https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 31 January 2024

حالت حيض میں قرآن پڑھنا

  ایام کے دنوں میں عورتوں کے لیے  تلاوت کی غرض سے قرآنِ پاک پڑھنا (خواہ ایک آیت ہی ہو) کسی صورت بھی جائز نہیں ہے، نہ چھو کر اور نہ ہی بغیر چھوئے،  اسی طرح تعلیم و تعلم کی غرض سے بھی  تسلسل کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا یاپڑھانا جائزنہیں ہے، البتہ تعلیم و تعلم کی غرض سے ایک ایک کلمہ علیحدہ علیحدہ کرکے پڑھنے یا پڑھانے کی گنجائش ہے۔

ایامِ حیض میں حائضہ عورت بوقتِ ضرورت قرآن مجیدکو ایسے کپڑے کے ساتھ چھو سکتی ہے جو اس نے پہنا نہ ہو، مثلاً: رومال وغیرہ سے جو بدن سے جدا ہو، لیکن دستانے چوں کہ ملبوس (پہنے ہوئے) ہوتے ہیں اور بدن سے جدا نہیں ہوتے؛ اس لیے  ہاتھ پر دستانے پہن کر اس سے قرآن پاک کو پکڑنا یا چھونا جائز نہیں ہے۔ قاعدے میں جس جگہ قرآن پاک کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو، اس جگہ کو بغیر حائل کے چھونا بھی جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 292)

''(وقراءة قرآن) بقصده (ومسه) ولو مكتوباً بالفارسية في الأصح، (وإلا بغلافه) المنفصل، كما مر (وكذا) يمنع (حمله) كلوح وورق فيه آية.

 (قوله: وقراءة قرآن) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً كما قدمناه، وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور، كما قدمه المصنف، (قوله: بقصده) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئاً من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به، كما قدمناه عن العيون لأبي الليث، وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية، (قوله: ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه. وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر: أي والصحيح المنع، كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية، كما قدمناه عن القهستاني وغيره، وفي التفسير والكتب الشرعية خلاف مر، (قوله: إلا بغلافه المنفصل) أي كالجراب والخريطة دون المتصل كالجلد المشرز، هو الصحيح، وعليه الفتوى؛ لأن الجلد تبع له، سراج، وقدمنا أن الخريطة الكيس. أقول: ومثلها صندوق الربعة، وهل مثلها كرسي المصحف إذا سمر به؟ يراجع''۔

Tuesday 30 January 2024

أدوات الاستفهام والتعجب فى اللغة الاسبانية

 أدوات الاستفهام والتعجب

  • ¿Qué ما
  • ¿Por qué? لماذا؟
  • ¿Quién? من؟
  • ¿Cuál? اي
  • ¿Dónde? اين
  • ¿Cuándo? متى
  • ¿Cuánto? كم
  • ¿Cómo? كيف

أمثلة على أدوات الاستفهام

  • ¿Qué idiomas habla usted?
  • ما اللغات التي تتكلمها؟
  • ¿Qué va a tomar?
  • ماذا تريد أن تتناول؟
  • لماذا تدرس اللغة الإسبانية؟
  • ¿Por qué estudias el español?
  • من يكون؟
  • ¿Quién es?
  • أي هذه الكتب يكون كتابك؟
  • ¿Cuál es tu libro?
  • أين تعيش؟
  • ¿Dónde vives?
  • متى يصل القطار؟
  • ¿Cuándo llega el tren?
  • كم أخًا لديك؟
  • ¿Cuántos hermanos tienes?
  • كيف حالك؟
  • ¿Cómo estas?

أمثلة على أدوات التعجب

  •  Qué bonito!
  •  يا للجمال!
  •  Qué calor!
  •  يا للحر!
  •  Qué bien!
  •  يا للحسن!
  •  يا لكثرة ما يشربه!
  •  Cuánto! bebe!
  •  يا لطريقته في اللعب!
  •  Cómo juega!

ملاحظات ضرورية على ضمائر الربط وأدوات الاستفهام والتعجب:

أولا:- حيث إن جميع ضمائر الربط التى سبق ذكرها ما عدا الضمير
Cuyas) – Cuyo– Cuya – Cuyos) يمكن استخدامهما كأدوات للاستفهام أو للتعجب، ولتحويلهم إلى أدوات استفهام أو تعجب يجب أن نقوم بوضع شدة مكتوبة على هذه الضمائر

ثانيا :- إذا استخدم ثالث ضمائر الربط كأداة استفهام أو تعجب لا يجب أن تسبقه أية أداة.
(Las cuales – El cual – La cual – Los cuales) أى أنه لا يجب أن نحذف منه أدوات التعريف

ثالثا :- كما أنه هناك العديد من الكلمات التي تستخدم كضمائر للربط بين جملتين على الرغم من أنها لم توضع لهذا الغرض أصلًا، ويمكن أن يحل محلها (Que – Cual )، مثل:

Donde: يستخدم كضمير للربط بشرط أن يكون عائدا على مكان، وقد نستخدم بدلًا منه (Que – Cual) مسبوقتين بأدوات التعريف ( و تأتي أدوات التعريف إما مؤنثة أو مذكرة على حسب اسم المكان الذي يسبق الضمير) ، ومصحوبة بحرف الجر للدلالة على المكان ( وغالبًا ما يكون حرف en)

مثل:

  • المنزل الذي أعيش فيه يكون كبيرًا.
  • La casa donde vivo es grande

ومن الممكن استخدام ( Que – Cual )

  • أما المنزل الذي أعيش فيه يكون كبيرًا.
  • La casa en la que vivo es grande
  • أو المنزل الذي أعيش فيه يكون كبيرًا.
  • La casa en la cual vivo es grande

