https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 1 August 2024

الیکٹرک مشین سے مچھروں کو مارنا

 مذکورہ مشین  (جس میں کرنٹ کے ذریعہ مچھر ہلاک ہوتے  ہیں) کے ذریعہ مچھر مارنا (مسجد اور غیر مسجد دونوں میں ) جائز ہے، البتہ بلاعذر مچھروں کے آگ کے ذریعہ جلا کر مارنا یا  کسی ایسی مشین کے ذریعہ اپنے عمل سے ان کو جلا کر مارنا  مکروہ  ہے، اور  اگر کسی نصب شدہ مشین میں وہ خود آکر  جل کر مرجائیں تو یہ صورت مکروہ نہیں ہے۔  

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"قتل النملة تكلموا فيها والمختار أنه إذا ابتدأت بالأذى لا بأس بقتلها وإن لم تبتدئ يكره قتلها واتفقوا على أنه يكره إلقاؤها في الماء وقتل القملة يجوز بكل حال كذا في الخلاصة

 وإحراق القمل والعقرب بالنار مكروه وطرح القمل حيا مباح لكن يكره من طريق الأدب كذا في الظهيرية."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، ج:5، ص:361، ط:رشيدية)

ولیمہ کا مسنون وقت

 " ولیمہ مسنونہ" کا اعلیٰ اور افضل درجہ یہ ہے کہ شبِ زفاف اور صحبت   کے بعد ہو، اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شبِ زفاف کے بعد اور صحبت سے پہلے ہو،  یہ دونوں مسنون ولیمہ شمار ہوں گے،  اور اس کے علاوہ  نفس نکاح  کے بعد، یا رخصتی کے بعد اور شبِ زفاف سے پہلے جو ولیمہ ہو وہ " ولیمہ مسنونہ" تو نہیں ہوگا، البتہ اس سے نفسِ ولیمہ کی سنت ادا ہوجائے گی، گو مسنون وقت کی سنت ادا نہیں ہوگی، اور جو دعوت/ ضیافت عقدِ نکاح سے ہی پہلے کی جائے وہ ولیمہ ہی نہیں ہوگا، بلکہ عام دعوت ہوگی۔نیز  شبِ زفاف  کے تیسرے دن تک حدیث شریف سے ولیمہ کا ثبوت ہے، اگر شبِ زفاف کے بعد پہلے دن انتظام ہوسکتا ہو تو سب سے بہتر پہلا دن ہے، تیسرے دن کے بعد ولیمہ کرنا فقط ضیافت شمار ہوگی۔

اگر مہمان زیادہ ہوں، یا کسی مقام کا عرف ایک ہی دفعہ ولیمہ منعقد  کرکے مہمانوں کو بلانے کے بجائے  یہ ہو  کہ یکے بعد دیگرے مہمان آتے ہوں اور کھا کر چلے جاتے ہوں تو مستقلاً تین دن تک بھی ولیمہ کا کھانا کھلایا جاسکتا ہے،  حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح میں اسی طرح تین دنوں تک ولیمہ فرمایا ہے، الغرض ولیمہ ایک دن میں کر دیا جائے یا عرف کے مطابق مسلسل تین دنوں تک دونوں درست ہیں، لیکن مسلسل تین دن تک کھانا کھلانے میں یہ شرط ملحوظ رہے کہ اس میں دکھلاوا یا اسراف نہ ہو، بلکہ حسبِ استطاعت سنت کے اتباع کی نیت سے اس معاملے کو انجام دیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے ' پہلے دن ولیمہ حق ہے، دوسرے دن نیکی ہے، اور  (مسلسل) تیسرے دن سناوا اور دکھلاواہے'۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"و عن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه و سلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً و لحماً. رواه البخاري".

 (كتاب النكاح،الفصل الاول، باب الولیمة، 278/2،ط: قدیمی)

وفیہ ایضا: 

" قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طعام أول يوم حق وطعام يوم الثاني سنة وطعام يوم الثالث ‌سمعة ومن سمع سمع الله به» . رواه الترمذي".

