https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 30 May 2021

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

 کیلیفورنیا کے صحافی پیٹر فرائیڈ رچ کی بطور احتجاج بھوک ہڑتال ۔ عطیہ سے دستبرداری کا مطالبہ

 کیلیفورنیا سے کام کرنے والے صحافی پیٹر فرائیڈ رچ نے ' جو امریکہ میں آر ایس ایس کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں ' ٹوئیٹر کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر جیک ڈورسی کی جانب سے سنگھ سے تعلق رکھنے والی تنظیم سیوا انٹرنیشنل کو امریکہ میں 2.5 ملین ڈالرس کے عطیہ پر بھوک ہڑتال شروع کردی ہے ۔ ان کی ہڑتال تیسرے دن میں داخل ہوگئی ہے ۔ ٹوئیٹر پر رابطہ کرنے پر فرائیڈ رچ نے ' سیاست ڈاٹ کام ' کو بتایا کہ وہ سیوا انٹرنیشنل امریکہ کو دئے گئے اس عطیے کے خلاف بھوک ہڑتال کر رہے ہیں کیونکہ یہ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی تنظیم ہے ۔ اس تنظیم کا مخالف اقلیتی تشدد کا ریکارڈ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے بانیوں نے خود ہندوستانی اقلیتوں کو دبانے کا اعلان کیا تھا ۔ کیلیفورنیا سے سرگرم صحافی نے کہا کہ عالمی سیوا انٹرنیشنل تنظیم راست طور پر آر ایس ایس سے تعلق رکھتی ہے اور آر ایس ایس اس بین الاقوامی فنڈنگ کو ہندوستان میں آر ایس ایس کی طاقت میں اضافہ کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔ انہوں نے عوام سے ان کی بھوک ہڑتال میں شامل ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ سفر تنہا شروع کیا ہے ۔ کئی افراد نے ان کی حمایت کی ہے لیکن کسی نے ان کی بھوک ہڑتال میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے ۔ فرائیڈ رچ نے کہا کہ وہ ممکنہ حد تک اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ یہ پیام دینے میں کامیاب رہیں گے کہ اس مسئلہ کو آسانی سے نہیں لیا جاسکتا ۔ یہ ہندوستان میں دبی کچلی اقلیتوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جنہیں آر ایس ایس کی جانب سے اپنے ایجنڈہ کے ذریعہ مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہیں کئی خود ساختہ ہندو نیشنلسٹس کے رد عمل ملا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ میں چاہے مرن برت کروں یا فاقہ سے مر جاوں انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ فرائیڈ رچ نے بتایا کہ انہیں زیادہ تر دھمکیاں ٹوئیٹر پر اور پھر انسٹا گرام پر ملی ہیں۔ جاریہ ماہ کے اوائل میں ٹوئیٹر کے سی ای او جیک ڈورسی نے ہندوستان میں کورونا ریلیف کیلئے جملہ 15 ملین ڈالرس کا عطیہ دیا ہے ۔ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا اور سیوا انٹرنیشنل امریکہ کو 2.5 ملین ڈالرس کا حصہ دیا گیا ہے ۔فرائیڈ رچ نے اس عطیہ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔

جمعہ کے دن موت پر عذاب قبر

 رمضان المبارک اور جمعہ کے دن  انتقال کرنے والے دونوں کےبارے میں احادیث میں ہے کہ ان سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہے،  جمعہ کی رات یعنی جمعہ سے پہلے والی رات کا بھی یہی حکم ہے، لیکن "جمعرات کے دن"میں انتقال کے حوالے سےکوئی حدیث ہمارے علم میں نہیں۔

اب یہ عذاب صرف رمضان المبارک اور جمعہ کے دن ہٹایا جاتا ہے یا تاقیامت، تو اس کے بارے میں بعض علماء فرماتے ہیں: صرف ماہ رمضان المبارک اور جمعہ کے دن   یہ عذاب اٹھادیا جاتا ہے، اور بعض فرماتے ہیں: تا قیامت ان سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہے اور  یہ قبر میں راحت و آرام کے ساتھ رہتے ہیں، زیادہ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں یہ حکم عمومی ہے کہ  اگر کسی مسلمان کا انتقال رمضان المبارک یا جمعہ کے دن ہوجائے تو تا قیامت عذابِ قبر  سے محفوظ رہے گا، اور اللہ کی رحمت سے یہ بعید بھی نہیں کہ وہ حشر میں بھی  اس سے حساب نہ لیں.

حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
جومسلمان جمعہ کے دن یاجمعہ کی شب مرتا ہے اللہ تعالیٰ قبر کی آزمائش سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
جمعہ کے دن جس کی موت ہوگی وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔
مسند احمد حديث نمبر ( 6546 ) جامع ترمذى حديث نمبر ( 1074 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: يہ حديث اپنے سب طرق كے ساتھ حسن يا صحيح ہے۔
یہ روایتیں عام طور پراہلِ فن کے نزدیک کلام سے خالی نہیں ہیں لیکن فضائل میں اس درجہ کی روایات بھی معتبر تسلیم کی جاتی ہیں.اگر کوئی غیر مؤمن  رمضان المبارک میں مر جائے تو صرف ماہ مبارک کے احترام میں رمضان المبارک تک عذاب قبر سے محفوظ رہے گا،اور رمضان کے بعد پھر اسے عذاب ہوگا۔

"قال أهل السنة والجماعة: عذاب القبر حق وسؤال منكر ونكير وضغطة القبر حق، لكن إن كان كافراً فعذابه يدوم إلى يوم القيامة ويرفع عنه يوم الجمعة وشهر رمضان، فيعذب اللحم متصلاً بالروح والروح متصلاً بالجسم فيتألم الروح مع الجسد، وإن كان خارجاً عنه، والمؤمن المطيع لا يعذب بل له ضغطة يجد هول ذلك وخوفه، والعاصي يعذب ويضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة وليلتها، ثم لا يعود وإن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعةً واحدةً وضغطة القبر ثم يقطع، كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي من حاشية الحنفي ملخصاً." (فتاوی شامی 2/165)

قربانی کس پرواجب ہوتی ہے

 قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

قربانی  واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے  زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے  اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی  واجب ہے۔

ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے  جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں

اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کی استعمال میں نہ ہوں، اور  ہر  انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے  اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص  تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو  ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔

لہذا جو چیزیں ان انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے، قربانی کے نصاب میں اس کی مالیت کو شامل کیا جائے گا۔

مذکورہ تفصیل سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ اگر کسی کے پاس 12 جوڑے ہوں، لیکن وہ سب اس کے استعمال میں آتے ہیں تو یہ ضروریات میں داخل ہیں، لیکن جو کپڑے بالکل استعمال میں نہ آتے ہیں وہ ضرورت سے زائد سامان میں شمار ہوں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312)
'' وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)،

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم''۔ 

Thursday 27 May 2021

طبیہ کالج اے ایم یو علی گڑھ کی آن لائن طبی خدمات جاری

 علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی فیکلٹی آف یونانی میڈیسن کے شعبہ جراحت نے مختلف امراض میں مبتلا افراد کے لیے آن لائن اور ٹیلی کنسلٹیشن خدمات کا آغاز کیا ہے۔ شعبہ نے ای این ٹی، آپتھلمالوجی اور جنرل سرجری میں بھی آن لائن طبی مشاورت کی سہولت شروع کی ہے، جس سے عام مریضوں کو کافی راحت ملے گی۔ شعبہ کے ڈاکٹر اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق کام کے ایام میں پیر سے سنیچر تک صبح گیارہ بجے سے دوپہر ایک بجے تک آن لائن طبی مشاورت کے لیے دستیاب رہیں گے۔جراحت شعبہ کے چیئرمین پروفیسر اقبال عزیز (ایم بی بی ایس، ایم ایس جنرل سرجری) کی جانب سے جاری نظام الاوقات کے مطابق وہ خود منگل اور جمعہ کو فون نمبر 8527468191/ 9897008768 ،اور ای میل آئی ڈی waseemahmad32@yahoo.com پر مریضوں کے لیے دستیاب رہیں گے۔ پروفیسر تفسیر علی (بی یو ایم ایس، ایم ایس جراحت) بدھ اور سنیچر کو فون نمبر 7017474312 ، اور ای میل : tafseerali@gmail.com کے ذریعہ مریضوں کی طبی مشورہ دیں گے۔ اسی طرح ڈاکٹر وسیم احمد (بی یو ایم ایس، ایم ایس جراحت) سے ای میل آئی ڈی : waseemahmad32@yahoo.comکے ذریعہ پیر اور جمعرات کو رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آپتھلمالوجی اور ای این ٹی سے متعلق مریض پیر اور جمعہ کو ڈاکٹر راحیدہ ہلال (بی یو ایم ایس، ایم ایس جراحت) سے فون نمبر 9997606097 اور ای میل آئی ڈی : rahidahilal@gmail.com پر رابطہ کرسکتے ہیں، جب کہ ای این ٹی میں جدیدطبی مشاورت کے لیے ڈاکٹر یاسمین عزیز (ایم بی بی ایس، ایم ایس ای این ٹی) منگل اور جمعرات کو فون نمبر : 9837165138 ، اور ای میل آئی ڈی : yasmeenaziz1972@gmail.com پر دستیاب رہیں گی۔ان کے علاوہ آپتھلمالوجی میں جدید طبی مشاورت کے لیے ڈاکٹر نیہا تیاگی (ایم بی بی ایس، ایم ایس) سے بدھ اور سنیچر کو فون نمبر: 7011557367، اور ای میل آئی ڈی : nehakgmc08@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