Como : تستخدم كضمير للربط بشرط أن يكون عائدا على اسم يدل على الكيفية أو الأسلوب أو الطريقة، مثل:

  • أعجبتني الطريقة التي أُنهيت بها المشكلة.
  • Me gusta la manera como se terminaba el problema

Cuando: تستخدم كضمير للربط بشرط أن يكون عائدا على اسم يدل على زمن معين ( ساعة – يوم – سنة ) ، مثل

  • Aquel dia cua


الضمائر في اللغة الإسبانية

Monday 29 January 2024

طلاق دیدوں گا سے طلاق ہویی کہ نہیں


اگر واقعۃ  نے یہی الفاظ کہے ہیں کہ "میں  تجھےطلاق دے دوں گا تیرا بھائی اور تیری بہن ہی تجھے رکھے گی"اس کے علاوہ کوئی اور الفاظ نہیں کہے ہیں تو  ایسی صورت میں مذکورہ الفاظ آئندہ مستقبل میں طلاق دینے کی دھمکی کے ہیں اور شرعا دھمکی کے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے  ،لہذا نکاح بدستور قائم اور برقرار ہے۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام۔"

(كتاب الطلاق ج:1 ،ص:38،ط:دار المعرفة)

Saturday 27 January 2024

فسخ نکاح بوجہ عدم ادائیگی نفقہ

 حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الانفاق  ففی مجموع الامیر ما نصہ : ان منعھا   نفقۃ الحال فلہا القیام فان لم   یثبت عسرہ  انفق او طلق  و الا طلق علیہ  ، قال محشیہ : قولہ   والا طلق علیہ ای   طلق علیہ الحاکم من غیر تلوم…..الی ان قال: وان تطوع بالنفقۃ قریب اواجنبی فقال ابن القاسم:لہا ان تفارق  لان الفراق قد وجب لہا،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لہا لان سبب الفراق  ہو عدم النفقۃ   قد انتہی وہو الذی   تقضیہ المدونۃ  کما قال ابن المناصب   ، انظر الحطاب، انتہی."

(حیلہ ناجزہ ص: 73،فصل  فی حکم زوجۃ المتعنت)

Tuesday 23 January 2024

مذی کپڑوں پر لگ جائے تو کیسے پاک کریں

 مذی ناپاک ہے، نجاستِ غلیظہ ہے، کپڑے اور بدن پر لگنے سے  کپڑا اور بدن ناپاک ہوجاتا ہے، اگر مذی کپڑے پر لگ جائے اور اس کی مقدار  ایک درہم  (5.94 مربع سینٹی میٹر) سے کم ہو اور  اس کو دھوئے بغیر نماز پڑھ لی ہو تو نماز ہوجائے گی، (اگرچہ اس مقدار میں بھی نجاست کو دھو لیناچاہیے) اور اگر اس کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہو تو  نماز ادا نہیں ہوگی۔

اور اس کو پاک کرنے کے لیے تین مرتبہ اچھی طرح دھویا جائے اور ہر مرتبہ دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑا جائے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں، اس طرح تین مرتبہ دھونے سے وہ پاک ہوجائے گا، البتہ اگر اس کو  بہتے پانی یا تالاب  یا زیادہ پانی میں یا کسی اور جگہ اچھی طرح دھویا جائے، اور اس پر خوب پانی بہایا جائے کہ نجاست کا اثر دور ہوجائے تووہ کپڑا پاک ہوجاتا ہے، اگر  چہ اسے تین مرتبہ نچوڑا نہ  گیا ہو

فتاویٰ شامی میں ہے:

"( وعفا ) الشارع ( عن قدر درهم ) وإن كره تحريماً، فيجب غسله وما دونه تنزيهاً فيسن، وفوقه مبطل ( وهو مثقال ) عشرون قيراطاً ( في ) نجس ( كثيف ) له جرم ( وعرض مقعر الكف ) وهو داخل مفاصل أصابع اليد ( في رقيق من مغلظة كعذرة ) آدمي وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ". (1/316،ط:بیروت)

وفيه أيضًا:

"لَوْ غُسِلَ فِي غَدِيرٍ أَوْ صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ كَثِيرٌ، أَوْ جَرَى عَلَيْهِ الْمَاءُ طَهُرَ مُطْلَقًا بِلَا شَرْطِ عَصْرٍ وَتَجْفِيفٍ وَتَكْرَارِ غَمْسٍ هُوَ الْمُخْتَارُ".

(1/333، باب الأنجاس، ط: سعید)

