https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 8 September 2021

نماز کے مکروہ اوقات

 تین اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل، ادا نماز ہو یاقضا۔ ان تین اوقات میں پڑھی گئی نفل نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ اداہوجائے گی، اور فرض یا واجب نماز پڑھی تو اس کااعادہ لازم ہوگا(سوائے وقتی نمازِ عصر کے کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے شروع کی اور اسی دوران سورج غروب ہوگیاتو کراہت کے ساتھ اداہوجائے گی اور اتنی تاخیر کرناگناہ ہے)۔

اوقات ممنوعہ درج ذیل ہیں:

1۔عین طلوعِ شمس سے لے کر سورج ایک نیزہ بلند ہونے تک۔

 2۔نصف  النہاریعنی استوائے شمس کے وقت ۔ جب سورج دوپہر کے وقت بالکل سر پر آجائے، یہ بہت ہی مختصر وقت ہے، تاہم  فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ احتیاطاً اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد نماز نہ پڑھی جائے۔

 3۔ عصر کے بعد سورج زرد پڑجانے کے بعد سے لے کر سورج غروب ہوجانے تک۔ (سوائے اس دن کی عصر کی نماز)

مذکورہ اوقات کے علاوہ دو اوقات مزید ایسے ہیں جن میں نفل نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے:

(1) صبح  صادق سے طلوع آفتاب (یعنی نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک)

(2) عصر کی نماز ادا کرنے کے  بعد سے غروب تک۔ ان اوقات میں بھی نفل نماز پڑھنامکروہِ تحریمی ہے جب کہ فرائض کی قضا پڑھ سکتے ہیں۔(عمدۃ الفقہ،ص؛57،ط:زوار اکیڈمی)

ان اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے منع کیا گیا ہے، اور نفل کے لیے اضافی دو ممنوعہ اوقات کا ذکر بھی احادیثِ مبارکہ میں ہے، لہٰذا جب حدیث شریف میں ان اوقات میں نماز کی ممانعت ہے تو مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز ادا نہ کرے، خواہ اس کی کوئی اور وجہ ہو یا نہ ہو، یا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔ تاہم مقاصدِ شریعت سے بحث کرنے والے محققین علماءِ کرام نے اَحکامِ شرع کی حکمتیں اور مصالح اور عقلی توجیہات بھی پیش کی ہیں، جن میں سے بعض احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً مذکور ہیں، اور بعض کی طرف نصوص میں اشارہ موجود ہے، اور کچھ عقلِ سلیم کی روشنی میں سمجھ آتی ہیں، لیکن ایسی حکمتوں کی روشنی میں شریعت کے ثابت اَحکام میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

مذکورہ ممنوعہ اوقاتِ نماز کی وجہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ ہے کہ مشرکین ومجوس ان اوقات میں آفتاب کی پرستش کرتے تھے اور اس کو سجدہ کرتے تھے؛ چناں چہ ان کی مشابہت کی سے بچنےکے لیے اس سے منع کیا گیا۔ (حجۃ اللہ البالغہ 2/21، کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

لیکن واضح رہے کہ اس حکمت کا اعتبار  تشریعِ اَحکام کے وقت کیا گیا، لہٰذا اسے دیکھ کر اِس دور میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج سورج کی پرستش کرنے والے مشرکین فلاں فلاں وقت بھی عبادت کرتے ہیں یا مذکورہ اوقات میں نہیں کرتے تو اب ان اوقات میں نماز کی اجازت دی جائے، اور جن اوقات میں کرتے ہوں ان میں منع کردیا جائے، اب شرعی منصوص اَحکام میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں ہے، خواہ وہ ایسی حکمت کی روشنی میں ہو جو منصوص ہو، کیوں کہ شریعت کے اَحکام مقرر ہوجانے کے بعد کسی کو ان میں تبدیلی کا حق نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370، 374):
"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة".

الفتاوى الهندية (1/ 52):
"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع. كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي".
الفتاوى الهندية (1/ 52):
"تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية۔۔۔ ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 375):
"(لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به، (قوله: أو سجدة تلاوة) لوجوبها بإيجابه تعالى لا بفعل العبد كما علمته فلم تكن في معنى النفل"

سب سے افضل دعاء

 

سب سے افضل دعا عافیت کی طلب ہے

سننِ ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ :ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ: ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَيُّ الدُّعَائِ أَفْضَلُ؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ کے رسول! کون سی دعا افضل ہے؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ سَلْ رَبَّکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ‘‘ اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، پھر دوسرے روز بھی یہی سوال وجواب ہوا، پھر تیسرے دن یہ شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا: ’’ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَيُّ الدُّعَائِ أَفْضَلُ؟‘‘۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ کے نبی! کون سی دعا افضل ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سَلْ رَبَّکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ فَإِذَا أُعْطِیْتَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ فَقَدْ أَفْلَحْتَ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، جب تمہیں دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت مل جائے تو تحقیق تم کامیاب ہوگئے۔‘‘
مشکوٰۃ شریف میں بحوالہ ترمذی یہ حدیث مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ فُتِحَ لَہٗ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَائِ فُتِحَتْ لَہٗ أَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ وَمَا سُئِلَ اللّٰہُ شَیْئًا یَعْنِيْ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ أَنْ یُسْأَلَ الْعَافِیَۃَ۔‘‘ یعنی ’’تم میں سے جس کے لیے دعا کے دروازے کھولے گئے، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
مسند احمد بن حنبل میں امیرالمؤمنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں یہ منقول ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہ :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’لَمْ تُؤْتُوْا شَیْئًا بَعْدَ کَلِمَۃِ الْإِخْلَاصِ مِثْلَ الْعَافِیَۃِ فَسَلُوْا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ۔‘‘ ۔۔۔۔۔’’کہ تمہیں کلمۂ اخلاص (کلمۂ شہادت) کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں دی گئی، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بڑی کثرت سے رب العالمین سے عافیت کی دعا مانگا کرتے تھے، احادیثِ مبارکہ میں مختلف الفاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عافیت کی دعائیں مانگنا منقول ہے، اس دعا کو آپ ہمیشہ اپنے معمولات میں شامل فرماتے تھے،چنانچہ ابوداؤد شریف اور دیگرحدیث کی کتابوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح وشام نہایت پابندی سے ان الفاظ کے ذریعہ دعا مانگتے:’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ دِیْنِيْ وَدُنْیَايَ وَأَہْلِيْ وَمَالِيْ اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِيْ۔‘‘ بہتر تو یہی ہے کہ یہ پوری دعا یاد کی جائے اور صبح و شام اس کے پڑھنے کو معمول بنایا جائے، تاہم مکمل یاد نہ ہوتو کم ازکم ’’ اللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ! میں آپ سے دنیاوآخرت کی عافیت طلب کرتا ہوں۔‘‘ نہایت ہی مختصر سے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ اس دعا کو یاد کرلینا چاہیے، اور اگر عربی الفاظ یاد نہ ہوں تو اُردو میں یہ دعا مانگ لیا کریں۔ یہ دعااللہ رب العزت کو بڑی پسند ہے، بندے اپنے پروردگار سے عافیت مانگتے رہیں، اللہ اس مانگنے کو سب سے زیادہ پسند فرماتاہے ۔

