https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 2 August 2024

موبائل کی حدود وقیود

  دین سراسر ادب کا نام ہے اوروالدین اور بزرگوں اور مہمانوں کے ادب کے بارے میں احادیث نبویہ میں بہت تاکید آئی ہے،والدین اور بزرگوں کے آداب میں سے یہ ہے کہ ان کے سامنے بہت اونچی آواز میں بات نہ کی جائے اور ان کے سامنے ان سے توجہ ہٹا کر کسی لایعنی کام(موبائل وغیرہ استعمال کرنے) میں نہ لگے بلکہ اپنی مکمل توجہ ان کی طرف مبذول رکھیں؛ کیوں کہ حضورﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب بھی کسی سے ملتے تو اپنی پوری توجہ اسی کی طرف کرتے،لہذا بچوں کا والدین، بڑوں اور بزرگوں کے سامنے اور میزبان کا مہمان کے سامنےموبائل فون استعمال کرنا ان سے بے رخی وبے توجہی ہے جو کہ ادب اور مہمان نوازی کے سراسر خلاف بلکہ بے ادبی ہے،اور عادت نبوی ﷺ کی خلاف ورزی ہے؛ کیوں کہ حضور ﷺ جب بھی کسی کی طرف دیکھتے تو مکمل توجہ اسی کی طرف مبذول فرماتے تھے؛ اس لیے والدین اور بزرگوں کے سامنے بلاضرورت اسمارٹ فون کے جائز استعمال سے بھی اجتناب کریں، تاکہ ان سے بے رخی نہ ہو، اور ایسے اوقات کو کسی دینی مشغلے میں صرف کریں۔

شرح المصابیح لابن الملک میں ہے:

"‌إذا ‌التفت ‌التفت معا"؛ أي: ينظر بعينيه ‌جميعا، لا بطرف عينه، كما هو عادة المتكبرين وذوي الغضب"

(باب أسماء النبي - صلى الله عليه وسلم - وصفاته، ج: 6، ص: 224، ط: إدارة الثقافة الإسلامية)

سنن الترمذی میں ہے:

"حدثنا أبو بكر محمد بن أبان قال: حدثنا محمد بن فضيل، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا ‌من ‌لم ‌يرحم ‌صغيرنا ويعرف شرف كبيرنا» حدثنا هناد قال: حدثنا عبدة، عن محمد بن إسحاق، نحوه، إلا أنه قال: «ويعرف حق كبيرنا»"

(‌‌باب ما جاء في رحمة الصبيان، ج: 4، ص: 322، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

تبلیغی مراکز میں اسپیکر کیوں استعمال نہیں ہوتے

 اسپیکر کا استعمال نماز میں جائز اور درست ہے لازم نہیں ہے،  اور اسپیکر سے بلند ہونے والی آواز بھی امام کی اصل آواز ہے،لہذا مساجد میں اسپیکر اور مائک کا استعمال کرنا جائز ہے۔

باقی تبلیغی مراکز میں نماز کے اسپیکر کا استعمال کیوں نہیں ہوتا اس کا جواب انہی لوگوں سے معلوم کر لیا جاۓ، باقی چونکہ یہ لازم نہیں اس لیے وہ حضرات اس سے بچتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ استعمال کرنے میں آسانی ہے۔

(کتاب آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام(مفتی محمد شفیع صاحب)،آلہ مکبر الصوت کے شرعی احکام،ص:32)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حاشية أبي السعود: واعلم أن التبليغ عند عدم الحاجة إليه بأن بلغهم صوت الإمام مكروه. وفي السيرة الحلبية: اتفق الأئمة الأربعة على أن التبليغ حينئذ بدعة منكرة أي مكروهة وأما عند الاحتياج إليه فمستحب."

(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،مطلب فی التبلیغ خلف الامام،475/1،ط:سعید)

لوگووالااحرام پہننا

  اگراحرام  پر کسی جاندار کی تصویر  کا لوگو ہوتو پھر پہننا  نا جائز ہے  ، البتہ  لوگو  ایسی تصویر  ہوجوکہ جاندار کی نہ ہو تو اس  کا پہننا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء ‌كان ‌في ‌ثوب ‌أو ‌بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(‌‌كتاب الصلاة‌‌، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها: 1/ 647، ط: سعید)

پھول پہننا

 عورتوں کے لیے پھول پہننا جائز ہے،کیوں کہ یہ بھی زینت میں داخل ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ ...الخ

ترجمہ:"اور(عورتیں)اپنی زینت (کے مواقعِ مذکورہ) کو (کسی پر)ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے (محارم پر یعنی) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر یا اپنے(حقیقی،علاتی اور اخیافی) بھائیوں  یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی (حقیقی ،علاتی اور اخیافی) بہنوں کے بیٹوں پر۔۔۔الخ."

