https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 23 September 2021

بے جاگرفتاریوں پرحکومت سے دوٹوک گفتگوہونی چاہیے

 بےگناہ مسلمانوں کو جھوٹے الزامات میں پھسانے والے افسران کو کڑی سزا ہونی چاہیے 

ذوالقرنین احمد 
یو پی پولیس کے دہشت گرد مخالف دستہ ( اےٹی ایس) نے حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب کو گزشتہ رات گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے۔ یہ بات ملت کیلئے باعث تشویش ہے کہ ایک ملی رہنما داعی اسلام انسانیت کے خیر خواہ اور ملت کا عظیم سرمایہ حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب کو غیر قانونی تبدیلی مذہب قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا ہے انکے ساتھ دیگر 4 افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جس طرح گزشتہ مہینے جون میں عمر گوتم کو غیر قانونی طور پر تبدیلی مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا تھا اور غیر ملکی اداروں سے فنڈنگ جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں اسی طرح کے جھوٹے الزامات کے تحت مولانا کلیم صدیقی صاحب کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ملی قائدین اور مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ کھل کر مولانا کا دفاع کریں یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ تبلیغ اسلام پر پابندی لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور مشہور اسلامی مبلغین کو پابند سلاسل کرنے کی پلاننگ ہوچکی ہے۔ آر ایس ایس کے رہنما موہن بھاگوت ایک طرف سافٹ ہندوتوا کا مظاہرہ کر رہے ہیں مسلم رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں اور دوسری طرف فرقہ پرست بی جے پی اور آر ایس ایس مسلم مخالف ایجنڈے پر کام کرنے میں مصروف ہے۔ آج مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کے خلاف سخت احتجاج کریں ملی رہنماؤں کو چاہیے کہ عوام کے ساتھ زمین پر اتر کر فوری طور پر پولس اسٹیشن کا گھیراؤ کریں، اور حکومت سے دو ٹوک گفتگو کی جائے۔ اتنا ہی نہیں بی جے پی اور آر ایس ایس سے انکا موقف عوام میں ظاہر کرنے کیلئے آمنے سامنے پریس کانفرنس کے ذریعے پیش کرنے کیلئے آمادہ کیا جائے۔ 
کیونکہ ایک طرف سافٹ ہندوتوا کا کھیل کھیلا جاتا ہے دوسری طرف مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، پونے کے محسن شیخ سے لے کر آج تک ماب لنچنگ کا سلسلہ جاری ہے ، مسلم طلباء کے ساتھ اسکول ، کالجز، یونیورسٹی میں غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ فرقہ پرستوں کے حوصلہ اس قدر بلند ہوچکے ہیں کہ داڑھی ٹوپی والے مزدوری، سبزی پھیل فروشوں کو دیکھ کر انہیں اپنے علاقوں میں تجارت سے روکا جاتا ہے۔ ایک طرف ادبی مشاعروں، کوی سمیلنوں، قومی یک جہتی کے پروگراموں میں ہندو مسلم بھائی چارے کے نعرے لگائے جاتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھولا جاتا ہے۔ یہ دور رخی پالیسی نے مسلمانوں کو ہندوستان میں بےحد نقصان پہچایا ہے اور آج تک مسلم رہنماؤں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ظلم و ناانصافی، تعصب، نفرت، فرقہ وارانہ فسادات سے قوم کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یا کوئی ایسی مضبوط پالیسی تیار کی جائے جس سے مسلمان اپنے آپ کو ملک محفوظ محسوس کریں۔ 
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس طرح سے قانون میں تبدیلی کی گئی ہے جس سے صرف اور صرف اقلیتوں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے اور ملک میں مسلمانوں کا دائرہ کار کو محدود کیا جائے۔ دہشت گرد مخالف قانون میں تبدیلی بھی اسی لیے کی گئی ہے، اور یو پی میں غیر قانونی تبدیلی مذہب قانون کو بھی اسی لیے لایا گیا ہے۔ چاہے آپ قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ کریں ، یا کسی غیر مسلم لڑکی کے مسلمان ہونے پر اس سے شادی کریں اس میں ٹارگیٹ پر مسلمان ہی ہوگے۔ اسی طرح اگر آپ مذہبی لٹریچر پڑھتے ہیں یا کسی بڑے داعی اسلام کی کتابیں آپ کے پاس ملتی ہے تو آپ کو دہشت گرد مخالف قانون کے تحت یو اے پی اے ،قومی تحفظ ایکٹ کے جھوٹی الزامات میں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ آپ کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث بتاکر جیلوں میں بند کیا جاسکتا ہے۔ چاہے پولیس کے پاس پختہ ثبوت ہو یا نا ہو، جس میں 6 سے 12 سال تک کے ضمانت تک منظور نہیں کی جاتی ہے۔ پھر مقدمہ کورٹ میں پیش ہوتا ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد آپ کو عدالت باعزت بری کرتی ہے۔ لیکن یہ بات سسٹم میں موجود اعلی افسران کے سمجھ میں نہیں آتی ہے یا عدالت اس پر نوٹس نہیں لیتی ہے کہ جن پولس افسران نے ایک عام انسان کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کرکے ظالمانہ طور پر برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا تھا وہ کون ہے اور اس طرح سے غیر قانونی طور پر ظلم کیوں کیا گیا ہے۔ 
اگر عدالت اور ملک کا سسٹم اس بات پر غور نہیں کرتا ہے تو یہ شک کے دائرے میں آتے ہیں۔ کہ کہے نا کہی سسٹم کے لوگ اس میں ملوث ہے کہ مسلمانوں کو بے جا جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جائے اور پھر انکی جوانی اور قابلیت کو زنگ آلود کرکے باعزت بری کردیا جائے یہ کیسا انصاف ہے۔ جس سے ملک میں مسلمان کبھی بھی مضبوط اور مستحکم نا ہوسکے۔ جس جگہ مسلمان معاشی اعتبار سے مضبوط اور مستحکم دیکھائی دے ایسے علاقوں میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرکے ہندو مسلم فسادات کروا کر، انکی تجارتوں کو نقصان پہنچایا جاتا ،ہے۔ مسلمانوں کی دوکانوں کو جلایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اخبارات کی زینت بنتا ہے مسلمان افسوس کا اظہار کرتے ہیں ملی تنظیمیں تعمیری سرگرمیوں کو انجام دیتی ہے۔ جیلوں میں قید بے گناہوں کی رہائی کیلئے مقدمات لڑتی ہے۔ اور پھر انہیں بری کرواتی ہے۔ یہ سب گزشتہ ستر سالوں سے جاری ہے۔ اور اب اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ مسلم لڑکیوں کو پیار محبت کے چال میں پھسا کر مہنگے گفٹ دے کر، بہلا پھسلا کر مذہب تبدیل کروایا جارہا ہے کچھ دن ان کے ساتھ گزار کر فرار ہوجاتے ہیں ۔ اور اگر کوئی مسلمان غیر مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس پر غیر قانونی مذہب تبدیلی قانون کے خلاف ورزی کا الزام عائد کرکے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ 
ملی رہنماؤں، قائدین کو یہ بات حکومت سسٹم کے افراد، عدالت کے سامنے رکھنی چاہیے کہ آخر مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا کھیل کب تک جاری رہے گا۔ اور آخر کیوں مسلمانوں کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے۔ ملک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ صرف مسلم نوجوانوں کو جب باعزت بری کرتی ہے تو پھر ان پولیس افسران اور سیکڑوں صفحات پر مشتمل جھوٹی چارج شیٹ تیار کرنے والے اہلکاروں پر کوئی کاروائی کیوں نہیں کی جاتی ہے۔ فیک انکاؤنٹر میں مارے جانے والے مسلم نوجوانوں کے مجرموں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی ہے‌۔ عدالت اس بات کا نوٹس کیوں نہیں لیتی ہے۔جبکہ ایسے سینکڑوں ہزاروں مقدمات ملک کی عدالتوں کے دفاتر میں موجود ہوگے جو گزشتہ ستر سالوں میں غیر منصفانہ طور پر بے گناہ مظلوم مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں گزارنی پڑی ہے۔ اور جنکی زندگیاں تباہ ہوچکی ہے۔ حکومت کا مؤقف جاننا ضروری ہے۔ اور عدالتوں کے ذریعے اس بات کا خلاصہ ہونا چاہیے کہ جن افراد کا ہاتھ اس طرح کے جرائم میں ہے جو بے قصور افراد کو پابند سلاسل کرتے ہیں ان پر کس طرح کی کاروائی کی جائے گی۔ کس طرح کا ایکشن لیا جائے گا۔ یہ بات سچ ہے کہ ہر جگہ کرپشن چلتا ہے اور نوکری بچانے کیلئے مختلف جگہوں پر ایسے مجرموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے اور بڑی رقم آپس میں مل بانٹ کر لی جاتی ہے۔ تاکہ مقدمہ ختم کردیا جائے۔ لیکن اس کی جڑ تک نہیں پہنچا جاتا ہے۔ ملی تنظیموں جماعتوں کو چاہے کہ پریس کانفرنس کے ذریعے اس مدعے کو منظر عام پر لایا جائے۔ اور دو ٹوک گفتگو کی جائے۔ جب ان مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے گا تب اس اسطرح کے جھوٹے الزامات میں گرفتاریوں پر قدغن لگائیں جاسکتی ہے۔ اس بات پر بھی زور دیا جانا چاہیے کہ ایسے مقدمات کو فاسٹ ٹریک کورٹ میں چلایا جائے تاکہ ملزم اور مظلوم کی پہچان فوری ہوسکے۔ تاکہ پھر کسی بے گناہ مظلوم کی زندگی برباد نہ ہو۔