مسجدالجمیل کی شہادت

 اترپردیش کے کھتولی، ضلع مظفرنگر کی مسجد الجمیل کو مقامی حکام کے ذریعہ شہید کئے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کارگزار جنرل سکریٹری، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) نے کہا کہ ''ابھی ضلع بارہ بنکی کی مسجد غریب نوازکا زخم مندمل نہیں ہوا تھا کہ کھتولی ضلع مظفرنگر کی مسجد الجمیل بھی شہید کردی گئی۔''

مولانا رحمانی نے کہاکہ اور مقامی پولیس نے بغیر کسی تحقیق کے اِس کو سرکاری زمین بتاکر مسجد شہید کردی، حالانکہ یہ زمین وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے اور متولی کے پاس اس کے کاغذات بھی موجو د ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ قانونی کاروائی کے سلسلہ میں صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے، اور اترپردیش گورنمنٹ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یہ زمین متولی کے حوالہ کردے، اور جن پولیس عہدہ داروں نے اس غیر قانونی حرکت کا ارتکاب کیا ہے، ان کو معطل کرکے قرار واقعی سزا دی جائے، نیز انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ مسجدوں کے کاغذات بنوائیں اور ان کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کریں؛ تاکہ فرقہ پرست، متعصب اور فرض ناشناس قسم کے پولیس افسروں سے مسجدوں کی حفاظت ہو۔




Wednesday 26 May 2021

لکشدیپ میں زہرگھولنے کی کوشش

 نئی دہلی،24؍ مئی (ایس او نیوز؍پر یس ریلیز) پاپولرفرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے اپنے ایک حالیہ بیان میں ملک کی جمہوری طاقتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر مرکزی حکومت کے ان اقدامات کی مزاحمت کریں جن کی وجہ سے جزیرہ لکشدیپ کے باشندگان کی مذہبی، ثقافتی و لسانی شناخت اور شہری حقوق خطرے میں پڑ گئی ہے۔

