https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 23 April 2024

جنایات حج

 

  1.  صورتِ مسئولہ میں احرام کی حالت میں خوشبو والے صابن سے اگر ایک بار ہاتھ دھوئے ہوں تو صدقۂ فطر کے برابر صدقہ کرنا لازم ہے ،چاہے بھول کر ہی کیوں نہ دھوئے ہوں ،اسی طرح خوشبو والے سرف کے استعمال سے بھی صدقہ فطر لازم آئےگا۔
  2. صورتِ مسئولہ میں  کھانے میں یا دوائی کے طور زیتون کے تیل کو  استعمال کیاہو، تو خوشبوکےحکم  میں نہ ہوگا،اور دم لازم نہیں ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ چیزیں خالص ہوں ،اگران میں دوسری خوشبودارچیزملائی گئی ، اگر خوشبو کی ملاوٹ ہو تو پھران کاحکم بھی خالص خوشبوجیساہوگا۔
  3. واضح رہے کہ كھانے پینے کی وہ اشیاء جن میں خوشبو والے اشیاء ملائے جاتے ہوں،مثلاً چائے، قہوہ وغیرہ میں خوشبو ملائی ، تو اگر خوشبو غالب ہے تو دم ہے، اور اگر مغلوب(کم مقدار میں ) ہے تو صدقہ ہے، لیکن اگر کئی مرتبہ  کم مقدار میں خوشبو  ملائی گئی چیز کو پیا تو دم واجب ہوگا ۔
  4. صورتِ مسئولہ میں اگر حالتِ احرام میں غلطی سے چہرہ پر کپڑا یا چادر لگ جائے اور اسے فوراً ہٹادیا جائے تو اس صورت میں کوئی دم یا صدقہ لازم نہیں آئے گا، اور اگر بارہ گھنٹے سے زیادہ چہرہ ڈھانپا تو دم دینا لازم ہوگا، اور اگر اس سے کم وقت ڈھانپا تو صدقۂ فطر کی مقدار کے برابر صدقہ دینا لازم ہوگا۔
  5. واضح رہے کہ  اگر  بال محرم کے فعل کے بغیر خود بخود  گر جائیں  تو کچھ لازم نہیں،اور اگر بال محرم کے ایسے فعل سے گریں جس کا  اس کو شریعت  کی  جانب سے حکم دیا گیا ہو ، جیسے نماز کے لئے وضو کرنے کاحکم دیا گیا ہے، اور وضو کے دوران بال ٹوٹ جائیں   تو اگر تین  بال گر جائیں تو ایک مٹھی گندم صدقہ کرنا ہو گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويستوي في وجوب الجزاء بالتطيب الذكر والنسيان والطوع والكره والرجل والمرأة هكذا في البدائع."

(كتاب المناسك ،الباب الثامن في الجنايات، الفصل الأول في ما يجب بالتطيب،ج:1 ص:241 ط:رشيدية)

رد المحتار میں ہے:

"اعلم أن خلط الطيب بغيره على وجوه: لأنه إما أن يخلط بطعام مطبوخ أو لا، ففي الأول لا حكم للطيب سواء كان غالباً أم مغلوباً، وفي الثاني الحكم للغلبة إن غلب الطيب وجب الدم، وإن لم تظهر رائحته كما في الفتح، وإلا فلا شيء عليه، غير أنه إذا وجدت معه الرائحة كره، وإن خلط بمشروب فالحكم فيه للطيب سواء غلب غيره أم لا، غير أنه في غلبة الطيب يجب الدم، وفي غلبة الغير تجب الصدقة إلا أن يشرب مراراً فيجب الدم." 

(کتاب الحج، ج:2 ص:547 ط: سعید)

حج کے فرائض ،واجبات،سنن وآداب

 حج کے دو ارکان ہیں:ا۔وقوف عرفہ۲۔طواف زیارت

سنن حج:

۱۔مفرد آفاقی اور قارن کا طواف قدوم کرنا۔

۲۔طواف قدوم میں یا طواف فرض میں رمل کرنا۔

۳۔صفا مروہ کی سعی میں دونوں سبز نشانوں کے درمیان جلدی چلنا۔

۴۔قربانی کی راتوں میں سے ایک رات منیٰ میں قیام کرنا۔

۵۔سورج نکلنے کے بعد منیٰ سے عرفات جانا۔

۶۔سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ آجانا۔

۷۔مزدلفہ میں رات گزارنا۔

۸۔گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو تینوں جمرات میں  ترتیب سے سات سات کنکریاں مارنا۔

باقی حج کے فرائض، واجبات، سنن،آداب، مکروہات اور موجباتِ دم سے متعلق تفصیلات کے لیے ان دو کتابوں کا مطالعہ فرمائیں:۱۔معلم الحجاج  ۲۔انوار مناسک۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما ركنه فشيئان) الوقوف بعرفة وطواف الزيارة لكن الوقوف أقوى من الطواف كذا في النهاية حتى يفسد الحج بالجماع قبل الوقوف، ولا يفسد بالجماع قبل طواف الزيارة كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان.

(وأما سننه) فطواف القدوم والرمل فيه أو في الطواف الفرض، والسعي بين الميلين الأخضرين، والبيتوتة بمنى في ليالي أيام النحر، والدفع من منى إلى عرفة بعد طلوع الشمس، ومن مزدلفة إلى منى قبلها كذا في فتح القدير. والبيتوتة بمزدلفة سنة والترتيب بين الجمار الثلاث سنة هكذا في البحر الرائق."

