https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 2 August 2024

اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح استعمال کرنا

 اونٹ کی ہڈی کی تسبیح کا استعمال جائزہے ۔

مراقی الفلاح میں ہے:

'( وكل شيء ) من أجزاء الحيوان غير الخنزير ( لا يسري فيه الدم لا ينجس بالموت )؛ لأن النجاسة باحتباس الدم وهو منعدم فيما هو ( كالشعر والريش المجزوز )؛ لأن المنسول جذره نجس ( والقرن والحافر والعظم ما لم يكن به ) أي العظم ( دسم ) أي ردك؛ لأنه نجس من الميتة، فإذا زال عن العظم زال عنه النجس والعظم في ذاته طاهر؛ لما أخرج الدارقطني: " إنما حرم رسول الله صلى الله عليه و سلم من الميتة لحمها "، فأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به' .

(کتاب الطہارۃ، 1/107، بیروت )

فجر کی نماز کے بعد سونا

 فجر کی  نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک سونا مکروہ  ہے ، اور  فجرکی  نماز کے بعد سونے والا اس دعا برکت سے محروم ہوجا تا ہے جو  نبی کریم ﷺنے  اپنی امت کے لیے   کی ہے ۔

سنن ترمذی میں ہے: 

"عن صخرالغامدى قال قال رسول اللّه-صلى الله عليه وسلم  : اللّهمّ بارك لأمّتِى فى بكورها ، قال: وكان إذا بعث سرِيّة أو جيشا بعثهُم أوّل النّهار...إلخ" 

(أخرجه الترمذي  في سننه ، كتاب البيو ع ، باب ما جاء  في التبكير  بالتجارة ، رقم  الحديث : 1256  ،  ج: 1 ، ص : 329 ، الناشر : مكتبة المكنز الإسلامي)

 ترجمہ : 

’’ حضرت صخر غامدی ؓ سے مروی ہے   کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی :’’  اے اللہ میری امت کےسویرے کے کاموں میں  برکت فرما ‘‘حضرت صخر ؓ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ جب کوئی چھوٹا یا بڑا لشکر روانہ  فرماتے تو دن کے اول حصے میں ( فجر کے فورا بعد )روانہ  کرتے تھے ‘‘

( ترجمہ از تحفۃ  الالمعی لسعید احمد پالن پوری  ، ج : ۴ ، ص : ۱۱۲ ،  طبع : زمزم پبلشرْز ) 

فتاوی سراجیہ میں ہے : 

" يكره النوم  في أول النهار و فيما بين المغرب و العشاء ...إلخ"

(كتاب الكراهية ،  باب المتفرقات ، ص: 336 ، الناشر : دار الكتب العلمية) 

کوئلہ سے دانت صاف کرنا

 کوئلہ سے دانت صاف کرنے کی ممانعت سے متعلق  کوئی روایت نہیں مل سکی، باقی دیگر چیزوں کی طرح کوئلہ سے دانت صاف کرنے کا یہی حکم ہے کہ اگر وہ مضرِ صحت نہ تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 

التقریر والتحریر میں ہے:

"الأصل في المنافع الإباحة وفي المضار التحريم."

(الباب الأول في الأحكام وفيه أربعة فصول، 2/ 135، ط: دار الفكر بيروت)

مجمع الانھر میں ہے:

"و اعلم أن الأصل في الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى:﴿هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا﴾ وقال: ﴿كلوا مما في الأرض حلالا طيبا﴾ وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي، فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة."

(کتاب الأشربة، 4/ 244، ط: مکتبة المنار،کوئته) 

موبائل کی حدود وقیود

  دین سراسر ادب کا نام ہے اوروالدین اور بزرگوں اور مہمانوں کے ادب کے بارے میں احادیث نبویہ میں بہت تاکید آئی ہے،والدین اور بزرگوں کے آداب میں سے یہ ہے کہ ان کے سامنے بہت اونچی آواز میں بات نہ کی جائے اور ان کے سامنے ان سے توجہ ہٹا کر کسی لایعنی کام(موبائل وغیرہ استعمال کرنے) میں نہ لگے بلکہ اپنی مکمل توجہ ان کی طرف مبذول رکھیں؛ کیوں کہ حضورﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب بھی کسی سے ملتے تو اپنی پوری توجہ اسی کی طرف کرتے،لہذا بچوں کا والدین، بڑوں اور بزرگوں کے سامنے اور میزبان کا مہمان کے سامنےموبائل فون استعمال کرنا ان سے بے رخی وبے توجہی ہے جو کہ ادب اور مہمان نوازی کے سراسر خلاف بلکہ بے ادبی ہے،اور عادت نبوی ﷺ کی خلاف ورزی ہے؛ کیوں کہ حضور ﷺ جب بھی کسی کی طرف دیکھتے تو مکمل توجہ اسی کی طرف مبذول فرماتے تھے؛ اس لیے والدین اور بزرگوں کے سامنے بلاضرورت اسمارٹ فون کے جائز استعمال سے بھی اجتناب کریں، تاکہ ان سے بے رخی نہ ہو، اور ایسے اوقات کو کسی دینی مشغلے میں صرف کریں۔

