https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 22 March 2023

میاں بیوی میں طلاق کے بارے میں اختلاف ہو

اگر طلاق کے بارے میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو جائے، مثلاً بیوی طلاق کا دعویٰ کرے، اور شوہر دو کا انکار کرے، تو شرعی حکم یہ ہے کہ بیوی شوہر کے طلاق دینے پر شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) پیش کرے، اگر بیوی شرعی گواہ پیش کردے، تو تین واقع ہو جاے گی۔ گواہوں میں دو عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں، تو دعویٰ ثابت ہوجاتا ہے اور بہن کے حق میں بھائی، بہن اور خالہ کی گواہی معتبر ہوگی، والدہ کی نہیں۔ دلائل: سنن الدار قطنی:(باب في المرأۃ تقتل إذا ارتدت،140/4،رقم الحدیث:4466) عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: "أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشاہدین علی المدعي، والیمین علی المدعی علیہ". ردالمحتار علی الدرالمختار:(468/2،ط:مکتبہ رشیدیہ) "و المرأۃ کالقاضی اذا سمعتہ أو اخبرھا عدل، لایحل لھا تمکینہ و الفتویٰ علی انہ لیس لھا قتلہ ولا تقتل نفسھا بل تفدی نفسھا بمال او تھرب کما انہ لیس لہ قتلھا اذا حرمت علیہ وکلما ھرب ردتہ بالسحر و فی البزاریۃ عن الاوزجندی انھا ترفع الامر للقاضی، فان حلف و لا بینۃ لھا، فالاثم علیہ". الفتاویٰ التاتار خانیہ:(328/3،ط:إدارۃ القرآن) "ففی کل موضع یصدق الزوج علی نفی النیہ انما یصدق مع الیمین". الفتاوى الهندية:(الفصل الثالث في من لا تقبل شهادته،469/3،ط:دارالفکر) "لا تجوز شهادة الوالدين لولدهما وولد ولدهما وإن سفلوا ولا شهادة الولد لوالديه".

Wednesday 15 March 2023

تنگ کرنے والے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک

شریعت اسلامیہ میں صلہ رحمی کا حکم ہے، اگر کوئی برا سلوک کرتا ہے تو اس کو معاف کرنے کی ترغیب ہے، بلکہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ * وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ترجمہ: اچھائی اور برائی یکساں نہیں ہو سکتی، برائی کو سب سے بہترین طریقے سے دور ہٹائیں گے تو وہ بھی جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے ایسا ہو جائے گا کہ گویا وہ بہت گہرا دوست ہے ٭ اور یہ بات صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں ، یہ خوبی بڑے نصیب والے کو ہی دی جاتی ہے۔[فصلت: 34 ، 35] علامہ سعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں: "اللہ تعالی کا فرمان: وَلا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلا السَّيِّئَةُ یعنی مطلب یہ ہے کہ رضائے الہی کے لئے کی جانے والی نیکیاں اور بھلائیاں ، اللہ تعالی کو ناراض کرنے والی برائیوں اور گناہوں کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح لوگوں کے ساتھ بھلائی اور ان کے ساتھ برا سلوک بھی برابر نہیں ہو سکتے، برائی اور بھلائی کی ماہیت، اوصاف اور بدلہ سب کچھ الگ الگ ہوتے ہیں؛ کیونکہ هَلْ جَزَاءُ الإحْسَانِ إِلا الإحْسَانُ بھلائی کا بدلہ بھلائی ہی ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد مخصوص نوعیت کی بھلائی کرنے کا حکم دیا، اور اس مخصوص بھلائی کی جگہ بھی خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ کے ساتھ برا سلوک کرے تو آپ اس کا بھلا کر دیں، اسی لیے فرمایا: اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یعنی جب کوئی بد اخلاق شخص آپ سے زبانی یا عملی بد تمیزی کرے اور وہ ان لوگوں میں سے ہو جن کے آپ پر کافی حقوق ہیں ، مثلاً: رشتہ دار اور قریبی دوست احباب وغیرہ ؛ تو آپ اس کی بھلائی کریں، اگر وہ قطع تعلقی کرتا ہے تو پھر بھی آپ صلہ رحمی کریں، اگر وہ ظلم کرے تو آپ انہیں معاف کر دیں، اگر وہ آپ کے سامنے یا پیٹھ پیچھے آپ کے خلاف باتیں کریں تو آپ تب بھی اس کے خلاف باتیں نہ کریں بلکہ اسے معاف کر دیں، اس سے بات کریں تو نرمی سے کریں، اگر وہ آپ سے قطع تعلقی کرتا ہے یا آپ سے بول چال نہیں رکھتا تو اس کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو کریں، اس سے سلام میں پہل کریں، چنانچہ اگر آپ اس کے برے سلوک کے عوض اچھا سلوک پیش کرتے ہیں تو بہت بڑا فائدہ حاصل ہو گا: فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ یعنی جس کے ساتھ آپ کی دشمنی اور عداوت تھی وہ بھی آپ کا قریبی اور گہرا دوست بن جائے گا۔ وَمَا يُلَقَّاهَا یعنی یہ خوبی ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ صرف انہی لوگوں کو ملتی ہے جو من میں آنے والی چیزوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ کے پسندیدہ اعمال پر مجبور کر دیتے ہیں؛ کیونکہ انسانی فطرت یہی ہے کہ برا سلوک کرنے والے کے ساتھ برا سلوک ہی کیا جائے، اسے معاف نہ کیا جائے، اس کے ساتھ حسن سلوک تو بہت دور کی بات ہے۔ چنانچہ جب انسان اپنے نفس پر قابو پا کر اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرے اور تعمیل کی صورت میں ملنے والے وافر ثواب کو پہچان لے ، یہ بات ذہن نشین کر لے کہ برے کے ساتھ برا بننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس سے بغض و عداوت میں اضافہ ہی ہوتا ہے، یہ بھی ذہن نشین کر لے کہ برے کے ساتھ بھلائی کرنے سے اس کی عزت میں کمی نہیں ہو گی بلکہ جو اللہ کے لئے اپنے آپ کو نیچا دکھائے تو اللہ تعالی اس کو بلندیاں عطا فرماتا ہے؛ ان سب باتوں کو مد نظر رکھے تو برے کے ساتھ بھلائی کرنا آسان ہو جاتا ہے، بلکہ ایسے شخص کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے لذت اور مٹھاس بھی حاصل ہوتی ہے۔ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ یعنی یہ خوبی صرف بڑے نصیب والوں کو ہی ملتی ہے؛ کیونکہ یہ خاص لوگوں کی خوبی ہے، اس خوبی کے ذریعے انسان دنیا و آخرت میں بلند مقام حاصل کر لیتا ہے جو کہ حسن اخلاق کا سب سے بڑا امتیازی نتیجہ ہے۔" ختم شد صحیح مسلم : (2558) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھے سے قطع تعلقی رکھتے ہیں، میں ان کا بھلا کرتا ہوں وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ مجھ سے جاہلوں جیسا سلوک کرتے ہیں" اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر ایسا ہی ہے جیسے تم کہہ رہے ہو تو گویا کہ تم انہیں جلتی ہوئی راکھ کھلا رہے ہو، اور جب تک تم اپنے اسی انداز پر قائم رہو گے اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک مدد گار رہے گا۔)

