https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 5 July 2024

گانجہ کا پیپر بیچنا

 گانجے کا پیپرجو  نشہ کے لیے استعمال ہو تا ہےتواگر صرف نشے کے لیے استعمال ہوتا ہے یاخریدار کے متعلق غالب گمان ہے کہ وہ نشے کے لیے استعمال کرے گا تو اس کا بیچنا شرعًا  درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة:2)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وما ‌كان ‌سببا ‌لمحظور فهو محظور اهـ."

(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 350، ط: سعيد

Thursday 4 July 2024

مکان نہ دلوایا تو طلاق کہنا

 شوہر نے بیوی سے مکان دلوانے کا مطالبہ کرکے اس  مطالبے پر طلاق کو معلق کیاہے ، لیکن مکان کے حصول کے لیے کوئی وقت متعین نہیں کیا؛ لہذا  آخرِ عمر  تک انتظار کیاجائے گا،اگر اس وقت تک عورت مکان نہیں دلواسکی تو زوجین میں سے کسی ایک کی بھی موت کے وقت طلاق واقع ہوجائے گی۔"البحرالرائق" میں ہے:

'' (قوله : ليأتينه فلم يأته حتى مات حنث في آخر حياته )؛ لأن البر قبل ذلك موجود ولا خصوصية للإتيان بل كل فعل حلف أنه يفعله في المستقبل وأطلقه ولم يقيده بوقت لم يحنث حتى يقع الإياس عن البر مثل ليضربن زيدا أو ليعطين فلانة أو ليطلقن زوجته وتحقق اليأس عن البر يكون بفوت أحدهما فلذا قال في غاية البيان وأصل هذا أن الحالف في اليمين المطلقة لا يحنث ما دام الحالف والمحلوف عليه قائمين لتصور البر فإذا فات أحدهما فإنه يحنث ا هـ ''۔

"فتاوی شامی" میں ہے:
''مطلب: حلف ليفعلنه بر بمرة ( قوله: لأن النكرة في الإثبات تخص ) أراد بالنكرة المصدر الذي تضمنه الفعل وهذا مبني على التعليل السابق وقد علمت ما فيه .
وفي الفتح لأن الملتزم فعل واحد غير عين إذ المقام للإثبات فيبر بأي فعل ، سواء كان مكرها فيه أو ناسيا أصيلا أو وكيلا عن غيره ، وإذا لم يفعل لا يحكم بوقوع الحنث حتى يقع اليأس عن الفعل ، وذلك بموت الحالف قبل الفعل فيجب عليه أن يوصي بالكفارة أو بفوت محل الفعل كما لو حلف ليضربن زيدا أو ليأكلن هذا الرغيف فمات زيد أو أكل الرغيف قبل أكله وهذا إذا كانت اليمين مطلقة .
''(14/463)فقط واللہ اعلم


تعلیق طلاق کی ایک قسم

  شوہر  نے بیوی کو کہا کہ    "اگر آئندہ تونے میرے کپڑے دھوئے تو       تجھے تین طلاق "        اور اس کے بعد بیوی نے  جان بوجھ کردھوئے یا  غلطی سے   کپڑے دھوئے  تو اس صورت میں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ،  اور  حرمت  مغلظہ کے ساتھ  حرام ہو چکی ہے ،لہذا مذکورہ عورت کو چاہیے کہ اپنی مکمل عدت تین ماہواریاں (ـ اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو  بچہ کی پیدائش تک ) گزار کر  دوسری جگہ نکاح کر نے میں آزاد ہو گی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق بالشرط،420/1،دارالفکر)

بینک سے ملنے والی رقم کا مصرف

 

  1. بینک میں ملازمت کرنا نا جائز ہے اور اس سے ملنے والی رقم  وصول کرنا  اور اس کو استعمال کرنا  سب   نا جائز ہے،  لہذا  آپ کو جو رقم بینک سے ملی ہے وہ آپ کے لیے حلال نہیں ہے، اور مالِ حرام پر زکاۃ نہیں ہوتی، بلکہ اس کا حکم یہ ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب کو دینا ضروری ہے۔ لہٰذا  آپ بینک سے ملی ہوئی تمام رقم ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب کو صدقہ کر دیں۔ اگر یک مشت تمام رقم صدقہ نہیں کرسکتے تو  بینک سے حاصل شدہ رقم کا حساب رکھیں اور جتنا جلد ہوسکے حلال ذریعہ آمدن تلاش کرکے مذکورہ تمام رقم بلانیتِ ثواب صدقہ کریں، اس دوران استغفار بھی جاری رکھیں۔'والسبيل في الكسب الخبيث التصدق'۔ (المبسوط للسرخسی، کتاب البیوع، السلم في المسابق والفرا (12/172) ط: دار المعرفۃ ۔ 