(تفسیربیان القرآن،سورۃالنور،الآیة:31،ط:مکتبہ رحمانیہ)

احسن الفتاوی میں ہے:

’’سوال: ہمارے ہاں یہ قدیم دستور چلا آرہا ہے کہ شادی کے موقع پر دلہن کو پھول پہناتے ہیں اور اسے مہندی لگائی جاتی ہے،ساتھ دوسری لڑکیاں بھی مہندی لگاتی ہیں،کیا عورتوں کے لیے مہندی لگانا اور پھول پہننا سنت ہے؟

جواب : عورتوں کے لیے مہندی لگانا مستحب ہے، مگر آج کل جو مہندی کی رسم کا دستور ہےکہ دوسری عورتوں کا بھی بڑا مجمع لگ جاتا ہے ،یہ کئی مفاسد کا مجموعہ ہے،اس لیے اس سے احتراز لازم ہے،اپنے طور پر عورتیں مہندی لگاسکتی ہیں۔

پھول پہننے کا کوئی ثبوت نہیں،مگر شادی کے موقع پر زیب وزینت اختیار کرنا جائز بلکہ مستحسن ہے،اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں،البتہ زیب وزینت کے ساتھ کسی غیر محرم کے سامنے جانا سخت گناہ اور حرام ہے۔ـ‘‘

(کتاب الحظر و الاباحۃ، ج: 8، ص : 160، ط: ایچ ایم سعید)

بیٹی کا والد کو غسل کرانا

 اولاً یہ کوشش ہو  کہ والد کو غسل کروانے کے لیے کوئی مرد اپنی خدمات پیش کرے، تاہم اگر والد کی خدمت کے لیے کوئی مرد دستیاب نہ ہو تو بیٹی کے لیے والد کو غسل کروانے کی اجازت ہو گی، لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ والد کا ستر  چھپا ہوا ہو، ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ ستر ہے، اس حصے کو دیکھنا اور چھونا بیٹی کے لیے جائز نہیں ہو گا، اس بات کا خیال رکھتے ہوئے بیٹی اپنے والد کو غسل کروا سکتی ہے۔

مجمع الانہر میں ہے:

"(و) من (الرجل إلى ما ينظر الرجل من الرجل) أي إلى ما سوى العورة (إن أمنت الشهوة) وذلك ؛ لأن ما ليس بعورة لا يختلف فيه النساء والرجال، فكان لها أن تنظر منه ما ليس بعورة."

(كتاب الكراهية، فصل في بيان احكام النظر، جلد:2، صفحه: 539، طبع: المطبعة العامرة)

گھوڑے کا گوشت کھانا

  گھوڑا فی نفسہ حلال ہے،لیکن  جہادکے آلہ  ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ  ؒکے نزدیک گھوڑے کاگوشت کھانا مکروہ تحریمی ہے، اور اسی قول پر فتوی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره أكل لحم الفرس عند أبي حنيفة اهـ. والمكروه تحريما يطلق عليه عدم الحل شرنبلالية، فأفاد أن التحريم ليس لنجاسة لحمها ولهذا أجاب في غاية البيان عما هو ظاهر الرواية من طهارة سؤر الفرس بأن حرمة الأكل للاحترام من حيث إنه يقع به إرهاب العدو لا للنجاسة."

(کتاب الذبائح، 506/6، ط، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌يكره ‌لحم ‌الخيل في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - خلافا لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة والصحيح أنه أراد بها التحريم ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي ما قاله أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - أحوط وما قالا أوسع، كذا في السراجية."

(کتاب الذبائح، الباب الثاث فی المتفرقات، 290/5،ط ، دار الفکر)

خرگوش کاگوشت کھانا

 خرگوش کا گوشت کھانا حلال ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں خرگوش پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا۔

سنن ِترمذی میں ہے: 

" عن هشام بن زيد بن أنس قال : سمعت أنساً يقول : أنفجنا أرنباً بمر الظهران فسعى أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم خلفهتا فأدركتها فأتيت بها أبوطلحة فذبحها بمروة فبعث معي بفخذها أو بوركها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأكله، قال: قلت: أكله ؟ قال: قبله."