(‌‌كتاب النكاح،‌‌باب الوليمة،الفصل الثاني،٩٦٢/٢،ط : المكتب الإسلامي)

درختوں کی پیوند کاری درست ہے کہ نہیں

 درختوں اور پودوں کی پیوند کاری کرنا شرعاًجائز ہے،خواہ یہ پیوند کاری  ایک ہی قسم (جنس)کے  درختوں میں کی جائے یا ایک قسم کے درخت کو دوسری قسم کے درخت میں پیوند کیا جائے،احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں درختوں میں پیوندکاری کرنے کا ثبوت ملتا ہے،باقی اس کا کوئی مخصوص  شرعی طریقہ نہیں۔

 سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا عفان قال: حدثنا حماد قال: حدثنا ثابت، عن أنس بن مالك، وهشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم سمع أصواتا، فقال: «ما هذا الصوت؟» قالوا: النخل يأبرونه، فقال: «لو لم يفعلوا لصلح» ، فلم يؤبروا عامئذ، فصار شيصًا، فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «إن كان شيئًا من أمر دنياكم، فشأنكم به، و إن كان شيئًا من أمر دينكم، فإلي»."

(کتاب الرھون،  باب تلقیح النخل، ج:2، ص:825، ط:دار إحياء الكتب العربية)

"ترجمہ:ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں تو پوچھا: ”یہ کیسی آواز ہے“؟ لوگوں نے کہا: لوگ کھجور کے درختوں میں پیوند لگا رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کریں تو بہتر ہو گا“ چنانچہ اس سال ان لوگوں نے پیوند نہیں لگایا تو کھجور خراب ہو گئی، لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری دنیا کا جو کام ہو، اس کو تم جانو، البتہ اگر وہ تمہارے دین سے متعلق ہو تو اسے مجھ سے معلوم کیا کرو“۔

نابالغ کی خودکشی پر مؤاخذہ ہوگاکہ نہیں

 نابالغ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا اور اس کے بلوغت  سے پہلے کیے گئے  گناہوں پر کوئی مواخذہ نہیں ہے، لہذا نابالغ  اگر  خود کشی کرلے تو مکلف نہ ہونے کی وجہ سے آخرت میں اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔

سنن نسائی میں ہے:

"عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ‌رفع ‌القلم عن ثلاث: عن النائم حتى يستيقظ، ‌وعن ‌الصغير حتى يكبر، وعن المجنون حتى يعقل أو يفيق."

(کتاب الطلاق، باب: من لا يقع طلاقه من الأزواج، ج:6، ص:156، ط:مكتب المطبوعات الاسلامية)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال) وإذا ارتد الغلام المراهق عن الإسلام لم يقتل،  ۔۔۔۔ لقوله - صلى الله عليه وسلم -: «‌رفع ‌القلم عن ثلاث عن الصبي حتى يحتلم»، ومن كان مرفوع القلم فلا ينبني الحكم في الدنيا على قوله، ولأنه غير مخاطب بالإسلام ما لم يبلغ فلا يحكم بصحة إسلامه كالذي لا يعقل إذا لقن فتكلم به." 

(كتاب السير، باب المرتدين، ج:10، ص:120، ط:دار المعرفة)

Wednesday 31 July 2024

زیادہ ایڈوانس جمع کراکے کم کرایہ پر گھر لینا

 ایڈوانس زیادہ جمع کرانے کی صورت میں مروجہ کرایہ میں کمی کرنا سود کی اقسام میں سے ایک قسم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛  اس لیے کہ ایڈوانس رقم درحقیقت مالکِ  مکان کے ذمہ قرض ہوتی ہے اور قرض کے عوض میں کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، لہذا اس طرح عقد نہ کیا جائے۔البتہ

-  اگر کرایہ دار کرایہ کم کرنے کی صورت  میں سال بھر کا کرایہ یکمشت ادا کردے تو  یہ جائز ہے، بشرطیکہ کرایہ کے کم کرنے کوایڈوانس (سیکیورٹی ڈپازٹ) کے  زیادہ ہونے کے ساتھ  مشروط نہ کیا گیا ہو۔ سو اگر یوں  طے کیا گیا کہ کرایہ دار  زیادہ سیکیورٹی دے گا تو کرایہ کم کیا جائے گا تو یہ معاملہ  سود کی اقسام میں سے ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔  ہاں  ڈپازٹ کی رقم معمول کے مطابق ہو  یا بالکل بھی نہ ہو اور کرایہ بھی کم ہو اور کرایہ دار یک مشت ادا کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

النتف فی الفتاوی میں ہے:

أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا ) القرض لما کان (ذلک) الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.