کیااونٹ کاگوشت کھانے سے وضوٹوٹ جاتا ہے

 اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے، یہی جمہور صحابہ اور جمہور  فقہاء  بشمول ائمہ ثلاثہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی  رحمہم اللہ کا مسلک ہے، اور جس حدیث میں اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے کا ذکر ہے، اس سے مراد لغوی وضو ہے، یعنی منہ ہاتھ دھونا، کیوں کہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ اور ایک قسم کی بو ہوتی ہے، جب کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو  نہ فرمانے کاتھا، اور  پکی ہوئی چیز میں اونٹ کا گوشت بھی داخل ہے۔ لہذا اس سے معلوم ہوا اونٹ کا گوشت کھاکر وضو کرنے والی روایت سے یا لغوی معنی ( ہاتھ اور منہ دھولینا) مراد ہے، یا یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث  سے منسوخ ہے،  کیوں کہ اس میں آپ ﷺ کا آخری عمل بتایا گیا ہے۔

 ’’معارف السنن شرح سنن الترمذی‘‘  میں ہے:

"وقال جمهور الفقهاء مالك و أبوحنيفة و الشافعي و غيرهم: لاينقض الوضوء بحال، و المراد بالوضوء غسل اليد و الفم عندهم، و ذلك؛ لأن للحم الإبل دسماً و زهومةً و زفراً بخلاف لحم الغنم، و من أجل ذلك جاء ت الشريعة بالفرق بينهما". ( باب الوضوء من لحم الابل، ١/ ٣٥٣، ط: مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي)

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (2 / 67):
"وأما القائلون بعدم النقض فاحتجوا بحديث جابر - رضي الله عنه - الذي أخرجه الأربعة (1) أنه قال: "كان آخر الأمرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الوضوء مما مست النار" أي تحقق الأمران: الوضوء والترك، وكان الترك آخر الأمرين، فارتفع الوضوء أي وجوبه.
ولهذا قال الترمذي: وكأن هذا الحديث ناسخ للحديث الأول حديث الوضوء مما مسّت النار، ولما كانت لحوم الإبل داخلة فيما مسّت النار، وكانت فردًا من أفراده، ونُسِخ وجوبُ الوضوء عنه بجميع أفراده، استلزم نسخ الوجوب عن هذا الفرد أيضًا.
فما قال النووي: لكن هذا الحديث عام، وحديث الوضوء من لحوم الإبل خاص، مندفع, لأنا لانسلم كونه منسوخًا بحيث إنه خاص، بل لأنه فرد من أفراد العام الذي نسخ، فإذا نسخ العام وهو وجوب الوضوء مما مست النار نسخ جميع أفرادها، ومن أفرادها أكل لحوم الإبِل التي مسته النار، ولو سُلِّمَ كونها خاصًّا، فالعام والخاص عندنا قطعيان متساويان، لا يقدم أحدهما على الآخر، فعلى هذا العام ينسخ الخاص أيضًا"

Tuesday 7 September 2021

مدینہ منورہ

 مدینہ : مدینہ عربی لفظ ہے جس کا لفظی مطلب شہر ہے۔

طابہ: مدینہ منورہ کو طابہ بھی کہا جاتا تھا۔ طابہ اور طیب ہم معنی الفاظ ہیں ،، لفظی معنی پاک کے ہے۔ ایک حدیث میں بھی ذکر ملتا ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ نے اس شہر کا نام طابہ رکھا ہے یثرب:یثرب مدینہ کا قدیم نام ہے۔ رسولﷺ نے شہر کا نام یثرب سے تبدیل کر کے مدینہ رکھ دیا۔ تبدیلی کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لغت میں یثرب کے معنی "ملامت، فساد اور خرابی" ہیں۔مدینۃ النبی:مدینۃ النبوی کا مطلب نبیﷺ کا شہر ہے۔ کافی عرصے تک یہ لفظ لوگ اس شہر کے لیے استعمال کرتے رہے۔ 
مدینہ المنورہ: لفظ منورہ کے معنی "روشن ہوا،پُر نور ہوا یا نور سے سرشار" ہیں۔ رسول ﷺ کی آمد کے بعد لوگوں نے اسے مدینہ منورہ (یعنی وہ شہر جو منور ہوا ہے) کا نام دیا۔

امام مہدی کے اوصاف

 امام مہدی کے ظہور کو قرب قیامت کی علامات میں سے بیان کیا گیا ہے، امام مہدی کے نام، نسب، ظہور کا زمانہ اور خصوصی علامات احادیث متواترہ سے ثابت ہیں، ان کے ظہور کا وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول من السماء کے زمانہ سے کچھ پہلے ہوگا، ان کا نام محمد بن عبد اللہ اور ان کی والدہ کا نام آمنہ ہوگا، مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے پھر مکہ تشریف لائیں گے تو لوگ ان کو پہچان کر مقام ابراہیم اور حجر اسود کے درمیان بیعت کریں گے اور اپنا بادشاہ بنائیں گے۔ اس وقت غیب سے یہ آواز آئے گی: ھذا خلیفة اللہ المھدي فاسمعوا لہ وأطیعوا امام مہدی خلیفہ ہونے کے بعد روئے زمین کو عمل اور انصاف سے بھردیں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام انھیں کے زمانہ میں نزول فرمائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اصحاب کہف حضرت مہدی کے مددگار ہوں گے۔