Monday 22 January 2024

شب زفاف کا اسلامی طریقہ

 شب زفاف میں پہلی ملاقات کے وقت ابتداءً دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھیں، مرد آگے کھڑا رہے عورت پیچھے،نماز کے بعد خیر وبرکت، مودت ومحبت، آپسی میل ملاپ کی دعا کریں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ایک باکرہ عورت سے نکاح کیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے پسند نہ کرے اور دشمن تصور کرے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا محبت اللہ کی طرف سے ہے اور دشمنی شیطان کافعل ہے، جب عورت تیرے گھر میں آوے تو تو اس سے کہہ کہ تیرے پیچھے کھڑی ہوکر دو رکعت نماز پڑھے، اور تو یہ دعا پڑھ: اللھُمَّ بَارِکْ لِي فِي أَھْلِی، وَبَارِکْ لَأہْلِيوٴ فِيَّ، اللھُمَّ ارْزُقْنِي مِنْھُمْ وَارْزُقْھُمْ مِنِّی، اللھُمَّ اجْمَعَ بَیْنَنَا إذَا جَمَعْتَ فِيْ خَیْرٍ وَفَرِّقْ بَیْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ إِلَی خَیْرٍ․ اس کے بعد بیوی کی پیشانی کے بال پکڑکر یہ دعا پڑھے۔ اللّٰہُمَّ اِنِّيْ أَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہَا وَخَیْرِ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ․ شوہر تلطف ومحبت سے پیش آئے، اپنا سکہ اور رعب جمانے کی فکر نہ کرے، اور ہرطرح اس کی دلجوئی کرے کہ عورت کو مکمل سکون اور قلبی راحت حاصل ہو اور ایک دوسرے میں انسیت پیدا ہو۔ جب مباشرت کا ارادہ کرے تو مباشرت سے پہلے عورت کو مانوس کرے، بوس وکنار ملاعبت وغیرہ جس طرح ہوسکے اسے بھی مباشرت کے لیے تیار کرے، اور اس بات کا ہرمباشرت کے وقت خیال رکھے فوراً ہی صحبت شروع نہ کردے اور بوقت صحبت اس بات کا خیال رکھے کہ عورت کی بھی شکم سیری ہوجائے، انزال کے بعد فوراً جدا نہ ہوجائے، اسی حالت پر رہے اورعورت کی خواہش پوری ہونے کا انتظار کرے، ورنہ عورت کی طبیعت پر اس سے بڑا بار پیدا ہوگا اور بسا اوقات اس کا خیال نہ کرنے سے آپس میں نفرت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے جو کبھی جدائیگی کا سبب بن جاتی ہے۔ غنیة الطالبین میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: ویستحب لہا الملاعبة لہا قبل الجماع والانتظار لہا بعد قضاء حاجتہ حتی تقضي حاجتہا فإن ترک ذلک مضرة علیہا ربما أفضی إلی البغضاء والمفارقة (غنیة الطالبین: ۹۸) جب صحبت کرنے کا ارادہ کرے تو اولاً بسم اللہ پڑھے اور یہ دعا پڑھے: اللَّھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، بوقت صحبت قبلہ کی طرف رخ نہ کرے، سر ڈھانک لے اور جتنا ہوسکے پردے کے ساتھ صحبت کرے کسی کے سامنے حتی کہ بالکل ناسمجھ بچے کے سامنے بھی صحبت نہ کرے اور بوقت صحبت بقدر ضرورت ستر کھولے، انزال کے وقت دل میں یہ دعا پڑھے: اللَّھُمَّ لَا تَجْعَلْ لِلشَّیْطَانِ فِیمَا رَزَقْتنَا نَصِیبًا۔ صحبت کے بعد یہ دعا پرھے: الْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہ ُ نَسَبًا وَصِھْرًا․ شب زفاف اور صحبت کے سلسلے کی آپس کی جو باتیں پوشیدہ ہوں کسی سے ان کا تذکرہ نہ کرے یہ بے حیائی اور بے مروتی کی بات ہے۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ: ۴/ ۲۸۶ تا ۲۸۹ بحوالہ غنیة الطالبین مترجم: ۹۷ تا ۱۰۰ فصل فی آداب النکاح)

مسبوق اپنی نماز کیسے پوری کرے

  نماز میں ثناء پڑھنا سنت ہے، اگر کوئی شخص امام کے نماز شروع کرنے کے بعد آکر نماز میں شامل ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع کردی ہو تو وہ ثناء نہ پڑھے، اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع نہیں کی، یا امام نے قراءت شروع کردی، لیکن  سری نماز ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے نہیں، جیسا کہ ظہر اور عصر  کی نماز میں تو  بعد میں شامل ہونے والا ثناء پڑھ کر شامل ہوجائے۔ اور اگر کوئی رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو اور سب سے پہلے ثناء پڑھے۔ 

جماعت میں ایک یا زائد رکعت کے چھوٹ جانے اور اسے اداکرنے کے بارے میں تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

دو رکعت والی فرض نماز (فجر) میں اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق سلام پھیرے  بغیرے کھڑا ہوجائے اور سب سے پہلے ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اور اگر فجر کی دوسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہوا ہو تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مکمل دو رکعت ایسے ہی ادا کرنی ہوں گی جیسے انفرادی پڑھتے ہوئے ادا کرنی ہوتی ہیں۔

تین رکعت والی فرض نماز (مثلاً مغرب) کی نماز میں اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو اسی مذکورہ طریقے پر اسے ادا کرے جو طریقہ دو رکعت والی نماز کے بارے میں بیان کیا گیا، اور اگر تین رکعت والی نماز میں دو رکعت چھوٹ گئیں تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات پڑھ کر دوبارہ کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اور اگر مغرب کی تیسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہو تو امام کے سلام کے بعد پوری تین رکعت اسی ترتیب سے ادا کرنی ہوں گی جس طرح انفرادی طور پر ادا کی جاتی ہیں۔

چار رکعت والی فرض نماز (ظہر، عصر، عشاء) میں اگر ایک رکعت چھوٹ گئی تو اسے اوپر بیان کردہ طریقہ پر ہی پڑھے، اگر چار رکعت والی نماز میں دو رکعتیں چھوٹ گئیں تو  امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرنے کے بعد قعدہ میں نہ بیٹھے، بلکہ سیدھا کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔

چار رکعت والی نماز میں اگر تین رکعتیں چھوٹ جائیں تو ان کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات پڑھ کر دوبارہ کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرنے کے بعد قعدہ میں نہ بیٹھے، بلکہ