پرفل پٹیل کے یونین ٹیریٹری کے مرکزی ایڈمنسٹریٹر کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سے لکشدیپ میں جو قواعد و اصلاحات فروغ پا رہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک اور عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔ بی جے پی رہنما اور مودی کے قریبی ساتھی پرفل پٹیل کی تقرری غلط ارادوں کے ساتھ لیا گیا ایک سیاسی فیصلہ ہے اور یہ اس قاعدے کے خلاف بھی ہے جس کے تحت ایک یونین ٹیریٹری ایڈمنسٹریٹر کے لئے آئی اے ایس افسر ہونا ضروری ہے۔ ان کے زیر انتظام اپنائے جا رہے آمرانہ طریقوں کے نہ صرف جزیرے کے باشندوں کی روزمرہ کی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جو ان کی منفرد ثقافت و روایات کو برباد کردیں گے، بلکہ اس سے پورے جزیرے کے نظام حیات اور ماحولیات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ بیف پر پابندی اور اسکولوں کے مِڈڈے میل کے مینو سے بیف کو ہٹانے کا ظالمانہ فیصلہ مسلم اکثریتی آبادی کے بھگواکرن کے سنگھ پریوار کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
تقریباً سال بھر سے یہ جزیرہ کووڈ فری رہا ہے۔ لیکن پرفل پٹیل نے عوام کی شدید مخالفت کے باوجود کووڈ کے نئے ضوابط کو نافذ کر دیا۔ جس کے بعد سے یہ وبا یہاں تیزی سے پھیلنے لگی۔ اس نئے پروٹوکال کی مخالفت میں جو لوگ بھی آگے آئے انہیں سنگین مقدمات کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ابھی لکشدیپ میں ظالمانہ غنڈہ ایکٹ بھی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ لکشدیپ ملک کے سب سے پرامن ٹیریٹریز میں سے ایک ہے جہاں جرائم اور قیدیوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ اسے جزیرے میں اٹھ سکنے والی ہر سیاسی مخالفت کی آواز کے خلاف ظالمانہ کاروائیوں کا پیش خیمہ سمجھنا چاہئے۔
لکشدیپ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ریگولیشن غیرجمہوری و غلط طریقے سے جزیرے کے باشندوں پر زمین کی ملکیت اور استعمال پر پابندی عائد کرتاہے، جبکہ ترقی کے نام پر حکومت کو کسی بھی زمین کو اپنے قبضے میں لینے کا پورا اختیار دیتا ہے۔ حکومت اب بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کوسٹل ریگولیشن زون کے قواعد کے نام پر اُن چھپروں کو توڑ رہی ہے جسے مچھوارے اپنی کشتیاں کھڑی کرنے اور ذخیرہ کے مقصد سے استعمال کرتے تھے۔ یہ لوگوں کے روزگار پر حملہ ہے۔ یاد رہے کہ جزیرے کے باشندوں کی اکثریت کی روزی روٹی ماہی گیری پر منحصر ہے۔ وہیں سیاحتی و دیگر حکومتی شعبوں کی جانب سے سیکڑوں عارضی مزدوروں کو کام سے نکال دیا گیا ہے۔ جزیرے کے لوگوں پر ایسے عجیب و غریب قوانین اور پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جو پورے ملک میں کہیں نافذ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، لکشدیپ پنچایت ریگولیشن کے ڈرافٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ دو سے زیادہ بچوں والے لوگ لوکل باڈی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔
لکشدیپ صرف ہماری چھٹیوں کی سیروسیاحت کا ایک مرکز نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر وہ کچھ لوگوں کا گھر بھی ہے جنہیں وہ تمام یکساں حقوق حاصل ہیں جو ملک کے ہر شہری کو حاصل ہیں۔ ساتھ ہی انہیں درج فہرست قبائل کے طور پر خصوصی حقوق بھی حاصل ہیں۔ ان کی اپنی مذہبی، ثقافتی و لسانی پہچان ہے۔ ان کے شہری حقوق سلب کرنے اور ان کی منفرد پہچان کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش فسطائیت ہے۔ پاپولر فرنٹ ملک کی تمام جمہوری طاقتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر لکشدیپ کے باشندوں کے خلاف ہندوتوا ظالمانہ اقدامات کی مزاحمت کریں۔ 

Tuesday 25 May 2021

تین ہزار نفوس پرمشتمل گاؤں میں جمعہ

   السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں

چلی،میوات ہریانہ میں ۵۰۰ سے زائد  مکانات اور  تین ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ایک گاؤں ہے

 جس میں پکی اور بہترین سڑکیں ہیں

بجلی لائٹ بھی ہے

پانی بھی الحمد للّٰہ اچھا ہے


۳ مساجد  اور الحمدللہ ایک مدرسہ بھی ہے جہاں پنج وقتہ نماز  ہوتی ہے


۸ کلاس تک اسکول بھی ہے


۲٤/۲۵   دکانیں بھی ہیں 


 الحمدللہ گاؤں میں ڈاکٹر بھی موجود ہے

اور گاؤں کا ایک مستقل قبرستان بھی ہے

اور گاؤں میں روز مرہ کی ضروریات کا سامان بھی مل جاتا ہے


(یاد رہے کہ  اس گاؤں علاوہ اسی گاؤں کا ایک نگلہ  (محلہ) بھی ہے (جو اسی چلی گاؤں کا خاص خاندان اور پریوار ہے) گاؤں کے جنگل میں واقع ہے جس میں تقریباً ساڑھے پانچ سو سے زائد لوگوں کی آبادی ہے اس نگلہ میں ۲ مساجد بھی ہیں


اس نگلے کو ملاکر گاؤں کی کل آبادی ۳۵۰۰ سے زائد ہے


اس گاؤں  پہلے سے جمعہ نہیں ہوتا تھا مگرابھی فی الحال موجودہ لوک ڈاؤن اور کرونا وائرس کی وجہ سے کسی بڑے گاؤں قصبہ یا شہر میں نماز جمعہ کے لئے نا جانے کی وجہ سے ہم نے اپنے اسی گاؤں میں گزشتہ عید اور نماز جمعہ شروع کردیا ہے

  تو کیا اس گاؤں میں نماز جمعہ اور عیدین درست ہے یا نہیں

؟؟


جب کہ ہمارے علاقے میں اس سے چھوٹے گاؤں میں بھی نماز جمعہ ہورہی ہے

برائے مہربانی مفصل و مدلل جواب مرحمت فرمائیں


المستفتی محمد جابر چلی



الجواب وباللہ التوفیق


حنفیہ کے نزدیک جوازِ  جمعہ کے لیے مصر

 یا فنائے مصر کا ہونا یا قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں) کا ہونا شرط ہے، قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں، اس گاؤں میں ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی مقرر ہو۔ اور جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں، اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔


إعلاء السنن  میں ہے:


"عن علي أنه قال: لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر". (ج: 8، ص1، إدارة القرآن)


 فتاوی شامی میں ہے:


"وعبارة القستاني: تقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات". (كتاب الصلاة، باب الجمعة ۲/ ۱۳۸ ط:سعيد)


            بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی آبادی تین یا چار ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، لہذا اس میں جمعہ ادا کرنا صحیح ہوگا۔


            امداد الفتاوی میں ہے:


’’اور کبیرہ اور صغیرہ میں مابہ الفرق اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے معلوم ہوا کہ حکامِ وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں، چار ہزار آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں‘‘۔ (امداد الفتاوی ۱/ ۴۱۸ ط:دارالعلوم)


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:


’’محققین کی تحقیق یہ ہے کہ جو قریہ مثل چھوٹے قصبہ کے ہو مثلاً تین چار ہزار آدمی اس میں آباد ہوں وہ قریہ کبیرہ ہے اور جو اس سے کم ہو وہ چھوٹا ہے‘‘۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند ۱/ ۲۹۴ ط:دارالاشاعت)


الصنائع،ج۱،ص:۵۸۵


(۲) فتح القدیر،ج۲،ص:۴۷


لاجمعۃ ولاتشریق ولاصلاۃ الفطر ولا أضحی إلا فی مصر جامع أو فی مدینۃ عظیمۃ(۱)


علامہ شامی ردالمحتار میں تحریر کرتے ہیں:


قولہ وفی القہستانی……تائید للمتن وعبارۃ القہستانی تقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیھا أسواق قال أبو القاسم ھذا بخلاف…… وفیما ذکرنا إشارۃ الیٰ أنہ لاتجوز فی الصغیرۃ التی لیس فیھا قاض ومنبر خطیب (۲)


اور علامہ کاسانی ؒبدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:


أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعۃ وشرط صحۃ أدائھا عند أصحابنا حتی لا تجب الجمعۃ الا علیٰ أھل المصر ومن کان ساکنا فی توابعہ…… فلا تجب علی أھل القریٰ التی لیست من توابع المصر ولا یصح أداء الجمعۃ فیھا (۳)


اور جہاں کے لوگوں پر نماز جمعہ وعیدین واجب نہ ہو اور لوگ ادا کرتے ہیں تو ان کو منع کرنا چاہئے کیوں کہ ایسے گاؤں میں نماز جمعہ وعیدین مکروہ تحریمی ہے۔درمختار میں ہے:


وفی القنیۃ:صلاۃ العیدین فی القریٰ تکرہ تحریما أی لاشتغال بما لایصح لأن المصر شرط الصحۃ (۴)


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہر کس کو کہتے ہیں: فقہاء نے شہر کی مختلف تعریفیں کی ہیں مثلا شہروہ ہے


(۱) فتح القدیر،ج۲،ص:۴۹


(۲) ردالمحتار،ج۳،ص:۷


(۳)بدائع الصنائع،ج۱،ص:۵۸۳


(۴)ردالمحتار ج۲،ص:۱۶۷


جہاں ہر قسم کے پیشے موجود ہوں، جہاں ہر دن ایک بچہ پیدا ہوتا ہو اور ایک آدمی مرتا ہو، وہ جگہ جس کی آبادی کا شمار مشکل ہو، وہ جگہ جو دس ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل ہو (۱) اسی طرح بڑے گاؤں کی تمیز کیسے ہوگی یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جواہرالفقہ میں دونوں کے فرق کو اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ بڑا گاؤں وہ ہے جہاں مسلم وغیرمسلم وغیرہ ملاکر تقریباً تین ہزار افراد بستے ہوں ورنہ وہ چھوٹا گاؤں ہے اور اہل افریقہ اس طرح فرق کرتے ہیں کہ بڑا گاؤں وہ ہے جہاں کورٹ کچہری ہو اور اس کے اطراف میں تین ہزار افراد ہوں، لہذا ایسی جگہ میں نماز جمعہ وعیدین جائز ہے ورنہ نہیں (۲)


مفتی محمدسلمان منصورپوری دامت برکاتہم لکھتے ہیں:


 کتاب النوازل ص289 جلد 5

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر واقعۃً مذکورہ بستی کی آبادی ۳؍۴؍ ہزار کے درمیان ہے او روہاں ضروریاتِ زندگی بآسانی مہیا ہوجاتی ہیں تو ایسی جگہ نماز جمعہ پڑھنے میں شرعاً مضائقہ نہیں ہے، یہ بستی قریہ کبیرہ کے حکم میں ہوگی۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۸؍۶۴-۶۷ ڈابھیل، بہشتی زیور اختری ۱۱؍۸۰، فتاویٰ دارالعلوم ۵؍۶۶، امداد الفتاویٰ ۱؍۶۷۲)

عن الحسن ومحمد رحمہما اللّٰہ أنہما قالا: الجمعۃ في الأمصار۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۴؍۴۶ رقم: ۵۱۰۱)

ویشترط لصحتہا سبعۃ أشیاء الأول: المصر، ما لایسع أکبر مساجدہ أہلہ المکلفین بہا وعلیہ فتویٰ أکثر (در مختار) عن أبي حنیفۃ أنہ بلدۃ کبیرۃ فیہا سکک و أسواق، ولہا رساتیق، وفیہا وال یقدرعلی انصاف المظلوم من الظالم بحشمتہ و علمہ أو علم غیرہ یرجع الناس إلیہ فمما یقع من الحادث وہذا ہو الأصح۔ (شامي / باب الجمعۃ ۲؍۱۳۷ کراچی، ۳؍۶-۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۱۰؍۱۴۱۴ھ

الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ


لہذا بشرط صحت سوال اس بستی میں  جو تین ہزار سے زیادہ نفوس پرمشتمل ہے روزہ مرہ ضروریات کاسامان بھی مل جاتا ہے 25,24دوکانیں ہیں. اس میں جمعہ قائم کرنا  درست ہے. فقط واللہ اعلم بالصواب

محمد عامرالصمدانی 

10شوال المکرم 1442ھ مطابق 24مئی 2021

قاضئ شریعت آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ دارالقضاء علی گڑھ. 

Saturday 22 May 2021

اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ بندی کا اعلان

 اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ بندی کااعلان تو ہوگیا لیکن یہ ایک ادھورا عمل ہے جن جوہات کی بناپر باربارجھڑپیں ہوتی ہیں معصوموں کاخون بہتاہے بمباری ہوتی ہے انسانیت کوشرمسارکیاجاتاہے.اب بھی گیارہ دن مسلسل جنگ چلی جس میں دوسوتیس فلسطینی خواتین بچے اور عام لوگ مارگیئے اسی طرح بارہ لوگ اسرائیل  کے مارے گھاس کے علاوہ پچاس ہزار سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوئے اس کے علاوہ دونوں طرف کے زخمیوں اور مالی نقصانات  کااندازہ بھی لگایاجاسکتاہے. اس کے مستقل حل کی کوشش ہونی چاہیے اور اس پرمسلسل بات ہونی چاہیے. موجودہ جنگ بندی محض وقتی عمل ہے .پوری دنیاکے لیڈران فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے مستقل حل پربات کریں اور ایک پائیدار اور دیرپاامن کی کوش


ش ہوتاکہ مشرق وسطیٰ میں دیر پا امن قائم ہوسکے .

Wednesday 19 May 2021

ایک اور مسجد شہید

 بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ میں حکام نے تقریباً سو برس پرانی ایک مسجد کو غیر قانونی بتا کر مسمار کر دیا ہے۔بھارتی ریاست اتر پردیش میں سنی وقف بورڈ نے 'غریب نواز مسجد' کی مسماری کو غیر قانونی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ حکام کی یہ کارروائی ریاستی ہائی کورٹ کے احکامات و ہدایات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ سنی وقف بورڈ نے اس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سنی وقف بورڈ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''مسجد کی پھر سے بحالی، اس معاملے کی اعلی سطح پر عدالتی تفتیش اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے حکام کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گيا ہے۔‘‘ یہ واقعہ ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کا ہے جو مغلیہ دور کی مسمار کی جانے والی معروف بابری مسجد سے تقریباً 56 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا نام 'نواز غریب مسجد' تھا، جو تحصیل کے اندر ہی بنی کدہ گاؤں میں تقریبا ایک صدی سے قائم تھی۔ دو روز قبل مقامی حکام نے اس کو بلڈوزر سے ڈھانے کے بعد اس کا ملبہ پاس کی ندی میں پھینک دیا۔ 

