https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 5 September 2021

قرآنی آیات پڑھ کر کھانے پینے کی چیزوں پردم کرنا

 ایک حدیث میں مذکور ہے کہ ایک موقع پر نبی کریم ﷺ کو ایک بچھو نے کاٹ  لیا تو  آپ ﷺ نے پانی اور نمک ملایا،  پھر نبی کریمﷺ معوذتین پڑھتے جاتے تھے اور وہ پانی زخم پر ڈالتے جاتے تھے۔ 

لہذا کھانے پینے کی چیزوں پر قرآنی آیات پڑھنا نصوص سے ثابت ہے۔ 

مشكاة المصابيح (2 / 1287):
"عن علي قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة يصلي فوضع يده على الأرض فلدغته عقرب، فناولها رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعله فقتلها، فلما انصرف قال: «لعن الله العقرب ما تدع مصلياً ولا غيره أو نبياً وغيره»، ثم دعا بملح وماء، فجعله في إناء، ثم جعل يصبه على أصبعه حيث لدغته، و يمسحها، ويعوذها بالمعوذتين".

عن رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أنَّهُ دخلَ علَى ثابتِ بنِ قيسٍ – وَهوَ مريضٌ – فقالَ اكشفِ البأسَ ربَّ النَّاسِ عن ثابتِ بنِ قيسِ بنِ شمَّاسٍ ثمَّ أخذَ ترابًا من بَطحانَ فجعلَهُ في قدَحٍ ثمَّ نفثَ عليهِ بماءٍ وصبَّهُ عليهِ(سنن أبي داود:3885)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاں آئے جبکہ وہ مریض تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : اے لوگوں کے پالنے والے ! اس تکلیف کو ثابت بن قیس بن شماس سے دور فرما دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی بطحان کی مٹی لی ,اسے ایک پیالے میں ڈالا  پھر اس پر پانی پھونک کر ڈالا اور پھر اسے اس پر چھڑک دیا ۔

حافظ ابن حجر ؒنے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔(فتح الباری:10/233)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جید کہا ہے ۔(الفوائد العلمية من الدروس البازية: 2/472)

 اس روایت میں صاف مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے پہلے پانی پر دم کیا پھر وہ دم شدہ پانی وادی بطحان کی مٹی میں ملایا اور مریض پر جھڑک دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دم شدہ پانی سے مریض کو غسل بھی دے سکتے ہیں ۔

بخاری شریف میں ایک صحابی اور ان کی اہلیہ کا نبی ﷺ کے لیے  خندق کے موقع سے کھانا پکانے کا ذکر ہے ، اس کا چند ٹکڑا یہاں پیش کرتا ہوں ۔

فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( لاتنزلن برمتكم، ولا تخبزن عجينتكم حتى أجيء ) . فجئت وجاء رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقدم الناس حتى جئت امرأتي، فقالتْ : بك وبك، فقُلْت : قد فعلت الذي قُلْت، فأخرجت له عجينا فبصق فيه وبارك، ثم عمد إلى برمتنا فبصق وبارك(صحيح البخاري:4102)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک میں نہ آؤں تم ہانڈی چولہے پر سے نہ اتارنا اور نہ آٹے کی روٹیاں بنانا یہ سن کر میں ( گھر میں) آیا اور نبیﷺ لوگوں کو اپنے پیچھے لیے ہوئے آپﷺ آگے تشریف لائے ۔میں اپنی بیوی کےپاس آیاتووہ مجھے برابھلا کہنےلگیں۔میں نے کہا کہ تم نے جوکچھ مجھ سے کہا تھا میں نے حضور اکر م ﷺ کےسامنے عرض کردیا تھا۔آخر میری بیوی نےگندھا ہوا آٹا نکالا اور حضورﷺ نے ا س میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کردی اور برکت کی دعا کی پھر ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی ۔




Thursday 2 September 2021

قیلولہ کا وقت اور مدت

 "قیلولہ "کے معنی ہیں: دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لیٹنا، خواہ نیند آئے یا نہ آئے. ( عمدۃ القاری للعینی)

"قیلولہ" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول رہا ہے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "دن کے سونے کے ذریعے رات کی عبادت پر قوت حاصل کرو. (شعب الایمان للبیہقی) نیز دوپہر کو سونا عقل کی زیادتی اور کھانے کے ہضم کا باعث بھی ہے. قیلولہ کی کم ازکم یا زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق تلاش کے باوجود کوئی روایت نہیں ملی.یہ سوال کہ آیا نمازِ ظہر سے پہلے ہو یا بعد میں؟ روایات سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا عام معمول "غداء "کے بعدسونے کا ملتا ہے،"غداء "دوپہر کا کھانا ہے جو ظہرسے پہلےکھایا جاتاہے، البتہ جمعہ کے دن کے متعلق روایات میں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد کھانا اورقیلولہ ہوتاتھا۔

اس زمانے میں جمعہ کے علاوہ باقی دنوں میں دوپہر کا کھانا ظہر سے پہلے کھانے کا معمول تھا، اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ ظہر سے پہلے کھانا کھا کر قیلولہ کی عادت بنائی جائے۔ البتہ ظہر کے بعد کھانا کھا کر قیلولہ کی نیت سے لیٹنے سے بھی قیلولہ کی سنت پوری ہوجائے گی۔

عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: استعینوا بطعام السحر علی صیام النہار والقیلولة علی قیام اللیل۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الصیام / باب ما جاء فی السحور، رقم: ۱۶۹۳ )وفی روایة: وبقیلولة النہار علی قیام اللیل۔ (صحیح ابن خزیمة رقم: ۱۹۳۹)اخرج الطبرانی فی الأوسط بسندہ عن أنس رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: قیلوا؛ فإن الشیطان لا یقیل۔ (فتح الباری، کتاب الاستئذان / باب القائلة بعد الجمعة)

جدید کورس کھلے عام نفرت اورتعصب

 بھارت کی معروف جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں جہادی دہشت گردی کے نام سے ایک نیا کورس متعارف کرایا گیا ہے، جس میں 'جہادی دہشت گردی' کو مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل اور سابقہ سوویت یونین اور چین کو 'ریاستی دہشت گردی کے اہم اسپانسر' قرار دیا گیا ہے۔

نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں اس برس نئے تعلیمی سال سے انسداد دہشت گردی پر کورس شروع ہونے سے پہلے ہی تنازعہ ہو گیا ہے۔ سول سوسائٹی اور دانشوروں نے اسے'نفرت پھیلانے کی کوشش' قرار دیا ہے جبکہ بائیں بازو کی جماعتوں نے یہ کورس پڑھانے کی اجازت نہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) عمرانیات اور سماجیات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھارت کی بہترین یونیورسٹیوں میں دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے باہمی تبادلہ خیال کے بغیر ہی رواں تعلیمی سال سے ایک نیا کورس شروع کرنے کی منظوری دے دی۔

سول سوسائٹی، دانشوروں اور ماہرین سماجیات کو اعتراض اس بات پر ہے کہ اس کورس کے لیے جو نصاب مرتب کیا گیا ہے اس میں 'بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی' کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ 'صرف جہادی دہشت گردی' ہی بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل ہے۔ اس کے علاوہ سابقہ سوویت یونین اور چین 'ریاستی اعانت سے کی جانے والی دہشت گردی کے اہم ممالک' رہے ہیں۔

کیا دوسرے مذاہب میں دہشت گردی نہیں ہے؟

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر یہ کورس ہی غلط ہے کیونکہ یہ ایک مخصوص مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش ہے۔

ظفرالاسلام خان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "اگر یونیورسٹی کو مذہبی دہشت گردی سے متعلق مضمون اپنے کورس میں شامل کرنا اتنا ہی ضروری تھا تو اسے تمام مذاہب کو اس میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ کس مذہب میں دہشت گردی نہیں ہے؟ ہندوؤں میں ہے، سکھوں میں ہے، بودھسٹوں میں ہے، مسیحیوں میں ہے، یہودیوں میں ہے۔ ہر جگہ اس طرح کی تحریکیں پہلے بھی تھیں اور آج بھی ہیں۔"

ظفرالاسلام خان مزید کہتے ہیں، "حالانکہ ہندوتوا میں اس طرح کی تحریکیں بھری پڑی ہیں۔ بجرنگ دل اور کرنی سینا جیسے نہ جانے کتنی سینا ہیں۔ اور یہ جو بے گناہ لوگوں کو سر عام قتل کیا جا رہا ہے وہ کون کر رہا ہے؟۔۔۔ یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں بھی ایسے لوگ ہیں۔ داعش وغیرہ ہے۔ لیکن ہم اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔"

'جہاد ایک عالمی چیلنج'

اس کورس کو پروفیسر اروند کمار نے تیار کیا، جو جے این یو میں امریکی، لاطینی امریکی اور کینیڈین اسٹڈیز کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ پروفیسر اروند کمار کی دلیل ہے، "پوری دنیا اسلامی دہشت گردی کو تسلیم کرتی ہے اور طالبان کی آمد کے بعد اسے ایک نئی رفتار مل گئی ہے۔ جہاد ایک عالمی چیلنج ہے اور ایسے وقت میں جب کہ طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ موضوع پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ میری معلومات کی حد تک کسی دوسرے مذہب میں دہشت گردی کو اختیار کرنے کی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی ہے۔"

ظفر الاسلام کا تاہم کہنا ہے، "اگر دوسرے مذاہب میں مذہبی دہشت گردی نہیں ہے تو لنچنگ کیا ہے؟ بھارت میں جس کا مظاہرہ آئے دن ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس طرح کے کورس کا اصل مقصد مسلمانوں اور اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنا ہے۔ یہ غلط فہمی پھیلانا ہے کہ مسلمان قابل اعتماد نہیں ہیں اور ہر مسلمان ممکنہ طور پر دہشت گرد ہو سکتا ہے۔"

تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش

بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) نے اس کورس کو پڑھانے کی اجازت نہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سی پی آئی کے رکن پارلیمان بنوئے وسووم نے بھارتی وزیر تعلیم کو ارسال کردہ خط میں لکھا، "یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ادھوری سچائی اور دانشورانہ بے ایمانی کے ذریعے تعلیم کو فرقہ وارانہ اور سیاسی رنگ میں رنگنے کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔''