Wednesday 22 September 2021

مولاناکلیم صدیقی صاحب کی گرفتاری سے مسلمانوں میں شدید اضطراب بی جے پی کی مسلم دشمنی اور طاقت کے بیجااستعمال کے خلاف احتجاج .

 نئی دہلی:مشہور اسلامی اسکالر اور داعی مولانا کلیم صدیقی اور ان کے تین ساتھی علما اور ڈرائیور کو سیکورٹی ایجنسی نے پوچھ گچھ کے لیے اٹھا لیا ہے۔ اس واقعے کے بعد دیر رات مولانا کی حمایت میں علما سمیت بڑی تعداد میں مسلمان لیساڑی گیٹ پولیس اسٹیشن میں جمع ہوئے اور احتجاج کیا۔ واضح رہے کہ مولانا کلیم صدیقی مظفر نگر کے گاؤں پھلت کے رہنے والے ہیں اور دعوت و تبلیغ کے حوالے سے ہندوستان و بیرون ہند میں شہرت رکھتے ہیں،وہ منگل کی شام 7 بجے لیساڑی گیٹ کے ہمایوں نگر میں مسجد ماشاء اللہ کے امام شارق کی رہائش گاہ پر ایک پروگرام کے لیے آئے تھے۔ رات نو بجے عشا کی نماز کے بعد ، اپنے ساتھیوں کے ساتھ بذریعہ کار واپس پھلت کے لیے روانہ ہوئے۔ اس دوران گھر والوں نے انھیں فون کیا ، لیکن موبائل بند پایا گیا۔ اہل خانہ نے یہ معلومات میرٹھ میں امام شارق کو دیں۔ افراد خانہ اور دوستوں نے تلاش شروع کی ، لیکن پتہ نہیں چل سکا۔ اس کے بعد لوگوں کا ہجوم لیساڑی گیٹ پولیس اسٹیشن میں جمع ہوگیا۔ رات گئے تک ہنگامہ جاری رہا۔ ایسا کہا جارہا تھا کہ اسلامی سکالر مولانا کلیم صدیقی کو سیکورٹی ایجنسی نے تبدیلی مذہب کے سلسلے میں مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے نشانہ بنایاہے اور آج صبح سویرے اتر پردیش کے اے ڈی جی لا اینڈآرڈر نے اس کی تصدیق بھی کردی ہے۔ ایجنسی کو پہلے ہی میرٹھ میں مولانا کی آمد کا علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایجنسی نے انھیں واپسی کے دوران پکڑا۔ ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ مولانا کلیم صدیقی کا ملک کے بڑے اسلامی اسکالرز میں شمار ہوتا ہے۔ وہ پھلت کے مدرسہ جامعہ امام ولی اللہ الاسلامیہ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انھوں نے 7 ستمبر کو ممبئی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام میں بھی شرکت کی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ ایجنسی شک کی بنیاد پر ان کی تلاش میں تھی۔ منگل کی رات ، سیکورٹی ایجنسیاں لیساڑی گیٹ میں ڈیرے ڈالے ہوئی تھیں۔ رات نو بجے ، جبکہ کہ مولانا اپنے ساتھیوں کے ساتھ میرٹھ سے پھلت کے لیے روانہ ہوئے تھے ، اس دوران انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ جب ہنگامہ ہوا تو سیکورٹی ایجنسیاں ان کو لے کر لکھنؤ روانہ ہو گئیں۔ مولانا کے لا پتہ ہونے کے بعد قاری عفان قاسمی ، قاری شفیق الرحمن قاسمی کے بیٹے ، مفتی خالد ، مولانا سراج الدین ، ​​قاری انور اور کئی علما تھانے پہنچ گئے۔ پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بھی دیکھی۔ لاپتہ علما کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے لوگوں نے تھانے میں شکایت بھی درج کروائی۔ اس دوران پولیس نے لوگوں کو بتایا کہ وہ محفوظ ہیں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، کچھ معاملات میں سیکورٹی ایجنسی پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ دیر رات تک میرٹھ پولیس امن و امان برقرار رکھنے میں مصروف تھی۔ آج صبح اتر پردیش کے اے ڈی جی لا اینڈ آرڈر نے تصدیق کردی ہے کہ انھیں غیر قانونی طورپر تبدیلی مذہب کروانے کے معاملوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں بڑے سے بڑا مسلم مذہبی رہنما بھی محفوظ نہیں ہے،اس سے قبل ڈاکٹر ذاکر نائک اور عمر گوتم کے معاملے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوں گے ،مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ مستقبل قریب میں یوپی اور دیگر ریاستوں میں الیکشنز بھی ہونے ہیں ،اس گرفتاری کو اس پس منظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔

مولاناکلیم صدیقی صاحب کی گرفتاری

 کھنؤ: مظفرنگر سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین مولانا کلیم صدیقی صاحب کو گزشتہ شب تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں اے ٹی ایس (اینٹی ٹیررزم اسکواڈ) نے میرٹھ سے گرفتار کیا ہے اور آج لکھنؤ کی عدالت میں پیش کیا۔ مولانا کلیم صدیقی مظفرنگر کے گاؤں پھُلت سے تعلق رکھتے ہیں اور شاہ ولی اللہ ٹرسٹ چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ گلوبل پیس فاؤنڈیشن کے  چیئرمین بھی ہیں.

تبدیلی مذہب کے جس معاملہ میں مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کیا گیا ہے اس معاملے میں اس سے قبل عمر گوتم اور مفتی قاضی کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ بیرونی ممالک سے ان کے کھاتوں میں کروڑوں روپے منتقل ہوئے ہیں۔ کلیم صدیقی کو گرفتار کرنے کے بعد اے ٹی ایس کی جانب سے اس معاملہ پر پریس کانفرنس بھی کی گئی۔

پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ مولانا کلیم صدیقی نے حوالہ کے ذریعے غیر قانونی طور پر تبدیلی مذہب کے لئے فنڈ جمع کیا ہے۔ اے ٹی ایس نے کہا کہ مولانا کلیم یوٹیوب کے ذریعے تبدیلی مذہب کرنے اور لوگوں کو اس ریکٹ میں شامل ہونے کے لئے راغب کر رہے تھے۔ نیز، انہوں نے ہی اداکارہ ثناء خان کا نکاح مفتی انس کے ساتھ پڑھایا تھا۔

یوپی کے اے ڈی جی پرشانت گوتم نے کہا کہ 20 جون کو غیر قانونی تبدیلی مذہب کا گروہ چلانے والے لوگ گرفتار کئے گئے تھے۔ عمر گوتم اور ان کے ساتھیوں کو برطانوی تنظیم سے تقریباً 57 کروڑ روپے کی فنڈنگ کی گئی تھی۔ جس کے خرچ کا بیورہ وہ پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اس تعلق سے مولانا کلیم صدیقی کے علاوہ دیگر 10 افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ جس میں سے 6 کے خلاف فرد جرم عائد کی جا چکی ہے جبکہ 4 کے خلاف تفتیش جاری ہے۔ یوپی حکومت کی مسلم دشمنی اور طاقت کا غلط استعمال کوڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ ایک واضح حقیقت  ہے. 

مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری پر جہاں لوگوں میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے وہیں عام آدمی پارٹی کے لیڈر امانت اللہ خان نے بھی ان کی گرفتاری پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ امانت اللہ خان نے کہا کہ ''اتر پردیش میں انتخابات سے قبل اب مشہور عالم دین مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کیا گیا ہے، مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھتا جا رہا ہے۔ اس مسئلہ پر سیکولر پارٹیوں کی خاموشی بی جے پی کو مضبوطی دے رہی ہے۔

حضرت مولانا  چودہ دن کی عدالتی تحویل  میں 

نئی دہلی : معروف اسلامی اسکالر اور مبلغ مولانا کلیم صدیقی کو چودہ دن کے لیے عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ،جبکہ ان کے ساتھ گرفتار دیگر چار افراد کو دیر گئےچھوڑدیے جانے کی امید ہے۔

ایڈووکیٹ ابو بکر سباق نے لکھنؤ سے بتایا کہ عدالت نے یو پی اے ٹی ایس کے رویہ اور طریق کار پر سخت پھٹکار لگائی ،یہی نہیں اس نے مولانا کے ریمانڈ سے انکار کردیا اور چودہ دن کی عدالتی حراست میں جیل بھیج دیا۔

ذرائع کے مطابق مولانا کلیم صدیقی، عمر گوتم کے قریبی ہیں جنہیں غیر قانونی تبدیلی کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اے ٹی ایس نے عمرگوتم سے پوچھ گچھ کے بعد ملنے والے اشاروں کی بنیاد پر یہ کارروائی کی ہے۔

مولانا کلیم گلوبل پیس سینٹر کے صدر ہیں۔ وہ جمیعت ولی اللہ کے صدر بھی ہیں۔ مولانا بہت سے مدرسوں کے انچارج ہیں اور تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کے لئے اچھی شناخت رکھتے ہیں۔

ان کا شمار ملک کے معروف علما میں ہوتا ہے۔ کلیم صدیقی کا تعلق مظفر نگر کے پھولت علاقے سے ہے۔ وہ ایک اسلامی عالم ہیں۔

اے ٹی ایس ذرائع کے مطابق غیر قانونی تبدیلی مذہب کے لئے بیرون ملک سے 3 کروڑ روپے کی فنڈنگ ہوئی۔ صرف بحرین سے ڈیڑھ کروڑ روپے اکٹھے بھیجے گئے۔

مولانا کلیم صدیقی نے حال ہی میں ممبئی میں آرایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔ مولانا کلیم کو ٧ ستمبر کو ممبئی میں منعقدہ نیشن فرسٹ نیشن سروے تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔

UP ATS Arrests Hazrat Maulanan Kalim Siddiqui on religious conversion charges.

 The Uttar Pradesh Anti-Terrorist Squad on Tuesday, 21 September, arrested Islamic scholar Maulana Kaleem Siddiqui from Meerut on charges of alleged religious conversions.It is  clearly a misuse  of power and  anti-Muslim hostility of  the UP government indeed. 

 The Maulana is the President of Global Peace Center and also the President of Jamiat-e-Waliullah.

"UP ATS has arrested Maulana Kaleem Siddiqui, a resident of Muzaffarnagar, in connection with India's largest religious conversion syndicate busted by the ATS. He runs Jamia Imam Waliullah trust that funds several madrassas for which he received huge foreign funding," the police said, according to ANI.

The police arrested the Maulana on Tuesday night when he was returning to his native Muzaffarnagar after attending a function.

ANI quoted Uttar Pradesh ADG (Law and Order), Prashant Kumar, saying, "Investigation shows Maulana Kaleem Siddiqui's trust received Rs 3 crore in foreign funding including Rs 1.5 (crore) from Bahrain. Six teams of ATS have been formed to investigate this case."

Uttar Pradesh ATS Inspector General GK Goswami said the syndicate had "converted around 1000 people in India," reported ANI.

Meanwhile, Aam Aadmi Party MLA Amanatullah Khan called his arrest a political move.

"Famous Islamic scholar Maulana Kalim Siddiqui Sahab has been arrested ahead of the elections in Uttar Pradesh. The atrocities on Muslims are increasing. The silence of secular parties on these issues is giving more strength to the BJP. How much more will BJP fall to win the UP elections?" Amanatullah Khan asked on Twitter.

(With inputs from ANI)

مسلم شخص کی گجرات پولیس تحویل میں موت

 گاندھی نگر : گجرات پولیس نے ایک مسلم شخص کو اپنے ساتھ بیف رکھنے اور اُسے منتقل کرنے کی کوشش پر ہلاک کردیا۔ یہ واقعہ گودھرا میں پیش آیا جہاں 35 سالہ قاسم عبداللہ حیات نے جان گنوائی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ایک مخبر کی اطلاع پر قاسم کو گرفتار کیا تھا۔ مخبر نے پولیس آفیسر ایچ این پٹیل کو بتایا تھا کہ قاسم بیف لیجایا کرتا ہے۔ کانسٹبل سدھ راج گجیندر، سب انسپکٹر این آر راتھوڑ پر مشتمل پولیس ٹیم فوری مقام پر پہونچی اور قاسم کو روک کر اُسے حراست میں لے لیا۔ قاسم کو گودھرا کے بی ڈیویژن پولیس اسٹیشن لیجایا گیا جہاں کے انچارج ایچ این پٹیل کے تعلق سے مشہور ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کا شکار ہے۔ قاسم کی بہن بلقیس اور بہنوئی کو گرفتاری چھ سات گھنٹے بعد قاسم سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ اُنھیں قاسم نے بتایا کہ گرفتاری سے قبل اُسے ہندوتوا غنڈوں کی 'رکھشک کورٹ' کے روبرو پیش کیا گیا اور وہاں اُس کی بے تحاشہ پٹائی کی گئی۔ ہندوتوا دو غنڈوں پرگنیش سونی اور پراتیک کھراڈی خاص طور پر زدوکوبی میں ملوث ہوئے۔ قاسم کے دوست ساحل نے اُسی روز شام میں قاسم سے ملاقات کی کوشش کی۔ تب قاسم نے اُسے اپنی پٹائی کے بارے میں بتایا۔ اگلے روز ایک پولیس کانسٹبل سلیم نے قاسم کے بڑے بھائی بلال کے گھر پہونچ کر اطلاع دی کہ قاسم نے خودکشی کرلی ہے۔ تب سے قاسم کے ارکان خاندان، رشتہ دار اور دوست احباب پوری سرگرمی سے معاملے کو اعلیٰ حکام سے رجوع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ قاسم کی پولیس تحویل میں جان لی گئی۔ پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ 13 سالہ اور 16 سالہ بیٹے ہیں۔ کورونا وباء میں ملک بھر میں لوگ روزگار سے محروم ہیں، قاسم کا بھی روزگار ختم ہوگیا تھا اور پکوڑے بیچ کر گزارا کررہا تھا۔14ستمبر 2021 ء کو وہ سیوالیہ سے اپنی موٹر سائیکل پر گودھرا واپس ہورہا تھا کہ احمدآباد روڈ پر بھامیا چوکڑی پر اُسے روک کر پولیس نے بیف ساتھ رکھنے کے الزام میں گرفتار کرکے پولیس اسٹیشن منتقل کیا۔

