https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 24 July 2024

زکوۃ کی رقم سے گھر تعمیر کرانا

 اگر آپ    زکوۃ کے مستحق ہیں ،یعنی آپ کی ملکیت میں ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی  ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم یا مالِ تجارت نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  سید ، ہاشمی ہیں   ، تو آ پ کا زکوۃ لینادرست ہے ،اور آپ اس رقم کے مالک بن جائیں گے ،اور پھر اپنے مال کو جہاں چاہیں خرچ کر سکتے ہیں ،لہذامکان  تعمیر کرنا بھی اس زکوۃ کے مال سے جائز ہوگا۔ 

ملحوظ رہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر رقم آپ کی ملکیت میں موجود ہونے کی صورت میں  آپ کے لیے مزید زکات لینے کی  اس وقت تک اجازت نہیں ہوگی جب تک رقم خرچ ہوکر نصاب سے کم نہ رہ جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(الباب السابع في المصارف ،ج:1،ص:187 ،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

در ر الحکام میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء."

(الفصل الاول فی بیان بعض القواعد المتعلقۃ باحکام الاملاک،ج:3،ص:201،ط:دار الجيل)

سودی رقم سے غیر مسلم کا علاج کرانا

  حرام مال اگر اصل مالک یا اس کی موت کی صورت میں اس کے ورثاء  کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں ثواب کی نیت کے بغیر  فقراء پر  صدقہ کرنا واجب  ہوتا ہے،  کافر فقیر کو بھی ایسا مال دے سکتے ہیں، تاہم مسلمان فقراء پر صدقہ اولی ہے۔

  غیر  مسلم شخص اگر محتاج ہو تو ایسی صورت میں سودی رقم اسے دے سکتے ہیں؛ تاکہ وہ اپنا علاج کرائے بشرطیکہ سودی رقم اصل مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو، پس جن افراد سے یا ادارے سے سود وصول کیا ہو اگر ان کو لوٹانا ممکن ہو تو اصل افراد کو واپس کرنا شرعًا ضروری ہوگا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"بنک کی سودی رقم غریب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیرمسلم کو دینا جائز ہے؟

الجواب:

دے سکتے ہیں، مگر بہتر نہیں ہے، حاجت مند مسلمانوں کا حق مارنے کے مثل ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب"۔

( کتاب الزکاة، بعنوان: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیر مسلم کو سپرد کرنا اور غیر مسلم کو زکوۃ اور سود کی رقم دینا، ۷ / ۱۸۱)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق". ( ١٢ / ١٧٢)

 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه".(٥ / ٩٩)

فتاوی شامی میں ہے:

لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ اهـ.

( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٨٥، ط: دار الفكر)

منحة الخالق لابن العابدين میں ہے:

وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَإِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."

(منحة علي البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

زکوٰۃ کی رقم سے غریبوں میں راشن تقسیم کرنا

 جس طرح مستحق زکوۃ شخص کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اسی طرح زکوۃ کی رقم سے راشن خرید کر اس کو مالک بنایا جا سکتا ہے، ایسا کرنے سے زکوۃ ادا کرنے والے کی زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ البتہ جتنی رقم کا راشن خریدا گیا اور مستحق کو مالک بناکر دیا گیا، اتنی رقم کی زکاۃ ادا ہوگی، راشن خرید کر لانے اور منتقل کرنے کا کرایہ، راشن پیکج بنانے کے لیے مزدوروں کی اجرت وغیرہ زکاۃ کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اگر ایسا کیا گیا تو جتنی رقم کرایہ وغیرہ میں صرف ہوگی اتنی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك)  خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم 

(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه، ولا يخفى أنه يشترط كونه فقيرا، ولا حاجة إلى اشتراط فقر أبيه أيضا لأن الكلام في اليتيم ولا أبا له فافهم (قوله كما لو كساه) أي كما يجزئه لو كساه ."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:257،سعید)

زکوٰۃ کے پیسے سے غریبوں کے لیے آروپلانٹ لگانا

 زکاۃ کی ادائیگی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ زکاۃ کی رقم کسی فقیر مستحق کو مالک بنا کر اس کے ہاتھ میں وہ رقم دی جائے، لہذا کسی ایسے مصرف میں زکاۃ کی رقم لگانا جس سے فائدہ تو غریب مستحق اٹھا رہے ہوں، مگر وہ رقم ان کی ملکیت میں نہیں دی جارہی ہو، اس طرح صرف کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی، گو یہ بہت ہی ثواب کا کام ہے۔

صورتِ مسئولہ میں پانی کا پلانٹ لگانے کے لیے زکاۃ کی رقم استعمال کرنا درست نہیں ہے، بلکہ وہ رقم کسی فقیر مستحق کے ہاتھ میں دینا ضروری ہے اس کے بغیر وہ رقم زکاۃ میں شمار نہیں ہوگی۔

 آپ R.O پلانٹ لگاکر  غریبوں کے لیے صاف پانی کا انتظام کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ہی نیک جذبہ ہے، اور اس پر بہت اجر کی امید ہے، لہٰذا اگر آپ کی استطاعت ہے تو نفلی صدقات یا عطیات سے یہ کام کروالیجیے یا دیگر اَصحابِ خیر کو متوجہ کردیجیے۔

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

" لايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".