سیدھا کھڑا ہوجائے ، پھر بسم اللہ اور سورہ فاتحہ پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جس کی امام کے ساتھ شامل ہونے کی صورت میں کچھ رکعتیں چھوٹ گئی ہوں تو چھوٹی ہوئی رکعتوں میں قرأت کرتے ہوئے ان رکعتوں کو ابتدائی رکعت تصور کرے گا اور  قعدہ میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے میں ان رکعتوں کو آخر کی رکعتیں مان کر اس حساب سے قعدہ کرے گا، یعنی اگر ایک یا دو رکعتیں چھوٹی ہوں تو ان کو ابتدائی رکعتیں مان کر دونوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد بھی مزید قرأت کرے گا اور تین رکعتیں چھوٹنے کی صورت میں تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد مزید قرأت نہیں کرے گا، جب کہ تین رکعت والی نماز میں ایک یا دو رکعت چھوٹنے کی صورت میں ان رکعتوں کو قعدہ کے اعتبار سے دوسری اور تیسری رکعت مان کر دونوں میں قعدہ میں بیٹھے گا، چار رکعت والی نماز میں اگر ایک، یا تین رکعتیں چھوٹ جائیں تو پہلی رکعت کو قعدہ کے اعتبار سے دوسری رکعت مان کر اس میں قعدہ کریں گے،اور تیسری کو چوتھی مان کر اس میں قعدہ کرے گا۔ 

الفتاوى الهنديةمیں ہے:

’’(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لايأتي بالثناء. كذا في الخلاصة. هو الصحيح، كذا في التجنيس. وهو الأصح، هكذا في الوجيز للكردري. سواء كان قريباً أو بعيداً أو لايسمع لصممه، هكذا في الخلاصة. فإذا قام إلى قضاء ما سبق يأتي بالثناء ويتعوذ للقراءة، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة والظهيرية‘‘. (١/ ٩٠)

الدر المختارمیں ہے:

''ويقضي أول صلاته في حق قراءة، وآخرها في حق تشهد؛ فمدرك ركعة من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما، وبرابعة الرباعي بفاتحة فقط، ولايقعد قبلها.''

و في الرد:

'' وفي الفيض عن المستصفى: لو أدركه في ركعة الرباعي يقضي ركعتين بفاتحة وسورة، ثم يتشهد، ثم يأتي بالثالثة بفاتحة خاصة عند أبي حنيفة. وقالا: ركعة بفاتحة وسورة وتشهد، ثم ركعتين أولاهما بفاتحة وسورة، وثانيتهما بفاتحة خاصة اهـ. وظاهر كلامهم اعتماد قول محمد''. (1/ 596، ط: سعید )


Tuesday 16 January 2024

من الطرق الحكمية لا بن القيم الجوزيه ص٤٩


الطريق الرابع والخامس الحكم بالنكول وحده ، أو به مع رد اليمين : قال الإمام أحمد رحمه الله " قدم عبد الله بن عمر إلى عثمان بن عفان رضي الله عنه في عبد له فقال له عثمان احلف أنك ما بعت العبد وبه عيب علمته . فأبى ابن عمر أن يحلف فرد عليه العبد " .

فيقول له الحاكم : إن لم تحلف وإلا قضيت عليك - ثلاثا - فإن لم يحلف قضى عليه . وهذا اختيار أصحاب أحمد . وبه قال أبو حنيفة وأصحابه .

وقال الأوزاعي وشريح وابن سيرين والنخعي إذا نكل ردت اليمين على المدعي فإن حلف قضي له . وهذا مذهب الشافعي ومالك وقد صوبه الإمام أحمد . واختاره أبو الخطاب وشيخنا في صورة الحكم بمجرد النكول في صورة ، كما سنذكره .

وهذا : قول علي بن أبي طالب رضي الله عنه . وقد روى الدارقطني من حديث نافع عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رد اليمين على طالب ص: 102 ] الحق } ، واحتج لهذا القول بأن الشارع شرع اليمين مع الشاهد الواحد كما سيأتي . فلم يكتف في جانب المدعي بالشاهد وحده ، حتى يأتي باليمين ، تقوية لشاهده . قالوا : ونكول المدعى عليه أضعف من شاهد المدعي ، فهو أولى أن يقوى بيمين الطالب . فإن النكول ليس بينة من المدعى عليه ، ولا إقرارا ، وهو حجة ضعيفة ، فلم يقو على الاستقلال بالحكم ، فإذا حلف معها المدعي قوي جانبه ، فاجتمع النكول من المدعى عليه واليمين من المدعي ، فقاما مقام الشاهدين أو الشاهد واليمين . قالوا : ولهذا لم يحكم على المرأة في اللعان بمجرد نكولها دون يمين الزوج ، فإذا حلف الزوج ، ونكلت عن اليمين ، حكم عليها : إما بالحبس حتى تقر أو تلاعن كما يقول أحمد وأبو حنيفة ، وإما بالحد كما يقول الشافعي ومالك ، وهو الراجح ; لأن الله سبحانه وتعالى إنما درأ عنها العذاب بشهادتها أربع شهادات : والعذاب المدروء عنها بالتعانها هو العذاب المذكور في قوله تعالى : { وليشهد عذابهما طائفة من المؤمنين } وهو عذاب الحد . ولهذا ذكره معرفا فاللام العهد ، فعلم أن العذاب هو العذاب المعهود ذكره أولا . ولهذا بدئ أولا بأيمان الزوج لقوة جانبه ، ومكنت المرأة من أن تعارض إيمانه بأيمانها ، فإذا نكلت لم يكن لأيمانه ما يعارضها ، فعملت عملها ، وقواها نكول المرأة ، فحكم عليها بأيمانه ونكولها . فإن قيل : فكان من الممكن أن يبدأ بأيمانها ، فإن نكلت حلف الزوج وحدت ، كما إذا ادعى عليه حقا ، فنكل عن اليمين ، فإنها ترد على المدعي ، ويقضي له ، فهلا شرع اللعان كذلك والمرأة هي المدعى عليها ؟ بل شرعت اليمين في جانب المدعي أولا ، وهذا لا نظير له في الدعاوى .