(کتاب المناسک،ج1،ص209،ط؛دار الفکر)

چہرے اور ہتھیلیوں کے پردہ

 عورت کا تمام بدن ستر ہے، اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے، مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے، البتہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔ 

اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ پردہ کے تین درجات ہیں :

۱-  شرعی حجابِ اشخاص،  یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں، اس کی دلیل یہ ہے: {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ}    (الاحزاب:۳۳) ’’اورتم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔‘‘

۲-ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کاحکم{یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ} (الاحزاب:۵۹)  میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں  تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔

۳-پورا جسم تو مستور ہو، مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ ،امام مالکؒ، اما م احمدؒ نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاًاجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظمؒ  نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوفِ فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ و نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متأخرین فقہاءِ احناف نے بھی وہی فتویٰ دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے ۔

Monday 22 April 2024

زکوٰۃ کی رقم سے ملازمین کی تنخواہیں دینا

 زکاۃ کی مد سے تنخواہ دینا جائز نہیں، اور نہ ہی اس طرح تنخواہ دینے سے زکاۃ ادا ہوگی اگرچہ ملازم زکاۃ کا مستحق ہو۔

البتہ جو ملازمین زکاۃ کے مستحق ہوں انہیں اس صراحت کے ساتھ  زکاۃ دی جا سکتی ہے کہ  یہ رقم تنخواہ کے علاوہ بطورِ تعاون ہے، پھر خواہ اس کے ساتھ ہی الگ سے تنخواہ بھی دے دی جائے یا وضاحت کردی جائے کہ تنخواہ بعد میں دی جائے گی،  باقی زکاۃ دیتے وقت زکاۃ کی صراحت کرنا ضروری  نہیں ہے، بلکہ تعاون یا ہدیہ وغیرہ کہہ کر بھی دی جاسکتی ہے، البتہ زکاۃ دینے والے کے دل میں زکاۃ کی نیت ہونا ضروری ہے۔ 

نیز یہ بھی یاد رہے کہ جو ملازمین زکاۃ کے مستحق نہیں ہیں،  انہیں زکاۃ کی مد سے تعاون یا ہدیہ کے نام سے دینا بھی جائز نہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"ولو دفعها المعلم لخلیفته إن کان بحیث یعمل له لو لم یعطه صح، و إلا لا.

(قوله: وإلا لا )؛ لأن المدفوع یکون بمنزلة العوض".

(ردالمحتار علی الدر 2/356)

فتاویٰ عالمگیری  میں ہے :

"فهي تملیك المال من فقیر مسلم ... بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه".

(الفتاویٰ الهندیة : 1/170 )

فتاوی عالگیر ی میں ہے:

'' ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية."

(الفتاوى الهندية 1/ 171)

زکوۃ کی رقم سے مسجد ،اسکول کی تعمیر

 زکاۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زکاۃ کی رقم مستحقِ زکاۃ فرد کو مالک بناکر دے دی جائے، اور تعمیرات میں چوں کہ کسی فرد کو مالک بنانا نہیں پایا جاتا؛ لہٰذا زکاۃ کی رقم سے مدرسہ مسجد، اسپتال، یا دیگر کوئی بھی فلاحی اسکول یا ادارہ قائم کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی


''فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

" لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين".   (1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ

عظمت مدینہ

 کھانے میں کوئی چیز پسند نہ آئے توشکایت نہ کرے ایک صاحب نے شکایت کی کہ مدینہ منورہ کادہی کھٹا ہے، ہمارے ہندوستان میں دہی میٹھاہوتاہے، توخواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مدینہ سے نکل جاؤ۔وہاں کی ہرچیز کو محبت ، عزت اورعظمت کی نظر سے دیکھو کسی چیزمیں عیب نہ نکالو ایک صاحب مدینہ منورہ کی برقعہ پوش کالی عورتوں سے روزانہ انڈے خریدتے تھے ایک دن کچھ انڈے گندے نکل آئے توانہوں نے انڈے خریدنے بند کردیے توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی فرمایاکہ کالی عورتیں برقعے میں جو آتی ہیں بہت دور سے آتی ہیں، غریب ہیں،ان سے انڈے خرید لیا کرو ان کو مایوس نہ کرو۔ پھر وہ اتنے روئے اور پھر وہ روزانہ بے ضرورت ان عورتوں سے انڈے خرید کرتقسیم کردیتے تھے ۔

ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

عزت بخاری


زیر آسماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا شہر ایک ایسی ادب گاہ ہے جہاں حضرت جنید بغدادیؒ اور حضرت بایزید بسطامیؒ جیسے عظیم الشان ولی بھی سانس روک کر آتے ہیں۔ یعنی ادب سے اونچا سانس نہیں لیتے۔

(اس شعر میں آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے شہر کی عظمت کا بیان ہے جس کے پیش نظر ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی اس شہر کی عظمت ہمیشہ اپنے مٓن میں سمائے رکھیں ۔)



۱۰) مدینے کی موت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس کو استطاعت ہو کہ مدینہ میں مرے وہ مدینہ میں آکر مر جائے اس لیے کہ جومدینہ میں مرے گا  اس کی شفاعت کروں گا ۔؎ 
۱۱) اپنے آپ کو خادم سمجھیں مخدوم نہ سمجھیں اپنی ذات کولوگوں کے لیے راحت کا باعث بنائیں اوران کی خدمت کو اپنی سعادت 
سمجھیں ۔

ارکان حج

 حج  کے ارکان تین ہیں:

1- احرام یعنی حج اور عمرے کی نیت،

2- میدانِ عرفات میں وقوف،

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

’’الْحَجُّ عَرَفَة، مَنْ جَاءَ لَیْلَة جَمْعِِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ فَقَدْ اَدْرَکَ الحَجَّ".  (الترمذي:۸۸۹، النسائي: ۳۰۱۶، ابن ماجه: ۳۰۱۵)

ترجمہ: ’’حج وقوفِ عرفہ سے عبارت ہے۔ جو شخص مزدلفہ کی رات طلوعِ فجر سے قبل میدانِ عرفات میں آجائے اس کا حج ہوگیا‘‘۔

3- طوافِ زیارت، [اسی کو طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں]؛ فرمانِ باری تعالی ہے:

" وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ".

ترجمہ: اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں۔[الحج : 29]

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 125):
"الوقوف بعرفة، وهو الركن الأصلي للحج، والثاني طواف الزيارة".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 128):
"وأما شرطه وواجباته فشرطه النية، وهو أصل النية دون التعيين حتى لو لم ينو أصلاً بأن طاف هارباً من سبع أو طالباً لغريم لم يجز".

الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 49):
"الوقوف بعرفة ركن أساسي من أركان الحج، يختص بأنه من فاته فقد فاته الحج.
وقد ثبتت ركنية الوقوف بعرفة بالأدلة القاطعة من الكتاب والسنة والإجماع: أما القرآن؛ فقوله تعالى: {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس}. فقد ثبت أنها نزلت تأمر بالوقوف بعرفة.
وأما السنة: فعدة أحاديث، أشهرها حديث: الحج عرفة.
وأما الإجماع: فقد صرح به عدد من العلماء، وقال ابن رشد: أجمعوا على أنه ركن من أركان الحج، وأنه من فاته فعليه حج قابل". 

الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 51):
"وعدد أشواط الطواف سبعة، وكلها ركن عند الجمهور. وقال الحنفية: الركن هو أكثر السبعة، والباقي واجب ينجبر بالدم".

الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 129):
"أجمع العلماء على أن الإحرام من فرائض النسك، حجاً كان أو عمرةً، وذلك؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: إنما الأعمال بالنيات. متفق عليه. لكن اختلفوا فيه أمن الأركان هو أم من الشروط؟ ... الخ

واجبات حج

 حج کے واجبات۔ حج کے واجبات یہ ہیں۔

  • (1)میقات سے احرام باندھنا یعنی میقات سے بغیر احرام باندھے آگے نہ گذرنا اور اگر میقات سے پہلے ہی احرام باندھ لیا جائے تو جائز ہے
  • (2)صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا اس کو سعی کہتے ہیں
  • (3)سعی کو صفا سے شروع کرنا
  • (4)اگر عذر نہ ہو تو پیدل سعی کرنا
  • (5)دن میں میدان عرفات کے اندر وقوف کیا ہے تو اتنی دیر تک وقوف کرے کہ آفتاب غروب ہو جائے خواہ آفتاب ڈھلتے ہی شروع کیا تھا یا بعد میں غرض غروب آفتاب تک وقوف میں مشغول رہے اور اگر رات میں میدان عرفات کے اندر وقوف کیا ہے تو اس کے لیے کسی خاص حد تک وقوف کرنا واجب نہیں مگر وہ اس واجب کا تارک ہوا کہ دن میں غروب آفتاب تک وقوف کرتا
  • (6)وقوف میں رات کا کچھ حصہ آ جانا
  • (7) عرفات سے واپسی میں امام کی پیروی کرنا یعنی جب تک امام میدان عرفات سے نہ نکلے یہ بھی نہ چلے ہاں اگر امام نے وقت سے تاخیر کی تو اسے امام سے پہلے میدان عرفات سے روانہ ہو جانا جائز ہے اور اگر زبر دست بھیڑ کی وجہ سے یا کسی دوسری ضرورت سے امام کے چلے جانے کے بعد میدان عرفات میں ٹھہرا رہا امام کے ساتھ نہ گیا جب بھی جائز ہے
  • (8)مزدلفہ میں ٹھہرنا
  • (9)مغرب و عشاء کی نماز کا عشاء کے وقت میں مزدلفہ پہنچ کر پڑھنا
  • (10)تینوں جمروں پر دسویں' گیارہویں' بارھویں تینوں دن کنکریاں مارنا یعنی دسویں ذو الحجہ کو صرف جمرۃ العقبہ پر اور گیارہویں و بارھویں تینوں جمروں پر کنکریاں مارنا
  • (11))جمرۃ العقبہ کی رمی پہلے دن سر منڈانے سے پہلے ہونا
  • (12)ہر روز کی رمی کا اسی دن ہونا
  • (13)احرام کھولنے کے لیے سر منڈانا یا بال کتروانا
  • (14)یہ سر منڈانا یا بال کتروانا،ایام نحر یعنی دسویں، گیارہویں اوربارہویں ذو الحجہ کی تاریخوں کے اندر ہوجانا اورسرمنڈانا یا بال کتروانامنٰی یعنی حرم کی حدود کے اندر ہونا
  • (15)قران یا تمتع کرنے والے کو قربانی کرنا
  • (16)اور اس قربانی کا حدود حرم اور ایام نحر میں ہونا
  • (17)طواف زیارت کا اکثر حصہ ایام نحر میں ہو جانا عرفات سے واپسی میں جو طواف کیا جاتا ہے اس کا نام طواف زیارت ہے اور اس طواف کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں
  • (18)طواف حطیم کے باہر ہونا
  • (19)داہنی طرف سے طواف کرنا یعنی کعبہ معظمہ طواف کرنے والے کے بائیں جانب ہو
  • (20)عذر نہ ہو تو پاؤں سے چل کر طواف کرنا ہاں عذر ہو تو سواری پر بھی طواف کرنا جائز ہے
  • (21)طواف کرنے میں باوضو اور با غسل رہنا اگر بے وضو یا جنابت کی حالت میں طواف کر لیا تو اس طواف کو دہرائے
  • (22)طواف کرتے وقت ستر چھپانا
  • (23)طواف کے بعد دو رکعت نماز تحیۃ الطواف پڑھنا لیکن اگر نہ پڑھی تو دَم واجب نہیں
  • (24)کنکریاں مارنے اور قربانی کرنے اور طواف زیارت میں ترتیب یعنی پہلے کنکریاں مارے پھر غیر ِ مفرد قربانی کرے پھر سر منڈائے پھر طواف زیارت کرے
  • (25)طواف صدر یعنی میقات کے باہر کے رہنے والوں کے لیے رخصت کا طواف کرنا
  • (26)وقوف عرفہ کے بعد سر منڈانے تک جماع نہ ہونا
  • (27)احرام کے ممنوعات مثلاً سلا ہوا کپڑا پہننے اور منہ یا سر چھپانے سے بچنا ۔[1]

