https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 13 June 2022

India calling the judiciary

India has entered into a new era of politics—the bulldozer era. Recently, there were riots during Ram Navami processions in various Indian cities. Miscreants and rioters indulged in criminal activities on the streets. Public property was damaged, and many people were killed or injured. The police have to control the riots, arrest the culprits and bring them to the court of law for a trial and subsequent punishment. The miscreants’ faith, race, caste or ethnicity are not a deciding factor before the law. If someone has damaged public property and the same is proven in the court, there is due process to recover the damage from the culprit. No one can have any dispute on any of the above facts. However, in brazen showmanship, some state governments are acting as judge, jury and executioner, and selectively targeting a section of the people based on their faith. If there is an accusation of someone indulging in criminal activity like stone pelting, the authorities send a bulldozer to raze down the home or the business establishment of the accused. There is no trial, no serving of notice, no due process of law, but a theatrical show of brute power to please a cheering crowd. Indian politicians of certain states are competing with each other to earn the sobriquets like Bulldozer Baba, Bulldozer Mama, Bulldozer Chacha and so on. Many people are cheering on this new trend, not understanding that the Indian Constitution and the rule of law are getting bulldozed in the process. Rioting is a serious crime. There are other serious crimes like murder, rape, assault etc. Will the same instant justice be applied to all the crimes in the future? If someone is accused of a crime, will the state be sending bulldozers to raze down the accused person’s home? What if you live in a joint family, an adult member of your extended family is charged with a murder, and the authorities raze down your common home without any notice or trial for a crime in which you have no control or responsibility? If a member of a family has thrown stones, he is the one who needs to be punished. How are his family members, including minor children, responsible for his crime? Why should they be rendered homeless? Which law gives the power to raze down buildings? If it is proved that the accused is innocent in a court of law later, will they be compensated? Will the civil servants who led the bulldozers pay the compensation from their salary? One of the city commissioners who indulged in this brazen lawlessness claimed that bulldozer justice is to instil fear in the minds of miscreants. In other words, it is a state-sponsored act of intimidation. Another excuse given is the state needs to recover the losses for the damage to public property. It defies logic how razing down homes of the accused help the government in recovering damages. If the government wants to recover damages, it must follow the due process of law. It must first prove the crime of the accused in a court of law, assess the quantum of damage caused by the culprit’s criminal act, and then recover the property, as directed by the court. Even if the properties are standing on encroached land, it needs to be proven to be standing in encroached lands. Protest against the regime is not taboo in the democracy but it is crime in the country.

Monday 6 June 2022

بیوی کو مخاطب کئے بغیر طلاق دینا

طلاق واقع ہونےکے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرے، مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یا اپنی بیوی کا نام لے کر کہے کہ طلاق دی اور بیوی کی موجودگی میں بھی طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرنا ضروری ہے خواہ اشارۃً نسبت کرے۔ اور اگر بیوی کی طرف نسبت نہیں کی ہے نہ صراحۃً اور نہ اشارۃً تو شرعاً طلاق واقع نہیں ہوتی۔ فتاوی شامی میں ہے: ’’لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید) غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461): ’’ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية. قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به‘‘ مذکورہ صورت میں اگر شوہر یہ کہتا ہےکہ میں نے ان الفاظ کی نسبت اپنی بیوی کی جانب نہیں کی (جیساکہ سوال میں ہے تو شوہر سے اس بات پر حلف لیاجائے گا، اگر شوہر حلف اٹھالیتا ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، اور طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، اور اگر قسم سے انکار کرتا ہے تو تینوں طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ بلا قصد وارادہ کے الفاظ طلاق نکل جائیں خصوصاً جبکہ بیوی کی جانب اضافت و نسبت بھی نہ ہو، تو اس سے طلاق نہیں ہوتی۔ نیز طلاق کے اندر بیوی کی جانب صراحۃً یا دلالۃً اضافت و نسبت شرط اور ضروری ہے؛ لہٰذا زید کی زبان سے بلا اضافت الفاظ طلاق نکلنے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۶؍۲۱، جدید زکریا۶؍۳۲، جدید زکریا مطول ۸؍۱۶۰ فتاوی محمودیہ قدیم ۸؍۶۴، جدید میرٹھ ۱۸؍۴۰۷، فتاوی دارالعلوم ۹؍۱۹۸-۱۹۹) ولکن لا بد أن یقصدہا باللفظ۔ (الأشباہ قدیم۴۵، جدید زکریا ۱/۹۱) لا یقع من غیرإضافۃ إلیہا۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، کراچي۳/۲۷۳، زکریا۴/۴۹۳) ومنہا الإضافۃ إلی المرأۃ في صریح الطلاق حتی لو أضاف الزوج صریح الطلاق إلی نفسہ بأن قال: أنا منک طالق لایقع۔ (بدائع الصنائع،