قيل : لما كان الزوج قاذفا لها كان موجب قذفه أن يحد لها ، فمكن أن يدفع الحد عن نفسه بالتعانه ، ثم طولبت هي بعد ذلك بأن تقر أو تلاعن . فإن أقرت حدت ، وإن أنكرت والتعنت درأت عنها الحد بلعانها ، كما له أن يدرأ الحد عن نفسه بلعانه . وكانت البداءة به أولى لأنه مدع ، وأيمانه قائمة مقام البينة .

ولكن لما كانت دون الشهود الأربعة في القوة مكنت المرأة من دفعها بأيمانها . فإذا أبت أن تدفعها ترجح جانبه ، فوجب عليها الحد ، فلم تحد بمجرد التعانه ، ولا بمجرد نكولها ، بل بمجموع ص: 103 ] الأمرين . وأكدت الأيمان بكونها أربعا ، كما أكدت أيمان المدعين في القسامة بكونها خمسين ، ولتقوم الأيمان مقام الشهود . وفي المسألة قول ثالث ، وهو : أنه لا يقضى بالنكول ، ولا بالرد ، ولكن يحبس المدعى عليه حتى يجيب بإقرار أو إنكار يحلف معه . وهذا قول في مذهب أحمد . وهو أحد الوجهين لأصحاب الشافعي . وهذا قول ابن أبي ليلى ، فإنه قال : لا أدعه حتى يقر أو يحلف .

واحتج لهذا القول بأن المدعى عليه قد وجب عليه أحد الأمرين : إما الإقرار ، وإما الإنكار : فإذا امتنع من أداء الواجب عليه عوقب بالحبس ونحوه حتى يؤديه . قالوا : وكل من عليه حق ، فامتنع من أدائه ، فهذا سبيله . والآخرون فرقوا بين الموضعين ، وقالوا : لو ترك ونكوله لأفضى إلى ضياع حقوق الناس بالصبر على الحبس . فإذا نكل عن اليمين ضعف جانب البراءة الأصلية فيه ، وقوي جانب المدعي فقوي عن اليمين . وهذا كما أنه لما قوي جانب المدعين للدم باللوث بدئ بأيمانهم ، وأكدت بالعدد . والمقصود : أن الناس اختلفوا في الحكم بالنكول على أقوال . أحدها : أنه من طرق الحكم . وهذا هو قول عثمان بن عفان رضي الله عنه وقضى به شريح .

قال أبو عبيد : حدثنا يزيد بن هارون ، عن يحيى بن سعيد الأنصاري ، عن سالم بن عبد الله " أن أباه - عبد الله بن عمر - باع عبدا له بثمانمائة درهم بالبراءة ، ثم إن صاحب العبد خاصم فيه ابن عمر إلى عثمان بن عفان ، فقال عثمان لابن عمر : أحلف بالله لقد بعته وما به من داء علمته ، فأبى ابن عمر أن يحلف ، فرد عليه العبد " .

وقال ابن أبي شيبة ، عن شريك ، عن مغيرة ، عن الحارث ، قال : " نكل رجل عند شريح عن اليمين ، فقضى عليه ، فقال : أنا أحلف ، فقال شريح : قد قضي قضاؤك " . وهذا قول الإمام أحمد في إحدى الروايتين ، وقول أبي حنيفة .

والقول الثاني : أنه لا يقضى بالنكول ، بل ترد اليمين عن المدعي . فإن حلف قضى له ، وإلا صرفها . وهذا مروي عن ابن عمر وعلي ، والمقداد بن الأسود وأبي بن كعب ، وزيد بن ثابت رضي الله عنهم .

فروى البيهقي وغيره من حديث مسلمة بن علقمة ، عن داود ، عن الشعبي " أن المقداد استقرض من عثمان سبعة آلاف درهم ، فلما تقاضاه ، قال : إنما هي أربعة آلاف درهم ، فخاصمه إلى عمر . فقال المقداد : أحلف أنها سبعة آلاف ، فقال عمر رضي الله عنه : أنصفك . فأبى أن يحلف ، فقال ص: 104 ] عمر : خذ ما أعطاك " ورواه أبو عبيد عن عفان بن مسلم عن سلمة .

ورواه البيهقي من حديث حسين بن عبد الله بن ضميرة ، عن أبيه ، عن جده ، عن علي ، قال : " اليمين مع الشاهد ، فإن لم تكن له بينة فاليمين على المدعى عليه ، إذا كان قد خالطه ، فإن نكل حلف المدعي " .

وذكر البيهقي أيضا من حديث سليمان بن عبد الرحمن ، حدثنا محمد بن مسروق ، عن إسحاق بن الفرات ، عن الليث ، عن نافع ، عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم : رد اليمين على طالب الحق }

رواه الحاكم في " المستدرك " قلت : ومحمد بن مسروق - هذا - ينظر من هو ؟

وقال عبد الملك بن حبيب : حدثنا أصبغ بن الفرج ، عن ابن وهب ، عن حيوة بن شريح أن سالم بن غيلان التجيبي أخبره : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : { من كانت له طلبة عند أحد : فعليه البينة ، والمطلوب أولى باليمين . فإن نكل حلف الطالب وأخذ } وهذا مرسل .

واحتج لرد اليمين بحديث القسامة وفي الاستدلال به ما فيه ، فإنه عرض اليمين على المدعين أولا ، واليمين المردودة : هي التي تطلب من المدعي ، بعد نكول المدعى عليه عنها . لكن يقال : وجه الاستدلال : أنها جعلت من جانب المدعي لقوة جانبه باللوث ، فإذا تقوى جانبه بالنكول شرعت في حقه .

والقول الثالث : أنه يجبر على اليمين - شاء أم أبى - بالضرب والحبس ، ولا يقضى عليه بنكول ولا برد يمين . قال أصحاب هذا القول : ولا ترد اليمين إلا في ثلاثة مواضع لا رابع لها : أحدها : القسامة .

