https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 2 July 2024

خواب میں احتلام ہوا لیکن جگنے کے بعد ناپاکی کہیں نظر نہیں آتی تو غسل واجب ہے کہ نہیں

 سائل کو جب احتلام (خواب) یاد ہے لیکن سو کر اٹھنے کے بعدکپڑوں پرتری موجود نہیں ہے اور  نہ  ہی احتلام  کی کوئی علامت محسوس ہو تو سائل پاک  ہے اور اس پر غسل واجب نہیں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"اعلم أن هذه المسألة على أربعة عشر وجها؛ لأنه إما أن يعلم أنه مني أو مذي أو ودي أو شك في الأولين أو في الطرفين أو في الأخيرين أو في الثلاثة، وعلى كل إما أن يتذكر احتلاما أو لا فيجب الغسل اتفاقا في سبع صور منها وهي ما إذا علم أنه مذي، أو شك في الأولين أو في الطرفين أو في الأخيرين أو في الثلاثة مع تذكر الاحتلام فيها، أو علم أنه مني مطلقا، ولا يجب اتفاقا فيما إذا علم أنه ودي مطلقا، وفيما إذا علم أنه مذي أو شك في الأخيرين مع عدم تذكر الاحتلام؛ ويجب عندهما فيما إذا شك في الأولين أو في الطرفين أو في الثلاثة احتياطا، ولا يجب عند أبي يوسف للشك في وجود الموجب، واعلم أن صاحب البحر ذكر اثنتي عشرة صورة وزدت الشك في الثلاثة تذكر أولا أخذا من عبارته".

(کتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1، ص:163، ط:سعيد)  

سجدۂ سہو کی مختلف صورتیں

  

اگر رکوع کرنا بھول گیا اور سجدے میں یاد آئے تو رکوع کرے اور اس کے بعد دوبارہ سجدہ کرے ۔

 اور سجدہ میں چلا گیااور سجدہ میں یاد آیا کہ رکوع نہیں کیاتو سجدہ چھوڑ کر رکوع کر لیا پھر قومہ کیا اور پھر سجدہ کیا تو نماز ہوجائے اور آخر میں سجدہ سہو لازم ہوگااور رکوع میں جانے کے لیے تکبیر کہے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" و كذا إذا سجد في موضعو منها) رعاية الترتيب في فعل مكرر فلو ترك سجدة من ركعة فتذكرها في آخر الصلاة سجدها وسجد للسهو لترك الترتيب فيه وليس عليه إعادة ما قبلها ولو قدم الركوع على القراءة لزمه السجود لكن لا يعتد بالركوع فيفرض إعادته بعد القراءة، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الصلوۃ ، الباب الثانی عشر فی سجود السہو جلد۱ ص:۱۲۷ ط:دارالفکر)

اور اگر تکبیر نہیں پڑھی تو ہوجائے گی سجدہ سہو واجب نہ ہوگا کیوں کہ تکبیر کہنا سنت ہے۔

تیسری رکعت کا سجد کرکے امام بیٹھ گیا سجدۂ سہو واجب ہے کہ نہیں

 اگر امام ایک رکن (تین تسبیحات) کی ادائیگی کی مقدار بیٹھا ہو چاہے کچھ بھی نہ پڑھا ہو تو اس پر سجدہ سہو کرنا واجب ہوگا، اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو نماز وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی۔ اور اگر رکن کی ادائیگی کی مقدار بیٹھنے سے پہلے ہی کھڑا ہوگیا تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَ) اعْلَمْ أَنَّهُ (إذَا شَغَلَهُ ذَلِكَ) الشَّكُّ فَتَفَكَّرَ (قَدْرَ أَدَاءِ رُكْنٍ وَلَمْ يَشْتَغِلْ حَالَةَ الشَّكِّ بِقِرَاءَةٍ وَلَا تَسْبِيحٍ) ذَكَرَهُ فِي الذَّخِيرَةِ (وَجَبَ عَلَيْهِ سُجُودُ السَّهْوِ فِي) جَمِيعِ (صُوَرِ الشَّكِّ) سَوَاءٌ عَمِلَ بِالتَّحَرِّي أَوْ بَنَى عَلَى الْأَقَلِّ فَتْحٌ لِتَأْخِيرِ الرُّكْنِ، لَكِنْ فِي السِّرَاجِ أَنَّهُ يَسْجُدُ لِلسَّهْوِ فِي أَخْذِ الْأَقَلِّ مُطْلَقًا، وَفِي غَلَبَةِ الظَّنِّ إنْ تَفَكَّرَ قَدْرَ رُكْنٍ".

