https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 28 August 2024

وکیل بالشراء بچی ہویی رقم اپنے پاس نہیں رکھ سکتا


وکیل بالشراء بچی ہویی رقم اپنے پاس نہیں رکھ سکتا 

 "شرح  المجلة لسلیم رستم باز"میں ہے:

"المادة (1463) - (‌المال ‌الذي ‌قبضه ‌الوكيل ‌بالبيع ‌والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة، 613/2، ط:مكتبة رشيدية)

ولی اور وکیل

 ’’ولی‘‘ اور  ’’وکیل‘‘ شرعی و فقہی اصطلاحات ہیں، جو  ایک ہی فرد میں بھی جمع ہوسکتی ہیں، یعنی ایک ہی شخص ولی اور وکیل دونوں ہوسکتاہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں الگ الگ ہوں۔ ’’ولی‘‘ ولایت سے ہے اور ولایت سرپرستی کو کہتے ہیں، نکاح میں دولہے یا دولہن کا ولی اس دولہے یا دولہن کا وہ سرپرست ہے جس کو شریعت نے سرپرست مقرر کیا ہے ،  یعنی  اگر بیٹا ہو (مثلاً: کسی بیوہ یا مطلقہ کا نکاح ہورہاہو) تو سب سے پہلے ولایت  بیٹے کو حاصل ہوگی،  اگر وہ نہ ہو تو پوتے کو۔  اور اگر وہ نہ ہو  یا کسی کنواری کا نکاح ہورہاہو تو باپ ولی ہوگا، وہ نہ ہو تو دادا۔  اور اگر وہ بھی نہ ہو تو سگا بھائی، اور اگر وہ بھی نہ ہو تو باپ شریک بھائی۔ اور اگر وہ  بھی نہ ہو تو سگے بھائی کا بیٹا (بھتیجا)، اور اگر وہ نہ ہو تو باپ شریک بھائی کا بیٹا، اور اگر وہ نہ ہو تو سگا  چچا، وہ بھی نہ ہو تو چچا کا بیٹا …الخ۔ یعنی ولایت کی وہی ترتیب ہے جو میراث میں عصبہ بنفسہ کی ہوتی ہے۔ عصبہ اس قریبی خونی رشتہ دار کو کہتے ہیں جس سے رشتے میں عورت کا واسطہ درمیان میں نہ آتاہو،  وہ درجہ بدرجہ ولی بنتاہے۔

’’وکیل‘‘  وکالت سے ہے اور وکالت کہتے ہیں کسی کا معاملہ اس کے نمائندے کی حیثیت سے انجام دینا یا پیش کرنا۔ نکاح میں دولہے یا دولہن کا وکیل وہ شخص ہوتا ہے جس کو دولہے یا دولہن نے اپنا نکاح کرانے کی اجازت دی ہو۔

عموماً دولہا مجلسِ عقد میں موجود ہوتاہے اور اپنا عقد خود انجام دیتاہے، اس لیے اس کے ولی اور وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ بعض صورتوں میں اس کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ جب کہ لڑکی کے لیے پردے وغیرہ کے شرعی احکام اور فطری حیا کی وجہ سے دلہن عقدِ نکاح کی مجلس میں حاضر بھی نہیں ہوتی اور اپنا عقد خود انجام بھی نہیں دیتی، لہٰذا اس کے لیے ولی اور وکیل کی ضرورت ہوتی ہے، اب نکاح میں ولی اور وکیل دونوں ایک ہی شخص ہوسکتے ہیں، یعنی لڑکی کا باپ جو شرعی طور پر از خود ولی/ سرپرست ہوتاہے وہی نکاح کے عقد کی انجام دہی کے لیے دلہن کی طرف سے وکیل بن جائے اس کی بھی اجازت ہے۔ 

اور یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکی کے والد (ولی) کی موجودگی میں کسی اور کو عقدِ نکاح کا معاملہ انجام دینے کا وکیل بنادیا جائے، مثلاً: والد کی موجودگی میں چچا یا بھائی کو نکاح کا وکیل بنا دیا جائے، اس کی بھی اجازت ہے۔ 

اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ دولہے یا دولہن کا ولی تو شرعی طور پر طے ہے، یعنی ولایت غیر اختیاری معاملہ ہے جب کہ وکیل بنانا دولہے یا دولہن کے اپنے اختیار میں ہے۔

"قال الحنفية: الولي في النكاح العصبة بنفسه وهو من يتصل بالميت حتى المعتق بلا توسط أنثى على ترتيب الإرث والحجب، فيقدم الابن على الأب عند أبي حنيفة وأبي يوسف خلافاً لمحمد حيث قدم الأب، وفي الهندية عن الطحاوي: إن الأفضل أن يأمر الأب الابن بالنكاح حتى يجوز بلا خلاف، وابن الابن كالابن، ثم يقدم الأب، ثم أبوه، ثم الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم ابن الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم العم الشقيق، ثم لأب، ثم ابنه كذلك، ثم عم الأب كذلك، ثم ابنه كذلك، ثم عم الجد كذلك، ثم ابنه كذلك". (الموسوعة الفقهية الكويتية، ۴۱ / ۲۷۵،طبع الوزارة