امام مہدی ملک شام جاکر دجال کے لشکر سے جہاد و قتال کریں گے اس وقت دجال کے ساتھ ستر ہزار یہودیوں کا لشکر ہوگا۔ یہ سب علامات اوراس کے علاوہ اور بھی علامات احادیث متواترہ سے ثابت ہیںعن عبد اللہ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لو لم یبق من الدنیا إلا یوم قال زائدة لطول اللہ ذلک الیوم حتی یبعث رجلا منی أو من أہل بیتی یواطئ اسمہ اسمی، واسم أبیہ اسم أبی․ (أبوداوٴد شریف: ۵۸۸، ط: اتحاد دیوبند) عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تذہب الدنیا حتی یملک العرب رجل من أہلأ بیتي یواطئ اسمہ اسمي واسم أبیہ اسم أبي یملأ الأرض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجورًا․ (حاشیة أبو داوٴد شریف: ۵۸۸، ط: اتحاد دیوبند)


Monday 6 September 2021

توبہ کاطریقہ

 توبہ کا  طریقہ یہ ہے کہ گناہوں پر صدقِ دل سے ندامت ہو، فوراً گناہوں والے اعمال ترک کردیں، توبہ کی نیت  سے دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ تعالی سے معافی مانگیں اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ کریں۔ اور اگرشریعت نے اس گناہ کے لیے کوئی کفارہ متعین کیا ہو  تو کفارہ اداکریں،اور اگر گناہ کا تعلق کسی آدمی کے حق سے ہے تووہ حق ادا کریں یااس سے معاف کرالیں۔

"" عن عبد الله رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلی الله علیه وسلم : ’’ التوبة من الذنب أن یتوب منه ثم لا یعود فیه‘‘۔"" (المسند للإمام أحمد بن حنبل:۴/۱۹۸، رقم الحدیث:۴۲۶۴)
وفي شرح مسلم للنووي: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: للتوبة ثلاثة شروط: أن يقلع عن المعصية، وأن يندم فعلها، وأن يعزم عزماً جازماً أن لايعود إلى مثلها أبداً، فإن كانت المعصية متعلق بآدمي، فلها شرط رابع، وهو: رد الظلامة إلى صاحبها، أو تحصيل البراء ة منه"".( ۸/۲۹۳، باب في استحباب الاستغفار والاستکثار فیه، مرقاة المفاتیح:۵/۲۴۱، باب الاستغفار والتوبة)

Sunday 5 September 2021

قرآن مجید میں نسخ کی صورتیں

 قرآن شریف میں تین قسم کا نسخ واقع ہوا ہے:

(الف) کسی آیت کا حکم منسوخ کردیا گیا، لیکن قرآن شریف میں تلاوت اس کی باقی رہی۔

(ب) تلاوت منسوخ کردی گئی مگر حکم باقی رہا۔

(ج) تلاوت اور حکم دونوں منسوخ کردیئے گئے المنسوخ إما أن یکون ھو الحکم فقط أو التلاوة فقط أو ہما معًا (تفسیر کبیر: ج۳ ص۲۰۸، ط بیروت)

اور یہ تینوں قسم کا نسخ قرآن شریف میں من جانب اللہ ہوا۔ قال تعالیٰ: مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا (الآیة) اور قرآن شریف میں نسخ بذریعہٴ وحئ الٰہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن میں کوئی نسخ نہیں ہوا۔ اور نسخ صرف چند آیات میں ہوا ہے لہٰذا نسخ کے بعد صحابہٴ کرام جو قرآن پڑھا کرتے تھے آج بھی بعینہ وہی قرآن ہے۔

(۱) منسوخ الحکم آیت کی مثال جو قرآن میں موجود ہے: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجاً وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعاً إِلَى الْحَوْلِ (الآیة) اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا، اللہ کے قول: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجاً يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْراً (الآیة) اسی طرح آیت: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً (الآیة) کا حکم بھی منسوخ ہوگیا اور تلاوت اس کی باقی ہے۔

(۲) منسوخ التلاوة آیت کی مثال جس کا حکم باقی ہو : یروی عن عمیر -رضي اللہ عنہ- أنہ قال: کنا نقرأ آیة الرجم: الشیخ والشیخة إذا زنیا فارجموھما البتة نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم ۔

(۳) ایسی آیت جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہوگئے ہوں: فھو ما ورت عائشة -رضي اللہ عنھا- إن القرآن قد نزل في الرضاع بعشر معلومات ثم نسخن بخمس معلومات فالعشر مرفوع التلاوة والحکم جمیعا والخمس مرفوع التلاوة باقي الحکم (تفسیر کبیر: ج۳ ص۲۰۹، ط بیروت)

