https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 19 April 2024

نظر بد کی شرعی حیثیت

  • ہر نظر لگانے والا حاسد ہوتا ہے جبکہ ہر حاسد نظر لگانے والا نہیں ہوتا۔ چنانچہ حاسد نظر لگانے والے سے زیادپناہ ۔

    نظرِ بد: حاسد اور عائن یعنی نظر بد لگانے والے کی طرف سے حسد اور نظر بد سے متاثر شخص کے خلاف چلائے گئے نظر کے تیر ہوتے ہیں جو کبھی اسے لگ جاتے ہیں اور کبھی وہ بچ جاتا ہے، جب یہ تیر ایسی حالت میں چلیں جس وقت محسود یا عین زدہ شخص نے اپنے آپ کو شرعی تحفظ نہ دیا ہوا ہو تو یہ تیر اس پر اثر انداز ہو جاتے ہیں، اور اگر اس شخص نے اپنے آپ کو شرعی تحفظ دیا ہوا ہو تو پھر نظر بد کے یہ تیر اثر انداز نہیں ہو پاتے بلکہ بسا اوقات ممکن ہے کہ یہ نظر بد واپس عائن شخص کو ہی نقصان دے دے" ختم شد
    ماخوذ از: زاد المعاد

    نظر لگنے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے احادیث ثابت ہیں، چنانچہ انہی میں سے صحیح بخاری و مسلم کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت بھی ہے، آپ کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے حکم دیا کرتے تھے کہ میں نظر بد سے دم کرواؤں) اسی طرح صحیح مسلم، مسند احمد، اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نظر بد اثر رکھتی ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب ہوتی تو نظر بد ہوتی، جب تم سے غسل کے پانی کا مطالبہ کیا جائے تو تم غسل کر کے پانی دے دو) اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کرنے کے بعد اسے صحیح قرار دیا، اسی طرح البانیؒ نے بھی سلسلہ صحیحہ: (1251) میں صحیح قرار دیا ہے۔

    اسی طرح امام ترمذی : (2059) نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے ، آپ کہتی ہیں کہ : "اللہ کے رسول! جعفر کی اولاد کو نظر بہت لگتی ہے، تو کیا میں ان پر کسی سے دم کروا لوں؟" تو آپ نے فرمایا: ( ہاں، کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب ہوتی تو نظر بد ہوتی ) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

    ایسے ہی ابو داود میں سیدہ عائشہ رضی للہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کہتی ہیں: "عائن شخص کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور عین زدہ شخص اس کے پانی سے غسل کرے۔" اسے البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

    اسی طرح امام احمد: (15550) ، اور امام مالک: (1747) ، نسائی، ابن حبان نے روایت کیا ہے اور البانی نے مشکاۃ: (4562) میں سہل بن حنیف سے نقل ہے کہ وہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور جب جحفہ کے قریب شعب خرار نامی جگہ پہنچے تو سہل بن حنیف نے غسل کرنا شروع کیا ، سہل کی رنگت گوری اور خوبصورت تھی، انہیں غسل کرتے ہوئے بنی عدی بن کعب کے عامر بن ربیعہ نے دیکھا تو عامر یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ: "آج سے پہلے میں نے اتنی صاف رنگت والی جلد کبھی نہیں دیکھی" یہ کہنا ہی تھا کہ سہل فوری طور پر زمین پر گر گئے، پھر انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ: اللہ کے رسول! کیا آپ سہل کا کچھ کریں گے، اللہ کی قسم وہ تو اپنا سر بھی نہیں اٹھا پا رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہیں کس پر شک ہے؟ انہوں نے کہا: عامر بن ربیعہ نے اسے دیکھا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر کو بلایا اور ڈانٹ پلائی، اور فرمایا: (اپنے بھائی کو [نظر بد کے ذریعے] کیوں مارتے ہو؟! جب تو نے اپنے بھائی میں کوئی اچھی چیز دیکھی تو اس کے لیے برکت کی دعا کیوں نہیں کی؟!، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر بن ربیعہ کو حکم دیا کہ سہل بن حنیف کو غسل کا پانی مہیا کرنے کے لیے غسل کرے ۔ تو عامر بن ربیعہ نے اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ ، کہنیاں، پاؤں گھٹنوں تک اور تہہ بند کے اندرونی حصے کو ایک بڑے پیالے میں دھوئے، پھر اس پانی کو سہل پر ڈال دیا گیا، پانی ایک آدمی نے سہل کے سر، اور پیچھے سے کمر پر ڈالا، اور پھر اس پیالے کو اس کے پیچھے انڈیل دے۔ انہوں نے ایسے ہی کیا تو سہل بن حنیف اٹھ کر لوگوں کے ہمراہ چل پڑے جیسے انہیں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔)