بلااضافت ونسبت طلاق طلاق کہنے سے طلاق ہوگی کہ نہیں

محض خیالی اور بلا قصد وارادہ کے الفاظ طلاق نکل جائیں خصوصاً جبکہ بیوی کی جانب اضافت و نسبت بھی نہ ہو، تو اس سے طلاق نہیں ہوتی۔ نیز طلاق کے اندر بیوی کی جانب صراحۃً یا دلالۃً اضافت و نسبت شرط اور ضروری ہے؛ لہٰذا زید کی زبان سے خیالی طور پر بلا اضافت الفاظ طلاق نکلنے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۶؍۲۱، جدید زکریا۶؍۳۲، جدید زکریا مطول ۸؍۱۶۰ فتاوی محمودیہ قدیم ۸؍۶۴، جدید میرٹھ ۱۸؍۴۰۷، فتاوی دارالعلوم ۹؍۱۹۸-۱۹۹) ولکن لا بد أن یقصدہا باللفظ۔ (الأشباہ قدیم۴۵، جدید زکریا ۱/۹۱) لا یقع من غیرإضافۃ إلیہا۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، کراچي۳/۲۷۳، زکریا۴/۴۹۳) ومنہا الإضافۃ إلی المرأۃ في صریح الطلاق حتی لو أضاف الزوج صریح الطلاق إلی نفسہ بأن قال: أنا منک طالق لایقع۔ (بدائع الصنائع،