سی پی آئی کے رکن پارلیمان کا مزید کہنا تھا، "جہادی دہشت گردی کو بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل اور سوویت یونین اور چین کو دہشت گردی کی اعانت کرنے والے اہم ممالک قرار دینا نہ صرف تاریخی لحاظ سے غلط ہے بلکہ یہ تعصب اور سیاسی مفادات پر مبنی ہیں۔"

آخر اتنی جلد بازی کیا تھی

جواہر لال نہرو یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی سیکرٹری موسمی باسو کا اس حوالے سے کہنا ہے، "اگر مذہب کو دہشت گردی سے اس طرح جوڑ دیا جائے تو سڑک پر چلنے والے عام آدمی اور دانشوروں میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟ کیا میانمار اور سری لنکا میں کوئی فرق ہے؟ کیا وہاں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اسے بودھسٹ دہشت گردی کہہ سکتے ہیں؟"وہ کہتی ہیں کہ اگر دہشت گردی کو ایک نئے مضمون کے طور پر شامل کرنا اتنا ضروری ہی تھا تو پہلے خاطر خو اہ تبادلہ خیال کر لیا جاتا۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کہتے ہیں کہ جے این یو نے تین برس پہلے ہی اس کورس پر کام شروع کر دیا تھا۔ اس وقت جب اس کے بارے میں خبریں سامنے آئی تھیں تو کمیشن نے یونیورسٹی کو نوٹس بھیج کر حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے کہا تھا اور کہا تھا کہ اگر اس طرح کا کوئی کورس زیر غور ہے تو تمام مذاہب کو اس میں شامل کیا جائے۔ لیکن یونیورسٹی نے اپنے تحریری جواب میں اس طرح کا کوئی کورس شروع کرنے کی خبر سے انکار کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کورس کو روکنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دیگر یونیورسٹیاں بھی اسے اپنے لیے مثال بنا سکتی ہیں۔

کیادعاء سے موت کاوقت مقرر بدل سکتاہے ؟

 آدمی کی موت کا وقت اس کی تقدیر سے متعلق ہے اور تقدیر کی درج ذیل دو قسمیں ہیں :

  1. تقدیر مبرم 
  2. تقدیر معلق

پہلی قسم "تقدیر مبرم"  ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔

دوسری  قسم "قضائے معلق"  کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے  یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل  اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :

{يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ}  [الرعد : 13، 39]

ترجمہ: ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کرنے اور اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کا مذاکرہ کرنے کے بعد جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ ﷲِ" ، یعنی: ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس  کے جواب میں ارشاد فرمایا:"أفِرُّ مِنْ قَضَاء ﷲ اِلٰی قَدْرِ ﷲِ". (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283)  یعنی ’’میں  اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں‘‘،  بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : "نفر من قدر الله إلی قدر الله". 

اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :

«لايرد القضاء إلا الدعاء، و لايزيد في العمر إلا البر».

(جامع الترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139)

ترجمہ: ’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے اور صرف نیکی ہی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔‘‘

اس حدیث کی تشریح میں شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں وہ عمر مراد ہے جس کا تعلق تقدیرِ  معلق سے  ہے، یعنی مثلًا کسی کی تقدیر معلق میں لکھا ہے کہ اگر اس شخص نے حج یا عمرہ نہیں کیا تو اس کی عمر چالیس سال ہوگی اور اگر حج یا عمرہ کیا تو اس کی عمر ساٹھ  سال ہوگی، اب اگر وہ حج یا عمرہ کرلیتا ہے تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوجاتی ہے، گویا نیکی کی وجہ سے اس شخص کی عمر میں اضافہ ہوگیا، جب کہ تقدیر مبرم یہی تھی  یہ شخص یہ والی نیکی کرے گا اور اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔

دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس حدیث میں عمر کے بڑھنے سے عمر میں برکت ہونا اور زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق ملنا ہے، یعنی اس کی عمر کے اوقات ضائع نہیں ہوتے؛ اس  لیے وہ تھوڑے سے عرصہ میں اتنے سارے کام اور اعمال کرلیتا ہے جو دوسرے لوگ بہت زیادہ وقت میں بھی نہیں کرپاتے ہیں۔(جیسا کہ بہت سارے اولیاء اللہ کی زندگی کے مشاہدہ سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے۔)

خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی عمر کی جو حتمی مدت اللہ تعالیٰ کے علم میں باعتبار تقدیر مبرم کے ہے، اس میں تو کوئی تبدیلی ہرگز نہیں ہوسکتی ہے ، البتہ روح قبض کرنے والے فرشتہ کی بنسبت عمر میں تبدیلی ہوسکتی ہے، یعنی مثلًا ملک الموت کو حکم دیا گیا ہو کہ فلاں شخص کی روح چالیس سال کی عمر میں قبض کرنی ہے، لیکن پھر اس کی کسی نیکی کی وجہ سے ملک الموت کو حکم ہوجائے کہ اس کی روح چالیس نہیں، بلکہ پچاس سال کی عمر میں قبض کرنی ہے، تو گویا ملک الموت کو حکم دینے کے اعتبار سے تو اس کی عمر میں اضافہ ہوگیا، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں لوح محفوظ میں اس کی عمر ابتداءً  ہی پچاس سال لکھی ہوئی تھی، کیوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کی عمر اللہ کے ازلی علم میں چالیس لکھی ہو اور پھر وہ چالیس سال سے پہلے یا بعد میں مرے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح(4/ 1528):

"و عن سلمان الفارسي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "« لايرد القضاء إلا الدعاء، و لايزيد في العمر إلا البر» (رواه الترمذي).

(وعن سلمان الفارسي): بكسر الراء وتسكن (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "« لايرد القضاء إلا الدعاء»" : القضاء: هو الأمر المقدر، وتأويل الحديث أنه أراد بالقضاء ما يخافه العبد من نزول المكروه به ويتوقاه، فإذا وفق للدعاء دفعه الله عنه، فتسميته قضاء مجاز على حسب ما يعتقده المتوقي عنه، يوضحه قوله صلى الله عليه وسلم في الرقي: هو من قدر الله، وقد أمر بالتداوي والدعاء مع أن المقدور كائن لخفائه على الناس وجودا وعدما، ولما بلغ عمر الشام وقيل له: إن بها طاعونا رجع، فقال أبو عبيدة أتفر من القضاء يا أمير المؤمنين! فقال: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة، نعم نفر من قضاء الله إلى قضاء الله، أو أراد برد القضاء إن كان المراد حقيقته تهوينه وتيسير الأمر، حتى كأنه لم ينزل. يؤيده قوله في الحديث الآتي: «الدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل» ، وقيل: الدعاء كالترس، والبلاء كالسهم، والقضاء أمر مبهم مقدر في الأزل " ولا يزيد في العمر ": بضم الميم وتسكن " إلا البر ": بكسر الباء وهو الإحسان والطاعة. قيل: يزاد حقيقة. قال تعالى: {وما يعمر من معمر ولاينقص من عمره إلا في كتاب} [فاطر: 11] وقال: {يمحو الله ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] . وذكر في الكشاف أنه لا يطول عمر إنسان ولا يقصر إلا في كتاب. وصورته: أن يكتب في اللوح إن لم يحج فلان أو يغز فعمره أربعون سنة، وإن حج وغزا فعمره ستون سنة، فإذا جمع بينهما فبلغ الستين فقد عمر، وإذا أفرد أحدهما فلم يتجاوز به الأربعين فقد نقص من عمره الذي هو الغاية وهو الستون، وذكر نحوه في معالم التنزيل، وقيل: معناه أنه إذا بر لا يضيع عمره فكأنه زاد، وقيل: قدر أعمال البر سببا لطول العمر، كما قدر الدعاء سببا لرد البلاء، فالدعاء للوالدين وبقية الأرحام يزيد في العمر، إما بمعنى أنه يبارك له في عمره فييسر له في الزمن القليل من الأعمال الصالحة ما لا يتيسر لغيره من العمل الكثير، فالزيادة مجازية؛ لأنه يستحيل في الآجال الزيادة الحقيقية.

قال الطيبي: اعلم أن الله تعالى إذا علم أن زيدا يموت سنة خمسمائة استحال أن يموت قبلها أو بعدها، فاستحال أن تكون الآجال التي عليها علم الله تزيد أو تنقص، فتعين تأويل الزيادة أنها بالنسبة إلى ملك الموت أو غيره ممن وكل بقبض الأرواح، وأمره بالقبض بعد آجال محدودة، فإنه تعالى بعد أن يأمره بذلك أو يثبت في اللوح المحفوظ ينقص منه أو يزيد على ما سبق علمه في كل شيء وهو بمعنى قوله تعالى: {يمحو الله ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] وعلى ما ذكر يحمل قوله - عز وجل -: {ثم قضى أجلا وأجل مسمى عنده} [الأنعام: 2] فالإشارة بالأجل الأول إلى ما في اللوح المحفوظ، وما عند ملك الموت وأعوانه، وبالأجل الثاني إلى ما في قوله تعالى: {وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] وقوله تعالى: {إذا جاء أجلهم فلا يستأخرون ساعة ولا يستقدمون} [يونس: 49] والحاصل أن القضاء المعلق يتغير، وأما القضاء المبرم فلا يبدل ولا يغير. (رواه الترمذي) : وكذا ابن ماجه عن سلمان، وابن حبان، والحاكم وقال: صحيح الإسناد عن ثوبان، وفي روايتيهما: «لايرد القدر إلا الدعاء،  ولايزيد في العمر إلا البر، وإن الرجل ليحرم الرزق بالذنب يذنبه»."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 3088):

"والمراد بزيادة العمر البركة فيه، ففي شرح السنة ذكر أبو حاتم السجستاني في معنى الحديث أن دوام المرء على الدعاء يطيب له ورود القضاء، فكأنما رده والبر يطيب له عيشه، فكأنما زيد في عمره، والذنب يكدر عليه صفاء رزقه إذا فكر في عاقبة أمره فكأنما حرمه."

Wednesday 1 September 2021

Two Muslim men accuse police officers of sexual abuse, torture in custody.

 The men, who had been summoned for questioning in a case, said that at least seven police officers were involved in the incident.