    تو مذکورہ احادیث اور دیگر دلائل سمیت مشاہدے کی بنا پر جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ نظر لگ سکتی ہے ۔

    آپ نے جو حدیث سوال میں ذکر کی ہے کہ " قبروں میں مدفون لوگوں کی ایک تہائی نظر بد کی وجہ سے ہے " تو ہمیں اس کی صحت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ البتہ نیل الاوطار میں ہے کہ بزار نے حسن سند کے ساتھ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میری امت میں قضا و قدر کے بعد سب سے زیادہ لوگ نظر لگنے کی وجہ سے فوت ہوتے ہیں۔)

    مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو شیاطین اور سرکش جن و انس سے محفوظ رکھے اور اس کے لیے اللہ تعالی پر مضبوط ایمان، اللہ تعالی پر مکمل بھروسا، توکل علی اللہ، اور اللہ تعالی سے گڑگڑا کر مانگی گئی دعاؤں کا سہارا لے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ حفاظتی دعائیں پڑھے، سورت الفلق اور سورت الناس کثرت سے پڑھے، سورت اخلاص، سورت فاتحہ اور آیت الکرسی کی تلاوت کرتا رہا کرے۔ ذاتی تحفظ کے لیے نبوی دعاؤں میں سے کچھ یہ ہیں:
    أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
    یعنی: میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ حاصل کرتا ہوں ، اللہ کی مخلوقات کے شر سے۔

    أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِيْنِ وَأَنْ يَّحْضُرُوْنَ
    یعنی: میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ حاصل کرتا ہوں اللہ کے غضب سے، اللہ کی سزا سے، اللہ کے بندوں کے شر سے، اور شیاطین کے پاگل پن سے اور اس بات سے کہ شیطان میرے پاس آئیں۔

    اسی طرح فرمانِ باری تعالی کثرت سے پڑھیں:
    حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
    ترجمہ: مجھے اللہ ہی کافی ہے جس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔[التوبہ: 129] اسی طرح کی دیگر مسنون اور ثابت شدہ دعائیں بھی پڑھے، ابن قیم رحمہ اللہ کی جواب کے آغاز میں ذکر کی گئی گفتگو کا مطلب بھی یہی ہے۔

    اگر عائن شخص [جس کی نظر لگی ہو اس ] کا علم ہو جائے ، یا کسی کے بارے میں شک ہو کہ اس کی نظر لگی ہے تو پھر ایسے عائن شخص کو متاثرہ مریض کے لیے غسل کرنے کا حکم دیا جائے گا، چنانچہ ایک بڑے برتن میں پانی لے کر اس پانی میں اپنا ہاتھ ڈالے ، پھر کلی اسی برتن میں کرے، اسی برتن میں اپنا چہرہ دھوئے، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو استعمال کرتے ہوئے دائیں گھٹنے پر پانی ڈالے اور گھٹنے سے پانی برتن میں گرائے، پھر دایاں ہاتھ استعمال کرتے ہوئے بائیں گھٹنے پر پانی ڈالے ، اور اپنی تہبند اسی پانی میں دھوئے، اور پھر عین زدہ شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر یک بارگی یہ سارا پانی اس پر انڈیل دے، اللہ کے حکم سے وہ شفا یاب ہو جائے گا۔
    " فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 1 / 186 )

    اسی طرح شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
    کیا انسان کو نظر لگ جاتی ہے؟ اور پھر اس کا علاج کیسے کیا جائے گا؟ کیا ذاتی تحفظ کے لیے اقدامات کرنا توکل کے منافی ہے؟

    تو انہوں نے جواب دیا:
    نظر لگنے کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ نظر لگ جاتی ہے اور اس کا ثبوت شرعی بھی ہے اور مشاہداتی بھی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
    وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ 
     ترجمہ: اور عین ممکن ہے کہ کافر لوگ آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں۔[القلم: 51]
    اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سمیت دیگر مفسرین بھی یہ کہتے ہیں کہ: یہاں مطلب یہ ہے کہ آپ کو نظر بد سے دو چار کر دیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (نظر اثر رکھتی ہے، اور اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آ سکتی ہوتی تو وہ نظر بد ہوتی، جب تم سے [نظر بد کے علاج کے لیے] غسل کا پانی طلب کیا جائے تو تم غسل کر کے دے دو ) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح سنن نسائی اور ابن ماجہ میں عامر بن ربیعہ کا واقعہ بھی ہے کہ وہ سہل بن حنیف کے پاس سے اس وقت گزرے جب وہ غسل کر رہے تھے ۔۔۔ پھر مکمل واقعہ ذکر کیا۔