وکالت کے احکام

 اگر کسی کو وکیل مقرر کیا گیا ہو تو وہ وکیل ان امور میں کسی دوسرے شخص کو وکیل نہ بنائے مگر چند صورتوں میں جو درج ذیل ہیں:

1۔ اگر مؤکل خود اجازت دے دے تو وکیل آگے کسی اور کوبھی اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے ۔مثلاً: مؤکل وکیل کو اجازت دیتے وقت کہے:" تم چاہو تو کسی کو وکیل مقرر کر سکتے ہو۔" یا وکیل کو کہے ۔" جو چاہو کرو۔"2۔ جب کوئی کام وکیل کے شایان شان نہ ہو، مثلاً: وکیل کا شمار ان معززین میں ہوتا ہو جو اس جیسے معمولی کام کرنے سے بالا تر ہیں۔3۔ وکیل مؤکل کا مذکورہ کام کرنے سے عاجز ہو۔4۔ جب وکیل مؤکل کے کام کو بہتر انداز سے نہ کر سکتا ہو۔ان مذکورہ احوال میں وکیل کو چاہیے کہ کسی دوسرے امانت دار شخص کو وکیل مقرر کرے کیونکہ اسے غیر امین شخص کو وکیل مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔وکیل مقرر کرنا اور وکیل بننا دونوں جائز ہیں کیونکہ وکالت مؤکل کی طرف سے اجازت کانام ہے اور وکیل کی طرف سے نفع پہنچانے کانام ہے اور یہ دونوں لازم نہیں، لہٰذا وکیل اور مؤکل میں سے جو بھی چاہے وکالت فسخ کر سکتا ہے۔فسخ وکالتوکیل یا مؤکل کوئی بھی وکالت فسخ قراردے سکتا ہے یا دونوں میں سے ایک کی موت سے یا جنون سے وکالت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وکالت کا دارومدار زندگی اور عقل پر ہوتا ہے۔ جب دونوں نہ رہیں تو وکالت بھی قائم نہ رہی۔ اسی طرح مؤکل وکیل کو معزول کر دے تو وکالت ختم ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کو اس کی عقل کی کمزوری کی وجہ سے مالی تصرفات سے روک دیا گیا ہو۔ وہ وکیل ہو یا مؤکل تو وکالت ختم ہو جائے گی کیونکہ اس میں تصرف کی اہلیت باقی نہیں رہی۔وکیل بننا یا وکیل بناناجو شخص ایک کام کرنے کا قانونی اختیار رکھتا ہو وہی وکیل بنا سکتا ہے یا بن سکتا ہے۔ جس شخص کے لیے خود تصرف جائز نہیں، اس کے نائب کے لیے بالاولیٰ جائز نہیں۔وکیل درج ذیل افراد سے خریدو فروخت نہیں کر سکتا۔1۔ وہ اپنے آپ سے کوئی شے خرید سکتا ہے نہ فروخت کر سکتا ہے کیونکہ عرف میں بیع اسے کہتے ہیں جب کسی غیر کو شے فروخت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس طرح اس پر الزام بھی لگنے کا اندیشہ ہے

عام وکالت نامہ کی بنیاد پر عقد نکاح

 ایک عورت کی منگنی ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوئی جو بیرون ملک کا م کرتا ہے، جب اس نے اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہا تو اس نے اس عورت کے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام طلب کیا اور اس کے نام سے سرکاری وکالت نامہ ارسال کر دیا تا کہ وہ اس کی طرف سے اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کا وکیل بنے، بہرحال عقد مکمل ہوا ، عقد نکاح کے لئے عورت کی طرف سے اس کا ماموں وکیل بنا تھا، لیکن جب مسئلہ قاضی کے پاس پہونچا اور رجسٹری کی ضرورت پڑی تو عدالت نے رجسٹری کرنے سے انکار کر دیا، اور یہ عذر پیش کیا کہ یہ عقد عام سرکاری وکالت نامے کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو عقد نکاح کی تکمیل کے لئے نا کافی ہے، اور قاضی نے يہ مشورہ دیا ہے کہ يا تو نکاح کرنے والا خاص شادی کے عقد سے متعلق وکالت نامہ بھیجے یا خود آكر عقد کرے، لیکن اس شخص نے کہا کہ ابھی وقت نہیں ہے لیکن آئندہ خود آکر نکاح کر لے گا بہرحال خاص وکالت نامہ بھیجنے سے انکار کر دیا، اور ہوا یہ کہ جب وہ چھٹیوں میں گھر آیا تو نہ ہی قاضی کے پاس گیا اور نہ خود نکاح کے لئے آگے بڑھا بلکہ اس مسئلے کو ٹالتا رہا، اور شادی کے سازو سامان میں بھی ٹال مٹول سے کام لیا ، بلکہ الٹے اس نے اپنے ازدواجی حقوق کا مطالبہ شروع کیا، اور جب عورت نے بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینے کو کہا تو اس نے اسے جواب دیا کہ وہ اسے لٹکا کر رکھے گا، اسی دوران وہ سفر کر گیا. دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ عورت اس کی بیوی ہے یا سرے سے یہ عقد ہی صحیح نہیں ہے؟ جب کہ اس عورت کے پاس شادی کے کوئی کاغذات نہیں ہیں یا کوئی ایسی دستاویز نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ اس کی بیوی ہے