حج تمتع کاآسان طریقہ

 )"تمتع"  کے لغوی معنیٰ ہیں ’’کچھ وقت تک فائدہ اٹھانا‘‘ ۔ حج تمتع یہ ہے کہ آدمی ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج  ساتھ ساتھ کرے، لیکن اس طرح کہ دونوں کے احرام الگ الگ باندھے، اپنے وطن سے صرف عمرے کا احرام باندھ کر جائے اور عمرہ کر لینے کے بعد احرام کھول کر ان ساری چیزوں سے فائدہ اٹھائے جو احرام کی حالت میں ممنوع ہو گئی تھیں، پھر حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرے، اس حج  میں چوں کہ  عمرہ اور  حج کی درمیانی مدت میں احرام کھول کر حلال چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا کچھ وقت مل جاتا ہے (بر خلاف حجِ قران کے  کہ اس میں حج اور عمرہ کے درمیان احرام کھولنے کی سہولت حاصل نہیں ہوتی ) ؛ اس لیے اس حج کو "حجِ تمتع" کہتے ہیں۔

حج تمتع کرنے  کا اجمالی طریقہ یہ ہے کہ حج تمتع کرنے والامیقات یا اس سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کرحج کے مہینوں میں عمرہ کرے گا، عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد  حلق یا قصر کروانے کے بعد  حلال ہو جائے گا،پھر آٹھ ذی الحجہ کو حرم میں حج کا احرام   باندھے گا اور دس ذی الحجہ کو رمی، قربانی اور حلق یا قصر کرواکر حلال ہو جائے گا، دس سے بارہ ذی الحجہ کے درمیان ایک مرتبہ طواف زیارت اور تین دن (یعنی دس،  گیارہ اور  بارہ  ذی الحج) کی رمی کرنے سے حج تمتع مکمل ہوجائے گا، مکہ مکرمہ سے  واپسی کے وقت طوافِ وداع کرنا ہوگا۔

حج تمتع کرنے کا تفصیلی طریقہ یہ ہے کہ  میقات یا اس سے پہلے  عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے مہینوں (یعنی شوال، ذیقعدہ اور ذی الحج کا پہلا عشرہ) میں عمرہ کیا جائے، عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ آکر طواف کرے، یعنی بیت اللہ کے سات چکر لگائے، ہر چکر حجر اسود سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے، ہر چکر کے شروع میں حجر اسود کا استلام کرے اور ساتویں چکر سے فارغ ہو کر آٹھویں مرتبہ   حجر اسود کا استلام کرے ( استلام کا مطلب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دیا جائے اور اگر براہِ راست بوسہ دینا ممکن نہ ہو تو ہاتھوں کے ذریعہ سے حجر اسود کو چھو کر اپنے ہاتھوں کا بوسہ لیا جائے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو یا حالتِ احرام میں حجر اسود پر لگی خوشبو لگنے کا اندیشہ ہو تو دور سے حجر اسود کی طرف ہاتھوں سے اشارہ کر کے پھر ہاتھوں کا بوسہ لیا جائے)، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے، لہٰذا اگر مکروہ وقت نہ ہو تو اسی وقت پڑھے، ورنہ مکروہ وقت ختم ہونے کے بعد پڑھے، یہ دو رکعت کعبہ کی طرف منہ کر کے مقامِ ابراہیم کو سامنے لے کر پڑھے، (اگر مقامِ ابراہیم کے قریب رش زیادہ ہو تو مسجدِ حرام میں کسی بھی جگہ ادا کرلے) پھر زم زم پی کر سعی کے لیے جائے اور جانے سے پہلے حجر اسود کا نویں مرتبہ استلام کرے، سعی صفا سے شروع کرے مروہ تک ایک چکر، پھر مروہ سے صفا تک دوسرا چکر، اسی طرح سات چکر لگائے، اس کے بعد مسجدِ حرام میں آکر دو رکعت پڑھے،(یہ دو رکعت ادا کرنا مستحب ہے، واجب نہیں، اگر یہ دو رکعت ادا نہیں کیں تو بھی عمرہ مکمل ہوگیا، ان کے چھوڑنے پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا، نہ ہی کراہت لازم آئے گی) اس کے بعد حلق کروائے، یہ عمرہ ہوا، اب احرام کھول دے اور  اپنے کپڑوں میں رہے، کیوں کہ احرام کی پابندیاں ختم ہوچکی ہیں، اس کے بعد مکہ مکرمہ میں قیام کرے یا کسی اور جگہ جانا چاہے تو جائے مگر اپنے وطن نہ جائے، مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے بڑی عبادت طواف ہے، اس لیے جتنا وقت فرض، واجب اور سنت ادا کرنے کے بعد بچے وہ طواف میں لگانے کی کوشش کرے اور حرم پاک میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارے ، اگر اس دوران مزید عمرے کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔


پھر جب حج کا وقت ( یعنی آٹھ ذی الحجہ) آجائے تو غسل کر کے حج کا احرام باندھ لے اور طواف کر کے سعی کرلے (یہ سعی مقدم ہوگی،  یعنی اگر ابھی سعی کرلی تو پھر طواف زیارت کے بعد سعی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر ابھی سعی نہیں کی تو پھر طوافِ زیارت کے بعد سعی کرنی پڑے گی)، اس کے بعد منیٰ چلا جائے، آٹھ ذی الحجہ کی ظہر سے لے کر نو ذی الحجہ کے سورج نکلنے تک منیٰ میں رہے، نو ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد عرفات روانہ ہوجائے، اگر مکتب والے اس سے پہلے لے جائیں تو پہلے چلا جائے کوئی حرج نہیں،زوال سے پہلے  عرفات پہنچ جائے، کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جب ظہر کا وقت داخل ہوجائے تو ظہر پڑھ لے، اگر مسجد نمرہ کے امام کے پیچھے پڑھے تو ظہر اور عصر اکھٹی پڑھے، پہلے ظہر پھر عصر، اگر اپنے خیمہ میں پڑھنی ہو تو اذان دے کر اقامت کے ساتھ صرف ظہر پڑھے، پھر وقوف کرے، اس میں دعائیں پڑھے، کلمہ طیبہ، شہادت، تمجید استغفار، درود شریف وغیرہ جس قدر ہو سکے پڑھے، کھڑا ہوکر پڑھتا رہے، کھڑے کھڑے تھک جائے تو بیٹھ کر پڑھے، عصر کا وقت آئے تو اذان و اقامت کے ساتھ عصر پڑھے، پھر غروب تک اسی طرح دعا اور ذکر میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے، غروب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہو جائے، مغرب کی نماز عرفات میں نہ پڑھے، بلکہ  مزدلفہ میں جاکر ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ مغرب اور عشاء کی فرض نماز اکھٹے عشاء کے وقت میں پڑھے، پھر اس کے بعد پہلے مغرب کی سنت پھر عشاء کی سنت اور وتر وغیرہ پڑھے، پھر نیند کا تقاضا ہو تو سو جائے اور اگر جاگنا چاہے تو ذکر ، تسبیح، درود ، استغفار اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہے، تہجد پڑھے، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جائے، اس دوران تقریباً ستر کنکریاں بھی جمع کرلے، فجر کی نماز اول وقت یعنی اندھیرے میں پڑھے، پھر کھڑے ہوکر وقوف کرے اور کچھ دیر دعا کرے، پھر اس کے بعد منیٰ آجائے، منیٰ میں اس دن (یعنی دس ذی الحجہ کو) صرف جمرہ عقبہ یعنی سب سے آخر والے (بڑے) شیطان کو سات کنکریاں مارے، اس کے بعد منیٰ ہی میں یا حدودِ حرم کے اندر کہیں بھی قربانی کرے، پھر سر منڈائے (سر منڈانے کے بعد احرام کی ساری پابندیاں ختم ہوجائیں گی سوائے بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے کے، بیوی طوافِ زیارت کے بعد حلال ہوگی)، اب احرام کھول کر سلے ہوئے کپڑے پہن کر مکہ مکرمہ آجائے اور طوافِ زیارت کرے، یہ طواف فرض ہے، اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد نفلی طواف کے بعد سعی نہ کی ہو تو اب طوافِ زیارت کے بعد سعی بھی کرے، پھر اس کے بعد منٰی واپس آجائے، رات کو منٰی میں رہے، صبح ( یعنی گیارہ ذی الحجہ کی صبح) اٹھ کر زوال کے بعد ترتیب سے سب سے پہلے، پہلے والے شیطان کو الگ الگ سات کنکریاں مار کر ایک طرف ہو کر دعا کرے، پھر دوسرے شیطان کو اسی طرح سات کنکریاں مار کر کچھ دور ہو کر دعا کرے، پھر تیسرے شیطان کو سات کنکریاں مار کر دعا کیے بغیر واپس آجائے، یہ رات بھی منٰی میں گزارے، صبح ( یعنی بارہ ذی الحجہ کی صبح)  کو پھر زوال کے بعد اسی طرح تینوں شیطانوں کو سات سات کنکریاں مارے، اب اگر بارہ ذی الحجہ کو ہی مکہ مکرمہ واپس جانا چاہے تو جا سکتا ہے اور اگر تیرہ ذی الحجہ کی صبح صادق تک منٰی میں رکے گا تو تیرہ ذی الحجہ کی رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) بھی کرنی پڑے گی، دس سے بارہ ذی الحجہ کے اندر اندر طوافِ زیارت ضرور کرے، ورنہ  بارہ کے بعد طوافِ زیارت کرنے کی صورت میں تاخیر کی وجہ سے ایک دم لازم ہو جائے گا، بہرحال یہ تمام افعال کرنے سے حج مکمل ہوگیا ہے، مکہ مکرمہ سے وطن واپس آتے وقت طوافِ وداع کر کے آئے، یہ طواف واجب ہے

Friday 19 April 2024

قبروں پر پھول چڑھانا۔پانی چھڑکنا،میت کو سلام کرنا

 (1) قبر وں پر پھول ڈالنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے، اس لیے  قبر پر پھول ڈالنا درست نہیں ہے، بلکہ پھول کے بجائے یہ رقم صدقہ وخیرات کرکے میت کو ثواب پہنچادے، یہ زیادہ بہتر ہے، تاکہ میت کو بھی فائدہ ہو اور رقم بھی ضائع نہ ہو۔

 تدفین کے موقع پر قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد پانی چھڑکنا مستحب ہے، اور اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد اور اپنے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہما کی قبر پر پانی چھڑکا تھا اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم فرمایا تھا۔  ظاہری وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ پانی کے چھڑکنے سے قبر کی مٹی بیٹھ جاتی ہے اور ہوا سے گرد کے ساتھ اڑنے سے بچ جاتی ہے.

(2) جب مردوں کو سلام کیا جاتا ہے تو وہ سلام ان تک پہنچتا بھی ہے اور مردے  اس سلام کو سنتے بھی ہیں۔

(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺکا دو قبروں پر گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب ہورہا ہے،  پھر آپ ﷺ نے کھجور کے درخت کی ایک تر شاخ لے کر اسے درمیان سے چیر کر دو حصہ کردیا، پھر ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر گاڑ دیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!  یہ آپ نے کس مصلحت سے کیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ  امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں، ان سے عذاب ہلکا ہو جاوے۔(مشکاۃ)

شارحینِ حدیث نے اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ عمل صرف حضور ﷺ کے ساتھ خاص تھا؛ کیوں کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی ان مردوں کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ ﷺ کے اس طرح ٹہنی لگانے سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی، اسی لیے آپ ﷺ نے یہ عمل صرف ان ہی دو مردوں کی قبر کے ساتھ کیا تھا، عمومی طور سے آپ ﷺ کا معمول قبروں پر ٹہنی گاڑنے کا نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ کے بعد تو کسی کو بذریعہ وحی یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی ہے کہ کس قبر والے کو عذاب ہورہا ہے اور کس کو نہیں، اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ ﷺ کے بعد  اس عمل کو اپنا معمول نہیں بنایا، لہٰذا قبروں کی مٹی پر باقاعدہ پودے لگانے کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے دو معذب (عذاب میں مبتلا) لوگوں کی قبروں پر ٹہنی لگانے کی طرح نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اس بارے میں تفصیلی کلام اور دلائل حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’اختلاف امت اور صراط مستقیم‘‘ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (5 / 4):
’’أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس، وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء‘‘. 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 237):
"(ولا بأس برش الماء عليه) حفظًا لترابه عن الاندراس.