Sunday 5 June 2022

بیوی کی طرف نسبت کئے بغیرطلاق طلاق کہنے سے طلاق ہوگی کہ نہیں

شوہر نے اپنی بیوی کے سامنے کہا: ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ ان الفاظ سے شوہر کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی ہو یا شوہر ان الفاظ کی ادائیگی سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت سے انکار کردے لیکن اس انکار پر قسم نہ اٹھاسکے تو اس صورت میں ان الفاظ سے مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اب اس کی زوجہ اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا رجوع اور دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے، زوجہ عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ جب بیوی اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق) قائم ہوجائے پھر اس کے بعد دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ مذکورہ صورت میں اگر شوہر یہ کہتا ہو کہ میں نے ان الفاظ کی نسبت اپنی بیوی کی جانب نہیں کی (جیساکہ صراحتاً الفاظ میں شوہر نے بیوی کی جانب نسبت کا ذکر نہیں کیا) تو شوہر سے اس بات پر حلف لیاجائے گا، اگر شوہر حلف اٹھالیتا ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، اور طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، اور اگر قسم سے انکار کرتا ہے تو تینوں طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ امداد الفتاویٰ میں ہے: ’’سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں: میں نے حالت غصہ میں یہ کلمے کہے ہیں: (طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق) اور میں نے کوئی کلمہ فقرہ بالا سے زیادہ نہیں کہا اور نہ میں نے اپنی منکوحہ کا نام لیا اور نہ اس کی طرف اشارہ کیا اور نہ وہ اس جگہ موجود تھی اور نہ اس کی کوئی خطا ہے، یہ کلمہ صرف بوجہ تکرار (یعنی نزاع) یعنی میری منکوحہ کی تائی کے نکلے، جس وقت میرا غصہ فرو ہوا، فوراً اپنی زوجہ کو لے آیا، گواہ دو اشخاص ہیں: ایک میرے ماموں اور ایک غیرشخص ہے اور مستوراتیں ہیں؟ الجواب: چوں کہ دل میں اپنی منکوحہ کو طلاق دینے کا قصد تھا؛ لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔‘‘ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے: ’’سوال: زید نے اپنے والدین سے غصہ کی حالت میں بوجہ خفگی والدین اس کی زوجہ پر اور اس پر یہ الفاظ کہے: طلاق، طلاق، طلاق، تین مرتبہ یعنی اس لفظ طلاق کو کسی طرف منسوب نہیں کیا اور یہ کہا کہ میں کہیں چلا جاؤں گا یا بھیک مانگ کر کھاؤں گا، آیا یہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟ جواب: موافق تصریح علامہ شامی کے اس صورت میں زید کی زوجہ مطلقہ ثلاثہ ہوگئی۔‘‘ (کتاب الطلاق 9/196، ط: دارالاشاعت) کفایت المفتی میں ہے : "بغیر نسبت کے صرف ’’ لفظ طلاق‘‘ کہنے سے طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ (سوال) زید کی والدہ و ساس کے درمیان ایک عرصے سے خانگی جھگڑے ہورہے تھے زید سخت بیمار ہے ایک روز زید کے برادر خورد نے زید کی والدہ سے کہا کہ اماں یہ جھگڑے ختم نہ ہوں گے ہم اور تم کہیں چلیں، ان دونوں کو یہاں رہنے دو اور زید کا بھائی اپنی والدہ کو لے جانے لگا، زید نے کہا کہ تم نہ جاؤ میں اس جھگڑے کو ہی ختم کیے دیتا ہوں اور یہ کہہ کر کہا کہ میں نے طلاق دی، یہ الفاظ اپنی والدہ سے مخاطب ہوکر کہے، پھر اس کے بعد جوش میں آکر صرف طلاق طلاق طلاق پانچ چھ مرتبہ کہا، لیکن اپنی زوجہ کا نام ایک مرتبہ بھی نہیں لیا اور نہ اس سے مخاطب ہوکر کہا اور زید کا خیال بھی یہی تھا کہ صرف لفظ طلاق کہنے سے طلاق نہیں ہوتی، زوجہ گھر میں موجود تھی، لیکن اس نے الفاظ مذکورہ نہیں سنے۔ المستفتی نمبر ۳۱۱ ۔۲۲ صفر ۱۳۵۳؁ھ م ۶ جون ۹۳۴!ء (جواب ۳۵) زید کے ان الفاظ میں جو سوال میں مذکور ہیں لفظ طلاق تو صریح ہے، لیکن اضافت الی الزوجہ صریح نہیں ہے، اس لیے اگر زید قسم کھاکر یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ نہیں کہے تھے تو اس کے قول اور قسم کا اعتبار کرلیا جائے گا، اور طلاق کا حکم نہیں دیا جائے گا- محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ"۔ (6/53،54دارالاشاعت) غصہ کی حالت میں بیوی کی طرف نسبت کئے بغیر زبان سے تین طلاق کا لفظ نکالا‘ تو کیا حکم ہے؟ (سوال) زید نے اپنی منکوحہ کے بارے میں بحالت غصہ زبان سے تین طلاق کا لفظ نکالا بلا اضافت کسی کے، زید نے جو تین طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تو زید کے دل میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بنیوا توجروا المستفتی نمبر ۳۹۴ مولوی عبدالخالق (رنگون) ۲۹ جمادی الاول ۱۳۵۳؁ھ ۱۰ ستمبر ۱۹۳۴؁ء (جواب ۳۶) اگر زید نے زبان سے صرف یہ لفظ نکالا ’’ تین طلاق‘‘ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا تو ظاہر ہے کہ اس میں اضافت طلاق نہیں ہے، لیکن اگر یہ لفظ سوال طلاق کے جواب میں کہے ہوں، مثلًا: زوجہ یا اس کے کسی ولی یا رشتہ دار نے زید سے کہا کہ اپنی زوجہ کو طلاق دے دو اور زید نے کہا کہ ’’تین طلاق‘‘ تو اس صورت میں قرینہ حالیہ اضافتہ الی المنکوحہ کے ثبوت کے لیے کافی ہوگا، اور قاضی طلاق کا حکم کرے گا، سوال میں غصہ کی حالت کا ذکر ہے، لیکن غصہ کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں بعض صورتیں تو سوال طلاق کی حالت کا حکم رکھتی ہیں اور بعض نہیں۔ اب چوں کہ مجلسِ قضا کا وجود بھی نہیں اس لیے حکم دیانت یہ ہے کہ زید کو کہا جائے کہ اگر تو نے اپنی بیوی ہی کو یہ لفظ کہا تھا تو طلاق مغلظہ ہوگئی اور اگر بیوی کو نہیں کہا تھا تو طلاق نہیں ہوئی یہ تو عند اللہ حکم ہے اور لوگوں کے اطمینان کے لیے اس سے حلف لیا جائے گا اگر وہ حلف سے کہہ دے کہ میں نےبیوی کوتین طلاق نہیں کہا تھا تو لوگوں کو بھی اس کے تعلق زنا شوئی سے تعرض نہیں کرنا چاہیے اور بیوی بھی ا س کے پاس رہ سکتی ہے اور اگر وہ قسم سے انکار کرے تو زوجین میں تفریق کردی جائے۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘ دہلی۔(6/54.55 دارالاشاعت) قرآن کریم میں ہے: {فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره فإن طلقها فلا جناح عليهما أن يتراجعا إن ظنا أن يقيما حدود الله وتلك حدود الله يبينها لقوم يعلمون} [البقرة: 230] رد المحتار میں ہے: "لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودةً ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه". (كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، مطلب سن بوشن ج:3/ص348، ط: سعيد) فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے: "وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات". (كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق 4/427/ 429، ط: مكتبة زكريا، ديوبند هند) بدائع الصنائع میں ہے: "وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرًا فلايصدق في الصرف عن الظاهر". (كتاب الطلاق، فصل في النية في نوعي الطلاق ج3، ص: 102، دار الكتب العلمية) ہندیہ میں ہے: "وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (3/473، ط: ماجدية) البحر الرائق میں ہے: "وعدة الحامل وضع الحمل؛ لقوله تعالى: ﴿وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن﴾ (الطلاق: 4) (باب العدة: ج4، ص133، ط: سعيد) بدائع الصنائع میں ہے: "وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر". (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد) البحر الرائق میں ہے: "(قوله: ومبدأ العدة بعد الطلاق والموت) یعنی ابتداء عدة الطلاق من وقته ... سواء علمت بالطلاق والموت أو لم تعلم حتى لو لم تعلق ومضت مدة العدة فقد انقضت؛ لأن سبب وجوبها الطلاق ... فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، كذا في الهداية". (كتاب الطلاق، باب العدة، 4/144/ ط: سعيد)

