https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 13 June 2021

میت کے اہل خانہ کو کھاناکھلانا

 جس گھر میں موت ہوجائے ان کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لیے مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے کہ میت کے گھر والوں کے لیے اس دن (دو وقت) کے کھانے کا انتظام کریں اور خود ساتھ بیٹھ کر، اصرار کر کے ان کو کھلائیں،اور ضرورت ہو تو تین دن تک کھانا کھلانا بھی جائز ہے، اہلِ میت کو یہ کھانا کھلانا اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ میت کے گھر میں یا میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانا ممنوع ہے، بلکہ اس وجہ سے   ہوتا ہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملے گا، لہٰذا اگر میت کے گھر والے خود اپنے لیے اسی دن کھانا بنائیں تو اس کی اجازت ہے۔رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو ان کو مشغول کرے گی ( یعنی جعفر کی شہادت کی خبر سن کر صدمہ اور رنج میں مشغول ہوکر کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہیں رہے گی)۔

                لیکن یہ کھانا صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہے ، یہ نہیں کہ تمام برادری اور قوم کو کھلایا جائے، کیوں کہ تعزیت کرنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا چاہیے، میت کے گھر قیام بھی نہیں کرنا چاہیے اور اہلِ میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی چاہیے، کیوں کہ دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم). رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه". (مشکاة المصابیح، کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ص:۱۵۱ ،ط:قدیمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"والمعنى: جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لايشعرون. قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لايستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلايضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ؛ لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه، قلت: وهذا إذا لم يكن من مال اليتيم أو الغائب، وإلا فهو حرام بلا خلاف". (کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ج:۴؍ ۱۹۴ ،ط: رشیدیه) 

  فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ.

مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاماً للفقراء كان حسناً اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالاً بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالباً من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم". (کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة،ج:۲ ؍ ۲۴۰ ، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم". (کتاب الصلاة، قبیل باب الشهید، ج:۲ ؍ ۱۰۲ ، ط: رشیدیه

آسام کے وزیراعلیٰ کا بیان شرمناک

 مسلمانوں کی آبادی کے تعلق سے آسام کے وزیر اعلی ہیمنتا بسوا کے بیان پر آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شرمناک بتایااور کہاکہ ایک وزیر اعلی کی زبان سے اس طرح کا فرقہ وارانہ اور ایک خاص کمیونٹی کے خلاف بیان یہ واضح کرتاہے کہ بی جے پی کے رہنماؤں میں اب ذرہ برابر بھی ذمہ داری اور آئین کا پاس ولحاظ نہیں رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کی آباد ی کو جس طرح نشانہ بناتے ہوئے ہیمنتا بسوا شرمانے اپنا بیان دیاہے وہ یقینی طور پر ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور آئین کے نہ صرف خلا ف ہے بلکہ مسلمانوں کو ایک طرح سے دھمکی دی گئی ہے۔ڈاکٹر منظور عالم نے کہاکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی شرح گذشتہ سالوں کے مقابلے میں کم ہورہی ہے۔ دوسری طرف خود ہیمنتابسوا چھ بھائی سے زیادہ ہیں۔ سابق وزیر اعلی سونوال آٹھ بھائی تھے۔ یہ اپنے گھر میں نہیں دیکھتے ہیں اور صرف مسلمانوں کو تنبہیہ کرتے ہیں۔در اصل بی جے پی آسام میں جب این آرسی کے نام پرمسلمانوں کو پریشان کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور مسلمانوں سے زیادہ جب اکثریتی طبقہ کا نام آگیاہے تو اب انہیں آبادی کو بنیاد بناکر پریشان کرنے اور نشانہ بنانے کی یہ مہم شروع ہوئی ہے۔ آسام میں مسلمانوں کی آبادی بہت پرانی ہے ، ان پر کسی طرح کا سوال اٹھانے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام سے زیادہ دوسرے صوبوں میں آبادی کی شرح زیادہ ہے۔ آسام میں آبادی میں اضافہ کی شرح سترہویں نمبر پرہے۔ یہ در اصل ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی سازش ہے اور وزیر اعلی اپنی کرسی کا خیال رکھنے کے بجائے گھٹیاترین حرکت کررہے ہیں۔ ایسے بیان سے گریز کرنا چاہیے اور تمام مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہیے۔

