https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 28 December 2023

قفیز طحان کیاہے

 قفیز طحّان“ کا مطلب یہ ہے کہ اجیر کے کام سے جو چیز وجود میں آرہی ہے اجرت اسی میں سے طے ہو یا اس کا عرف ہو شرعاً یہ جائز نہیں، حدیث کے اندر اس سے ممانعت آئی ہے۔ ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)

امداد الفتاوی میں ہے:

سوال:"زید نے اپنا بچھڑا بکر  کودیاتو اس کو پرویش کر بعد جوان ہونے کے اس کی قیمت کرکے ہم دونوں میں سے جوچاہے گانصف قیمت دوسرے کو دے کراسے رکھ لے گا،یا زید نے خالدکو ریوڑ سونپااور معاہدہ کرلیا کہ اس کوبعد ختم سال پھر پڑتال لیں گے،جو اس میں اضافہ ہوگا وہ باہم تقسیم کرلیں گے، یہ دونوں عقد شرعاًجائز ہیں یاقفیز الطحان کے تحت میں ہیں،جیساکہ عالمگیری جلد پنجم،ص:271،مطبوعہ احمدی میں ہے:دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة.

الجواب:كتب إلی بعض الأصحاب،من فتاوى ابن تيميه،كتاب الإختيارات مانصه: ولو دفع دابته أو نخله،إلي من يقوم له وله جزء من نمائه صح وهو رواية عن أحمد،ج:4ص:85،س:14،پس حنفیہ کے قواعدپر تویہ عقد ناجائز ہے،کمانقل في السؤال عن عالمگیرۃ،لیکن بنا بر نقل  بعض اصحاب امام احمد رح کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے،پس تحرز احوط ہے،اورجہاں ابتلاء شدید ہوتوسع کیاجاسکتاہے۔"

(کتاب الاجارۃ،ج:3،ص:342،343،ط:مکتبہ دار العلوم  کراچی)

ہدایہ میں ہے:

"ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة والأجرة معلومة لما روينا ولأن الجهالة في المعقود عليه وفي بدله تفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن والمثمن في البيع."

(كتاب الإجارة،ج:3،ص:231،ط:دار احياء التراث العربي،بيروت،لبنان)

قفیز الطحان اس کو کہتے ہیں کہ اجیر کے عمل کے کچھ حصے کو اس کے لیے اجرت کےطور پر مقرر کیا جائے۔مثلا کسی شخص کو گندم دی جائے کہ اس کو پیس کر آٹا بناؤاور اس آٹے میں سے ایک قفیز تمھاری اجرت ہوگی۔

   صورت مسئولہ کے مطابق اگر اجرت اس گندم سے مقرر کی جائے جس کو ابھی تک پیسا گیا نہ ہو تو یہ بلا شبہ جائز ہے۔لیکن اگر اس آٹے سےاجرت طے کی جائے جو اس گندم سے حاصل ہوگاتو یہ قفیز الطحان ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔

صورۃ قفیز الطحان ان یستاجر رجل من آخر ثورا یطحن بہ الحنطۃ علی ان یکون لصاحبھا قفیز من دقیقھا او یستاجر انسانا لیطحن لھا الحنطۃ  بنصف من الدقیق او ثلثھا او ما اشبھہ ذالک۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الاجارہ،الباب الخامس  ،ج4 ص444)

والحیلۃ في ذالک لمن اراد الجواز ان یشترط صاحب الحنطۃ قفیزا من الدقیق الجید،ولم یقل من ھذہ الحنطۃ او یشترط ربع ھذہ الحنطۃ من الدقیق الجید لان الدقیق اذا لم یکن مضافا الی حنطۃ بعینھا یجب فی الذمۃ ـ ـ ـ ـ ـ ـ وفی الخانیۃ: وکذا لو استاجر رجلا یجنی ھذا القطن بعشرۃ امناء من ھذالقطن لا یجوز ولو قال بعشرۃ امناء من القطن ولم یقل من ھذا القطن جاز۔(الفتاوی التا تارخانيه،كتاب الاجاره،ج15 ص114،115)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل، ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولايكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه، كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي".