ہندوستانی مسلمانوں پر تشدد عالمی برادری کوتوجہ دینے کی ضرورت

 پروفیسر اپورو آنند

مدھیہ پردیش کے اندور اور راجستھان کے اجمیر میں حالیہ عرصہ کے دوران جو واقعات پیش آئے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخر دنیا کو کیوں فوری طور پر اقلیتوں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی حالت ِزار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے اندور کے واقعہ پر بات کرتے ہیں جہاں ایک مسلم چوڑی فروش 
Bangle Seller 
پر حملہ کیا گیا، اسے شدید زدوکوب کیا گیا۔ اس سے رقم چھین لی گئی۔ اس کے سامان کو توڑ پھوڑ دیا گیا۔ نوجوان مسلم چوڑی فروش کو زدوکوب کئے جانے کا ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگیا۔ اس واقعہ کو لے کر مدھیہ پردیش میں مسلمانوں نے بھرپور اور پرامن طریقے سے احتجاج کیا اور مسلم قائدین پولیس کو حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کیلئے مجبور کرنے میں کامیاب رہے۔ ملزمین کی ویڈیو میں پہلے ہی شناخت ہوچکی تھی۔ پولیس نے چند لوگوں کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا جس کیلئے پولیس کی ستائش کی گئی کیونکہ اندور مدھیہ پردیش میں ہونے اور وہاں بی جے پی حکومت کے باوجود پولیس نے منصفانہ طور پر کارروائی کی۔ ہمیں تو یہی بتایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض اشرار کی جانب سے کی گئی شرپسندی کا یہ واقعہ بالکل الگ نوعیت کا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس سارے معاملے میں قانون کیا کرتا ہے اور عوام ؟نفاذ قانون کی ایجنسیوں سے کیا چاہتے ہیں؟ معاشرہ میں ہمیشہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں رہتا لیکن اگر ریاستی مشنری غیرجانبدارانہ طور پر کام کرتی ہے تو آپ کو فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر سارا بوجھ قانون پر پڑتا ہے پھر لا اینڈ آرڈر مشنری کام کرتا شروع کرتی ہے لیکن افسوس کہ متاثرہ چوڑی فروش کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف POCSO کے تحت مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے جو ایک سنگین قانون ہے۔ اس قانون کے ساتھ ساتھ غریب چوڑی فروش کے خلاف تعزیرات ہند کی 7 دفعات کے تحت مقدمات درج کردیئے جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ چوڑی فروش پر خود کو ایک ہندو کے طور پر پیش کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی الزام عائد کردیتے ہیں کہ چوڑی فروش نے ایک لڑکی سے دست درازی کی۔ ریاستی وزیر داخلہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہوئے بھی حملہ کو معقول فرار دیتے ہیں کہ یہ ان مقامی لوگوں کی حرکت ہے جو لڑکی کیساتھ دست درازی کی اطلاع پر شدید برہم ہوگئے تھے۔ 
لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ایک جھوٹ ہے کیونکہ جو ویڈیو منظر عام پر آیا اس میں حملہ آور چوڑی فروش کے ساتھ گالی گلوچ کررہے تھے۔ اس پر طنز و طعنوں کے تیر برسا رہے تھے۔ فحش کلامی کررہے تھے لیکن ان لوگوں کو مارپیٹ کے دوران یہ کہتا نہیں سنا گیا کہ تو نے ایک لڑکی کے ساتھ دست درازی کی بلکہ وہ صرف اس کی مسلم شناخت کو چھپانے کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنی برہمی کی وجہ قرار دے رہے تھے۔ واقعہ کے بعد اس کی کوئی اور وجہ بتانا جھوٹ کے سواء کچھ نہیں۔ 
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ معمول سے ہٹ کر ہے تب ہندوستانی ٹی وی چیانلوں کا سامنے آکر اس کے ایک الگ تھلگ واقعہ ہونے سے متعلق شبہات کو دور کرنا ہے، یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے۔ ان ٹی وی چیانلوں کو بھی ہندو لڑکیوں اور ہندو خواتین کے خلاف ایک خطرناک سازش کی بو آئی اور ان لوگوں نے شاید اسے Bangle Jihad کا نام دے دیا۔ ان لوگوں نے یہ اعلان کردیا کہ چوڑی فروش کے بھیس میں مسلمان ہندو لڑکیوں اور خواتین پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ بھی ایک لو جہاد ہے۔

اشرار اور ٹی وی چیانلوں کے اس نظریہ پر آپ انگشت بہ دندان رہ جائیں گے۔ ہم میں کئی اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ منہار ہماری بستیوں اور گھروں میں آیا کرتے۔ ان لوگوں کا ہمارے گھروں میں باقاعدہ آنا جانا ہوتا۔ ہماری مائیں، بہنیں اور دوسری خواتین ان کی رنگ برنگی ، چمکتی دمکتی چوڑیوں سے بھری ٹوکریوں کی طرف بڑی تیزی سے جھپکتی، ان منہار کی ٹوکریوں میں صرف چوڑیاں ہی نہیں ہوتی بلکہ بندیاںبھی ہوتی پھر چکانے کا سلسلہ شروع ہوتا۔ کورونا وائرس وباء کی پہلی لہر کے دوران بھی ایسی کئی رپورٹس منظر عام پر آئی تھیں جس میں بتایا گیا کہ مسلم سبزی فروشوں کو ہندو محلہ جات سے واپس کردیا گیا۔ ان پر حملے کئے گئے ہم نے ان رپورٹس کو پڑھا اور پھر فراموش بھی کردیئے۔ ہمارا خیال یہی تھا کہ یہ دراصل ایک عارضی دماغی خلل ہے اور کورونا وباء کے خوف سے یہ پیدا ہوئی ہے۔ ہم نے دہلی کے اتم نگر میں سڑکوں پر کاروبار کرنے والے مسلمانوں پر حملوں کو بھی ایک الگ تھلگ واقعہ قرار دے کر نظرانداز کردیا تھا۔ نرسنگھانند سے قبل زی ٹی وی اور اس جیسے دوسرے تھے۔ انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی جانب سے کئے جارہے مختلف خود ساختہ جہادوں کی فہرست پیش کی تھی۔ پہلے لوجہاد کے بارے میں ان ٹی وی چیانلوں نے لوگوں کو بتایا ، ان کے دماغ خراب کئے پھر اراضی جہاد (لینڈ جہاد) اور پھر یوپی ایس سی جہاد جیسا لفظ بھی وہ منظر عام پر لے آئے۔ 
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ خود اندور میں دیوالی کے ماہ میں پٹاخے فروخت کرنے والے مسلم دکان داروں کو دھمکیاں دی گئیں اور انہیں ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام کے پٹاخے اپنی دکانوں میں رکھنے کے خلاف انتباہ دیا گیا۔ ہم نے مظفر نگر میں اپنی مہم بھی دیکھا جہاں مسلمانوں کو انتباہ دیا گیا کہ وہ مہندی والوں کا کاروبار نہ کریں۔ بہرحال اس طرح کے بیانوں سے برپا کیا جانے والا تشدد فوری برپا نہیں کیا جاتا بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایک سرگرم اور وسیع تر منافرت پر مبنی مہم چلائی جارہی ہے۔ انہیں مجرموں کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسایا جارہا ہے۔ اس کام میں بہت ہی منظم ٹولیاں مصروف ہیں اور ہر طرف ان کی نظریں ہیں۔ اس سلسلے میں تسلیم کا واقعہ بہترین مثال ہے۔ چوڑیاں فروخت کرنے والے تسلیم کو کس طرح پکڑا گیا، مارا پیٹا گیا، اسے لوٹا گیا، اس کے سامان کو توڑا پھوڑا گیا۔ برسر عام اسے ذلیل و رسواء کیا گیا۔ اس پرتشدد واقعہ کو ڈیجیٹلائزڈ کرکے ہر طرف پھیلا گیا۔ دوسری طرف بیمار ذہنوں کیلئے ایک بے بس و مجبور مسلم چوڑی فروش تسلیم کی پٹائی و رسوائی ذہنی لذت کا باعث بن رہی ہے اور مسلمانوں میں خوف پیدا ہورہا ہے۔