وتحته في الشامية:

"(قَوْلُهُ: وَاعْلَمْ إلَخْ) قَالَ فِي الْمُنْيَةِ وَشَرْحِهَا الصَّغِيرِ: ثُمَّ الْأَصْلُ فِي التَّفَكُّرِ أَنَّهُ إنْ مَنَعَهُ عَنْ أَدَاءِ رُكْنٍ كَقِرَاءَةِ آيَةٍ أَوْ ثَلَاثٍ أَوْ رُكُوعٍ أَوْ سُجُودٍ أَوْ عَنْ أَدَاءِ وَاجِبٍ كَالْقُعُودِ يَلْزَمُهُ السَّهْوُ لِاسْتِلْزَامِ ذَلِكَ تَرْكَ الْوَاجِبِ وَهُوَ الْإِتْيَانُ بِالرُّكْنِ أَوْ الْوَاجِبِ فِي مَحَلِّهِ، وَإِنْ لَمْ يَمْنَعْهُ عَنْ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ بِأَنْ كَانَ يُؤَدِّي الْأَرْكَانَ وَيَتَفَكَّرُ لَا يَلْزَمُهُ السَّهْوُ. وَقَالَ بَعْضُ الْمَشَايِخِ: إنْ مَنَعَهُ التَّفَكُّرُ عَنْ الْقِرَاءَةِ أَوْ عَنْ التَّسْبِيحِ يَجِبُ عَلَيْهِ سُجُودُ السَّهْوِ وَإِلَّا فَلَا، فَعَلَى هَذَا الْقَوْلِ لَوْ شَغَلَهُ عَنْ تَسْبِيحِ الرُّكُوعِ وَهُوَ رَاكِعٌ مَثَلًا يَلْزَمُهُ السُّجُودُ، وَعَلَى الْقَوْلِ الْأَوَّلِ لَا يَلْزَمُهُ وَهُوَ الْأَصَحُّ اهـ". (شامي، كتاب الصلوة، باب سجود السهو، ٢/ ٩٣)فقط

Monday 1 July 2024

کپڑوں پر زکوۃ

 واضح رہے کہ جو کپڑےپہننے کی نیت سے خریدے ہوں یا تحفے میں ملے ہوں وغیرہ، ایسے کپڑوں پر زکات واجب نہیں ہے، خواہ یہ کپڑے سِلے ہوئے ہوں یا بغیرسلائے کےہوں،البتہ جو کپڑے تجارت کی نیت سے خریدے گیےہوں تو   صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں  سال مکمل ہونے پر ایسے کپڑوں کی قیمتِ فروخت معلوم کرکے ان کی زکات ادا کرنا واجب ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

‌"(قوله: وفارغ عن حاجته الأصلية) أشار إلى أنه معطوف على قوله عن دين (قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب ‌والثياب ‌المحتاج ‌إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين." 

(كتاب الزكاة، ج:2 ص:226 ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"‌وشرط ‌فراغه عن الدين؛ لأنه معه مشغول بحاجته الأصلية."