 (كتاب الإجارة،ج:6،ص:57،ط:سعيد)

پالتی مارکر یاکرسی پر بیٹھ کر سونے میں وضو باقی رہے گا یاٹوٹ جایے گا

 آلتی پالتی مار کر یعنی چہار زانوں بیٹھنے کی حالت میں سونے والے نے اگر کسی چیز پر اس طرح ٹیک لگائی ہوئی ہو کہ اس ٹیک کو ہٹادیا جائے تو وہ گر جائے یا اس کا مقعد زمین سے اٹھا ہوا ہو تو اس حالت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر وہ ٹیک لگائے بغیر سویا ہو  تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب کہ آلتی پالتی مار کر یعنی چہار زانوں بیٹھنے  کی حالت میں سونے والے نے اپنا ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر ٹھوڑی کو ہاتھ سے ٹیک دی ہوئی ہو، یعنی کسی دوسری چیز سے ٹیک لگائی ہوئی ہو  تب تو وضو ٹوٹ جائے گا  ورنہ نہیں ٹوٹے  گا، ٹھوڑی کو ہاتھ پر ٹیک دینے کا وضو کے ٹوٹنے سے کوئی تعلق نہیں  ہے۔

(۳)  اگر کرسی پر بیٹھ کر سونے والے نے  ہاتھ  یا کمر سے  ٹیک لگائی ہوئی ہے  اس طرح کہ اس ٹیک کو  ہٹادیا جائے تو  وہ گر جائےتو اس حالت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر وہ کرسی پر ٹیک لگائے بغیر  سیدھا بیٹھا ہے اور اس کی آنکھ لگ گئی تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 141):

’’(و) ينقضه حكماً (نوم يزيل مسكته) أي قوته الماسكة بحيث تزول مقعدته من الأرض، وهو النوم على أحد جنبيه أو وركيه أو قفاه أو وجهه (وإلا) يزل مسكته (لا) يزل مسكته (لا) ينقض وإن تعمده في الصلاة أو غيرها على المختار كالنوم قاعداً ولو مستنداً إلى ما لو أزيل لسقط على المذهب‘‘۔

