https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 25 November 2021

حضرت الاستاذ مولاناعلی محمد علیہ الرحمۃ

 حضرت الاستاذ مولاناعلی محمد قاسمی ہرواڑی علیہ الرحمۃ 

زہدوتقوی, تعلیم وتعلم درس و تدریس شرم وحیا متانت وسنجیدگی بے باکی ووضعداری خودداری وغمناکی شرافت وکرامت سے منسوب پیکر علم ودیانت حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ کی شخصیت میوات کے طبقۂ علماء میں محتاج بیان نہیں .آپ سے میں نے مدرسہ میل کے زمانۂ قیام میں صرف ونحومنطق فلسفہ, معانی وبلاغت وغیرہ علوم اسلامی ہی کی تحصیل نہیں کی بلکہ اس کارگہ حیات کے بے شمار اتارچڑھاؤ, نشیب و فراز سے روبرو ہونے کے وہ نکتہائے دقیق بھی سیکھے جنہیں عام طور پر اوراق کتب میں نہیں لکھاجاتا.

حیران ہیں اب جائیں کہاں ڈھونڈنے تم کو

آئینۂ ادراک میں بھی تم نہیں رہتے


دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں بحیثیت طالب علم میں نے دومرتبہ داخلہ لیا. سب سے پہلا مرحلہ وہ تھا جب کہ" باتک سدنل ید ہل" سے میری تعلیم کاآغاز ہواان دنوں مولانارحیم اللہ سلطانپوری یہ رسالہ پڑھایاکرتے تھے. موصوف بہت ہنس مکھ مزاحیہ طبع تھے. بہت سے بچوں کاایک ساتھ سبق سنتے تھے مجھ جیسے نابکاراس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت کے سامنےانگلی چلاتے ہوئے ہونٹ ہلاتے ہوئے پڑھائی کےشور کاپورا پورا فائدہ اٹھاتے.اس طرح کئ دن سبق سنایا لیکن ایک روز مولانا رحیم اللہ صاحب نے تاڑلیا اس کے بعد ہی حقیقتاً تعلیم کاصحیح طور پر آغاز ہوا اس کے بعد میں نے قاری صابر صاحب تاؤلوی علیہ الرحمہ کے درجہ میں حفظ قرآن مجید کی شروعات کی.اس زمانے میں میرے نگراں حافظ منشی صاحب دامت برکاتہم ہواکرتے تھے وہ میرے والدماجد علیہ الرحمہ کے مرکز نظام الدین میں ہم درس رہ چکے تھے اس دور میں بھی حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمہ کادارالعلوم محمدیہ میں طوطی بولتا تھا. اس وقت مولانانثاراحمدبستوی ,مولاناصغیرصاحب بستوی بڑے اساتذہ تھے, مولاناصغیر صاحب اکثر صبح کوحاضری لیتے تھے, اورمولانانثارصاحب سراپامتانت وسنجیدگی حلم وبردباری تقوی وطہارت کاایساپیکرتھے جسے دیکھ کربڑے بڑے اساتذہ بے محابہ کھڑےہوجاتے تھے میں انہیں دیکھ کر دل دل میں خوش ہوتا تھا ان کا رعب ودبدبہ طلباء ہی نہیں اساتذہ پربھی تھا. مولانا علی محمد علیہ الرحمہ اس زمانے میں اپنے ہم عمرطلباء کوشرح جامی مختصرالمعا نی, شرح تہذیب, سلم العلوم, قطبی کافیہ وغیرہ پڑھاتے تھے, اس دور کے منتہی درجات کےطلباء میں مولاناجمال الدین عرف دادا, مولاناسراج الدین مالپوری, مولاناشرف الدین چلی, مولاناعالم چلی,وغیرہ ہواکرتھے .مولانا علی محمد صاحب ان لحیم شیحم طلباء کے مابین ان کے ہم درس معلوم ہوتے تھے. لیکن سبھی طلباء پر ان کارعب ودبدبہ قابل دیدہوتاتھا. ان کی ضرب مبرح اورغیرمبرح,نیزمتانت,وسنجیدگی سےسبھی خائف رہتے تھے. ان کی آمد ہوا کے جھونکے کی طرح اچانک ہوتی تھی جودریامیں غول کے  غول کوخس وخاشاک کی طرح بہالیجاتی ہے. کبھی نماز کے وقت یااس کے بعدیا اس سے پہلے لیکن ان کی طویل ترشاخ نخیل کے نشانے پر چندایک ہی جیالے آتے تھے زیادہ ترعدیم الفرصتی یابھاگ دوڑ کی اس قیامت صغری میں نصف, سدس ,ثمن ہی بقدرخوش قسمتی حصہ پاتے تھے لیکن بعض نصیبہ ور ایسے بھی ہوتے جومثنی ورباع کی کیفیت سے دوچار ہوتے اورکمریاہتھیلی کے تکلیف دہ لیکن مقدس احساس کا کام ودہن سےشکوہ کرتے روتے بلبلاتے رہ جاتےجبکہ بہت سے اپنی اس حرماں نصیبی پرہنستے کھلکھلاتے.یہ آمدبادصرصرسے بھی زیادہ پرسکون ہوتی لیکن اس کے بعد کاسماں اجڑے ہوئے کارواں کی یاددلاتاتھا بقول علامہ اقبال :

آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

لگتاہے اس مقام سےگذرے ہیں کتنے کارواں

حضرت مولانا سے اس زمانے میں مینے کچھ نہیں پڑھاچونکہ وہ عربی کی بڑی کتابیں پڑھایاکرتے تھے میں اس زمانے میں درجۂ تحفیظ القرآن کاطالب علم تھا. تاہم میری خوش بختی کہ پھر بھی مجھے حضرت سے استفادہ کاموقع ملا:اس دور میں دارالعلوم محمدیہ میں سالانہ جلسہ بڑے تزک واحتشام سے ہوتا تھا جس کی تیاری ایک ماہ پہلے ہی سے شروع ہوجاتی تھی. تاریخ موعودپردوردراز سے مہمانان گرامی کی آمد آمد جشن کاسماں باندھتی تھی, رات دن تقاریر رٹنا پھربارباران کی ریہرسل ہوتی رہتی تھی کبھی مہتمم صاحب علیہ الرحمہ کے سامنےکبھی مولاناصغیر صاحب کی نگرانی میں کبھی مولاناعلی محمد صاحب کی موجودگی میں غرضیکہ ایک لامتناہی سلسلہ تھا. مجھے مولاناوحید الدین خاں صاحب کے الرسالہ سےایک تقریر یاد کرنے کا حکم ملا. مولاناعلی محمد صاحب کی نگرانی میں,خود حضرت الاستاذ  نے مہتمم صاحب علیہ الرحمہ  سے یہ کہتے ہوئے استدعاء کی کہ میں انہیں یاد کراؤں گا. آپ نے مجھے کبھی میدان میں کبھی اپنے کمرے کے سامنے کبھی زینہ کے اوپر بہ آواز بلند تقریر مسلسل کرتے رہنے کاحکم دیا لہذامیں صبح آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک پھر ظہرکے بعد سے عصر تک تقریر رٹتا رہتا اور حضرت کی توجہ تام کایہ عالم تھا کہ جب بھی ادھرسے گذرتے جواب آں غزل کے طور پر کسی بھی رطب ویابس قطعۂ نخیل سے نواز جاتے. اس طرح میں نے حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمہ سے تقریر کافن سیکھا ایسا فن جس کااظہارانہوں نے پوری عمر خودکبھی نہیں فرمایا بلکہ ان کی شرمیلی طبیعت سے اس کا تصور بھی محال تھا. البتہ ان کی ضرب نخیل سے بے شمار مقرروں نےجلاپائی.جمعرات کوبعد نماز مغرب تقریری مشق کے لئے طلبا کی انجمن قائم ہوتی تھی ظہرکے بعد تقاریریادکی جاتیں اوربعد مغرب باقاعدہ طلباء کے ایک گروہ کے سامنے اس کی باقاعدہ مشق کی جاتی. اس کی نگرانی عام طور پر حضرت الاستاذ ہی فرماتے تھے تاہم درجۂ حفظ کے طلباء کواس سے استثنی حاصل تھا. دوسری بار جب میں نے دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں داخلہ لیا تواس کی تقریب کچھ اس طرح رہی کہ حضرت الاستاذ رمضان المبارک کی تعطیلات میں ضلع جھنجھنوں راجستھان چندہ کرنے جاتے تھے جہاں والد صاحب کاقیام تھا. آپ والد ماجد کے پاس قصبہ مہنسر کئ کئ روز قیام فرماتے میں ان دنوں دارالعلوم بساؤ میں جواب انعام العلوم کے نام سے اس علاقے کا مشہور مدرسہ ہے زیرتعلیم تھا. میل سے پہلے مرحلے میں دس پارے حفظ کرنے کے بعد مجھے یہاں داخل کردیا گیا تھا یہاں میں نے تکمیل حفظ کے علاوہ فارسی کی تکمیل کی نیز میزان منشعب نحومیرصرف میر مفید الطالبین وغیرہ ابتدائی عربی کتب پڑھیں لیکن والد صاحب نے علاقہ شیخاواٹی مہنسر راجستھان سے دہلی منتقل ہونے کاارادہ کیاکیونکہ مدرسہ بساؤ میں انتظامیہ اورمیواتی اساتذہ و طلباء کے مابین سخت معرکہ آرائی ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں کئی اساتذہ وطلباء زخمی بھی ہوئے بالآخر سبھی میواتی طلباء واساتذہ کوبادل ناخواستہ مدرسہ چھوڑناپڑا اس وقت مدرسہ انعام العلوم بساؤ میں مولاناجمیل احمد صاحب کوٹ رحمۃ اللہ علیہ صدرالمدرسین تھے آپ کے خسر حاجی نورمحمد علیہ الرحمہ کوٹوی اس مدرسہ کے بانی تھے وہ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی قدس سرہ العزیز کے مریدتھے .ان کی خداترسی للہیت اورطلباء کی خدمت اوردینی لگن کویادکرکے آج بھی دل کوسکون ملتاہے.