Wednesday 3 July 2024

مغرب سے پہلے دورکعت کی تحقیق

 مذکورہ مسئلہ کے دو پہلو ہیں:

1۔۔ مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان وقفہ کی مقدار :

اس میں یہ تفصیل ہے کہ عام نمازوں میں اتنے وقفہ کا حکم ہے کہ کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے  والا اپنے پینے سے، اور قضائے حاجت کرنے والا قضائے حاجت کرکے فارغ ہوجائے۔مغرب کی نماز میں چوں کہ تعجیل کا حکم ہے؛ اس لیے اس میں اتنا وقفہ کرنا درست نہیں ہے، لیکن بالکل وصل بھی مکروہ ہے، اس لیے اذان اور اقامت کے درمیان کچھ فصل ہونا ضروری ہے، مغرب کی نماز میں اس فصل کی تحدید   میں امام صاحب کا یہ قول ہے کہ ایک سکتہ کے بقدر وقفہ کرے، اور موذن بیٹھے نہیں ، اور ایک سکتہ کی مقدار ان کے ہاں ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات کے بقدر ہے، اور ایک روایت کے مطابق تین  خطوات (قدم)چلنے کے بقدر،اور صاحبین رحمہما اللہ  کے نزدیک دو خطبوں کے درمیان جلسہ کے بقدر  وقفہ کرنا کافی ہے، یعنی ان کے بقول مؤذن اتنی مقدار بیٹھے گا کہ زمین  پر تمکن حاصل ہوجائے اور اس میں طوالت  نہ ہو، اور خود امام ابو حنیفہ کا عمل بھی یہی تھا کہ مغرب کی اذان اور نماز  کے درمیان وہ   بیٹھتے نہیں تھے۔

امام صاحب اور صاحبین کا یہ اختلاف  افضلیت میں ہے، اس لیے مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان  بیٹھنا امام صاحب کے نزدیک بھی جائز ہے  اور نہ بیٹھنا اور تین آیتوں کے بقدرکھڑے کھڑے فصل کرنا  صاحبین کے نزدیک بھی جائز ہے۔

حاصل یہ ہے کہ عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی  نماز اور اذان میں صرف ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر  وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے،  اور جتنی دیر میں دورکعت ادا کی جاتی ہیں  (یعنی 2 منٹ ) یا اس سے   زیادہ  تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے،اس کا معمول بنانا درست نہیں ہے، اور  بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں  مکروہِ تحریمی ہے۔ (فتاویٰ جامعہ)


  البتہ عذر کی وجہ سے تاخیر مکروہ نہیں ہے،جیساکہ مرض وسفر کی بنا پر  مغرب کو آخر وقت تک مؤخر کرنا اور عشاء کو اول وقت میں پڑھنا درست ہے۔

(مبسوط سرخسی، بدائع، محیط برہانی، تبیین الحقائق،  بنایہ، درر الحکام،  فتح القدیر،  بحر)

2۔۔  دوسرا پہلو یہ ہے کہ  غروب آفتاب کے بعد دو رکعت  نماز پڑھنا، تو احناف کے نزدیک یہ دو رکعت مستحب نہیں ہے،  بلکہ بعض نے مکروہ لکھاہے۔(تحفہ الفقہاء،  بدائع، بنایہ)

ابراہیم نخعی ؒ فرماتے ہیں: یہ بدعت ہے۔ ابوبکر ابن عربی رحمہ فرماتے  ہیں : یہ ابتدائی اسلام میں  تھا؛ تاکہ لوگ منھی عنہ وقت کا نکلنا پہچان لیں، بعد میں تعجیل مغرب کا حکم ہوگیا۔ (بنایہ، اللباب،تبیین)

