https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 20 November 2021

تحقیق حدیث من سب علیا فقد سبنی

 

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مقام اور ان سے محبت یا بغض یاعداوت رکھنے والوں کا مقام اور حکم خود حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم نے بیان فرما رکھا ھے،اس کی روشنی میں ایسے لوگوں کا حکم بالکل واضح ھے۔ چنانچہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اس سلسلے میں چندارشادات ملاحظہ ھوں: 1: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،ان کو میرے بعدہدف اورنشانہ ملامت مت بنانا،،یادرکھو جو شخص ان کودوست رکھتا تو وہ میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ھے اور جو ان سے دشمنی رکھتا ھے تو وہ مجھ سے دشمنی رکھنے کے سبب ان کو دشمن رکھتا ھے، اورجس شخص نے ان کو اذیت پہنچائی اس نےگویا مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے گویا خدا کو اذیت پہنچائی،اور جس نے خدا کو اذیت پہنچائی تو وہ دن دور نہیں جب خدا اس کو پکڑے گا۔ جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلّم، 2225، ط:قدیمی کراچی 2: تم میرے صحابہ کو برا نہ کھو، حقیقت یہ ھے کہ تم میں سے کوئی شخص احدپہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے صحابہ کے ایک مدیاآدھے مد کے ثواب کے برابربھی نہیں پہنچ سکتا۔ صحیح مسلم، باب تحریم سبّ الصحابہ، 2310، ط: قدیمی کراچی 3: میرے اصحاب کی تعظیم وتکریم کرو کیونکہ وہ تمھارے برگزیدہ اور بزرگ ترین لوگ ہیں۔ مشکوۃ المصابیح بحوالہ نسائی، باب مناقب الصحابہ، الفصل الثانی، ص: 554، ط: قدیمی کراچی اس کے علاوہاور بھی متعدّداحادیث سے یہ بات واضح ھوتی ھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو گالی دینا، براکہنا یا ان پر تبرّا کرنا حرام اور باعثِ فسق وگمراہی ہے، نیز اس سے ایمان ضائع ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ فتاوی شامی، 4236، 


جاء الحديث في كتابين :

((السنن الكبرى - النسائي ج 5 ص 133 : 
( 8476 ) أخبرنا العباس بن محمد قال حدثنا يحيى بن أبي بكير قال حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبد الله الجدلي قال دخلت على أم سلمة فقال تأيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم فقلت سبحان الله أو معاذ الله قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سب عليا فقد سبني 
.))

(()الجامع الصغير - جلال الدين السيوطي ج 2 ص 608 : 8736 من سب عليا فقد سبني ، ومن سبني فقد سب الله))

فهو حديث ضعيف قد ضعفه الشيخ المحدث / محمد ناصر الدين الالباني – رحمه الله – في ضعيف الجامع انظر ( حديث رقم 5618 ) .

ومدار الحديث على (أبي نا يحيى بن أبي بكير نا إسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبد الله الجدلي )

والآن فسننظر في حال رجال هذا الإسناد ..

فى الحديث :

1- ابو عبد الله الجدلي :
قال الحافظ فى "تهذيب التهذيب" 12/148 : 
(( قال ابن سعد فى الطبقة الأولى من أهل الكوفة : اسمه عبد بن عبد بن عبد الله ابن أبى العمر بن حبيب بن عائذ بن مالك بن واثلة بن عمرو بن رماح بن يشكر بن عداون بن عمرو بن قيس عيلان بن مضر ، يستضعف فى حديثه. و كان شديد التشيع ،))

أذن هو شديد التشيع فلا نقبل حديثة لانه روى في بدعته حديثاً لم ينقل عن غيره ..
وايضاً كان العلماء يستضعفون حديثه ..


2-ابو اسحاق السبيعي :

قال الحافظ فى "تهذيب التهذيب" 8/65 :
(( قال ابن حبان فى كتاب " الثقات " : كان مدلسا . و كذا ذكره فى المدلسين حسين الكرابيسى ، و أبو جعفر الطبرى .
و قال أبو إسحاق الجوزجانى : كان قوم من أهل الكوفة لا تحمد مذاهبهم ـ يعنى :التشيع ـ هم رؤوس محدثى الكوفة
و حدثنا إسحاق ، حدثنا جرير ، عن معن قال : أفسد حديث أهل الكوفة الأعمش ،
و أبو إسحاق ـ يعنى للتدليس ـ .))