Wednesday 27 December 2023

من الشعر العربي


يا قُضاةَ العِبادِ إِنَّ عَلَيكُم

في تُقى رَبِّكُم وَعَدلِ القَضاءِ

أَن تُجيزوا وَتَشهَدوا لِنِساءٍ

وَتَرُدّوا شَهادَةً لِنِساءٍ

فَاِنظُروا كُلَّ ذاتِ بوصٍ رَداحٍ

فَأَجيزوا شَهادَةَ العَجزاءِ

وَاِرفُضوا الرُسحَ في الشَهادَةِ رَفضاً

لا تُجيزوا شَهادَةَ الرَسحاءِ

لَيتَ لِلرُسحِ قَريَةً هُنَّ فيها

ما دَعا اللَهَ مُسلِمٌ بِدُعاءِ

لَيسَ فيها خِلاطَهُنَّ سِواهُن

نَ بِأَرضٍ بَعيدَةٍ وَخَلاءِ

عَجَّلَ اللَهُ قَطَّهُنَّ وَأَبقى

كُلَّ خَودٍ خَريدَةٍ قَبّاءِ

تَعقِدُ المِرطَ فَوقَ دِعصٍ مِنَ الرَم

لِ عَريضٍ قَد حُفَّ بِالأَنقاءِ

وَلَحى اللَهُ كُلَّ عَفلاءَ زَلّا

ءَ عَبوساً قَد آذَنَت بِالبَذاءِ

صَرصَرٍ سَلفَعٍ رَضيعَةِ غولٍ

لَم تَزَل في شَصيبَةٍ وَشَقاءِ

وَبِنَفسي ذَواتُ خَلقٍ عَميمٍ

هُنَّ أَهلُ البَها وَأَهلُ الحَياءِ

قاطِناتٌ دورَ البَلاطِ كِرامٌ

لَسنَ مِمَّن يَزورُ في الظلماء 



Monday 25 December 2023

میت کو غسل دینے کا طریقہ

 (1) میت کو غسل دینے کے لیے ،سب سے پہلے کسی تخت یا بڑے تختے کا انتظام کرلیں ، اس کو اگر بتی یا عود ، لوبان ، وغیرہ سے تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا سات دفعہ چاروں طرف دھونی دے کر میت کو اس پر لٹادیں اور کوئی موٹا کپڑا ناف سے لے کر زانو تک اڑھاکر میت کے بدن سے کپڑے اتار لیں، (بایں طور کہ میت کا ستر بھی نہ کھلے اور کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ گیلا ہونے کے بعد ستر نظر آئے) پھر میت کو استنجا کرائیں ، لیکن اس کی رانوں اور شرم گاہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ اس پر نگاہ ڈالیں؛ بلکہ اپنے ہاتھ میں کوئی موٹا کپڑا لپیٹ لیں اور میت پر جو کپڑا پڑا ہے اس کے اندر ہاتھ ڈال کر استنجا کرائیں۔

حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ:’’ لا تبرز فخذک، ولا تنظر إلی فخذ حي ولا میت‘‘( اپنی ران کسی کے سامنے نہ کھولو اور نہ کسی زندہ یا مردہ کی ران کی طرف نظرکر و )۔نیز حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو غسل دیا تو اپنے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ لیا تھا۔

پھر  میت کو وضو کرائیں جیسے نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی صاحب زادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ کچھ خواتین نے غسل دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ پہلے وضو کے اعضاء  سے غسل شروع کریں۔ مگر کلی کرانے اور ناک میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں، ہاں اگر میت حیض ، نفاس یا جنابت کی حالت میں ہے تو کلی کرانا اور ناک میں پانی ڈالنا چاہیے، (اس کا طریقہ یہ ہے کہ نرم کپڑا یا روئی گیلی کرکے جس قدر سہولت سے ہوسکے منہ اور ناک کا اندرونی حصہ تر کردیا جائے)، پہلےچہرہ پھر کہنیوں سمیت ہاتھ دھلائیں پھر سر کا مسح کرائیں، پھر پیر دھلائیں اور کپڑے کو تر کرکے دانتوں کو صاف کریں اور ناک کے سوراخوں میں کپڑا پھیر دیں،ناک ، منہ اور کان میں روئی رکھ دیں؛ تاکہ پانی اندر نہ جانے پائے ، پھر سر کو صابن وغیرہ سے اچھی طرح دھودیں، پھر میت کو بائیں کروٹ پر لٹاکر بیری کے پتے ڈال کر، پکایا ہوا پانی نیم گرم، تین دفعہ سر سے پیر تک ڈالیں، یہاں تک کہ وہ پانی تخت کو لگے ہوئے میت کے جسم تک پہنچ جائے، پھر دا ہنی کروٹ پر لٹاکر ، اسی طرح تین مرتبہ پانی ڈالیں ، پھر میت کو کوئی شخص اپنے بدن سے ٹیک لگا کر بٹھائے اور پیٹ کو آہستہ آہستہ ملے اور دبائے، اگر نجاست نکلے تو اس کو صاف کردے ، پھر میت کو بائیں کروٹ پر لٹاکر، کافور پڑا ہوا پانی سر سے پیر تک تین دفعہ ڈالیں اور کسی صاف کپڑے سےبدن کو صاف کر دیں ۔

حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی رضی اللہ عنہا کے انتقال پر حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا   اور ان کے ساتھ غسل دینے والے عورتوں کو حکم دیا کہ تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا اس سے زیادہ اس کو غسل دو اور ہو سکے تو بیری کے پتوں اور پانی سے غسل دو اور آخری دفعہ کافور بھی اس میں ڈا ل دو۔