اور ابن ہمام  رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ احناف کے نزدیک مستحب تو نہیں ہے، اور دلائل سے زیادہ سے زیادہ استحباب کی نفی ہوتی ہے، ان دو رکعتوں کا مکروہ ہونا واضح نہیں ہوتا،اور جہاں تک اس سے تاخیرِ مغرب ہوگی تو  قنیہ میں ہے قلیل تاخیر جائز ہے،  اور دو رکعت جلدی جلدی پڑھی جائیں تو  اس میں زیادہ تاخیر نہیں ہوتی۔ (فتح القدیر، دررالحکام، در المختار، نھر الفائق)

لیکن  چوں کہ مغرب کی نماز میں تعجیل کا حکم ہے، اور ان دو رکعات کا مستقل معمول تاخیرِ مغرب کا سبب بنے گا  اور فقہاء احناف میں سے بعض نے ان دو رکعت کو مکروہ بھی قراردیا ہے، اور اس میں آگے چل کر یہ اندیشہ بھی ہے کہ کہیں اس کا مستقل معمول نہ بنالیا جائے اور عوام اسے سنت سمجھ کر پڑھنا شروع  نہ کردیں  نیز عام طور پر عوام روانی سے نماز اد انہیں کرسکتے، جس سے مغرب کی نماز میں تاخیر  شروع ہوجائے گی، اس لیے اس کا معمول بنانا درست نہیں ہے، اور اگر پڑھ لی تو ناجائز بھی نہیں ہے، باقی حرم وغیرہ میں اگر کسی نے غروب سے پہلے طواف کیا ہو اور مکروہ وقت کی وجہ سے دوگانہ طواف ادا نہ کرسکا ہو تو وہ وقفہ ملنے کی صورت میں وہ دوگانہ طواف ادا کرسکتا ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 445):

"ثم الثابت بعد هذا هو نفي المندوبية، أما ثبوت الكراهة فلا إلا أن يدل دليل آخر، وما ذكر من استلزام تأخير المغرب فقد قدمنا من القنية استثناء القليل والركعتان لاتزيد على القليل إذا تجوز فيهما".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 14):

" وحرر إباحة ركعتين خفيفتين قبل المغرب؛ وأقره في البحر والمصنف.

 (قوله: وحرر إباحة ركعتين إلخ) فإنه ذكر أنه ذهبت طائفة إلى ندب فعلهما، وأنه أنكره كثير من السلف وأصحابنا ومالك. واستدل لذلك بما حقه أن يكتب بسواد الأحداق؛ ثم قال: والثابت بعد هذا هو نفي المندوبية، أما ثبوت الكراهة فلا إلا أن يدل دليل آخر، وما ذكر من استلزام تأخير المغرب فقد قدمنا عن القنية استثناء القليل، والركعتان لايزيد على القليل إذا تجوز فيهما اهـ وقدمنا في مواقيت الصلاة بعض الكلام على ذلك".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 376):

"(قوله: وقبل صلاة المغرب) عليه أكثر أهل العلم، منهم أصحابنا ومالك، وأحد الوجهين عن الشافعي، لما ثبت في الصحيحين وغيرهما مما يفيد «أنه صلى الله عليه وسلم كان يواظب على صلاة المغرب بأصحابه عقب الغروب» ، «ولقول ابن عمر - رضي الله عنهما - ما رأيت أحداً على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليهما» رواه أبوداود وسكت عنه والمنذري في مختصره وإسناده حسن. وروى محمد عن أبي حنيفة عن حماد أنه سأل إبراهيم النخعي عن الصلاة قبل المغرب، قال: فنهى عنها، وقال: إن رسول الله  صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر لم يكونوا يصلونها. وقال القاضي أبو بكر بن العربي: اختلف الصحابة في ذلك ولم يفعله أحد بعدهم، فهذا يعارض ما روي من فعل الصحابة ومن أمره صلى الله عليه وسلم بصلاتهما؛ لأنه إذا اتفق الناس على ترك العمل بالحديث المرفوع لا يجوز العمل به؛ لأنه دليل ضعفه على ما عرف في موضعه ولو كان ذلك مشتهرا بين الصحابة لما خفي على ابن عمر، أو يحمل ذلك على أنه كان قبل الأمر بتعجيل المغرب، وتمامه في شرحي المنية وغيرهما.

