https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 5 September 2021

ہندوستانی مسلمانوں پر تشدد عالمی برادری کوتوجہ دینے کی ضرورت

 پروفیسر اپورو آنند

مدھیہ پردیش کے اندور اور راجستھان کے اجمیر میں حالیہ عرصہ کے دوران جو واقعات پیش آئے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخر دنیا کو کیوں فوری طور پر اقلیتوں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی حالت ِزار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے اندور کے واقعہ پر بات کرتے ہیں جہاں ایک مسلم چوڑی فروش 
Bangle Seller 
پر حملہ کیا گیا، اسے شدید زدوکوب کیا گیا۔ اس سے رقم چھین لی گئی۔ اس کے سامان کو توڑ پھوڑ دیا گیا۔ نوجوان مسلم چوڑی فروش کو زدوکوب کئے جانے کا ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگیا۔ اس واقعہ کو لے کر مدھیہ پردیش میں مسلمانوں نے بھرپور اور پرامن طریقے سے احتجاج کیا اور مسلم قائدین پولیس کو حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کیلئے مجبور کرنے میں کامیاب رہے۔ ملزمین کی ویڈیو میں پہلے ہی شناخت ہوچکی تھی۔ پولیس نے چند لوگوں کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا جس کیلئے پولیس کی ستائش کی گئی کیونکہ اندور مدھیہ پردیش میں ہونے اور وہاں بی جے پی حکومت کے باوجود پولیس نے منصفانہ طور پر کارروائی کی۔ ہمیں تو یہی بتایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض اشرار کی جانب سے کی گئی شرپسندی کا یہ واقعہ بالکل الگ نوعیت کا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس سارے معاملے میں قانون کیا کرتا ہے اور عوام ؟نفاذ قانون کی ایجنسیوں سے کیا چاہتے ہیں؟ معاشرہ میں ہمیشہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں رہتا لیکن اگر ریاستی مشنری غیرجانبدارانہ طور پر کام کرتی ہے تو آپ کو فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر سارا بوجھ قانون پر پڑتا ہے پھر لا اینڈ آرڈر مشنری کام کرتا شروع کرتی ہے لیکن افسوس کہ متاثرہ چوڑی فروش کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف POCSO کے تحت مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے جو ایک سنگین قانون ہے۔ اس قانون کے ساتھ ساتھ غریب چوڑی فروش کے خلاف تعزیرات ہند کی 7 دفعات کے تحت مقدمات درج کردیئے جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ چوڑی فروش پر خود کو ایک ہندو کے طور پر پیش کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی الزام عائد کردیتے ہیں کہ چوڑی فروش نے ایک لڑکی سے دست درازی کی۔ ریاستی وزیر داخلہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہوئے بھی حملہ کو معقول فرار دیتے ہیں کہ یہ ان مقامی لوگوں کی حرکت ہے جو لڑکی کیساتھ دست درازی کی اطلاع پر شدید برہم ہوگئے تھے۔ 
لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ایک جھوٹ ہے کیونکہ جو ویڈیو منظر عام پر آیا اس میں حملہ آور چوڑی فروش کے ساتھ گالی گلوچ کررہے تھے۔ اس پر طنز و طعنوں کے تیر برسا رہے تھے۔ فحش کلامی کررہے تھے لیکن ان لوگوں کو مارپیٹ کے دوران یہ کہتا نہیں سنا گیا کہ تو نے ایک لڑکی کے ساتھ دست درازی کی بلکہ وہ صرف اس کی مسلم شناخت کو چھپانے کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنی برہمی کی وجہ قرار دے رہے تھے۔ واقعہ کے بعد اس کی کوئی اور وجہ بتانا جھوٹ کے سواء کچھ نہیں۔ 
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ معمول سے ہٹ کر ہے تب ہندوستانی ٹی وی چیانلوں کا سامنے آکر اس کے ایک الگ تھلگ واقعہ ہونے سے متعلق شبہات کو دور کرنا ہے، یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے۔ ان ٹی وی چیانلوں کو بھی ہندو لڑکیوں اور ہندو خواتین کے خلاف ایک خطرناک سازش کی بو آئی اور ان لوگوں نے شاید اسے Bangle Jihad کا نام دے دیا۔ ان لوگوں نے یہ اعلان کردیا کہ چوڑی فروش کے بھیس میں مسلمان ہندو لڑکیوں اور خواتین پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ بھی ایک لو جہاد ہے۔