اب مسلم کمیونٹی کے لیڈروں کا کام تبدیل ہوچکا ہے۔ غنڈوں کو سزا دلانے کی بجائے کسی بھی طرح تسلیم کو قانونی کارروائی سے بچانا ہے۔ اس کی ضمانت کے بارے میں سوچنا ہے اور قانونی طور پر مقدمہ لڑنا ہے۔ پولیس تو یہی کہے گی کہ وہ اب زیادہ کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔ فیصلہ تو عدالتوں کا کرنا ہے۔

یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی، یہ نہ صرف تسلیم کے بارے میں ہے بلکہ انصاف کے خواہاں مسلمانوں کے بارے میں بھی ہے، اس کمیونٹی لیڈر کو معلوم ہوا ہے کہ ان کے اور ان کے معاون کارکنوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی جو مخالف سی اے اے ؍ این آر سی احتجاجی مظاہروں میں سرگرم تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے مسلم جہدکار اگر انصاف طلب کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ایسا کیا جائے گا، انہیں مختلف جھوٹے مقدمات میں ماخوذ کیا جائے گا۔ ایک طرف سے یہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ یہ واقعہ تو بی جے پی کی زیرقیادت ریاست مدھیہ پردیش میں پیش آیا لیکن راجستھان میں بھی جہاں کانگریس کا اقتدار ہے۔ مسلم بھکاری اور اس کے خاندان کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ کافی چیخ و پکار کے بعد پولیس نے غنڈوں کے خلاف مجبوراً تعزیرات ہند کی دفعہ 151 کے تحت مقدمہ درج کیا اور پھر ان غنڈوں کو گرفتار کرکے فوری رہا بھی کردیا گیا۔ یہ صرف مگرمچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔ پولیس اس معاملے میں سخت کارروائی کرسکتی تھی۔ پولیس اور ریاستی حکومت کا تساہل ہریانہ سے لے کر دہلی اور اندور سے لے کر اجمیر تک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ یہ مختلف افراد پر برپا کیا جانے والا تشدد ہے لیکن یہ کوئی عام تشدد نہیں بلکہ منافرت پر مبنی جرائم ہیں۔ ان لوگوں پر اس لئے حملے نہیں کئے جارہے ہیں کہ وہ AB یا C ہے بلکہ انہیں اس لئے حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ یہ حملے ہندوستان کی روایت اور سکیولر اُصولوں پر ہندوستان کی بنیاد پر حملے ہیں۔ دستور ہند ملک کے مسلمانوں کو ایک باوقار زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح کی حرکات کو اسٹیٹ آف انڈیا پر حملے سمجھنا چاہئے۔

قرآنی آیات پڑھ کر کھانے پینے کی چیزوں پردم کرنا

 ایک حدیث میں مذکور ہے کہ ایک موقع پر نبی کریم ﷺ کو ایک بچھو نے کاٹ  لیا تو  آپ ﷺ نے پانی اور نمک ملایا،  پھر نبی کریمﷺ معوذتین پڑھتے جاتے تھے اور وہ پانی زخم پر ڈالتے جاتے تھے۔ 

لہذا کھانے پینے کی چیزوں پر قرآنی آیات پڑھنا نصوص سے ثابت ہے۔ 

مشكاة المصابيح (2 / 1287):
"عن علي قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة يصلي فوضع يده على الأرض فلدغته عقرب، فناولها رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعله فقتلها، فلما انصرف قال: «لعن الله العقرب ما تدع مصلياً ولا غيره أو نبياً وغيره»، ثم دعا بملح وماء، فجعله في إناء، ثم جعل يصبه على أصبعه حيث لدغته، و يمسحها، ويعوذها بالمعوذتين".

عن رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أنَّهُ دخلَ علَى ثابتِ بنِ قيسٍ – وَهوَ مريضٌ – فقالَ اكشفِ البأسَ ربَّ النَّاسِ عن ثابتِ بنِ قيسِ بنِ شمَّاسٍ ثمَّ أخذَ ترابًا من بَطحانَ فجعلَهُ في قدَحٍ ثمَّ نفثَ عليهِ بماءٍ وصبَّهُ عليهِ(سنن أبي داود:3885)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاں آئے جبکہ وہ مریض تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : اے لوگوں کے پالنے والے ! اس تکلیف کو ثابت بن قیس بن شماس سے دور فرما دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی بطحان کی مٹی لی ,اسے ایک پیالے میں ڈالا  پھر اس پر پانی پھونک کر ڈالا اور پھر اسے اس پر چھڑک دیا ۔

حافظ ابن حجر ؒنے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔(فتح الباری:10/233)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جید کہا ہے ۔(الفوائد العلمية من الدروس البازية: 2/472)

 اس روایت میں صاف مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے پہلے پانی پر دم کیا پھر وہ دم شدہ پانی وادی بطحان کی مٹی میں ملایا اور مریض پر جھڑک دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دم شدہ پانی سے مریض کو غسل بھی دے سکتے ہیں ۔

بخاری شریف میں ایک صحابی اور ان کی اہلیہ کا نبی ﷺ کے لیے  خندق کے موقع سے کھانا پکانے کا ذکر ہے ، اس کا چند ٹکڑا یہاں پیش کرتا ہوں ۔

فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( لاتنزلن برمتكم، ولا تخبزن عجينتكم حتى أجيء ) . فجئت وجاء رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقدم الناس حتى جئت امرأتي، فقالتْ : بك وبك، فقُلْت : قد فعلت الذي قُلْت، فأخرجت له عجينا فبصق فيه وبارك، ثم عمد إلى برمتنا فبصق وبارك(صحيح البخاري:4102)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک میں نہ آؤں تم ہانڈی چولہے پر سے نہ اتارنا اور نہ آٹے کی روٹیاں بنانا یہ سن کر میں ( گھر میں) آیا اور نبیﷺ لوگوں کو اپنے پیچھے لیے ہوئے آپﷺ آگے تشریف لائے ۔میں اپنی بیوی کےپاس آیاتووہ مجھے برابھلا کہنےلگیں۔میں نے کہا کہ تم نے جوکچھ مجھ سے کہا تھا میں نے حضور اکر م ﷺ کےسامنے عرض کردیا تھا۔آخر میری بیوی نےگندھا ہوا آٹا نکالا اور حضورﷺ نے ا س میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کردی اور برکت کی دعا کی پھر ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی ۔




Thursday 2 September 2021

قیلولہ کا وقت اور مدت

 "قیلولہ "کے معنی ہیں: دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لیٹنا، خواہ نیند آئے یا نہ آئے. ( عمدۃ القاری للعینی)