Saturday 12 June 2021

بانجھ جانور کی قربانی

 جانور کا بانجھ ہونا قربانی کے لئے عیب نہیں ہے، اس لئے بانجھ جانور کی قربانی  کرنا جائز ہے

کذا فی الھندیۃ:

تجوز الأضحیۃ بالعاجزۃ عن الولادۃ لکبر سنہا ۔

(297/5، الباب الخامس)

خنثی یاکرن جانورکی قربانی

 جو جانور خنثی ہو، یعنی: اس میں نر ومادہ دونوں کی جنسی علامات ہوں یا دونوں میں سے کسی کی کوئی جنسی علامت نہ ہو اور پیشاب کے لیے صرف سوراخ ہو تو اس کی قربانی یا عقیقہ شرعاً درست نہیں، جانور کا خنثی ہونا ایسا عیب ہے جو قربانی یا عقیقہ کی صحت میں مانع ہوتاہے .(در مختار وشامی،۹: ۴۷۰، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند،الدر المنتقی مع المجمع، ۴:۱۷۲مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

لَا تَجُوزُ التَّضْحِيَةُ بِالشَّاةِ الْخُنْثَى؛ لِأَنَّ لَحْمَهَا لَا يَنْضَجُ، تَنَاثُرُ شَعْرِ الْأُضْحِيَّةِ فِي غَيْرِ وَقْتِهِ يَجُوزُ إذَا كَانَ لَهَا نِقْيٌ أَيْ مُخٌّ كَذَا فِي الْقُنْيَةِ. (الْبَابُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَحَلِّ إقَامَةِ الْوَاجِبِ، ۵ / ۲۹۹، ط: دار الفكر)۔