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

بہرکیف بساؤسے میواتی اساتذہ وطلباء کایہ قافلہ مہنسر ریلوے اسٹیشن پروالد صاحب سے ملاقات کرتے ہوئے میوات کے لئے عازم سفر ہوا اس کے بعد مدرسہ انعام العلوم میں میواتی طلباء واساتذہ کاداخلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا. لیکن ہم دونوں بھائی ڈاکٹر ابوالفضل ندوی اورراقم الحروف میواتی ہونے کے باوجود اس ضابطہ سے متثنی رکھے گئے.اس کی مختلف وجوہات تھیں منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اتفاق سے شورش کے دن میں مدرسہ میں موجود ہی نہیں تھاوالد ماجدرحمہ اللہ کے پاس مہنسر گیاہواتھااور ابوالفضل بہت چھوٹے تھے جن پرکسی طرح کاالزام لگاناممکن نہ تھا لہذاہم دونوں اس کے بعد بھی ایک یادو سال مدرسہ انعام العلوم میں زیرتعلیم رہے. وہاں کے اساتذہ میں مولاجمیل احمد کوٹ رحمہ اللہ قاری نورمحمد چھائنسہ رحمہ اللہ کے علاوہ استاذالاساتذہ مفتی محمد یحیی قاسمی رحمہ اللہ. مولانامحمدیونس مظاہری مدظلہ العالی  مولانااکرام الحق باغپتی قابل ذکرہیں مفتی یحیی صاحب سے نحومیرصرف میر پڑھنے کاشرف حاصل ہواان کی محبت وشفقت کی یاد آج بھی سایہ کی طرح ساتھ رہتی ہے. ایک مرتبہ ایک طالب کوحضرت نے غصہ میں ہاتھ میں قمچی ماردی یہ ظہرکے بعد کاواقعہ تھاعصرکی نماز کے بعد سبھی طلباء کوعصرکی نماز کے بعدروک لیا اورمنبر پربیٹھ کراس طالب علم سے درخواست کی کہ وہ اپنا بدلہ لے لے اگر بدلہ لے گا تومجھے خوشی ہوگی کیونکہ میں آخرت کی گرفت سے بچ جاؤں گا یامجھے معاف کردے اس طالب علم نے عرض کیاحضرت میں نے معاف کیا یہ سن کر رونے لگے. اب انہیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر. 

