https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 15 December 2023

ہشام بن عبدالملک اور سالم بن عبداللہ

 بادشاہ سلیمان بن عبد الملک کا بھائی ہشام بن عبد الملک بن مروان بیت اللّٰہ شریف کے حج کو آیا ۔ طواف کے دوران اُس کی نگاہ زاہد و متقی اور عالمِ ربانی جناب سالم بن عبداللّٰہ پر پڑی جو اپنے جوتے ہاتھ میں اُٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے ۔ اُن کے اوپر ایک کپڑا اور ایک عمامہ تھا جس کی قیمت 13 درہم سے زیادہ نہیں تھی۔

ہشام نے کہا: کوئی حاجت ہو تو فرمائیے۔
سالم بن عبداللّٰہ نے کہا: "مجھے اللّٰہ سے شرم آرہی ہے کہ میں اُس کے گھر کے سامنے ہوتے ہوئے کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاؤں ۔"
یہ سننا تھا کہ ہشام کے چہرے کا رنگ سُرخ ہوگیا اور اُس نے اپنی توہین سمجھی ۔ جب سالم بن عبداللّٰہ حرم سے باہر نکلے تو وہ (ہشام) بھی آپ کے پیچھے ہی حرم سے نکل پڑا اور راستے میں اُن کے سامنے آکر کہنا لگا، اب تو آپ بیت اللّٰہ سے باہر نکل چکے ہیں ، کوئی حاجت ہو تو فرمائیں۔
سالم بن عبداللّٰہ نے کہا: "تمہاری مراد دنیاوی حاجت سے ہے یا اُخروی حاجت سے ۔۔۔؟"
ہشام نے جواب دیا: اُخروی حاجت کو پورا کرنا میرے بس کی بات نہیں ، البتہ دنیاوی ضرورت ضرور پوری کرسکتا ہوں... فرمائیں۔
سالم بن عبداللّٰہ کہنے لگے: "میں نے دنیا تو اُس سے بھی نہیں مانگی جس کی یہ ملکیت ہے (یعنی اللّٰہ)۔ پھر بھلا میں اُس شخص سے دنیا کیسے طلب کرسکتا ہوں جس کا وہ خود مالک ہی نہیں۔۔! بحوالہ: (البدایة و النھایة)

No comments:

Post a Comment