Two Muslim men have accused police officers in Jharkhand's Jamshedpur city of torture and sexual abuse after they were called in for questioning last week, news portal TwoCircles.net reported on Tuesday .

The incident occurred on August 26. The men said that at least seven police officers, including Kadma police station in-charge Manoj Kumar Thakur, were involved in the torture.

Thakur has refuted the allegations, but admitted that the two were summoned for questioning.

After the two men were beaten up in the police station, one was asked to lie down on the ground in a room. The police officers allegedly asked the other man to pull down the pants of one who was on the floor.

"I thought they were asking me to show me his injuries," one of the men told TwoCircles.net. "But the policemen allegedly asked him to have sex with the man who was asked to lie down on the floor."

"I started crying and told them to kill me but do not force me to do this...." one of the men added. "I was told: 'If you would not do this, he [the other man] would do that to you.' When I totally refused, I was beaten with boots on my face."

The policemen also used communal slurs when one of the men revealed his full name, according to Maktoob Media.

"You will make this [country] like Taliban [did in Afghanistan]," the police officers allegedly told the men. "Have you seen the plight of Afghanistan? You will be sent there."

The two men received treatment for their injuries after they were released by the police later in the day on August 26. They also claimed that they had been beaten up with sticks and wickets used to play cricket in custody.

The two men have submitted a letter with their complaint to Senior Superintendent of Police, East Singhbhum, M Tamil Vanan. The officer confirmed to TwoCircles.net that he had received their application.

The deputy superintendent of police (headquarter) had been asked to investigate the case, Vanan said, adding that action would be taken once he receives an inquiry report.

The Kadma police station house officer told TwoCircles.net that the two men had been called for interrogation in a case involving elopement of a Muslim man and a Hindu girl.

The police claimed that one of the men called for questioning knows the person who eloped with the woman.

However, the man has refuted the claim. "Even if I were his friend, why should be I tortured for his elopement?" the man asked. "How can I know about the location when I have no idea about his elopement."

One of the men said that the police allowed them to go only after getting their signature on a document, saying that they had no complaints.

A medical report, prepared by MGM Hospital in Jharkhand, also mentioned that this was an "alleged case of assault", reported The Indian Express.

Meanwhile, the case has attracted political attention as no action has been taken since the incident occurred five days ago.

Jharkhand Mukti Morcha leader Babar Khan said that the men were innocent, but had "suffered beyond description". He added that the matter will be taken up with Chief Minister Hemant Soren.

"We are also contemplating a complaint case against the erring policemen in the civil court if no action is taken by the administration," Khan told TwoCircles.net.

Jharkhand Loktantarik Manch convener Ashok Varma said that a fact-finding team will leave for Kadma to investigate the inciden

سپریم کورٹ نئی تقرری میں جسٹس عقیل قریشی کانام کیوں نہیں؟

 منو سیبسٹین

سپریم کورٹ میں ججوں کی 9 نئی تقرریوں کی موجودہ فہرست میں جسٹس عقیل قریشی کی عدم موجودگی بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ جسٹس قریشی سے متعلق تنازعہ پہلی بار 2018 میں منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد وہ اس وقت کے چیف جسٹس سبھاش ریڈی کے سینئر ترین جج بن جانے کے بعد گجرات ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس بننے والے تھے۔ تاہم ان کا تبادلہ بمبئی ہائی کورٹ میں کر دیا گیا،جہاں انہیں پانچویں نمبر پر سنیارٹی کا عہدہ لینا تھا۔ گجرات ہائی کورٹ ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن نے اس منتقلی کی سخت مخالفت کی، جس نے جسٹس قریشی کی ایمان داری اور قابلیت کی سختی سے تصدیق اور وکالت کی۔ اور ان کے تبادلے کو مکمل طور پر غیر منصفانہ قرار دیا۔

مئی 2019 میں سپریم کورٹ کالجیم نے جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ترقی دینے کی سفارش کی۔ تاہم مرکزی حکومت نے جسٹس قریشی کی منظوری پرروک لگادی۔ جبکہ اس فہرست میں تجویز کردہ دیگر ناموں (جسٹس ڈی این پٹیل ، جسٹس وی راماسوبرامنیم اور جسٹس آر ایس چوہان) کو بالترتیب دہلی،ہماچل پردیش اور تلنگانہ ہائی کورٹس میں مقررکیا گیا۔ مرکزی حکومت کی طرف سے منظوری دی گئی تھی۔

اس کی وجہ سے گجرات ہائی کورٹ ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس میں مرکز کو جسٹس قریشی کے بڑے عہد کی سفارش پر عمل کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا۔ جسٹس قریشی کے پروموشن کی وکالت کے لیے جی ایچ سی اے اے کی جانب سے پھلی ایس نریمن،اروند داتار،دشینت دیو، یتن اوجھا، مہر ٹھاکر،پرسی کویتا،جیسے سینئر ایڈوکیٹس کا ایک پینل پیش ہوا۔ تاہم مرکز بغیر کوئی وجہ بتائے اپنے پیروں کو گھسیٹتا رہا۔ سفارش کے چار ماہ بعد ستمبر 2019 میں سپریم کورٹ کالجیم نے وزارت انصاف سے کچھ بات چیت کے بعد ایک علیحدہ تجویز پیش کی، جس کے تحت 
جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ (جہاں تین علاقائی بینچ اور 53 جج تھے) کے بجائے تریپورہ ہائی کورٹ (4 جج ہائی کورٹ) میں ترقی دینے کے لیے کہا گیا۔ ترمیم شدہ تجویز،جو کہ ایک طرح کی ‘تصفیہ’ کی طرح تھی،مرکز نے قبول کر لی اور جسٹس قریشی تب سے تریپورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہیں۔ عدالت نے کالجیم کی سفارشات پر عمل کرنے کے لیے مرکز کے لیے وقت کی حد مقرر کرنے کے مسئلے کو حل کیے بغیر جی ایچ سی اے اے کی درخواست نمٹا دی۔ 
چونکہ ان فیصلوں کے پیچھے کی وجوہات کو عوام کے سامنے ظاہر نہیں کیا جاتا، اس لیے ایک شخص قیاس آرائیوں پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک عام سمجھداری ہے کہ جسٹس قریشی اپنے کچھ فیصلوں کی وجہ سے مرکزی حکومت کے لیے ایک ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ 2010 میں جسٹس قریشی نے گجرات کے اس وقت کے وزیر داخلہ بی جے پی لیڈر امیت شاہ کو سہراب الدین انکاؤنٹر قتل کیس میں دو دن کی پولیس تحویل میں بھیج دیا۔ جسٹس قریشی نے 2012 میں ایک فیصلے میں (ریٹائرڈ) جسٹس آر اے مہتا کی بطور لوک آیکت تقرری کو برقرار رکھا جو کہ ریاستی حکومت کے لیے ایک دھچکا تھا۔ 2016 کے نرودا پاٹیا قتل کیس میں مایا کوڈنانی (جو کہ گجرات حکومت میں وزیر تھے) اور چند دیگر کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے انہیں ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جسٹس قریشی سے متعلق ایک سینئر ایڈوکیٹ،جو آخری لمحات میں فریقین میں سے ایک کے لیے پیش ہوئے، نے جسٹس قریشی کو کیس سے بری کرنے کی درخواست کی۔ جسٹس قریشی نے دوبارہ حکم دینے کے معاملے میں اپنے حکم میں کہا “جب سینئر ایڈوکیٹس آخری مرحلے میں کیس میں پیش ہوتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں کہ کیا یہ بہتر نہ ہوتا اگر وکلاء خود عدالت سے درخواست کرنے کے بجائے ایسا کرتے۔ ” اس واقعہ پر اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا “یہ بہت افسوسناک ہے۔ ہم کچھ نہیں کہیں گے لیکن اس سے ادارے کے امیج اور لوگوں کے اعتماد کو نقصان پہنچتا ہے … ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔” 
مئی 2018 میں ان کی سربراہی میں بنچ نے اوڈ میں گودھرا کے بعد ہوئے فسادات میں ملوث 19 ملزمان کی سزا کو برقرار رکھا،جہاں مارچ 2002 میں ایک ہجوم نے خواتین اور بچوں سمیت 23 افراد کو زندہ جلا دیا تھا۔ جسٹس قریشی نے اپنے فیصلے میں کہا “یہ واقعات اکثر ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم فرقہ وارانہ قرار دیتے ہیں۔ پاگل پن بالکل عام انسانوں کو ایک لمحے میں قاتل راکشسوں میں بدل دیتا ہے، جس سے متاثرین اور ان کے اپنے خاندانوں کے لیے موت اور تباہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑتا۔ ” 
تازہ شفارسات کے مدنظر سپریم کورٹ کالجیم نے ہائی کورٹ کے سینئر ترین چیف جسٹس اے ایس اوکا کو منتخب کیا، لیکن اگلے سینئر چیف جسٹس اے ایس قریشی کو ہٹا دیا۔ کچھ اطلاعات ہیں کہ ستمبر 2019 کے بعد سے تقریبا دو سال تک سپریم کورٹ میں تقرری پرروک اس لیے رہی کہ جسٹس نریمن مصرتھے کہ جسٹس قریشی کو ترقی دی جائے۔ قابل ذکر ہے کہ نو ناموں کی موجودہ فہرست کو پانچ رکنی کالجیم نے جسٹس نریمن کے ریٹائر ہونے کے بعد ہفتے کو منظور کیا تھا۔ اس بار کالجیم کی توجہ سنیارٹی کے مقابلے میں دیگرتنوعات ومتعلقات پر زیادہ تھی،کیونکہ چار ججوں – دو خواتین اور پسماندہ طبقے کے دو افراد – کو ترقی دی گئی ہے۔ لیکن یہ ابھی تک جسٹس قریشی کو ہٹانے کی وضاحت نہیں کرتا،کیونکہ ایک اور خالی عہدہ ہے۔ اگر کالجیم ججوں کے ساتھ کھڑانہ ہوتا ہے اور عدالتی تقرریوں میں ایگزیکٹو کی ہدایت پر عمل کرتا ہے ،تو یہ عدالتی آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ ایسی مثالیں این جے اے سی اور عدلیہ کو عدالتی آزادی کے نام پر عدالتی تقرریوں کا اختیار برقرار رکھتے ہوئے کالعدم قرار دیتی ہیں۔ جسٹس قریشی کی قابلیت پر کبھی کوئی سوال نہیں ہوا،ایک قابل جج جو ہمیشہ آئینی حقوق کے لیے کھڑا رہا ہے۔ جج کے ساتھ کھڑا ہونا جج کی دیانت اور قابلیت کا مضبوط ترین ثبوت ہے۔ جسٹس قریشی کا ہوم بار، گجرات ہائی کورٹ ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن ہمیشہ سے ہے اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں ان کی ترقی کے لیے پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے۔
تریپورہ ہائی کورٹ میں جسٹس قریشی نے عوامی آزادی پر قابل ذکر فیصلہ سنایا ہے سوشل میڈیا پوسٹس میں حکومت پر تنقید کرنے کے بعد گرفتار افراد کو شہری آزادی اور تحفظ کے حوالے سے قابل ذکر فیصلہ دیا ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ 295 اے کے بارے میں ایک حالیہ فیصلے میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے بغیر جان بوجھ کر یا بدنیتی پر مبنی غفلت سے کیے گئے مذہب کی توہین قابل سزا جرم نہیں ہوگا۔ تریپورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ان کے کچھ قابل ذکر اقدامات مندرجہ ذیل ہیں- 
انہوں نے ایک نابالغ لڑکی کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹس کا ازخود نوٹس لیا، ایک ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ایک جوڑے کی خودکشی کی ایس آئی ٹی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ریاست میں کووڈ مینجمنٹ کی نگرانی اور ویکسین کی تقسیم کی نگرانی، شادی کی تقریب کو روکنے کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات کے غلط استعمال کی صورت میں مداخلت؛ COVID کے دوران یتیم خانوں میں بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کی گئیں۔ ضلعی عدلیہ میں خالی آسامیوں کو پُر کرنے کی ہدایات دی گئیں۔ 
انہوں نے اختلافی مقدمات میں فیصلے دیے ہیں ، مثلا ،ان میں گل روکھ گپتا کیس میں گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ سیکولرازم اور انفرادی آزادی پر زور دینے کے لیے قابل ذکر ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ کیا پارسی عورت پارسی نہیں رہے گی اگر اس نے غیر پارسی مرد سے شادی کرلی۔ اس مقدمے میں اکثریت کا موقف تھا کہ غیر پارسی سے شادی کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت نے زرتشتی مذہب کو ترک کر دیا ہے،جبکہ جسٹس قریشی نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے کہا تھا “ایک سیکولر ریاست اور آئینی فلسفہ جو ہم نے اختیار کیا ہے ، یہ تصور کرنا ناممکن ہوگا کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو جائز شادی کی اجازت نہیں ہوگی، جب تک کہ ان میں سے کم از کم ایک ایک اپنے مذہب کوچھوڑنے اور تبدیلی قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔” یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔

یماندار ججوں کے لیے مایوس کن پیغام یہ ہے کہ جسٹس قریشی 7 مارچ 2022 کو ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اس سے قبل 4 جنوری 2022 کو جسٹس آر سبھاش ریڈی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اور عہدہ سپریم کورٹ میں خالی ہونے والا ہے۔ ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ سے قبل جسٹس قریشی کو سپریم کورٹ کا عہدہ دینے سے کترانے کا مطلب یہ ہوگا کہ جو ججز اپنے فرائض کا انجام بہترین طریقے سے دیتا ہے تواسے درکنار کردیا جائے گا۔ یہ پہلی مثال نہیں ہے کہ کالجیم ججوں کو انتظامی زیادتیوں سے بچانے میں ناکام ہو۔ 2017 میں جسٹس جینت پٹیل کو ان کی مناسب ترقی سے انکار کے بعد استعفی دینا پڑا۔ قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ جسٹس پٹیل متنازعہ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کیس کی سی بی آئی تحقیقات کی ہدایت کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اس کی نگرانی کے دوران ہی سی بی آئی نے اس معاملے میں ایک چارج شیٹ داخل کی تھی جس میں آئی بی اور گجرات پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کا نام لیا گیا تھا۔ بار کے کئی سینئر ارکان نے ان کے تبادلے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی،جس کے خلاف کئی بار ایسوسی ایشنوں نے قراردادیں منظور کی تھیں۔ سینئر ایڈوکیٹ دشینت دیو نے ریمارکس دیے تھے کہ جسٹس پٹیل کو حکومت کے دباؤ کے آگے نہ جھکنے پر ہراساں کیا گیا۔ مضمون کے اختتام سے پہلے این جے اے سی کے فیصلے کے ایک اقتباس کا تذکرہ کرنا مناسب ہے- “عدلیہ سے اس ملک کے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کی توقع، انتظامیہ کے دیگر اداروں سے اسے مکمل پر دور اور آزاد رکھ کر ہی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔”

علم الاسناد

 لغت میں اسناد سے مراد ہے: اونچی زمین، پہاڑیا بلندی پر چڑھنا، نیچے سے اوپر جانا۔(۱) عام اصطلاح میں ’’رفع القول إلٰی قائلہٖ‘‘ یعنی قول کی نسبت اپنے کہنے والے کی طرف کرنے کا نام اسناد ہے۔ 

حدیث کی اصطلاح میں حافظ ابن جماعۃؒ(۷۳۳ھ) اور علامہ طیبیؒ(۷۴۳ھ) نے اس کی تعریف ’’ہو رفع الحدیث إلٰی قائلہٖ۔‘‘(۲) اور حافظ ابن حجرؒ (۸۵۲ھ) اور علامہ سخاوی رحمہ اللہ  (۹۰۲ھ) نے ’’حکایۃ طریق المتن‘‘ (۳) سے کی ہے، جن کا حاصل معنی تقریباً ایک نکلتا ہے، یعنی متن تک پہنچنا، کسی حدیث کی سند بیان کرنا، جبکہ سند سے مراد ہے راویوں کا وہ سلسلہ جو حدیث کے ابتدائی راوی سے لے کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی تک پہنچتا ہے۔ اس کی مثال امام بخاری رحمہ اللہ  (۲۵۶ھ) کی اپنی صحیح میں بیان فرمودہ حدیث ہے:
’’ حدثنا مسدد، قال:حدثنا یحیٰی، عن شعبۃ، عن قتادۃ، عن أنس رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حتّٰی یُحبَّ لأَخیہِ ما یحبُّ لِنَفْسِہٖ۔‘‘(۴) 
مذکورہ مثال میں متن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا قول: ’’لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ‘‘ حدیث ہے۔ طریق متن میں مذکور راوی یعنی مسدد، یحییٰ، شعبۃ، قتادہ، اور انس ہیں۔ اسناد امام بخاری رحمہ اللہ  کا یہ قول:’’حدثنا مسدد، قال:حدثنا یحیٰی، عن شعبۃ، عن قتادۃ، عن أنسؓ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔‘‘ ہے۔(۵) 
حدیثی اصطلاح میں سند کو طریق (۶) اور وجہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔(۷) 

اسناد کی اہمیت

اسناد دراصل کسی بھی علم کے قابلِ اعتماد ہونے یا نہ ہونے کا اہم ذریعہ ہے، خصوصاً علم حدیث میں کہ اس کے پورے ذخیرے کا دارمدار سند میں مذکور راویوں پر ہوتا ہے۔ راوی قابل اطمینان ہیں تو حدیث قابلِ قبول ہے، ورنہ نہیں، اس لیے مشہور حافظ علامہ ابو سعد السمعانی رحمہ اللہ  (۵۶۲ھ) ’’أدب الإملاء والاستملاء‘‘ میں لکھتے ہیں: 
’’وألفاظ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا بد لہا من النقل، ولا تعرف صحتُہا إلا بالإسناد الصحیح، والصحۃ في الإسناد لا تعرف إلا بروایۃ الثقۃ عن الثقۃ والعدل عن العدل۔‘‘ (۸) 
’’ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات روایت کرنا ضروری ہے، اور ان کی صحت کی معرفت صحیح سند سے ہوسکتی ہے، اور سند کا صحیح ہونا اس طرح معلوم ہوگا کہ اس کے تمام راوی ثقہ اور عادل ہوں۔ ‘‘
اسناد کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ جن افراد کے ناموں کا مجموعہ ہے، ان کے واسطے سے ہمیں احادیث، تفسیر، اور شریعت کے دیگر مآخذ پہنچے ہیں۔ تو گویا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات، صحابہؓ، تابعین، تبع تابعین اور علمائے امت کے تفسیری اقوال کی صحت وعدمِ صحت کا مدار سند پر ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دین سند پر موقوف ہے، اسی لیے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ  نے فرمایا: ’’اَلْإِسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ۔‘‘(۹) یعنی سند بیان کرنے کا عمل دین کا حصہ ہے، اس لیے حاکم ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ  (۱۸۱ھ) کا مذکورہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: 
’’قال أبو عبد اللّٰہ: فلولا الإسناد و طلب ہٰذہٖ الطائفۃ لہٗ وکثرۃ مواظبتہم علٰی حفظہٖ لدرس منار الإسلام، ولتمکن أہل الإلحاد والبدع فیہ بوضع الأحادیث، وقلب الأسانید، فإن الأخبار إذا تعرت عن وجود الأسانید فیہا کانت بترا۔‘‘(۱۰) 
’’ اگر سند نہ ہوتی، اور سند کے سلسلے میں محدثین کا مذکورہ سخت طرزِ عمل نہ ہوتا تو اسلام کی علامت مٹ چکی ہوتی، جس کے نتیجے میں ملحدین اور اہلِ بدعت جھوٹی حدیثیں گھڑ کر اور اُلٹی سندیں پیش کرکے دین میں گھس جاتے، کیونکہ احادیث کو اسناد سے بے نیاز کردیا جائے تو ان کی بنیاد ختم ہوکر ناقص رہ جائیں گی۔‘‘
اسناد کی مذکورہ بالا اہمیت کے پیش نظر علامہ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس کا جاننا فرضِ کفایہ قرار دیا ہے۔ (۱۱) 
اس لیے کہ سند کے بغیر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات کی تصدیق و تحقیق مشکل تھی، اور فقہ اسلامی کا اصول ہے: ’’مالا یتم الواجب إلا بہٖ فہو واجب‘‘ کہ کوئی چیز فی نفسہٖ واجب نہ ہو، لیکن کسی اور واجب پر اس کے بغیر عمل درآمد ممکن نہ ہو تو وہ چیز بھی واجب ہوجائے گی، چونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات پر عمل درآمد فرض ہے، اس لیے ان ارشادات کو جاننا بھی فرض ہے، اور ان ارشادات کو جانا نہیں جاسکتا، جب تک سند کا معاملہ صاف نہ ہو۔ (۱۲) 
علامہ ابن العربی رحمہ اللہ  (۵۴۳ھ) تو سند کے بغیر روایت کرنے کا نتیجہ سلبِ نعمت کا ذریعہ بتلاتے ہیں، علامہ عبدالحی کتانیؒ (۱۳۸۳ھ) اپنی کتاب ’’فہرس الفہارس والإثبات‘‘ میں ان کی سراج المریدین سے نقل کرتے ہیں: 
’’واللّٰہ أکرم ہٰذہٖ الأمۃ بالإسناد، لم یعطہ أحد غیرہا، فاحذروا أن تسلکوا مسلک الیہود والنصاری فتحدثوا بغیر إسناد، فتکونوا سالبین نعمۃ اللّٰہ عن أنفسکم۔‘‘  (۱۳) 
’’اللہ تعالیٰ نے اسناد کی خصوصیت سے صرف اس امت کو نوازا ہے، لہٰذا دین کی باتیں نقل کرنے میں یہود اور نصاریٰ کی روش پر نہ چلو کہ بغیر سند کے دینی باتیں سنانے لگو، ورنہ تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی یہ نعمت خود اپنے ہاتھوں گنوا بیٹھو گے۔ ‘‘