(النتف في الفتاوی ، ص: ٤٨٤، ٤٨٥)


گونگے شخص کی طلاق

 گونگے شخص کی طلاق اشارہ سے  چند شرائط کے ساتھ واقع ہوگی، اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی شرط مفقود ہوئی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص  پیدائشی گونگا ہو ، پیدائشی گونگا نہ ہونے کی صورت میں اس کے گونگے پن پر کم از کم ایک سال گزر گیا ہو۔

۲)  اس کے اشارے اور اشاروں کا مطلب لوگوں میں معروف (جانا پہچانا) ہو، اور وہ ایسے اشارہ سے طلاق دے جس کا طلاق کے اشارہ کے طور پر استعمال ہونا معروف و مشہور ہو۔

۳) اشارہ کرتے وقت اس کے منہ سے کچھ آواز بھی نکلے جیسا کہ گونگوں کی عادت ہوتی ہے۔

۴) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص لکھنے پر قادر نہ ہو؛ جو گونگا لکھنے پر قادر ہو اس کی طلاق لکھنے سے ہی ہوگی، اشارہ کرنے سے نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ گونگا شخص اشارہ سے طلاق دیتے وقت جتنے عدد کا اشارہ کرے گا اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر اشارہ سے تین سے کم (ایک یا دو) طلاق دے گا تو وہ طلاقِ  رجعی ہی شمار کی جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 241):

"(أو أخرس) ولو طارئاً إن دام للموت، به يفتى، وعليه فتصرفاته موقوفة. واستحسن الكمال اشتراط كتابته (بإشارته) المعهودة؛ فإنها تكون كعبارة الناطق استحساناً.

 (قوله: إن دام للموت) قيد في طارئاً فقط ح. قال في البحر: فعلى هذا إذا طلق من اعتقل لسانه توقف، فإن دام به إلى الموت نفذ، وإن زال بطل. اهـ. قلت: وكذا لو تزوج بالإشارة لايحل له وطؤها؛ لعدم نفاذه قبل الموت، وكذا سائر عقوده، ولايخفى ما في هذا من الحرج (قوله: به يفتى) وقدر التمرتاشي الامتداد بسنة، بحر. وفي التتارخانية عن الينابيع: ويقع طلاق الأخرس بالإشارة، ويريد به الذي ولد وهو أخرس أو طرأ عليه ذلك ودام حتى صارت إشارته مفهومة وإلا لم يعتبر (قوله: واستحسن الكمال إلخ) حيث قال: وقال بعض الشافعية: إن كان يحسن الكتابة لايقع طلاقه بالإشارة؛ لاندفاع الضرورة بما هو أدل على المراد من الإشارة وهو قول حسن، وبه قال بعض مشايخنا اهـ. قلت: بل هذا القول تصريح بما المفهوم من ظاهر الرواية.

ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه: فإن كان الأخرس لايكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز، وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل. اهـ. فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة، فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لاتجوز إشارته، ثم الكلام كما في النهر إنما هو في قصر صحة تصرفاته على الكتابة، وإلا فغيره يقع طلاقه بكتابة كما يأتي آخر الباب، فما بالك به (قوله: بإشارته المعهودة) أي المقرونة بتصويت منه؛ لأن العادة منه ذلك، فكانت الإشارة بياناً لما أجمله الأخرس، بحر عن الفتح. وطلاقه المفهوم بالإشارة إذا كان دون الثلاثة فهو رجعي، كذا في المضمرات ط عن الهندية"

گونگے کا نکاح میں ایجاب وقبول

 گونگا اگر لکھنا پڑھنا جانتا ہے، تو اس کے سامنے ایک کاغذ پر ایجاب لکھ دیا جائے اور وہ جواب میں "مجھے قبول ہے" لکھ دے، تو  نکاح منعقد ہوجائے گا اور اگر وہ لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتاہو تو پھر اشارہ سے "مجھے قبول ہے" بتادے، نکاح منعقد ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (21/3، ط: دار الفکر)
وفي الفتح ينعقد النكاح من الأخرس إذا كانت له إشارة معلومة ۔

و فیہ ایضا: (241/3، ط: دار الفکر)
قلت بل هذا القول تصريح بما هو المفهوم من ظاهر الرواية ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه فإن كان الأخرس لا يكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل اھ فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لا تجوز إشارته ۔الخ۔

الفتاوی الھندیۃ: (270/1، ط: دار الفکر)
وكما ينعقد بالعبارة ينعقد بالإشارة من الأخرس إن كانت إشارته معلومة كذا في البدائع۔

بالوں میں براؤن کلر لگانا

  داڑھی یا بالوں کو براؤن کلر لگانا جائز ہے البتہ خالص کالا کلر لگانا جائز نہیں ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه".