(قوله: لكراهة تأخيره) الأولى تأخيرها أي الصلاة، وقوله إلا يسيرا أفاد أنه ما دون صلاة ركعتين بقدر جلسة، وقدمنا أن الزائد عليه مكروه تنزيها ما لم تشتبك النجوم، وأفاد في الفتح وأقره في الحلية والبحر أن صلاة ركعتين إذا تجوز فيها لا تزيد على اليسير فيباح فعلهما، وقد أطال في تحقيق ذلك في الفتح في باب الوتر والنوافل".

فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 227):


Tuesday 2 July 2024

خواب میں احتلام ہوا لیکن جگنے کے بعد ناپاکی کہیں نظر نہیں آتی تو غسل واجب ہے کہ نہیں

 سائل کو جب احتلام (خواب) یاد ہے لیکن سو کر اٹھنے کے بعدکپڑوں پرتری موجود نہیں ہے اور  نہ  ہی احتلام  کی کوئی علامت محسوس ہو تو سائل پاک  ہے اور اس پر غسل واجب نہیں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"اعلم أن هذه المسألة على أربعة عشر وجها؛ لأنه إما أن يعلم أنه مني أو مذي أو ودي أو شك في الأولين أو في الطرفين أو في الأخيرين أو في الثلاثة، وعلى كل إما أن يتذكر احتلاما أو لا فيجب الغسل اتفاقا في سبع صور منها وهي ما إذا علم أنه مذي، أو شك في الأولين أو في الطرفين أو في الأخيرين أو في الثلاثة مع تذكر الاحتلام فيها، أو علم أنه مني مطلقا، ولا يجب اتفاقا فيما إذا علم أنه ودي مطلقا، وفيما إذا علم أنه مذي أو شك في الأخيرين مع عدم تذكر الاحتلام؛ ويجب عندهما فيما إذا شك في الأولين أو في الطرفين أو في الثلاثة احتياطا، ولا يجب عند أبي يوسف للشك في وجود الموجب، واعلم أن صاحب البحر ذكر اثنتي عشرة صورة وزدت الشك في الثلاثة تذكر أولا أخذا من عبارته".

(کتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1، ص:163، ط:سعيد)  

سجدۂ سہو کی مختلف صورتیں

  

اگر رکوع کرنا بھول گیا اور سجدے میں یاد آئے تو رکوع کرے اور اس کے بعد دوبارہ سجدہ کرے ۔

 اور سجدہ میں چلا گیااور سجدہ میں یاد آیا کہ رکوع نہیں کیاتو سجدہ چھوڑ کر رکوع کر لیا پھر قومہ کیا اور پھر سجدہ کیا تو نماز ہوجائے اور آخر میں سجدہ سہو لازم ہوگااور رکوع میں جانے کے لیے تکبیر کہے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" و كذا إذا سجد في موضعو منها) رعاية الترتيب في فعل مكرر فلو ترك سجدة من ركعة فتذكرها في آخر الصلاة سجدها وسجد للسهو لترك الترتيب فيه وليس عليه إعادة ما قبلها ولو قدم الركوع على القراءة لزمه السجود لكن لا يعتد بالركوع فيفرض إعادته بعد القراءة، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الصلوۃ ، الباب الثانی عشر فی سجود السہو جلد۱ ص:۱۲۷ ط:دارالفکر)

اور اگر تکبیر نہیں پڑھی تو ہوجائے گی سجدہ سہو واجب نہ ہوگا کیوں کہ تکبیر کہنا سنت ہے۔

تیسری رکعت کا سجد کرکے امام بیٹھ گیا سجدۂ سہو واجب ہے کہ نہیں

 اگر امام ایک رکن (تین تسبیحات) کی ادائیگی کی مقدار بیٹھا ہو چاہے کچھ بھی نہ پڑھا ہو تو اس پر سجدہ سہو کرنا واجب ہوگا، اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو نماز وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی۔ اور اگر رکن کی ادائیگی کی مقدار بیٹھنے سے پہلے ہی کھڑا ہوگیا تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَ) اعْلَمْ أَنَّهُ (إذَا شَغَلَهُ ذَلِكَ) الشَّكُّ فَتَفَكَّرَ (قَدْرَ أَدَاءِ رُكْنٍ وَلَمْ يَشْتَغِلْ حَالَةَ الشَّكِّ بِقِرَاءَةٍ وَلَا تَسْبِيحٍ) ذَكَرَهُ فِي الذَّخِيرَةِ (وَجَبَ عَلَيْهِ سُجُودُ السَّهْوِ فِي) جَمِيعِ (صُوَرِ الشَّكِّ) سَوَاءٌ عَمِلَ بِالتَّحَرِّي أَوْ بَنَى عَلَى الْأَقَلِّ فَتْحٌ لِتَأْخِيرِ الرُّكْنِ، لَكِنْ فِي السِّرَاجِ أَنَّهُ يَسْجُدُ لِلسَّهْوِ فِي أَخْذِ الْأَقَلِّ مُطْلَقًا، وَفِي غَلَبَةِ الظَّنِّ إنْ تَفَكَّرَ قَدْرَ رُكْنٍ".

