https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 3 July 2024

مغرب سے پہلے دورکعت کی تحقیق

 مذکورہ مسئلہ کے دو پہلو ہیں:

1۔۔ مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان وقفہ کی مقدار :

اس میں یہ تفصیل ہے کہ عام نمازوں میں اتنے وقفہ کا حکم ہے کہ کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے  والا اپنے پینے سے، اور قضائے حاجت کرنے والا قضائے حاجت کرکے فارغ ہوجائے۔مغرب کی نماز میں چوں کہ تعجیل کا حکم ہے؛ اس لیے اس میں اتنا وقفہ کرنا درست نہیں ہے، لیکن بالکل وصل بھی مکروہ ہے، اس لیے اذان اور اقامت کے درمیان کچھ فصل ہونا ضروری ہے، مغرب کی نماز میں اس فصل کی تحدید   میں امام صاحب کا یہ قول ہے کہ ایک سکتہ کے بقدر وقفہ کرے، اور موذن بیٹھے نہیں ، اور ایک سکتہ کی مقدار ان کے ہاں ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات کے بقدر ہے، اور ایک روایت کے مطابق تین  خطوات (قدم)چلنے کے بقدر،اور صاحبین رحمہما اللہ  کے نزدیک دو خطبوں کے درمیان جلسہ کے بقدر  وقفہ کرنا کافی ہے، یعنی ان کے بقول مؤذن اتنی مقدار بیٹھے گا کہ زمین  پر تمکن حاصل ہوجائے اور اس میں طوالت  نہ ہو، اور خود امام ابو حنیفہ کا عمل بھی یہی تھا کہ مغرب کی اذان اور نماز  کے درمیان وہ   بیٹھتے نہیں تھے۔

امام صاحب اور صاحبین کا یہ اختلاف  افضلیت میں ہے، اس لیے مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان  بیٹھنا امام صاحب کے نزدیک بھی جائز ہے  اور نہ بیٹھنا اور تین آیتوں کے بقدرکھڑے کھڑے فصل کرنا  صاحبین کے نزدیک بھی جائز ہے۔

حاصل یہ ہے کہ عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی  نماز اور اذان میں صرف ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر  وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے،  اور جتنی دیر میں دورکعت ادا کی جاتی ہیں  (یعنی 2 منٹ ) یا اس سے   زیادہ  تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے،اس کا معمول بنانا درست نہیں ہے، اور  بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں  مکروہِ تحریمی ہے۔ (فتاویٰ جامعہ)


  البتہ عذر کی وجہ سے تاخیر مکروہ نہیں ہے،جیساکہ مرض وسفر کی بنا پر  مغرب کو آخر وقت تک مؤخر کرنا اور عشاء کو اول وقت میں پڑھنا درست ہے۔

(مبسوط سرخسی، بدائع، محیط برہانی، تبیین الحقائق،  بنایہ، درر الحکام،  فتح القدیر،  بحر)

2۔۔  دوسرا پہلو یہ ہے کہ  غروب آفتاب کے بعد دو رکعت  نماز پڑھنا، تو احناف کے نزدیک یہ دو رکعت مستحب نہیں ہے،  بلکہ بعض نے مکروہ لکھاہے۔(تحفہ الفقہاء،  بدائع، بنایہ)

ابراہیم نخعی ؒ فرماتے ہیں: یہ بدعت ہے۔ ابوبکر ابن عربی رحمہ فرماتے  ہیں : یہ ابتدائی اسلام میں  تھا؛ تاکہ لوگ منھی عنہ وقت کا نکلنا پہچان لیں، بعد میں تعجیل مغرب کا حکم ہوگیا۔ (بنایہ، اللباب،تبیین)

اور ابن ہمام  رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ احناف کے نزدیک مستحب تو نہیں ہے، اور دلائل سے زیادہ سے زیادہ استحباب کی نفی ہوتی ہے، ان دو رکعتوں کا مکروہ ہونا واضح نہیں ہوتا،اور جہاں تک اس سے تاخیرِ مغرب ہوگی تو  قنیہ میں ہے قلیل تاخیر جائز ہے،  اور دو رکعت جلدی جلدی پڑھی جائیں تو  اس میں زیادہ تاخیر نہیں ہوتی۔ (فتح القدیر، دررالحکام، در المختار، نھر الفائق)