اشرار اور ٹی وی چیانلوں کے اس نظریہ پر آپ انگشت بہ دندان رہ جائیں گے۔ ہم میں کئی اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ منہار ہماری بستیوں اور گھروں میں آیا کرتے۔ ان لوگوں کا ہمارے گھروں میں باقاعدہ آنا جانا ہوتا۔ ہماری مائیں، بہنیں اور دوسری خواتین ان کی رنگ برنگی ، چمکتی دمکتی چوڑیوں سے بھری ٹوکریوں کی طرف بڑی تیزی سے جھپکتی، ان منہار کی ٹوکریوں میں صرف چوڑیاں ہی نہیں ہوتی بلکہ بندیاںبھی ہوتی پھر چکانے کا سلسلہ شروع ہوتا۔ کورونا وائرس وباء کی پہلی لہر کے دوران بھی ایسی کئی رپورٹس منظر عام پر آئی تھیں جس میں بتایا گیا کہ مسلم سبزی فروشوں کو ہندو محلہ جات سے واپس کردیا گیا۔ ان پر حملے کئے گئے ہم نے ان رپورٹس کو پڑھا اور پھر فراموش بھی کردیئے۔ ہمارا خیال یہی تھا کہ یہ دراصل ایک عارضی دماغی خلل ہے اور کورونا وباء کے خوف سے یہ پیدا ہوئی ہے۔ ہم نے دہلی کے اتم نگر میں سڑکوں پر کاروبار کرنے والے مسلمانوں پر حملوں کو بھی ایک الگ تھلگ واقعہ قرار دے کر نظرانداز کردیا تھا۔ نرسنگھانند سے قبل زی ٹی وی اور اس جیسے دوسرے تھے۔ انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی جانب سے کئے جارہے مختلف خود ساختہ جہادوں کی فہرست پیش کی تھی۔ پہلے لوجہاد کے بارے میں ان ٹی وی چیانلوں نے لوگوں کو بتایا ، ان کے دماغ خراب کئے پھر اراضی جہاد (لینڈ جہاد) اور پھر یوپی ایس سی جہاد جیسا لفظ بھی وہ منظر عام پر لے آئے۔ 
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ خود اندور میں دیوالی کے ماہ میں پٹاخے فروخت کرنے والے مسلم دکان داروں کو دھمکیاں دی گئیں اور انہیں ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام کے پٹاخے اپنی دکانوں میں رکھنے کے خلاف انتباہ دیا گیا۔ ہم نے مظفر نگر میں اپنی مہم بھی دیکھا جہاں مسلمانوں کو انتباہ دیا گیا کہ وہ مہندی والوں کا کاروبار نہ کریں۔ بہرحال اس طرح کے بیانوں سے برپا کیا جانے والا تشدد فوری برپا نہیں کیا جاتا بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایک سرگرم اور وسیع تر منافرت پر مبنی مہم چلائی جارہی ہے۔ انہیں مجرموں کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسایا جارہا ہے۔ اس کام میں بہت ہی منظم ٹولیاں مصروف ہیں اور ہر طرف ان کی نظریں ہیں۔ اس سلسلے میں تسلیم کا واقعہ بہترین مثال ہے۔ چوڑیاں فروخت کرنے والے تسلیم کو کس طرح پکڑا گیا، مارا پیٹا گیا، اسے لوٹا گیا، اس کے سامان کو توڑا پھوڑا گیا۔ برسر عام اسے ذلیل و رسواء کیا گیا۔ اس پرتشدد واقعہ کو ڈیجیٹلائزڈ کرکے ہر طرف پھیلا گیا۔ دوسری طرف بیمار ذہنوں کیلئے ایک بے بس و مجبور مسلم چوڑی فروش تسلیم کی پٹائی و رسوائی ذہنی لذت کا باعث بن رہی ہے اور مسلمانوں میں خوف پیدا ہورہا ہے۔

اب مسلم کمیونٹی کے لیڈروں کا کام تبدیل ہوچکا ہے۔ غنڈوں کو سزا دلانے کی بجائے کسی بھی طرح تسلیم کو قانونی کارروائی سے بچانا ہے۔ اس کی ضمانت کے بارے میں سوچنا ہے اور قانونی طور پر مقدمہ لڑنا ہے۔ پولیس تو یہی کہے گی کہ وہ اب زیادہ کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔ فیصلہ تو عدالتوں کا کرنا ہے۔

یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی، یہ نہ صرف تسلیم کے بارے میں ہے بلکہ انصاف کے خواہاں مسلمانوں کے بارے میں بھی ہے، اس کمیونٹی لیڈر کو معلوم ہوا ہے کہ ان کے اور ان کے معاون کارکنوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی جو مخالف سی اے اے ؍ این آر سی احتجاجی مظاہروں میں سرگرم تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے مسلم جہدکار اگر انصاف طلب کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ایسا کیا جائے گا، انہیں مختلف جھوٹے مقدمات میں ماخوذ کیا جائے گا۔ ایک طرف سے یہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ یہ واقعہ تو بی جے پی کی زیرقیادت ریاست مدھیہ پردیش میں پیش آیا لیکن راجستھان میں بھی جہاں کانگریس کا اقتدار ہے۔ مسلم بھکاری اور اس کے خاندان کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ کافی چیخ و پکار کے بعد پولیس نے غنڈوں کے خلاف مجبوراً تعزیرات ہند کی دفعہ 151 کے تحت مقدمہ درج کیا اور پھر ان غنڈوں کو گرفتار کرکے فوری رہا بھی کردیا گیا۔ یہ صرف مگرمچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔ پولیس اس معاملے میں سخت کارروائی کرسکتی تھی۔ پولیس اور ریاستی حکومت کا تساہل ہریانہ سے لے کر دہلی اور اندور سے لے کر اجمیر تک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ یہ مختلف افراد پر برپا کیا جانے والا تشدد ہے لیکن یہ کوئی عام تشدد نہیں بلکہ منافرت پر مبنی جرائم ہیں۔ ان لوگوں پر اس لئے حملے نہیں کئے جارہے ہیں کہ وہ AB یا C ہے بلکہ انہیں اس لئے حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ یہ حملے ہندوستان کی روایت اور سکیولر اُصولوں پر ہندوستان کی بنیاد پر حملے ہیں۔ دستور ہند ملک کے مسلمانوں کو ایک باوقار زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح کی حرکات کو اسٹیٹ آف انڈیا پر حملے سمجھنا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment