https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 1 December 2023

سیکورٹی پر مکان یا پروپرٹی دینا یا لینا

 مالک مکان کا  کر ایہ دار سے سیکورٹی کے طور پر (ایڈوانس)  رقم وصول کرناشرعاً جائز ہے، اور یہ رقم فی نفسہ مالک کے پاس امانت ہوتی ہے، البتہ چوں کہ عرفاً مالک مکان یا دکان کو  اس رقم کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے؛ اس بنا پر  یہ رقم شرعاً مالک کے ذمے  قرض شمار  ہوگی، اور اس پر قرض والے اَحکام لاگو ہوں  گے۔باقی اگر مالک مکان کرایہ دارسے پیسے نہیں لیتا تو اس طرح کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ کرایہ نہ دینے کو ایڈوانس کی رقم کے ساتھ مشروط نہ کیا گیا ہو اگر یوں طے کیا گیا کہ کرایہ دار ایڈوانس دے گا تو کرایہ نہیں لیا جائے گا تو  یہ معاملہ سود کی اقسام میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔ 

واضح رہے کہ مکان کرائے پر لیتے وقت   جو سکیورٹی  (زر ضمانت) مالک مکان کو ادا کی جاتی ہے یہ تو شرعا قرض کے حکم میں ہوتی ہے ۔ رہائشی مکان کے بدلہ سکیورٹی (زر ضمانت)  کی تین ممکنہ صورتیں ہیں :

۱) مارکیٹ ریٹ کے مطابق مکان کرائے پر لیا جائے اور مالک مکان کے پاس سکیورٹی جمع کروائی جائے۔

۲) مالک مکان کو معروف سکیورٹی سے کچھ زیادہ سکیورٹی جمع کروائی جائے اور اس زیادہ سکیورٹی کی وجہ سے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے کم کرایا طے کیا جائے۔

۳) مالک مکان کو سکیورٹی جمع کروائی جائے اور کسی قسم کا کرایہ  طے نہ کیا جائے بلکہ اس سکیورٹی کے عوض رہائش پر مکان مل جائے۔

ان تین صورتوں میں سے پہلی صورت جائز ہے باقی دونوں صورتیں  نا جائز ہیں کیونکہ اخیر کی دونوں صورتوں میں سکیورٹی جو کہ قرض ہے اس کے بدلہ نفع کا حاصل کرنا پایا جارہا ہے (دوسری صورت میں یہ نفع کرائے میں کمی کی شکل میں ہے اور تیسری صورت میں بغیر کرائے کے مکان میں رہائش کی شکل میں ہے) اور قرض کے بدلہ نفع حاصل کرنا سود کے حکم میں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  سکیورٹی ادا  کر کے  بلا اجرت مکان رہائش  کے لیے لینا شرعا نا جائز ہے۔نیز  جن ایام میں مکان میں رہائش اختیار کی ان ایام کی  اجرت مکان میں رہنے والے پر اجرت مثل کے اعتبار سے واجب ہوگی کہ وہ مالک مکان کو اس  جیسے مکان کا کرایہ ادا کرے خواہ علیحدہ سے رقم دے کر کرایہ دے یا ایسی سکیورٹی والی رقم میں سے منہا کر کے دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."

(کتاب البیوع ، باب المرابحہ وا لتولیۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۶،ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية. (وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة."

(کتاب الاجارہ ، باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۰۹، ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الإجارة ‌الفاسدة، وهي التي فاتها شرط من شروط الصحة فحكمها الأصلي هو ثبوت الملك للمؤاجر في أجر المثل لا في المسمى بمقابلة استيفاء المنافع المملوكة ملكا فاسدا؛ لأن المؤاجر لم يرض باستيفاء المنافع إلا ببدل."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی حکم الاجارۃ ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۱۸، دار الکتب العلمی

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حمارا ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع."

(کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد ۶ ص :۶۳ ، ۶۴  ط : دارالفکر)

آپ کے مسائل اور ان کے حل  میں ہے:

"کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کا شرعی حکم

س… مالکِ مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا امانت ہے یا قرضہ ہے؟
ج… ہے تو امانت، لیکن اگر کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہو  (جیسا کہ عرف یہی ہے) تو یہ قرضہ شمار ہوگا۔
س… مالکِ مکان ایک طرف کرایہ میں بھاری رقم لیتا ہے، پھر ایڈوانس کے نام کی رقم سے فائدہ اُٹھاتا ہے، پھر سال دو سال میں کرایہ میں اضافہ بھی کرتا ہے، تو کیا یہ صریح ظلم نہیں، اس مسئلے کا سرِ عام عدالت کے  واسطے سے، یا علمائے کرام کی تنبیہ کے ذریعے سے سدِ باب ضروری نہیں؟

