اگر کسی کا یہ نظریہ ہے کہ اسلام کافر کو کافر کہنے سے منع کرتا ہے اور کافر کو کافر نہیں کہہ سکتے خواہ وہ قرآن کا منکر ہو یا رسالت کا تو یہ نظریہ درست نہیں قرآن و حدیث کے خلاف ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں جابجا اہل کفر پر کافر اور کفار کا اطلاق آیا ہے البتہ اگر کسی خاص موقع پر کافر کو کافر کہنے میں کسی فتنے یا دینی نقصان یا ایذاء کا اندیشہ ہوتو پھر مصلحتا کافر کو صراحتا کافر نہ کہا جائے لیکن اس سے کفر کی نفی بھی نہ کی جائے جہاں تک مسئلہ ہے کافروں کے بارے میں اس بات کا عقیدہ رکھنے کا کہ یہ کافر ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوگا آدمی فی الحال کا مکلف ہے فی المآل آئندہ کا نہیں ورنہ مسلمان کے بارے میں بھی یہ احتمال نکل سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ کافر ہو جائے لہٰذا اس کو بھی مسلمان کہنا درست نہ ہوگا۔ قل یا أیہا الکافرون لا أعبد ما تعبدون (القرآن) لو قال لیہودی أو مجوسي یا کافر یأ ثم إن شق علیہ کذا فی القنیة (فتاوی ہندیہ: ۵/۴۰۲، ط: اتحاد دیوبند) وکذلک انعقد إجماعہم علی أن مخالفة السمع الضروری کفر وخروج عن الاسلام (اکفار الملحدین: ۱۲۹، ط: دارالبشائر الاسلامیہ) أن کل ما یکرہہ الانسان إذا نودی بہ فلا یجوز لأجل الأدبة (تفسیر قرطبی: ۱۹/۳۹۴، ط: موسسة الرسالة) ۔
No comments:
Post a Comment