انعام العلوم کے ناگفتہ بہ حالات کے مدنظر حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ کی رمضان المبارک میں آمد پر والدصاحب نے آئند ہ میل میں داخلے کی بات کی میراامتحان بھی صرف میر اورنحومیرکالیا. اس کے بعد میں نے القراۃ  الواضحۃ, تیسرالمنطق, مرقات, ہدایۃ النحو, کافیہ شرح تہذیب , سلم العلوم, قطبی  ,شرح جامی مختصر المعانی, ملاحسن ہدایۃ الحکمت, میبذی وغیرہ ترجمۂ  قرآن مجید  وغیرہ کتب پڑھیں. آپ کااندازتعلیم مولاناخورشید عالم عثمانی دیوبندی کے طرز پر تھا. لیکن ضرب شدید میں آپ اپنے استاذ سے بہت فائق تھے. اس زمانے میں عصانہ ہوتوکلیمی ہے کار بے بنیاد ,کے بقول یہ مشہور تھا کہ جوان کی زدوکوب سے لطف اندوز ہوگیا اس پر علم وعمل کے چہار طبق روشن ہوگئے. الحمد للہ راقم الحروف نے اس سے وافرحصہ پایا لیکن بادئ النظر میں سبھی طبق اب تک تاریک ہیں. نحومیں آپ کی نظیرمشکل تھی. حقیقتاً یہ علم آپ نے اپنے استاذ مولاناغلام قادرکشمیری سے حاصل کیاتھا جودارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے اولین اساتذہ میں تھے. دارالعلوم دیوبند میں بھی ان کی علمی صلاحیتوں کے چرچے تھے. آپ میرے پھوپا مولاناروزہ دارخانصاحب کے درسی ساتھی تھے. 1984میں جب بساؤ راجستھان میں عالمی تبلیغی اجتماع ہواتوحضرت مولانامحمدقاسم رحمہ اللہ سابق مہتمم دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے ساتھ آپ بھی بساؤ اجتماع میں شرکت کی غرض سے نیز ہم لوگوں سے ملنے فرید آباد سے تشریف لائے تھے مہتمم صاحب رحمہ اللہ بھی ساتھ تھے .

دوسری مرتبہ جب میراداخلہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں ہوا توحضرت الاستاذ سے استفادہ کابہت موقع ملا. لیکن حضرت کارنگ مدرسہ مذکور میں بالکل مختلف تھا جبکہ راجستھان میں جب تشریف لاتے تھے توبالکل مختلف تھے. میں نےمیل سے پہلے اس ضرب مبرح کےرنگ وروپ نہیں دیکھے تھے جویہاں اپنی تمام تر رعنائی وآب وتاب کے ساتھ  جلوہ گر تھی. اس سے مرعوب ہوکرہمیشہ کے لئے اسے خیرباد کہتے ہوئے ایک روز میں نے دارالعلوم بساؤ کے لئے چپکے سے رخت سفر باندھ لیاکیونکہ حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایاتھاکہ "تمہیں کل دیکھوں گا". میں نے خوف کا مبالغہ آمیز تصور باندھتے ہوئے مدرسہ انعام العلوم بساؤ کے لئے رخت سفر باندھ لیا.تاکہ حضرت کے عتاب سے بچ سکوں .

نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں

.اس وقت بارہ روپے میرے پاس تھے. میں پہلے بھرت پور تک بس میں گیا وہاں سوچاکہ ریلوے اسٹیشن دیکھنا چاہیے کیونکہ ٹرین میں کرایہ کم لگے گا. بھرت پورریلوے اسٹیشن پرآگرہ جانے والی ٹرین کھڑی تھی. ٹرین پرآگرہ کانام پڑھ کر تاج محل کی چمک دمک نے اپنی طرف کھینچا میں نے سوچا آزادی سے فائدہ اٹھانا چاہیے زندگی میں تاج محل توایک بار ضرور دیکھا چاہیے پھرعمروفارہے رہے نہ رہے. چارروپیہ آگرہ کاکرایہ تھاجس سے مجھے اورمہمیز ملی لہذاآگرہ کی ٹرین میں بیٹھ گیاشام سات بجے آگرہ اترا. ریلوے اسٹیشن پر فیروزآباد کے ایک باریش ضعیف مسلمان مسافر نے مدرسہ کابچہ سمجھ کرمجھے اپنے ساتھ بیٹھالیا رات بھر اسٹیشن پربھوکے پیاسے گذاری صبح فجرکی اذان شاہی مسجدکے میناروں سے بلندہوئی تو اس مسافرکے ساتھ شاہی مسجد آگرہ میں فجر کی نماز پڑھی. نماز کے بعد نہایت ضعیف وناتواں امام نے صلوۃ وسلام پڑھناشروع کردیا اس مسافرکے ساتھ میں بھی ہاتھ باندھ کر کھڑاہوگیا.کیونکہ کہاوت ہے: when you are in  Rome do as the Romans do. یعنی بامسلماں اللہ بابرہمن رام رام.( علی گڑھ میں عرصۂ دراز کے بعد مجھے ایک صاحب نے اطلاع دی کہ ان امام صاحب کابعد میں قتل ہوگیاتھا. )غرض صلوۃ و سلام کے بعد فیروزآبادی کرم فرمانے اپنی راہ لی اور میں آگرہ کی سیرکونکلا. سب سے پہلے منی بس میں تاج محل گیا وہاں ٹکٹ لے کرتاج محل کےحسن وجمال کوقریب سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن مجھے وہاں حسن وجمال نام کی کوئی چیز نظرنہیں آئی. ایک جم غفیر کوزیارت کے لئے قطار میں دیکھ کر مجھے ہنسی آتی تھی اورلوگوں کی حماقت پر افسوس ہوتا تھا کہ یہ لوگ کیوں اپناوقت اورپیسہ برباد کرنے یہاں آئے ہیں.کیونکہ میں نے منزل مقصود بساؤ کوسمجھ رکھاتھا. مرادرمنزل جاناں چہ امن و عیش چوں ہردم 

جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا 

جب تاج محل میں جی نہ لگا تومجھے خیال آیا مدرسہ افضل العلوم میں اباجی نے پڑھایاتھاچلوآج اس کی بھی زیارت کرچلیں. لیکن مدرسہ کے دروازے سے واپس لوٹ آیا , مبادا یہ لوگ مجھے پکڑکر مدرسہ واپس نہ بھیج دیں. بالآخر آگرے کے راستوں میں تھکا ماندہ یہ مسافر یوں ہی بھٹکتا رہا.

وہ جس کی منزل مقصود کہکشاں سے پرے.

ہمارے ساتھ فقط چند گام آتے ہیں.

بالآخر آگرہکینٹ سے جے پور کی راہ لی جیب خالی تھی بغیرٹکٹ ہی جے پور کے لئے بیٹھ گیا پھرخیال آیا ٹی ٹی کوکیاجواب دیں گے لہذا سیٹ کے نیچے سوتے ہوئے جے پور پہنچے وہاں سے سیکر ہوتے ہوئے بساؤ مدرسہ انعام العلوم جاپہنچا. کئی دن کی بھوک و فاقہ مستی سے طبیعت نڈھال ہوچکی تھی .لہذا جاتے ہی اپنے ساتھیوں سے کھانے کی فرمائش کی ادھروالدصاحب کومیرے جانے کی اطلاع ہوئی توسخت صدمہ ہوا دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا آکرمیرے سامان کاجائزہ لیاتوانہوں نے اندازہ لگالیاکہ میں نے بساؤ کی راہ لی ہے. مولاناعلی محمد صاحب والد صاحب کے شاگرد تھے انہوں نے گلستاں بوستاں نحومیر صرف میروغیرہ والد صاحب سے مدرسہ افضل العلوم آگرہ میں پڑھی تھی.جس کی ابتدا کچھ اس طرح ہوئی : مدرسہ افضل العلوم کے قیام کے وقت سب سے پہلے مدرس حضرت مولانادین محمد صاحب لکھناکارحمۃ اللہ علیہ ,کومدرسہ میل سے بھیجا گیا آپ یہاں کے اولین اساتذہ میں سے ایک بہت ہی متدین اور خداترس عالم دین تھے. ان کے ساتھ چند طلباء بھی تھے جن میں مولاناعلی محمد علیہ الرحمہ بھی تھے والد ماجد اس کے اولین صدرمدرس مقرر ہوئے. اس طرح مدرسہ افضل العلوم کاقیام عمل میں آیا اس وقت مدرسہ چھم چھم گلی میں تھا. مولاناعارف صاحب اس کے اولین مہتمم تھے. جب مدرسہ کومقامی طلبہ مل گئے تومیواتی طلباء جن میں حضرت الاستاذ بھی تھے واپس دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا آگئے. غرض والد صاحب نے میرے خطوط وغیرہ پڑھ کرمیری تلاش میں بساؤ جانے کافیصلہ کیا بالآخر دوبارہ حضرت الاستاذ کی زیرنگرانی آگیا.اب جب بھی اس سفر بے راہ روی کاخیال آتاہے توکف افسوس ملتے ہوئے ہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور سوچنے لگتاہوں کہ اتنالمباسفر تن تنہااتنی کم عمری میں میں نے کیسے طے کر لیا! تبارک اللہ ازیں فتنہا کہ درسر ماست. 