شرح المصابیح لابن الملک میں ہے:

"‌إذا ‌التفت ‌التفت معا"؛ أي: ينظر بعينيه ‌جميعا، لا بطرف عينه، كما هو عادة المتكبرين وذوي الغضب"

(باب أسماء النبي - صلى الله عليه وسلم - وصفاته، ج: 6، ص: 224، ط: إدارة الثقافة الإسلامية)

سنن الترمذی میں ہے:

"حدثنا أبو بكر محمد بن أبان قال: حدثنا محمد بن فضيل، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا ‌من ‌لم ‌يرحم ‌صغيرنا ويعرف شرف كبيرنا» حدثنا هناد قال: حدثنا عبدة، عن محمد بن إسحاق، نحوه، إلا أنه قال: «ويعرف حق كبيرنا»"

(‌‌باب ما جاء في رحمة الصبيان، ج: 4، ص: 322، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

تبلیغی مراکز میں اسپیکر کیوں استعمال نہیں ہوتے

 اسپیکر کا استعمال نماز میں جائز اور درست ہے لازم نہیں ہے،  اور اسپیکر سے بلند ہونے والی آواز بھی امام کی اصل آواز ہے،لہذا مساجد میں اسپیکر اور مائک کا استعمال کرنا جائز ہے۔

باقی تبلیغی مراکز میں نماز کے اسپیکر کا استعمال کیوں نہیں ہوتا اس کا جواب انہی لوگوں سے معلوم کر لیا جاۓ، باقی چونکہ یہ لازم نہیں اس لیے وہ حضرات اس سے بچتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ استعمال کرنے میں آسانی ہے۔

(کتاب آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام(مفتی محمد شفیع صاحب)،آلہ مکبر الصوت کے شرعی احکام،ص:32)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حاشية أبي السعود: واعلم أن التبليغ عند عدم الحاجة إليه بأن بلغهم صوت الإمام مكروه. وفي السيرة الحلبية: اتفق الأئمة الأربعة على أن التبليغ حينئذ بدعة منكرة أي مكروهة وأما عند الاحتياج إليه فمستحب."

(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،مطلب فی التبلیغ خلف الامام،475/1،ط:سعید)

لوگووالااحرام پہننا

  اگراحرام  پر کسی جاندار کی تصویر  کا لوگو ہوتو پھر پہننا  نا جائز ہے  ، البتہ  لوگو  ایسی تصویر  ہوجوکہ جاندار کی نہ ہو تو اس  کا پہننا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء ‌كان ‌في ‌ثوب ‌أو ‌بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(‌‌كتاب الصلاة‌‌، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها: 1/ 647، ط: سعید)

پھول پہننا

 عورتوں کے لیے پھول پہننا جائز ہے،کیوں کہ یہ بھی زینت میں داخل ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ ...الخ

ترجمہ:"اور(عورتیں)اپنی زینت (کے مواقعِ مذکورہ) کو (کسی پر)ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے (محارم پر یعنی) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر یا اپنے(حقیقی،علاتی اور اخیافی) بھائیوں  یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی (حقیقی ،علاتی اور اخیافی) بہنوں کے بیٹوں پر۔۔۔الخ."

(تفسیربیان القرآن،سورۃالنور،الآیة:31،ط:مکتبہ رحمانیہ)

احسن الفتاوی میں ہے:

’’سوال: ہمارے ہاں یہ قدیم دستور چلا آرہا ہے کہ شادی کے موقع پر دلہن کو پھول پہناتے ہیں اور اسے مہندی لگائی جاتی ہے،ساتھ دوسری لڑکیاں بھی مہندی لگاتی ہیں،کیا عورتوں کے لیے مہندی لگانا اور پھول پہننا سنت ہے؟

جواب : عورتوں کے لیے مہندی لگانا مستحب ہے، مگر آج کل جو مہندی کی رسم کا دستور ہےکہ دوسری عورتوں کا بھی بڑا مجمع لگ جاتا ہے ،یہ کئی مفاسد کا مجموعہ ہے،اس لیے اس سے احتراز لازم ہے،اپنے طور پر عورتیں مہندی لگاسکتی ہیں۔