(الفتاوى العالمكيرية ، كتاب الكراهية، الباب العشرون في الزينة واتخاذ الخادم للخدمة، 5/ 359،ط: دار الفكر)

عورت کا قبرستان کے راستہ سے گزرنا

 عورت   قبرستان کے درمیان بنے ہوئے راستے سے گزر سکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"وسئل أيضا عمن له بقعة مملوكة بين المقابر يريد أن يتصرف في تلك البقعة ولا طريق له إلا على المقابر هل له أن يتخطى المقابر فقال إن كان الأموات في التوابيت فلا بأس قال رضي الله عنه وكذلك إن كانوا في غير التوابيت كذا في التتارخانية."

( الفتاوی الھندیة، کتاب الکراهية، الباب السادس عشر في زیارۃ القبور وقراۃ القرآن فیھا، ج:5، ص:351، ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"والمشي في المقابر بنعلين لا يكره عندنا، كذا في السراج الوهاج."

(الفتاوی الهندیة، الباب السادس عشر في زیارۃ القبور وقراۃ القرآن فیھا، ج:5، ص:350، ط:دار الفکر)

عورت گھر میں دوپٹہ اتار سکتی ہے ؟

 عورت كےستر اور  پردے سےمتعلق آیات و روایت اور وعیدوں کاتعلق اجنبی، نامحرم مردوں اور غیرمسلم عورتوں سےہیں ، چاہےیہ لوگ گھرمیں ہوں،یاگھرکےباہر۔ عورت کے وہ رشتہ دارجن سے نکاح کرنا ہمیشہ کےلیےحرام  ہے، ان کے سامنے جس طرح چہرہ  کھلا رکھنا جائز ہے، اسی طرح کام کاج کے وقت ان کے سامنے سرکھلا رکھنا بھی جائزہے؛ لہٰذا گھرمیں اگر اجنبی مردوں کے آنے کا احتمال نہ ہو تو  عورت اپنادوپٹہ گھرمیں اتارسکتی ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ گھر میں بھی سرپردوپٹہ موجود رہے؛  تا کہ کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ رہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"فأما نظره إلى ذوات محارمه فنقول: يباح له أن ينظر إلى موضع الزينة الظاهرة والباطنة لقوله تعالى {ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن} [النور: 31] الآية ولم يرد به عين الزينة فإنها تباع في الأسواق ويراها الأجانب ولكن المراد منه موضع الزينة وهي الرأس والشعر والعنق والصدر والعضد والساعد والكف والساق والرجل والوجه فالرأس موضع التاج والإكليل والشعر موضع القصاص والعنق موضع القلادة والصدر كذلك فالقلادة والوشاح قد ينتهي إلى الصدر والأذن موضع القرط والعضد موضع الدملوج والساعد موضع السوار والكف موضع الخاتم والخضاب والساق موضع الخلخال والقدم موضع الخضاب وجاء في الحديث أن الحسن والحسين رضي الله عنهما دخلا على أم كلثوم وهي تمتشط فلم تستتر ولأن المحارم يدخل بعضهم على بعض من غير استئذان ولا حشمة والمرأة في بيتها تكون في ثياب مهنتها عادة ولا تكون مستترة فلو أمرها بالتستر من ذوي محارمها أدى إلى الحرج."

(كتاب الاستحسان،نظرالرجل الی المرأة،  ج: 10، ص: 149، ط:مطبعة السعادة)

عورت پر کس عمر کے بچوں سے پردہ فرض ہے

 پردے کا اصل مدار شہوت کی حد کو پہنچنے پر ہے،  بچے جب اتنی عمرکے ہوجائیں، جس میں ان میں شہوت پیدا ہوتی ہو یاان کو دیکھنے سے عورت کو شہوت پیدا ہوتی ہو تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہے ، فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے  دس سال کے لڑ کوں کو مراہق ومشتہی قرار دیا ہے،لہذا دس سال کے لڑکے سے عورت کو پردہ کرنا ضروری ہے،البتہ اگر کسی لڑکے میں دس سال کی عمر سے پہلے ہی لڑکیوں کی طرف میلان محسوس کیا جائے تو  اسی عمر سے پردہ کرنا چاہیے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين ‌وفرقوا ‌بينهم ‌في ‌المضاجع"

