https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 13 June 2023

دوطلاق دیں رجوع نہیں کیا

بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک یا دو طلاق دیں تو ایسی طلاق کو ''طلاقِ رجعی'' کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا اور نکاح برقرار رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے الھدایة: (کتاب الطلاق، 394/2) واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا۔ الدر المختار مع رد المحتار: (401/3) وندب اعلامھا بھا۔۔۔۔۔وندب الاشہاد بعدلین (قولہ ولو بعد الرجعة بالفعل۔۔۔۔۔ فالسنی ان یراجعھا بالقول ویشھد علی رجعتھا ویعلمھا

Monday 12 June 2023

بدل خلع

اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف و ناچاقی کا سبب شوہر ہو یعنی شوہرکی زیادتی کی بناپرخلع کی نوبت آگئ تو ایسی صورت میں دیانةً خلع کے عوض میں شوہر کے لیے کچھ لینا جائز نہیں، تاہم اگر وہ پھر بھی مہر واپس لے لیتا ہے تو اس پر اس کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، اور اگر نا چاقی و اختلاف کا سبب بیوی ہویعنی بیوی زیادتی کی بناپرخلع ہورہاہے تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے مہر کے طور پر دیے گئے مال سے زیادہ وصول کرنا مکروہ ہے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: إنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ شَيْءٍ مِنْ الْعِوَضِ عَلَى الْخُلْعِ وَهَذَا حُكْمُ الدِّيَانَةِ فَإِنْ أَخَذَ جَازَ ذَلِكَ فِي الْحُكْمُ وَلَزِمَ حَتَّى لَا تَمْلِكَ اسْتِرْدَادَهُ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ. وَإِنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا كَرِهْنَا لَهُ أَنْ يَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا مِنْ الْمَهْرِ وَلَكِنْ مَعَ هَذَا يَجُوزُ أَخْذُ الزِّيَادَةِ فِي الْقَضَاءِ كَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ. ( الْبَابُ الثَّامِنُ فِي الْخُلْعِ وَمَا فِي حُكْمِهِ ،الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي شَرَائِطِ الْخُلْعِ وَحُكْمِهِ، ١ / ٤٨٨، ط: دار الفكر)

خلع کسے کہتے ہیں

شریعت میں عقدنکاح کوختم کرنے کے جوطریقے ہیں ان میں ایک طریقہ خلع بھی ہے،اگرعورت شوہرکے ساتھ رہنے پرراضی نہیں ہے اورشوہراسے طلاق بھی نہیں دیتاتواسے اختیارہے کہ اپناحق مہرواپس کرکے یاکچھ مال بطورفدیہ دے کر شوہرکورضامند کرکے خلع حاصل کرے،جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کاترجمہ یہ ہے: ''سواگرتم لوگوں کو(یعنی میاں بیوی کو)یہ احتمال ہوکہ وہ دونوں ضوابط خداوندی کوقائم نہ کرسکیں گے تودونوں پرکوئی گناہ نہیں ہوگاکہ اس(مال لینے دینے میں )جس کردے کرعورت اپنی جان چھڑالے''۔(بیان القرآن،سورۃ البقرۃ،1/133) خلع کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے،اگردونوں میں سے ایک بھی رضامند نہ ہو توپھرخلع واقع نہیں ہوگا۔جس طرح طلاق کے بعد عدت ہوتی ہےاسی طرح خلع کے بعدبھی عدت لازم ہے،اوروہ عورت جسے ماہوری آتی ہوخلع یاطلاق کی صورت میں جدائی کے بعداس کی عدت تین ماہواریاں ہے،اگرماہواری نہ آتی ہوتوقمری حساب سے تین مہینے عدت گزارنا لازم ہے۔