    اسی طرح زمینی حقائق اور مشاہداتی واقعات بھی اس کے گواہ ہیں، ان کا انکار ممکن نہیں ہے۔

    اگر کسی کو نظر بد لگ جائے تو پھر اس کا شرعی علاج کئی طریقوں سے ممکن ہے:

    1-دم کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نظر بد اور بخار کے علاوہ دم ہے ہی نہیں۔) ترمذی: (2057) ابو داود: (3884)۔ اسی طرح سیدنا جبریل بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دم کرتے ہوئے کہتے تھے: بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيْكَ ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيْكَ ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ ، اللهُ يَشْفِيْكَ ، بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيْكَ یعنی: اللہ کے نام سے میں آپ کو دم کرتا ہوں، آپ کو تکلیف دینے والی ہر چیز سے، ہر جان اور حاسد آنکھ کے شر سے ، اللہ آپ کو شفا دے گا، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔

    2-عائن شخص سے غسل کا پانی لے کر غسل کرنا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر بن ربیعہ کو گزشتہ حدیث میں غسل کا پانی دینے کا حکم دیا اور پھر نظر زدہ شخص پر وہ پانی ڈال دیا گیا۔

    لیکن عائن شخص کے پیشاب یا پاخانے کے فضلے کو لینا تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اسی طرح عائن شخص کے آثار کو لینے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث مبارکہ میں صرف یہی ہے کہ عائن شخص کے اعضا اور تہبند کے اندرونی حصے کو دھو کر پانی سے غسل کیا جائے، یہ ممکن ہے کہ تہبند کے حکم میں سر کے رومال، ٹوپی اور قمیص کا اندرونی حصہ بھی شامل ہو جائے۔ واللہ اعلم

    نظر بد سے بچاؤ کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ توکل کے منافی بھی نہیں ہے، بلکہ یہی توکل ہے؛ کیونکہ توکل در حقیقت اللہ تعالی پر اعتماد کے ساتھ ایسے اسباب اپنانے کو کہتے ہیں جو شریعت میں جائز ہیں ۔ اسباب اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو پیشگی دم کیا کرتے تھے اور فرماتے: أُعِيْذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ یعنی: میں تم دونوں کو اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان ، زہریلی چیز اور ہر نظر بد کے شر سے۔

    اس حدیث کو ترمذی: ( 2060 ) اور ابو داود: ( 4737 )نے روایت کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بھی فرماتے تھے کہ: (سیدنا ابراہیم علیہ السلام اسحاق اور اسماعیل دونوں کو ایسے ہی دم کیا کرتے تھے۔) بخاری: (3371)

    " فتاوی شیخ ابن عثیمین " ( 2 / 117 ، 118) 