أّن هو جمع بين التدليس والتشيع بل كان من رؤوس التشيع فلا نقبل حديثه .

3- اسرائيل بن يونس :

(( و قال يعقوب بن شيبة : صالح الحديث . و فى حديثه لين . 
و قال فى موضع آخر : ثقة صدوق ، و ليس بالقوى فى الحديث ، و لا بالساقط .)) انظر لترجمه في تهذيب الكمال 

قال الحافظ فى "تهذيب التهذيب" 1/263 :
و قال محمد بن أحمد بن البراء عن على ابن المدينى : إسرائيل ضعيف .
و أطلق ابن حزم ضعف إسرائيل ، و رد به أحاديث من حديثه فما صنع شيئا .
و قال عثمان بن أبى شيبة عن عبد الرحمن بن مهدى : إسرائيل لص يسرق الحديث .))
أذن هو ضعيف الحديث ويكفى انه لص للحديث ..\


وللعلم ان من ذكرت من العلماء ممن نقلوا هذا الحديث فانهم في كتبهم لا يلتزموا الصحة بل يذكروا في احاديثهم الغث والسمين .. الصحيح والضعيف ..

ولا حجة في ذكرهم للحديث ..

معنوی اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے. اگرچہ سند میں ضعف ہے. حاکم وذہبی وغیرہ نے اسے صحیح کہا ہے اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ صحیح  اور قابل استدلال ہے .یہی اہل سنت والجماعت کا صحابہ کرام کے بارے میں موقف ہے. 





6 comments:

  1. اسکا مطلب اگر کوئی حضرت علی کو گالی دیتا ہے تو اسنے رسول اللہ کو گالی دی ؟

    ReplyDelete
  2. اگر اسکا متن ٹھیک ہے تو

    ReplyDelete
  3. تو پھر ہم خارجیوں کو کافر کیوں نہیں کہتے

    ReplyDelete
  4. خارجیوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت علی المرتضی خلیفہ برحق تھے۔ ان کی بیعت ہر مسلمان پر لازم تھی۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا وہ اللہ اور رسول اللہ کے دشمن تھے۔ اس لیے امیر معاویہ اور ان کے حامی کشتنی اور گردن زدنی ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی صلح کرنا ازروئے قرآن کفر ہے۔حضرت علی نے چونکہ ان کے ساتھ مصالحت کرنے اور حکم قرآنی میں ثالث بنانے کا جرم کیا ہے۔ اس لیے ان کی خلافت بھی ناجائز ہوگئ۔ لہذا حضرت علی اور امیر معاویہ دونوں کے خلاف جہاد لازم ہے۔

    ReplyDelete
  5. خوارج کو کافر کہنا درست نہیں ہے۔ اِس بارے میں علیؓ سے بھی پوچھا گیا تھا ۔ تو اُنھوں نے اِس بات کا انکار کر دیا تھا۔ اِس لیے خوارج کو کافر نہیں کہنا چاہیے۔
    دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے 73 فرقوں میں سے صرف 1 فرقہ جنت میں جائے گا اور اُس کا نام اہل سنت والجماعت ہے یعنی سنت پر عمل کرنے والے اور جماعت کے ساتھ بندھے رہنے والے۔ اِس فرقے کے علاوہ باقی تمام فرقے جھنم میں جائیں گے۔
    تیسری بات
    اللہ تعالٰی ہر اُس شخص کو کبھی نہ کبھی جھنم سے باہر نکال لے گا جس نے کبھی شرک نہ کیا ہو گا اور جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو گا۔
    اس طرح جھنم میں جانے والے فرقوں کے وہ لوگ جنھوں نے کبھی اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گا اور جن کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو گا اللہ تعالٰی اُس کو جھنم سے نکال لے گا۔ اور صرف کافر ہی جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

    ReplyDelete