"قیلولہ" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول رہا ہے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "دن کے سونے کے ذریعے رات کی عبادت پر قوت حاصل کرو. (شعب الایمان للبیہقی) نیز دوپہر کو سونا عقل کی زیادتی اور کھانے کے ہضم کا باعث بھی ہے. قیلولہ کی کم ازکم یا زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق تلاش کے باوجود کوئی روایت نہیں ملی.یہ سوال کہ آیا نمازِ ظہر سے پہلے ہو یا بعد میں؟ روایات سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا عام معمول "غداء "کے بعدسونے کا ملتا ہے،"غداء "دوپہر کا کھانا ہے جو ظہرسے پہلےکھایا جاتاہے، البتہ جمعہ کے دن کے متعلق روایات میں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد کھانا اورقیلولہ ہوتاتھا۔

اس زمانے میں جمعہ کے علاوہ باقی دنوں میں دوپہر کا کھانا ظہر سے پہلے کھانے کا معمول تھا، اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ ظہر سے پہلے کھانا کھا کر قیلولہ کی عادت بنائی جائے۔ البتہ ظہر کے بعد کھانا کھا کر قیلولہ کی نیت سے لیٹنے سے بھی قیلولہ کی سنت پوری ہوجائے گی۔

عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: استعینوا بطعام السحر علی صیام النہار والقیلولة علی قیام اللیل۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الصیام / باب ما جاء فی السحور، رقم: ۱۶۹۳ )وفی روایة: وبقیلولة النہار علی قیام اللیل۔ (صحیح ابن خزیمة رقم: ۱۹۳۹)اخرج الطبرانی فی الأوسط بسندہ عن أنس رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: قیلوا؛ فإن الشیطان لا یقیل۔ (فتح الباری، کتاب الاستئذان / باب القائلة بعد الجمعة)

جدید کورس کھلے عام نفرت اورتعصب

 بھارت کی معروف جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں جہادی دہشت گردی کے نام سے ایک نیا کورس متعارف کرایا گیا ہے، جس میں 'جہادی دہشت گردی' کو مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل اور سابقہ سوویت یونین اور چین کو 'ریاستی دہشت گردی کے اہم اسپانسر' قرار دیا گیا ہے۔

نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں اس برس نئے تعلیمی سال سے انسداد دہشت گردی پر کورس شروع ہونے سے پہلے ہی تنازعہ ہو گیا ہے۔ سول سوسائٹی اور دانشوروں نے اسے'نفرت پھیلانے کی کوشش' قرار دیا ہے جبکہ بائیں بازو کی جماعتوں نے یہ کورس پڑھانے کی اجازت نہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) عمرانیات اور سماجیات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھارت کی بہترین یونیورسٹیوں میں دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے باہمی تبادلہ خیال کے بغیر ہی رواں تعلیمی سال سے ایک نیا کورس شروع کرنے کی منظوری دے دی۔

سول سوسائٹی، دانشوروں اور ماہرین سماجیات کو اعتراض اس بات پر ہے کہ اس کورس کے لیے جو نصاب مرتب کیا گیا ہے اس میں 'بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی' کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ 'صرف جہادی دہشت گردی' ہی بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل ہے۔ اس کے علاوہ سابقہ سوویت یونین اور چین 'ریاستی اعانت سے کی جانے والی دہشت گردی کے اہم ممالک' رہے ہیں۔

کیا دوسرے مذاہب میں دہشت گردی نہیں ہے؟

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر یہ کورس ہی غلط ہے کیونکہ یہ ایک مخصوص مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش ہے۔

ظفرالاسلام خان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "اگر یونیورسٹی کو مذہبی دہشت گردی سے متعلق مضمون اپنے کورس میں شامل کرنا اتنا ہی ضروری تھا تو اسے تمام مذاہب کو اس میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ کس مذہب میں دہشت گردی نہیں ہے؟ ہندوؤں میں ہے، سکھوں میں ہے، بودھسٹوں میں ہے، مسیحیوں میں ہے، یہودیوں میں ہے۔ ہر جگہ اس طرح کی تحریکیں پہلے بھی تھیں اور آج بھی ہیں۔"

ظفرالاسلام خان مزید کہتے ہیں، "حالانکہ ہندوتوا میں اس طرح کی تحریکیں بھری پڑی ہیں۔ بجرنگ دل اور کرنی سینا جیسے نہ جانے کتنی سینا ہیں۔ اور یہ جو بے گناہ لوگوں کو سر عام قتل کیا جا رہا ہے وہ کون کر رہا ہے؟۔۔۔ یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں بھی ایسے لوگ ہیں۔ داعش وغیرہ ہے۔ لیکن ہم اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔"

'جہاد ایک عالمی چیلنج'

اس کورس کو پروفیسر اروند کمار نے تیار کیا، جو جے این یو میں امریکی، لاطینی امریکی اور کینیڈین اسٹڈیز کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ پروفیسر اروند کمار کی دلیل ہے، "پوری دنیا اسلامی دہشت گردی کو تسلیم کرتی ہے اور طالبان کی آمد کے بعد اسے ایک نئی رفتار مل گئی ہے۔ جہاد ایک عالمی چیلنج ہے اور ایسے وقت میں جب کہ طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ موضوع پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ میری معلومات کی حد تک کسی دوسرے مذہب میں دہشت گردی کو اختیار کرنے کی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی ہے۔"

ظفر الاسلام کا تاہم کہنا ہے، "اگر دوسرے مذاہب میں مذہبی دہشت گردی نہیں ہے تو لنچنگ کیا ہے؟ بھارت میں جس کا مظاہرہ آئے دن ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس طرح کے کورس کا اصل مقصد مسلمانوں اور اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنا ہے۔ یہ غلط فہمی پھیلانا ہے کہ مسلمان قابل اعتماد نہیں ہیں اور ہر مسلمان ممکنہ طور پر دہشت گرد ہو سکتا ہے۔"

تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش

بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) نے اس کورس کو پڑھانے کی اجازت نہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سی پی آئی کے رکن پارلیمان بنوئے وسووم نے بھارتی وزیر تعلیم کو ارسال کردہ خط میں لکھا، "یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ادھوری سچائی اور دانشورانہ بے ایمانی کے ذریعے تعلیم کو فرقہ وارانہ اور سیاسی رنگ میں رنگنے کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔''