(قوله: ولا بأس برش الماء عليه) بل ينبغي أن يندب؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم فعله بقبر سعد»، كما رواه ابن ماجه، «وبقبر ولده إبراهيم»، كما رواه أبو داود في مراسيله، «وأمر به في قبر عثمان بن مظعون»، كما رواه البزار، فانتفى ما عن أبي يوسف من كراهته؛ لأنه يشبه التطيين، حلية

نظر بد کی شرعی حیثیت

  • ہر نظر لگانے والا حاسد ہوتا ہے جبکہ ہر حاسد نظر لگانے والا نہیں ہوتا۔ چنانچہ حاسد نظر لگانے والے سے زیادپناہ ۔

    نظرِ بد: حاسد اور عائن یعنی نظر بد لگانے والے کی طرف سے حسد اور نظر بد سے متاثر شخص کے خلاف چلائے گئے نظر کے تیر ہوتے ہیں جو کبھی اسے لگ جاتے ہیں اور کبھی وہ بچ جاتا ہے، جب یہ تیر ایسی حالت میں چلیں جس وقت محسود یا عین زدہ شخص نے اپنے آپ کو شرعی تحفظ نہ دیا ہوا ہو تو یہ تیر اس پر اثر انداز ہو جاتے ہیں، اور اگر اس شخص نے اپنے آپ کو شرعی تحفظ دیا ہوا ہو تو پھر نظر بد کے یہ تیر اثر انداز نہیں ہو پاتے بلکہ بسا اوقات ممکن ہے کہ یہ نظر بد واپس عائن شخص کو ہی نقصان دے دے" ختم شد
    ماخوذ از: زاد المعاد

    نظر لگنے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے احادیث ثابت ہیں، چنانچہ انہی میں سے صحیح بخاری و مسلم کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت بھی ہے، آپ کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے حکم دیا کرتے تھے کہ میں نظر بد سے دم کرواؤں) اسی طرح صحیح مسلم، مسند احمد، اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نظر بد اثر رکھتی ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب ہوتی تو نظر بد ہوتی، جب تم سے غسل کے پانی کا مطالبہ کیا جائے تو تم غسل کر کے پانی دے دو) اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کرنے کے بعد اسے صحیح قرار دیا، اسی طرح البانیؒ نے بھی سلسلہ صحیحہ: (1251) میں صحیح قرار دیا ہے۔

    اسی طرح امام ترمذی : (2059) نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے ، آپ کہتی ہیں کہ : "اللہ کے رسول! جعفر کی اولاد کو نظر بہت لگتی ہے، تو کیا میں ان پر کسی سے دم کروا لوں؟" تو آپ نے فرمایا: ( ہاں، کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب ہوتی تو نظر بد ہوتی ) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

    ایسے ہی ابو داود میں سیدہ عائشہ رضی للہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کہتی ہیں: "عائن شخص کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور عین زدہ شخص اس کے پانی سے غسل کرے۔" اسے البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

    اسی طرح امام احمد: (15550) ، اور امام مالک: (1747) ، نسائی، ابن حبان نے روایت کیا ہے اور البانی نے مشکاۃ: (4562) میں سہل بن حنیف سے نقل ہے کہ وہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور جب جحفہ کے قریب شعب خرار نامی جگہ پہنچے تو سہل بن حنیف نے غسل کرنا شروع کیا ، سہل کی رنگت گوری اور خوبصورت تھی، انہیں غسل کرتے ہوئے بنی عدی بن کعب کے عامر بن ربیعہ نے دیکھا تو عامر یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ: "آج سے پہلے میں نے اتنی صاف رنگت والی جلد کبھی نہیں دیکھی" یہ کہنا ہی تھا کہ سہل فوری طور پر زمین پر گر گئے، پھر انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ: اللہ کے رسول! کیا آپ سہل کا کچھ کریں گے، اللہ کی قسم وہ تو اپنا سر بھی نہیں اٹھا پا رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہیں کس پر شک ہے؟ انہوں نے کہا: عامر بن ربیعہ نے اسے دیکھا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر کو بلایا اور ڈانٹ پلائی، اور فرمایا: (اپنے بھائی کو [نظر بد کے ذریعے] کیوں مارتے ہو؟! جب تو نے اپنے بھائی میں کوئی اچھی چیز دیکھی تو اس کے لیے برکت کی دعا کیوں نہیں کی؟!، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر بن ربیعہ کو حکم دیا کہ سہل بن حنیف کو غسل کا پانی مہیا کرنے کے لیے غسل کرے ۔ تو عامر بن ربیعہ نے اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ ، کہنیاں، پاؤں گھٹنوں تک اور تہہ بند کے اندرونی حصے کو ایک بڑے پیالے میں دھوئے، پھر اس پانی کو سہل پر ڈال دیا گیا، پانی ایک آدمی نے سہل کے سر، اور پیچھے سے کمر پر ڈالا، اور پھر اس پیالے کو اس کے پیچھے انڈیل دے۔ انہوں نے ایسے ہی کیا تو سہل بن حنیف اٹھ کر لوگوں کے ہمراہ چل پڑے جیسے انہیں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔)

    تو مذکورہ احادیث اور دیگر دلائل سمیت مشاہدے کی بنا پر جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ نظر لگ سکتی ہے ۔

    آپ نے جو حدیث سوال میں ذکر کی ہے کہ " قبروں میں مدفون لوگوں کی ایک تہائی نظر بد کی وجہ سے ہے " تو ہمیں اس کی صحت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ البتہ نیل الاوطار میں ہے کہ بزار نے حسن سند کے ساتھ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میری امت میں قضا و قدر کے بعد سب سے زیادہ لوگ نظر لگنے کی وجہ سے فوت ہوتے ہیں۔)

    مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو شیاطین اور سرکش جن و انس سے محفوظ رکھے اور اس کے لیے اللہ تعالی پر مضبوط ایمان، اللہ تعالی پر مکمل بھروسا، توکل علی اللہ، اور اللہ تعالی سے گڑگڑا کر مانگی گئی دعاؤں کا سہارا لے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ حفاظتی دعائیں پڑھے، سورت الفلق اور سورت الناس کثرت سے پڑھے، سورت اخلاص، سورت فاتحہ اور آیت الکرسی کی تلاوت کرتا رہا کرے۔ ذاتی تحفظ کے لیے نبوی دعاؤں میں سے کچھ یہ ہیں:
    أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
    یعنی: میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ حاصل کرتا ہوں ، اللہ کی مخلوقات کے شر سے۔

    أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِيْنِ وَأَنْ يَّحْضُرُوْنَ
    یعنی: میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ حاصل کرتا ہوں اللہ کے غضب سے، اللہ کی سزا سے، اللہ کے بندوں کے شر سے، اور شیاطین کے پاگل پن سے اور اس بات سے کہ شیطان میرے پاس آئیں۔

    اسی طرح فرمانِ باری تعالی کثرت سے پڑھیں:
    حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
    ترجمہ: مجھے اللہ ہی کافی ہے جس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔[التوبہ: 129] اسی طرح کی دیگر مسنون اور ثابت شدہ دعائیں بھی پڑھے، ابن قیم رحمہ اللہ کی جواب کے آغاز میں ذکر کی گئی گفتگو کا مطلب بھی یہی ہے۔

    اگر عائن شخص [جس کی نظر لگی ہو اس ] کا علم ہو جائے ، یا کسی کے بارے میں شک ہو کہ اس کی نظر لگی ہے تو پھر ایسے عائن شخص کو متاثرہ مریض کے لیے غسل کرنے کا حکم دیا جائے گا، چنانچہ ایک بڑے برتن میں پانی لے کر اس پانی میں اپنا ہاتھ ڈالے ، پھر کلی اسی برتن میں کرے، اسی برتن میں اپنا چہرہ دھوئے، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو استعمال کرتے ہوئے دائیں گھٹنے پر پانی ڈالے اور گھٹنے سے پانی برتن میں گرائے، پھر دایاں ہاتھ استعمال کرتے ہوئے بائیں گھٹنے پر پانی ڈالے ، اور اپنی تہبند اسی پانی میں دھوئے، اور پھر عین زدہ شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر یک بارگی یہ سارا پانی اس پر انڈیل دے، اللہ کے حکم سے وہ شفا یاب ہو جائے گا۔
    " فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 1 / 186 )

    اسی طرح شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
    کیا انسان کو نظر لگ جاتی ہے؟ اور پھر اس کا علاج کیسے کیا جائے گا؟ کیا ذاتی تحفظ کے لیے اقدامات کرنا توکل کے منافی ہے؟

    تو انہوں نے جواب دیا:
    نظر لگنے کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ نظر لگ جاتی ہے اور اس کا ثبوت شرعی بھی ہے اور مشاہداتی بھی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
    وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ 
     ترجمہ: اور عین ممکن ہے کہ کافر لوگ آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں۔[القلم: 51]
    اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سمیت دیگر مفسرین بھی یہ کہتے ہیں کہ: یہاں مطلب یہ ہے کہ آپ کو نظر بد سے دو چار کر دیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (نظر اثر رکھتی ہے، اور اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آ سکتی ہوتی تو وہ نظر بد ہوتی، جب تم سے [نظر بد کے علاج کے لیے] غسل کا پانی طلب کیا جائے تو تم غسل کر کے دے دو ) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح سنن نسائی اور ابن ماجہ میں عامر بن ربیعہ کا واقعہ بھی ہے کہ وہ سہل بن حنیف کے پاس سے اس وقت گزرے جب وہ غسل کر رہے تھے ۔۔۔ پھر مکمل واقعہ ذکر کیا۔

    اسی طرح زمینی حقائق اور مشاہداتی واقعات بھی اس کے گواہ ہیں، ان کا انکار ممکن نہیں ہے۔

    اگر کسی کو نظر بد لگ جائے تو پھر اس کا شرعی علاج کئی طریقوں سے ممکن ہے:

    1-دم کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نظر بد اور بخار کے علاوہ دم ہے ہی نہیں۔) ترمذی: (2057) ابو داود: (3884)۔ اسی طرح سیدنا جبریل بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دم کرتے ہوئے کہتے تھے: بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيْكَ ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيْكَ ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ ، اللهُ يَشْفِيْكَ ، بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيْكَ یعنی: اللہ کے نام سے میں آپ کو دم کرتا ہوں، آپ کو تکلیف دینے والی ہر چیز سے، ہر جان اور حاسد آنکھ کے شر سے ، اللہ آپ کو شفا دے گا، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔

    2-عائن شخص سے غسل کا پانی لے کر غسل کرنا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر بن ربیعہ کو گزشتہ حدیث میں غسل کا پانی دینے کا حکم دیا اور پھر نظر زدہ شخص پر وہ پانی ڈال دیا گیا۔

    لیکن عائن شخص کے پیشاب یا پاخانے کے فضلے کو لینا تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اسی طرح عائن شخص کے آثار کو لینے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث مبارکہ میں صرف یہی ہے کہ عائن شخص کے اعضا اور تہبند کے اندرونی حصے کو دھو کر پانی سے غسل کیا جائے، یہ ممکن ہے کہ تہبند کے حکم میں سر کے رومال، ٹوپی اور قمیص کا اندرونی حصہ بھی شامل ہو جائے۔ واللہ اعلم

    نظر بد سے بچاؤ کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ توکل کے منافی بھی نہیں ہے، بلکہ یہی توکل ہے؛ کیونکہ توکل در حقیقت اللہ تعالی پر اعتماد کے ساتھ ایسے اسباب اپنانے کو کہتے ہیں جو شریعت میں جائز ہیں ۔ اسباب اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو پیشگی دم کیا کرتے تھے اور فرماتے: أُعِيْذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ یعنی: میں تم دونوں کو اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان ، زہریلی چیز اور ہر نظر بد کے شر سے۔

    اس حدیث کو ترمذی: ( 2060 ) اور ابو داود: ( 4737 )نے روایت کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بھی فرماتے تھے کہ: (سیدنا ابراہیم علیہ السلام اسحاق اور اسماعیل دونوں کو ایسے ہی دم کیا کرتے تھے۔) بخاری: (3371)

    " فتاوی شیخ ابن عثیمین " ( 2 / 117 ، 118) 