(سنن الترمذي ، أبواب الأطمعة، باب في أكل الأرنب ،4 / 251 ط:داراحياء التراث)

ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے مرالظہران میں ایک خرگوش بھگایا، صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے پیچھے دوڑے ،میں نے اس کو پالیا پس میں اس کو پکڑکر حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا ،پھر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اس کوسفید پتھر سے ذبح کیا ،پھر میرے ساتھ اس کا ران یا کولہا نبی کریم ﷺ خدمت میں بھیجا ،آپ ﷺنے اس کو تناول فرمایا ،ہشام نے پوچھا کیا آپ  ﷺ نے اس کو  تناول فرمایا ؟حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا  آپ ﷺ نے قبول فرمایا۔"

فتح القدیر میں ہے:

"(ولا بأس بأكل الأرنب) لأن «النبي عليه الصلاة والسلام أكل منه حين أهدي إليه مشويا وأمر أصحابه رضي الله عنهم بالأكل منه» ، ولأنه ليس من السباع ولا من أكلة الجيف فأشبه الظبي."

(کتاب الذبائح ، فصل فیما یحل اکلہ ومالایحل، 502/9، ط، دار الفکر)

بھڑکے شہد کواستعمال کرنا

 اگر صحت کے لیے مضر نہ ہو اور طبعیت کو اس سے گھن نہ آتی ہو تو اس شہد کا استعمال جائز   ہے۔ لیکن اسے عام شہد کہہ کر دوسروں کو فروخت کرنا یا استعمال کے لیے دینا درست نہیں۔

العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

الأول أن الأصل في المنافع الإباحة، والمأخذ الشرعي آيات ثلاث الأولى قوله تعالى {خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة: 29] ، واللام للنفع فتدل على أن الانتفاع بالمنتفع به مأذون شرعا وهو المطلوب، الثانية قوله تعالى {قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده} [الأعراف: 32] ، والزينة تدل على الانتفاع الثالثة قوله تعالى {أحل لكم الطيبات} [المائدة: 4] ، والمراد بالطيبات المستطابات طبعا وذلك يقتضي حل المنافع بأسرها، والثاني أن الأصل في المضار التحريم، والمنع لقوله عليه الصلاة والسلام «لا ضرر ولا ضرار في الإسلام» وأيضا ضبط أهل الفقه ‌حرمة ‌التناول إما بالإسكار كالبنج وإما بالإضرار بالبدن كالتراب، والترياق أو بالاستقذار كالمخاط، والبزاق وهذا كله فيما كان طاهرا وبالجملة إن ثبت في هذا الدخان إضرار صرف خال عن المنافع فيجوز الإفتاء بتحريمه وإن لم يثبت انتفاعه فالأصل حله مع أن في الإفتاء بحله دفع الحرج عن المسلمين فإن أكثرهم مبتلون بتناوله مع أن تحليله أيسر من تحريمه وما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين إلا اختار أيسرهما وأما كونه بدعة فلا ضرر فإنه بدعة في التناول لا في الدين فإثبات حرمته أمر عسير لا يكاد يوجد له نصير نعم لو أضر ببعض الطبائع فهو عليه حرام ولو نفع ببعض وقصد به التداوي فهو مرغوب ولو لم ينفع ولم يضر هذا ما سنح في الخاطر إظهارا للصواب من غير تعنت ولا عناد في الجواب، والله أعلم بالصواب كذا أجاب الشيخ محيي الدين أحمد بن محيي الدين بن حيدر الكردي الجزري - رحمه الله تعالى

(مسائل و فوائد شتی من الحظر و الإباحة  و غیرذلک، مسئلة:افتي ائمة اعلام بتحريم شرب الدخان، ج:2، ص332، ط:دار المعرفة)

شراب کودواء میں استعمال کرنا

 کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرنا حرام ہے،  البتہ اگر بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو  اور  مسلمان،   ماہر دین دار  طبیب یہ کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہو جائے کہ  شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور دوسرا کوئی حلال متبادل موجود نہیں ہےتو  مجبوراً بطورِ دوا و علاج بوقتِ ضرورت، بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے،  ورنہ نہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر بیماری مہلک یا ناقابل برداشت ہے ،اور  کسی حلال چیز سے علاج ممکن نہیں اور مسلمان ،ماہر دین دار طبیب   کو یقین ہوجائے کہ شفا شراب میں ہی منحصر ہے اور مریض  کے لیے شراب بطور دوا تجویز کرلے تو  اس صورت میں شراب کو حرام سمجھتے  ہوئے  مجبورًا بطورِ دوا  بوقتِ ضرورت ، بقدر ضرورت علاج استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى.