وتحته في الشامية:

"(قَوْلُهُ: وَاعْلَمْ إلَخْ) قَالَ فِي الْمُنْيَةِ وَشَرْحِهَا الصَّغِيرِ: ثُمَّ الْأَصْلُ فِي التَّفَكُّرِ أَنَّهُ إنْ مَنَعَهُ عَنْ أَدَاءِ رُكْنٍ كَقِرَاءَةِ آيَةٍ أَوْ ثَلَاثٍ أَوْ رُكُوعٍ أَوْ سُجُودٍ أَوْ عَنْ أَدَاءِ وَاجِبٍ كَالْقُعُودِ يَلْزَمُهُ السَّهْوُ لِاسْتِلْزَامِ ذَلِكَ تَرْكَ الْوَاجِبِ وَهُوَ الْإِتْيَانُ بِالرُّكْنِ أَوْ الْوَاجِبِ فِي مَحَلِّهِ، وَإِنْ لَمْ يَمْنَعْهُ عَنْ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ بِأَنْ كَانَ يُؤَدِّي الْأَرْكَانَ وَيَتَفَكَّرُ لَا يَلْزَمُهُ السَّهْوُ. وَقَالَ بَعْضُ الْمَشَايِخِ: إنْ مَنَعَهُ التَّفَكُّرُ عَنْ الْقِرَاءَةِ أَوْ عَنْ التَّسْبِيحِ يَجِبُ عَلَيْهِ سُجُودُ السَّهْوِ وَإِلَّا فَلَا، فَعَلَى هَذَا الْقَوْلِ لَوْ شَغَلَهُ عَنْ تَسْبِيحِ الرُّكُوعِ وَهُوَ رَاكِعٌ مَثَلًا يَلْزَمُهُ السُّجُودُ، وَعَلَى الْقَوْلِ الْأَوَّلِ لَا يَلْزَمُهُ وَهُوَ الْأَصَحُّ اهـ". (شامي، كتاب الصلوة، باب سجود السهو، ٢/ ٩٣)فقط

Monday 1 July 2024

کپڑوں پر زکوۃ

 واضح رہے کہ جو کپڑےپہننے کی نیت سے خریدے ہوں یا تحفے میں ملے ہوں وغیرہ، ایسے کپڑوں پر زکات واجب نہیں ہے، خواہ یہ کپڑے سِلے ہوئے ہوں یا بغیرسلائے کےہوں،البتہ جو کپڑے تجارت کی نیت سے خریدے گیےہوں تو   صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں  سال مکمل ہونے پر ایسے کپڑوں کی قیمتِ فروخت معلوم کرکے ان کی زکات ادا کرنا واجب ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

‌"(قوله: وفارغ عن حاجته الأصلية) أشار إلى أنه معطوف على قوله عن دين (قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب ‌والثياب ‌المحتاج ‌إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين." 

(كتاب الزكاة، ج:2 ص:226 ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"‌وشرط ‌فراغه عن الدين؛ لأنه معه مشغول بحاجته الأصلية."