مجرد التلفظ بكلمة الطلاق بدون إسنادلايقع

المكتبة الشاملة الحديثة كتاب فتاوى الشبكة الإسلامية [مجموعة من المؤلفين] الرئيسيةأقسام الكتب الفتاوى فصول الكتاب ج: ص: 9576 مسار الصفحة الحالية: فهرس الكتاب فقه الأسرة المسلمة 17865 الفرقة بين الزوجين 4339 الطلاق 2985 الأركان والشروط 29 مجرد التلفظ بكلمة (طالق) دون إسناد لا يقع [مجرد التلفظ بكلمة (طالق) دون إسناد لا يقع] ƒـ[قرأت يا شيخ في كتاب فقه السنة أن التلفظ بكلمة من ألفاظ الطلاق الصريح بدون أن يكون فيه إضافه للزوجة أو ضمير يعود عليها أنه يمنع وقوعه, كأن يقول رجل كلمة طالق فقط دون أن يقول أنت، هل هذا صحيح علما بأني سمعت هذا أيضا من شيخين أحسب أنهما من أهل السنة والجماعة؟]ـ ^الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد: فقول سيد سابق في فقه السنة: ويشترط في وقوع الطلاق الصريح: أن يكون لفظه مضافا إلى الزوجة، كأن يقول: زوجتي طالق، أو أنت طالق. انتهى، أي يشترط للفظ (طالق) ليكون صريحا أن يكون مضافا إلى الزوجة، فإن تجرد من الإضافة والإشارة فهو كناية فيقع إن نوى به الطلاق، وقد أشار إلى ذلك العلامة قليوبي في حاشيته على شرح جلال الدين المحلي فقال: قوله: (كطلقتك) فلا بد من إسناد اللفظ للمخاطب أو عينه أو ما يقوم مقامها. انتهى. فلا بد من إسناد لفظ الطلاق إلى الزوجة إما بالإشارة أو المخاطبة كأنت طالق أو زوجتي طالق أو طلقتك أو أم أولادي طالق، ولم يكن له أولاد من غيرها وهكذا، أما مجرد التلفظ بكلمة (طالق) دون إسناد فلا يقع به طلاق إلا مع النية

Wednesday 1 June 2022

رزق عورت کے مقدرسے اوراولادمردکے نصیب سے کہاوت کی تحقیق

اولاد میاں بیوی دونوں ہی کا نصیب ہوتا ہے۔ارشادِ باری تعالی ہے: {یخلق ما یشاء لمن یشاء ویهب لم یشاء اناثا ویهب لمن یشاء الذکور او یزوجهم ذکرانا واناثا} (شوری) ترجمہ: اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیتا ہے۔ نیز رزق ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ مخصوص و متعین ہے۔ چناچہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں پارہ 12 سورہ ھود کی آیت نمبر 06 میں ارشاد فرمایا: {وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ} ترجمہ: زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جان دار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالٰی پر ہیں، وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔ بخاری شریف کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جب بچہ چارہ ماہ کا ہوتا ہے تو اللہ رب العزت فرشتہ کو بھیجتا ہے اور اس کا رزق لکھواتا ہے، گویا اس کا رزق پہلے سے ہی مختص کر دیا جاتا ہے جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی ۔ لہذا مذکورہ جملے کی کوئی اصل نہیں

Monday 30 May 2022

اعلان مفقود الخبر ئ زوج

مقدمہ 981/98.1443 عرفانہ بنت اطہر احمدخان شروانی ساکن ببلوشروانی فلیٹس, نمبر110,شاکرہ ہوم, وی آئی پی گلی جمال پور علی گڑھ. یوپی. مدعیہ بنام محب اللہ فاروقی ولد لطافت اللہ فاروقی ساکن 367دھورامافی عقب شروانی چکی, تحصیل کول علی گڑھ202002مدعاعلیہ مدعیۂ مقدمہ ہذانے دارالقضاء علی گڑھ میں اپنے شوہرمحب اللہ فاروقی پردعوی دائرکیا ہے کہ میری شادی مدعلیہ سے تقریباً گیارہ سال پہلے ہوئی تھی مدعاعلیہ عرصہ تین سال سے لاپتہ ہے. کافی تلاش کیا کوئی پتہ نہیں چل سکا. لہذااس اعلان کے ذریعہ مدعاعلیہ کوآگاہ کیاجاتاہے کہ محب اللہ فاروقی ولد لطافت اللہ فاروقی جہاں بھی ہوں فورا اپنی موجودگی کی اطلاع کریں اور مؤرخہ 29ذوالقعد1443مطابق29جون2022ء تک دارالقضاء میں حاضر ہوکراپنے مقدمہ کی پیروی کریں بصورت عدم حاضری وعدم پیروی بعدثبوت وشواہد نکاح فسخ کردیا جائے گا. فقط. محمدعامرالصمدانی قاضئ شریعت دارالقضاء علی گڑھ