تعلیق طلاق سے بچنے کا طریقہ

: کوئی شخص ایسے بولے کہ اگراس لڑکی کے سوا جس سے بھی میرانکاح ہوجائے اس پر طلاق ہو،پھرکہاتین دفعہ طلاق ہو.

جواب

: اگروہ  مذکورہ  لڑکی کے علاوہ جس لڑکی سے بھی از خود نکاح کریں گے تونکاح ہوتے ہی اس پر تین طلاق واقع ہو جائیں گی۔ البتہ احناف کے نزدیک اس مسئلہ کاحل یہی ہے کہ: اگر کوئی دوسرا شخص اس  کی اجازت کے بغیر اس  کا نکاح کسی عورت سے کردے، اور پھر  اسے اس نکاح کے بارے میں بتادے، اور وہ   زبان سے کچھ کہے بغیر،اپنے عمل (یعنی  مہر کی رقم ،حقوق وغیرہ کی ادائیگی) سے عملی طور پر رضامندی کا اظہار کردیں تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی اور نکاح باقی رہے گا ۔اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں۔[فتاویٰ شامی،مطلب حلف لایتزوج فزوجہ فضولی۔3/846،ط:

Tuesday 21 September 2021

اویسی کے گھر پرحملہ

 آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم)کے قومی صدر اسد الدین اویسی کے دہلی میں واقع سرکاری رہائش گاہ میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ حیدرآباد سے لوک سبھا کے رکن اسد الدین اویسی کا گھر نئی دہلی کے اشوکا روڈ میں واقع ہے۔ دہلی پولیس نے تخریب کاری کے اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ پولیس نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہندو سینا کے 5 ارکان کو تخریب کاری کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ تمام ملزمان شمال مشرقی دہلی کے منڈولی علاقے کے رہنے والے بتائے جاتے ہیں۔ 

پولیس کو اس واقعے کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب کسی نے انہیں پی سی آر کال کے ذریعے اس کے بارے میں بتایا۔ اطلاع ملتے ہی پولیس کی ایک ٹیم موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس نے تمام ملزمان کو موقع سے گرفتار کر لیا ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی حملے کے وقت بنگلے میں موجود نہیں تھے۔ 
بنگلے کی کیئر ٹیکر دیپا نے بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد 7 سے 8 تھی۔ وہ نعرے بازی کر رہے تھے اور گھر کے اندر اینٹیں پھینک رہے تھے۔ 'دی انڈین ایکسپریس'کی رپورٹ کے مطابق توڑ پھوڑ کرنے کے ملزم ہندو سینا کے رکن ہیں۔ پولیس ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے اور اس کے علاوہ اس واقعہ میں ملوث دیگر افراد کی بھی تلاش کی جا رہی ہے۔

اعلان مفقود الخبر

 مقدمہ 65/640.1440ہجری

صبوحی اسلام بنت اسلام خان ساکن احد ریزیڈینسی فیس 3 پان والی کوٹھی دودھ پور علی گڑھ. مدعیہ 

بنام

مستفیض الرحمان ولد اظہر میاں چودھری مکان بی. 1نصیرآباد ہاؤس سوسائٹی این, ایچ, 10,روڈ5چٹ گونگ بنگلہ دیش. مدعاعلیہ 

اعلان مفقودالخبر

مدعیۂ مقدمہ ہذانے دارالقضاء علی گڑھ میں اپنے شوہر مستفیض الرحمٰن پردعوی دائرکیا ہے کہ میری شادی مدعاعلیہ سے 17جون 2013میں ہوئی تھی مدعاعلیہ عرصہ پانچ سال سے لاپتہ ہے. کافی تلاش کیا  کوئی پتہ نہیں چل سکا. لہذااس اعلان کے ذریعہ مدعاعلیہ کوآگاہ کیاجاتاہے کہ مستفیض الرحمٰن جہاں بھی ہوں فورا اپنی موجودگی کی اطلاع دارالقضاء میں کریں اور21ربیع الاو ل 1443ھ مطابق 28,اکتوبر2021بروزجمعرات تک دارالقضاء میں حاضر ہوکراپنے مقدمہ کی پیروی کریں بصورت عدم حاضری وعدم پیروی بعدثبوت وشواہد نکاح فسخ کردیا جائے گا. فقط. محمدعامرالصمدانی 

قاضئ شریعت دارالقضاء  علی گڑھ. 