والثاني : الوصية في السفر إذا لم يشهد عليها إلا الكفار . والثالث : إذا أقام شاهدا واحدا حلف معه . وهذا قول ابن حزم ومن وافقه من أهل الظاهر . قالوا : لم يأت قرآن ولا سنة ولا إجماع على القضاء بالنكول ولا باليمين المردودة . وجاء نص القرآن برد اليمين في مسألة الوصية .

ونص السنة بردها في مسألة القسامة ، والشاهد واليمين . فاقتصرنا على ما جاء به كتاب الله . وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم ولم نعد ذلك إلى غيره ، وليس قول أحد حجة سوى قول المعصوم صلى الله عليه وسلم وكل من سواه : مأخوذ من قوله ومتروك .

ص: 105 ] وأما قول مالك في " الموطإ " - في باب اليمين مع الشاهد في كتاب الأقضية : أرأيت رجلا ادعى على رجل مالا ، أليس يحلف المطلوب ما ذلك الحق عليه ، فإن حلف بطل ذلك عنه ، وإن أبى أن يحلف ، ونكل عن اليمين ، حلف طالب الحق : إن حقه لحق ، وثبت حقه على صاحبه ؟ فهذا ما لا خلاف فيه عند أحد من الناس ، ولا في بلد من البلدان . فبأي شيء أخذ هذا ؟ أم في أي كتاب وجده ؟ فإذا أقر بهذا فليقر باليمين مع الشاهد ، وإن لم يكن ذلك في كتاب الله تعالى هذا لفظه .

قال أبو محمد بن حزم : إن كان خفي عليه قضاء أهل العراق بالنكول ، فإنه لعجيب . ثم قوله : " أذا أقر برد اليمين وإن لم يكن في كتاب الله : فليقر باليمين مع الشاهد ، وإن لم يكن في كتاب الله " فعجب آخر ; لأن اليمين مع الشاهد ثابت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فهو في كتاب الله .

قال الله تعالى : { وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا } . قلت : ليس في واحد من الأمرين من عجب .

أما حكايته الإجماع فإنه لم يقل : لا خلاف أنه لا يحكم بالنكول بل إذا نكل ، ورد اليمين ، حكم له بالاتفاق ، فإن فقهاء الأمصار على قولين : منهم من يقول : يقضي بالنكول . ومنهم من يقول : إذا نكل ردت اليمين على المدعي فإن حلف حكم له . فهذا الذي أراد مالك رحمه الله : أنه إذا رد اليمين مع نكول المدعى عليه لم يبق فيه اختلاف في بلد من البلدان ، وإن كان فيه اختلاف شاذ .

وأما تعجبه من قوله " إن الشاهد واليمين ليس في كتاب الله " فتعجبه هو المتعجب منه ، فإن المانعين من الحكم بالشاهد واليمين يقولون : ليس هو في كتاب الله تعالى ، بل في كتاب الله خلافه ، وهو اعتبار الشاهدين .

فقال مالك رحمه الله تعالى : إذا كنتم تقضون بالنكول ، ويقضي الناس كلهم بالرد مع النكول ، وليس في كتاب الله ، فهكذا الشاهد مع اليمين يجب أن يقضي به وإن لم يكن في كتاب الله تعالى ، كما دلت عليه السنة ؟ فهذا إلزام لا محيد عنه ، والله أعلم .

قال ابن حزم : وأما رد اليمين على الطالب ، إذا نكل المطلوب فما كان من كتاب الله تعالى ، ولا في سنة رسوله صلى الله عليه وسلم ، فبين الأمرين فرق كما بين السماء والأرض . فيقال : بل أرشد إليه كتاب الله وسنة رسوله . أما الكتاب : فإنه سبحانه شرع الأيمان في جانب المدعي إذا احتاج إلى ذلك ، وتعذرت عليه إقامة البينة ، وشهدت القرائن بصدقه ، كما في اللعان ، وشرع عذاب المرأة بالحد بنكولها ، مع يمينه فإذا كان هذا شرعه في الحدود التي تدرأ بالشبهات ، وقد أمرنا بدرئها ما استطعنا فلأن يشرع الحكم ص: 106 ] بها بيمين المدعي مع نكول المدعى عليه في درهم وثوب ونحو ذلك أولى وأحرى . ولكن أبو محمد وأصحابه سدوا على نفوسهم باب اعتبار المعاني والحكم التي علق بها الشارع الحكم ، ففاتهم بذلك حظ عظيم من العلم ، كما أن الذين فتحوا على نفوسهم باب الأقيسة والعلل - التي لم يشهد لها الشارع بالقبول - دخلوا في باطل كثير ، وفاتهم حق كثير . فالطائفتان في جانب إفراط وتفريط .

وأما إرشاد السنة إلى ذلك : فالنبي صلى الله عليه وسلم جعل اليمين في جانب المدعي إذا أقام شاهدا واحدا ، لقوة جانبه بالشاهد ، ومكنه من اليمين بغير بذل خصمه ورضاه ، وحكم له بها مع شاهده ، فلأن يحكم به باليمين التي يبذلها خصمه مع قوة جانبه بنكول خصمه أولى وأحرى . وهذا مما لا يشك فيه من له حوض في حكم الشريعة وعللها ومقاصدها . ولهذا شرعت الأيمان في القسامة في جانب المدعي ، لقوة جانبه باللوث . وهذه هي المواضع الثلاثة التي استثناها منكرو القياس . ولما كانت أفهام الصحابة رضي الله عنهم فوق أفهام جميع الأمة ، وعلمهم بمقاصد نبيهم صلى الله عليه وسلم وقواعد دينه وشرعه ، أتم من علم كل من جاء بعدهم : عدلوا عن ذلك إلى غير هذه المواضع الثلاثة : وحكموا بالرد مع النكول في موضع ، وبالنكول وحده في موضع . وهذا من كمال ، فهمهم وعلمهم بالجامع والفارق والحكم والمناسبات ، ولم يرتضوا لأنفسهم عبارات المتأخرين واصطلاحاتهم وتكلفاتهم ، فهم كانوا أعمق الأمة علما ، وأقلهم تكلفا . والمتأخرون عكسهم في الأمرين .