    موضوع کا آغاز کرنے و
  •  نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَيُزۡلِقُونَكَ بِأَبۡصَٰرِهِمۡ﴾--القلم:51
''اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔''
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتُْ الْعَيْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا»سنن ابی داود، الطب، باب فی الطیرة،
حدیث: ۳۹۲۵ وجامع الترمذی، الاطعمة، باب ماجاء فی الاکل مع المجزوم، حدیث: ۱۸۱۷۔
''نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔''
اسی طرح امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ''میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔'' یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ''تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟'' صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَکَة»سنن ابن ماجه، الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱۔
''تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔''
پھر آپ صل اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔''
جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:
«بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ، مِنْ کُلَّ شَيْئٍ يُؤْذِيْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْکَ، بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ»صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔
''اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے:
«أَعِيْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ»صحیح البخاری، احادیث الانبیاء
اور ایک جگہ یہ دعا بھی موجود ھے۔۔۔۔
((اَللَّھُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْھِبَ الْبَسِ اِشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لاَ شَافِیَ اِلاَّ اَنْتَ شِفَائً لاَّ یُغَادِرُ سَقَمًا ))
اے اللہ لوگوں کے رب بیماری دور کرنے والے شفا دے دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے ایسی شفا عطا فرما جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑےـ
بخاری (5742) ابو داؤد (3890) ترمذی (973)  
  • پسند
 Re
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : العين حق نظر (کا لگنا) حق ہے۔ [الصحيفة الصحيحة تصنيف همام بن منبه : 131، صحيح بخاري : 5470 و صحيح مسلم : 2187، 5701، مصنف عبدالرزاق 18/11 ح 29778، مسند احمد 319/2 ح 8245 و سنده صحيح وله طريق آخر عند ابن ماجه : 3507 و سنده صحيح و رواه احمد 487/2]
❀ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : العين حق نظر (کا لگنا) حق ہے۔ [صحيح مسلم : 2188، 5702]
❀ سیدنا حابس التمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : والعين حق اور نظر برحق ہے۔ [سنن الترمذي : 2061 و سنده حسن، مسند احمد 67/4 حية بن حابس صدوق وثقه ابن حبان و ابن خزيمه كما يظهر من اتحاف المهرة 97/4 وروي عنه يحييٰ بن ابي كثير وهولايروي إلاعن ثقة عنده]
❀ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! بنو جعفر (طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچوں) کو نظر لگ جاتی ہے تو کیا میں ان کو دم کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم ولو كان شئ يسبق القدر لسبقته العين. جی ہاں ! اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جاتی تو وہ نظر ہوتی۔ [السنن الكبريٰ 348/9 وسنده صحيح، سنن الترمذي : 2059 وقال : “حسن صحيح” و للحديث شاهد صحيح فى صحيح مسلم 2198 [5726] ]
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے) حکم دیا کہ نظر کا دم کرو۔ [صحيح بخاري : 5738 و صحيح مسلم : 2195 5720۔ 5722]
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر کے (علاج کے) لئے دم کی اجازت دی ہے۔ [صحيح مسلم : 2196 5724]
❀ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کے بارے میں فرمایا : استرقوا لھا فإن بھا النظرۃاسے دم کرواؤ کیونکہ اسے نظر لگی ہے۔ [صحيح بخاري : 5739 و صحيح مسلم : 2197، 5725]
❀ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر لگ جانے پر دم کی اجازت دی ہے۔ [ديكهئے صحيح مسلم : 2198، 5726]
❀ سیدنا بریدہ بن الحصیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ دم صرف نظر یا ڈسے جانے کے لئے ہے۔ [صحيح مسلم : 220، 527]
❀ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا رقية إلا من عين أوحمة. دم صرف نظر اور ڈسے ہوئے (کے علاج) کے لئے ہے۔ [سنن ابي داود : 3884 و سنده صحيح، ورواه البخاري : 5705 موقوفاً و سنده صحيح و المرفوع و الموقوف صحيحان والحمدلله]
❀ سیدنا ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد سہل بن حنیف (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے غسل کیا تو عامر بن ربیعہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے انہیں دیکھ لیا اور کہا: میں نے کسی کنواری کو بھی اتنی خوبصورت جلد والی نہیں دیکھا۔ سہل بن حنیف (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) شدید بیمار ہو گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا : تم اپنے بھائیوں کو کیوں قتل کرنا چاہتے ہو ؟ تم نے برکت کی دعا کیوں نہیں کی ؟ إن العين حق بے شک نظر حق ہے۔ [موطأ امام مالك 938/2 ح 1801 و سنده صحيح و صححه ابن حبان، الموارد : 1424]
↰ ان روایات سے معلوم ہوا کہ نظر لگنے کا برحق ہونا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ سورۂ یوسف کی آیت نمبر 67 سے بھی نظر کا برحق ہونا اشارتاً ثابت ہوتا ہے۔
علاج : 
↰ نظر کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ نظر لگانے والے کے وضو (یا غسل) کے بچے ہوئے پانی سے اسے نہلایا جائے جسے نظر لگی ہے۔ دیکھئے : [موطأ امام مالک 938/2 ح 1810 و سندہ صحیح]
یا درج ذیل دعا پڑھیں :
✿ [أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّآمَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ وَّمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَّامَّةٍ]
اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ اس کی پناہ چاہتا ہوں ہر ایک شیطان اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے۔ [صحيح بخاري)
  • پسند
 Reacti
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ تحقیق ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں کہنی دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس کے بعد بایاں پیر دھوئے، پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے، ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے 
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس شخص کو نظر بد کسی انسان کی لگ گئی ہو اس پر یہ آیات: وَإِنْ یَکَادُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُونَکَ بِأَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَیَقُولُونَ إِنَّہُ لَمَجْنُونٌ، وَمَا ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ․ (سورہٴ قلم) پڑھ کر دم کردینا اس کے اثر کو زائل کردیتا ہے۔ مظہری (معارف القرآن: ۸/ ۵۳۹) معوذتین (سورہٴ ناس وفلق) پڑھ کر بھی دم کردیا کریں۔


No comments:

Post a Comment