12صفرالمظفر2021 مطابق 20ستمبر2021

حضرت آدم علیہ السلام نے عرش پر کلمہ لکھادیکھا اس حدیث کی تحقیق.

 مذکورہ روایت امام حاکم رحمہ اللہ نے  "المستدرك علی الصحيحين"  میں نقل کرکے اسے اگرچہ صحیح الاسناد قرار دیا ہے، تاہم امام ذہبی رحمہ اللہ و دیگر محدثین نے اسے موضوع اور  امام طحاوی رحمہ اللہ نے انتہائی ضعیف قرار دیا ہے، جب کہ بعض محدثین نے اسے اسرائیلیات میں شمار کیا ہے، مذکورہ روایت کو مکمل وضاحت کے بغیر بیان کرنے یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

"(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْعَدْلُ، ثنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، ثنا أَبُو الْحَارِثِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْلِمٍ الْفِهْرِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْلَمَةَ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ ، قَالَ : يَا رَبِّ ، أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي ، فَقَالَ اللَّهُ : يَا آدَمُ ، وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ ؟ قَالَ : يَا رَبِّ ، لأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكَ رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَىَ قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ ، فَقَالَ اللَّهُ : صَدَقْتَ يَا آدَمُ ، إِنَّهُ لأُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ ادْعُنِي بِحَقِّهِ ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَوْلا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ وَهُوَ أَوَّلُ حَدِيثٍ ذَكَرْتُهُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْكِتَابِ. (المستدرك علي الصحيحين، رقم الحديث: 4159) أخرجه الحاكم في " المستدرك " ( 2 / 615 ) وعنه ابن عساكر ( 2 / 323 / 2 ) وكذا البيهقي في باب ما جاء فيما تحدث به صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه من " دلائل النبوة " ( 5 / 488 ) من طريق أبي الحارث عبد الله بن مسلم الفهري ، حدثنا إسماعيل ابن مسلمة ، نبأنا عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه عن جده عن عمر بن الخطاب مرفوعا ، وقال الحاكم: صحيح الإسناد، وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم في هذا الكتاب. تعقبه الذهبي بقوله: بل موضوع، وعبد الرحمن واه، وعبد الله بن مسلم الفهري لا أدري من هو. قلت : والفهري هذا أورده في " ميزان الاعتدال " لهذا الحديث وقال: خبر باطل رواه البيهقي في " دلائل النبوة "، وقال البيهقي: تفرد به عبد الرحمن بن زيد ابن أسلم وهو ضعيف. وأقره ابن كثير في " تاريخه " ( 2 / 323 ) ووافقه الحافظ ابن حجر في " اللسان " أصله " الميزان " على قوله : خبر باطل وزاد عليه قوله في هذا الفهري : لاأستبعد أن يكون هو الذي قبله فإنه من طبقته. قلت : والذي قبله هو عبد الله بن مسلم بن رشيد ، ذكره ابن حبان فقال : متهم بوضع الحديث ، يضع على ليث ومالك وابن لهيعة لا يحل كتب حديثه ، وهو الذي روى عن ابن هدبة نسخة كأنها معمولة . والحديث أخرجه الطبراني في " المعجم الصغير " (207 ) من طريق أخرى عن عبد الرحمن بن زيد ثم قال : لايروي عن عمر إلا بهذا الإسناد . وقال الهيثمي في " المجمع " ( 8 / 253 ) : رواه الطبراني في " الأوسط " و" الصغير" وفيه من لم أعرفهم. قلت : وهذا إعلال قاصر ما دام فيه عبد الرحمن بن زيد، قال شيخ الإسلام ابن تيمية في " القاعدة الجليلة في التوسل والوسيلة " ( ص 69 ) : ورواية الحاكم لهذا الحديث مما أنكر عليه، فإنه نفسه قد قال في كتاب "المدخل إلى معرفة الصحيح من السقيم" : عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لايخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه. قلت : وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف باتفاقهم يغلط كثيراً. وصدق شيخ الإسلام في نقله اتفاقهم على ضعفه وقد سبقه إلى ذلك ابن الجوزي، فإنك إذا فتشت كتب الرجال، فإنك لن تجد إلا مضعفاً له ، بل ضعفه جداً علي بن المديني وابن سعد، وقال الطحاوي: حديثه عند أهل العلم بالحديث في النهاية من الضعف. وقال ابن حبان: كان يقلب الأخبار وهو لايعلم حتى كثر ذلك في روايته من رفع المراسيل وإسناد الموقوف، فاستحق الترك. وقال أبو نعيم نحوما سبق عن الحاكم: روى عن أبيه أحاديث موضوعة. قلت : ولعل هذا الحديث من الأحاديث التي أصلها موقوف ومن الإسرائيليات ، أخطأ عبد الرحمن بن زيد فرفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، ويؤيد هذا أن أبا بكر الآجري أخرجه في " الشريعة " ( ص 427 ) من طريق الفهري المتقدم بسند آخر له عن عبد الرحمن بن زيد عن أبيه عن جده عن عمر بن الخطاب موقوفا عليه . ورواه ( ص 422 - 425 ) من طريق أبي مروان العثماني قال : حدثني أبي ( في الأصل : ابن وهو خطأ ) عثمان بن خالد عن عبد الرحمن بن أبي الزناد عن أبيه قال : " من الكلمات التي تاب الله عز وجل على آدم عليه السلام أنه قال : اللهم إني أسألك بحق محمد عليك .. " الحديث نحوه وليس فيه ادعني بحقه إلخ . وهذا موقوف وعثمان وابنه أبو مروان ضعيفان لا يحتج بهما لورويا حديثا مرفوعا ، فكيف وقد رويا قولا موقوفا على بعض أتباع التابعين وهو قد أخذه - والله أعلم - من مسلمة أهل الكتاب أو غير مسلمتهم أو عن كتبهم التي لا ثقة لنا بها كما بينه شيخ الإسلام في كتبه . وكذلك رواه ابن عساكر ( 2 / 310 / 2 ) عن شيخ من أهل المدينة من أصحاب ابن مسعود من قوله موقوفاً عليه وفيه مجاهيل . وجملة القول : أن الحديث لا أصل له عنه صلى الله عليه وسلم فلا جرم أن حكم عليه بالبطلان الحافظان الجليلان الذهبي والعسقلاني كما تقدم النقل عنهما قال شيخ الإسلام ابن تيمية في "القاعدة الجليلة في التوسل والوسيلة" (ص 69) : ورواية الحاكم لهذا الحديث مما أنكر عليه ، فإنه نفسه قد قال في كتاب "المدخل إلى معرفة الصحيح من السقيم" : عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه ، قلت : وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف باتفاقهم يغلط كثيراً اهـ".