سی پی آئی کے رکن پارلیمان کا مزید کہنا تھا، "جہادی دہشت گردی کو بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل اور سوویت یونین اور چین کو دہشت گردی کی اعانت کرنے والے اہم ممالک قرار دینا نہ صرف تاریخی لحاظ سے غلط ہے بلکہ یہ تعصب اور سیاسی مفادات پر مبنی ہیں۔"

آخر اتنی جلد بازی کیا تھی

جواہر لال نہرو یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی سیکرٹری موسمی باسو کا اس حوالے سے کہنا ہے، "اگر مذہب کو دہشت گردی سے اس طرح جوڑ دیا جائے تو سڑک پر چلنے والے عام آدمی اور دانشوروں میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟ کیا میانمار اور سری لنکا میں کوئی فرق ہے؟ کیا وہاں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اسے بودھسٹ دہشت گردی کہہ سکتے ہیں؟"وہ کہتی ہیں کہ اگر دہشت گردی کو ایک نئے مضمون کے طور پر شامل کرنا اتنا ضروری ہی تھا تو پہلے خاطر خو اہ تبادلہ خیال کر لیا جاتا۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کہتے ہیں کہ جے این یو نے تین برس پہلے ہی اس کورس پر کام شروع کر دیا تھا۔ اس وقت جب اس کے بارے میں خبریں سامنے آئی تھیں تو کمیشن نے یونیورسٹی کو نوٹس بھیج کر حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے کہا تھا اور کہا تھا کہ اگر اس طرح کا کوئی کورس زیر غور ہے تو تمام مذاہب کو اس میں شامل کیا جائے۔ لیکن یونیورسٹی نے اپنے تحریری جواب میں اس طرح کا کوئی کورس شروع کرنے کی خبر سے انکار کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کورس کو روکنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دیگر یونیورسٹیاں بھی اسے اپنے لیے مثال بنا سکتی ہیں۔

کیادعاء سے موت کاوقت مقرر بدل سکتاہے ؟

 آدمی کی موت کا وقت اس کی تقدیر سے متعلق ہے اور تقدیر کی درج ذیل دو قسمیں ہیں :

  1. تقدیر مبرم 
  2. تقدیر معلق

پہلی قسم "تقدیر مبرم"  ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔

دوسری  قسم "قضائے معلق"  کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے  یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل  اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :

{يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ}  [الرعد : 13، 39]

ترجمہ: ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کرنے اور اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کا مذاکرہ کرنے کے بعد جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ ﷲِ" ، یعنی: ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس  کے جواب میں ارشاد فرمایا:"أفِرُّ مِنْ قَضَاء ﷲ اِلٰی قَدْرِ ﷲِ". (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283)  یعنی ’’میں  اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں‘‘،  بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : "نفر من قدر الله إلی قدر الله". 

اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :

«لايرد القضاء إلا الدعاء، و لايزيد في العمر إلا البر».

(جامع الترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139)

ترجمہ: ’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے اور صرف نیکی ہی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔‘‘

اس حدیث کی تشریح میں شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں وہ عمر مراد ہے جس کا تعلق تقدیرِ  معلق سے  ہے، یعنی مثلًا کسی کی تقدیر معلق میں لکھا ہے کہ اگر اس شخص نے حج یا عمرہ نہیں کیا تو اس کی عمر چالیس سال ہوگی اور اگر حج یا عمرہ کیا تو اس کی عمر ساٹھ  سال ہوگی، اب اگر وہ حج یا عمرہ کرلیتا ہے تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوجاتی ہے، گویا نیکی کی وجہ سے اس شخص کی عمر میں اضافہ ہوگیا، جب کہ تقدیر مبرم یہی تھی  یہ شخص یہ والی نیکی کرے گا اور اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔

دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس حدیث میں عمر کے بڑھنے سے عمر میں برکت ہونا اور زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق ملنا ہے، یعنی اس کی عمر کے اوقات ضائع نہیں ہوتے؛ اس  لیے وہ تھوڑے سے عرصہ میں اتنے سارے کام اور اعمال کرلیتا ہے جو دوسرے لوگ بہت زیادہ وقت میں بھی نہیں کرپاتے ہیں۔(جیسا کہ بہت سارے اولیاء اللہ کی زندگی کے مشاہدہ سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے۔)

خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی عمر کی جو حتمی مدت اللہ تعالیٰ کے علم میں باعتبار تقدیر مبرم کے ہے، اس میں تو کوئی تبدیلی ہرگز نہیں ہوسکتی ہے ، البتہ روح قبض کرنے والے فرشتہ کی بنسبت عمر میں تبدیلی ہوسکتی ہے، یعنی مثلًا ملک الموت کو حکم دیا گیا ہو کہ فلاں شخص کی روح چالیس سال کی عمر میں قبض کرنی ہے، لیکن پھر اس کی کسی نیکی کی وجہ سے ملک الموت کو حکم ہوجائے کہ اس کی روح چالیس نہیں، بلکہ پچاس سال کی عمر میں قبض کرنی ہے، تو گویا ملک الموت کو حکم دینے کے اعتبار سے تو اس کی عمر میں اضافہ ہوگیا، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں لوح محفوظ میں اس کی عمر ابتداءً  ہی پچاس سال لکھی ہوئی تھی، کیوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کی عمر اللہ کے ازلی علم میں چالیس لکھی ہو اور پھر وہ چالیس سال سے پہلے یا بعد میں مرے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح(4/ 1528):

"و عن سلمان الفارسي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "« لايرد القضاء إلا الدعاء، و لايزيد في العمر إلا البر» (رواه الترمذي).