دارالافتاء المصریۃ کاجواب 


یہ عقد نکاح سرے سے باطل ہے اور اس وکالت میں نکاح کی توکیل شامل نہیں ہے، بلکہ اس میں جو وکالت ہے وہ ایک عام نوعیت کی وکالت ہے جو صرف مالی یا اس کے مماثل تصرفات کی حد تک محدود ہے، اور شریعت میں یہ طے شده ہے کہ وکالت کے چار ارکان ہیں: موکل - یعنی وکیل بنانے والا- وکیل، موکل فیہ - یعنی جس چیز سے متعلق وکالت دی جا رہی ہے، اور صیغہء توکیل. شادی کے وکالت نامے میں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ موکل فیہ عقد نکاح ہے، اور شریعت پاک نے شرمگاہوں اور عزت و آبرو کے مسائل میں ایسی احتیاط برتى ہے جو دوسری چیزوں میں نہیں برتى. الغرض یہ عقد صحیح نہیں ہے اور اس پرعقد نکاح کے احکام مرتب نہیں ہونگے، لہذا وہ عورت اس کی بیوی نہیں ہے اور اس کا دعویٰ غلط ہے بلكہ اس کو اس عورت پر کوئی حق نہیں ہے

وکیل بالبیع مؤکل کی طرف سے متعین قیمت سے زائد پر فروخت نہیں کر سکتا

 

وکیل بالبیع مؤکل کی طرف سے متعین قیمت سے زائد پر کوئی مال فروخت نہیں کر سکتا 


فتاویٰ تاتارخانیہ" میں ہے:

"قال محمد الوكيل بالبيع بالف إذا باع بألفين جاز عندنا خلافا لزفر."

(کتاب الوکالۃ، نوع أخر في البيع إذا خالف في الثمن وفي تغير المبيع بعد التوكيل قبل البيع ، 12 / 373،  ط:مکتبہ زکریابدیوبند الھند)

"الدر المختار "میں ہے:

"[فرع] الوكيل إذا خالف، إن خلافا إلى خير في الجنس كبع بألف درهم فباعه بألف ومائة نفذ، ولو بمائة دينار لا، ولو خيرا خلاصة ودرر."

(کتاب الوکالۃ، باب الوکالۃ بالبیع والشراء، 5/ 521، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وشرط) الموكل (عدم تعلق الحقوق به) أي بالوكيل (لغو) باطل جوهرة (والملك يثبت للموكل ابتداء) في الأصح."

(کتاب الوکالۃ، 5/ 514، ط:سعید)

وفیہ أیضاً:

"(المرابحة) مصدر رابح وشرعا (بيع ما ملكه) من العروض ولو بهبة أو إرث أو وصية أو غصب فإنه إذا ثمنه (بما قام عليه وبفضل) مؤنة وإن لم تكن من جنسه كأجر قصار ونحوه، ثم باعه مرابحة على تلك القيمة جاز مبسوط."

(کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، 5/ 132، ط:سعید)

شوھر کے کومہ میں ہونے کی بنا پر فسخ نکاح

 عدالت سے رجوع کرکے بیوی شوہر  کی  کوما  میں ہونے کی کیفیت ثابت کرے، اور پھر اپنے اعذار پیش کرے، مثلاً: شوہر کے کومے  میں ہونے کی بنا پر اسے نان نفقہ نہیں مل رہا،  یا اپنے اوپر فتنے کا اندیشہ ہے وغیرہ ، اس کے بعد عدالت دونوں کے درمیان نکاح کو فسخ کردے تو نکاح ختم ہوجائے گا۔

أراء الفقهاء في التفريق لعدم الإنفاق:
للفقهاء رأيان: رأي الحنفية، ورأي الجمهور (١):
أولا ـ رأي الحنفية: لا يجوز في مذهب الحنفية والإمامية التفريق لعدم الإنفاق؛ لأن الزوج إما معسر أو موسر. فإن كان معسرا فلا ظلم منه بعدم الإنفاق، والله تعالى يقول: {لينفق ذو سعة من سعته، ومن قدر عليه رزقه، فلينفق مما آتاه الله، لا يكلف الله نفسا إلا ما آتاها، سيجعل الله بعد عسر يسرا} [الطلاق:٧/ ٦٥] وإذا لم يكن ظالما فلا نظلمه بإيقاع الطلاق عليه. 