اسناد کی روایت، آغاز اور ارتقاء 

سند کی ابتداء صغار صحابہؓ کے زمانے میں اس وقت ہوئی، جب اسلامی ریاست داخلی فتنوں کی آماجگاہ بن گئی، مسلمانوں میں مختلف عقائد اور آراء رکھنے والی جماعتیں وجود میں آگئیں، جس کا اثر براہِ راست حدیثی روایات پر پڑا، تو ائمہ حدیث نے سند کا مطالبہ شروع کیا۔ مشہورتابعی امام محمدبن سیرین (۱۱۰ھ) فرماتے ہیں:
 ’’لم یکونوا یسألون عن الإسناد، فلما وقعت الفتنۃ قالوا:سموا لنا رجالکم، فینظر إلٰی أہل السنۃ فیؤخذ حدیثہم وینظر إلی أہل البدع فلا یؤخذ حدیثہم۔‘‘  (۱۴) 
’’فتنوں کے نمودار ہونے سے پہلے سند کا مطالبہ نہیں کیا جاتا تھا۔ جب فتنہ واقع ہوگیا تو ائمہ حدیث راو یوں سے کہنے لگے:اپنے اساتذہ کا نام بتاؤ، چھان بین کے بعد اہلِ سنت رواۃ کی روایت قبول کرتے اور بدعتیوں کی ردکرتے تھے۔ ‘‘
سند کے ابتدائی مطالبے کے سلسلے میں ایک واقعہ امام مسلم رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں بھی ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں: 
’’بشیر بن کعب عدوی حضرت ابن عباسؓ کی خدمت حاضر ہوکر احادیث سنانے لگا۔ آپ نے نہ اس کی حدیث سنی اورنہ اس کی جانب کوئی التفات کیا، بشیر بن کعب آپ کا یہ طرز عمل دیکھ کر کہنے لگا: کیا بات ہے؟ میں دیکھ رہاہوں کہ آپ میری حدیث نہیں سن رہے، حالانکہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنی ہوئی روایت بیان کررہا ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ فرمانے لگے: ایک دور تھا کہ جب ہم کسی کی زبان سے ’’قال رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ سنتے، تو ہماری نگاہیں اس کی جانب دوڑ پرتی تھیں، اور ہم ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے۔ اب جبکہ حالت بدل گئی، لوگوں میں اچھے برے کی تمیز نہیں رہی، تو ہم صرف انہیں باتوں کوقبول کریں گے، جو ہم پہلے جانتے تھے۔‘‘ (۱۵) 
اسی سلسلے میں ایک روایت امام احمدؒ (۲۴۱ھ) اپنی سند سے امام نخعیؒ(۹۶ھ) سے روایت کرتے ہیں:
’’إنما سئل عن الإسناد أیام المختار، وسبب ہٰذا: أنہ کثر الکذب علٰی عليؓ في تلک الأیام۔‘‘ (۱۶) 
فرماتے ہیں: اسناد کا مطالبہ سب سے پہلے مختار کے زمانے میں ہوا۔ سبب اس کا یہ ہوا کہ اس نے حضرت علیؓ پر جھوٹ بولنے میں حد کردی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دورِ صحابہؓ میں سند اپنے مفہوم ’’رفع القول إلٰی قائلہٖ‘‘ کی شکل میں بھی نہیں تھی، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال، افعال اور سیرت کی نسبت آپ کی جانب کرتے تھے اور بعض تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام نامی کے بجائے ایسا وصف ذکر کرتے تھے جو روایت کے متعلق عموماً ذہن میں آنے والے شبہات کو دور کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے اسناد کا مذکورہ طرزِ عمل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سیکھا تھا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بسا اوقات اپنی باتوں کو حضرت جبرئیل علیہ السلام  کی طرف یا اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے، احادیثِ قدسیہ اس کی واضح مثال ہیں۔
اسی طرح اس کا یہ مقصد بھی نہیں کہ اسی وقت ہی تمام احادیث سند کے ساتھ بیان ہونی لگیں، اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے جب کوئی روایت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے براہِ راست نہیں سنی ہوتی، بلکہ کسی صحابیؓ سے سنی ہوتی تو اس کو بیان کرتے وقت سند ذکر نہیں کرتے تھے، چنانچہ صحابی رسول حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ  نے ایک موقع پر فرمایا:
’’عن البراءؓ قال:ما کل ما نحدثکم عن رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سمعناہ منہ، منہ ما سمعناہ، ومنہ ما حدثنا أصحابنا، ونحن لا نکذب۔‘‘(۱۷) 
’’ ہم جتنی احادیث بیان کرتے ہیں وہ ساری ہم نے آپ سے نہیں سنی ہوتی، بلکہ کچھ تو وہ ہیں جو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنی ہیں اور دیگر وہ ہیں جو ہمیں ہمارے ساتھیوں نے سنائی ہیں اور ہم ان کی تکذیب نہیں کرتے۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  حدیث بیان کرنے میں ہمیشہ سند ذکر کرنے کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ ویسے بھی سند کا مطالبہ صحابہؓ سے نہیں ہوتا تھا، بلکہ صحابہؓ دوسروں سے سند کا مطالبہ کرتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو توحدیث رسول کے متعلق اپنی دیانت اور سچائی کا اس قدر اعتماد تھا کہ جب ان سے سند کا مطالبہ کیا جاتا تو وہ ناراضگی کا اظہار فرماتے، چنانچہ ابن الصلاح مقدمہ میں ذکر کرتے ہیں: 
’’وکان أنسؓ یغضب إذا سئل عن حدیث أسمعہ من النبی  صلی اللہ علیہ وسلم ، ویقول: ما کان بعضنا یکذب علی بعض۔‘‘ (۱۸) 
اسی طرح کی ایک روایت ابن عدیؒ(۳۶۵ھ) نے کامل میں لائی ہے، فرماتے ہیں: 
’’وذکر أنس حدیثا، فقال لہ رجل:أنت سمعت عن رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال:نعم، أو حدثنی من لا یکذب، واللّٰہ ما کنا نکذب ولا ندری ما الکذب‘‘(۱۹) 
 ’’ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ  نے حدیث ذکر فرمائی، کسی نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنی ہے؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: ہاں! مجھے اس شخص نے یہ حدیث بیان کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتا، پھر قسم کھا کر فرمایا:خدا کی قسم ہم جھوٹ نہیں بولتے تھے اور نہ جھوٹ کا ہمیں کچھ پتہ تھا۔‘‘
صحابہ رضی اللہ عنہم  کے بعد جب تابعینؒ کا زمانہ آیا تو سند کا مطالبہ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ سید التابعین حضرت حسن بصری رحمہ اللہ  سے مراسیل کی سند کا مطالبہ کیا جانے لگا، ابن عدیؒ نے ضعفاء میں ذکر کیاہے: 
’’قال رجل للحسنؒ: إنک تحدثنا فتقول: قال رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وسلم ، ولو کنت تسند إلی من حدثک؟ فقال لہ:إنا واللّٰہ ما کذبنا ولا کذبنا، ولقد غزوت غزوۃ إلٰی خراسان ومعنا ثلٰث مائۃ من أصحاب محمد۔‘‘ (۲۰) 
’’کسی نے حضرت حسن بصریؒ سے کہا:کہ آپ بلا واسطہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے حدیث نقل کرتے ہیں، اگر آپ اپنے استاذ کا حوالہ دیا کریں؟ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا:خدا کی قسم! نہ ہم نے جھوٹ بولاہے، اور نہ ہمیں جھوٹی بات کہی گئی ہے۔ میں خراسان کے ایک غزوہ میں تین سو صحابہؓ کے ساتھ رہا ہوں(یعنی میں تمہیں کس کس کا نام بتاؤں کہ فلاں روایت میں نے کن کن سے سنی ہے)۔‘‘
یحییٰ بن سعید قطانؒ (۱۹۸ھ) کی رائے میں زمانہ تابعین میں سب سے پہلے اسناد کا مطالبہ مشہور تابعی عامر بن شراحیل شعبیؒ (۱۰۳ھ) نے کیا، محدث رامہرمزیؒ (۳۶۰ھ) لکھتے ہیں:
’’قرأ الربیع بن خیثم علیہ حدیثا، قال الشعبيؓ:فقلت:من حدثک؟ قال عمرو بن میمون، وقلت لہٗ: من حدثک؟ فقال:أبو أیوب صاحب رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وسلم ۔ قال یحیٰی بن سعید: وہٰذا أول ما فتش عن الإسناد۔‘‘(۲۱) 