Friday 11 June 2021

Anyone who speaks against the government is a traitor

 بھارت کے متعدد سماجی اور سیاسی رہنماوں نے اداکارہ عائشہ سلطانہ کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کیے جانے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عائشہ نے صرف عوام کو درپیش 'غیرانسانی' صورت حال پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔بھارتی ماڈل، اداکارہ اور فلم ساز عائشہ سطانہ نے ایک ٹی وی مباحثے کے دوران جزیرہ نما لکش دیپ میں کورونا وبا کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکز کی مودی حکومت کووڈ کو اس جزیرہ نما کے عوام کے خلاف 'حیاتیاتی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ان کے اس بیان پر حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے ان کے خلاف'ملک سے غداری‘ کا مقدمہ دائر کردیا۔ گزشتہ دسمبر تک لکش دیپ میں کووڈ کا ایک بھی کیس نہیں تھا لیکن بی جے پی رہنما پرفل پٹیل نے وہاں کے ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کووڈ پروٹوکول میں بعض ترامیم کردیں جس کے نتیجے میں اس جزیرے میں اِس وقت نو ہزار سے زائد کووڈ کے کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ دو درجن سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ عائشہ سلطانہ نے جمعرات 10 جون کو ایک علاقائی نیوز چینل پر کورونا کی صورت حال پر مباحثے کے دوران پرفل پٹیل کے فیصلوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ مرکز لکش دیپ کے خلاف 'حیاتیاتی ہتھیار‘ استعمال کر رہا ہے۔ کیا مرکز نے واقعی حیاتیاتی ہتھیار نصب کیے ہیں؟ عائشہ سلطانہ کا کہنا تھا، ”لکش دیپ میں کووڈ انیس کا ایک بھی کیس نہیں تھا۔ لیکن اب وہاں روزانہ ایک سو کیسز سامنے آرہے ہیں۔ کیا مرکز نے وہاں حیاتیاتی ہتھیار نصب کردیے ہیں؟ میں یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتی ہوں کہ مرکزی حکومت نے وہاں حیاتیاتی ہتھیار نصب کیے ہیں۔" انہوں نے ٹی وی مباحثے کے دوران سوال کیا کہ آخر لکش دیپ کے ایڈمنسٹریٹر نے کووڈ کے حوالے سے پابندیاں ختم کیوں کردیں جس کے سبب انفیکشن کی تعداد میں اتنی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بی جے پی کی ناراضگی فلم اداکار ہ کے بیان پر بی جے پی کے کارکنان مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے لکش دیپ کی رہائشی عائشہ سلطانہ کے گھر کے باہر مظاہرے کیے۔ بی جے پی لکش دیپ یونٹ کے سربراہ عبدالقادر نے اس مبینہ ”ملک دشمن" بیان پر ان کے خلاف ”مرکزی حکومت کے قوم پرستانہ امیج‘‘ کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاتے ہوئے ملک سے غداری کا مقدمہ دائر کردیا۔ فلم اداکارہ نے بعد میں اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ انہیں سچ بولنے سے کوئی روک نہیں سکتا، ”میں اپنے مادر وطن کے لیے لڑتی رہوں گی اور جولوگ آج خاموش ہیں دراصل وہی اس جزیرے سے غداری کر رہے ہیں۔ وہ جب بھی میرا منہ بند کرنے کی کوشش کریں گے میں اپنی آواز بلند کروں گی اور پہلے سے کہیں زیادہ زوردار انداز میں۔" مقدمے پر نکتہ چینی متعدد تنظیموں اور رہنماؤں نے عائشہ سلطانہ کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کیے جانے کی مذمت کی ہے۔ لکش دیپ کی ثقافتی تنظیم ساہتیہ پروتاکا سنگم نے ایک بیان میں کہا، ”عائشہ سلطانہ صرف لکش دیپ کے ایڈمنسٹریٹر کے ذریعہ اٹھائے گئے غیرانسانی اقدامات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہی تھیں۔" کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور نے عائشہ سلطانہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 'غداری‘ کے لفظ کا غلط استعمال کر کے ہراساں کیا جارہا ہے۔ عائشہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی لوگوں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آرہا ہے۔ بھارت کے انتہائی خوبصورت مقامات میں سے ایک جزیرہ نما لکش دیپ بالخصوص سیاسی اسباب سے سرخیوں میں ہے۔ تقریباً ستر ہزار آبادی والے اس جزیرے میں مسلمانوں کی تعداد 97 فیصد کے قریب ہے۔ دسمبر 2020 میں پہلی مرتبہ اس جزیرے کا ایڈمنسٹریٹر ایک سیاسی شخصیت، پرفل پٹیل کو بنایا گیا۔ اس سے قبل وہاں انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس کے کسی افسر کو ہی ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جاتا تھا۔ پرفل پٹیل، وزیر اعظم مودی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ مودی کی وزارت اعلٰی کے دور میں گجرات کے وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔ پٹیل نے ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کئی متنازعہ فیصلے کیے ہیں جن کے خلاف وہاں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن جماعتوں اور سابق اعلی بیوروکریٹس نے پٹیل کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا ہے

Voice against mob lynching

 ملک میں کچھ تنظیموں سے وابستہ شرپسند عناصر نے ایک مرتبہ پھر مذہبی بنیاد پر ہجومی تشدد کی مہم شروع کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی و بھائی چارے کو درہم برہم کرکے اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے میں کوشاں ہیں ،جو جمہوریت و آئین کی منافی ہے ۔ پیس پارٹی کے قومی نائب صدر ڈاکٹر عبدالرشید انصاری نے جاری پریس ریلیز کے ذریعہ ہجومی تشدد کے واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے شرپسندوں پر قدغن لگانے کا مطالبہ کیا ۔

ڈاکٹر انصاری نے کہا کہ آج حالات ایسے پیدا کیئے جارہے ہیں کہ اقلیتی طبقے کے لوگ کہیں باہر جانے سفر کرنے سے خوف زدہ ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ کہیں شرپسند ان پر حملہ نہ کر دیں ۔غازی آباد کے طالب علم ذیشان ، کامل و شہزاد وغیرہ جیسے متعدد افراد کو مختلف مقام پر ایک منظم سازش کے تحت شرپسندوں نے مذہبی منافرت پر صرف اس لیئے سخت زد و کوب کر رہے ہیں کہ انہوں نے جے شری رام کا نعرہ نہیں لگایا۔