وإن كان موسرا فهو ظالم بعدم الإنفاق، ولكن دفع ظلمه لا يتعين بالتفريق، بل بوسائل أخرى كبيع ماله جبرا عنه للإنفاق على زوجته، وحبسه لإرغامه على الإنفاق. ويجاب بأنه قد يتعين التفريق لعدم الإنفاق لدفع الضرر عن الزوجة.
ويؤكده أنه لم يؤثر عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه مكن امرأة قط من الفسخ بسبب إعسار زوجها، ولا أعلمها بأن الفسخ حق لها. ويجاب بأن التفريق بسبب الإعسار مرهون بطلب المرأة، ولم تطلب الصحابيات التفريق.
ثانيا ـ رأي الجمهور: أجاز الأئمة الثلاثة التفريق لعدم الإنفاق لما يأتي:
١ - قوله تعالى: {ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا} [البقرة:٢٣١/ ٢] وإمساك المرأة بدون إنفاق عليها إضرار بها. وقوله تعالى: {فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة:٢٢٩/ ٢] وليس من الإمساك بالمعروف أن يمتنع عن الإنفاق عليها.
٢ - قال أبو الزناد: سألت سعيد بن المسيب عن الرجل لا يجد ماينفق على امرأته، أيفرق بينهما؟ قال: نعم، قلت له: سنة؟ قال: سنة. وقول سعيد: سنة، يعني سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
٣ - كتب عمر رضي الله عنه إلى أمراء الأجناد، في رجال غابوا عن نسائهم، يأمرهم أن يأخذوهم أن ينفقوا أو يطلقوا، فإن طلقوا بعثوا بنفقة ما مضى.
٤ - إن عدم الإنفاق أشد ضررا على المرأة من سبب العجز عن الاتصال الجنسي، فيكون لها الحق في طلب التفريق بسبب الإعسار أو العجز عن الإنفاق من باب أولى. والراجح لدي رأي الجمهور لقوة أدلتهم، ودفعا للضرر عن المرأة، ولا ضرر ولا ضرار في الإسلام.(الفقه الإسلامي وأدلته: ٩/ ٧٠٤٣-٧٠٤٥

Tuesday 27 August 2024

شوھر جیل میں تو بیوی نکاح فسخ کراسکتی ہے

 عورت کے شوہر کو بیس سال قید کی سزا ہوئی ہے، اور  اس کی جلد رہائی کی کوئی امید نہیں ہے تو  ایسی صورت میں اگر عورت کے لیے  نان ونفقہ اور گزارہ کا کچھ انتظام ہو،  اور وہ اتنی مدت تک صبروتحمل اور عفت کے ساتھ زندگی گزارسکے تو    وہ عورت صبر کرے، اور اگراس کے نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو یا شوہر کے بغیر رہنے میں عفت وعصمت پر داغ لگنے اور گناہ اور فتنہ میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں شوہر سے طلاق لے لے یا باہمی رضامندی سے خلع حاصل کرلے، البتہ اگر اس  کی صورت نہ  ہو تو  مجبوری میں مسلمان جج کی عدالت میں  فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے،   اور قاضی مکمل تحقیق کے بعد  دونوں کے نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔

کفایت المفتی میں ہے: 

"(سوال)  ایک شخص کو کالے پانی کی سزا  بتعین ۲۰ سال کی ہوئی ہے اور اس  کی بیوی جوان ہے وہ اس  عرصہ تک نہیں رہ سکتی اور اپنی شادی کرنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں عقد ثانی کا کیا حکم ہے؟

(جواب ۹۹)  اگر ممکن  ہو تو اس قیدی شوہر سے طلاق حاصل کرلی جائے لیکن اگر حصول طلاق کی کوئی صورت ممکن  نہ ہو تو پھر یہ حکم ہے کہ اگر عورت اتنی طویل مدت تک صبر نہ کرسکتی ہو یا اس کے نفقہ کی کوئی صورت خاوند کی جائداد وغیرہ سے نہ ہوتو کسی مسلمان حاکم سے نکاح فسخ کرالیا جائے - اور بعد فسخ  نکاح و انقضائے عدت دوسرا نکاح کردیا جائے ۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ"

(کفایت المفتی ، کتاب الطلاق، 6/ 111، ط: دارالاشاعت)

خلع،فسخ اور طلاق

 خاوند اور بيوى ميں عليحدگى تو طريقوں سے ہوتى ہے يا تو طلاق يا پھر فسخ نكاح كے ذريعہ.

اور ان دونوں ميں فرق يہ ہے كہ خاوند كى جانب سے ازدواجى تعلق كو ختم كرنا طلاق كہلاتا ہے، اور اس كے كچھ مخصوص اور معروف الفاظ ہيں.

اور رہا فسخ نكاح تو يہ عقد نكاح كو توڑنا اور ازدواجى ارتباط كو بالكل اصلا ختم كرنے كا نام ہے گويا كہ يہ ارتباط تھا ہى نہيں، اور يہ قاضى يا شرعى حكم كے ذريعہ ہوگا.

اور ان دونوں ميں درج ذيل فرق پايا جاتا ہے:

1 ـ طلاق صرف خاوند كے الفاظ اور اس كے اختيار و رضا سے ہوتى ہے، ليكن فسخ نكاح خاوند كے الفاظ كے بغير بھى ہو جاتا ہے، اور اس ميں خاوند كى رضا اور اختيار كى شرط نہيں.

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہر وہ جس سے تفريق اور عليحدگى كا فيصلہ كيا جائے اور خاوند اس كے الفاظ نہ بولے، اور اسے نہ چاہے... تو يہ عليحدگى طلاق نہيں كہلائيگى " انتہى

ديكھيں: الام ( 5 / 128 ).

2 ـ طلاق كے كئى ايك اسباب ہيں، اور بعض اوقات بغير كسى سبب كے بھى ہو سكتى ہے، بلكہ طلاق تو صرف خاوند كا اپنى بيوى كو چھوڑنے كى رغبت سے ہوگى.