ج… زَرِ ضمانت سے مقصد یہ ہے کہ کرایہ دار بسااوقات مکان کو نقصان پہنچادیتا ہے، بعض اوقات بجلی، گیس وغیرہ کے واجبات چھوڑ کر چلا جاتا ہے، جو مالکِ مکان کو ادا کرنے پڑتے ہیں، اس کے  لیے کرایہ دار سے زَرِ ضمانت رکھوایا جاتا ہے، ورنہ اگر پورا اعتماد ہو تو زَرِ ضمانت کی ضرورت نہ رہے۔"

(کرایہ دار سے لی ہوئی رقم کا شرعی حکم جلد ۷ ص:۱۶۷ ، ۱۶۸ ط: مکتبہ لدھیانوی)

Thursday 30 November 2023

شوہر انکار کرے اور بیوی کہتی ہے کہ طلاق دیدی

 فقہاء نے صراحتاًلکھا ہے کہ: اگرکسی عورت کو اس کا شوہر تین طلاقیں دے دے اور پھر انکارکرے تواس صورت میں یاعورت اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے اس صورت میں عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گااور شوہر کاانکار معتبر نہ ہوگا۔ اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو  شوہرسے حلف لیاجائے گا،اگرشوہرحلف سے انکار کردے تو بھی فیصلہ عورت کے حق میں ہوگا، اور اگر شوہر حلف اٹھاتاہے توظاہری فیصلہ اسی کے حق میں ہوگا،البتہ جب عورت کوتین طلاق کایقین ہوتوشوہرکواپنے اوپرقدرت نہ دے اور چھٹکارے کی کوئی صور ت بنائے۔شریعت کایہ مسئلہ صاف اورواضح ہے۔لہذا

۱۔اگر بیوی کے پاس گواہ موجودہوں یاشوہرنے تحریری طلاق دی ہوتواس کاانکار معتبر نہیں۔

۲۔اگر گواہ نہ ہوں اور شوہرحلف اٹھاتاہے تو ظاہری طورپراسی کے حق میں فیصلہ کیاجائے گا،اور اس صورت میں عورت بقدرامکان شوہرکواپنے اوپرقدت نہ دے،اگرشوہرزبردستی تعلقات قائم کرتاہے تواس کاگناہ شوہرپرہی ہوگا۔

۳۔قدرت نہ دینے کاحکم اس بناپرہے کہ عورت کویقین ہے کہ اس نے تین طلاقیں سنی ہیں، لیکن وہ شرعی ضابطے  کے مطابق گواہ نہیں رکھتی ،لہذا یہ نشو ز کی تعلیم نہیں، بلکہ دیانۃً چوں کہ جدائی ہوچکی ہے، اس لیے یہ حکم دیاگیاہے۔

۴۔جب ظاہری فیصلہ شوہرکے حق میں ہے توعدت نہیں گزار سکتی ،اس لیے کہ  ظاہراً نکاح برقراہے،اورجب تک عورت اس کے گھرمیں ہے تونان ونفقہ بھی شوہرپرہی ہے۔اور ظاہرہے کہ جب عدت نہیں کرسکتی توکسی اور سے نکاح بھی جائزنہیں۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’...اگرشوہراس (مطلقہ)کواپنے پاس رکھے گاتوہمیشہ نزاع اور شک وشبہ رہے گا، اور شوہرگناہ گارہوگا،اگرخدانخواستہ شوہرنہ طلاق کااقرار کرے ،نہ اب طلاق دے ،اور طلاق کے شرعی گواہ بھی موجود نہ ہوں، توایسی صورت میں عورت شوہرسے خلع کرے،کچھ دے دلاکررہائی حاصل کرے،جماعت اور برادری کے سمجھ دار دین دارحضرات شوہر کوسمجھاکر طلاق کااقراریاطلاق دینے یاخلع کرلینے پرآمادہ کریں، طلاق کااقرار یا طلاق حاصل کیے یاخلع کے بغیر عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی....ایک صورت یہ ہے کہ شوہرسے جبراً واکراہاً طلاق بائن کہلوائی جائے یہ بالکل آخری درجہ ہے‘‘۔(فتاویٰ رحیمیہ8/283،ط:دارالاشاعت)

معلوم ہواکہ شریعت نے عورت کوبے آسرانہیں چھوڑ ا، بلکہ ایسی صورتِ حال میں اس کے چھٹکارے کی کئی صورتیں موجودہیں

Tuesday 28 November 2023

امام کی وجہ سےفرقہ بندی ہو تو امامت درست ہے کہ نہیں

الجواب وباللہ التوفیق و منہ المستعان و علیہ التکلان

صاحب درمختار نے لکھا ہے کہ امامت کے مقاصد

 میں سے  یہ دو مقاصد ہیں اہم:

(۱) امام کے ذریعہ تمام نمازیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور اُلفت و محبت پیدا ہو۔