اس طرح کے واقعات کسی بھی مہذب معاشرے کے لیئے انتہائی شرمناک ہیں۔ کسی بھی راہ گیر مسافر پر ہجومی تشدد کے ذریعہ مذہبی نعرہ نہ لگانے پر قاتلانہ حملہ کیئے جانے کی کیا کوئی مذہب اجازت دیتا ہے ؟ کچھ سخت گیر تنظیموں سے وابستہ شرپسند عناصر اقلیتوں پر حملہ ہی نہیں بلکہ ہندو مذہب کو بدنام کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جو جے شری رام کا نعرہ نہیں لگائے گا اس کو قتل کر دیا جائے گا ۔کوئی مذہب تشدد کی اجازت نہیں دیتا ،لیکن یہ شرپسند عناصر کس کے اشارے پر ہندو مذہب کو بدنام کرنے کے لیئے کوشاں ہیں یہ تحقیق کا موضوع ہے۔

ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں ایسے واقعات انتہائی  افسوس ناک و ملک کی رسوائی  کا سامان ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہجومی تشدد کا انجام دینے والے شرپسندوں کے خلاف کوئی سخت قانونی کارروائ نہ ہونے کے سبب ان کے حوصلے بلند ہیں، اور وہ اس طرح کے واقعات کا انجام دے کر قانون کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ کچھ بھی غیر قانونی و آئین کے خلاف کام کریں ان کا کوئ کچھ بگاڑ نہیں سکتا ۔ پولیس شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائ کے برعکس جو کارروائ کرتی بھی ہے اس میں اتنے پیچ ہوتے ہیں کی وہ جلد ہی رہا ہو جاتے ہیں۔

مذہبی بنیاد پر ہجومی تشدد کے انجام دینے والے شرپسندوں کی ملک کی کچھ مبینہ ہندوتو وادی تنظیموں کی حمایت کے سبب وہ بے خوف ہیں ۔حکومت ملک کے مفاد میں ایسے ہجومی تشدد کے انجام دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی و بھائی چارہ برقرار رہ سکے ۔

Wednesday 9 June 2021

وضوکے بعد شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا

وضو کے بعد کی دعا حدیث سے ثابت اور سنت ہے اور اس وقت آسمان کی طرف دیکھنا بھی سنن ابی داؤد کی روایت میں مذکور ہے، لیکن انگلی سے اشارہ کرنا حدیث سے  ثابت نہیں ہے۔ البتہ  فقہ حنفی کی مستند کتاب حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف دیکھنے کے ساتھ شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کا ذکر بھی ہے. اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبات وغیرہ میں شہادتین کے کلمات ادا کرتے وقت شہادت کی انگلی سے اشارہ ثابت ہے۔

بنا بریں وضو کے بعد  کلمہ شہادت پڑھتے وقت انگلی کے اشارے کوسنت تونہیں کہاجائے گا، لیکن اگر کوئی کلمہ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف نگاہ کرنے کے ساتھ شہادت کی انگلی سے اشارہ بھی کرے تو اسے منع بھی نہیں کیا جائے گا۔ 

 عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما منکم من أحدٍ یتوضأ فیبلغ أو فلیسبغ الوضوء ثم یقول: أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدًا عبدہ ورسولہ إلا فتحت لہ أبواب الجنة الثمانیة رواہ مسلم (مشکاة: ۳۹) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو کوئی بھی وضو کرے اور مکمل وضو کرے پھر کہے اشہد ان لا الٰہ إلا اللہ․․ تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور ابوداوٴد شریف میں ثم رفع نظرہ إلی السماء الخ یعنی وضو سے فارغ ہونے کے بعد نگاہ کو آسمان کی طرف اٹھائے پھر یہ دعاء پڑھے، اس وجہ سے بعض فقہاء دعاء پڑھتے وقت صرف نگاہ اٹھانے کو مستحب کہتے ہیں اور بعض فقہاء آسمان کی طرف دیکھتے وقت اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرنے کو بھی مستحب کہتے ہیں۔ قولہ والإتیان بالشہادتین بعدہ ذکر الغزنوي أنہ یشیر بسبابتہ حین النظر إلی السماء (طحطاوي علی مراقي الفلاح) پتہ چلا کہ دونوں طرح کی گنجائش ہے البتہ اسے ضروری نہ سمجھا جائے اور نہ کرنے والوں پر نکیر نہ کی جائے یہ محض آداب میں سے ہے۔