(كتاب الزكاة، شروط وجوب الزكاة، ج:2 ص: 219 ط: دار الكتاب الإسلامي)

نیے مکان کی بنیادرکھنے پر مٹھائی تقسیم کرنا یا دعوت کرنا کیسا ہے

 اگرنئے مکان کی بنیاد کے موقع پر خیر و برکت کے لیے کھانے کی دعوت اورمٹھائی وغیرہ کی تقسیم بطوراظھار  نعمت وشکر خداوندی کردیاجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔بلکہ بعض فقہاء نے اسے مستحب لکھا ہے۔

الكافي  لابن قدامہ المقدسی میں ہے:

"فأما سائر الدعوات غير الوليمة، كدعوة الختان، وتسمى: الأعذار، والعذيرة، والخرس والخرسة عند الولادة. والوكيرة: دعوة البناء. والنقيعة: لقدوم الغائب. والحذاق: عند حذق الصبي. والمأدبة: اسم لكل دعوة لسبب كانت أو لغير سبب، ففعلها مستحب، لما فيه من إطعام الطعام وإظهار النعمة، ولا تجب الإجابة إليها، لما روي «عن عثمان بن أبي العاص أنه دعي إلى ختان فأبى أن يجيب، وقال: إنا كنا لا نأتي الختان على عهد رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، ولا يدعى إليه» . رواه الإمام أحمد. وتستحب."

الكافي في فقه الإمام أحمد لابن قدامہ المقدسی: (80/3، ط: دار الکتب العلمیہ)

ساس کوزکات دینا

 اگر   ساس  مستحقِ زکاۃ ہو تو اسے   صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔ مستحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کےپاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا   اس مالیت کا ضروریاتِ اصلیہ سے زائد کسی قسم کا ما ل  /سامان موجود نہ ہو  اور  وہ سید بھی نہ ہو۔

بدائع الصنائع  میں ہے :

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

(كتاب الزكاۃ، ج: 2 ص: 50، ط :

دوكان کی زکوٰۃ کیسے دیں

 نفسِ  دوکان پر زکات کے وجوب  اور عدمِ  وجوب کا تعلق اس بات سے ہے کہ اگر دوکان کی خریداری اسے آگے فروخت کرنے کی نیت سے کی گئی ہو تو اس صورت میں ہر سال اس کی موجودہ ویلیو معلوم کرکے اس ویلیو کو مالِ  نصاب میں شامل کیا جائے گا، اور کل کا چالیسواں حصہ بطورِ  زکات دیا جائے گا، البتہ اگر ایسی دوکان کرایہ پر اٹھادی گئی ہو تو اس صورت میں دوکان کی ویلیو پر زکات واجب نہ ہوگی، تاہم  اس کے کرایہ  پر زکات اس وقت واجب ہوگی جب کہ کرایہ خرچ نہ ہوتا ہو، محفوظ رہتا ہو، یا اس کا کچھ حصہ زکات کا سال پورا ہونے پر موجود ہو اور وہ ضرورت سے زائد ہو۔ پس زکات کا سال مکمل ہونے پر کل محفوظ کرایہ  مال نصاب میں شامل کرکے زکات کا حساب کیا جائے گا۔

اور اگر دوکان فروخت کرنے کی نیت سے بھی نہیں لی، یا فروخت کرنے کی نیت سے لی تھی لیکن اب نیت بیچنے کی نہیں ہے، اور دکان کرائے پر بھی نہیں دی تو اس دوکان کی مالیت پر بھی زکات واجب نہیں ہوگی۔

البتہ اگر  آپ کے سوال کا تعلق دوکان میں موجود تجارتی مال کی زکات کے حساب کا  طریقہ معلوم کرنے  سے ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ زکات کا سال مکمل ہونے پر دوکان میں موجود کل مالِ  تجارت کی قیمتِ  فروخت کو بنیاد بناکر کل مالیت کا چالیسواں  حصہ یعنی کل کا ڈھائی  فیصد بطورِ  زکات ادا کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. قال المحقق: وفي المحيط: ويعتبر يوم الأداء بالإجماع، وهو الأصح، فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليها عنده وعندهما".