فعثمان بن عفان قال لابن عمر : " أحلف بالله لقد بعت العبد وما به داء علمته " ، فأبى . فحكم عليه بالنكول ، ولم يرد اليمين في هذه الصورة على المدعي ، ويقول له : احلف أنت أنه كان عالما بالعيب ، لأن هذا مما لا يمكن أن يعلمه المدعي ، ويمكن المدعى عليه معرفته ، فإذا لم يحلف المدعى عليه لم يكلف المدعي اليمين . فإن ابن عمر كان قد باعه بالبراءة من العيوب ، وهو إنما يبرأ إذا لم يعلم بالعيب ، فقال له : " احلف أنك بعته وما به عيب تعلمه " . وهذا مما يمكن أن يحلف عليه دون المدعي ، فإنه قد تعذر عليه اليمين : أنه كان عالما بالعيب ، وأنه كتمه مع علمه به .

وأما أثر عمر بن الخطاب - وقول المقداد : " احلف أنها سبعة آلاف " ، فأبى أن يحلف ، فلم يحكم له بنكول عثمان - فوجهه : أن المقرض إن كان عالما بصدق نفسه وصحة دعواه ، حلف وأخذه ، وإن لم يعلم ذلك لم تحل له الدعوى بما لا يعلم صحته ، فإذا نكل عن اليمين لم يقض له بمجرد نكول خصمه . إذ خصمه قد لا يكون عالما بصحة دعواه ، فإذا قال للمدعي : إن كنت عالما بصحة دعواك فاحلف وخذ ، فقد أنصفه جد الإنصاف . ص: 107 ] فلا أحسن مما قضى به الصحابة رضي الله عنهم ، وهذا التفصيل في المسألة هو الحق ، وهو اختيار شيخنا قدس الله روحه قال أبو محمد بن حزم ، محتجا لمذهبه : ونحن نقول : إن نكول الناكل عن اليمين في كل موضع عليه ، يوجب أيضا عليه حكما ، وهو الأدب الذي أمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم على كل من أتى منكرا يوجب تغييره باليد . فيقال له : قد يكون معذورا في نكوله ، غير آثم به ، بأن يدعي أنه أقرضه ويكون قد وفاه ، ولا يرضى منه إلا بالجواب على وفق الدعوى . وقد يتحرج من الحلف ، مخافة موافقة قضاء وقدر ، كما روي عن جماعة من السلف .

فلا يجوز أن يحبس حتى يحلف . وقولهم : " إن هذا منكر يجب تغييره باليد " كلام باطل ، فإن تورعه عن اليمين ليس بمنكر ، بل قد يكون واجبا أو مستحبا أو جائزا ، وقد يكون معصية .

وقولهم : " إن الحلف حق قد وجب عليه ، فإذا أبى أن يقوم به ضرب حتى يؤديه " فيقال : إن في اليمين حقا له وحقا عليه . فإن الشارع مكنه من التخلص من الدعوى باليمين ، وهي واجبة عليه للمدعي ، فإذا امتنع من اليمين فقد امتنع من الحق الذي وجب عليه لغيره ، وامتنع من تخليص نفسه من خصمه باليمين . فقيل : يحبس أو يضرب ، حتى يقر أو يحلف ، وقيل : يقضى عليه بنكوله ، ويصير كأنه مقر بالمدعى . وقيل : ترد اليمين على المدعي . والأقوال الثلاثة في مذهب أحمد .

وقول رابع بالتفصيل كما تقدم ، وهو اختيار شيخنا . وفي المسألة قول خامس : وهو أنه إذا كان المدعي متهما : ردت عليه ، وإن لم يكن متهما قضي عليه بنكول خصمه . وهذا القول : يحكى عن ابن أبي ليلى ، وله حظ في الفقه ، فإنه إذا لم يكن متهما غلب على الظن صدقه ، فإذا نكل خصمه قوي ظن صدقه ، فلم يحتج إلى اليمين . وأما إذا كان متهما لم يبق معنا إلا مجرد النكول ، فقويناه برد اليمين عليه ، وهذا نوع من الاستحسان

نكول عن الحلف (مجلة العدل) مكة المكرمة

 

النكول عن اليمين وأثره في القضاء // فضيلة الشيخ . عبدالعزيز بن محمد بن صالح الرضيمان

القاضي بالمحكمة الكبرى بمكة المكرمة والمدرس بقسم القضاء بجامعة أم القرى

 

             إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ، ومن سيئات أعمالنا ، من يهد الله فلا مضل له ومن يضلل لا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله صلى الله عليه وسلم وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين ، أما بعد :

            فإن الأصل في التقاضي أن البينة على المدعي واليمين على من أنكر انطلاقاً من قواعد الشريعة وأصولها .

            فعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : "لو يعطى الناس بدعواهم لا دعى ناسٌ دماء رجال أموالهم ، ولكن اليمين على المدعى عليه" ، وفي رواية للبيهقي : "البينة على المدعي واليمين على من أنكر" . وقد نقل ابن المنذر الإجماع على أن البينة على المدعي واليمين على من أنكر .