Sunday 11 June 2023

طواف کی قسمیں

طواف کی سات قسمیں ہیں: (۱) طواف قدوم: یہ صرف حج یا قران کرنے والے آفاقی کے لیے سنت ہے۔ تمتع یا عمرہ کرنے والے کے لیے خواہ وہ آفاقی ہو یا مکی مسنون نہیں ہے۔ ہاں، اگر کوئی مکی میقات سے باہر جاکر صرف حج یا قران کا احرام باندھ کر حج کرے تو اس کے لیے بھی مسنون ہے۔ اور اس کا وقت مکہ مکرمہ میں داخلے سے وقوف عرفہ تک ہے۔ (۲) طواف زیارت:اس کادوسرانام طواف افاضہ بھی ہے. یہ حج کا رکن ہے، اس کے بغیر حج پورا نہیں ہوتا۔ اس کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور یام نحر یعنی دسویں سے بارہویں تک کرنا واجب ہے۔ (۳) طواف صدر: یعنی بیت اللہ سے واپسی کا طواف، اس کو طواف وداع بھی کہتے ہیں۔ یہ ہرآفاقی پر واجب ہے، لیکن مکی یا جوآفاقی مکہ مکرمہ کو ہمیشہ کے لیے وطن بنالے اس پر واجب نہیں۔ یہ تینوں طواف حج کے ساتھ مخصوص ہیں۔ (۴) طوافِ عمرہ: یہ عمرہ میں رکن اور فرض ہے۔ (۵) طواف نذر یعنی منت ماننا: یہ نذر ماننے والے پر واجب ہوتا ہے۔ (۶) طوافِ تحیہ: یہ مسجد حرام میں داخل ہونے والے کے لیے مستحب ہے، لیکن اگر کوئی دوسرا طواف کرلیا تو وہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔ (۷) طواف نفل: یہ جس وقت جی چاہے کیا جاسکتا ہے۔

Saturday 10 June 2023

سخت مجبوری میں بینک سے لون لینا

سودی قرض لینا بنصِّ قطعی حرام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے (مشکوة : ۲۴۴) البتہ اگر کوئی حد درجہ مجبوری ہو کہ اس کے بغیر گذر بسر کا کوئی نظم نہ ہو اور بغیر سود کے قرض کا ملنا دشوار ہو ایسا شخص اگر بقدرِ ضرورت جس سے گذر بسر ہوسکے سودی قرض لے لے تو علماء نے اس کی گنجائش دی ہے۔ یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح کما فی الأشباہ لہذا اگر کرایہ کے مکان میں رہنے کی صورت میں سخت دشواری کا سامنا ہوتو ایسی صورت میں اگر بقدرِ ضرورت ہوم لون لے لیں تو ممکن ہے کہ وبال نہ ہو ؛لیکن حتی الوسع کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اس کی ضرورت پیش نہ آئے «. وفي إجابته، أكد الشيخ محمد عبدالسميع، أمين الفتوى بدار الإفتاء المصرية، إن الاقتراض لشراء منزل ليس حراما بل جائز، موضحا أنه عند اقتراض مبلغ من البنك لشراء منزل فكأن ما حدث هو توسط للسلع، فالمنزل توسط بين الشخص وبين البنك، وإذا توسطت السلعة انتفى الربا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق جنرل سکریٹری(صدرمسلم پرسنل لاء بورڈ) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ موجودہ دور میں سود کے بغیر قرض حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت میں شریعت میں معقول سود کے ساتھ قرض لینے کی گنجائش ہے، لیکن شریعت کی روشنی میں اس کا مزید جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں انہوں نے اپنی رائے پیش کی.ان کے نزدیک بینک سے مکان کے لئے ہوم لون لیناجائزہے.