Friday 27 May 2022

حضرت عبید بن عمیر کا قصہ

عُبید بن عُمیر ، بن قتادہ اللیثی رحمہُ اللہ پہلے درجے کے تابعین میں سے تھے ، کنیت ابو عاصم تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُور مُبارک میں ہی پیدا ہو چکے تھے ، تاریخ وفات سن اَڑسٹھ 68ہجری ہے ، اھل مکہ کے قاضی اور اُن میں سے سب سے بہترین اندازء خطاب والے خطیب تھے ، یعنی اِس طرح وعظ و نصیحت اور خطاب فرماتے تھے جیسا کہ کوئی آنکھوں دیکھا قصہ بیان کیا جا رہا ہو ،بلکہ کچھِ اس طرح گویا کہ بیان کرنے والا اُس قصے کے کرداروں کے تاثرات اور اُس قصے کے واقعات کے اثرات خود پر پا رہا ہو، حق گوئی کے ساتھ ایسا اندازء بیان اللہ کسی کسی کو ہی نصیب فرماتا ہے ، عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے مُسلمانوں میں سب سے پہلے یہ انداز خطابت دُوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں پیش کیا ، اپنے دیگر تابعین بھائیوں رحمہم اللہ کی طرح اِیمان ، عِلم ء نافع ، عمل ء صالح اور ز ُھد و تقویٰ کی عظیم الشان مثال تھے، اپنے زمانے کے """ مُستجاب الدعوات """ لوگوں میں سے مانے جاتے تھے یعنی جن کی دُعا ءقُبول ہوتی تھی ، إمام مجاھد رحمہ ُ اللہ کہا کرتے تھے """ہم اپنے فقیہ اور اپنے قاضی پر فخر کرتے ہیں ، ہمارے فقیہ تو ہیں عبداللہ ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) اور ہمارے قاضی ہیں عُبید بن عُمیر( رحمہُ اللہ)، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے دِین کو جِس کا ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّتء مُبارکہ پر مشتمل ہے ، اُس دِین کی جُزئیات کواِنتہائی اِمانت ، صداقت ، احتیاط ،ذمہ داری اور خوب چھان بین کےساتھ اپنے دِلوں میں محفوظ کیا ، زندگی بھر اُس پر عمل پیرا رہے ، اور اِسی طرح دُوسروں کو سِکھایا ، قصہ مختصر ایک عورت کو اللہ نے بہت حُسن دیا تھا کہ گویا اُس کا حُسن توبہ شکن تھا ، ایک دِن اُس عورت نے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا تو اُس نے اپنے خاوند سے کہا """کیا تُم یہ سوچ سکتے ہو کہ کوئی شخص میرا چہرہ دیکھ کر میرے حُسن کا شِکار ہوئے بغیر رہ سکتا ہے ؟ """ اُس کے خاوند نے کہا """ ہاں """ بیوی نے کہا """ ایسا کون ہو سکتا ہے ؟ """ خاوند نے کہا """ عُبید بن عُمیر """ بیوی نے کہا """ مجھے اُس کے پاس جانے کی اِجازت دو ، میں اُسے ضرور فتنے میں ڈال کر رہوں گی """ خاوند نے کہا """ جاؤ ، اِجازت ہے """ بیوی نے تیاری کی اور عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ کے پاس فتویٰ حاصل کرنے کے بہانے سے پہنچی ، اور علیحدگی میں بات کرنے کے لیے عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ کو مسجد الحرام کے ایک گوشے میں لیے چلی ، جب وہ دونوں لوگوں کی نظروں سے کافی دُور ہو گئے تو اُس عورت نے اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دیا ، گویا کہ چمکتے دمکتے چاند کاایک ٹکڑا زمین پر اُتر آیا ہو ، عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ اے اللہ کی بندی ، اللہ کا خوف کرو اور اپنا چہرہ چھپائے رکھو """ عورت نے کہا """ میں آپ کی مُحبت میں مُبتلا کر دِی گئی ہوں ، میرے معاملے میں غور فرمایے """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ میں تُم سے کچھ پوچھتا ہوں ، اگر تُم نے ہاں میں جواب دیا تو پھر میں تمہارے اُس معاملے میں کی طرف توجہ کروں گا """ عورت نے کہا """ آپ جو بھی پوچھیں گے میں اُس میں آپ کی ہاں میں ہاں ہی ملاوں گی """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ مجھے یہ بتاؤ کہ جب ملک الموت تُمہاری رُوح قبض کرنے کے لیے آئے گا تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تُمہاری یہ ضرورت پُوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ جب تمہیں قبر میں داخل کر دیا جائے گا اور پھر تمہیں سوال وجواب کے لیے بٹھایا جائے گا تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پھر پوچھا """ جب لوگوں کو اُن کے اعمال نامے دیے جائیں گے ، اور تم جانتی نہیں ہو گی کہ تمہار ا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں ،تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ اور جب تم پل صراط سے گذرنے لگو گی اور تم نہ جانتی ہوگی کہ تم لڑکھڑاؤ گی یا ثابت قدمی سے گذر جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ اور جب اعمال تولنے کے لیے ترازو پر لائے جائیں گے اور تم نہ جانتی ہو گی کہ تمہارے نیک کاموں کا پلڑا بھاری ہو گا یا ہلکا ، تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ اور جب تُم سوال و جواب کے لیے اللہ کے سامنے پیش کی جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اورفرمایا """ اے اللہ کی بندی ، اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچو ، اُس نے تُمہیں اپنی نعمتیں عطاء کی ہیں ، اور تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے """ یہ سب سن کر وہ عورت اپنے خاوند کے پاس واپس پہنچی تو اُس نے پوچھا """ کیا کر کے آئی ہو؟ """ عورت نے کہا """ تم بے کار و بے ہودہ ہو ، ہم سب ہی بے کار و بےہودہ ہیں """ اور وہ عورت نماز ،روزےاور عِبادات کی طرف پلٹ پڑی ، اِس واقعے کے بعد اُس کا خاوند کہا کرتا تھا """ میرے اور عُبید بن عُمیر کے درمیان کیا دشمنی تھی کہ اِس نے میری بیوی کو میرے لیے خراب کر دیا ، پہلے میں ہر رات دُولہا ہوتا تھا اور اب اِس نے میری بیوی کو راھبہ بنا دیا ہے """