(کتاب الصلوۃ،ج:1، ص:181، رقم الحدیث:572،ط:المکتب الأسلامی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

" لأنهم بلغوا أو قاربوا البلوغ ۔۔لأن بلوغ العشر مظنة الشهوة "

(کتا ب الصلوۃ،ج:2،ص:512،رقم الحدیث:572،ط:دار الفکر)

قرآنِ کریم میں ہے:

"قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذلِكَ أَزْكى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِما يَصْنَعُونَ(30)وَقُلْ ‌لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَا مَا ظَهَرَ مِنْها وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبائِهِنَّ أَوْ آباءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنائِهِنَّ أَوْ أَبْناءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَواتِهِنَّ أَوْ نِسائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور:31)."

تلاوت قرآن پر داد دینا

 قران کریم کی تلاوت کے دوران داد دینے کے لیے زور سے چلانا یا زور سے کچھ کلمات ادا کرنا کسی بھی حال میں پسندیدہ نہیں ، دورانِ تلاوت  ایسا کرنا قرآنِ کریم کے ادب کے خلاف ہے، جس سے بچنا لازم ہے،البتہ  تلاوت کے دوران  جب  قاری صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش ہوتے ہیں اس وقت  وقار کے ساتھ آہستہ آواز میں کلام اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے، اللّٰه أكبریا  سبحان اللّٰه وغیرہ کہا جائے تو اس میں حرج بھی نہیں۔

قرآن مجیدمیں ہے:

(وَإِذَا قُرِيَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَانْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ)(الاعراف، 204)

یعنی جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو، امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔(بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"سئل الفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى - عن قوم قرءوا قراءة ورد وكبروا بعد ذلك جهرا؟ . قال: إن أرادوا بذلك الشكر لا بأس به...رفع الصوت عند سماع القرآن والوعظ مكروه، وما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة لا أصل له، ويمنع الصوفية من رفع الصوت وتخريق الثياب، كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، 319/5، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ورفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارة قال: إنه حرام، وتارة قال إنه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو " «وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر والإخفاء بالقراءة ولا يعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي» لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدي فائدته إلى السامعين، ويوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفكر، ويصرف سمعه إليه، ويطرد النوم، ويزيد النشاط. اهـ. ملخصا، وتمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 660/1، ط: سعید)

افیون اور بھنگ کی کاشت اور اس کے عشر کا حکم

 .افیون اور بھنگ کا چونکہ جائز استعمال بھی ہوتا ہے، جیسے: ادویات و دیگر جائز امور  میں استعمال، لہذا  افیون    کی کاشت جائز ہے۔ اور دوا ساز  ادارے  یا کسی ایسے شخص کو فروخت کرنا جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ اس سے کیا بنائے گا  جائز ہے، البتہ کسی  ایسے شخص کو فروخت کرنا  جس کے بارے میں فروخت کنندہ کو معلوم  ہو کہ  خریدار  افیون یا بھنگ ناجائز مقصد میں استعمال کرے گا، مکروہ تحریمی ہے۔

2.افیون اور بھنگ کی فصل پر بھی  عشر / نصف عشر لازم ہوگا۔

3. افیون اور بھنگ کی فصل کا عشر / نصف عشر کسی بھی مستحق ِ زکاۃ (عالم ہو یا غیر عالم ہو) کو دیا جاسکتا ہے،نیز قیمت کی صورت میں بھی عشر / نصف عشر   ادا کیا جاسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.  قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل."

(كتاب الحظروالإباحة،ج:6،ص:554،ط:سعيد)

وفیه أیضاً:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لاتقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره؛ لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.
(قوله: ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف، قهستاني، (قوله: لاتقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لاتقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله: أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية، قهستاني عن الجواهر.
أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لايظهر إلا على قول من قال: إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة، والأصح خطابهم، وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما، فتدبر اهـ ولايرد هذا على الإطلاق والتعليل المار."

(كتاب الحظر والإباحة،ج:6،ص:391،ط:سعيد)