قیمت سے زیادہ کابل بنانا

کسی کمپنی یا شخص کا ملازم جو کمپنی یا شخص کے لیے کوئی چیز خریدتا ہے تو اس ملازم کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے، اور وکالت کی بنیاد امانت پر ہوتی ہے، چنانچہ وکیل اپنے موکل کے لیے جو چیز جتنے روپے کی خریدے گا اتنے ہی پیسے اپنے موکل سے لے سکتا ہے، اس سے زیادہ پیسے بتاکر لینا جھوٹ اور خیانت پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، ملازم کو تو اپنے کام کی تنخواہ ملتی ہے، اس لیے اس کا تو ویسے بھی کمیشن یا اجرت لینے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے، لیکن اگر اسے اپنی تنخواہ کم لگتی ہو تو وہ مالک سے پہلے سے طے کرلے کہ میں اگر باہر سے یہ سامان لینے جاؤں گا تو اتنا کرایہ یا اجرت لوں گا، ایسا کرنا جائز ہے، لیکن بغیر کچھ طے کیے زیادہ بل بنواکر دھوکے اور جھوٹ کے ذریعہ سے زیادہ پیسے وصول کرنا جائز نہیں ہے اوردوکان دار کا زیادہ کا بل بناکر دینا بھی ناجائز ہے۔ چوں کہ ملازم کا زیادہ بل بنواکر زیادہ پیسے لینا ناجائز اور گناہ کا کام ہے، اس لیے دکان دار کا اس کے لیے اصل بل سے زیادہ کا بل بناکر اس کو دینا بھی ناجائز اور گناہ کا کام ہے، کیوں کہ یہ گناہ کے کام میں معاونت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگر دکان دار اصل مقدار سے زیادہ پیسوں کا بل بناکر ملازم کو دیتا ہے تو اس سے اس کی کمائی تو حرام نہیں ہوگی، لیکن چوں کہ یہ گناہ کے کام میں معاونت ہے، اس لیے ایسا کرنے سے دکان دار گناہ گار بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ بھی ہوگا، لہٰذا اسے اس طرح کے کاموں سے بچنا چاہیے۔ درر الحکام في شرح مجلة الأحکاممیں ہے: "(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". (الکتاب الحادي عشر: الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل

Friday 9 June 2023

نماز میں قرأت کی واجبی مقدار

نماز میں سورہٴ فاتحہ کے علاوہ قراء ت کی واجبی مقدار چھوٹی تین آیات یا ایک بڑی آیت ہے، اور ایک بڑی آیت سے مراد ہے جو چھوٹی تین آیات جیسے ثُمَّ نَظَرَ․ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ․ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ․ کے بقدر ہو یعنی کم ازکم اس میں تیس حروف ہوں، جیسا کہ درمختار میں ہے: وضم أقصر سورة کالکوثر أو ما قام مقامھا وھو ثلاث آیات قصار نحو ثُمَّ نَظَرَ․ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ․ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ․ وکذا لو کانت الآیة أو الآیتان تعدل ثلاثًا قصارًا، وفي الشامیة: وھی ثلاثون حرفاً، فلو قرأ آیة طویلة قدر ثلاثین حرفا یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات،

عورتوں کاقبرستان جاناکیساہے

عورتوں کے قبرستان میں جانے سے اگر غم تازہ ہو اور وہ بلند آواز سے روئیں تو ان کے لیے قبرستان جانا گناہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے جو قبرستان جائیں تاکہ غم تازہ ہو ۔نیز چوں کہ ان میں صبر کم ہوتا ہے، اس لیے گھر ہی سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔ اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے، اور جوان عورت کے لیے تذکرہ موت و آخرت کی نیت سے جانے میں بھی کراہت ہے۔ البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210): "(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد

قبرستان میں قرآن لیجاکر تلاوت کرنا

مختار قول کے مطابق قبرستان میں قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت بلاکسی کراہت جائز ہے، ولا یکرہ الجلوس للقراء ة علے القبر فی المختار (نور الایضاح مع المراقی وحاشیة الطحطاوی ص: ۱۱۱، ۱۲۳)، وأخذ من ذلک جواز القراء ة علی القبر والمسألة ذات خلاف، قال الإمام: تکرہ لأن أہلہا جیفة ولم یصح فیہا شیء عندہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال محمد: تستحب الورود الآثار وہو المذہب المختار کما صرحوا بہ في کتاب الاستحسان (حاشیة الطحطاوی علی المراقي ص: ۶۲۱ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، نیز شامی (۳: ۱۵۶، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) دیکھیں۔ (۲) قرآن پاک یا سیپارہ قبرستان میں لے جاکر تلاوت کرنا بھی جائز ہے، البتہ ایصالِ ثواب کے لیے کسی خاص طریقہ کو لازم وضروری نہ سمجھا جائے۔ اور اگر کسی علاقہ میں ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ لازم وضروری سمجھا جاتا ہو تو وہاں اس سے احتراز کیا جائے۔