مذکورہ روایت کی صحت کے حوالہ سے اگر مزید تحقیق مطلوب ہو تو: مختصر استدراك الذهبي على مستدرك الحاكم لابن الملقن ـ ( ٢/ ١٠٦٩، رقم الحديث: ٤٥٤) سے استفادہ کر لیا جائے

Saturday 18 September 2021

وفات کی عدت قمری مہینوں کے اعتبار سے ہوگی یاشمسی

 اگرکسی عورت کے  شوہر کا انتقال قمری (اسلامی) مہینے کی ابتدا یعنی پہلی تاریخ میں ہوا تواس صورت میں عورت کی  عدت چاند کے مہینوں کے اعتبار سے چار ماہ دس دن پوری کرنا لازم ہوگی، خواہ کوئی مہینہ انتیس کا ہی کیوں نہ ہو۔اور اگر شوہر کا انتقال مہینے کے درمیان میں ہوا ہو تو   کل 130 دن شمار کرکے عدت گزارنا لازم ہوگا۔

"فتاوی شامی" میں ہے:

'' في المحيط: إذا اتفق عدة الطلاق والموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلية وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر. فعند الإمام يعتبر بالأيام، فتعتد في الطلاق بتسعين يوماً، وفي الوفاة بمائة وثلاثين''. (3/ 509

Friday 17 September 2021

خیرالقرون کے چوراورقاضی کاواقعہ

 ( پہلے زمانے کے چور بھی وقت کے فقیہ ہوتےتھے)


امام جوزی رحمہ اللہ نے قاضی انطاکیہ کا ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہےکہ وہ ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور نے دھر لیا۔چور نے کہا کہ جو کچھ ہے میرے حوالے کردیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔؟

قاضی نے کہا:خدا تیرابھلا کرے۔ میں ایک عالم ہوں اوردین میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے ساتھ میں قاضی شہر بھی ہوں لہذا مجھ پر رحم کر۔

چور نے کہا :الحمدللہ !ایسا شخص جوبیچارہ فقیرونادارہو اوراپنانقصان پورانہ کرسکے۔آج ایک ایسے شخص کواللہ نے میر ے قابو میں دیاہے کہ اگر اسکو میں لوٹ بھی لوں توشہرواپس جاکر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہے ۔؟

قاضی نے کہا :خدا کے بندے تو نےرسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ دین وہ ہے جسے اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اور سنت وہی ہے جو میراطریقہ ہے۔ پس جس نے میراطریقہ چھوڑ کر کوئی بدعت ایجاد کی تو اس پر اللہ کی لعنت۔؟

تو اے چور!ڈاکے ڈالنااورلوگونکو راستے میں لوٹنا یہ بدعت ہے؟

 نبی کریم ﷺ کا طریقہ اور دین نہیں۔؟

میں آپ کا خیر خواہ ہوں آپ کو چوری سے منع کرتا ہوں کہ مبادا نبی کریم ﷺ کی اس لعنت وا لی وعید میں آپ شامل نہ ہو جائیں۔؟

چورنے کہا:میری جان! یہ حدیث مرسل ہے(جوشوافع کے ہاں  حجت نہیں)اوربالفرض اس حد یث کو درست بھی مان لیاجائے  توآپ کااس’’چور‘‘ کے بارے میں کیاخیال ہے جو بالکل’’قلاش‘‘ہو فاقوں نے اسکے گھرمیں ڈیرے ڈال دئے ہوں۔ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی آسرانہ ہو؟۔

ایسی صورت میں ایسے شخص کیلئے آپکا مال بالکل پاک وحلا ل ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرمایا۔۔

کہ دنیااگرمحض۔۔خون۔۔ہوتی تو مومن کااس میں سے کھانا حلال ہوتا۔نیز علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر آدمی کواپنے یااپنے خاندا ن کے مارے جانے کا خوف ہو تو اس کیلئے دوسرے کا مال حلال ہے۔؟

اور اللہ کی قسم میں اسی حالت سے گزررہا ہوں لہذا شرافت سے سارا مال میرے حوالے کردو۔؟

قاضی نے کہا:اچھا اگر معاملہ ایساہی ہے تومجھے اپنے کھیتوں میں جانے دووہاں میرے غلام و خادم نے آج جواناج بیچاہوگا۔ اسکی رقم میں ان سے لیکروا پس آکرآپکے حوالے کردیتاہوں۔؟

چور نے کہا:ہرگز نہیں آپکی حا لت اس وقت پرندے کی مانند ہے جوایک دفعہ پنجرے سے نکل گیاپھراسے پکڑنامشکل ہے۔؟مجھے یقین نہیں کہ ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد آپ دوبارہ واپس لوٹیں گے۔؟