            إلا أنه يحصل أثناء التقاضي نكولٌ المدعى عليه عن اليمين عندما تطلب منه لنفي دعوى المدعي إذا لم يكن للمدعي بينة ، أو يُردُ المدعى عليه اليمين على المدعي ليحلف ويأخذ حقه ، ولأن النكول عن اليمين ، أو ردها للمدعي مما يحصل عند التقاضي في المحاكم .

            لذا أحببت المشاركة في بحث مختصر بعنوان " النكول عن اليمين ، وأثره في القضاء" .

نكول عن الحلف

 فقه المسلم » أحكام الاسرة » الحلف النكول عن اليمين اليمين هي الحلف بالله تعالى دون غيره ، يقسم الحالف بالله تعالى أو بأي اسم من أسمائه كالرحيم أو الحكيم أو العظيم .. أو بصفة من صفات ذاته كالحكمة أو العلم أو الرحمة …أنه فعل كذا أو لم يفعل كذا ، أو أنه ليس مدينا لفلان أو ……. . وقد روى الإمام مسلم أن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ قال: “لو يُعطى الناس بدعواهم لادَّعى ناس دماء رجال وأموالهم، ولكن اليمين على المُدَّعَي عليه”، وروى البيهقي والطبراني بإسناد صحيح أن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ قال: “البينة على من ادَّعى واليمين على مَن أنكر. فليس كل من يدعي على غيره أمرا يصدق في دعواه ، ولكن على المسلم أن يأتي بالدليل على ما يدعيه ، فلا بد من الدليل . اقرأ أيضا: حنث الناسي والجاهل الحنث خطأ في اليمين وإن لم يوجد دليل فله أن يطلب اليمين ، أي أن يحلف الآخر بالله تعالى أنه لم يعمل ما قاله من ادعى عليه. فإن حلف فلا سبيل له عليه . أما إذا رفض أن يحلف فقد اختلف الفقهاء في كون النكول (الامتناع ) عن اليمين من المدعى عليه دليلا يحكم به عليه بما يدعيه غيره : فقال الجمهور : لا يكون النكول دليلا ، ولكن يطلب القاضي من المدعي الحلف ، فإن حلف قضى له ، لأن امتناع المدعى عليه بمنزلة الشاهد ، وهم يجيزون الحكم بالشاهد مع اليمين . وقال الحنفية : يحكم القاضي للمدعي إذا امتنع المدعى عليه عن اليمين. جاء في الموسوعة الفقهية الكويتية: النكول لغة : الامتناع . يقال نكل عن اليمين أي امتنع عنها . وهو كذلك في الاصطلاح إذا كان في مجلس القضاء والنكول عند المالكية والشافعية وفي أحد رأيين عند الحنابلة لا يكون حجة يقضى بها على المدعى عليه . بل إذا نكل في دعوى المال أو ما يئول إليه ردت اليمين على المدعي بطلب المدعى عليه , فإن حلف المدعي قضي له بما طلب وإن نكل المدعي رفضت دعواه . فقد أقاموا نكول المدعى عليه مقام الشاهد , إذ عندهم أنه يقضى للمدعي بحقه إذا أقام شاهدا وحلف , فكذلك يقضى له بنكول المدعى عليه وحلف المدعي . فالحق عندهم لا يثبت بسبب واحد , كما لا يثبت بشاهد واحد . فإن حلف استحق به وإلا فلا شيء له . ومذهب الحنفية , وأحد قولين للإمام أحمد , أنه إذا كانت للمدعي بينة صحيحة قضي له بها . فإن لم تكن له بينة أصلا , أو كانت له بينة غير حاضرة , طلب يمين المدعى عليه , فإن حلف بعد عرض القاضي اليمين عليه رفضت دعوى المدعي , وإن نكل عن اليمين الموجهة إليه صراحة , كأن قال : لا أحلف , أو حكما كأن سكت بغير عذر ومن غير آفة ( كخرس وطرش ) يعتبر سكوته نكولا ويقضي عليه القاضي بنكوله إن كان المدعى مالا , أو المقصود منه المال , قضي عليه بنكوله , لكونه باذلا أو مقرا , إذ لولا ذلك لأقدم على اليمين ليدفع الضرر عن نفسه . ولا وجه لرد اليمين على المدعي لقوله صلى الله عليه وسلم { ولكن اليمين على جانب المدعى عليه } وقوله { البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه}. وإذا قال : لا أقر ولا أنكر لا يستحلف بل يحبس حتى يقر أو ينكر , وكذا لو لزم السكوت عند أبي يوسف . صاحب أبي حنيفة. وقال المالكية : إذا سكت المدعى عليه أو قال : لا أخاصمه قال له القاضي : إما خاصمت وإما حلّفت هذا المدعي على دعواه وحكمت له . فإن تكلم وإلا يحكم عليه بنكوله بعد يمين المدعي . وقال محمد بن عبد الحكم , وهي رواية أشهب وجرى بها العمل : إن قال : لا أقر ولا أنكر لم يتركه حتى يقر أو ينكر . . فإن تمادى في امتناعه حكم عليه بغير يمين . وذهب الشافعية إلى أنه إذا أصر المدعى عليه على السكوت عن جواب المدعي لغير دهشة أو غباوة جعل حكمه كمنكر للمدعى به ناكل عن اليمين , وحينئذ فترد اليمين على المدعي بعد أن يقول له القاضي : أجب عن دعواه وإلا جعلتك ناكلا , فإن كان سكوته لدهشة أو جهالة أو غباوة شرح له ثم حكم ; بعد ذلك عليه . وسكوت الأخرس عن الإشارة المفهمة للجواب كسكوت الناطق . وعند الحنابلة في اعتبار سكوت المدعى عليه نكولا روايتان : الأولى : يحبسه الحاكم حتى يجيب , ولا يجعله بذلك ناكلا . والثانية : يقول له القاضي : احلف وإلا جعلتك ناكلا وقضيت عليك .


 إسلام أون لاين