حضرت الاستاذ کی مثال اس ناپیدکنار دریاکی تھی جس میں مختلف اشیاء ہوتی ہیں اور وہ سب کو یکساں طور پر بہائے لیجاتاہے.تصوف وطریقت پرجب گفتگو ہوتی شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی کی فصوص الحکم اورفتوحات مکیہ پر ایسے تبصرہ کرتے گویا اس دریا کے قدیم شناور وغواص ہیں. منطق وفلسفہ پرجب گفتگو فرماتے توعلامہ قطبی کی طرح اپنی بھی ایک رائے پیش فرماتے غرض:اسی دریاسے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی. نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا. 

اگرچہ ان کا اصل میدان بظاہرنحوتھالیکن فی الحقیقت وہ کوچۂ تصوف کے سالک تھے. مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب شروانی جلال آباد ی خلیفہ اجل حضرت تھانوی سے باقاعدہ بیعت کی اور ان کے ہاں اکثرقیام فرماتے.فلسفیانہ مسائل سے آپ کودلچسپی تھی. اقبال کے تصور خودی کی بھی بہت جامع تشریح فرماتے.

مجذوب کبھی سوز کبھی سازہے تجھ میں

تومیرکبھی اورکبھی سودانظرآیا

کافیہ پرلمبی چوڑی تقریرات سنتے ہوئے ایک روز میں نے حضرت سے یہ دریافت کرنے کی جر ات کی "الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفرد بہت ہی مختصر جملہ ہے. لیکن کلمہ, لفظ ,پر شارحین ایک ایک دن گذاردیتے ہیں اوراپنی طرف سے اشکال وجواب کاایک لامتناہی سلسلہ قائم فرماتے ہیں .اتنی طویل تقریر صاحب کافیہ علامہ ابن حاحب کے ذہن میں سچ مچ تھی بھی یامحض یہ شارحین کی اختراع ہے ؟توفرمایااس میں کچھ اختراع بھی ہے لیکن مقصود فن کی باریکیوں سے روشناس کرانا ہے .حضرت مہتمم صاحب رحمہ اللہ سے آپ کا تعلق استاذ شاگرد کارہا دارالعلوم محمدیہ سے علیحدگی کے بعد بھی حضرت کاذکرخیر محبت اور والہانہ انداز میں فرماتے عقیدت واحترام میں ذرابھی فرق نہیں پڑا تھا.حضرت مہتمم صاحب بھی آپ کاذکر بڑی محبت سے فرماتے تھے .ان دواساطین کی وفات حسرت آیات دل سے بھلائے نہیں بھولتی :


تمہاری موت نے مارا ہے جیتے جی ہم کو

ہماری جان بھی گویا تمہاری جان میں تھی

2 comments:

  1. ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت انداز کا یہ تعزیت نامہ نہ صرف یہ کہ  تعزیت نامہ بلکہ دارالعلوم محمدیہ کی مختصر تاریخ
    اور بہت سے قابل علماء کا تذکرہ جنکے میں نے نام بھی نہ سنے تھے میرے والد صاحب مولانا قطب الدین صاحب سے آپکے والد صاحب صاحب حضرت مولانا رحیم بخش رحمة الله کا بارہا ذکرِ خیر سنا ایک مضمون انکی زندگی پر بھی قلمبند کریں. جزاک اللہ خیر رحم الله والديك وبارك الله فيك و ف ذريتك

    ReplyDelete