(1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف، ط: رشیدیه)

بیٹے کو زکوٰۃ دینا

 والد کے لیے اپنی زکات اپنے محتاج بیٹے کو دینا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 188):

"و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

مسجد میں زکوٰۃ کی رقم لگا نا

 زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مسلمان مستحقِ زکات شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے؛ اس لیے  مسجد میں   یا مسجد کے کسی کام میں زکات کی رقم نہیں لگائی جاسکتی  ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔

البتہ نفلی صدقات اور عطیات مسجد میں دیے جاسکتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

" لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".   

(کتاب الزکات ،الباب السابع فی المصارف،ج:1،ص:188،المطبعۃ الکبرٰی الامیریہ)

سالی کو زکوٰۃ دینا

 اگر آپ کی سالی مستحقِ زکاۃ ہے (یعنی اس کی ذاتی ملکیت میں بنیادی ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو) نیز آپ اور آپ کی بیوی کے ان کے ساتھ مشترک منافع بھی نہیں ہیں (یعنی خرچہ مشترک نہیں ہے، اور جو چیز اسے دیں گے وہ لوٹ کر آپ کے پاس نہیں آئے گی) تو  آپ کا اور آپ کی بیوی کا اسے زکاۃ دینا جائز ہے۔ نیز  جب آپ کی سالی اس رقم کی مالک بن جائے گی تو وہ اس رقم سےکوئی بھی سامان فریج وغیرہ خرید سکتی ہے اور اس کے شوہر سمیت تمام گھر والے اس کو استعمال بھی کر سکتے ہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):
"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 49):
"ومنها: أن لاتكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكًا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفًا إلى نفسه من وجه"

زکوٰۃ کی رقم راستہ بنوانا یاراستہ کی لایٹ درست کرانا

 زکات  کی ادائیگی کے لیے زکات  کی رقم  کاکسی مستحق کو مالک بناکر دینا شرط ہے،لہذا زکات  کی رقم سے راستہ بنوانے یاراستہ کی لائٹ درست کرنے سے زکات ادا  نہیں  ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي (قوله: ولا إلى كفن ميت) لعدم صحة التمليك منه."

(‌‌كتاب الزكاة ، باب مصرف الزكاة والعشر2/ 344 ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه ‌بشرط ‌قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله  تعالى هذا في الشرع كذا في التبيين."

(كتاب الزكاة ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها 1/ 170 ط: ماجديه)

Tuesday 23 July 2024

ساس کو زکوٰۃ دینا

 جس مسلمان ضرورت مند شخص  کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر بنتی ہو اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہو تو ایسا شخص زکات کا مستحق بن سکتا ہے،ایسا شخص اگر زکات دینے والے کے اصول و فروع (یعنی  والد، والدہ، دادا، دادی،  نانا،نانی،  پڑدادا، پڑدادی، پڑنانا، پڑنانی،  یا ان سے اوپر کے  اجداد ، اسی طرح اس کی اولاد  یا اولاد کی اولاد یعنی بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں اور ان کی اولاد در اولاد)میں سے نہ ہو تو اس شخص کو زکات کی رقم کا مالک بنا کر زکات دینا جائز ہے۔

لہٰذامذکورہ تفصیل کے مطابق کسی  کی ساس  اگر زکات کی مستحق ہو تو ان کو زکات دینا جائز ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ولا يدفع المزكي زكاته إلخ) الأصل أن كل من انتسب إلى المزكي بالولاد أو انتسب هو له به لا يجوز صرفها له، فلا يجوز لأبيه وأجداده وجداته من قبل الأب والأم وإن علوا، ولا إلى أولاده وأولادهم وإن سفلوا، وسائر القرابات غير الولاد يجوز الدفع إليهم، وهو أولى لما فيه من الصلة مع الصدقة كالإخوة والأخوات والأعمام والعمات والأخوال والخالات."

(كتاب الزكاة، باب من يجوز دفع الصدقة إليه ومن لا يجوز، ج:2، ص:269-270، ط:دار الفكر،لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادة وولادا مغرب أي: أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب كأولاد الأولاد وشمل الولاد بالنكاح والسفاح فلا يدفع إلى ولده من الزنا ولا من نفاه كما سيأتي".