Tuesday 24 May 2022

فسخ اورطلاق میں فرق

خاوند اور بيوى ميں عليحدگى یا تو طلاق کے ذریعے ہوتی ہے یاخلع کے ذریعہ (خلع بھی طلاق ہی کی ایک قسم ہے) يا پھر فسخ نكاح كے ذريعہ. طلاق اورفسخ ميں فرق يہ ہے كہ خاوند كى جانب سے ازدواجى تعلق كو ختم كرنا طلاق كہلاتا ہے، اس كے كچھ مخصوص اور معروف الفاظ ہيں. رہا فسخ نكاح تو يہ عقد نكاح كو توڑنا اور ازدواجى ارتباط كو بالكل اصلا ختم كرنے كا نام ہے گويا كہ يہ ارتباط تھا ہى نہيں، اور يہ قاضى يا شرعى حكم كے ذريعہ ہوگا. اور ان دونوں ميں درج ذيل فرق پايا جاتا ہے: 1 ـ طلاق صرف خاوند كے الفاظ اور اس كے اختيار و رضا سے ہوتى ہے، ليكن فسخ نكاح خاوند كے الفاظ كے بغير بھى ہو جاتا ہے، اور اس ميں خاوند كى رضا اور اختيار كى شرط نہيں. امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ہر وہ جس سے تفريق اور عليحدگى كا فيصلہ كيا جائے اور خاوند اس كے الفاظ نہ بولے، اور اسے نہ چاہے... تو يہ عليحدگى طلاق نہيں كہلائيگى " انتہى ديكھيں: الام ( 5 / 128 ) 2 ـ طلاق كے كئى ايك اسباب ہيں، اور بعض اوقات بغير كسى سبب كے بھى ہو سكتى ہے، بلكہ طلاق تو صرف خاوند كا اپنى بيوى كو چھوڑنے كى رغبت سے ہوگى. ليكن فسخ نكاح كے ليے سبب كا ہونا ضرورى ہے جو فسخ كو واجب يا مباح كرے. فسخ نكاح ثابت ہونے والے اسباب كى مثاليں: ٭. خاوند اور بيوى كے مابين منافرت یاشقاق کاہونا كفؤ و مناسبت نہ ہونا ـ. ٭. جب خاوند يا بيوى ميں سے كوئى ايك اسلام سے مرتد ہو جائے، اور دين اسلام ميں واپس نہ آئے. ٭. جب خاوند اسلام قبول كر لے اور بيوى اسلام قبول كرنے سے انكار كر دے، اور وہ مشركہ ہو اور اہل كتاب سے تعلق نہ ركھتى ہو. ٭. خاوند اور بيوى ميں لعان ہو جائے. ٭. خاوند كا نفقہ و اخراجات کی ادائیگی سے تنگ اور عاجز ہو جانا،یاموسرہونے کے باوجود نفقہ ادانہ کرنا, حقوق زوجیت ادانہ کرنا,عنین,مجبوب,مجنون,مبروص ہونا . . ٭. خاوند يا بيوى ميں سے كسى ايك ميں ايسا عيب پايا جائے جو استمتاع ميں مانع ہو، يا پھر دونوں ميں نفرت پيدا كرنے كا باعث بنے. خاوندکامتعنت ہونا, نفقہ یاحقوق زوجیت ادانہ کرنا. وغیرہ وغیرہ. 3 ـ فسخ نكاح كے بعد خاوند كو رجوع كا حق حاصل نہيں اس ليے وہ اسے نئے عقد نكاح اور عورت كى رضامندى سے ہى واپس لا سكتا ہے. ليكن طلاق رجعى كى عدت ميں وہ اسكى بيوى ہے، اور اسے پہلى اور دوسرى طلاق كے بعد اسے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے بيوى راضى ہو يا راضى نہ ہو. ٭. فسخ نكاح ميں مرد جن طلاقوں كى تعداد كا مالك ہے اسے شمار نہيں كيا جاتا. امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اور خاوند اور بيوى كے مابين جو فسخ نكاح ہو تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، نہ تو ايك اور نہ ہى اس كے بعد " انتہى ديكھيں: كتاب الام ( 5 / 199 ) ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں: " فسخ نكاح اور طلاق ميں فرق يہ ہے كہ اگرچہ ہر ايك سے خاوند اور بيوى ميں عليحدگى اور تفريق ہو جاتى ہے: فسخ يہ ہے كہ جب اس كے بعد خاوند اور بيوى دوبارہ نكاح كريں تو وہ پہلى عصمت پر ہيں، اور عورت اپنے خاوند كے پاس تين طلاق پر ہو گى ( يعنى خاوند كو تين طلاق كا حق ہوگا ) اور اگر اس نے فسخ نكاح سے قبل طلاق دى اور رجوع كر ليا تو اس كے پاس دو طلاقيں ہونگى " انتہى ديكھيں: الاستذكار ( 6 / 181 ) 5 ـ طلاق خاوند كا حق ہے، اس ميں قاضى كے فيصلہ كى شرط نہيں، اور بعض اوقات خاوند اور بيوى دونوں كى رضامندى سے ہوتى ہے. ليكن فسخ نكاح شرعى حكم يا پھر قاضى كے فيصلہ سے ہو گا، اور فسخ نكاح صرف خاوند اور بيوى كى رضامندى سے نہيں ہو سكتا، الا يہ كہ خلع كى صورت ميں. ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں: " دونوں ( يعنى خاوند اور بيوى ) كو بغير عوض ( يعنى خلع ) كے فسخ نكاح پر راضى ہونے كا حق حاصل نہيں، اس پر اتفاق ہے " انتہى ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 598 ). 6 ـ دخول سے قبل فسخ نكاح عورت كے ليے كوئى مہر واجب نہيں كرتا، ليكن دخول سے قبل طلاق ميں مقرر كردہ مہر كا نصف مہر واجب ہوتا ہے. ليكن خلع يہ ہے كہ عورت اپنے خاوند سے مطالبہ كرے كہ وہ مالى عوض يا پھر مہر سے دستبردار ہونے كے مقابلہ ميں اس سے عليحدگى اختيار كر لے.