’’ربیع بن خیثمؒ(۶۵ھ) نے ان کے سامنے حدیث بیان کی، شعبیؒ کہتے ہیں:میں نے کہا:کس نے آپ سے بیان کیا ہے؟ کہا:عمرو بن میمون نے، اور میں نے ان سے (روایت لیتے وقت ) پوچھا تھا کہ آپ سے کس نے بیان کیا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابی ابو ایوب انصاریؓ نے۔ اس کے بعد رامہرمزیؒ لکھتے ہیں: یحییٰ بن سعید نے کہا:یہ سند کے مطالبے کی ابتدا تھی۔‘‘
بہر حال سند کے ساتھ حدیث بیان کرنے کی روایت دورِ صحابہؓ وتابعینؒ میں بھی تھی، مگر نسبتاً کم تھی، ان کا زمانہ گزرنے کے بعد جب وضعِ حدیث کا فتنہ عام ہوگیا اور زمانے کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ وسیع ہوتا گیا تو سند کے ساتھ روایت ذکر کرنا ایک امر ناگزیر قرارپایا، یہاں تک کہ مشہور محدث امام زہری رحمہ اللہ  (۱۱۲ھ) نے-جن کا تعلق صغارِ تابعینؒ کے طبقے سے ہے- بلاسند روایت بیان کرنے کو جرأت علیٰ اللہ قرار دیا، حاکم نے ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں ذکر کیاہے، فرماتے ہیں:
’’حدث عتبۃ بن أبي حکیم أنہ کان عند إسحاق بن أبي فروۃ وعندہ الزہري۔ قال:فجعل ابن أبي فروۃ یقول: قال رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال لہ الزہريؒ: قاتلک اللّٰہ یا ابن أبي فروۃ! ما جرأک علی اللّٰہ لا تسند حدیثک؟ تحدثنا بأحادیث لیس لہا خطم ولا أزمۃ۔‘‘ (۲۲) 
’’ زہریؒ اور ابن ابی فروۃ (۷۰ھ) دونوں کسی مجلس میں تھے، ابن ابی فروۃ (حدیث بیان کرتے ہوئے) کہنے لگا: ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ ۔ زہریؒ نے مخاطب کرتے ہوئے کہا: تیرا ناس ہو ابن ابی فروۃ! تعجب ہے تمہاری جرأت پر، حدیث کی سند نہیں ذکر کرتے؟ بے لگام احادیث بیان کررہے ہو۔‘‘
حاصل یہ کہ اسناد کی ابتدا دورِ صحابہؓ میں ہوئی، پھر کبارِ تابعین کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ رہا، یہاں تک کہ صغار تابعینؒ کے زمانے میں لازمی قرار پائی، چنانچہ سند کے ساتھ روایت اس عہد کا نمایاں طرزِ عمل رہا، جس کی اہمیت کا اندازہ زہریؒ کے مذکورہ بالا قول: ’’تحدثنا بأحادیث لیس لہا خطم ولا أزمۃ‘‘ اور عبداللہ بن المبارکؒ کے قول: ’’الإسناد من الدین، لولا الإسناد لقال من شاء ماشاء‘‘(۲۳) سے معلوم ہوتا ہے۔
انہی حضرات کے معاصر، معروف محدث، امام محمدبن سیرینؒ کا قول بھی اس سلسلے میں مشہور ہے، فرماتے ہیں: ’’إن ہٰذا العلمَ دین، فانظروا عمن تأخذون دینَکم۔‘‘(۲۴) ’’یہ علمِ دین ہے، پس تم دیکھو کہ کس سے یہ دین حاصل کرہے ہو۔‘‘
اس دور کے ائمہ حدیث: امام زہریؒ، ابن سیرینؒ اور ان کے معاصرین نہ صرف روایت کرنے میں سند کا التزام کرتے تھے، بلکہ بعض اوقات ادائیگی میں ایسا انداز اختیار فرماتے تھے، جس سے سامعین کے ذہنوں میں سند کی اہمیت بیٹھ جاتی تھی، چنانچہ اس عہد کے مشہور امام حدیث، امام اعمشؒ(۱۴۸ھ) کا طرزِ عمل ابن حبانؒ(۳۵۴ھ) نے ذکر کیاہے:کہ وہ روایت بیان کرنے کے بعد فرماتے: ’’بقي رأس المال، حدثنا فلان عن فلان عن فلان۔‘‘ (۲۵) گویا وہ اپنے طرزِ ادا سے اس بات کا تصور کراتے کہ روایت میں سند اتنی ضروری ہے کہ اس کے بغیر حدیث تام اور قابلِ قبول نہیں ہوتی، جس طرح بیع (خرید وفروخت) بغیر راس المال کے پوری نہیں ہوتی۔
ائمہ حدیث کے ہاں سند کا مذکورہ التزام اسی طرح پانچویں صدی کے اول نصف تک رہا، جس کے مشہور محدثین میں امام بیہقیؒ(۴۵۸ھ) ، ابونعیمؒ (۴۳۰ھ) اور ابن مندہؒ (۴۷۰ھ) کے نام نمایاں ہیں۔ شام کے مشہور محدث علامہ عبدالفتاح ابوغدۃؒ، علامہ لکھنویؒ (۱۳۰۴ھ) کی ’’الأجوبۃ الفاضلۃ‘‘ پر اپنی تعلیقات میں سند کے ساتھ روایت کرنے والے آخری محدث امام بیہقی  ؒ کو قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں کہ یہ طرزِ عمل صرف بیہقی کے ہاں ملتا ہے، ان کے بعد نسبتاً کم اس کی جھلک ضیاء مقدسی کے ہاں مختارۃ اور ابن عساکرؒ کے ہاں تاریخِ دمشق میں نظر آتی ہے۔(۲۶) 
سند زمانے کے ساتھ ساتھ لمبی ہوتی گئی، جو زمانہ دورِ رسالت کے قریب ہے، اس کی سندیں مختصر ہیں، اور جو زمانہ بعید ہے، وہاں سلسلۂ سند نسبتاً لمبا ہے، چنانچہ حدیثی کتابوں میں سب سے مختصر سند ’’کتاب الآثار‘‘ ، ’’مسند امام اعظم‘‘ اور ’’مؤطا امام مالک‘‘ کی ہیں، جبکہ سب سے لمبی سند بیہقی ؒ (۴۵۸ھ) کی ہے، جس میںسات سے نو تک نام ہوتے ہیں۔
جب سند کا سلسلہ آگے بڑھا، اس میں مذکور راویوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، جس کی وجہ سے کسی راوی کا اپنے استاذ سے سماع کا یقینی طور پر معلوم ہونا مشکل ہوگیا، تو راویانِ حدیث کے طبقات مقرر کیے گئے، اور انہیں مختلف طبقات اور درجات میں تقسیم کرکے سند کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرنے کے لیے بنیاد فراہم کردی گئی، اس سلسلے میں کبار صحابہؓ سے صغار تبع تابعین کے زمانے تک کے راویوں کو بارہ طبقات پر تقسیم کردیا گیا۔(۲۷) 
طبقات متعین کرنے کی افادیت یہ ہے کہ جب کسی راوی کے طبقہ کا تعین ہوگا تو اس کے زمانے کا تعین آسان ہوجائے گا۔ زمانہ معلوم ہونے سے اس با ت کے طے کرنے میں آسانی ہوجائے گی کہ اس راوی نے جس طبقے کے راوی سے روایت کی، وہ روایت ممکن بھی ہے کہ نہیں؟
اس کے بعد سند کے علم کو مزید ترقی دینے کے لیے علمِ رجال کا فن وجود میں آیا، محدثین نے ہزاروں راویانِ حدیث کے حالاتِ زندگی، حصولِ علم اور طلبِ علم کی ہمہ معلومات مرتب کردیں، ثقہ اور ضعیف ہونے کے اعتبار سے ان کا فرق بتادیا، ان کے درجات بناکرسند کی چھان بین آسان کردی، سند کی بنیا د پر حدیث کو پرکھنے اور قبول کرنے کے لیے اصول اور ضوابط مقرر کیے، جو اُصولِ حدیث کے نام سے معروف ہیں۔
علمِ رجال کی تدوین کی وجہ یہ تھی کہ علمِ اسناد اور علمِ رجال کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ علمِ اسناد اس وقت سمجھ میں آسکتا ہے جب کہ رجال کی تفصیلات سامنے ہوں، اس لیے کہ حدیث کے خارجی نقد کی بنیاد علمِ روایت پر ہے، علمِ روایت کی اساس سند پر ہے اور سند کی اساس رجال پر ہے، رجال کی بنیاد پر حدیث کی سند کا تعین ہوگا اور سند کی بنیاد پر حدیث کے خارجی نقد پر بات ہوگی، جس کے نتیجے میں حدیث کا درجہ معلوم ہوگا۔(۲۸) 
علمِ رجال میں پھر علمِ جرح وتعدیل جو علمِ رجال کا ایک اہم شعبہ ہے، اس کا علمِ اسناد کے ساتھ نہایت مضبوط تعلق ہے، اس لیے کہ سند کے رجال سے متعلق عموماً دو پہلو زیر بحث آتے ہیں:
۱:۔۔۔۔۔ ایک پہلو خود رجال کے بارے میں معلومات، ان کی شخصیت، کردار اور ان کی ذات سے متعلق امور، جیسے:ان کے نام، کنیت، نسبت اور پیدائش ووفات کی تفصیلات، اور ان کے اساتذہ، تلامذہ اور طبقہ ودرجہ کا تعین ہے، یہ علمِ رجال کا عام پہلو ہے۔
۲:۔۔۔۔۔ دوسرا پہلو سند کے کسی راویِ حدیث کے قابلِ قبول یا ناقابلِ قبول ہونے کا فیصلہ، اس کے اصول وقواعد، اوران اصول وقواعد کی روشنی میں بالآخر کسی راوی کے قابلِ قبول ہونے یانہ ہونے کا حتمی فیصلہ جس فن کی روشنی میں کیا جاتا ہے، اس کو علمِ جرح وتعدیل کہاجاتاہے۔