Monday 13 March 2023

خلع اور طلاق کے متعلق بعض باتوں کی تردید

خلع زوجین کے درمیان باہمی رضامندی سے طے پانے والاعقد ہے جس میں عموماًعورت اپنا مہر معاف کرتی ہے یا مہر لے چکی ہو تو کچھ مال دینا طے کرتی ہے اور اس کے عوض شوہر اسے آزاد کردیتاہے۔خلع میں مال کی مقدار کے حوالے سے باہمی رضامندی کا اعتبار ہوتا ہے، البتہ اگر قصور شوہر کاہو تو اسے معاوضہ لیے بغیر بیوی کوچھوڑ دینا چاہیے اوراگر قصور عورت کا ہو تو مہر سے زائد لینے میں اس کے لیے کراہت ہے۔ یہ کہنا کہ خلع میں عورت اپنا مہر، جہیز ، دیگر سامان اور اولاد سب شوہر کو دے کر محض تن کے کپڑے لے کر شوہر کے گھر سے نکل جائے، یہ درست نہیں۔ اور یہ بات بھی درست نہیں کہ شوہر از خود طلاق دے تو اسے بیوی کا سب کچھ لوٹا نا پڑتا ہے اور بیوی خلع لے تو اسے اپنا سب کچھ دینا پڑتا ہے، یہ عوامی باتیں ہیں، جو حقیقت سے دور ہیں