(كتاب الزكاة،  باب زكاة الغنم:٢/ ٢٨٦  

Sunday 30 June 2024

مال تجارت میں زکوٰۃ قیمت خرید پر ہے یاقیمت فروخت پر

 تجارتی مال کی زکاۃ  ادا کرنے میں قیمتِ خرید کا اعتبار  نہیں ہے، بلکہ  قیمتِ فروخت کا اعتبار ہے،  یعنی زکاۃ نکالتے  وقت بازار میں  سامان کو فروخت کرنے کی جو قیمت ہے اسی قیمت سے ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے؛

''(وجاز دفع القیمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق)، وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعاً، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه، ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح''.

(2/286، باب زکاۃ الغنم، ط:سعید)فقط 

اسٹاک میں موجود یونیفارم پر زکوۃ

 اسٹاک میں موجود   یونیفارم  خود یا دیگر قابل زکات  مال کے ساتھ  مل کر نصاب  (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے بقدر  ہوں تو  ان کی قیمتِ فروخت کے حساب سے  ان کی زکات واجب ہوگی،لہذا اس کو اپنے  دیگر قابلِ زکات مال (سونا، چاندی، نقدی اور مال تجارت) میں شامل کرکے کل ویلیو کا  ڈھائی فیصد  زکات دیں۔

حاصل یہ ہے کہ جو سامان صاحبِ  نصاب شخص کے پاس فروخت کے لیے موجود ہو اور  زکات کی ادائیگی کا دن آجائے تو اس دن بازارمیں اس سامان کی جو قیمتِ فروخت بنے گی،  اس قیمت  کے حساب سے اس کی زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و تعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. قال المحقق: وفي المحيط: ويعتبر يوم الأداء بالإجماع، و هو الأصح، فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقًا عليها عنده و عندهما."

(ردالمحتار ، باب زكاة الغنم:٢/ ٢٨٦  سعيد)

بینک میں بطور ضمانت رکھے ہوۓ زیور پر زکوۃ

 سودی معاملہ اور سودی لین دین پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں ،اور سودی لین دین قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے،نیز اسلام میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز ہے اور احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ اس لیے سودی معاہدہ کرنااور سود کی بنیاد پر قرضہ لینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص بینک سے قرض لیتا ہے تو نفسِ قرض کی رقم  حرام نہیں کہلائے گی ، البتہ اس کامعاہدہ اور سود دینے کا عمل  ناجائز وحرام ہوگا۔

ضمانت پر رکھی ہوئی چیز کو شریعت کی اصطلاح میں رہن کہا جاتا ہے اور اس پر زکات کا حکم یہ ہے  گروی (رہن) رکھے ہوئے اشیاء کی زکات   نہ تو راہن کے ذمہ واجب ہوتی ہے اور نہ ہی مرتہن کے ذمہ پر، کیوں کہ زکات   کے وجوب کے لیے مالِ زکات   کی ملکیت اور اس مال پر قبضہ دونوں  شرط ہے، جب کہ راہن (گروی رکھوانے والے) کو  گروی رکھے ہوئے اشیاء  پر قبضہ اور تصرف کا اختیار حاصل نہیں ہوتا،  جب کہ مرتہن (جس کے پاس  گروی رکھاہو) کو گروی کے اشیاء  کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔

لہذا میں بینک میں قرض کے بدلہ بطور ِ ضمانت رکھے گئے زیورات پر زکات لازم نہیں ہوگی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج۔۔۔۔۔۔ولا على الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن هكذا في البحر الرائق".