(2) میت کو غسل دینے والے کے لیے میت کو غسل دینے کے بعد  خود بھی غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ غسل کرنا مستحب ہے۔ اور اسی طرح بہتر ہے کہ کپڑے بھی تبدیل کرلے، تاہم اگر کپڑوں میں کوئی نجاست نہ ہو تو کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ فقط

میت کو کفنانے کا طریقہ

 

  • کفن کو تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا سات دفعہ لوبان وغیرہ کی دھونی دے دی جائے۔
  • پہلے چادر  بچھائی جائے، پھر اِزار  اور  اس کے اوپر کرتا۔ کرتے کو درمیان سے چاک کرکے اس میں گلے کی جگہ بنا لی جائے۔ کرتے کا نچلا نصف حصہ ازار پر بچھایا جائے اور اوپر کا باقی حصہ سرہانے کی طرف رکھ دیا جائے۔ اگر میت عورت ہے تو چادر بچھا کر اس پر سینہ بند اور پھر ازار اور پھر کرتا بچھایا جائے۔
  • پھر غسل دیے ہوئے مردے کو تختہ سے آہستگی سے اُٹھا کر کفن پر لٹا دیا جائے، اور کرتے کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف تھا اس کو سر کی طرف اُلٹ دیا جائے کہ کرتے کا سوراخ گلے میں آجائے، اور  پیروں کی طرف بڑھا دیا جائے۔
  • کرتا پہنانے  کے بعد جو تہبند یا چادر ستر کے واسطہ میت کے بدن پر ڈالی گئی تھی اسے نیچے سے نکال دیا جائے۔
  • اگر میت عورت ہے تو اس کے سر کے بالوں کو  دو حصے  کرکے کرتے کے اوپر سینے پر ڈال دیے جائیں؛ ایک حصہ داہنی طرف اور ایک بائیں طرف۔ اس کے بعد سربند سر پر اور بالوں پر ڈالا جائے، اس کو  نہ باندھا جائے نہ لپیٹا جائے۔
  • پھر سر اور  ڈاڑھی پر عطر وغیرہ کوئی  خوشبو لگا دی جائے۔ (یاد رہے مرد کو زعفران نہیں لگانی چاہیے، اور عورتوں کو تیز پھیلنے والی خوشبو نہیں لگانی چاہیے۔)
  • پھر سجدے کے موقعوں؛  پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلی، دونوں گھٹنے اور دونوں پنجے، پر کافور مل دیا جائے۔
  • پھر ازار کا بایاں پلہ (کنارہ) میت کے اوپر لپیٹ دیا جائے، پھر دایاں پلہ لپیٹا جائے، یعنی بایاں پلہ نیچے رہے اور دایاں اوپر۔ اگر میت عورت ہے تو ازار لپیٹنے کے بعد سینہ بند کو سینہ کے اوپر بغلوں سے نکال کر گھٹنوں تک دائیں بائیں سے باندھ دیا جائے۔
  • پھر چادر اسی طرح لپیٹ دی جائے؛ پہلے بائیں طرف، پھر داہنی طرف۔ یعنی بایاں پلہ نیچے رہے اور دایاں اوپر۔
  • پھر کسی دھجی سے پیر اور سر کی طرف کفن کو باندھ دیا جائے اور ایک بند کمر کے پاس بھی باندھ دیا جائے، تاکہ  راستے  میں کفن  نہ کھل جائے۔ قبر میں مردہ کو  قبلہ رُخ لٹانے کے بعد کفن کی یہ گرہیں کھول دی جائیں گی۔

چھوٹے  بڑے تمام عمر کے لوگوں کو کفن دینے کا یہی طریقہ ہے جو اوپر مذکور ہوا، البتہ جو بچہ ماں کے پیٹ سے مرا ہوا پیدا ہو، یعنی پیدا ہوتے وقت زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی تو ایسے بچے کو  قاعدے کے موافق کفن نہ دیا جائے، بلکہ کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے۔