Sunday 22 May 2022

کیکڑاکھاناکیساہے

حنفی مسلک کے اعتبار سے کیکڑا کھانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ مچھلی کے قبیل سے نہیں ہے، اور پانی کے جانوروں میں سے صرف مچھلی کا کھانا حلال ہے، جہاں تک اس کی بیع کی بات ہے تو کسی نفع کی غرض سے کیکڑے کی خریدو فروخت کر سکتے ہیں۔ ”ولا یحل حیوان مائي إلا السمک“ (الدر المختارمع الشامی: ۹/۴۴۴، ط: زکریا) احناف کے یہاں سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کھانا حلال ہے۔ کیکڑا چوں کہ مچھلی کی کسی قسم میں شامل نہیں، بلکہ کیکڑے کا شمار ہ دریائی کیڑوں میں ہوتا ہے،اس لیے کیکڑا کھانا مکروہِ تحریمی ہے، قرآنِ حکیم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے سمندری مخلوق کا ذکر فرمایا ہے وہ آیت یہ ہے: أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ[المائدۃ، 96] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سمندر کے شکار کو کھانے کی اجازت دی ہے، لیکن احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس آیت میں شکار سے مراد صرف مچھلی ہے، لہذا کیکڑے کے حلال ہونے کے لیے اس آیت کو پیش کرنا درست نہیں۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 35): {ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] والضفدع والسرطان والحية ونحوها من الخبائث