مسلم تنظیموں کا رد عمل: یو پی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر فاروقی کی جانب سے اس حوالے سے میڈیا کے لیے جو بیان جاری کیا گيا ہے، اس میں، ''ضلعی انتظامیہ اور تحصیل کے حکام کی غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ تحصیل کے احاطے میں یہ مسجد گزشتہ تقریباً سو برسوں سے قائم تھی جس پر حکام نے غیر قانونی قبضے کا الزام عائد کرتے ہوئے مسمار کر دیا۔‘‘ بیان میں مزید کہا گيا، ''یہ کارروائی پوری طرح سے غیر قانونی، طاقت کا بے جا استعمال اور گزشتہ ماہ ہائی کورٹ نے جو احکامات دیے تھے اس کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔‘‘ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور کئی دیگر مسلم تنظیموں نے بھی اس انہدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے مطابق اس مسجد کے بارے میں کسی بھی فریق سے کوئی بھی تنازعہ نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا،''یہ مسجد سنی وقف بوڑد کی دستاویزات میں درج ہے۔ مقامی افسران نے البتہ مارچ میں مسجد کی کمیٹی سے اس کی دستاویزات طلب کی تھیں اور اسی لیے مسجد کی منتظمہ کمیٹی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ کتنی تعجب کی بات ہے کہ حکومت نے بغیر کسی نوٹس کے مسجد ڈھا دی۔‘‘ واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے 24 اپریل کو اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا تھا کہ کسی بھی جگہ سے انخلا، لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے یا پھر انہیں اجاڑنے سے متعلق کسی بھی سول یا پھر دیگر عدالتوں کی جانب سے جو فیصلے سنائے گئے ہیں اگر اس پر عمل نہیں ہوا ہے تو اس پر آئندہ 31 مئی تک عمل کرنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ لیکن سرکاری حکام نے اپنی اس کارروائی کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ انہوں نے عدالت کے حکم کے مطابق یہ کارروائی کی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے اپنے ایک بیان میں مسجد کے بجائے ایک متنازعہ رہائشی عمارت کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ رام سنیہی گھاٹ کی تحصیل کے رہائشی کملپکس میں ایس ڈی ایم کی رہائش کے سامنے ایک غیر قانونی عمارت تھی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آدرش سنگھ کا کہنا ہے، ''متعلقہ افراد کو 15مارچ کو ایک نوٹس جاری کیا گيا تھا اور ان سے اس بارے میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔ لیکن وہاں رہنے والے افراد نوٹس کا جواب دینے کے بجائے فرار ہو گئے۔ حکام نے 18 مارچ کو ہی اس عمارت کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔‘‘ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے ضلع بارہ بنکی اور ایودھیا سمیت آس پڑوس میں حالات کسی  قدر کشیدہ ہیں۔ ان کے مطابق کورنا وائرس کی وجہ سے سخت بندشیں عائد ہیں اس لیے لوگ گھروں میں قید ہیں۔ تاہم حکام نے علاقے میں سکیورٹی کا زبردست پہرہ لگا رکھا ہے۔ لکھنؤ سے کئی اہم مسلم شخصیات نے متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کی کوشش کی ہے تاہم حکام کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ لکھنؤ میں ایک سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ ریاست میں کورونا کی ابتر صورت حال کے پیش نظر یوگی کی حکومت اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے اور اس طرح کی کارروائیوں کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے ہی سے مذہبی خطوط پر تقسیم ریاست میں مزید تفرقہ بازی سے لوگوں کی توجہ وبا کے بجائے دوسرے امور کی جانب مبذول کی جا سکے۔ تحصل رام سنیہی گھاٹ کے پاس ہی ایودھیا واقع ہے جہاں 25 برس قبل سخت گیر نظریات کے حامل ہندو قوم پرستوں نے تقریباً پانچ سو برس قدیم مغلیہ دور کی معروف بابری مسجد کو دن دہاڑے منہدم کر دیا تھا۔ مسلم تنظیموں نے اس مسجد کے لیے بھی طویل جد وجہد کی تاہم انہیں حکومت، حکام اور عدالت کے روپے سے مایوسی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ لگا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کے انہدام کو غلط بتایا تھا تاہم عدالت نے اس کے باوجود اس کی جگہ رام مندر کے تعمیر کی اجازت دی جہاں اس وقت مغیلہ دور کی بابری مسجد کے مقام پر بڑے جوش و جذبے کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتارہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا 

اسرائیلی جارحیت کوامریکی پشت پناہی

 غزہ پراسرائیلی بمباری جاری ہے. دوسو سے زیادہ خواتین بچے اور عام لوگ شہید ہوچکے ہیں. اقوام متحدہ اور امریکا جنگ بند کرانے میں مکمل طور سے ناکام ہوچکے ہیں امریکی اتحادی بالخصوص سعودی عرب  اور مصر کی خاموشی معنی خیز ہے. یہ اسرائیلی اورامریکی  موقف  کی عملاََ تائید ہے.   جسے عالم اسلام ہمیشہ رد کرتارہاہے. .اسرائیل اور امریکا کے حلیف عرب حکمرانوں  کی یہ خاموشی ظالموں کی تائید  میں ہے .لیکن عرب عوام ان سب  کا بہت جلد وہی حال کرنے والے ہیں جو معمرقذافی کاکیاتھا حقیقتاً یہ  اسی کے حقدار ہیں. 