ليكن فسخ نكاح كے ليے سبب كا ہونا ضرورى ہے جو فسخ كو واجب يا مباح كرے.

فسخ نكاح ثابت ہونے والے اسباب كى مثاليں:

ـ خاوند اور بيوى كے مابين كفؤ و مناسبت نہ ہونا ـ جنہوں نے لزوم عقد ميں اس كى شرط لگائى ہے ـ.

ـ جب خاوند يا بيوى ميں سے كوئى ايك اسلام سے مرتد ہو جائے، اور دين اسلام ميں واپس نہ آئے.

ـ جب خاوند اسلام قبول كر لے اور بيوى اسلام قبول كرنے سے انكار كر دے، اور وہ مشركہ ہو اور اہل كتاب سے تعلق نہ ركھتى ہو.

ـ خاوند اور بيوى ميں لعان ہو جائے.

ـ خاوند كا نفقہ و اخراجات سے تنگ اور عاجز ہو جانا، جب بيوى فسخ نكاح طلب كرے.

ـ خاوند يا بيوى ميں سے كسى ايك ميں ايسا عيب پايا جائے جو استمتاع ميں مانع ہو، يا پھر دونوں ميں نفرت پيدا كرنے كا باعث بنے.

3 ـ فسخ نكاح كے بعد خاوند كو رجوع كا حق حاصل نہيں اس ليے وہ اسے نئے عقد نكاح اور عورت كى رضامندى سے ہى واپس لا سكتا ہے.

ليكن طلاق رجعى كى عدت ميں وہ اسكى بيوى ہے، اور اسے پہلى اور دوسرى طلاق كے بعد اسے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے بيوى راضى ہو يا راضى نہ ہو.

ـ فسخ نكاح ميں مرد جن طلاقوں كى تعداد كا مالك ہے اسے شمار نہيں كيا جاتا.


امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور خاوند اور بيوى كے مابين جو فسخ نكاح ہو تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، نہ تو ايك اور نہ ہى اس كے بعد " انتہى

ديكھيں: كتاب الام ( 5 / 199 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فسخ نكاح اور طلاق ميں فرق يہ ہے كہ اگرچہ ہر ايك سے خاوند اور بيوى ميں عليحدگى اور تفريق ہو جاتى ہے: فسخ يہ ہے كہ جب اس كے بعد خاوند اور بيوى دوبارہ نكاح كريں تو وہ پہلى عصمت پر ہيں، اور عورت اپنے خاوند كے پاس تين طلاق پر ہو گى ( يعنى خاوند كو تين طلاق كا حق ہوگا ) اور اگر اس نے فسخ نكاح سے قبل طلاق دى اور رجوع كر ليا تو اس كے پاس دو طلاقيں ہونگى " انتہى

ديكھيں: الاستذكار ( 6 / 181 ).

5 ـ طلق خاوند كا حق ہے، اور اس ميں قاضى كے فيصلہ كى شرط نہيں، اور بعض اوقات خاوند اور بيوى دونوں كى رضامندى سے ہوتى ہے.

ليكن فسخ نكاح شرعى حكم يا پھر قاضى كے فيصلہ سے ہو گا، اور فسخ نكاح صرف خاوند اور بيوى كى رضامندى سے نہيں ہو سكتا، الا يہ كہ خلع كى صورت ميں.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دونوں ( يعنى خاوند اور بيوى ) كو بغير عوض ( يعنى خلع ) كے فسخ نكاح پر راضى ہونے كا حق حاصل نہيں، اس پر اتفاق ہے " انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 598 ).

6 ـ دخول سے قبل فسخ نكاح عورت كے ليے كوئى مہر واجب نہيں كرتا، ليكن دخول سے قبل طلاق ميں مقرر كردہ مہر كا نصف مہر واجب ہوتا ہے.

ليكن خلع يہ ہے كہ عورت اپنے خاوند سے مطالبہ كرے كہ وہ مالى عوض يا پھر مہر سے دستبردار ہونے كے مقابلہ ميں اس سے عليحدگى اختيار كر لے.

علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا يہ فسخ نكاح ہے يا كہ طلاق ؟ اقرب يہى ہے كہ يہ فسخ ہے

طلاق اور فسخ نكاح ميں فرق كے ليے درج ذيل كتب سے استقادہ كيا گيا:

المنثور فى القواعد ( 3 / 24 ) الفقہ الاسلامى و ادلتہ ( 4 / 595 ) الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 32 / 107 - 113 ) فقہ السنۃ ( 2 / 

خلع طلاق ہے کہ نہیں 

راجح قول يہى ہے كہ خلع طلاق شمار نہيں ہوتى چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہو، اس كى تفصيل ذيل ميں پيش كى جاتى ہے:

1 ـ جب خلع طلاق كے الفاظ ميں نہ ہو اور نہ ہى اس سے طلاق كى نيت كى گئى ہو تو اہلم علم كى ايك جماعت كے ہاں يہ فسخ نكاح ہے، اور قديم مذہب ميں امام شافعى كا يہى قول ہے اور حنابلہ كا بھى مسلك يہى ہے، اس كے فسخ ہونے كى بنا پر اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا، اس ليے جس نے بھى اپنى بيوى سے دو بار خلع كر ليا تو اسے نيا نكاح كر كے رجوع كا حق حاصل ہے اور وہ طلاق شمار نہيں ہو گى.