Wednesday 31 May 2023

تین بیٹی اور ایک بیٹے کے مابین وراثت کی تقسیم

کیافرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلۂ ذیل کے بارے میں. کہ ہمارے والد صاحب نے دوشادیاں کیں پہلی بیوی کی اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹاہے اوردوسری بیوی کی کوئی اولاد نہیں ہے پہلی بیوی کاانتقال ہوچکاہے. دوسری بیوی حیات ہیں. اگروالد صاحب کی ملکیت میں بٹوارہ کیاجائے تودوسری بیوی کے حصہ میں جوکہ زندہ ہیں کتناحصہ بنتاہے اورتینوں بیٹیوں کے حصہ میں کتنا حصہ آ ئے گا. اگروالد صاحب کے بعد بٹوارہ کیاجائے تودوسری ماں کوبھی حصہ دیاجاناچاۂئےیانہیں..کیاشوہر کی زندگی میں بیوی اپناحصہ شوہر کی وراثت سےمانگ سکتی ہے کہ نہیں. اگرجائداد نہیں بکتی ہے توحصہ دوسری ماں کودیناضروری ہے کہ نہیں. شریعت کی روشنی میں بتایاجائے. فقط جواب : شوہر جب تک زندہ ہو اس کے مال میں بیوی کا کوئی حق نہیں ہوتا،شوہرکی ذمہ داری ہے کہ وہ تاحیات اپنی منکوحہ کے نان نفقہ وسکنی کی ذمہ داری اٹھائے. شوہر کے زندہ رہتے ہوئے بیوی وراثت کا مطالبہ نہیں کرسکتی کیونکہ زندگی میں شوہر تنہا اپنی جائداد کا مالک ہوتا ہے؛ ہاں شوہرکی وفات کے بعد بیوی کا حق وراثت کے اعتبار سے وابستہ ہوتا ہے، اگر شوہر نے کوئی اولاد چھوڑی ہے تو بیوی آٹھویں حصے کی حقدار ہوتی ہے ورنہ چوتھائی حصے کی .کماقال اللہ تعالی :فان كان لكم ولد فلهن الثمن مماتركتم من بعد وصية توصون بها او دين.(النساء) لہذاصورت مسؤلہ میں اگر شوہر اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرناچاہتے ہیں تو وہ شرعا یہ حق بھی رکھتے ہیں تب آٹھواں حصہ پوری جائداد میں سے دینے کے بعد باقی جائداد کوپانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک ایک حصہ بیٹیوں کااور دوحصے بیٹے کو بقاعدۂ للذکرمثل حظ الانثیین تقسیم کیاجائے فقط واللہ اعلم بالصواب عامرالصمدانی قاضئ شریعت دارالقضاء علی گڑھ زیرنگرانی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ. ۔

Tuesday 30 May 2023

لوڈوکھیلناکیساہے

شریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو ، جیسے: تیراکی، تیراندازی ،گھڑسواری اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جن میں لگنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے گناہوں کا ارتکاب لازم آتا ہو یا وہ کھیل فساق و فجار کے کھیل ہوں، جیسے: شطرنج وغیرہ ۔ لڈو کھیلنے میں شرط نہ لگائی جائے یا کسی اور گناہ کا ارتکاب نہ ہو تو بھی اس میں عموماً انہماک اس درجہ کا ہوتا ہے کہ نماز و دیگر امور میں غفلت ہوجاتی ہے، اور اس بے مقصد کھیل میں قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہی ہے، نیز ایسے کھیلوں میں انہماک کی وجہ سے دل ودماغ اکثر اوقات ان ہی چیزوں کی طرف متوجہ رہتاہے اور خدا کی یاد سے غافل رہتاہے، لایعنی امور میں ایسا انہماک شرعاً ناپسندیدہ ہے، مسلمان کا دل ودماغ ہروقت یادِ خدا اور آخرت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے، اور وقت کو با مقصد کاموں میں لگانا چاہیے جن میں دینی و دنیوی یا کم از کم دنیوی فائدہ ہو ، لہذا ایسے بے مقصد اور لایعنی کھیلوں سے بہرصورت اجتناب کرناچاہیے ۔ حدیث شریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ' انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو بے فائدہ ہے "۔ [مالک، احمد] ایک اور حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " ۔۔۔ یاد رکھو! انسان جس چیز کو لہو ولعب (یعنی محض کھیل اور تفریح) کے طور پر اختیار کرے وہ باطل اور ناروا ہے، مگر اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا، اپنے گھوڑے کو سدھارنا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیل وتفریح کرنا، یہ سب چیزیں حق ہیں"۔[ترمذی، ابن ماجہ