۱:- القاموس المحیط: ۳۷، ولسان العرب:۳/۱۲۱
۲:- المنہل الروی:۱/۸۱، الخلاصۃ فی أصول الحدیث للطیبی:۳۳
۳:- نزہۃ النظر للحافظ ابن حجر: ۳۴، وفتح المغیث للسخاوی:۱/۱۴
۴:- صحیح بخاری، کتاب الایمان:۱/۱۲            ۵:- توجیہ النظر لطاہر الجزائری:۲۵، والإسناد من الدین لأبی غدۃ:۱۴
۶:- جیسے کہتے ہیں:’’ہذا الطریق مروي من طریق الثوري:أي من سندہ‘‘ا لمیسر فی علم الرجال، ماجد الغوری:۱۶۰
۷:- ’’والوجہ‘‘جیسا محدثین کاقول: ’’ھٰذا الحدیث حسن غریب من ھٰذا الوجہ۔‘‘ اسی آخری تعبیر کا استعمال امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اپنی ’’جامع ترمذی‘‘میں زیادہ کیا ہے۔المیسر فی علم الرجال، ماجد الغوری:۱۶۰
۸:- ادب الاملاء والاستملاء:۷                ۹:- مقدمہ صحیح مسلم:۱/۱۲
۱۰:- معرفۃ علوم الحدیث، حاکم، ص:۶
۱۱:- مرقاۃ المفاتیح:۱/۲۱۸، الاسناد من الدین:۳۰            ۱۲:- محاضراتِ حدیث:۲۱۷، ڈاکٹر محمود احمد غازی 
۱۳:- فہرس الفہارس والأثبات للکَتانی:۱/۸۰
۱۴:- مقدمہ صحیح مسلم:۱/۱۵، وابن عدی:الکامل ۱/۳۹، وابن حبان:المجروحین من المحدثین: ۲/۲۷
۱۵:- مقدمہ صحیح مسلم:۱/۱۳                    ۱۶:- شرح علل الترمذی لابن رجب:۱/۲۵۵
۱۷:-ابن عدی:۱/۱۵۷                    ۱۸:- مقدمۃ ابن الصلاح:۱/۳۸
۱۹:- ابن عدی: الکامل:۱/۵۱                ۲۰:- مصدرِسابق:۱/۵۱
۲۱:- المحدث الفاصل:۱/۱۲، بحوث فی تارخ السنۃ المشرفۃ:۵۰        ۲۲:- حاکم معرفۃ علوم الحدیث :۶
۲۳:- مقدمہ صحیح مسلم:۱/۱۵                ۲۴:- مقدمہ صحیح مسلم:۱/۱۳
۲۵:- ابن حبان:المجروحین من المحدثین:۱/۹            ۲۶:- الاجوبۃ الفاضلۃ:۱۵۰
۲۷:- محاضراتِ حدیث:۲۲۳                ۲۸:- محاضراتِ حدیث:۱۸۳-۱۸۵

Tuesday 31 August 2021

عورت اگرمہر معاف کرناچاہے تومعاف ہوگایانہیں

 مہر عورت کا حق ہے، عورت اپنی خوش دلی سے اپنا پورا  مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دے تو معاف ہو جاتا ہے، 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 295):
’’ومنها: هبة كل المهر قبل القبض عيناً كان أو ديناً، وبعده إذا كان عيناً‘‘.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 113):
’’(وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا، ويرتد بالرد، كما في البحر‘‘. 

جواہرلال یونیورسٹی میں اسلام مخالف نصاب. طالبان کابہانہ

 دنیا کو اسلام کے علاوہ اور کوئی انتہاپسندی کا سامنا نہیں ، نصاب تیار کرنے والے اروند کمار کا دعویٰ

حیدرآباد۔30 اگسٹ(سیاست نیوز) انسداد دہشت گردی کے نام پر جے این یو میں مخالف اسلام نصاب کی شمولیت کو منظوری دی گئی ہے ۔جے این یو کے تعلیمی نصاب میں کئے گئے اضافہ میں 'جہادی دہشت گردی' واحد بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی ہے اور چین و سوویت یونین کی سرکاری سرپرستی میں انتہاء پسندی نے اسلامی دہشت گردوں کو متاثر کیا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے ڈگری کے طلبہ جوکہ بی ٹیک کے بعد عالمی تعلقات میں مہارت کے کورسس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کے نصاب میں اضافہ کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کورس کے اضافہ کا فیصلہ کیا گیا ہے اور فیصلہ کو 17 اگسٹ کو منعقدہ یونیورسٹی اکیڈمک کونسل میں منظوری دے دی گئی ہے لیکن جے این یو ٹیچرس اسوسی ایشن نے الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی اکیڈمک کونسل کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت حاصل نہیں تھی ۔ انسداد دہشت گردی سے متعلق کورس تیار کرنے والے جے این یو اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈین نے بتایا کہ ان کا شعبہ اس نصاب کی تیاری میں شامل نہیں ہے لیکن روچیر گپتا ڈین آف دی اسکول آف انجینئرنگ نے بتایا کہ اروند کمار صدرنشین سنٹر فار کینیڈین ' یو ایس اینڈ لیٹن امریکہ اسٹڈیزاس کورس کو شامل نصاب کرنے کے حق میں تھے اور وہ اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ساتھ اشتراک میں کام کر رہے ہیں۔نصاب تیار کرنے والے اروند کمار نے اس بات کی توثیق کی کہ انہوں نے یہ نصاب تیار کیا ہے اور ان کے مطابق دنیا کو اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب سے مذہبی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا سامنا نہیں ہے۔انہو ںنے دعویٰ کیا کہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جس میں انتہاء پسندانہ جذبات کو ابھارتے ہوئے تشدد پر اکسایا جاتا ہے۔ اروند کمار نے کہا کہ اسلامی دہشت گردی اور شدت پسندی کو دنیا بھر میں قبول کیا جا رہاہے اور اب افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعداس میں مزید اضافہ ہوگا۔ جے این یو میں انسداد دہشت گردی کے نام پر شامل نصاب کئے گئے اس مواد کے سلسلہ میں کہا جار ہا ہے کہ ماسٹرس کرنے والے ان طلبہ کو جو عالمی تعلقات میں مہارت حاصل کرنے کے لئے دوہری ڈگری حاصل کرتے ہیں ان طلبہ کو یہ نصاب پڑھایا جائے گا جس میں اسلام کی شبیہہ کو بگاڑ کرپیش کیا جا رہاہے۔ نصاب میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلامی مذہبی علماء کی جانب سے سائبر اسپیس کے استعمال کے ذریعہ مذہبی جنون میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ ''بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی اور اس کے اثرات '' کے عنوان سے تیار کئے گئے اس ماڈیول میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنیاد پرست مذہبی جنون اور شدت پسندی نے 21 ویں صدی میں دہشت گردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے قرآن کی تحریف شدہ تشریح کا سہارا لیا جا رہاہے۔ نصاب میں یہ تعلیم دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ قرآنی توجیہات کو غلط بیان کرتے ہوئے دہشت گردی میں اضافہ کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور بگاڑ کے ذریعہ ایک جہادی فرقہ کو تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس نئے نصاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کی غلط تشریحات کے ذریعہ خودکشی ' قتل اور مختلف طرز کے واقعات کے ساتھ ہونے والی اموات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس طرح کی بے بنیاد باتوں کے ساتھ تیار کئے گئے تعلیمی نصاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذہبی انتہاء پسندی اور دہشت گردی آن لائن فروغ حاصل کررہی ہے جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے مختلف طبقات کو دہشت گردانہ حملوں کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ غیر اسلامی معاشروں اور سیکولر طبقات پر بھی دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔ حکومت کی نگرانی میں دہشت گردانہ کاروائیوں کے سلسلہ میں نصاب تیار کرنے والے کا دعویٰ ہے کہ سوویت یونین اور چین کے علاوہ مغرب میں اس طرح کے واقعات کی نظیر ملتی ہے جہاں نظریاتی جنگ تھی۔ حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں اور تشدد کے سلسلہ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سوویت اور چین کی کاروائیوں کو اسلامی دہشت گرد تنظیموں نے اختیار کرلیا ہے ۔ سوویت یونین اور چین نے ان کاروائیوں کے لئے کافی مدد کی ہے اور کمیونسٹ طاقتو ںکی جانب سے اسلامی بنیاد پرستوں کی اسلحہ اور دیگر وسائل سے دہشت گرد گروپوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔

Monday 30 August 2021

مسجد میں جماعت ثانیہ کا حکم

 ایسی  مسجد جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز  جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں  اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ  محلے والوں/ اہلِ مسجد  کے  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ  تحریمی ہے، دوسری جماعت  سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہوجائے گی اور اس  سے پہلی جماعت کے افراد  بھی کم ہوجائیں گے اور ہر  ایک یہ سوچے گا کہ میں دوسری جماعت میں شریک ہوجاؤں گا، جب کہ   شریعتِ مطہرہ  میں  جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے  کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ اور نماز کی جماعت میں کثرت بھی مطلوب ہے، جب کہ ایک سے زائد جماعت کرانے میں کثرت کی بجائے تفریق ہے۔

روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے، واپس تشریف لائے تو مسجدِ نبوی میں جماعت ہوچکی تھی، آپ ﷺ نے گھر جاکر گھروالوں کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی، جب کہ مسجد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ملنا مشکل نہیں تھا، انہیں جمع کرکے دوسری جماعت کرائی جاسکتی تھی۔ اس سے معلوم ہواکہ اگر مسجد میں جماعت (بلاکراہتِ تحریمی) جائز ہوتی تو حضور ﷺ بیانِ جواز کے لیے کچھ صحابہ کرام کے ساتھ  مسجد میں دوسری جماعت ادا فرماتے۔ 

ہاں ایسی مساجد جو راستوں پر بنی ہوتی ہیں اور ان کے لیے امام مقرر نہیں ہوتا، جہاں مسافر  آکر اپنی جماعت کراتے ہیں ، اس قسم کی مساجد میں دوسری جماعت جائز ہے۔

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ اسی نوعیت کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’جس مسجد میں کہ پنج وقتہ جماعت اہتمام وانتظام سے ہوتی ہو ،اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ مکروہ ہے؛ کیوں کہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے،اور مسجد میں ایک وقت کی فرض نما زکی ایک ہی جماعت مطلوب ہے،حضورِ انورﷺکے زمانہ مبارک اور خلفائے اربعہ وصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں مساجد میں صرف ایک ہی مرتبہ جماعت کا معمول تھا، پہلی جماعت کے بعد پھر جماعت کرنے کا طریقہ اوررواج نہیں تھا، دوسری جماعت کی اجازت دینے سے پہلی جماعت میں نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے اور جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے ؛ اس لیے جماعت ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا اور اجازت نہ دی۔اور جن ائمہ نے اجازت دی انہوں نے بھی اتفاقی طور پر جماعتِ اولیٰ سے رہ جانے والوں کو اس طور سے اجازت دی کہ وہ اذان واقامت کا اعادہ نہ کریں اور پہلی جماعت کی جگہ بھی چھوڑ دیں تو خیر پڑھ لیں ،لیکن روزانہ دوسری جماعت مقرر کرلینا اور اہتمام کےساتھ اس کو ادا کرنا اور اس کے لیے تداعی یعنی لوگوں کو بلانااور ترغیب دینا یہ تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ،نہ اس کے لیے کوئی فقہی عبارت دلیل بن سکتی ہے ،یہ تو قطعاً ممنوع اور مکروہ ہے‘‘۔(کفایت المفتی ،جلد سوم ، ص:140،کتاب الصلوۃ ،دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

" ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) ... والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ".  (1/ 552، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب  فی تکرار الجماعۃ فی المسجد: ) 


کامیابی کانسخۂ کیمیا

 زندگی کے میدان میں معجزے نہیں ہوتے!