    موضوع کا آغاز کرنے و
  •  نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَيُزۡلِقُونَكَ بِأَبۡصَٰرِهِمۡ﴾--القلم:51
''اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔''
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتُْ الْعَيْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا»سنن ابی داود، الطب، باب فی الطیرة،
حدیث: ۳۹۲۵ وجامع الترمذی، الاطعمة، باب ماجاء فی الاکل مع المجزوم، حدیث: ۱۸۱۷۔
''نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔''
اسی طرح امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ''میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔'' یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ''تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟'' صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَکَة»سنن ابن ماجه، الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱۔
''تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔''
پھر آپ صل اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔''
جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:
«بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ، مِنْ کُلَّ شَيْئٍ يُؤْذِيْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْکَ، بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ»صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔
''اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے:
«أَعِيْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ»صحیح البخاری، احادیث الانبیاء
اور ایک جگہ یہ دعا بھی موجود ھے۔۔۔۔
((اَللَّھُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْھِبَ الْبَسِ اِشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لاَ شَافِیَ اِلاَّ اَنْتَ شِفَائً لاَّ یُغَادِرُ سَقَمًا ))
اے اللہ لوگوں کے رب بیماری دور کرنے والے شفا دے دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے ایسی شفا عطا فرما جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑےـ
بخاری (5742) ابو داؤد (3890) ترمذی (973)  
  • پسند
 Re
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : العين حق نظر (کا لگنا) حق ہے۔ [الصحيفة الصحيحة تصنيف همام بن منبه : 131، صحيح بخاري : 5470 و صحيح مسلم : 2187، 5701، مصنف عبدالرزاق 18/11 ح 29778، مسند احمد 319/2 ح 8245 و سنده صحيح وله طريق آخر عند ابن ماجه : 3507 و سنده صحيح و رواه احمد 487/2]
❀ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : العين حق نظر (کا لگنا) حق ہے۔ [صحيح مسلم : 2188، 5702]
❀ سیدنا حابس التمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : والعين حق اور نظر برحق ہے۔ [سنن الترمذي : 2061 و سنده حسن، مسند احمد 67/4 حية بن حابس صدوق وثقه ابن حبان و ابن خزيمه كما يظهر من اتحاف المهرة 97/4 وروي عنه يحييٰ بن ابي كثير وهولايروي إلاعن ثقة عنده]
❀ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! بنو جعفر (طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچوں) کو نظر لگ جاتی ہے تو کیا میں ان کو دم کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم ولو كان شئ يسبق القدر لسبقته العين. جی ہاں ! اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جاتی تو وہ نظر ہوتی۔ [السنن الكبريٰ 348/9 وسنده صحيح، سنن الترمذي : 2059 وقال : “حسن صحيح” و للحديث شاهد صحيح فى صحيح مسلم 2198 [5726] ]
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے) حکم دیا کہ نظر کا دم کرو۔ [صحيح بخاري : 5738 و صحيح مسلم : 2195 5720۔ 5722]
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر کے (علاج کے) لئے دم کی اجازت دی ہے۔ [صحيح مسلم : 2196 5724]
❀ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کے بارے میں فرمایا : استرقوا لھا فإن بھا النظرۃاسے دم کرواؤ کیونکہ اسے نظر لگی ہے۔ [صحيح بخاري : 5739 و صحيح مسلم : 2197، 5725]
❀ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر لگ جانے پر دم کی اجازت دی ہے۔ [ديكهئے صحيح مسلم : 2198، 5726]
❀ سیدنا بریدہ بن الحصیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ دم صرف نظر یا ڈسے جانے کے لئے ہے۔ [صحيح مسلم : 220، 527]
❀ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا رقية إلا من عين أوحمة. دم صرف نظر اور ڈسے ہوئے (کے علاج) کے لئے ہے۔ [سنن ابي داود : 3884 و سنده صحيح، ورواه البخاري : 5705 موقوفاً و سنده صحيح و المرفوع و الموقوف صحيحان والحمدلله]
❀ سیدنا ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد سہل بن حنیف (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے غسل کیا تو عامر بن ربیعہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے انہیں دیکھ لیا اور کہا: میں نے کسی کنواری کو بھی اتنی خوبصورت جلد والی نہیں دیکھا۔ سہل بن حنیف (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) شدید بیمار ہو گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا : تم اپنے بھائیوں کو کیوں قتل کرنا چاہتے ہو ؟ تم نے برکت کی دعا کیوں نہیں کی ؟ إن العين حق بے شک نظر حق ہے۔ [موطأ امام مالك 938/2 ح 1801 و سنده صحيح و صححه ابن حبان، الموارد : 1424]
↰ ان روایات سے معلوم ہوا کہ نظر لگنے کا برحق ہونا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ سورۂ یوسف کی آیت نمبر 67 سے بھی نظر کا برحق ہونا اشارتاً ثابت ہوتا ہے۔
علاج : 
↰ نظر کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ نظر لگانے والے کے وضو (یا غسل) کے بچے ہوئے پانی سے اسے نہلایا جائے جسے نظر لگی ہے۔ دیکھئے : [موطأ امام مالک 938/2 ح 1810 و سندہ صحیح]
یا درج ذیل دعا پڑھیں :
✿ [أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّآمَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ وَّمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَّامَّةٍ]
اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ اس کی پناہ چاہتا ہوں ہر ایک شیطان اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے۔ [صحيح بخاري)
  • پسند
 Reacti
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ تحقیق ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں کہنی دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس کے بعد بایاں پیر دھوئے، پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے، ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے 
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس شخص کو نظر بد کسی انسان کی لگ گئی ہو اس پر یہ آیات: وَإِنْ یَکَادُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُونَکَ بِأَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَیَقُولُونَ إِنَّہُ لَمَجْنُونٌ، وَمَا ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ․ (سورہٴ قلم) پڑھ کر دم کردینا اس کے اثر کو زائل کردیتا ہے۔ مظہری (معارف القرآن: ۸/ ۵۳۹) معوذتین (سورہٴ ناس وفلق) پڑھ کر بھی دم کردیا کریں۔