Sunday 28 May 2023

قرآن مجید موبائل میں پڑھنا افضل ہے یا مصحف میں

قرآنِ مجید مصحف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، اس لیے کہ مصحف کو دیکھنا، اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا یہ اس کا احترام ہے، اور اس میں معانی میں زیادہ تدبر کا موقع ملتا ہے، اور یہ سب ثواب کا ذریعہ ہے، نیز پورے مصحف کو چھونے کے لیے وضو ضروری ہے، جب کہ موبائل میں جس وقت اسکرین پر قرآنِ پاک کھلا ہوا ہو تو صرف اسکرین قرآنِ پاک کے صفحے کے حکم میں ہے، موبائل کے بقیہ حصے قرآنِ مجید کے حکم میں نہیں ہیں، گویا مصحف کسی حائل کے بغیر ہاتھ میں لینے کے لیے باوضو ہونا بھی ضروری ہے، اس میں مصحف کا مزید احترام ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں موبائل میں حاصل نہیں ہوتیں، اس لیے بہتر ہے کہ مصحف ہی سے پڑھا جائے۔ اگر کبھی ضرورت ہو تو موبائل سے پڑھ لیں، اللہ کی ذات سے امید ہے اس پر بھی قرآن دیکھ کر پڑھنے کا ثواب عطا فرمائیں گے۔ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1487): " وعن عثمان بن عبد الله بن أوس الثقفي عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " «قراءة الرجل القرآن في غير المصحف ألف درجة، وقراءته في المصحف تضعف على ذلك إلى ألفي درجة» ". 2167 - (وعن عثمان بن عبد الله بن أوس الثقفي عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : قراءة الرجل القرآن في غير المصحف) ، أي من حفظه (ألف درجة)، أي ذات ألف درجة أو ثوابها ألف درجة في كل درجة حسنات، قال الطيبي: ألف درجة خبر لقوله: قراءة الرجل على تقدير مضاف، أي ذات ألف درجة ليصح الحمل كما في قوله تعالى: {هم درجات} [آل عمران: 163]، أي ذوو درجات، وأغرب ابن حجر وجعل القراءة عن تلك الألف مجازاً كرجل عدل، فتأمل (وقراءته في المصحف تضعف) بالتذكير والتأنيث مشدد العين، أي يزاد (على ذلك)، أي ما ذكره من القراءة في غير المصحف (إلى ألفي درجة) قال الطيبي: لحظ النظر في المصحف وحمله ومسه وتمكنه من التفكر فيه واستنباط معانيه اهـ يعني أنها من هذه الحيثيات أفضل وإلا فقد سبق أن الماهر في القرآن مع السفرة البررة، وربما تجب القراءة غيبًا على الحافظ حفظًا لمحفوظه. قال ابن حجر: إلى غاية لانتهاء التضعيف ألفي درجة؛ لأنه ضم إلى عبادة القراءة عبادة النظر، أي وما يترتب عليها، فلاشتمال هذه على عبادتين كان فيها ألفان، ومن هذا أخذ جمع بأن القراءة نظراً في المصحف أفضل مطلقًا، وقال آخرون: بل غيبًا أفضل مطلقًا، ولعله عملاً بفعله عليه الصلاة والسلام، والحق التوسط فإن زاد خشوعه وتدبره وإخلاصه في إحداهما فهو الأفضل وإلا فالنظر؛ لأنه يحمل على التدبر والتأمل في المقروء أكثر من القراءة بالغيب". فقط والله أعلم