"مطلب في التداوي بالمحرم":

Thursday 1 August 2024

مسجد میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانا

 مسجد کے ہال یا برآمدے  میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے سے مقصود  چونکہ اشیاءمسجد اور عوام کی  دیکھ بال ہوتا ہے اس لئے یہ مسجد کے مصالح اور ضروریات میں داخل ہو کر جائز ہے البتہ اسکرین مسجد کے حدود سے باہر لگانی چاہئے  کیونکہ علماء  کرام کی ایک بڑی تعداد   اسکرین کی تصویر کو  تصویر قرار دیتے ہیں ۔

( ويبدأ من غلته بعمارته ) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايته ۔

قال ابن عابدين :  قوله ( ثم ما هو أقرب لعمارته الخ ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره ۔۔۔وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم ثم السراج و البساط كذلك إلى آخر المصالح هذا إذا لم يكن معينا فإن كان الوقف معينا على شيء يصرف إليه بعد عمارة البناء اه ( الدر المختارمع رد المختار،كتاب الوقف ،مطلب يبدأ بعد العمارة بما هو أقرب إليهاج4/ص559)

الضرورات تبیح المحذورات۔(شرح المجلۃ،المادۃ21ص29)


سی سی ٹی وی کیمرے لگانا

 اسلام میں تصویر کشی حرام و ناجائز ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ لیکن جہاں چوری ڈکیتی، خیانت، جان و مال کے تلف و ضیاع ہونے کا خطرہ ہو تو وہاں حفاظتی نقطہ نظر سے (CCTV CAMERA) نصب کرنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ ان کیمروں سے کسی کی آبروریزی وغیرہ نہ کی جائے۔

           اسکول، كالج اور مدرسہ میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لئے ان کی دیکھ بھال اور نگرانی ایک اہم کام ہے؛ اس لئے اگر انہیں لڑائی جھگڑے سے بچانے، غلط کاموں اور برائیوں سے دور رکھنے اور بہتر و مناسب تربیت میں کیمرہ لگانا مفید و معاون ہو تو کیمرہ لگانا جائز ہے۔

 

الضرورات تبیح المحذورات۔(شرح المجلۃ،المادۃ:21، ص:29)

يتحمل الضرر الخاص لدفع ضرر عام۔۔۔الضرر الأشد يزال بالضرر الأخف۔۔۔يختار أهون الشرين۔ (شرح المجلة، المادة:27، ج:1، ص:41)

ويستثنى ‌من ‌النهي ‌عن ‌التجسس ‌ما ‌لو ‌تعين ‌طريقا ‌إلى ‌إنقاذ ‌نفس ‌من ‌الهلاك ‌مثلا ‌كأن ‌يخبر ‌ثقة ‌بأن ‌فلانا ‌خلا ‌بشخص ‌ليقتله ‌ظلما ‌أو ‌بامرأة ‌ليزني ‌بها ‌فيشرع ‌في ‌هذه ‌الصورة ‌التجسس ‌والبحث عن ذلك حذرا من فوات استدراكه نقله النووي عن الأحكام السلطانية للماوردي واستجاده وأن كلامه ليس للمحتسب أن يبحث عما لم يظهر من المحرمات ولو غلب على الظن استسرار أهلها بها إلا هذه الصورة۔(فتح الباري، قوله باب ما ينهى عن التحاسد والتداب، ج:10، ص:482)

ننگے پیر چلنا سنت ہے ؟نہ چلنے والا تارک سنت ہے ؟

 ننگے  پیر چلنا سنت نہیں ہے، کبھی اگرایسی نوبت آجائے تو سنت سمجھے بغیر ننگے  پیر چلنے میں مضائقہ نہیں ہے۔

2- ننگے پیر نہ  چلنے والا شخص تارکِ  سنت  نہیں کہلائے  گا،  بلکہ چپل /جوتے  کی  سہولت ہونے باوجود ننگے پیر چلنا  رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف  اور دین میں غلو کرناہےجس سے اجتناب ضروری ہے۔

صحيح مسلم میں ہے:

(2096) حدثني سلمة بن شبيب ، حدثنا الحسن بن أعين ، حدثنا معقل ، عن أبي الزبير ، عن جابر قال: « سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في غزوة غزوناها: ‌استكثروا ‌من ‌النعال، فإن الرجل لايزال راكبا ما انتعل."