Tuesday 8 June 2021

کروکج جبیں پہ سرکفن میرے قاتلوں کوگماں نہو

 کینیڈا کے صوبے انٹاریو میں ایک شخص نے ایک مسلم کنبے پر گاڑی چڑھا دی جس سے چار افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ مسلمان ہونے کے سبب اس خاندان کو نشانہ بنا یا گیا۔کینیڈا میں صوبے انٹاریو کے لندن شہر میں پولیس حکام نے سات جون پیر کے روز بتایا کہ ایک نوجوان نے مشتبہ طور نفرت کی وجہ سے منصوبہ بند طور پراپنی گاڑی سے راہگیروں کو ٹکر مار کر ایک مسلم خاندان کے چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ مقامی پولیس سربراہ اسٹیو ویلئم نے اس واقعے سے متعلق ایک بیان میں کہا، ''ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی دانستہ حرکت تھی اور یہ کہ اس خوفناک واقعے میں ہدف بنا کر متاثرین پر حملہ کیا گیا۔ ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ ان پر اس لیے حملہ کیا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔'' پولیس کا کہنا ہے کہ 20 سالہ مشتبہ حملہ آور نے فٹ پاتھ پر پیدل جانے والے پانچ افراد پر گاڑی چڑھا کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ تاہم حملے میں شدید طور پر زخمی ہونے والا ایک نو برس کا بچہ زندہ بچ گیا جو اسپتال میں اب بھی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا، ''لندن کی مسلم برادری اور پورے ملک کی مسلم کمیونٹی کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہماری کسی بھی برادری میں اسلامو فوبیا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ عیاری و مکاری پر مبنی اس نفرت کو رکنا ہی ہو گا۔'' عینی شاہدین نے گلوبل نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ انہوں نے گاڑی کو سڑک کی درمیانی پٹی کے اوپر آتے ہوئے دیکھا اور انہیں ایسا لگا جیسے یہ اچانک سڑک کے دوسری جانب سے آ گئی ہو۔ حملہ آور ڈرائیور کو ایک قریبی مال کی پارکنگ سے گرفتار کر لیا گیا۔ اسے عمدا ًاقدام قتل کے چار الزامات اور قتل کی کوشش کرنے کے ایک الزام کا سامنا ہے۔ خفیہ ایجنسی سے وابستہ ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس سے اس بات کے لیے صلاح و مشورہ جاری ہے کہ ملزم پر دہشت گردانہ قانون کے تحت کیس درج کیا جائے۔ متاثرین کون ہیں؟ پولیس نے بتا یا ہے کہ جو چار افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے، اس میں ایک 74 سالہ خاتون، 46 سالہ ایک مرد، 44 سالہ ایک خاتون اور ایک پندرہ برس کی لڑکی شامل ہے۔ نو برس کا ایک لڑکا بھی شدید طور پر زخمی ہوا ہے جس کا مقامی اسپتال میں علاج جاری ہے۔ حکام کے مطابق زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ بچہ شاید بچ جائے۔ اہل خانہ نے پولیس سے متاثرین کے نام افشا نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ متاثرہ خاندان کے ایک دوست زاہد خان نے ایسو سی ایٹیڈ پریس سے بات چیت میں کہا کہ متاثرین میں ایک دادی، ماں باپ اور ایک کم عمر بچی شامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ خاندان تقریباً چودہ برس قبل پاکستان سے ہجرت کرکے کینیڈا آ یا تھا اور ایک مقامی مسجد کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ ''وہ چہل قدمی کے لیے باہر نکلے تھے۔یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔'' لندن کے میئر ایڈ ہولڈر نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''یہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی قتل عام کی ایک واردات ہے جس کی جڑیں گھٹیا نفرت پر مبنی ہیں۔ یہ نا قابل بیان نفرت اور اسلامو فوبیا پر مبنی حرکت ہے، جس کا جواب انسانیت اور ہمدردی سے دینے کی ضرورت ہے۔'' ہولڈر کا کہنا ہے کہ لندن تقریباً چار لاکھ آبادی پر مشتمل شہر ہے جس میں تقریبا 30 سے چالیس ہزار مسلمان آباد ہے اور متاثرین کے احترام میں شہر میں تین دن تک قومی پرچم کو سر نگوں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