اس كى مثال يہ ہے كہ: خاوند بيوى كو كہے ميں نے اتنى رقم كے عوض تجھ سے خلع كيا، يا اتنے مال پر ميں نے نكاح فسخ كيا.

2 ـ ليكن اگر خلع طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو مثلا ميں نے اپنى بيوى كو اتنے مال كے عوض ميں طلاق دى تو جمہور اہل علم كے قول ميں يہ طلاق شمار ہوگى "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 237 ).

اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ بھى فسخ نكاح ہى ہوگا، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا، يہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسے ہى اختيار كيا اور كہا ہے:

يہ قدماء صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم اور امام احمد رحمہ اللہ سے بيان كردہ ہے "

ديكھيں: الانصاف ( 8 / 393 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن راجح قول يہ ہے كہ: يہ ( يعنى خلع ) طلاق نہيں چاہے يہ خلع صريح طلاق كے الفاظ سے واقع ہو، اس كى دليل قرآن مجيد كى آيت ہے فرمان بارى تعالى ہے:

يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں پھر يا تو اچھائى سے روكنا يا پھر عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے البقرۃ ( 229 ).

يعنى دونوں بار يا تو اسے ركھيں يا پھر چھوڑ ديں يہ معاملہ آپ كے ہاتھ ميں ہے.

اس كے بعد فرمايا:

اور تمہيں حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو، اس ليے اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گےتو عورت رہائى پائے كے ليے كچھ دے ڈالے، اس ميں ان دونوں پر گناہ نہيں يہ اللہ كى حدود ہيں خبردار ان سے آگے مت نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ كى حدود سے تجاوز كر جائيں وہ ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).

تو يہ تفريق فديہ شمار ہو گى پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:

پھر اگر اس كو ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے سوا دوسرے سے نكاح نہ كرے البقرۃ ( 230 ).

اس ليے اگر ہم خلع كو طلاق شمار كريں تو فرمان بارى تعالى: " اگر وہ اسے طلاق دے دے " يہ چوتھى طلاق ہوگى، اور يہ اجماع كے خلاف ہے، اس ليے فرمان بارى تعالى: اگر اس نے اسے طلاق دے دى يعنى تيسرى طلاق تو " اس كے ليے حلال نہيں جب تك وہ عورت كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے "

اس آيت سے دلالت واضح ہے، اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا كہنا ہے: ہر وہ تفريق جس ميں عوض و معاوضہ ہو وہ خلع ہے طلاق نہيں، چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، اور راجح قول بھى يہى ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 467 - 470 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" چنانچہ ہر وہ لفظ جو معاوضہ كے ساتھ تفريق پر دلالت كرتا ہو وہ خلع ہے چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، مثلا خاوند كہے ميں نے اپنى بيوى كو ايك ہزار ريال كے عوض طلاق دى، تو ہم كہيں گے يہ خلع ہے، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى مروى ہے:

ہر وہ جس ميں معاوضہ ہو وہ طلاق نہيں "

امام احمد كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں:

ميرے والد صاحب خلع ميں وہى رائے ركھتے جو عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كى رائے تھى، يعنى يہ فسخ نكاح ہے چاہے كسى بھى لفظ ميں ہو، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا.

اس پر ايك اہم مسئلہ مرتب ہوتا ہے:

اگر كوئى انسان اپنى بيوى كو دو بار علحيدہ عليحدہ طلاق دے اور پھر طلاق كے الفاظ كے ساتھ خلع واقع ہو جائے تو طلاق كے الفاظ سے خلع كو طلاق شمار كرنے والوں كے ہاں يہ عورت تين طلاق والى يعنى بائنہ ہو جائيگى، اور اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى دوسرے سے نكاح نہيں كر ليتى.

ليكن جو علماء خلع كو طلاق شمار نہيں كرتے چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہوا ہو تو يہ عورت اس كے ليے نئے نكاح كے ساتھ حلال ہوگى حتى كہ عدت ميں بھى نكاح كر سكتى ہے، اور راجح بھى يہى ہے.

ليكن اس كے ساتھ ساتھ ہم خلع كرنے والوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ يہ نہ كہيں كہ ميں نے اپنى بيوى كو اتنى رقم كے عوض طلاق دى، بلكہ وہ كہيں ميں نے اپنى بيوى سے اتنى رقم كے عوض خلع كيا؛ كيونكہ ہمارے ہاں اكثر قاضى اور ميرے خيال ميں ہمارے علاوہ بھى يہى رائے ركھتے ہيں كہ يہ خلع اگر طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو تو يہ طلاق ہوگى.

تو اس طرح عورت كو نقصان اور ضرر ہوگا، اگر اسے آخرى طلاق تھى وہ بائن ہو جائيگى، اور اگر آخرى نہ تھى تو اسے طلاق شمار كر ليا جائيگا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 450 ).

اس بنا پر اگر آپ اپنى بيوى سے رجوع كرنا چاہتے ہيں تو پھر نيا نكاح ضرورى ہے، اور آپ دونوں پر طلاق شمار نہيں كى جائيگى.