(كتاب اللباس والزينة، باب: استحباب لبس النعال وما في معناها، ج:3، ص:1660، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

وفیه أيضا:

- (2097) حدثنا يحيى بن يحيى قال: قرأت على مالك ، عن أبي الزناد ، عن الأعرج ، عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « لا يمش أحدكم ‌في ‌نعل واحدة، لينعلهما جميعا أو ليخلعهما جميعا."

(كتاب اللباس والزينة،باب: استحباب لبس النعل في اليمنى أولا، والخلع من اليسرى أولا، وكراهة المشي في نعل واحدة، ج:3، ص:1660، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج میں ہے:

"قوله صلى الله عليه وسلم حين كانوا في غزاة (استكثروا من النعال فإن الرجل لايزال راكبا ما انتعل) معناه أنه شبيه بالراكب في خفة المشقة عليه وقلة تعبه وسلامة رجله ممايعرض في الطريق من خشونة وشوك وأذى ونحوذلك وفيه استحباب الاستظهار فى السفر بالنعال وغيرهما مما يحتاج إليه المسافر واستحباب وصية الأمير أصحابه بذلك."

(كتاب اللباس والزينة، باب: استحباب لبس النعال وما في معناها،ج:14، ص:73، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فسادسے بچنے کیلئے جھوٹی قسم کھانا

 جھوٹی قسم  کھاناسخت  ترین گناہِ کبیرہ ہے، حدیث شریف میں جھوٹی قسم کو شرک وغیرہ کے بعدبڑا اورسنگین گناہ کہاگیا ہے اور  قسم جب قرآن پر ہاتھ  رکھ  کرہوتو اس گناہ  کی سنگینی  اور بھی  بڑھ  جاتی ہے،فساد سے بچنے کے لیے کوئی اور طریقہ  اختیار کیا جاسکتا ہے، مجبوری ہو تو کوئی حیلہ بہانہ کرلیا جائے، لیکن جھوٹی قسم کھانا جائز نہیں ہے، نیز  گناہ کرکے  کامیابی  حاصل نہیں کی جاسکتی، بلکہ حقیقت میں  سچ اور راستی  ہی کے ذریعے  فلاح نصیب ہوتی ہے۔ بہر صورت اگر جھوٹی قسم کھالی ہے تو اس پر ندامت کے ساتھ  صدق دل سے توبہ واستغفار کیا جائے تاکہ اللہ پاک کی ناراضگی اور گرفت سے بچ جائے اور آئندہ کے لیے اس طرح نہ کرنے کا  پکا عزم کرلیا جائے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌محمد بن مقاتل، أخبرنا ‌النضر، أخبرنا ‌شعبة، حدثنا ‌فراس قال: سمعت ‌الشعبي، عن ‌عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس.»".

(‌‌‌‌كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 8/ 137، ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

ترجمہ :" کبیرہ گناہ یہ ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کےساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا۔"

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وهي) أي اليمين بالله... (غموس) تغمسه في الإثم ثم النار، وهي كبيرة مطلقا، لكن إثم الكبائر متفاوت نهر (إن حلف على كاذب عمدا) ولو غير فعل أو ترك كوالله إنه حجز الآن في ماض (كوالله ما فعلت) كذا (عالما بفعله أو) حال (كوالله ما له علي ألف عالما بخلافه والله إنه بكر عالما بأنه غيره) وتقييدهم بالفعل والماضي اتفاقي أو أكثري (ويأثم بها) فتلزمه التوبة".

وفي الرد:(قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا... و معلوم أن إثم الكبائر متفاوت. اهـ.وكذا قال المقدسي: أي مفسدة أعظم من هتك حرمة اسم الله تعالى... (قوله ويأثم بها) أي إثما عظيما كما في الحاوي القدسي...  (قوله فتلزمه التوبة) إذ لا كفارة في الغموس يرتفع بها الإثم فتعينت التوبة للتخلص منه".

(‌‌كتاب الأيمان، 3/ 705، ط: سعيد)