اگر کسی مرد کو فقط  دو کپڑوں؛  ازار  اور  چادر، اور  عورت کو فقط تین کپڑوں؛ ازار، چادر اور سربند، میں کفن دیا جائے تو یہ بھی درست ہے اور اتنا کفن بھی کافی ہے۔ کسی مجبوری اور لاچاری کے بغیر اس بھی کم کپڑوں میں کفن دینا مکروہ ہے۔ لیکن اگر کوئی مجبوری اور لاچاری ہو تو مکروہ بھی نہیں۔

کسی انسان کی قبر کھل جائے یا اور کسی وجہ سے اس کی لاش قبر سے باہر نکل آئے اور اس پر کفن نہ ہو تو اس کو بھی مسنون کفن دینا چاہیے، بشرطیکہ وہ لاش پھٹی نہ ہو۔ اور اگر پھٹ گئی ہو تو صرف کسی کپڑے میں لپیٹ دینا کافی ہے، مسنون کفن کی حاجت نہیں۔

HIV positive and his partner rules

 


Sunday 24 December 2023

Dissolution of marriage due to HIV

 The Bombay high court recently upheld a family court order that dissolved a marriage on the grounds that the husband was HIV-positive and cruel. MUMBAI: The Bombay high court recently upheld a family court order that dissolved a marriage on the grounds that the husband was HIV-positive and cruel.21 Dec 2008

Wednesday 20 December 2023

چارکے بجائے پانچ رکعت پڑھادی

 اگر  چار رکعات فرض پڑھنے والا  قعدہ اخیرہ کیے بغیر کھڑا ہوگیا اب اگر اسے پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے یاد آجائے تو یہ شخص بیٹھ جائے اور آخر میں سجدہ  سہو  کرلے تو نماز درست ہوجائے گی، لیکن اگر پانچویں رکعت  کا سجدہ کرلیا  یا اس کے بعد چھٹی رکعت بھی پڑھ لی تو فرض نماز باطل ہوجائے گی،  فرض نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی،  اور یہ نماز نفل ہوجائے گی۔

دوسری صورت یہ ہے کہ چار فرض پڑھنے والا  قعدہ اخیرہ/ مقدار تشہد بیٹھنے کے بعد غلطی سے کھڑا ہوگیا تو اگر اسے پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے یاد آجائے تو بیٹھ جائے اور سجدہ  سہو  کرلے تو نماز درست ہوجائے گی، لیکن اگر پانچویں رکعت  کا سجدہ کرلیا تو چھٹی رکعت بھی اس کے ساتھ شامل کرلے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے تو چار فرض اور دو رکعت نفل بن جائے گی ۔ اگر سجدہ سہو نہ کیا تو  وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی ۔

لہذا اگر امام آخری قعدہ میں تشہد کی مقدار بیٹھا تھا اس کے بعد مقتدی کے لقمہ کی وجہ سے  یاکسی شبہ کی بنا پر کھڑا ہوگیا اور پانچویں رکعت پڑھالی اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلی تو نماز ہوجائے گی ، اگرچہ اس صورت میں چھٹی رکعت بھی ملالینی چاہیے تھی  اور آخر میں سجدہ سہو کرنا چاہیے تھا تاکہ آخری قعدہ میں بیٹھنے کی وجہ سے چار رکعات فرض اور دو نفل بن جاتیں۔

اور اگر امام تشہدکی مقدار نہیں بیٹھا تھا کہ تشہدمیں بیٹھتے ہی مقتدی کے لقمہ کی وجہ سے پانچویں رکعات کے لیے کھڑا ہوگیا اور پانچویں رکعت بھی پڑھالی اب یہ فرض نما زباطل ہوگئی ، اس لیے کہ قعدہ اخیرہ چھوٹ گیا ہے۔ اس صورت میں سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز درست نہ ہوگی۔بلکہ اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔ 