(وعن سلمان الفارسي): بكسر الراء وتسكن (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "« لايرد القضاء إلا الدعاء»" : القضاء: هو الأمر المقدر، وتأويل الحديث أنه أراد بالقضاء ما يخافه العبد من نزول المكروه به ويتوقاه، فإذا وفق للدعاء دفعه الله عنه، فتسميته قضاء مجاز على حسب ما يعتقده المتوقي عنه، يوضحه قوله صلى الله عليه وسلم في الرقي: هو من قدر الله، وقد أمر بالتداوي والدعاء مع أن المقدور كائن لخفائه على الناس وجودا وعدما، ولما بلغ عمر الشام وقيل له: إن بها طاعونا رجع، فقال أبو عبيدة أتفر من القضاء يا أمير المؤمنين! فقال: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة، نعم نفر من قضاء الله إلى قضاء الله، أو أراد برد القضاء إن كان المراد حقيقته تهوينه وتيسير الأمر، حتى كأنه لم ينزل. يؤيده قوله في الحديث الآتي: «الدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل» ، وقيل: الدعاء كالترس، والبلاء كالسهم، والقضاء أمر مبهم مقدر في الأزل " ولا يزيد في العمر ": بضم الميم وتسكن " إلا البر ": بكسر الباء وهو الإحسان والطاعة. قيل: يزاد حقيقة. قال تعالى: {وما يعمر من معمر ولاينقص من عمره إلا في كتاب} [فاطر: 11] وقال: {يمحو الله ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] . وذكر في الكشاف أنه لا يطول عمر إنسان ولا يقصر إلا في كتاب. وصورته: أن يكتب في اللوح إن لم يحج فلان أو يغز فعمره أربعون سنة، وإن حج وغزا فعمره ستون سنة، فإذا جمع بينهما فبلغ الستين فقد عمر، وإذا أفرد أحدهما فلم يتجاوز به الأربعين فقد نقص من عمره الذي هو الغاية وهو الستون، وذكر نحوه في معالم التنزيل، وقيل: معناه أنه إذا بر لا يضيع عمره فكأنه زاد، وقيل: قدر أعمال البر سببا لطول العمر، كما قدر الدعاء سببا لرد البلاء، فالدعاء للوالدين وبقية الأرحام يزيد في العمر، إما بمعنى أنه يبارك له في عمره فييسر له في الزمن القليل من الأعمال الصالحة ما لا يتيسر لغيره من العمل الكثير، فالزيادة مجازية؛ لأنه يستحيل في الآجال الزيادة الحقيقية.

قال الطيبي: اعلم أن الله تعالى إذا علم أن زيدا يموت سنة خمسمائة استحال أن يموت قبلها أو بعدها، فاستحال أن تكون الآجال التي عليها علم الله تزيد أو تنقص، فتعين تأويل الزيادة أنها بالنسبة إلى ملك الموت أو غيره ممن وكل بقبض الأرواح، وأمره بالقبض بعد آجال محدودة، فإنه تعالى بعد أن يأمره بذلك أو يثبت في اللوح المحفوظ ينقص منه أو يزيد على ما سبق علمه في كل شيء وهو بمعنى قوله تعالى: {يمحو الله ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] وعلى ما ذكر يحمل قوله - عز وجل -: {ثم قضى أجلا وأجل مسمى عنده} [الأنعام: 2] فالإشارة بالأجل الأول إلى ما في اللوح المحفوظ، وما عند ملك الموت وأعوانه، وبالأجل الثاني إلى ما في قوله تعالى: {وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] وقوله تعالى: {إذا جاء أجلهم فلا يستأخرون ساعة ولا يستقدمون} [يونس: 49] والحاصل أن القضاء المعلق يتغير، وأما القضاء المبرم فلا يبدل ولا يغير. (رواه الترمذي) : وكذا ابن ماجه عن سلمان، وابن حبان، والحاكم وقال: صحيح الإسناد عن ثوبان، وفي روايتيهما: «لايرد القدر إلا الدعاء،  ولايزيد في العمر إلا البر، وإن الرجل ليحرم الرزق بالذنب يذنبه»."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 3088):

"والمراد بزيادة العمر البركة فيه، ففي شرح السنة ذكر أبو حاتم السجستاني في معنى الحديث أن دوام المرء على الدعاء يطيب له ورود القضاء، فكأنما رده والبر يطيب له عيشه، فكأنما زيد في عمره، والذنب يكدر عليه صفاء رزقه إذا فكر في عاقبة أمره فكأنما حرمه."

Wednesday 1 September 2021

Two Muslim men accuse police officers of sexual abuse, torture in custody.

 The men, who had been summoned for questioning in a case, said that at least seven police officers were involved in the incident.

Two Muslim men have accused police officers in Jharkhand's Jamshedpur city of torture and sexual abuse after they were called in for questioning last week, news portal TwoCircles.net reported on Tuesday .

The incident occurred on August 26. The men said that at least seven police officers, including Kadma police station in-charge Manoj Kumar Thakur, were involved in the torture.

Thakur has refuted the allegations, but admitted that the two were summoned for questioning.

After the two men were beaten up in the police station, one was asked to lie down on the ground in a room. The police officers allegedly asked the other man to pull down the pants of one who was on the floor.

"I thought they were asking me to show me his injuries," one of the men told TwoCircles.net. "But the policemen allegedly asked him to have sex with the man who was asked to lie down on the floor."

"I started crying and told them to kill me but do not force me to do this...." one of the men added. "I was told: 'If you would not do this, he [the other man] would do that to you.' When I totally refused, I was beaten with boots on my face."

The policemen also used communal slurs when one of the men revealed his full name, according to Maktoob Media.

"You will make this [country] like Taliban [did in Afghanistan]," the police officers allegedly told the men. "Have you seen the plight of Afghanistan? You will be sent there."

The two men received treatment for their injuries after they were released by the police later in the day on August 26. They also claimed that they had been beaten up with sticks and wickets used to play cricket in custody.

The two men have submitted a letter with their complaint to Senior Superintendent of Police, East Singhbhum, M Tamil Vanan. The officer confirmed to TwoCircles.net that he had received their application.

The deputy superintendent of police (headquarter) had been asked to investigate the case, Vanan said, adding that action would be taken once he receives an inquiry report.

The Kadma police station house officer told TwoCircles.net that the two men had been called for interrogation in a case involving elopement of a Muslim man and a Hindu girl.

The police claimed that one of the men called for questioning knows the person who eloped with the woman.

However, the man has refuted the claim. "Even if I were his friend, why should be I tortured for his elopement?" the man asked. "How can I know about the location when I have no idea about his elopement."

One of the men said that the police allowed them to go only after getting their signature on a document, saying that they had no complaints.

A medical report, prepared by MGM Hospital in Jharkhand, also mentioned that this was an "alleged case of assault", reported The Indian Express.

Meanwhile, the case has attracted political attention as no action has been taken since the incident occurred five days ago.

Jharkhand Mukti Morcha leader Babar Khan said that the men were innocent, but had "suffered beyond description". He added that the matter will be taken up with Chief Minister Hemant Soren.

"We are also contemplating a complaint case against the erring policemen in the civil court if no action is taken by the administration," Khan told TwoCircles.net.

Jharkhand Loktantarik Manch convener Ashok Varma said that a fact-finding team will leave for Kadma to investigate the inciden