Friday 20 May 2022

مسجد گیان واپی بنارس

گیان واپی مسجد وارانسی، اتر پردیش، بھارت میں واقع ہے۔ مشہور ہے کہ اسے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے سترھویں صدی میں تعمیر کرایا تھا لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ بعض مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی، چنانچہ مخدوم شاہ طیب بنارسی کے احوال زندگی میں اس مسجد میں جمعہ ادا کرنا مرقوم ہے۔مرقع بنارس میں میں واضح طور پر یہ ثابت کیاہے کہ یہ مسجد ہمایوں بادشاہ کی پیدائش سے قبل بھی موجود تھی. اس مسجد کا سنہ تاسیس اور بانی ہنوز نامعلوم ہیں البتہ اورنگ زیب عالمگیر نے سنہ 1658ء میں اس کی تعمیر نو کرائی تھی۔چونکہ یہ گیان واپی محلہ میں واقع ہے اس لئے مسجد کانام یہ ہوگیا. سنسکرت میں گیان معنی علم اور واپی باؤلی کوکہتے ہیں. بعض ہندو مؤرخین کے مطابق اسے کاشی وشوناتھ مندر کے کھنڈر پر تعمیر کیا گیا ہے۔جس کاکوئی ثبوت تاریخی طور پر پیش نہیں کیاجاسکا. یہ مسجد دریائے گنگا کے کنارے دشاشومیدھ گھاٹ کے شمال میں للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے۔

Monday 16 May 2022

طلاق کاجھوٹااقراریاایکٹنگ کرنا

ایک شخص نے اپنی پہلی بیوی کوبتائے بغیردوسرانکاح کرلیاکچھ عرصہ بعد پہلی بیوی کواس نکاح کاعلم ہوگیا توپہلی بیوی نے اپنے شوہر سے اصرار کیاکہ وہ دوسری بیوی کو طلاق دیدے. شوہر نے دوسری بیوی کوپہلے ہی بتادیاتھا کہ میں تمہیں فون پرطلاق دینے کی ایکٹنگ کروں گا حقیقتاً طلاق نہیں دوں گا بلکہ پہلی بیوی کودھوکہ دینے کے لئے ایکٹنگ کروں گا اس سے قضاءً طلاق واقع ہو جائے گی. البتہ دیانتاً(فیمابینہ وبین اللہ) واقع نہیں ہوگی.اگراس پلاننگ پر وہ گواہ بھی بنالیتاتوقضاءًبھی طلاق واقع نہ ہوتی. کمافی الدر المختار وحاشية ابن عابدين : في الخانية، ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة. اهـ. ويأتي تمامه. (كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص : 236،الناشر: دار الفكر) وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق : لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا كذا في الخانية من الإكراه ومراده بعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة لما في فتح القدير ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء اهـ. وصرح في البزازية بأن له في الديانة إمساكها إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة واستثنى في القنية من الوقوع قضاء ما إذا شهد قبل ذلك لأن القاضي يتهمه في إرادته الكذب فإذا أشهد قبله زالت التهمة۔ (كتاب الطلاق، ج:3، ص264،الناشر: دار الكتاب الإسلامي) وفی الدر المختار مع حاشية ابن عابدين : المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. اهـ. (کتاب الطلاق ، باب الكنايات، ج:3، ص: 305،مط: سعید ) ایسے ہی اگر کسی شخص کا طلاق دینے کا بالکل قصد نہ ہو بلکہ محض بیوی کو ڈرانا یا دھمکانا مقصود ہو اور وہ فرضی طلاق نامہ بنوائے اور طلاق نامہ بنوانے سے پہلے اس بات پر دو گواہ بنالے کہ فرضی اور جھوٹا طلاق نامہ بنوانے جارہا ہے اور گواہوں کو بھی یہ معلوم ہو تو اس طرح جھوٹا طلاق نامہ بنوانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ قال: أنت طالق أو أنت حر وعنی الإخبار کذبًا وقع قضاء إلا إذا أشہد علی ذلک․ (الدر مع الرد: ۴/ ۵۲۲، ط: زکریا دیوبند) البتہ اگر گواہ بنائے بغیر طلاق نامہ تیار کرایا اور پھر دعوی کیا کہ وہ فرضی اور جھوٹا طلاق نامہ تھا تو اس کا دعوی معتبر نہ ہوگا اور طلاق نامہ میں صراحت کے مطابق بیوی پرقضاءً طلاق واقع ہوجائے گی۔

طلاق کی جھوٹی ایکٹنگ کرنےسے طلاق

اگر کسی شخص کا طلاق دینے کا بالکل قصد نہ ہو بلکہ محض بیوی کو ڈرانا یا دھمکانا مقصود ہو اور وہ فرضی طلاق نامہ بنوائے اور طلاق نامہ بنوانے سے پہلے اس بات پر دو گواہ بنالے کہ فرضی اور جھوٹا طلاق نامہ بنوانے جارہا ہے اور گواہوں کو بھی یہ معلوم ہو تو اس طرح جھوٹا طلاق نامہ بنوانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ قال: أنت طالق أو أنت حر وعنی الإخبار کذبًا وقع قضاء إلا إذا أشہد علی ذلک․ (الدر مع الرد: ۴/ ۵۲۲، ط: زکریا دیوبند) البتہ اگر گواہ بنائے بغیر طلاق نامہ تیار کرایا اور پھر دعوی کیا کہ وہ فرض اور جھوٹا طلاق نامہ تھا تو اس کا دعوی معتبر نہ ہوگا اور طلاق نامہ میں صراحت کے مطابق بیوی پرقضاءً طلاق واقع ہوجائے گی۔