https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 31 May 2023

تین بیٹی اور ایک بیٹے کے مابین وراثت کی تقسیم

کیافرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلۂ ذیل کے بارے میں. کہ ہمارے والد صاحب نے دوشادیاں کیں پہلی بیوی کی اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹاہے اوردوسری بیوی کی کوئی اولاد نہیں ہے پہلی بیوی کاانتقال ہوچکاہے. دوسری بیوی حیات ہیں. اگروالد صاحب کی ملکیت میں بٹوارہ کیاجائے تودوسری بیوی کے حصہ میں جوکہ زندہ ہیں کتناحصہ بنتاہے اورتینوں بیٹیوں کے حصہ میں کتنا حصہ آ ئے گا. اگروالد صاحب کے بعد بٹوارہ کیاجائے تودوسری ماں کوبھی حصہ دیاجاناچاۂئےیانہیں..کیاشوہر کی زندگی میں بیوی اپناحصہ شوہر کی وراثت سےمانگ سکتی ہے کہ نہیں. اگرجائداد نہیں بکتی ہے توحصہ دوسری ماں کودیناضروری ہے کہ نہیں. شریعت کی روشنی میں بتایاجائے. فقط جواب : شوہر جب تک زندہ ہو اس کے مال میں بیوی کا کوئی حق نہیں ہوتا،شوہرکی ذمہ داری ہے کہ وہ تاحیات اپنی منکوحہ کے نان نفقہ وسکنی کی ذمہ داری اٹھائے. شوہر کے زندہ رہتے ہوئے بیوی وراثت کا مطالبہ نہیں کرسکتی کیونکہ زندگی میں شوہر تنہا اپنی جائداد کا مالک ہوتا ہے؛ ہاں شوہرکی وفات کے بعد بیوی کا حق وراثت کے اعتبار سے وابستہ ہوتا ہے، اگر شوہر نے کوئی اولاد چھوڑی ہے تو بیوی آٹھویں حصے کی حقدار ہوتی ہے ورنہ چوتھائی حصے کی .کماقال اللہ تعالی :فان كان لكم ولد فلهن الثمن مماتركتم من بعد وصية توصون بها او دين.(النساء) لہذاصورت مسؤلہ میں اگر شوہر اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرناچاہتے ہیں تو وہ شرعا یہ حق بھی رکھتے ہیں تب آٹھواں حصہ پوری جائداد میں سے دینے کے بعد باقی جائداد کوپانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک ایک حصہ بیٹیوں کااور دوحصے بیٹے کو بقاعدۂ للذکرمثل حظ الانثیین تقسیم کیاجائے فقط واللہ اعلم بالصواب عامرالصمدانی قاضئ شریعت دارالقضاء علی گڑھ زیرنگرانی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ. ۔

No comments:

Post a Comment