وکیل بالاجرت

 وکالت جس طرح بغیر اجرت کے جائز   ہے ، اسی طرح وکالت کے بدلہ اجرت  لینا  بھی جائز ہے، لہذا   اگر  سائل اپنے انویسٹر سے پہلے سے اپنی  اجرت طے کر لے  کہ میں آپ کے لیے گاڑی خریدکر آگے فروخت کروں گا اور  اس کے عوض اتنی اجرت لوں گا اور پھر وہ جو رقم انویسٹر سے  لیتا ہے اور  بطور وکیل اس  رقم سے  گاڑی خرید کر آگے لوگوں کو ادھاری پر بیچتا ہے ، اور اپنی  طے شدہ اجرت   لیتا ہے تو یہ جائز ہے اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔ 

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

خیار بلوغ سے ہونے والی فرقت فسخ ہے یا طلاق

 امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک میاں بیوی کی ایسی فرقت، جو دونوں کی طرف سے ہونا ممکن ہو، ایسی فرقت طلاق  نہیں ہوتی، بلکہ فسخِ نکاح ہوتی ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک میاں بیوی کی فرقت میں چوں کہ اصل طلاق ہے؛ لہذا جس فرقت کو طلاق پر محمول کیا جاسکتا ہو، اسے فسخِ نکاح نہیں کہا جائے گا۔

خیارِ بلوغ شرعی طور پر نابالغ لڑکے اور نابالغ لڑکی، دونوں کے لیے ثابت ہوتا ہے۔ اگر خیارِ بلوغ کے ذریعہ لڑکی کی طرف سے فرقت واقع ہوئی ہو تو وہ بالاتفاق فسخِ نکاح  کے حکم میں ہے؛ اس لیے کہ لڑکی طلاق کی مالک نہیں ہوتی۔ البتہ اگر خیارِ بلوغ لڑکے کی طرف سے ہو تو یہ اختلافی صورت ہے، طرفین رحمہما اللہ  کے نزدیک  یہ فرقت طلاق  کے حکم میں ہے، جب کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک یہ فرقت فسخِ نکاح کے حکم میں ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ  نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ جو فرقت لڑکی کی جانب سے ممکن ہو، وہ فرقت  فسخِ نکاح کے حکم میں ہے، نہ کہ طلاق کے حکم میں۔

فسخِ نکاح کا اثر یہ ہے کہ اگر مذکورہ لڑکا دوبارہ مذکورہ لڑکی سے شادی کرلے تو اسے تین طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ نیز اگر لڑکے کی طرف سے دخول سے پہلے خیارِ بلوغ کی وجہ سے فرقت حاصل کی گئی ہو تو لڑکے پر مہر واجب نہیں ہوگا، جب کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں نصف مہر واجب ہوتا ہے۔

 لہذا  صورتِ  مسئولہ میں خیارِ بلوغ سے واقع ہونے والی فرقت  ہر حال میں فسخ ہے، نہ کہ طلاق۔


تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 174):

(وإباؤه طلاق لا إباؤها)، وقال أبو يوسف إباؤه أيضا لايكون طلاقا؛ لأنه يتصور وجوده من المرأة وبمثله لا يقع الطلاق كالفرقة بسبب الملك والمحرمية وخيار البلوغ، وهذا لأن الطلاق ليس إليها فكل سبب تشاركه المرأة فيه على معنى أنه يتحقق وجوده منها لا يكون طلاقا إذا وجد منه كما لا يكون طلاقا فيما إذا وجد منها ولهما أنه فات الإمساك بالمعروف من جانبه فتعين التسريح بالإحسان فإن طلق وإلا ناب القاضي منابه ولهذا المعنى صارت الفرقة بسبب  الجب والعنة طلاقا بخلاف إبائها؛ لأن الطلاق لا يكون منها حتى ينوب القاضي منابها وبخلاف ما استشهد به من الأحكام فإن الفرقة فيه لا لهذا المعنى وبخلاف ردته أيضا عند أبي حنيفة؛ لأن الفرقة فيها للتنافي، وهذا لأن الردة تنافي النكاح ابتداء فكذا تنافيه بقاء ولهذا لا يحتاج فيه إلى حكم الحاكم وفي الإباء يحتاج إليه، ولو كان الزوج صغيرا أو مجنونا يكون طلاقا عندهما لما ذكرنا من المعنى وهي من أغرب المسائل حيث يقع الطلاق منهما ونظيره إذا كانا مجنونين أو كان المجنون عنينا فإن القاضي يفرق بينهما ويكون طلاقا اتفاقا، ثم إذا وقعت الفرقة بالإباء فإن كان بعد الدخول بها فلها المهر كله؛ لأنه تأكد به وإن كان قبل الدخول فإن كان بإبائه فلها نصف المهر؛ لأنه قبل الدخول وإن كان بإبائها فلا مهر لها؛ لأنها فوتت المبدل قبل تأكد البدل فأشبه الردة والمطاوعة.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 71):


فالصواب أن يقال وإن كانت الفرقة من قبله ولا يمكن أن تكون من قبلها فطلاق كما أفاده شيخنا طيب الله تعالى ثراه، وإليه أشار في البحر حيث قال: وإنما عبر بالفسخ ليفيد أن هذه الفرقة فسخ لا طلاق، فلا تنقص عدده لأنه يصح من الأنثى ولا طلاق إليها اهـ ومثله في الفتاوى الهندية وعبارته: ثم الفرقة بخيار البلوغ ليست بطلاق لأنها فرقة يشترك في سببها المرأة والرجل، وحينئذ يقال في الأول ثم إن كانت الفرقة من قبلها لا بسبب منه أو من قبله ويمكن أن تكون منها ففسخ فاشدد يديك عليه فإنه أجدى من تفاريق العصا. اهـ. ح.