پھول پہننے کا کوئی ثبوت نہیں،مگر شادی کے موقع پر زیب وزینت اختیار کرنا جائز بلکہ مستحسن ہے،اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں،البتہ زیب وزینت کے ساتھ کسی غیر محرم کے سامنے جانا سخت گناہ اور حرام ہے۔ـ‘‘

(کتاب الحظر و الاباحۃ، ج: 8، ص : 160، ط: ایچ ایم سعید)

بیٹی کا والد کو غسل کرانا

 اولاً یہ کوشش ہو  کہ والد کو غسل کروانے کے لیے کوئی مرد اپنی خدمات پیش کرے، تاہم اگر والد کی خدمت کے لیے کوئی مرد دستیاب نہ ہو تو بیٹی کے لیے والد کو غسل کروانے کی اجازت ہو گی، لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ والد کا ستر  چھپا ہوا ہو، ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ ستر ہے، اس حصے کو دیکھنا اور چھونا بیٹی کے لیے جائز نہیں ہو گا، اس بات کا خیال رکھتے ہوئے بیٹی اپنے والد کو غسل کروا سکتی ہے۔

مجمع الانہر میں ہے:

"(و) من (الرجل إلى ما ينظر الرجل من الرجل) أي إلى ما سوى العورة (إن أمنت الشهوة) وذلك ؛ لأن ما ليس بعورة لا يختلف فيه النساء والرجال، فكان لها أن تنظر منه ما ليس بعورة."

(كتاب الكراهية، فصل في بيان احكام النظر، جلد:2، صفحه: 539، طبع: المطبعة العامرة)

گھوڑے کا گوشت کھانا

  گھوڑا فی نفسہ حلال ہے،لیکن  جہادکے آلہ  ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ  ؒکے نزدیک گھوڑے کاگوشت کھانا مکروہ تحریمی ہے، اور اسی قول پر فتوی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره أكل لحم الفرس عند أبي حنيفة اهـ. والمكروه تحريما يطلق عليه عدم الحل شرنبلالية، فأفاد أن التحريم ليس لنجاسة لحمها ولهذا أجاب في غاية البيان عما هو ظاهر الرواية من طهارة سؤر الفرس بأن حرمة الأكل للاحترام من حيث إنه يقع به إرهاب العدو لا للنجاسة."

(کتاب الذبائح، 506/6، ط، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌يكره ‌لحم ‌الخيل في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - خلافا لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة والصحيح أنه أراد بها التحريم ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي ما قاله أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - أحوط وما قالا أوسع، كذا في السراجية."

(کتاب الذبائح، الباب الثاث فی المتفرقات، 290/5،ط ، دار الفکر)

خرگوش کاگوشت کھانا

 خرگوش کا گوشت کھانا حلال ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں خرگوش پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا۔

سنن ِترمذی میں ہے: 

" عن هشام بن زيد بن أنس قال : سمعت أنساً يقول : أنفجنا أرنباً بمر الظهران فسعى أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم خلفهتا فأدركتها فأتيت بها أبوطلحة فذبحها بمروة فبعث معي بفخذها أو بوركها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأكله، قال: قلت: أكله ؟ قال: قبله."

(سنن الترمذي ، أبواب الأطمعة، باب في أكل الأرنب ،4 / 251 ط:داراحياء التراث)

ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے مرالظہران میں ایک خرگوش بھگایا، صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے پیچھے دوڑے ،میں نے اس کو پالیا پس میں اس کو پکڑکر حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا ،پھر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اس کوسفید پتھر سے ذبح کیا ،پھر میرے ساتھ اس کا ران یا کولہا نبی کریم ﷺ خدمت میں بھیجا ،آپ ﷺنے اس کو تناول فرمایا ،ہشام نے پوچھا کیا آپ  ﷺ نے اس کو  تناول فرمایا ؟حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا  آپ ﷺ نے قبول فرمایا۔"

فتح القدیر میں ہے:

"(ولا بأس بأكل الأرنب) لأن «النبي عليه الصلاة والسلام أكل منه حين أهدي إليه مشويا وأمر أصحابه رضي الله عنهم بالأكل منه» ، ولأنه ليس من السباع ولا من أكلة الجيف فأشبه الظبي."