کرسمس اور عید کی مبارکباد دینا

 غیرمسلم کو کرسمس کی مبارکباد دینا مسلمان کے لیے درست نہیں، عید کی مبارکباد دینا جائز اور ثابت ہے۔ قال المحقق ابن أمیر حاج: بل الأشبہ أنہا جائزة مستحبة في الجملة ثم ساق آثارًا بأسانید صحیحة عن الصحابة في فعل ذلک... (شامي زکریا ۳/۵۰)

Tuesday 19 December 2023

جنازہ لیجاتے وقت کلمہ طیبہ بہ آواز بلند پڑھنا

 میت کے جنازے کے ساتھ چلنے والوں کو خاموش رہنا چاہیے، بلند آواز سے  ذکر کرنا، قرآن کریم کی تلاوت کرنا، کلمۂ شہادت پڑھنا یا کلمۂ شہادت کا نعرہ لگانا  مکروہ اور  بدعت ہے۔ البتہ آہستہ آہستہ انفرادی طور پر  دل ہی دل میں  میت کے ایصال ثواب کے لیے  کلام پاک کی تلاوت کرنا، ذکر کرنا یا کلمہ طیبہ کا ورد کرنا جائز ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(كره) كما كره فيها رفع صوت بذكر أو قراءة، فتح.و ينبغي لمن تبع الجنازة أن يطيل الصمت. و فيه عن الظهيرية: فإن أراد أن يذكر الله - تعالى - يذكره في نفسه {إنه لا يحب المعتدين} [الأعراف: 55] أي الجاهرين بالدعاء. و عن إبراهيم أنه كان يكره أن يقول الرجل وهو يمشي معها استغفروا له غفر الله لكم. اهـ. قلت: وإذا كان هذا في الدعاء والذكر فما ظنك بالغناء الحادث في هذا الزمان."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج: 2، صفحہ: 233، ط: ایچ، ایم، سعید)

Sunday 17 December 2023

قصيدة غزة

 لنا الغزة العزة القعساء شامخة

تفدى عليها الروح والحل والحرم 

بلد العروبة والأبطال والكرم

يغري بهاالاسلام واللوح والقلم

دارالاباة والحماة والاسود والشهداء

، تحظى بك السطوةالضرغامة البهم

فخراً يباهي بك الصمصام والشرف 

أنت الضياء جبيني  والعلياء لا الدهم

غرة النصر والحرب والاستشهاد

هبت بك الأعراب من رقدة العدم

أرض الثكالي والأرامل أنت عزتنا

الموت أهون عندك والحرب سجال

بيض السيوف لك الأقدار والقيم 

تبالاعداء ك الذئاب  وفتنتهم

وسحقالهم من رمة الاعراب والعجم


Saturday 16 December 2023

ایڈز کیا ہے

 ایڈز ایک مہلک اور جان لیوا مرض ہے جس کا انکشاف 1981ء میں ہوا۔ قدرت نے انسانی جسم کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے ایک نہایت ہی مؤثر دفاعی نظام سے نوازا ہے جس کو مدافعتی نظام بھی کہتے ہیں۔ اسی کے طفیل جسم میں انسانی قوت مدافعت کار گزار ہوتی ہے۔ اس مدافعتی نظام میں خرابی کے باعث انسان مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

ایڈز کا مرض ایک وائرس virus کے ذریعے پھیلتا ہے جو انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس کے حملے کے بعد جو بھی بیماری انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے نہایت سنگین اور مہلک صورت حال اختیار کر لیتی ہے۔ اس جراثیم کو ایچ آئی وی (HIV) کہتے ہیں۔ اس کو انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو ناکارہ بنانے والا وائرس بھی کہتے ہیں۔ ایڈز کا یہ وائرس زیادہ تر خون اور جنسی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ جسم کی دوسری رطوبتوں یعنی تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ میں بھی پایا جاسکتا ہے۔ مگر تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ بیماری پھیلانے کا باعث نہیں بنتے بلکہ یہ بیماری صرف خون اور جنسی رطوبتوں کے ذریعے ہی پھیلتی ہے۔