طلاق اور خلع کی عدت

خلع یاطلاق کے بعد عورت کے ذمہ تین ماہواری کی عدت گزارنا ضروری ہے، بشرطیکہ حاملہ نہ ہو، حمل سے ہونے کی صورت میں بچہ جننے تک عدت شمار ہوگی، اور اگر کسی کو ماہواری آتی ہی نہ ہو تو اس صورت میں اس کی عدت تین ماہ ہوگی، ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ طَلَاقًا بَائِنًا أَوْ رَجْعِيًّا أَوْ ثَلَاثًا أَوْ وَقَعَتْ الْفُرْقَةُ بَيْنَهُمَا بِغَيْرِ طَلَاقٍ وَهِيَ حُرَّةٌ مِمَّنْ تَحِيضُ فَعِدَّتُهَا ثَلَاثَةُ أَقْرَاءٍ سَوَاءٌ كَانَتْ الْحُرَّةُ مُسْلِمَةً أَوْ كِتَابِيَّةً، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ.وَالْعِدَّةُ لِمَنْ لَمْ تَحِضْ لِصِغَرٍ أَوْ كِبَر أَوْ بَلَغَتْ بِالسِّنِّ وَلَمْ تَحِضْ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، كَذَا فِي النُّقَايَةِ."

( كتاب الطلاق، الْبَابُ الثَّالِثَ عَشَرَ فِي الْعِدَّةِ، ١ / ٥٢٦، ط: دار الفكر)

فجر کی نمازاداکئے بغیر ظہر پڑھنا

  غیرصاحب ترتیب  (پانچ سے زائد قضاء نمازیں جس کے ذمہ ہوں وہ) تو فجر کی قضاء نماز ادا کیے بغیر ظہر کی نماز پڑھ سکتا ہے۔ اور اگر وہ صاحب ترتیب ہے (پانچ یا اس سے کم قضاء نمازیں اس کے ذمہ ہیں) تو پہلے فجرکی نماز  ادا کرنا ضروری ہے، اگر پہلے ظہر پڑھ لی تو فجر ادا کرنے کے بعد ظہر کی نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔ ہاں اگر صاحب ترتیب نے بھولے سے ظہر کی نماز پہلے پڑھ لی یا وقت میں قضاء پڑھنے کی گنجائش نہ رہنے کی وجہ سے ظہر پہلے پڑھ لی تو ظہر ادا ہوگئی بعد میں دہرانے کی ضرورت نہیں، لیکن پھر قضاء فجر کو مغرب سے پہلے پہلے پڑھ لے۔ الترتیب بین الفائتة القلیلة وہی مادون ست صلوات، وبین الوقتیة وکذا التّرتیب بین نفس الفوائت القلیلة مستحق أي لازم ․․․․․ والأصل في لزوم الترتیب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: من نام عن صلاة أو نسیہا فلم یذکرہا إلاّ وہو یصلّي مع الإمام فلیصلّ الّتي ہو فیہا ثمّ لیقض التي تذکر ثمّ لیعد الّتي صلّی مع الإمام ․․․․․ ویسقط الترتیب بأحد ثلاثة أشیاء: الأوّل: ضیق الوقت المستحبّ في الأصحّ ، والثّاني: النّسیان، والثّالث: إذا صار الفوائت ستّا ۔ (مراقي الفلاح، کتاب الصّلاة ، باب قضاء الفوائت، ص: ۴۴۰تا ۴۴۳، دارالکتاب دیوبند)

فجر کی نماز اداکئے بغیرعید کی نماز پڑھی توکونسی اداہوئی

   فجر کی نماز فرض ہے، جب کہ عیدین کی نماز واجب ہے، عیدین کی نماز کے وجوب اور صحیح ہونے کا مدار فجر کی نماز پر نہیں ہے ؛ لہذا اگر کسی شخص نے فجر کی نماز ادا کیے بغیر عیدین کی نماز ادا کرلی تو اس کی نمازِ عید  ادا ہوجائے گی، البتہ فجر کی قضا اس کے ذمہ لازم  ہے ، جس کی ادائیگی یاد آتے ہی کرنا ہوگی، بلاعذر قضا کرنے اور یاد آنے کے بعد بھی قضا میں تاخیر پر گناہ ہوگا۔