(کتاب الذبائح ، فصل فیما یحل اکلہ ومالایحل، 502/9، ط، دار الفکر)

بھڑکے شہد کواستعمال کرنا

 اگر صحت کے لیے مضر نہ ہو اور طبعیت کو اس سے گھن نہ آتی ہو تو اس شہد کا استعمال جائز   ہے۔ لیکن اسے عام شہد کہہ کر دوسروں کو فروخت کرنا یا استعمال کے لیے دینا درست نہیں۔

العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

الأول أن الأصل في المنافع الإباحة، والمأخذ الشرعي آيات ثلاث الأولى قوله تعالى {خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة: 29] ، واللام للنفع فتدل على أن الانتفاع بالمنتفع به مأذون شرعا وهو المطلوب، الثانية قوله تعالى {قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده} [الأعراف: 32] ، والزينة تدل على الانتفاع الثالثة قوله تعالى {أحل لكم الطيبات} [المائدة: 4] ، والمراد بالطيبات المستطابات طبعا وذلك يقتضي حل المنافع بأسرها، والثاني أن الأصل في المضار التحريم، والمنع لقوله عليه الصلاة والسلام «لا ضرر ولا ضرار في الإسلام» وأيضا ضبط أهل الفقه ‌حرمة ‌التناول إما بالإسكار كالبنج وإما بالإضرار بالبدن كالتراب، والترياق أو بالاستقذار كالمخاط، والبزاق وهذا كله فيما كان طاهرا وبالجملة إن ثبت في هذا الدخان إضرار صرف خال عن المنافع فيجوز الإفتاء بتحريمه وإن لم يثبت انتفاعه فالأصل حله مع أن في الإفتاء بحله دفع الحرج عن المسلمين فإن أكثرهم مبتلون بتناوله مع أن تحليله أيسر من تحريمه وما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين إلا اختار أيسرهما وأما كونه بدعة فلا ضرر فإنه بدعة في التناول لا في الدين فإثبات حرمته أمر عسير لا يكاد يوجد له نصير نعم لو أضر ببعض الطبائع فهو عليه حرام ولو نفع ببعض وقصد به التداوي فهو مرغوب ولو لم ينفع ولم يضر هذا ما سنح في الخاطر إظهارا للصواب من غير تعنت ولا عناد في الجواب، والله أعلم بالصواب كذا أجاب الشيخ محيي الدين أحمد بن محيي الدين بن حيدر الكردي الجزري - رحمه الله تعالى

(مسائل و فوائد شتی من الحظر و الإباحة  و غیرذلک، مسئلة:افتي ائمة اعلام بتحريم شرب الدخان، ج:2، ص332، ط:دار المعرفة)

شراب کودواء میں استعمال کرنا

 کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرنا حرام ہے،  البتہ اگر بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو  اور  مسلمان،   ماہر دین دار  طبیب یہ کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہو جائے کہ  شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور دوسرا کوئی حلال متبادل موجود نہیں ہےتو  مجبوراً بطورِ دوا و علاج بوقتِ ضرورت، بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے،  ورنہ نہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر بیماری مہلک یا ناقابل برداشت ہے ،اور  کسی حلال چیز سے علاج ممکن نہیں اور مسلمان ،ماہر دین دار طبیب   کو یقین ہوجائے کہ شفا شراب میں ہی منحصر ہے اور مریض  کے لیے شراب بطور دوا تجویز کرلے تو  اس صورت میں شراب کو حرام سمجھتے  ہوئے  مجبورًا بطورِ دوا  بوقتِ ضرورت ، بقدر ضرورت علاج استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى.

"مطلب في التداوي بالمحرم":

Thursday 1 August 2024

مسجد میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانا

 مسجد کے ہال یا برآمدے  میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے سے مقصود  چونکہ اشیاءمسجد اور عوام کی  دیکھ بال ہوتا ہے اس لئے یہ مسجد کے مصالح اور ضروریات میں داخل ہو کر جائز ہے البتہ اسکرین مسجد کے حدود سے باہر لگانی چاہئے  کیونکہ علماء  کرام کی ایک بڑی تعداد   اسکرین کی تصویر کو  تصویر قرار دیتے ہیں ۔

( ويبدأ من غلته بعمارته ) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايته ۔

قال ابن عابدين :  قوله ( ثم ما هو أقرب لعمارته الخ ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره ۔۔۔وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم ثم السراج و البساط كذلك إلى آخر المصالح هذا إذا لم يكن معينا فإن كان الوقف معينا على شيء يصرف إليه بعد عمارة البناء اه ( الدر المختارمع رد المختار،كتاب الوقف ،مطلب يبدأ بعد العمارة بما هو أقرب إليهاج4/ص559)

الضرورات تبیح المحذورات۔(شرح المجلۃ،المادۃ21ص29)