(۲) امام کے ذریعہ لوگ زیادہ سے زیادہ مسائل سیکھیں اور دینی معلومات حاصل کریں۔

اگر یہ دونوں مقاصد امام سے حاصل نہ ہو رہے ہوں اور انتشار پھیل رہاہوجیساکہ سوال میں درج ہے کہ محلہ میں دوگروپ بن چکے ہیں دن بہ دن انتشار بڑھ رہا ہے فسادتک کی نوبت آگئی تو واقعی امام کی وجہ سے نمازیوں میں دوگروپ بن گیے ہیں  تو بشرط صحت سوال امام صاحب کوخود ہی مستعفی ہوجانا چاہیے تھا ۔جب انتظامیہ نے امام کو برطرف کردیااس کے باوجودامام صاحب کا اصرار مناسب نہیں جس امام کی وجہ سے محلہ میں پارٹی بندی ہویافساد کی نوبت آجائے وہ امامت کے لائق نہیں اگر وہ خود سے استعفی نہیں دیتے تو مسجد کے متولی اور کمیٹی والوں کوچاہئے کہ موقعہ محل دیکھ کر خوش اسلوبی کے ساتھ اسے امامت سے برطرف کر دیں، تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ سب مصلیوں کا صحیح طور پر ادا ہوسکے اور مسلمانوں میں گروہ بندی نہ ہو۔

 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/

 865):

"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".

وفيه أيضاً (3/ 866):
"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنعام: 37]" . 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):
"(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم".
الفتاوى الهندية (1/ 87):
"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط"

Monday 27 November 2023

کیا بیماری متعدی ہوتی ہیں


ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہ بیماری ایک سے دوسری کو لگتی، نہ (ہی) مرنے والے کی روح پرندے کی شکل میں دنیا میں آتی ہے، نہ کسی ستارے کی کوئی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔ (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر:3912)
تشریح:
اس روایت میں زمانہ جاہلیت میں عربوں میں پائے جانے والے باطل عقیدوں اور توہمات کا رد کیا گیا ہے۔
لا عدوی:(بیماری ایک سے دوسری کو نہیں لگتی ہے۔)
اس حدیث مبارکہ میں ’’ لا عدوى ‘‘ فرما کر’’بیماری کے متعدی ہونے‘‘ کے نظریے کی نفی کی گئی ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زمانۂ جاہلیت میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ امراض خود طبعاً اور لازمًا متعدی ہوتے ہیں، اللہ کی قدرت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے، اس لیے بعض روایتوں میں اس کی نفی کی گئی ہے، اور جن روایات سے بیماریوں کے متعدی ہونے کا ثبوت ملتا ہے، ان کا منشا یہ ہے کہ اسباب کے درجہ میں مشیتِ خداوندی کے تحت متعدی ہونا بیماری کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس لیے سدِّ ذرائع کےطور پر آپ ﷺ نے مجذوم سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔
اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی مرض کے بذاتِ خود ہرحال میں متعدی ہونے کا اعتقاد نہیں رکھنا چاہیے، البتہ اسباب کے درجے میں احتیاط ضرور کرنی چاہیے، کیونکہ بعض بیماریاں عادۃ ً متعدی ہوتی ہیں، اس لیے ان بیماریوں سے بچنے کے لیے ہرممکن اقدامات کرنے چاہیے۔
ولا هامة:
۱) " ہامہ " کے اصل معنی "سر" کے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے ایک خاص جانور مراد ہے جو عربوں کے گمان کے مطابق میت کی ہڈیوں سے پیدا ہو کر اڑتا ہے، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر کسی شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے تو اس مقتول کے سر سے ایک جانور جس کو " ہامہ " کہتے ہیں باہر نکلتا ہے اور ہر وقت یہ فریاد کرتا رہتا ہے کہ مجھے پانی دو، پانی دو، اور وہ قاتل کے مارے جانے تک فریاد کرتا رہتا ہے۔
۲) بعض لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ خود مقتول کی روح اس جانور کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور فریاد کرتی ہے، تاکہ قاتل سے بدلہ لے سکے جب اس کو قاتل سے بدلہ مل جاتا ہے تو اڑ کر غائب ہو جاتا ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس اعتقاد کو بھی باطل قرار دیا اور فرمایا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
۳) بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ " ہامہ " سے مراد " الو" ہے کہ جب وہ کسی گھر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ گھر ویران ہو جاتا ہے، یا اس گھر کا کوئی فرد مر جاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ بھی "طیرہ" یعنی پرندہ کے ذریعہ بدفالی لینے کے حکم میں داخل ہے جو ایک ممنوع چیز ہے، چنانچہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس عقیدہ کو باطل قرار دیا۔
ولا نوء:
نوء کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک ستارہ کا طلوع ہونا اور دوسرے کا غروب ہونا ہے۔ اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ ان ستاروں کے طلوع ہونے اور غروب ہونے سے بارشیں ہوتی ہیں۔ شریعت نے اس کو مستر د کردیا اور بتادیا کہ بارش اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے ستاروں سے نہیں ہوتی۔
نہایہ میں لکھا ہے کہ نوء کی جمع انواء ہے جس کے معنی قمر اور چاند کی ان منازل کے ہیں جن کو "نچھتر" کہتے ہیں۔ چاند کی اٹھائیسں منازل ہیں۔اہل جاہلیت بارش کو انہیں منازل اور نچھتروں کی طرف منسوب کرتے تھے، ان کاخیال تھا کہ چاند یا کوئی ستارہ جب ان منازل میں سے فلاں منزل میں اتر آتا ہے تو یقینی طو ر پر بارش ہو جاتی ہے، گویا وہ لوگ ان منازل اور نچھتروں کو بارش کے لیے مؤثر حقیقی سمجھتے تھے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس عقیدے کو شرک قراردیا، لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ عقیدہ اس وقت شرک ہوگا، جب ان منازل کو بارش کے لیے مؤثر حقیقی سمجھا جائے، البتہ اگر منازل میں چاند کے آنے کو بارش کے نزول کا ایک ظاہری سبب سمجھا جائے، یعنی یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بارش برساتا ہے جب کہ چاند اپنی فلاں منزل میں آتا ہے اور وہ وقت علت کا درجہ نہیں رکھتا، بلکہ محض ایک ظاہری سبب کا درجہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس وقت سے پہلے یا اس کے بعد بارش برسائے اور اگر چاہے تو اس وقت بھی نہ برسائے تو یہ عقیدہ نہ کفر کے دائرے میں آئے گا اور نہ اس کو باطل کہا جائے گا۔
ولا صفر:
اس سے صفر کا مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے، زمانۂ جاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ اس مہینے میں آفات و بلائیں اور حوادث ومصائب کا نازل ہوتی ہیں، اس لیے اس ارشاد کے ذریعہ اس عقیدے کو باطل و بے اصل قرار دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داؤد: (رقم الحديث: 3912، 57/6، ط: دار الرسالة العالمية)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا عدوى، ولا هامة، ولا نوء ولا صفر" .