(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة، ج:2، ص:346، ط: سعيد)

مراھق سے تملیک کرانا

  اگر بچہ فقیر اور سمجھ دار اور تمیز والا ہو تو اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، لہذا ایسا بچہ اگر زکوۃ کی رقم وصول کرکے کسی کارِ خیر کے لیے دے دے تو زکوۃ ادا ہوجائے گی اور تملیک بھی درست ہوگی۔

اوراگر بچہ بہت چھوٹا اور ناسمجھ ہے تو  اس کی طرف سے قبضہ کرلینے سے زکاۃ ادا  نہیں ہوگی، نہ ہی تملیک درست ہوگی، کیوں کہ  ایسے ناسمجھ بچوں کاخود قبضہ کرنا معتبر نہیں ہے،اسی طرح   اگر بچے کا والد مال دار ہے تو ایسے بچے  کو زکاۃ دینا بھی جائز نہیں ہے۔

یہ یاد رہے کہ کسی شدید ضرورت کے بغیر حیلہ تملیک کرنا مکروہ ہے،  اور اگر شدید ضرورت ہو تو تملیک کی حقیقت اور شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے تملیک کا حیلہ کرنے کی گنجائش ہوگی، اس کا طریقہ یہ ہے کہ زکاۃ کی رقم کسی غریب کو مالک بنا کر دے دیں، اور اسے بتادیں کہ فلاں مصرف میں ضرورت ہے، اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشی سے دے دیتا ہے تو اس رقم کا استعمال جائز ہوگا۔ اور اس کے لیے تحریری اجازت ضروری نہیں ہے۔  

"و لو قبض الصغیر وهو مراهق جاز، وکذا لو کان یعقل القبض."

  (الفتاویٰ الهندیة ۱/۱۹۰)

"ویصرف إلی مراهق یعقل القبض."

(شامي / باب المصرف ۳/۲۹۱ زکریا)

''سئل عبد الکریم عمن دفع زکاة ماله إلی صبي؟ قال: إن کان مراهقاً یعقل الأخذ یجوز، وإلا فلا. وفي الخانیة: وکذا لو کان الصبي یعقل القبض بأن کان لایرمي به ولایخدع عنه."

(الفتاویٰ التاتارخانیة ، ۳/۲۱۱)

بیوی کے زیورکی زکوٰۃ شوھر پر لازم نہیں

 بیوی کی ملکیت میں جو زیور ہو اس  کی زکاۃ اسی پر لازم ہوتی ہے، شوہر پر بیوی کے زیورات کی زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں، تاہم اگر شوہر ادا کردے تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہے۔

لھذا میں آپ کی ملکیت میں نصاب کی بقدر سونا هےیاسونے کے ساتھ اتني رقم ،چاندی یا مالِ تجارت ہے جس سے مجموعے کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہے اور آپ پر اتنا قرضہ نہیں جو مال کو نصاب سے کم کردے تو آپ پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے،شوہر کے قرضے کی وجہ سے آپ سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الزكوة واجبة علي الحر العاقل البالغ المسلم اذا بلغ نصابا ملكا تاما و حال عليه الحول."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:217، ط:ادارۃ القرآن)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض) ، وفيه فصلان (الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة)

تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة ... وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز. حتى لو ملك مائة درهم خمسة دنانير قيمتها مائة درهم تجب الزكاة عنده خلافا لهما، ولو ملك مائة درهم وعشرة دنانير أو مائة وخمسين درهما وخمسة دنانير أو خمسة عشر دينارا أو خمسين درهما تضم إجماعا كذا في الكافي. ولو كان له مائة درهم وعشر دنانير قيمتها أقل من مائة درهم تجب الزكاة عندهما وعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - اختلفوا فيه والصحيح أنه تجب كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الزکوۃ، الباب الثالث،ج:1،ص: 179،ط: دار الفکر)

غریب بیٹے کو زکوٰۃ دینا

 والد کے لیے اپنی زکات اپنے بیٹے کو دینا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 188):

"و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

زکوٰۃ کے مصارف

  زکاۃ  کے مصارف سات ہیں:  فقیر، مسکین، عامل ، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔

1۔۔ فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ  مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔

مستحق زکوٰۃ کے  صاحبِ  نصاب نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مسلمان شخص  جو  غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد   ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے  پاس ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔

2۔ مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔

3۔  عامل وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔

4۔ رِقاب  سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔

5۔ غارم سے مراد مدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔

6۔ فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو  زکاۃ دے سکتے ہیں۔

7 ۔ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے   تو اس کو بھی زکاۃ  کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو، لیکن وطن سے مال منگوانے کی کوئی صورت نہ ہو

مؤلفۃ القلوب(صحیح قول کے مطابق)  وہ  نومسلم  اور ضعیف الاسلام فقراء  کو کہا جاتا ہے،  جن کو   ابتدائے اسلام میں دل جوئی اور اسلام پر پختہ کرنے کے لیے زکوٰۃ دی جاتی تھی؛ کیوں کہ اسلام کا شجرہ طیبہ اس وقت ابتدائی مراحل میں تھا، اور قوت کی ضرورت تھی، لیکن جب اللہ تعالی نے اسلام کو قوت اور غلبہ عطا فرمایا تو یہ مصرف باجماع صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین  منسوخ ہوا، اب یہ مصرف باقی نہیں رہا  اور نہ ہی اس میں زکوٰۃ کی رقم صرف کی جاسکتی ہے۔