وکالت جس طرح بغیر اجرت کے جائز ہے ، اسی طرح وکالت کے بدلہ اجرت لینا بھی جائز ہے، لہذا اگر سائل اپنے انویسٹر سے پہلے سے اپنی اجرت طے کر لے کہ میں آپ کے لیے گاڑی خریدکر آگے فروخت کروں گا اور اس کے عوض اتنی اجرت لوں گا اور پھر وہ جو رقم انویسٹر سے لیتا ہے اور بطور وکیل اس رقم سے گاڑی خرید کر آگے لوگوں کو ادھاری پر بیچتا ہے ، اور اپنی طے شدہ اجرت لیتا ہے تو یہ جائز ہے اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".
(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)
. کیا ہمیشہ ہر رسول نے احمد کی خوشخبری دی ہے؟
ReplyDelete7. ذات و صفاتِ رسول ﷺ پر تنقید کا جائزہ کیا ہے؟
8. کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام تبلیغی جماعت میں شامل ہوں گے؟
9. کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد نبی ہوں گے یا امتی؟
10. نزولِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کی نبوت کی حیثیت کیا ہوگی؟