(کتاب الزکات،ج:1،ص:172،دارالفکر)

کمپنی کےشیئرز پر زکوۃ

  شیئرز اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہے ، بلکہ اس کی پشت میں جو املاک اور اثاثے ہیں وہ اصل چیز ہے،لہذا شیئرز کمپنی کے اثاثوں(زمین ،مشینری اور رامیٹیریل وغیرہ)میں شرکت کو کہتے ہیں،  اگر تجارت کی نیت سے شئیرز خریدے ہیں یعنی شیئرز کی خرید وفروخت مقصود ہےتو شیئرز کی کل قیمت پر زکاۃ واجب ہوگی،اوراگر تجارت کی نیت سے نہیں خریدے ہیں تو صرف اس مقدار پر زکاۃ واجب ہوگی جو تجارت میں لگی ہوئی ہے،کارخانہ کی مشینری اور مکان پر جو رقم خرچ ہوئی ہے اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی، تاہم شیئرز کی زکاۃ موجودہ (مارکیٹ) قیمت کے اعتبار سے ادا کی جائے گی ، مثلاً خریدتے وقت شیئرز کی قیمت سو(100) روپے تھی اور جب سال پورا ہوا تو اس وقت شیئرز کی قیمت دوسو (200) روپے ہوگئی تو فی شیئرز میں دوسو(200) روپے کے حساب سے ڈھائی فی صد زکاۃ دی جائے گی۔ 

بدائع الصنائع میں ہے۔

"عند أبي حنيفة في الزيادة والنقصان جميعا يؤدي ‌قيمتها يوم الحول."

(کتاب الزکوۃ،فصل صفة الواجب فی اموال التجارۃ،ج2،ص،21،ط،دارالکتب العلمیة)

فتح القدیر میں ہے:

"الزكاة واجبة ‌في ‌عروض ‌التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق أو الذهب) لقوله - عليه الصلاة والسلام - فيها «يقومها فيؤدي من كل مائتي درهم خمسة دراهم»."

(‌‌كتاب الزكاة، ‌‌باب زكاة المال ‌‌، ‌‌فصل في العروض، ج: 2، ص:218، ط:دار الفكر

پلاٹ پر زکوۃ

 جب  پلاٹ ذاتی گھر بنانے کی غرض سے  لیا ہو تو پھر  ادا شدہ قسطوں پر یا پلاٹ پر زکوۃ واجب نہیں۔

الدر المختار میں ہے:

’’(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية)؛ لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه أو تقديراً كدينه (نام ولو تقديراً) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه (فلا زكاة على مكاتب) ... (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة.

 (قوله: نام ولو تقديراً) النماء في اللغة بالمد: الزيادة، والقصر بالهمز خطأ، يقال: نما المال ينمي نماء وينمو نموا وأنماه الله تعالى، كذا في المغرب. وفي الشرع: هو نوعان: حقيقي وتقديري؛ فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو يد نائبه، بحر‘‘.

(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، 259/2، 

زکوٰۃ پیشگی ادا کرنا

  اگر صاحب نصاب آدمی آئندہ سال کی زکوۃ پیشگی ادا کرنا چاہے تو ادا کرسکتا ہے، البتہ رقم دینے سے پہلے یا دیتے وقت زکاۃ کی نیت کرنا ضروری ہے، بعد میں نیت کا اعتبار نہیں ہےاور زکوۃ ادا کرتے وقت زکوۃ کی مقدار اپنے پاس نوٹ کرلی جائے  اور آئندہ سال جب سال پورا ہو تو حساب کر لیں کہ اس کے پاس جتنا مال موجود ہے اس کی زکوۃ کی واجب مقدار ادا ہوگئی ہے یا کچھ باقی  ہے، اگر اس وقت زکوۃ کی مقدار زیادہ بن رہی ہے اور پہلے کم ادا کی گئی ہے تو جو رقم باقی ہے اس کی زکوۃ بھی ادا کرنی ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو عجل ذو نصاب) زكاته (لسنين أو لنصب صح) لوجود السبب

(قوله: ولو عجل ذو نصاب) قيد بكونه ذا نصاب؛ لأنه لو ملك أقل منه فعجل خمسة عن مائتين ثم تم الحول على مائتين لا يجوز."

(کتاب الزکوۃ , باب زکوۃ الغنم جلد 2 ص: 293 ط: دارالفکر)