Saturday 11 March 2023

عورت طلاق کادعوی کرے اورشوہرمنکرہوتوشرعی حکم کیا ہے

فقہاء نے صراحتاًلکھا ہے کہ: اگرکسی عورت کو اس کا شوہر طلاق دے دے اور پھر انکارکرے تواس صورت میں یاعورت اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے اس صورت میں عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گااور شوہر کاانکار معتبر نہ ہوگا۔ اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو شوہرسے حلف لیاجائے گا،اگرشوہرحلف سے انکار کردے تو بھی فیصلہ عورت کے حق میں ہوگا، اور اگر شوہر حلف اٹھاتاہے توظاہری فیصلہ اسی کے حق میں ہوگا،البتہ جب عورت کوتین طلاق کایقین ہوتوشوہرکواپنے اوپرقدرت نہ دے اور چھٹکارے کی کوئی صور ت بنائے۔شریعت کایہ مسئلہ صاف اورواضح ہے۔لہذا ۱۔اگر بیوی کے پاس گواہ موجودہوں یاشوہرنے تحریری طلاق دی ہوتواس کاانکار معتبر نہیں۔ ۲۔اگر گواہ نہ ہوں اور شوہرحلف اٹھاتاہے تو ظاہری طورپراسی کے حق میں فیصلہ کیاجائے گا،اور اس صورت میں عورت بقدرامکان شوہرکواپنے اوپرقدت نہ دے،اگرشوہرزبردستی تعلقات قائم کرتاہے تواس کاگناہ شوہرپرہی ہوگا۔ ۳۔قدرت نہ دینے کاحکم اس بناپرہے کہ عورت کویقین ہے کہ اس نے تین طلاقیں سنی ہیں، لیکن وہ شرعی ضابطے کے مطابق گواہ نہیں رکھتی ،لہذا یہ نشو ز کی تعلیم نہیں، بلکہ دیانۃً چوں کہ جدائی ہوچکی ہے، اس لیے یہ حکم دیاگیاہے۔ ۴۔جب ظاہری فیصلہ شوہرکے حق میں ہے توعدت نہیں گزار سکتی ،اس لیے کہ ظاہراً نکاح برقراہے،اورجب تک عورت اس کے گھرمیں ہے تونان ونفقہ بھی شوہرپرہی ہے۔اور ظاہرہے کہ جب عدت نہیں کرسکتی توکسی اور سے نکاح بھی جائزنہیں۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’...اگرشوہراس (مطلقہ)کواپنے پاس رکھے گاتوہمیشہ نزاع اور شک وشبہ رہے گا، اور شوہرگناہ گارہوگا،اگرخدانخواستہ شوہرنہ طلاق کااقرار کرے ،نہ اب طلاق دے ،اور طلاق کے شرعی گواہ بھی موجود نہ ہوں، توایسی صورت میں عورت شوہرسے خلع کرے،کچھ دے دلاکررہائی حاصل کرے،جماعت اور برادری کے سمجھ دار دین دارح ضرات شوہر کوسمجھاکر طلاق کااقراریاطلاق دینے یاخلع کرلینے پرآمادہ کریں، طلاق کااقرار یا طلاق حاصل کیے یاخلع کے بغیر عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی....ایک صورت یہ ہے کہ شوہرسے جبراً واکراہاً طلاق بائن کہلوائی جائے یہ بالکل آخری درجہ ہے‘‘۔(فتاویٰ رحیمیہ8/283،ط:دارالاشاعت) إذا ادعت المرأة أن زوجها طلقها ، وأنكر الزوج ، فالقول قوله إلا أن تأتي الزوجة ببينة ، وهي شاهدان عدلان . قال ابن قدامة رحمه الله : " إذا ادعت المرأة أن زوجها طلقها فأنكرها فالقول قوله ; لأن الأصل بقاء النكاح وعدم الطلاق ، إلا أن يكون لها بما ادعته بينة ، ولا يقبل فيه إلا عدلان . ونقل ابن منصور عن أحمد أنه سئل : أتجوز شهادة رجل وامرأتين في الطلاق ؟ قال : لا والله . وإنما كان كذلك لأن الطلاق ليس بمال , ولا المقصود منه المال ، ويطلع عليه الرجال في غالب الأحوال ، فلم يقبل فيه إلا عدلان ، كالحدود والقصاص . فإن لم تكن بينة : فهل يستحلف ؟ فيه روايتان ; نقل أبو الخطاب أنه يستحلف ، وهو الصحيح ; لقول النبي صلى الله عليه وسلم : ولكن اليمين على المدعى عليه ، وقوله : اليمين على من أنكر . ولأنه يصح من الزوج بذله ، فيستحلف فيه ، كالمهر . ونقل أبو طالب عنه : لا يستحلف في الطلاق والنكاح ; لأنه لا يقضى فيه بالنكول ، فلا يستحلف فيه ، كالنكاح : إذا ادعى زوجيتها فأنكرته . وإن اختلفا في عدد الطلاق فالقول قوله ; لما ذكرناه ، فإذا طلق ثلاثا وسمعت ذلك ، وأنكر . أو ثبت ذلك عندها بقول عدلين : لم يحل لها تمكينه من نفسها ، وعليها أن تفر منه ما استطاعت ، وتمتنع منه إذا أرادها ، وتفتدي منه إن قدرت . قال أحمد : لا يسعها أن تقيم معه . وقال أيضا : تفتدي منه بما تقدر عليه , فإن أجبرت على ذلك فلا تزين له ، ولا تقربه ، وتهرب إن قدرت . وإن شهد عندها عدلان غير متهمين : فلا تقيم معه ، وهذا قول أكثر أهل العلم . قال جابر بن زيد وحماد بن أبي سليمان وابن سيرين : تفر منه ما استطاعت ، وتفتدي منه بكل ما يمكن . وقال الثوري وأبو حنيفة وأبو يوسف وأبو عبيد : تفر منه . وقال مالك : لا تتزين له ولا تبدي له شيئا من شعرها ولا عريتها ، ولا يصيبها إلا وهي مكرهة . وروي عن الحسن والزهري والنخعي : يُستحلف ، ثم يكون الإثم عليه. والصحيح ما قاله الأولون ؛ لأن هذه تعلم أنها أجنبية منه محرمة عليه ، فوجب عليها الامتناع والفرار منه كسائر الأجنبيات " انتهى من "المغني" (7/ 387). وذهب بعض الفقهاء إلى أن المرأة لو جاءت بشاهد واحد ، حلّف الزوج ، فإن نكل عن اليمين ، حلفت هي ، وقضي لها بالطلاق ، وهذا موجود في حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه وسلم : أن المرأة إذا أقامت شاهدا واحدا على الطلاق فإن حلف الزوج لم يقض عليه , وإن لم يحلف حلفت المرأة ويقضى عليه . قال ابن القيم رحمه الله : " قد احتج الأئمة الأربعة والفقهاء قاطبة بصحيفة عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده , ولا يعرف في أئمة الفتوى إلا من احتاج إليها واحتج بها , وإنما طعن فيها من لم يتحمل أعباء الفقه والفتوى كأبي حاتم البستي وابن حزم وغيرهما ; وفي هذه الحكومة أنه يقضي في الطلاق بشاهد وما يقوم مقام شاهد آخر من النكول ويمين المرأة , بخلاف ما إذا أقامت شاهدا واحدا وحلف الزوج أنه لم يطلق فيمين الزوج عارضت شهادة الشاهد , وترجح جانبه بكون الأصل معه ; وأما إذا نكل الزوج فإنه يجعل نكوله مع يمين المرأة كشاهد آخر , ولكن هنا لم يقض بالشاهد ويمين المرأة ابتداء ; لأن الرجل أعلم بنفسه هل طلق أم لا , وهو أحفظ لما وقع منه , فإذا نكل ، وقام الشاهد الواحد وحلفت المرأة كان ذلك دليلا ظاهرا جدا على صدق المرأة " انتهى من إعلام الموقعين (1/ 78). وفي المدونة (2/ 97) : " قلت : أرأيت المرأة تدعي طلاق زوجها ، فتقيم عليه امرأتين ، أيحلف لها أم لا ؟ قال : قال مالك : إن كانتا ممن تجوز شهادتهما عليه ، أي في الحقوق ، رأيت أن يحلف الزوج ، وإلا لم يحلف . قلت : أرأيت إن أقامت شاهدا واحدا على الطلاق ؟ قال : قال مالك : يحال بينه وبينها حتى يحلف " انتهى . وهذه المسألة مرجعها إلى المحكمة ، فقد تطالب المرأة بشاهدين ، وقد تكتفي منها بشاهد ، ثم توجه اليمين للزوج ، والمهم أن يعلم الزوجان عظم جناية الكذب في هذا الباب ، لأن كذب الزوج يعني استمتاعه بالفرج الحرام ، وكذب الزوجة فيه استحلال مال زوجها بغير حق ، مع أن لها أن تطلب الخلع إذا لم تحتمل العيش في وجود الزوجة الثانية .