(كتاب الزكاة، شروط وجوب الزكاة، ج:2 ص: 219 ط: دار الكتاب الإسلامي)

نیے مکان کی بنیادرکھنے پر مٹھائی تقسیم کرنا یا دعوت کرنا کیسا ہے

 اگرنئے مکان کی بنیاد کے موقع پر خیر و برکت کے لیے کھانے کی دعوت اورمٹھائی وغیرہ کی تقسیم بطوراظھار  نعمت وشکر خداوندی کردیاجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔بلکہ بعض فقہاء نے اسے مستحب لکھا ہے۔

الكافي  لابن قدامہ المقدسی میں ہے:

"فأما سائر الدعوات غير الوليمة، كدعوة الختان، وتسمى: الأعذار، والعذيرة، والخرس والخرسة عند الولادة. والوكيرة: دعوة البناء. والنقيعة: لقدوم الغائب. والحذاق: عند حذق الصبي. والمأدبة: اسم لكل دعوة لسبب كانت أو لغير سبب، ففعلها مستحب، لما فيه من إطعام الطعام وإظهار النعمة، ولا تجب الإجابة إليها، لما روي «عن عثمان بن أبي العاص أنه دعي إلى ختان فأبى أن يجيب، وقال: إنا كنا لا نأتي الختان على عهد رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، ولا يدعى إليه» . رواه الإمام أحمد. وتستحب."

الكافي في فقه الإمام أحمد لابن قدامہ المقدسی: (80/3، ط: دار الکتب العلمیہ)

ساس کوزکات دینا

 اگر   ساس  مستحقِ زکاۃ ہو تو اسے   صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔ مستحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کےپاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا   اس مالیت کا ضروریاتِ اصلیہ سے زائد کسی قسم کا ما ل  /سامان موجود نہ ہو  اور  وہ سید بھی نہ ہو۔

بدائع الصنائع  میں ہے :

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

(كتاب الزكاۃ، ج: 2 ص: 50، ط :

دوكان کی زکوٰۃ کیسے دیں

 نفسِ  دوکان پر زکات کے وجوب  اور عدمِ  وجوب کا تعلق اس بات سے ہے کہ اگر دوکان کی خریداری اسے آگے فروخت کرنے کی نیت سے کی گئی ہو تو اس صورت میں ہر سال اس کی موجودہ ویلیو معلوم کرکے اس ویلیو کو مالِ  نصاب میں شامل کیا جائے گا، اور کل کا چالیسواں حصہ بطورِ  زکات دیا جائے گا، البتہ اگر ایسی دوکان کرایہ پر اٹھادی گئی ہو تو اس صورت میں دوکان کی ویلیو پر زکات واجب نہ ہوگی، تاہم  اس کے کرایہ  پر زکات اس وقت واجب ہوگی جب کہ کرایہ خرچ نہ ہوتا ہو، محفوظ رہتا ہو، یا اس کا کچھ حصہ زکات کا سال پورا ہونے پر موجود ہو اور وہ ضرورت سے زائد ہو۔ پس زکات کا سال مکمل ہونے پر کل محفوظ کرایہ  مال نصاب میں شامل کرکے زکات کا حساب کیا جائے گا۔

اور اگر دوکان فروخت کرنے کی نیت سے بھی نہیں لی، یا فروخت کرنے کی نیت سے لی تھی لیکن اب نیت بیچنے کی نہیں ہے، اور دکان کرائے پر بھی نہیں دی تو اس دوکان کی مالیت پر بھی زکات واجب نہیں ہوگی۔

البتہ اگر  آپ کے سوال کا تعلق دوکان میں موجود تجارتی مال کی زکات کے حساب کا  طریقہ معلوم کرنے  سے ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ زکات کا سال مکمل ہونے پر دوکان میں موجود کل مالِ  تجارت کی قیمتِ  فروخت کو بنیاد بناکر کل مالیت کا چالیسواں  حصہ یعنی کل کا ڈھائی  فیصد بطورِ  زکات ادا کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. قال المحقق: وفي المحيط: ويعتبر يوم الأداء بالإجماع، وهو الأصح، فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليها عنده وعندهما".

(كتاب الزكاة،  باب زكاة الغنم:٢/ ٢٨٦  

Sunday 30 June 2024

مال تجارت میں زکوٰۃ قیمت خرید پر ہے یاقیمت فروخت پر

 تجارتی مال کی زکاۃ  ادا کرنے میں قیمتِ خرید کا اعتبار  نہیں ہے، بلکہ  قیمتِ فروخت کا اعتبار ہے،  یعنی زکاۃ نکالتے  وقت بازار میں  سامان کو فروخت کرنے کی جو قیمت ہے اسی قیمت سے ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے؛

''(وجاز دفع القیمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق)، وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعاً، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه، ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح''.

(2/286، باب زکاۃ الغنم، ط:سعید)فقط