اصطلاحات حدیث

 اصطلاحات حدیث (عربی: مُصْطَلَحُ الحَدِيْث‎) حدیث اقسام حدیث، راویان حدیث وغیرہ کے علم کو اسلام میں بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ جس کے لیے کئی اصطلاحات حدیث وضع کی گئی ہیں۔

بنیادی اصطلاحات

علم مُصطلح الحدیث کی 14 بنیادی اصطلاحات ہیں :

علم المُصطلح: 

وہ علم جس کے ذریعہ سے حدیث کے سند و متن کے احوال کی معرفت حاصل کی جاتی ہے تاکہ حدیث کے قبول و عدم کا فیصلہ کیا جاسکے۔

موضوع: 

اِس میں حدیث کے سند اور متن کے صحیح یا موضوع ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے

غایت: ترميم

اِس اصطلاح میں علم کی بابت صحیح و سقیم احادیث کے درمیان امتیازی خط کھینچنا ہوتا ہے۔

الحدیث: 

حدیث کے لغوی معنی جدید یا نئی چیز کے ہیں اور اِس کی جمع خلافِ قیاس الاحادیث آتی ہے۔ اِصطلاح حدیث میں ہر اُس قول، فعل یا تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے جس کی نسبت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی جاتی ہو۔ تقریر سے مراد وہ فعل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سامنے کیا گیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ تو اِس کے کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا بلکہ اِس پر سکوت فرمایا۔

الخبر: 

اِس کے لفظی معنی تو عام خبر کے ہیں اور اِس کی جمع الاخبار ہے۔ اصطلاحی تعریف میں تین اقوال مشہور ترین یہ ہیں کہ:

(ا) پہلا قول یہ ہے کہ خبر بالکل حدیث کے ہم معنی لفظ ہے یعنی باہم خبر اور حدیث مترادف ہیں۔

(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ خبر کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس مفہوم میں حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول کلام کو سمجھا جاتا ہے اور خبر اُس کلام کو کہتے ہیں جس کی نسبت خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہ ہو بلکہ کسی اور شخصیت سے منسوب وہ کلام ہو۔ یہ قول اول کے برعکس ہے۔

(ج) تیسرا قول یہ ہے کہ حدیث سے زیادہ عام لفظ خبر ہے، یعنی حدیث اُس کلام کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہو اور خبر اُس کلام کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا کسی اور شخص سے منقول ہو۔

عموماً علما و محدثین دوسرے قول کی نسبت زیادہ اعتماد کرتے ہیں کیونکہ اُس میں خبر کی وضاحت آسان ہے۔ اگر پہلے اور تیسرے قول کو اپنایا جائے تو تمام اخبار احادیث میں شامل ہوجائیں گی اور حدیث کا اطلاق خبر پر بھی ہونے لگے گا۔ ابتدائی محدثین خبر کو بھی حدیث ہی جانتے تھے مگر تدوین فقہ کے زمانہ میں خبر کو حدیث سے الگ کر لیا گیا۔

الاثر: 

اِس کے لفظی معنی ہیں : کسی چیز کا باقی ماندہ نشان یا علامت۔ اِصطلاح میں اِس کے دو اقوال ہیں :

(ا) پہلا قول یہ ہے کہ لفظ اثر، حدیث کے ہم معنی ہے اور باہم دونوں مترادف ہیں۔

(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ اِس لفظ کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس میں اثر وہ قول یا فعل ہے جس کی نسبت صحابہ کرام یا تابعین یا تبع تابعین کی طرف سے کی گئی ہو۔  دوسرا قول یہ ہے کہ اِس لفظ کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس میں اثر وہ قول یا فعل ہے جس کی نسبت صحابہ کرام یا تابعین یا تبع تابعین کی طرف سے کی گئی ہو۔

محدثین عظام اثر کا مفہوم دوسرے قول کی نسبت سے لیتے ہیں۔

الاسناد: 

اِس کے دو مفہوم ہیں :