Saturday 4 March 2023

حج کے فرائض, واجبات اور سنن

حج کے ارکان تین ہیں: 1- احرام یعنی حج اور عمرے کی نیت، 2- میدانِ عرفات میں وقوف، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’الْحَجُّ عَرَفَة، مَنْ جَاءَ لَیْلَة جَمْعِِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ فَقَدْ اَدْرَکَ الحَجَّ". (الترمذي:۸۸۹، النسائي: ۳۰۱۶، ابن ماجه: ۳۰۱۵) ترجمہ: ’’حج وقوفِ عرفہ سے عبارت ہے۔ جو شخص مزدلفہ کی رات طلوعِ فجر سے قبل میدانِ عرفات میں آجائے اس کا حج ہوگیا‘‘۔ 3- طوافِ زیارت، [اسی کو طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں]؛ فرمانِ باری تعالی ہے: " وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ". ترجمہ: اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں۔[الحج : 29] بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 125): "الوقوف بعرفة، وهو الركن الأصلي للحج، والثاني طواف الزيارة". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 128): "وأما شرطه وواجباته فشرطه النية، وهو أصل النية دون التعيين حتى لو لم ينو أصلاً بأن طاف هارباً من سبع أو طالباً لغريم لم يجز". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 49): "الوقوف بعرفة ركن أساسي من أركان الحج، يختص بأنه من فاته فقد فاته الحج. وقد ثبتت ركنية الوقوف بعرفة بالأدلة القاطعة من الكتاب والسنة والإجماع: أما القرآن؛ فقوله تعالى: {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس}. فقد ثبت أنها نزلت تأمر بالوقوف بعرفة. وأما السنة: فعدة أحاديث، أشهرها حديث: الحج عرفة. وأما الإجماع: فقد صرح به عدد من العلماء، وقال ابن رشد: أجمعوا على أنه ركن من أركان الحج، وأنه من فاته فعليه حج قابل". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 51): "وعدد أشواط الطواف سبعة، وكلها ركن عند الجمهور. وقال الحنفية: الركن هو أكثر السبعة، والباقي واجب ينجبر بالدم". الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 129): "أجمع العلماء على أن الإحرام من فرائض النسك، حجاً كان أو عمرةً، وذلك؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: إنما الأعمال بالنيات. متفق عليه. لكن اختلفوا فيه أمن الأركان هو أم من الشروط؟ ... الخ حج کے واجبات: ١- مزدلفہ میں وقوف کے وقت ٹھہرنا ٢- رمی جمار(کنکریاں مارنا) ٣- حلق یعنی سر کے بال منڈوانا یا تقصیر یعنی سر کے بال کتروانا ۴- صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ۵- آفاقی یعنی میقات سے باہر رہنے والے کو طواف وداع کرنا ۶- حج قران اور حج تمتع کرنے والے کے لیے دم شکر ادا کرنا (قربانی کرنا) حج کی سنتیں: ۱- مفرد آفاقی اور قارن کو طواف قدوم کرنا ۲- طواف قدوم میں رمل اور اضطباع کرنا ۳-آٹھویں ذی الحجہ کی صبح کو منی کے لیے روانہ ہونا اور وہاں پانچوں نمازیں پڑھنا ۴-نویں ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد منی سے عرفات کے لیے روانہ ہونا ۵-عرفات سے غروب آفتاب کے بعد امام حج سے پہلے روانہ نہ ہونا ۶-عرفات سے واپس ہوکر رات کو مزدلفہ میں ٹھہرنا ۷-عرفات میں غسل کرنا ۸-ایام منی میں رات کو منی میں رہنا (مستفاد از غنیه الناسک، و رفیق الحج) (وتسہیل بہشتی زیور: ۱/ ۴۶۱ ٬ ط: الحجاز) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلائل: کما فی غنیۃ الناسک: اما فرائض الحج فثلاث، الاول الاحرام قبل الوقوف بعرفة، والثاني الوقوف بعرفة......والثالث طواف الزيارة...الخ (ص: 44، ط: ادارۃ القرآن) وفی بدائع الصنائع: وأما، واجبات الحج فخمسة:. السعي بين الصفا والمروة، والوقوف بمزدلفة، ورمي الجمار، والحلق أو التقصير، وطواف الصدر (ج: 2، ص: 133، ط: دار الکتب العلمیۃ) وفی الھندیۃ: (وأما سننه) فطواف القدوم والرمل فيه أو في الطواف الفرض، والسعي بين الميلين الأخضرين، والبيتوتة بمنى في ليالي أيام النحر، والدفع من منى إلى عرفة بعد طلوع الشمس، ومن مزدلفة إلى منى قبلها كذا في فتح القدير. والبيتوتة بمزدلفة سنة والترتيب بين الجمار الثلاث سنة هكذا في البحر الرائق. (ج: 1، ص: 219، ط: دار الفکر)