لیکن  چوں کہ مغرب کی نماز میں تعجیل کا حکم ہے، اور ان دو رکعات کا مستقل معمول تاخیرِ مغرب کا سبب بنے گا  اور فقہاء احناف میں سے بعض نے ان دو رکعت کو مکروہ بھی قراردیا ہے، اور اس میں آگے چل کر یہ اندیشہ بھی ہے کہ کہیں اس کا مستقل معمول نہ بنالیا جائے اور عوام اسے سنت سمجھ کر پڑھنا شروع  نہ کردیں  نیز عام طور پر عوام روانی سے نماز اد انہیں کرسکتے، جس سے مغرب کی نماز میں تاخیر  شروع ہوجائے گی، اس لیے اس کا معمول بنانا درست نہیں ہے، اور اگر پڑھ لی تو ناجائز بھی نہیں ہے، باقی حرم وغیرہ میں اگر کسی نے غروب سے پہلے طواف کیا ہو اور مکروہ وقت کی وجہ سے دوگانہ طواف ادا نہ کرسکا ہو تو وہ وقفہ ملنے کی صورت میں وہ دوگانہ طواف ادا کرسکتا ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 445):

"ثم الثابت بعد هذا هو نفي المندوبية، أما ثبوت الكراهة فلا إلا أن يدل دليل آخر، وما ذكر من استلزام تأخير المغرب فقد قدمنا من القنية استثناء القليل والركعتان لاتزيد على القليل إذا تجوز فيهما".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 14):

" وحرر إباحة ركعتين خفيفتين قبل المغرب؛ وأقره في البحر والمصنف.

 (قوله: وحرر إباحة ركعتين إلخ) فإنه ذكر أنه ذهبت طائفة إلى ندب فعلهما، وأنه أنكره كثير من السلف وأصحابنا ومالك. واستدل لذلك بما حقه أن يكتب بسواد الأحداق؛ ثم قال: والثابت بعد هذا هو نفي المندوبية، أما ثبوت الكراهة فلا إلا أن يدل دليل آخر، وما ذكر من استلزام تأخير المغرب فقد قدمنا عن القنية استثناء القليل، والركعتان لايزيد على القليل إذا تجوز فيهما اهـ وقدمنا في مواقيت الصلاة بعض الكلام على ذلك".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 376):

"(قوله: وقبل صلاة المغرب) عليه أكثر أهل العلم، منهم أصحابنا ومالك، وأحد الوجهين عن الشافعي، لما ثبت في الصحيحين وغيرهما مما يفيد «أنه صلى الله عليه وسلم كان يواظب على صلاة المغرب بأصحابه عقب الغروب» ، «ولقول ابن عمر - رضي الله عنهما - ما رأيت أحداً على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليهما» رواه أبوداود وسكت عنه والمنذري في مختصره وإسناده حسن. وروى محمد عن أبي حنيفة عن حماد أنه سأل إبراهيم النخعي عن الصلاة قبل المغرب، قال: فنهى عنها، وقال: إن رسول الله  صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر لم يكونوا يصلونها. وقال القاضي أبو بكر بن العربي: اختلف الصحابة في ذلك ولم يفعله أحد بعدهم، فهذا يعارض ما روي من فعل الصحابة ومن أمره صلى الله عليه وسلم بصلاتهما؛ لأنه إذا اتفق الناس على ترك العمل بالحديث المرفوع لا يجوز العمل به؛ لأنه دليل ضعفه على ما عرف في موضعه ولو كان ذلك مشتهرا بين الصحابة لما خفي على ابن عمر، أو يحمل ذلك على أنه كان قبل الأمر بتعجيل المغرب، وتمامه في شرحي المنية وغيرهما.

(قوله: لكراهة تأخيره) الأولى تأخيرها أي الصلاة، وقوله إلا يسيرا أفاد أنه ما دون صلاة ركعتين بقدر جلسة، وقدمنا أن الزائد عليه مكروه تنزيها ما لم تشتبك النجوم، وأفاد في الفتح وأقره في الحلية والبحر أن صلاة ركعتين إذا تجوز فيها لا تزيد على اليسير فيباح فعلهما، وقد أطال في تحقيق ذلك في الفتح في باب الوتر والنوافل".

فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 227):


No comments:

Post a Comment