(ا) حدیث کی نسبت اُس کے قائل کی طرف کرنا۔

(ب) متن حدیث تک پہنچانے والے سلسلہ سند کے رجال، یہ لفظ سند کے ہم معنی ہی ہے۔ محدثین عظام اِسی قول کو تسلیم کرتے ہیں۔

السَنَد: 

اِس کا لغوی معنی ہے : سہارا۔ مُصطلح الحدیث میں سند کے ذریعہ جو کسی بھی حدیث میں مروی ہوتی ہے، اُس کی ثقاہت کا انحصار اِسی سند پر ہوتا ہے۔ اِس اصطلاح میں سند اُس سلسلہ رجال کو کہا جاتا ہے جو حدیث کے متن تک پہنچا دے۔ کسی بھی حدیث کی ثقاہت جاننے کے لیے سند اہم ستون ہے، گویا ایک سیڑھی ہے جس کے سہارے حدیث کے متن تک پہنچا جاتا ہے۔

المَتَن: 

متن کا لغوی معنی ہے : زمین کا وہ سخت حصہ جو سطح زمین سے کچھ بلند ہو۔ اِصطلاح میں اِس سے مراد کلام کا وہ حصہ ہے جس پر سند کا سلسلہ ختم ہو جائے۔

المُسنَد: 

اَسنَد سے اسم مفعول ہے یعنی جس کی طرف کوئی جزء منسوب ہو۔ اِصطلاح میں اِس کے لیے تین اقوال مشہور ہیں :

(ا) ہر وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی الگ الگ مرویات جمع کی گئی ہوں۔ اِس اعتبار سے بیشتر کتب ہائے حدیث تالیف کی گئی ہیں جن میں امام احمد بن حنبلکی مُسنَد احمد بن حنبل مشہور ہے۔

(ب) ہر وہ مرفوع حدیث جو سند کے اعتبار سے متصل ہو۔

(ج) تیسرے قول کے مطابق یہ ہے کہ اِس سے سند مراد لی جائے۔ اِس صورت میں مصدر میمی بمعنیٰ اسناد ہوکر سند ہی کے ہم معنی ہوگا۔

المُسنِد: 

وہ شخص جو سند کو حدیث کے ساتھ روایت کرے، خواہ وہ اُس حدیث کا علم رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔

المُحَدِّث: 

اِس سے مراد وہ شخص ہے جس کا شغف روایت و درایت کے اعتبار سے علمحدیث اور اُسے اکثر روایات اور اُن کے رواۃ کے احوال کا علم ہو، ایسا شخص محدث کہلاتا ہے۔

الحَافِظ: 

حافظ کے متعلق محدثین کے دو اقوال ہیں :

(ا) بیشتر محدثین کے نزدیک یہ لفظ محدث کے معنی میں لیا جاتا ہے۔

(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ حافظ کا درجہ محدث سے قدرے بلند ہوتا ہے کیونکہ اُسے محدثین کے ہر طبقہ میں سے اکثر کا علم ہوتا ہے۔

الحَاکِم : 

الحاکم کی اصطلاح بعض محدثین عظام کے اقوال میں اُس شخص پر لازم آتی ہے جس کا علم جملہ احادیث پر محیط ہو، چہ جائیکہ جو احادیث اُس کے علم میں نہ ہوں اُن کی تعداد محض مختصر ہی ہو۔

ذرائع خبر 

ہم تک خبر یعنی حدیث کے پہنچنے کے دو اہم ذرائع ہیں : خبر متواتر اور خبر آحاد۔

  • اگر خبر کی روایت کے سلاسل میں تعداد متعین نہ ہو تو اُسے خبر متواتر کہا جاتا ہے۔
  • اگر خبر کی روایت کے سلاسل کی تعداد متعین ہو تو اُسے خبر آحاد کہا جاتا ہے۔

خبر متواتر: 

اِس کی لغوی تعریف یہ ہے کہ متواتر لفظ تواتر سے مشتق ہوکر اسم فاعل بنا ہے جس کے معنی ہیں : پے در پے ہونا۔ مثال جیسے کہ مسلسل بارش کی صورت میں کہا جاتا ہے : تواتر المطر، یعنی مسلسل بارش ہوئی۔ اصطلاحی تعریف میں متواتر اُس حدیث کو کہتے ہیں جسے ہر زمانہ میں محدثین اور علما کی کثیر جماعت نے اِس قدر روایت کیا ہو کہ اُس کا کذب بیانی پر متفق ہونا محال ہو۔[1]