Thursday 2 March 2023

عمرہ یاحج میں سعی چھوٹ جائے تو کیاکرے

عمرہ میں طواف کےبعد اگر کسی نےسعی چھوڑدی اور احرام کھول دیا اور دوبارہ اس کا اعادہ بھی نہیں کیا تو دم لازم ہوگیا، دم ادا کرلینے کے بعد اب دوبارہ سعی یا عمرہ کو لوٹانا ضروری نہیں ہے، عمرہ ادا ہوجائے گا؛ اس لیے کہ سعی واجبات میں سے ہے، اور دم سے اس کا نقصان پورا ہوجاتا ہے۔ مبسوط للسرخسي میں ہے : "(قال:) وإن ترك السعي فيما بين الصفا، والمروة رأسًا في حج أو عمرة فعليه دم عندنا، وهذا؛ لأن السعي واجب، وليس بركن عندنا، الحج والعمرة في ذلك سواء، وترك الواجب يوجب الدم ...، وجحتنا في ذلك قوله تعالى: {فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما} [البقرة: 158]، ومثل هذا اللفظ للإباحة لا للإيجاب فيقتضي ظاهر الآية أن لايكون واجبًا، ولكنا تركنا هذا الظاهر في حكم الإيجاب بدليل الإجماع، فبقي ما وراءه على ظاهره". (4 / 50) البناية شرح الهداية میں ہے: "ومن ترك السعي بين الصفا والمروة فعليه دم وحجه تام؛ لأن السعي من الواجبات عندنا فيلزم بتركه دم دون الفساد. (ومن ترك السعي بين الصفا والمروة فعليه دم وحجه تام؛ لأن السعي من الواجبات عندنا) ش: وعند الشافعي ركن، وعندنا واجب م: (فيلزم بتركه الدم دون الفساد) ش: لأن كل نسك ليس بركن فالدم يقوم مقامه كالرمي، قوله: دون الفساد احترازًا عن قول مالك، وأحمد فإن السعي ركن عندهما فيلزم الفساد بتركه". (4 / 362) فتاوى هندية میں ہے: "ومن ترك السعي بين الصفا والمروة فعليه دم وحجه تام، كذا في القدوري". (1 / 247