فتح الباري: (161/10، ط: دار المعرفة)
وفي طريق الجمع مسالك أخرى أحدها نفي العدوى جملة وحمل الأمر بالفرار من المجذوم على رعاية خاطر المجذوم لأنه إذا رأى الصحيح البدن السليم من الآفة تعظم مصيبته وتزداد حسرته ونحوه حديث لا تديموا النظر إلى المجذومين فإنه محمول على هذا المعنى ثانيها حمل الخطاب بالنفي والإثبات على حالتين مختلفتين فحيث جاء لا عدوى كان المخاطب بذلك من قوي يقينه وصح توكله بحيث يستطيع أن يدفع عن نفسه اعتقاد العدوى كما يستطيع أن يدفع التطير الذي يقع في نفس كل أحد لكن القوي اليقين لا يتأثر به وهذا مثل ما تدفع قوة الطبيعة العلة فتبطلها وعلى هذا يحمل حديث جابر في أكل المجذوم من القصعة وسائر ما ورد من جنسه وحيث جاء فر من المجذوم كان المخاطب بذلك من ضعف يقينه ولم يتمكن من تمام التوكل فلا يكون له قوة على دفع اعتقاد العدوى فأريد بذلك سد باب اعتقاد العدوى عنه بأن لا يباشر ما يكون سببا لإثباتها وقريب من هذا كراهيته صلى الله عليه وسلم الكي مع إذنه فيه كما تقدم تقريره وقد فعل هو صلى الله عليه وسلم كلا من الأمرين ليتأسى به كل من الطائفتين ۔۔۔ العمل بنفي العدوى أصلا ورأسا وحمل الأمر بالمجانبة على حسم المادة وسد الذريعة لئلا يحدث للمخالط شيء من ذلك فيظن أنه بسبب المخالطة فيثبت العدوى التي نفاها الشارع وإلى هذا القول ذهب أبو عبيد وتبعه جماعة فقال أبو عبيد ليس في قوله لا يورد ممرض على مصح إثبات العدوى بل لأن الصحاح لو مرضت بتقدير الله تعالى ربما وقع في نفس صاحبها أن ذلك من العدوى فيفتتن ويتشكك في ذلك فأمر باجتنابه قال وكان بعض الناس يذهب إلى أن الأمر بالاجتناب إنما هو للمخافة على الصحيح من ذوات العاهة قال وهذا شر ما حمل عليه الحديث لأن فيه إثبات العدوى التي نفاها الشارع ولكن وجه الحديث عندي ما ذكرته.

عمدة القاري: (247/21، ط: دار إحياء التراث العربي)
قوله: (ولا هامة) الهامة الرأس واسم طائر وهو المراد في الحديث، وذلك أنهم كانوا يتشاءمون بها وهي من طير الليل، وقيل: هي البومة، وقيل: كانت العرب تزعم أن روح القتيل الذي لا يدرك بثأره يصير هامة فيقول: اسقوني اسقوني، فإذا أدرك بثأره طارت، وقيل: كانوا يزعمون أن عظام الميت وقيل: روحه تصير هامة فتطير ويسمونه: الصدى، فنفاه الإسلام ونهاهم عنه.