قاضی نے کہا:میں آپکوقسم دینے کوتیارہوں کہ ان شاللہ میں نے  جووعدہ آپ سے کیا ہے اسے پور ا کروں گا۔؟

چور نے کہا :مجھے حدیث بیان کی مالک رحمہ اللہ نے انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے سنی انہوں نےعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ :یمین المکرہ لاتلزم (مجبورکی قسم کااعتبار نہیں)

اسی طرح قرآن میں بھی ہے۔ الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان مجبور آدمی زبان سے کلمہ کفر بول سکتاہے تومجبوریکی حالت میں جب کلمہ کفربولنے کی اجاز ت ہے توجھوٹی قسم بھی کھا ئی جاسکتی ہے ۔؟

لہذافضول بحث سے پرہیز کریں اورجوکچھ ہے آپکے پاس ہے میر ے حوالے کردیں۔؟

قاضی اس پرلاجواب ہوگیااور اپنی سواری،مال کپڑے سوائے شلوارکے اسکے حوالے کردیا۔؟

چور نے کہا:شلوار بھی اتار کر دیں۔؟

قاضی نے کہا :اللہ کے بندے نماز کاوقت ہوچکا ہے۔اوربغیر کپڑوں کے نمازجائزنہیں۔قرآن کریم میں بھی ہے۔خذوزینتکم عندکل مسجد(اعراف،۳۱)اوراس آیت کا معنی تفاسیرمیں یہی بیان کیا گیاہے کہ نماز کے وقت کپڑے پہنے رکھو۔؟

نیزشلوار حوالے کرنے پر میری بے پردگی ہوگی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ وہ شخص ملعو ن ہے جو اپنے بھائی کے ستر کو دیکھے۔؟

چورنے کہا:اس کاآپ غم نہ کریں کیونکہ ننگی حالت میں آپکی نماز بالکل درست ہے۔؟

کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ہم سے حدیث بیان کی وہ روایت کرتے ہیں نافع رحمہ اللہ سے وہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ سے۔ کہ۔العراۃ یصلون قیاما و یقوم امامھم وسطہم۔ننگے کھڑے ہوکر نمازپڑھیں اورانکا امام بیچ میں کھڑاہو۔؟

نیزامام مالک رحمہ اللہ بھی ننگے کی نماز کے جواز کے قائل ہیں مگر ان کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں پڑھیں گے بلکہ متفرق متفرق پڑھیں گے اور اتنی دور دور پڑھیں گے کہ ایک دوسرے کے ستر پرنظرنہ پڑے؟ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی یہ ھیکہ کھڑے ہوکر نہیں بلکہ بیٹھ کر پڑھیں۔؟

اورسترپرنظر پڑنے والی جوروا یت آپ نے سنائی اول تووہ سندا درست نہیں اگر مان بھی لیں۔؟ تووہ حدیث اس پرمحمول ھیکہ کسی کے سترکو شہوت کی نگاہ سے دیکھاجائے۔ ؟

اورفی الوقت ایسی حالت نہیں اورآپ توکسی صورت میں بھی گناہ گارنہیں کیونکہ آپ حالت اضطراری میں ھیں۔خود بے پردہ نہیں ہورہے ہیں بلکہ میں آپ کو مجبور کررہا ہوں ۔؟

لہذالایعنی بحث مت کریں اور جوکہہ رہاہوں اسپر عمل کریں؟

قاضی نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم قاضی اور مفتی تو تجھے ہوناچاہئے ہم تو جھک ماررہے ہیں۔جو کچھ تجھے چا ہئے لے پکڑ لاحول ولاقوۃالاباللہ 


اور یوں چورسب کچھ لیکرفرار ہوگیا۔؟

(کتاب الاذکیا ،لابن الجوزی ،ص۳۸۹)

Thursday 16 September 2021

نابالغ بچے کوزکوۃ دی جاسکتی ہے یانہیں

 اگرنابالغ بچے کے والد باحیات ہیں  

اور صاحب نصاب نہیں ہیں، تو نابالغ بچے کو

 زکات دی جاسکتی ہے ۔(و) لا إلی (طفلہ) بخلاف ولدہ الکبیر وأبیہ وامرأتہ الفقراء وطفل الغنیة فیجوز لانتفاء المانع.(قولہ: ولا إلی طفلہ) أی الغنی فیصرف إلی البالغ ولو ذکرا صحیحا قہستانی، فأفاد أن المراد بالطفل غیر البالغ ذکرا کان أو أنثی فی عیال أبیہ أولا علی الأصح لما عندہ أنہ یعد غنیا بغناہ نہر۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۳۵۰/۲، ط: دار الفکر، بیروت )

مالدار شخص کی غریب بالغ اولاد کوزکوۃ دینا جائز ہے یانہیں

 بالغ لڑکا صاحبِ نصاب ہونے یا نہ ہونے میں اپنے والد کے تابع نہیں ہوتا، بلکہ اس کی اپنی حیثیت کا اعتبار ہوتا ہے، چنانچہ جو بالغ لڑکا صاحبِ نصاب نہ ہو اس لڑکے کو زکات  کی رقم دینا جائز ہے، چاہے اس کے والد مال دار اور صاحبِ نصاب ہوں، البتہ ایسے لڑکے کے لیے  بلا ضرورت زکات  کی رقم استعمال کرنے سے  بچنا زیادہ اولیٰ اور افضل ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 349):

"(و) لا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير.

 (قوله: ولا إلى طفله) أي الغني فيصرف إلى البالغ ولو ذكرا صحيحا قهستاني، فأفاد أن المراد بالطفل غير البالغ ذكرا كان أو أنثى في عيال أبيه أولا على الأصح لما عنده أنه يعد غنيا بغناه نهر (قوله: بخلاف ولده الكبير) أي البالغ كما مر".