مزنیہ کی بیٹی سے نکاح

شرعی نقطہ نظر سے زنا کرلینے سے مرد اور عورت کے درمیان حرمت مصاہرت ثابت ہوکر زانی اور مزنیہ پر ایک دوسرے کے اصول وفروع حرام ہو جاتے ہیں تاہم اگر لا علمی کی وجہ سے مزنیہ کی بیٹی سے نکاح کیا گیا ہو تو یہ نکاح فاسد شمار ہوگا اور مرد پر لازم ہوگا کہ وہ عورت کو جدائی کے الفاظ مثلاطلاق وغیرہ کہہ کر چھوڑ دے ۔اس نکاح کے نتیجے میں پیداشدہ اولاد کا نسب اسی شخص سے ثابت ہوگا ۔ لہذا اگر کسی شخص نے اپنی مزنیہ کی بیٹی سے نکاح کیا ہو تو شرعا اس پر لازم اور ضروری ہے کہ وہ اس کو طلاق یا علیحدگی پر دلالت کرنے والا کوئی اور لفظ کہہ کر چھوڑ دے۔جب کہ بچوں کا نسب اسی سے ثابت ہوگا۔ ( قوله : وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته )قال في البحر : أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا ۔(رد المحتار على الدرا لمختاركتاب النكاح ، فصل في المحرمات ج4ص144) وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول ، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك۔(ردالمحتار على الدر المختاركتاب النكاح ،فصل في المحرمات) ويجب مهر المثل في نكاح فاسد بالوطي ۔۔۔وتجب العدةبعد الوطي لاالخلوة۔۔۔ويثبت النسب احتياطا۔(الدرالمختار على صدرردالمحتاركتاب النكاح ج4ص277،274)

Monday 27 February 2023

شب برات

شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔ ۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“دوسری حدیث میں ہے”اس رات میںاس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟ ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں: ۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔ ۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔ ۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔ بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔ مزیدتفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:فتاویٰ بینات،جلد :اول،صفحہ:۵۵۲تا۵۵۷،مطبوعہ:مکتبہ بینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی۔

Saturday 25 February 2023

جمع بین الصلاتین کامسئلہ

نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ،ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے،چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے : ﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ (النساء:۱۰۳) ترجمہ: ’’بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے‘‘۔ ہرنماز کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقررہے، چاہے وہ فجرہو،یاظہرہو،یاعصر ہو،یامغرب ہو،یاعشاء ہو ،یا جمعہ ہو۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰى صَلَاةً بِغَيْرِ (لِغَيْرِ) مِيْقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيْقَاتِهَا.‘‘ (صحیح البخاري، باب من یصلي الفجر بجمع:۱٦۸۲) ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ ﷺ نے جمع فرمائیں، اور مزدلفہ میں فجر کو معمول کے وقت سے پہلے (فجر کے بالکل ابتدائی وقت میں) ادا فرمایا ‘‘۔ اس روایت میں آپ ﷺ کا فجر کی نماز کو وقت سے پہلے ادا کرنے کا بھی ذکر ہے، امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے: '' المراد بقوله: قبل ميقاتها: هو قبل وقتها المعتاد، لاقبل طلوع الفجر؛ لأن ذلك ليس بجائز بإجماع المسلمين''۔ (حاشیة صحیح البخاري، رقم الحاشية:7، 1 / 228 ط:هنديه) یعنی فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ عموماً فجر کی نماز جس وقت (آخرِ وقت) ادا کرنے کا معمول تھا، اس وقت سے پہلے (ابتدائی) وقت میں فجر کی نماز ادا فرمائی، نہ کہ طلوع فجر (وقت داخل ہونے) سے پہلے ادا فرمائی ؛ کیوں کہ طلوعِ فجر سے پہلے فجر کی نماز ادا کرنا تمام مسلمانوں کے اجماع سے ناجائز ہے۔ مزدلفہ میں مغرب وعشاء جمع کرنے کے علاوہ عرفہ میں ظہر اور عصر کی نماز جمع کرنا آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، اس کے علاوہ کسی موقع پر نماز کو وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا یا بغیر عذر کے وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا ثابت نہیں ہے۔ نیزخلفائے راشدین حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کا عمل بھی یہی تھا،اور اسی پر مواظبت کے ساتھ وہ عمل پیرا تھے۔ اور پھراوقات کا مسئلہ ایسا ہے کہ کبھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی،شریعت کے بہت سے احکام منسوخ ہیں،ابتدا میں حکم کچھ اور تھا، بعد میں اللہ پاک نے اس حکم کومنسوخ کردیا،اور اس کی جگہ دوسرا حکم نازل فرمایا،لیکن اوقات میں کبھی تبدیلی نہیں کی گئی،کبھی اس میں تقدیم و تاخیر نہیں کی گئی۔ان آیاتِ مبارکہ اور احادیث شریفہ سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازوں کو ان کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے، اور ان میں تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ.‘‘ (سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸) ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں)جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے،ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ دوسری روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے،جس کی بنیاد بھی خود حدیثِ مبارکہ ہے،جس میں انہوں نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایاتھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ: ’’يَنْهَاهُمْ أنْ يَّجْمَعُوْا بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ وَيُخْبِرُهُمْ اَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِيْ وَقْتٍ وَّاحِدٍ كَبِيْرَةٌ مِّنَ الْكَبَائِرِ . أَخْبَرَنَا بِذٰلِكَ الثِّقَاتُ‘‘۔ (موطأ محمد، باب الجمع بین الصلاتین في السفر:۲۰۵) کہ امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔اس روایت کو ثقہ روایوں نے ہم سے بیان کیاہے۔ اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہرگز نہ روکتے، اور اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو ختم نہ فرماتے۔ معلوم ہواکہ جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا تمہید کے پیشِ نظر جمع بین الصلاتین کی صورت اختیار کرنا کسی صورت جائز نہیں اور اگر کوئی نماز اُس کے اپنے وقت میں نہیں پڑھی گئی، بلکہ وقت سے پہلے پڑھ لی گئی تو وہ ادا ہی نہیں ہوگی۔ اور وقت کے بعد پڑھی گئی تو بالقصد قضا کرنے کا گناہ ہوگا۔ رہی بات سفر کے موقع پر دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت کی تو واضح رہے کہ وہاں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے حقیقتاً نہیں،اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نمازاتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو،کچھ دیر انتظار کیا جائے،پھرجب عصر کا وقت شروع ہوجائے تو عصر بھی پڑھ لی جائے،اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا جائے،اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی،اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی۔ لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دونمازوں کو جمع فرمایاہے، جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی،جیساکہ تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔ چنانچہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ.‘‘ (صحیح مسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين فى السفر:۱۶۵۹) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ جب آپ کو سفر پر جانے میں عجلت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيْلَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلٰى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ.‘‘ (صحیح مسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر،۱٦۵۹) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے تو ظہر کو مؤخرفرماتے عصر تک، پھر (سواری سے) اترتے،اور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے۔ ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا حقیقتاً نہیں، جس کی وضاحت ماقبل میں کی جاچکی ہے، چناں چہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے،اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں تو پھر آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے،اس لیے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا؛تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو،اور ان میں باہم تضاداورٹکراؤ نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہوا کہ حج کے موقع پر عرفات میں ظہر و عصر اور مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا تو جائز ہے، اس کے علاوہ سفر ہو یا حضر کسی بھی وقت کہیں بھی بلاعذر یا کسی بھی عذر کی بنا پر دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا جائز نہیں ہے، لہٰذا کووڈ کی وجہ سے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنے کی قطعًا اجازت نہیں ہوگی۔ دو نمازیں ایک وقت میں پڑھنے کی صورت میں اگر کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھی گئی تو وہ نماز ہوگی ہی نہیں، اور اگر کسی نماز کو اپنے وقت کے بعد پڑھا تو نماز تو بطور قضا ہو جائے گی، لیکن نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کر کے پڑھنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، البتہ شدتِ مرض کا عذر ہو (جس میں اشارے سے بھی نماز نہ پڑھ سکے) یا آنکھ نہ کھل سکے جس کی وجہ سے نماز قضا ہوجائے تو اس کا حکم جدا ہوگا۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1/ 381): '' (ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔ (قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله''. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1/ 382): '' ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» . (قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر''.