اِس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ خبر متواتر سے مراد وہ حدیث یا خبر ہے جس کے سلسلہ روایت کے ہر طبقہ یا مرحلہ روایت میں راویوں کی اتنی بڑی تعداد ہو کہ عقل کے نزدیک اُن سب کا اِس حدیث یا خبر کو من گھڑت کہنے پر متفق ہونا محال ہو جائے۔

Why don't politicians talk about lynching?

 جمعیۃ ہند کے ایک وفد نے دہلی کے سوروپ وہار نزد بھلسوا ڈیری علاقہ جہانگیرپوری میں ماب لنچنگ کے شکار ہوئے سرفراز ولد بھورا خان مرحوم کی ماں اور دیگر اہل خانہ سے ملاقات کرکے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

جمعیۃ علماء ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق سورپ وہار میں رہنے والی خوشنما بیوہ بھورا خاں، اپنی دو نوعمر بچیوں کے سا تھ رہتی ہے، جس کے گھر میں ان کا ایک 22سالہ بیٹا سرفراز تنہا کمانے والا تھا، جب جمعیۃ علماء ہند کا وفد اس کے گھر پہنچا تو ماں انتہائی غم میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وفد میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، مولانا قاری عبدالسمیع نائب صدر جمعیۃ علماصوبہ دہلی، مولانا ضیاء اللہ قاسمی، مولانا یسین جہازی، عظیم اللہ صدیقی اور مولانا رحمت اللہ بوانہ شامل تھے۔

اہل خانہ نے وفد کو بتایا کہ 23 مئی کی رات نو بجے سرفراز عمر 22 سال جو کسی دوست کے کہنے پر باہر نکلا، وہ دیر رات تک واپس نہیں آیا، 24 مئی کی صبح آگے کی گلی سے اس کی لاش ملی، جسے محلے کے شرپسندوں نے باندھ کر بڑ ی بے رحمی سے مارا تھا

اور اس سے موت ہوگئی تھی۔ موت کس حالت میں ہوئی اوراسے کس طرح مارا گیا، یہ اب تک پردہ خفا میں ہے، مرحوم کے بہنوئی کہتے ہیں کہ اسے کچھ لوگوں نے باندھ کر پوری رات پیٹا، مارنے والی گلی میں سبھی لوگ اسے جانتے تھے، لیکن انسانیت پر حیوانیت حاوی تھی۔

سوروپ نگر تھانہ پولس نے ایف آئی نمبر 0249کے تحت کچھ غیر معلوم لوگوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی ہے اور دو تین لوگوں کوگرفتار بھی لیا ہے کچھ لوگوں کے خلاف نامزد ایف آئی آر بھی درج کی ہے اور تین غیر مسلم گرفتار بھی ہیں، لیکن انصاف کی اس ڈگر سے ماں مایوس ہیں، وہ کہتی ہے کہ ان کے بچے کو شیطان نے ماردیا، شوہر گزرجانے کے بعد وہ میرے لیے سہارا تھا، لیکن خدا کے علاوہ اب میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔ بیوہ خاتون کا گھر ایک مختصر سی دکان سے چلتا ہے،جو گھر کے نیچے قائم ہے، لیکن دکان میں کچھ خاص سامان نہیں ہے۔

ریلیز کے مطابق بیوہ خاتون نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا محمود مدنی صاحب کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں تعاون کی اپیل کی ہے۔ جمعیۃعلماء ہندکے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے ان کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے، اس سلسلے میں جمعیۃ علماء صوبہ دہلی کے نائب صدر قاری عبدالسمیع صاحب اور مولانا ضیا اللہ قاسمی صاحب ان کے اہل خانہ سے رابطہ میں رہیں گے اور ان کی ہر ممکن مدد کریں گے، اگر قانونی چارہ جوئی میں بھی کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے تو جمعیۃعلماء ہند ان کی مدد کرنے کو تیار ہے -