یہ وائرس کسی بھی متاثرہ شخص سے اس کے جنسی ساتھی میں داخل ہو سکتا ہے یعنی مرد سے عورت، عورت سے مرد، ہم جنس پرستوں میں ایک دوسرے سے اور متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں جا سکتا ہے۔ جنسی پھیلاؤ ترقی یافتہ اور افریقی ممالک میں بیماری کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہے۔

خون سے ایڈز کا پھیلاؤترمیم

خون کے اجزاء کے ذریعے ایڈز کی بیماری درج ذیل صورتوں میں پھیلتی ہے۔

  • جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ خون یا خون کے اجزاء کو کسی دوسرے مریض میں منتقل کیا جائے۔
  • جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ سرنج اور سوئیاں دوبارہ استعمال کی جائیں۔
  • وائرس سے متاثرہ اوزار جلد میں چبھنے یا پیوست ہونے سے مثلا کان، ناک چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات، حجام کے آلات اور جراحی کے دوران استعمال ہونے والے آلات۔
  • ایڈز کا وائرس متاثرہ مان کے بچے میں حمل کے دوران، پیدائش کے وقت یا پیدائش کے بعد منتقل ہو سکتا ہے۔
  • اگر کوئی بھی شخص اوپر بیان کیے گئے بیماری کے پھیلاؤ کے کسی ایک بھی طریقے سے گذرا ہو تو اس کو ایڈز کے جراثیم متاثر کر سکتے ہیں خواہ وہ کسی بھی عمر اور جنس کا ہو۔

ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو کہ انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو توڑ پھوڑ کر برباد کر دیتا ہے ۔ایچ آئی وی سے مراد ہیومن امیونو ڈیفیشنسی وائرس سے ہے جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ یہ انسانوں پر حملہ آور ہو کر ان کے مدافعتی نظام کو تہس نہس کر دیتا ہے۔

جس کے نتیجے میں انسان کے جسم میں اس بات کی طاقت نہیں رہتی ہے کہ وہ بیماریوں کا مقابلہ کر سکے اگرچہ انسانی جسم کو قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ جسم پر حملہ آور وائرس کو ختم کرسکے مگر اس وائرس کا مقابلہ کرنا انسانی جسم  کے بس میں بھی نہیں ہے اس وجہ سے ادویات کے ذریعے جسم کو اس کے مقابلے کی طاقت فراہم کی جاتی ہے۔

ایڈز کی بیماری کیسے ہوتی ہے؟

جسم میں ایڈز (ایچ آئی وی) کے داخل ہونے کے سبب جو انفیکشن ہوتا ہے اس کو ایڈز کہتے ہیں جو کہ مخفف ہے، اکوائیریڈ امیونو ڈیفیشنسی سنڈروم کا ۔ یہ بیماری اس وقت ہوتی ہے جب کہ ایچ آئی وی پازیٹو انسان کے جسم کا مدافعتی نظام بری طرح متاثر ہو جاتا ہے۔

یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہوتی ہے, جس کی علامات ہر فرد میں مختلف ہو سکتی ہیں. اس کی علامات کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کہ قوت مدافعت کے ختم ہونے کے سبب کسی بھی بیماری سے متاثر ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جن میں ٹی بی، نمونیا وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ ایسے مریض کچھ اقسام کے کینسر کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔

کیا ہر ایچ آئی وی پازیٹو ایڈز میں مبتلا نہیں ہوتا؟

یہ ایک اہم نقطہ ہے اکثر لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی پازیٹو والا فرد ایڈز میں بھی مبتلا ہوگا جب کہ بہت سارے افراد ایسے بھی ہیں جن میں ایک طویل عرصے سے ایچ آئی وی وائرس تو موجود ہے مگر وہ ایڈز میں مبتلا نہیں ہیں۔ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ ہر ایچ آئی وی پازيٹو ایڈز کا مریض نہیں ہوتا مگر ہر ایڈز کا مریض ایچ آئی وی پازیٹو ضرور ہوتا ہے۔

 دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے؟

۔ 1 چونکہ یہ ایک وائرس ہے تو یہ ایک فرد سے دوسرے فرد میں عام وائرس کی طرح پھیل سکتا ہے

۔ 2 یہ وائرس جسم کے مختلف مادوں کے تبادلے سے ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتا ہے

۔ 3 یہ ایک فرد کے دوسرے فرد کے ساتھ جنسی تعلقات کی صورت میں منتقل ہوسکتا ہے

 ۔ 4 متاثرہ مریض کی استعمال شدہ سرنج کے استعمال سے منتقل ہوسکتا ہے

۔ 5 حمل کی حالت میں ماں سے نومولود بچے میں منتقل ہو سکتا ہے

 ایچ آئی وی کی علامات

ایچ آئی وی جسم میں داخل ہو تو اس صورت میں دو سے تین ہفتوں کے بعد فلو کی اور عام نزلہ زکام کی شکایت ہو سکتی ہے اس کے بعد کچھ انسانوں کا مدافعتی نظام اس وائرس کو کچھ عرصے کے لیۓ خوابیدہ حالت میں لے آتا ہے یہ عرصہ ہر فرد میں مختلف ہو سکتا ہے بعض افراد میں اس کا دورانیہ دس سے پندرہ سال بھی ہو سکتا ہے۔ اس دوران جسم میں وائرس خاموشی سے موجود تو رہے گا مگر اس کی علامات ظاہر نہ ہوں گی۔



Friday 15 December 2023

ہشام بن عبدالملک اور سالم بن عبداللہ

 بادشاہ سلیمان بن عبد الملک کا بھائی ہشام بن عبد الملک بن مروان بیت اللّٰہ شریف کے حج کو آیا ۔ طواف کے دوران اُس کی نگاہ زاہد و متقی اور عالمِ ربانی جناب سالم بن عبداللّٰہ پر پڑی جو اپنے جوتے ہاتھ میں اُٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے ۔ اُن کے اوپر ایک کپڑا اور ایک عمامہ تھا جس کی قیمت 13 درہم سے زیادہ نہیں تھی۔

ہشام نے کہا: کوئی حاجت ہو تو فرمائیے۔
سالم بن عبداللّٰہ نے کہا: "مجھے اللّٰہ سے شرم آرہی ہے کہ میں اُس کے گھر کے سامنے ہوتے ہوئے کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاؤں ۔"
یہ سننا تھا کہ ہشام کے چہرے کا رنگ سُرخ ہوگیا اور اُس نے اپنی توہین سمجھی ۔ جب سالم بن عبداللّٰہ حرم سے باہر نکلے تو وہ (ہشام) بھی آپ کے پیچھے ہی حرم سے نکل پڑا اور راستے میں اُن کے سامنے آکر کہنا لگا، اب تو آپ بیت اللّٰہ سے باہر نکل چکے ہیں ، کوئی حاجت ہو تو فرمائیں۔
سالم بن عبداللّٰہ نے کہا: "تمہاری مراد دنیاوی حاجت سے ہے یا اُخروی حاجت سے ۔۔۔؟"
ہشام نے جواب دیا: اُخروی حاجت کو پورا کرنا میرے بس کی بات نہیں ، البتہ دنیاوی ضرورت ضرور پوری کرسکتا ہوں... فرمائیں۔
سالم بن عبداللّٰہ کہنے لگے: "میں نے دنیا تو اُس سے بھی نہیں مانگی جس کی یہ ملکیت ہے (یعنی اللّٰہ)۔ پھر بھلا میں اُس شخص سے دنیا کیسے طلب کرسکتا ہوں جس کا وہ خود مالک ہی نہیں۔۔! بحوالہ: (البدایة و النھایة)