Wednesday 22 February 2023

مہرکی کم ازکم مقدار

مہر کی کم ازکم مقدار دس درہم ہے، جس کی مقدار مروجہ اوزان میں تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی ہوتی ہے، نکاح میں کم ازکم اتنے گرام چاندی یا بوقت نکاح اتنے گرام چاندی کی جو مالیت ہو، اتنی مالیت کی کوئی چیز مہر مقرر کرنا ضروری ہے، اور اگر اس سے کم مہر مقرر کیا گیا تو (انتقال، دخول اور خلوت صحیحہ کی صورت میں) درج بالا مقدار پوری کرنی ضروری ہوگی قال في الدر (مع الرد،کتاب النکاح، باب المہر ۴: ۲۳۰-۲۳۲ ط، مکتبہ زکریا دیوبند): (وأقلہ عشرة دراہم) لحدیث البیہقی وغیرہ: ”لا مہر أقل من عشرة دراہم“، ․․․ (فضة وزن شبعة) مثاقیل کما في الزکاة (مضروبة کانت أو لا) ولو دینا أو عرضًا قیمتہ عشرة وقت العقد اھ․ اسی اقل مہر کوعوام شرع پیغمبری کہتے ہیں. شرع پیغمبری کوئی مہر نہیں ہے.

Monday 20 February 2023

۲۷.رجب کاروزہ

۲۷؍ ستائیس رجب کا شب معراج کا ہونا ہی محدثین اور مؤرخین کے درمیان مختلف فیہ ہے، نیز اس رات میں خصوصیت کے ساتھ عبادت کرنے کی صراحت کتب حدیث میں نہیں ملتی اور جو بھی روایت خاص اس شب میں عبادت کرنے کی ملتی ہے وہ لائق استدلال نہیں، البتہ اگر کوئی عام راتوں کی طرح اس شب میں بھی عبادت کرے تو مضائقہ نہیں، اسی طرح اس رات کے اگلے دن روزہ رکھنے کے سلسلے میں بھی کوئی صحیح روایت نہیں ملتی اور عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ اس دن کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے: ’’وقد وردت فیہ أحادیث لا تخلو عن طعن وسقوط کما بسطہ ابن حجر في تبیین العجب مما ورد في فضل رجب وما اشتہر في بلاد الہند وغیرہ أن الصیام تلک اللیلۃ یعدل ألف صوم فلا أصل لہ (الآثار المرفوعۃ)