زندگی میں ترقّی اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے جستجو, انتھک محنت اور سخت جدّوجہد کی ضرورت ہے, خوابوں سے تعبیر اور پھر تعمیر تک کے اس ُپرخطر اور مشکل ترین سفرمیں جان کو پگھلانا پڑتا ہے, تب جاکر کامیابی کے ستارے مقدّر بنا کرتے ہیں اور انسان کے خوابوں کی کشتی اپنی منزل کے کنارے جا لگتی ہے۔
کوئی پیاسا شخص دریا کے کنارے بیٹھ کر پیاس بجھانا چاہے اور ہاتھ آگے نہ بڑھاۓ تو یہ شخص پیاسا ہی رہ جائے گا ۔ایسے ہی منزل کے متلاشی شخص کو بھی منزل کے حصول کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے, کسی بھی کام کے انجام دینے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بہت سے مشکل لمحات, انتہائی کٹھن مراحل اور تکلیف دہ راستوں سے گزرنا پڑتا ہے, بہت سی تنگ گھاٹیوں کو عبور کرنا پڑتا ہے, بہت سی باتیں, طعنے اور نہ جانے کیا کچھ سہنا پڑتا ہے۔
سمجھدار لوگ جب کچھ کر گزرنے کے لیے عزم مصمّم کرلیتے ہیں تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے, مسلسل جدّوجہد اور عزم پیہم کے ساتھ اپنے کام کی طرف مکمّل توجّہ دیتے ہیں,کامیابیوں کی سیڑھیوں پر چڑھتے جاتے ہیں اور بالآخر اپنی منزل کو پاہی لیتے ہیں ،جبکہ دوسری طرف وہ لوگ جوکسی معجزے کے انتظار میں رہتے ہیں اور بغیر کچھ کہے بہت کچھ پالینے کی تمنّا اور آرزو کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی تمنّا بس تمنّا ہی رہ جاتی ہے, وہ پیچھے رہ جاتے ہیں,منزل ان سے کوسوں دور چلی جاتی ہے,کامیابی ان سے روٹھ جاتی ہے اور کف افسوس مَلنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔تواگر زندگی میں کامیابی حاصل کرنی ہے اور کچھ کرنے کا جذبہ ہے تو پھر ہر آنے والی مصیبت اور مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا پڑے گا۔ زندگی سے جنگ بھی لڑنا پڑے گی اور چیلنجز کا دلیری سے مقابلہ بھی کرنا ہو گا, جب یہ جذبہ اور ہمّت پیدا ہوجاۓ تو خدا بھی نصرت کرتا ہے اور اس کی خدائی بھی ساتھ دیتی ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

Spurt in communal incidents in Madhya Pradesh's Malwa region.

 For many years, the neighbouring villages of Chandan Khedi and Kanwasa in Madhya Pradesh's Malwa region were known for their communal harmony. Things changed, however, last year.

In Malwa, the region which includes MP cities such as Indore, and Ujjain, at least 12 incidents of communal tension have been reported since September 2020 where section 153 A (promoting enmity between different different groups on grounds of religion, race, place of birth etc) of the Indian Penal Code was invoked. At least 70 people have been charged, at least 70 booked, and the National Security Act has been invoked against 18 people, said the police.

The December 29 chain of events only deepened the communal scars. That day, a fund-raising rally for the Ayodhya temple was allegedly attacked, and some Muslims homes torched in Kanwasa. Chandan Khedi sarpanch Ashok Parasiya said he had never seen communal tension before the December violence. 'Wounds may have healed and houses are being reconstructed but what about the trauma?' he asked.

Saddam Patel, 35, a resident of Chandan Khedi village, whose house was burnt down in the December violence, and suffered a gunshot wound in the leg, said, 'On December 29, people held a rally to collect fund for the construction of Ram temple and shouted slogans against our religion. We objected so they burnt our houses and vehicles. Neither police nor the administration supported us. Instead, they jailed people from our community in a fake case. They also invoked NSA against four of us.'

Four cases have been reported this August itself in the region, with two hitting the headlines -- the assault on bangle seller Taslim Ali in Indore, where he was eventually charged with sexual harassment, and the alleged raising of anti-national slogans at a Muharram procession in Ujjain, which has seen arrests even as questions were raised on the authenticity of video proof. Both Hindu and Muslim organisations have hit the streets in protest over the past week over both the incidents. At least 2,600 people have been booked for attending events held without permission amid the Covid protocols.

Muslim organisations allege that it is the BJP's 'hard Hindutva' at play, with mostly Muslims being charged with NSA. Hindu organisations, however, claim the Popular Front of India (PFI) and Social Democratic Party of India (SDPI) are stoking tensions.

Hindu Jagran Manch, Malwa in-charge Dheeraj Yadav said, 'The minority communities are being misguided by Muslim leaders, especially of PFI and SDPI. They are giving a communal angle to every incident -- whether it is sexual harassment of a minor or sedition. They are trying to create a rift between the communities.'

PFI state president Kafeel Raza countered this with, 'The state government introduced MP Freedom of Religion Act against Love Jihad that give a message to the society that Muslim men are targeting Hindu women.'

Some political experts believe the BJP, which lost its stronghold of Malwa in the last assembly elections, is trying to win it back by following a model based on UP's Yogi Adityanath government even as some Muslim organisations are seeking to establish themselves before the local body elections.

BJP, which won 56 out of 66 seats in Malwa Nimar region in 2013 assembly elections, lost 28 seats in 2018. It salvaged its position a bit by winning six out of seven seats in 2020 by-elections, but still has only 34 seats in the region.

Political expert LS Hardenia said, 'BJP-led state government of MP is following the UP model. BJP leaders in state are trying to win the next assembly election by promoting hard Hindutva. Meanwhile, AIMIM is trying to contest local body election in MP and that's why, its chief Asaduddin Owaisi tweeted about the Indore incident as he wanted to stay relevant by showing sympathy.'

Senior Congress leaders said the BJP is misusing power to create tension in the area. 'Taslim Ali was beaten up in the afternoon and police registered the case at night...There is no doubt that BJP leaders are trying to create disturbance in the society to rule... They are misusing power to harass people of a minor community,' said JP Dhanopia, spokesperson MP Congress Committee.

The BJP, however, calls it a political conspiracy. 'If we go back in 2015, a sudden spurt in communal tension was reported in Malwa ahead of the local body elections. Again, with these polls in a few months, some local parties are trying to do the same now,' he added.

Home minister Narottam Mishra, who has spoken of banning PFI and SDPI, said,'Congress and some anti-national organisations are trying to create disturbance not only in Malwa but across the state.'

Senior police officials in Indore said social media is being used as a tool to promote communal tension. Indore and Ujjain police departments have issued at least six warnings against spreading incorrect messages on social media in the recent past.Indore inspector general of police HN Mishra said, 'The number of cases is increasing as people of both communities misuse social media to circulate videos and photos with wrong captions. A small incident is being blown up so much that people react, leading to tension. But we have been able to control the situation in Indore.'

(With inputs from Neha Jain in Indore)

ایک حدیث کا مطلب

حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا سفيان، عن منصور، والاعمش، عن ابي وائل، قال: جاء معاوية إلى ابي هاشم بن عتبةوهو مريض يعوده، فقال: يا خال، ما يبكيك اوجع يشئزك ام حرص على الدنيا، قال: كل لا، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا لم آخذ به، قال: " إنما يكفيك من جمع المال خادم ومركب في سبيل الله "، واجدني اليوم قد جمعت، قال ابو عيسى: وقد روى زائدة، وعبيدة بن حميد، عن منصور، عن ابي وائل، عن سمرة بن سهم، قال: دخل معاوية على ابي هاشم، فذكر نحوه، وفي الباب عن بريدة الاسلمي، عن النبي صلى الله عليه وسلم.

(ترمذی حدیث :2327کتاب الزہد)

 ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ ابوہاشم بن عتبہ بن ربیعہ القرشی کی بیماری کے وقت ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا: اے ماموں جان! کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے؟ کسی درد سے آپ بے چین ہیں یا دنیا کی حرص ستا رہی ہے، ابوہاشم نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے مجھے ایک وصیت کی تھی جس پر میں عمل نہ کر سکا۔ آپ نے فرمایا تھا: تمہارے لیے پورے سرمایہ میں سے ایک خادم اور ایک سواری جو اللہ کی راہ میں کام آئے کافی ہے، جب کہ اس وقت میں نے اپنے پاس بہت کچھ جمع کر لیا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: 
۱- زائدہ اور عبیدہ بن حمید نے «عن منصور عن أبي وائل عن سمرة بن سهم» کی سند سے روایت کی ہے جس میں یہ نقل کیا ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ ابوہاشم کے پاس داخل ہوئے پھر اسی کے مانند حدیث ذکر کی