مرقاة المفاتيح: (2895/7، ط: دار الفكر)
عن أبي هريرة - رضي الله عنه - (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: لا عدوى ولا هامة ولا نوء) : بفتح فسكون أي: طلوع نجم وغروب ما يقابله. أحدهما في المشرق والآخر بالمغرب، وكانوا يعتقدون أنه لا بد عنده من مطر أو ريح ينسبونه إلى الطالع أو الغارب، فنفى - صلى الله عليه وسلم - صحة ذلك. وقال شارح: النوء سقوط نجم من منازل القمر مع طلوع الصبح وهي ثمانية وعشرون نجما يسقط في كل ثلاث عشرة ليلة نجم منها في المغرب مع طلوع الفجر، ويطلع آخر مقابله في المشرق من ساعته. في النهاية: الأنواء منازل القمر، وكانت العرب تزعم أن عند كل نوء مطرا وينسبونه إليه فيقولون: مطرنا بنوء كذا، وإنما سمي نوءا لأنه إذا سقط الساقط منها بالمغرب، فالطالع بالمشرق ينوء نوءا أي ينهض ويطلع، وقيل: أراد بالنوء الغروب، وهو من الأضداد.
قال أبو عبيد: لم يسمع في النوء أنه السقوط إلا في هذا الموضع، وإنما غلظ النبي - صلى الله عليه وسلم - في أمر الأنواء لأن العرب كانت تنسب المطر إليها، فأما من جعل المطر من فعل الله وأراد بقوله: مطرنا بنوء كذا أي في وقت كذا، وهو هذا النوء الفلاني، فإن ذلك جائز أي: أن الله تعالى قد أجرى العادة أن يأتي المطر في هذه الأوقات ذكره الطيبي، والأظهر أن النهي على إطلاقه حسما لمادة فساد الاعتقاد، ولأنه لم يرد ما يدل على جوازه، وحاصل المعنى لا تقولوا: مطرنا بنوء كذا، بل قولوا: مطرنا بفضل الله تعالى.

عمدة القاري: (247/21، ط: دار إحياء التراث العربي)
قوله: (ولا صفر) كانت العرب تزعم أن في البطن حية يقال لها: الصفر، تصيب الإنسان إذا جاع وتؤذيه، وإنها تعدي فأبطل الإسلام ذلك، وقيل: أراد به النسيء الذي كانوا يفعلونه في الجاهلية وهو تأخير المحرم إلى صفر ويجعلون صفر هو الشهر الحرام، فأبطله الإسلام.

مظاہر حق: (318/4، ط: مكتبة العلم)

توضيحات شرح مشكوة: (610/6، ط: المكتبة العصرية


Saturday 25 November 2023

هل العدوى فى الإسلام

 ما هي نظرة الإسلام إلى العدوى (انتقال المرض)؟

الإجابــة

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فقد ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم في العدوى أخبار متباينة.

منها: ما رواه الشيخان من حديث أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا عدوى ولا صفر ولا هامة، فقال أعرابي: يا رسول الله، فما بال الإبل تكون في الرمل كأنها الظباء فيخالطها البعير الأجرب، فيجربها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فمن أعدى الأول.

وفي رواية أخرى لأبي هريرة رضي الله عنه: لا يوردن ممرض على مصح.

وفي رواية أخرى: وفر من المجذوم كما تفر من الأسد.

وفي رواية عن جابر: أن النبي صلى الله عليه وسلم أكل مع مجذوم، وقال: ثقة بالله وتوكلا عليه.

وقد اختلف أهل العلم في التوفيق بين هذه الأحاديث، وأقرب أقوالهم إلى الصواب هو: أن الأمراض لا تعدي بطبعها، بل الله هو الذي يجعلها سببا لما ينجر عنها من الإصابة والانتقال.

قال ابن حجر في فتح الباري من ضمن مجموعة من المسالك في الجمع بين الأحاديث: ... المراد بنفي العدوى أن شيئا لا يعدي بطبعه، نفيا لما كانت الجاهلية تعتقده أن الأمراض تعدي بطبعها من غير إضافة إلى الله، فأبطل النبي صلى الله عليه وسلم اعتقادهم ذلك وأكل مع المجذوم ليبين لهم أن الله هو الذي يمرض ويشفي، ونهاهم عن الدنو منه ليبين لهم أن هذا من الأسباب التي أجرى الله العادة بأنها تفضي إلى مسبباتها، ففي نهيه إثبات للأسباب، وفي فعله إشارة إلى أنها لا تستقل، بل الله هو الذي إن شاء سلبها قواها فلا تؤثر شيئا، وإن شاء أبقاها فأثرت..

کیابیماری متعدی ہوتی ہے

 اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ کوئی مرض بذاتِ خود متعدی نہیں ہوتا، بلکہ سبب کے درجے میں اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو دوسرے انسان کو مرض لگتا ہے ورنہ نہیں لگتا، اسباب کے درجہ میں احتیاط کرنا توکل اور منشاءِ شریعت کے خلاف نہیں ہے،  لیکن کسی خاص مرض کے ہر حال میں دوسرے کو منتقل ہونے کا عقیدہ  رکھنا جائز نہیں ہے۔

اس بارے میں وارد  مختلف احادیثِ مبارکہ کے درمیاں شراحِ حدیث نے مختلف طرح سے تطبیق بیان کی ہے، جمہور محققین علماءِ کرام نے جو تطبیق دی ہےاس کا خلاصہ یہ ہے کہ :

                                       جن احادیثِ مبارکہ میں مرض کے متعدی ہونے کی نفی ہے اس سے مراد جاہلیت کے اس عقیدے کی نفی ہے کہ مرض بذاتہ یقینی طور پر متعدی ہوتاہے، بالفاظِ دیگر ہر مرض کے اندر مافوق الاسباب متعدی ہونے کی صلاحیت ہے، لہٰذا جاہلیت میں یہ نظریہ اس قدر پختہ تھا کہ مریض کے قریب جانے سے بیماری لازمی متعدی ہوتی ہے، وہ اس میں طبی اعتبار سے نہ فرق ملحوظ رکھتے تھے، نہ ہی اسے مشیت و قدرتِ خداوندی کا نتیجہ کہتے تھے، اس بداعتقادی کے قلع قمع کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بیماری کے متعدی ہونے کی نفی فرمائی، باقی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تقدیر کے تحت اس کے ضرر یا سبب بننے کی نفی نہیں کی۔

                              اور جن احادیثِ مبارکہ میں بیماری متعدی ہونے یا مریض سے دور رہنے کا حکم ہے اس سے مراد ماتحت الاسباب، اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت اور تقدیرِ خداوندی کے تحت بیماری کا متعدی ہونا ہے، اگر اللہ پاک چاہیں تو بیماری لگے گی اور نہ چاہیں تو نہیں لگے گی، نیز ہر بیماری متعدی نہیں ہوتی، بلکہ  بعض بیماریاں سبب کے درجے میں متعدی ہوسکتی ہیں، اور اَسباب میں تاثیر پیدا کرنا محض اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت ہے، عادت اور معمول کے مطابق اَسباب میں تاثیر ہوتی ہے، تاہم جس وقت اللہ چاہے وہ تاثیر ختم بھی کردیتاہے۔

چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :

                   "اہلِ مسلکِ ثانی نے یہ کہا کہ عدوی کی نفی سے مطلقاً نفی کرنا مقصود نہیں؛ کیوں کہ اس  کا مشاہدہ ہے ۔۔۔ مگر اہلِ مسلکِ ثانی نے اس کو خلافِ ظاہر سمجھ کر یہ کہا کہ مطلق عدوی کی نفی اس سے مقصود نہیں، بلکہ اس عدوی کی نفی مقصود ہے جس کے قائل اہلِ جاہلیت تھے اور جس کےمعتقدینِ سائنس اب بھی قائل ہیں، یعنی بعض امراض میں خاصیت طبعی لازم ہے  کہ ضرور متعدی ہوتے ہیں،  تخلف کبھی ہوتا ہی نہیں، سو اس کی نفی فرمائی گئی ہے  ۔۔۔الخ" (امداد الفتاوی، ج۴ / ص ۲۸۷)       

شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب السلام، باب لاعدوی ولاطیرة ولاهامة ولاصفر ولا نوء ...، (2/230) ط: قدیمي کراچي:

"قال جمهور العلماء: یجب الجمع بین هذین الحدیثین وهما صحیحان، قالوا: وطریق الجمع أن حدیث: "لاعدوی" المراد به نفي ماکانت الجاهلیة تزعمه وتعتقده أن المرض والعاهة تعدی بطبعها لابفعل الله تعالی، وأما حدیث: "لایورد ممرض علی مصح" فأرشد فیه إلی مجانبة مایحصل الضرر عنده في العادة بفعل الله تعالیٰ وقدره، فنفی في الحدیث الأول العدوی بطبعها، ولم ینف حصول الضرر عند ذلك بقدر الله تعالی وفعله، و أرشد في الثاني إلی الاحتراز مما یحصل عنده الضرر بفعل الله تعالی و إرادته وقدره. فهذا الذي ذکرناه من تصحیح الحدیثین والجمع بینهما هو الصواب الذي علیه جمهور العلماء، ویتعین المصیر إلیه".

الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان کفر من قال: مطرنا بالنوء، (1/59) ط: قدیمي، کراچي:

"عن زید بن خالد الجهني قال: صلی بنا رسول الله ﷺ صلاة الصبح بالحدیبیة في أثر سماء کانت من اللیل، فلمّا انصرف أقبل علی الناس فقال: هل تدرون ماذا قال ربکم؟ قالوا: الله و رسوله أعلم! قال: قال: أصبح من عبادي مؤمن بي و کافر، فأمّا من قال: مُطِرْنا بفضل الله و رحمته فذلك مؤمن بي و کافر بالکوکب، و أمّا من قال:  مُطِرْنَا بنوء کذا و کذا، فذلك کافر بي مؤمن بالکوکب".

ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حدیبیہ میں رات بارش ہونے کے بعد (صبح کی) نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف رُخِ انور کرکے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں: میرے بندوں میں سے بعض صبح کے وقت مجھ پر ایمان لانے والے ہوئے اور کچھ میرے منکر، یعنی جس نے یوں کہا: ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش برسی ہے، تو یہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستارے کا منکر ہے، اور جس نے  کہا: ہم پر فلاں فلاں نچھتر (ستاروں) کی وجہ سے بارش برسی ہے، یہ میرا منکر اور ستارے پر ایمان لانے والا ہے۔

Wednesday 22 November 2023

 

مَا زلتُ مَجهولاً، وَ حُبّكَ يَكبُرُ
وَ أجوبُ هذا الليلَ فيكَ أفكِّرُ
مُتَسَائلاً عَنّي، وَ لستُ أدلّني
وَ أعودُ مَجهولَ الخُطى أتَعَثَّرُ
يَا شَاغِلَ العَينينِ كيفَ سَلَبتَني؟
وَ وَقَعتُ في مَحظورِ مَا أتحَذَّرُ
يَا سَارِقَ الأنفاسِ كيفَ عَبثتَ بي؟
وَ أنا الكتومُ، الحَاذِقُ، المُتَحَذّرُ
هَذي العيونُ الهَاجراتُ تَهَجّدي
وَ خُفُوقيَ المَجنونُ كيفَ يُفَسَّرُ
جِدْ لي جَوَاباً للسؤالِ لكي تَرى
إنّي أحبَّكَ فوقَ مَا تَتَصوَّرُ
آمَنتُ انَّ الحُبَّ فيكَ نُبوءَتي
وَ هواكَ شبه الموتِ لا يَتَكرَّرُ
فَفَديتُ فيكَ الأصغرينِ وَ لم أزل
أخشى بأنّي بالوَفاءِ مُقَصِّرُ
هَذي مَعاذيري أتَتْكَ فعُدْ لَهَا
وَ ارحَمْ عَليلاً بِالهَوى يَتَعَذّرُ
مَنفَايَ أنتَ وَ مَنْ سِواكَ يُعيدُ لي
روحي، وَ مَنْ ذَا عَن جَفاكَ يُصَبّرُ؟
(جعفرالخطاط)

مسجد میں مورٹین یادیگر مچھر بگھانے والی اشیاء کا استعمال

 مذکورہ  اشیاء  اگر بدبو دار  ہیں تو   ان کا استعمال مسجد میں جائز نہیں ہوگا، مسجد  میں ایسے   اسپرے ، کریم یا کوئل کے  استعمال  کی اجازت ہوگی  جس میں بدبو نہ ہو ، اسی  طرح آج کل جو مچھر مار برقی آلات آتے ہیں وہ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن جابر رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: («من أكل من هذه الشجرة المنتنة، فلايقربنّ مسجدنا، فإنّ الملائكة تتأذى مما يتأذى منه الإنس»). متفق عليه.

المنتنة) أي: الثوم، ويقاس عليه ‌البصل والفجل، وما له رائحة كريهة كالكراث. قال العلماء: ومن ذلك من به بخر مستحكم وجرح منتن (فلايقربن مسجدنا) قيل: النهي يتعلق بكل المساجد، فالإضافة للملك، أو التقدير: مسجد أهل ملتنا؛ لأن العلة وهي (فإن الملائكة تأذى) وفي نسخة صحيحة: (تتأذى) أريد بهم الحاضرون موضع العبادات عامة توجد في سائر المساجد فيعم الحكم، ويدل هذا التعليل على أنه لا يدخل المسجد وإن كان خاليا من الإنسان لأنه محل ملائكة."

(کتاب الصلاۃ باب المساجد ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۹۸،دار الفکر)

فتاوی دار العلوم دیوبند:

"سوال : مٹی کے تیل کا لیمپ مسجد میں  جلانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: علت کراہت کی بدبو ہے، اگر بدبو نہ ہو تو جائز ہے؛ کیوں کہ علت اس میں نجاست نہیں ہے۔" 

( ج نمبر ۱۴ ص نمبر ۲۳۱)

امداد لااحکام:

آج کل لالٹین جرمنی سرسوں کے تیل کے بھی ملتی ہے اگر چراغ نہ ٹھرتا ہو تو اس کو جلایا جائے مٹی کت تیل کی لالٹین مسجد میں جلانا جائز نہیں بوجہ بدبو کے اور دیا سلائی بدبو دار سرخ مسالہ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔سیاہ مسالہ کی سلایئی میں بدبو نہیں ہوتی جو آج کل بہت رائج ہے مسجدوں میں اس کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔

(ج نمبر ۳ص ۱۸۲)

فتاوی محمودیہ:

۔۔۔ہاں اگر کوئی اور تیل ہے جس میں بدبو نہیں ہے یا مٹی ہی کے تیل کو کسی طرح ایسا صاف کرلیا ہے کہ بدبو نہیں رہی تو مسجد میں جلانا بھی درست ہے۔

(ج نمبر ۱۵ ص نمبر ۲۴۸)

میاں بیوی کا گھر میں جماعت سے نماز پڑھنا

 پڑھ سکتے ہیں، جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہو جائےگی، البتہ اہلیہ کو ایک صف پیچھے کھڑا کیا جائے، مرد کی طرح دائیں جانب کھڑی نہ ہو۔

ففی حاشیة الطحطاوی: حتی لو صلی فی بیته بزوجته أو جاریته أو ولده فقد أتی بقضیلة الجماعة اھ (ص: ۱۵۶)
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله أما الواحدة فتتأخر) فلو كان معه رجل أيضا يقيمه عن يمينه والمرأة خلفهما اھ (1/ 566)
وفی بدائع الصنائع: وإذا کان مع الإمام إمرأة أقامها خلفه لأن محاذاتها مفسدة وکذلك لو کان خنثی مشكل لإحتمال أنه إمرأة اھ (۱/ ۱۵۹)

Tuesday 21 November 2023

 اے ترا خارے بپا نشکستہ کے دانی کہ چیست

حال شیرانے کہ شمشیر بلا برسر خورند 

Monday 20 November 2023

مسافرعالم جمعہ پڑھا سکتا ہے کہ نہیں

 مسافر عالم جمعہ کی نماز پڑھاسکتے ہیں ۔

(ویصلح للإمامة فیہا من صلح لغیرہا فجازت لمسافر وعبد ومریض وتنعقد) الجمعة (بہم) أی بحضورہم بالطریق الأولی․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 155)

دورانِ سفر ٹرین میں نماز پڑھنا

 ٹرین میں فرض واجب سنت اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے، خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو، ٹرین چل رہی ہو یا رکی ہوئی ہو، البتہ ٹرین میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، البتہ سنن ونوافل قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتی ہیں۔

اگر ٹرین میں اس قدر رش ہو کہ قبلہ رو کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو اور وقت کے اندر کسی اسٹیشن پر اتر کر استقبالِ قبلہ اور قیام کے ساتھ نماز پڑھنا بھی ممکن نہ ہو  اور ٹرین مشرق یا مغرب کی سمت جارہی ہو (جیساکہ پاکستان وغیرہ میں ہے) تو دو سیٹوں کے درمیان قبلہ رو ہو کر قیام اور  رکوع کر کے نماز ادا کرے اور سجدہ کے لیے  پچھلی سیٹ پر کرسی کی طرح بیٹھ جائے، یعنی پاؤں نیچے ہی رکھے اور سامنے سیٹ پر سجدہ کرے، اس عذر کی صورت میں سجدے کے لیے  گھٹنے کسی چیز پر ٹیکنے کی ضرورت نہیں، اور اس کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔ البتہ (پاکستان میں) اگر ٹرین شمال یا جنوب کی جانب جارہی ہو تو اس صورت میں مذکورہ طریقہ کار کے مطابق نماز ادا کرنا جائز نہ ہوگا۔

اور اگر  مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالیٰ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة". (البحر الرائق، الکتاب الطهارة، باب التیمم، رشیديه ۱/ ۱۴۲)

فسخ النكاح بسبب الايدز

 مدى مشروعیة التفریق بین الزوجین للعیوب 

اختلف الفقهاء في جواز التفریق بسبب عیب وجده أحد الزوجین في 

صاحبه على قولین: 

أحدهما: لا یجوز التفریق بین الزوجین للعیب وهو مذهب الظاهریة، وبه 

(22) قال عمر بن عبد العزیز ورجحه الإمام الشوكاني

 .

من الحنفیة والمالكیة والشافعیة (23) والثاني: وهو قول جمهور الفقهاء

والحنابلة، وإ ن اختلفوا في العیوب التي یجري فیها الفسخ.


جمهور الفقهاء من المالكیة والشافعیة والحنابلة قالوا بحصر العیوب المجیزة 

لخیار التفریق بین الزوجین. 

بینما ذهب شیخ الإسلام ابن تیمیة وتلمیذه ابن القیم إلى أن هذه العیوب 

التي ذكرها الفقهاء إنما هي على سبیل التمثیل، وبالتالي یجوز القیاس علیها 

إذا وجدت عیوب أخرى إما بعلة دفع الضرر، أو بعلة عدم إمكان الجماع، 

أو یكون العیب منفرا مما یفوّ ت مقصود النكاح من قضاء الشهوة وتحصیل 

النسل، أو بعلة العدوى. 

والراجح من القولین هو الثاني القاضي بعدم حصر العیوب، وبالتالي فكل 

عیب تحققت فیه علة التفریق التي ذكرها الفقهاء ینبغي اعتباره سببا في 

(25) جواز التفریق بین الزوجین