Monday 6 February 2023

جنازہ کی نمازمیں چارکے بجائے تین تکبیر کہی تونماز نہیں ہوئی

نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں کہنا فرض ہے، اور یہ چار تکبیریں چار رکعات کے قائم مقام ہیں، لہٰذا اگر نمازِ جنازہ میں امام صاحب نے چار کے بجائے تین تکبیریں کہہ کر سلام پھیر دیا تو نمازِ جنازہ نہیں ہوئی، اس نمازِ جنازہ کا اعادہ لازم تھا، اگر دفن کرنے کے بعد یاد آیا کہ تین تکبیرات کہی گئی تھیں تو قبر پر اس وقت تک جنازہ کی نماز پڑھنا لازم ہے جب تک میت کے سڑنے اور پھٹنے کا غالب گمان نہ ہو، اور میت کے گلنے سڑنے کی مدت حتمی طور پر متعین نہیں ہے، موسم کے گرم و سرد ہونے، میت کی جسامت اور زمین کی ساخت کے اعتبار سے مختلف علاقوں میں اس کی مدت مختلف ہوسکتی ہے، بعض فقہاء نے اس کی تحدید تین دن سے کی ہے، یعنی تین دن بعد میت گلنا اور سڑنا شروع ہوتی ہے، لہٰذا دفن کے وقت سے تین دن بعد تک بھی اگر قبر پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جاسکی تو پھر اس کے بعد نہیں پڑھنی چاہیے۔ نوٹ: یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ کسی شخص کے بتانے پر امام صاحب کو یا دیگر مقتدیوں کو بھی یاد آجائے کہ واقعی تین تکبیرات کے بعد سلام پھیر دیا گیا تھا، لیکن اگر امام صاحب اور دیگر مقتدیوں کو یقین ہو کہ چار تکبیرات کہنے کے بعد ہی سلام پھیرا گیا تھا اور صرف ایک ہی مقتدی میت کی تدفین کے بعد اصرار کر رہا ہو کہ صرف تین تکبیرات کہی گئی تھیں تو اس کی بات کی وجہ سے وہم میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209): "(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224): "(وإن دفن) وأهيل عليه التراب (بغير صلاة) أو بها بلا غسل أو ممن لا ولاية له (صلي على قبره) استحساناً (ما لم يغلب على الظن تفسخه) من غير تقدير، هو الأصح. وظاهره أنه لو شك في تفسخه صلي عليه، لكن في النهر عن محمد لا كأنه تقديماً للمانع. (قوله: صلي على قبره) أي افتراضاً في الأوليين وجوازاً في الثالثة؛ لأنها لحق الولي أفاده ح. أقول: وليس هذا من استعمال المشترك في معنييه كما وهم؛ لأن حقيقة الصلاة في المسائل الثلاث واحدة، وإنما الاختلاف في الوصف وهو الحكم، فهو كإطلاق الإنسان على ما يشمل الأبيض والأسود فافهم (قوله: هو الأصح) لأنه يختلف باختلاف الأوقات حراً وبرداً والميت سمناً وهزالاً والأمكنة، بحر، وقيل: يقدر بثلاثة أيام، وقيل: عشرة، وقيل: شهر ط عن الحموي".

Friday 3 February 2023

ناپاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھونے کا طریقہ

ناپاک کپڑے پاک کرنےکا اصل طریقہ تو یہ ہے کہ انہیں تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ اچھی طرح (حتیٰ الوسع) نچوڑ لیا جائے،لیکن اگر واشنگ مشین میں کپڑے دھونے ہوں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دھوئے جانے والے کپڑے اگر پاک اور ناپاک دونوں طرح کے ہوں تو ان کے دھونے کے تین طریقے ہیں:ایک یہ کہ جن کپڑوں کے بارے میں یقین ہے کہ یہ پاک ہیں انہیں پہلے دھولیا جائے، اور اس کے بعد ناپاک اور مشکوک کپڑوں کو دھولیا جائے ۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو کپڑے ناپاک ہیں ان میں ناپاک جگہ کو پہلے الگ سے تین مرتبہ اچھی طرح دھوکر اور نچوڑ کر یا ناپاک حصے کو جاری پانی یا کثیر پانی میں دھو کر پاک کرلیاجائے ، پھر تمام پاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھولیا جائے، اس صورت میں دوبارہ واشنگ مشین میں تین مرتبہ دھونا یا بہت زیادہ پانی بہانا ضروری نہیں ہوگا۔تیسرا طریقہ یہ ہے کہ پاک اور ناپاک کپڑے سب ایک ساتھ دھولیے جائیں اور کھنگالتے وقت تمام کپڑوں کو تین بار پانی میں ڈال کر نچوڑ لیا جائے یا تمام کپڑوں کو واشنگ مشین میں اچھی طرح دھو لیا جائے، پھر اِسپینر مشین (یعنی مشین کا وہ حصہ جس میں کپڑا ڈال کر گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچوڑ جاتے ہیں، اور کچھ حد تک خشک بھی ہوجاتے ہیں) میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے، ہاتھ سے نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 161) "و" يطهر محل النجاسة "غير المرئية بغسلها ثلاثاً" وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، "والعصر كل مرة" تقديراً لغلبة. یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة''۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 331) '' (و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار. ۔۔۔ أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق''. فقط