوگوں کو اسباب معاش اختیار کرنے سے روکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا لوگ کمائی، تجارت اور سخت محنتوں کے بوجھ برداشت کرنے سے کتراتے ہیں۔‘‘ احکام القرآن میں ہے: ’’نہٰی لکل أحد عن أکل مال نفسہ ومال غیرہٖ بالباطل وأکل مال نفسہٖ بالباطل إنفاقہٗ فی معاصی اللّٰہ وأکل مال الغیر بالباطل قد قیل: فیہ وجہان: أحدہما ما قال السدی وہو أن یاکل بالربا والقمار والبخس والظلم وقال ابن عباسؓ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ والحسن رحمہ اللّٰہ تعالٰی أن یأکلہٗ بغیر عوض۔‘‘                                                                       (احکام القرآن ،ج:۲،ص:۲۱۶، دار الکتب العلمیہ، بیروت) ’’ہر ایک کو اپنا مال اور دوسروں کا مال ناحق طور پر کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اپنے مال کو ناحق طور پر کھانا یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کیا جائے اور دوسرے کے مال کو ناحق طور پر کھانے کے متعلق آیا ہے اس کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت: سدیؒ فرماتے ہیں : اس کو سود، جوا، کمی(ناپ تول میں) اور ظلم کے ذریعہ کھائے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حسنؒ فرماتے ہیں کہ: اس کو بغیر عوض کے کھائے(سودی معاملہ کرے)۔‘‘     الجواب صحیح              الجواب صحیح          الجواب صحیح                 کتبہٗ   ابوبکرسعید الرحمن         محمد شفیق عارف         رفیق احمد بالاکوٹی          محمد طیب حیدری                                                                    تخصصِ فقہِ اسلامی                                                          جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔

No comments:

Post a Comment