قلت: لكن يرد عليه إباء الزوج عن الإسلام فإنه طلاق مع أنه يمكن أن يكون منها، وكذا اللعان فإنه من كل منهما وهو طلاق وقد يجاب عن الأول بأنه على قول أبي يوسف إن الإباء فسخ ولو كان من الزوج، وعن الثاني بأن اللعان لما كان ابتداؤه منه صار كأنه من قبله وحده فيتأمل.

الهداية في شرح بداية المبتدي (1 / 194):

" ثم الفرقة بخيار البلوغ ليست بطلاق " لأنها تصح من الأنثى ولا طلاق إليها وكذا بخيار العتق لما بينا بخلاف المخيرة لأن الزوج هو الذي ملكها وهو مالك للطلاق.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 124):

(قوله: فلا مهر لها قبل الدخول) ، وهذا فائدة كون الفرقة فسخا اهـ. كاكي (قوله: فلها المهر كاملا) أي لأن العقد المفسوخ لا يوجب شيئا قبل الاستيفاء وبعد الاستيفاء يجب المسمى؛ لأنه استوفى بعقد صحيح، وأثر الفسخ لايظهر في المستوفى ويستوي في ذلك اختياره واختيارها اهـ. كاكي.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 125):

(قوله: ثم الفرقة بخيار البلوغ لا تكون طلاقا) أي بل فسخ لاينقص عدد الطلاق فلو جدد بعده ملك الثلاث.

Monday 26 August 2024

تین سے زائد بارطلاق دینا

 جب آپ نے اپنی بیوی کوتین سے زائد بار طلاق ان الفاظ میں دی  کہ "  طلاق ،طلاق"تو اس سے تینوں  طلاقیں آپ کی بیوی پر  واقع ہوگئیں ، نکاح ختم ہوگیااور آپ کی بیوی آپ پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی،اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

الطلاق مرتان، فإمساك بمعروفٍ أو تسريح بإحسان...... فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتىتنكح زوجاً غيره.( البقرة. ٢٢٩،٢٣٠)

ترجمہ:  طلاق (زیادہ سے زیادہ) دو بار ہونی چاہیئے، اس کے بعد  یاقاعدے کے مطابق (بیوی کو) روک رکھےیا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے۔۔۔۔ پھر اگر شوہر(تیسری ) طلاق دیدے تو وہ(مطلقہ عورت) اس کے لئےاسوقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية. (١/٤٧٣، رشيديه).

Sunday 25 August 2024

مسجد کی پہلی دوسری منزل خالی ہونے کے باوجود تیسری منزل پر امام کی اقتداء کرنے کا حکم

  امام کی اقتدا  درست ہونے کے  لیے امام و مقتدی کا  متحد المکان ہونا ضروری ہوتا ہے، مسجد ،صحن مسجد ، مضافات مسجد،  اسی طرح سے مسجد کی تمام منزلیں متحد المکان شمار ہوتی ہیں، یعنی اگر کسی شخص نے مسجد کے صحن یا مسجد کی کسی منزل میں کھڑے ہوکر امام کی اقتدا کی تو اس کی اقتدا  درست ہوجائے گی، خواہ صفوں کا اتصال بالفعل ہو یا نہ ہو، اگر چہ صفوں کے درمیان خلا  رکھنا مکروہ ہوگا، تاہم جماعت سے  نماز  ادا ہوجائے گی لھذا صورت   مسئولہ میں اگر وہ عمارت مسجد ہے یابطور مسجد استعمال ہوتی ہے تو اقتداء درست ہے ۔البتہ بلاوجہ شرعی صفوں کے مابین خلاء چھوڑنا مکروہ ہے ۔


551/1، ط: دار الفکر)
صلاة المؤتم بالإمام بشروط عشرة: نية المؤتم الاقتداء واتحاد مكانهما....وعلمه بانتقالاته.
(قوله: وعلمه بانتقالاته) : أي بسماع أو رؤية للإمام أو لبعض المقتدين رحمتي وان لم يتحد المكان.

و فيه أيضا: (باب الإمامة، 586/1، ط: دار الفکر)
(والحائل لا يمنع) الاقتداء (وان لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد وبيت في الأصح. قنية.
(قوله: بسماع) اي من الإمام أو المكبر تتاخانية.
(قوله كمسجد وبيت): فان المسجد مكان واحد، ولذا لم يعتبر فيه الفصل بالخلاء الا اذا كان المسجد كبيرا جدا وكذا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لا حكم الصحراء كما قدمناه عن القهستاني.

امداد الاحکام: (541/1، ط: دار العلوم کراتشي)