Tuesday 23 May 2023

شیربندر وغیرہ کی خرید و فروخت

حلال جانوروں کے علاوہ دیگر جانوروں کی خرید و فروخت کے حوالے سے ضابطہ یہ ہے کہ ہر وہ جانور جسے سدھا کر شکار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو، یا اس کی کھال سے نفع اٹھایا جا سکتا ہو، اس کی خرید و فروخت کی شرعاً اجازت ہوگی، لہذا شیر و دیگر درندوں کے ایسے بچوں کی خرید و فروخت جائز ہے، جنہیں سدھانا ممکن ہو، اسی طرح سے اس شیر کی خرید و فروخت کی بھی اجازت ہے، جسے سدھایا جا سکتا ہو، تاہم تیندوے کی خرید و فروخت کی شرعاً اجازت نہیں؛ کیوں کہ خلقاً اس میں سدھائے جانے کی صلاحیت نہیں ہوتی، البتہ اگر اس کی کھال سے فائدہ حاصل کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں خرید و فروخت کی گنجائش ہوگی۔ نیز بندر کی خرید و فروخت کے بارے میں امام ابو حنیفہ کے دو قول ملتے ہیں، پہلا قول بروایت امام حسن بن زیاد رحمہ اللہ جواز کا ہے، وجہ یہ ہے کہ بندر کی کھال سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے، اور قاعدہ یہ ہے کہ ہر جان دار جس کی کھال سے استفادہ ممکن ہو اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ جب کہ دوسرا قول بروایت امام ابو یوسف رحمہ ممانعت کا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ بندر میں لہو لعب کے علاوہ کچھ نہیں، جس کی وجہ سے اس میں جہتِ حرمت غالب ہے۔ بلی کی خرید و فروخت بھی جائز ہے۔ تاہم، سور ( خنزیر)، چوہا، گوہ، جھینگر، لال بیگ، بچھو، چھپکلی، گرگٹ، ہیج ہاگ، مینڈک، کیکڑے و دیگر کیڑے مکوڑوں کی خرید و فروخت جائز نہیں۔ فتح القدیر شرح الہدایہ میں ہے: "(قوله: ويجوز بيع الكلب والفهد والسباع ، المعلم وغير المعلم في ذلك سواء) هكذا أطلق في الأصل ، فمشى بعضهم على إطلاقه كالقدوري. وفي نوادر هشام عن محمد : نص على جواز بيع الكلب العقور وتضمين من قتله قيمته . وروى الفضل بن غانم عن أبي يوسف نصه على منع بيع العقور ، وعلى هذا مشى في المبسوط فقال : يجوز بيع الكلب إذا كان بحال يقبل التعليم . ونقل في النوادر أنه يجوز بيع الجرو لأنه يقبل التعليم ، وإنما لا يجوز بيع الكلب العقور الذي لا يقبل التعليم ، وقال : هذا هو الصحيح من المذهب . قال : وهكذا نقول في الأسد إذا كان يقبل التعليم ويصطاد به يجوز بيعه ، وإن كان لا يقبل التعليم والاصطياد به لا يجوز ، قال : والفهد والبازي يقبلان التعليم فيجوز بيعهما على كل حال انتهى. فعلى هذا ينبغي أن لا يجوز بيع النمر بحال لأنه لشره لايقبل تعليماً. وفي بيع القرد روايتان عن أبي حنيفة : رواية الحسن الجواز ، ورواية أبي يوسف بالمنع . وقال أبو يوسف : أكره بيعه لأنه لا منفعة له إنما هو للهو وهذه جهة محرمة . وجه رواية الجواز أنه يمكن الانتفاع بجلده وهذا هو وجه رواية إطلاق بيع الكلب والسباع فإنه مبني على أن كل ما يمكن الانتفاع بجلده أو عظمه يجوز بيعه. ويجوز بيع الهرة لأنها تصطاد الفأر والهوام المؤذية فهي منتفع بها ، ولايجوز بيع هوام الأرض كالخنافس والعقارب والفأرة والنمل والوزغ والقنافذ والضب ، ولا هوام البحر كالضفدع والسرطان . وذكر أبو الليث أنه يجوز بيع الحيات إذا كان ينتفع بها في الأدوية وإن لم ينتفع فلا يجوز. (كتاب البيوع، مسائل منثورة، ٧ / ١١٨