https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 31 January 2024

حالت حيض میں قرآن پڑھنا

  ایام کے دنوں میں عورتوں کے لیے  تلاوت کی غرض سے قرآنِ پاک پڑھنا (خواہ ایک آیت ہی ہو) کسی صورت بھی جائز نہیں ہے، نہ چھو کر اور نہ ہی بغیر چھوئے،  اسی طرح تعلیم و تعلم کی غرض سے بھی  تسلسل کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا یاپڑھانا جائزنہیں ہے، البتہ تعلیم و تعلم کی غرض سے ایک ایک کلمہ علیحدہ علیحدہ کرکے پڑھنے یا پڑھانے کی گنجائش ہے۔

ایامِ حیض میں حائضہ عورت بوقتِ ضرورت قرآن مجیدکو ایسے کپڑے کے ساتھ چھو سکتی ہے جو اس نے پہنا نہ ہو، مثلاً: رومال وغیرہ سے جو بدن سے جدا ہو، لیکن دستانے چوں کہ ملبوس (پہنے ہوئے) ہوتے ہیں اور بدن سے جدا نہیں ہوتے؛ اس لیے  ہاتھ پر دستانے پہن کر اس سے قرآن پاک کو پکڑنا یا چھونا جائز نہیں ہے۔ قاعدے میں جس جگہ قرآن پاک کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو، اس جگہ کو بغیر حائل کے چھونا بھی جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 292)

''(وقراءة قرآن) بقصده (ومسه) ولو مكتوباً بالفارسية في الأصح، (وإلا بغلافه) المنفصل، كما مر (وكذا) يمنع (حمله) كلوح وورق فيه آية.

 (قوله: وقراءة قرآن) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً كما قدمناه، وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور، كما قدمه المصنف، (قوله: بقصده) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئاً من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به، كما قدمناه عن العيون لأبي الليث، وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية، (قوله: ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه. وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر: أي والصحيح المنع، كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية، كما قدمناه عن القهستاني وغيره، وفي التفسير والكتب الشرعية خلاف مر، (قوله: إلا بغلافه المنفصل) أي كالجراب والخريطة دون المتصل كالجلد المشرز، هو الصحيح، وعليه الفتوى؛ لأن الجلد تبع له، سراج، وقدمنا أن الخريطة الكيس. أقول: ومثلها صندوق الربعة، وهل مثلها كرسي المصحف إذا سمر به؟ يراجع''۔

No comments:

Post a Comment